Friday, September 30, 2022

آفتاب نبوت

 

آفتاب نبوت

ازقلم: مفتی  محمد عبد اللہ عزرائیل قاسمی، جامعہ اسلامیہ بر موتر مرزاپور مدہوبنی بہار

 ماہِ ربیع الاوّل  اِسلامی کیلنڈر کاتیسرا رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے، اِسی ماہِ مبارک میں  رحمت للعالمین، نبی خاتم النبین‘شفیع المذنبین ،امام الانبیاء، نبی رحمت ﷺکی ولادت باسعادت  ہوئی ،آپ کی ولادت اﷲ تبارک وتعالیٰ کی تمام نعمتوں سے بڑی نعمت ہے۔

تاریخ ولادت:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالے سے مؤرخین اور سیرت نگاروں  کی آراء مختلف ہیں، مشہور یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول کو پیدائش ہوئی، البتہ محققین علماءِ کرام کے دو قول ہیں، 8 ربیع الاول یا 9 ربیع الاول، بعض نے ایک کو ترجیح دی ہے، بعض نے دوسرے کو۔ راجح قول کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 8 ربیع الاول بمطابق 20 یا 22 اپریل 571 عیسوی کو ہوئی، (اپریل کی تاریخ کا اختلاف عیسوی تقویم کے اختلاف کا نتیجہ ہے)۔(فتاویٰ بنوری، نیٹ )

علامہ شبلی نعمانیؒ نے’ سیرت النبی‘ میں مصر کے مشہور ہیئت دان محمود پاشا فلکی کی تحقیقات کے پیش نظر 9 ربیع الاول 20 اپریل 571 ء کو ترجیح دی ہے ۔ قاضی محمد سلیمان منصور پوری ؒ نے اپنی کتاب رحمت للعالمین 40:1 میں آپؐ کی پیدائش 9 ربیع الاول ، عام الفیل / 22 اپریل 571 ء / یکم جیٹھ 628 بکرمی قرار دی ہے ۔ جبکہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ  حیدر آبادی ؒکی تحقیق کے مطابق عیسوی تاریخ 17 جون 569 ء تھی۔

نسب نامہ:

مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ بْنِ هَاشِمِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ قُصَيِّ بْنِ كِلاَبِ بْنِ مُرَّةَ بْنِ كَعبِ بْنِ لؤَيِّ بْنِ غالِبِ بْنِ فِهْرِ بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّضْرِ بْنِ كِنَانَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ مُدْرِكَةَ بْنِ إِلْيَاسَ بْنِ مُضَرَ بْنِ نِزَارِ بْنِ مَعَدِّ بْنِ عَدْنَانَ، ( بخاری ، کتاب مناقب الانصار، باب مبعث النبی ،)

پیدائش کی ابتدائی احوال:

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ علیہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے سلسلے میں کرامات بے شمار ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں کہ ایوان کسریٰ لرز اٹھا اور اس کے چودہ کنگرے گر گئے اور دریائے سادہ خشک ہو گیا اور اس کا پانی زیر زمین چلا گیا اور رود خانہ سادہ جسے وادی سادہ کہتے ہیں جاری ہو گیا حالانکہ اس سے قبل اسے منقتع ہوئے ایک ہزار سال گزر چکا تھا اور فارسیوں کا آتشگدہ بجھ گیا جو کہ ایک ہزار سال سے گرم تھا۔(مدارج النبوۃ ج: ۲ ص ۲۷)

حلیہ مبارک:

آپ ﷺپر کشش رنگت،دلنشیں آنکھیں،خوبصورت آبرو،چمکدار دندان مبارک،خوبصورت ستواں ناک،حسین رخسار اور پر نور پیشانی والے تھے، آپ ﷺ کی حلیہ مبارک کو مختلف صحابہ کرام نےبیان کیا ہے ،حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے ایک تفصیلی روایت ہند بن ابی ہالہ سےکیا ہے، جس کو امام ترمذیؒ نے شمائل ترمذی میں نقل ہے :

حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے (آپ ﷺ کے حلیہ مبارک کے متعلق دریافت کیا (کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کو بڑی کثرت اور وضاحت سے بیان کیا کرتے تھے، اور میں چاہتا تھا کہ وہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے اوصاف بتا دیں جن کو میں اپنے دل میں بٹھا لوں، تو وہ کہنے لگے کہآپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت عظیم اور باوقار شخصیت کے مالک تھے، چودھویں رات کے چاند کی طرح آپ کا چہرہ مبارک چمکتا تھا، قد مبارک عام درمیانے قد سے کچھ لمبا اور بہت لمبے قد سے تھوڑا کم تھا، سر مبارک (اعتدال کے ساتھ) بڑا تھا، بال مبارک کچھ گھنگھریالے تھے، پیشانی کے بال اگر کھل جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مانگ نکال لیتے ورنہ آپ کے بال جب وفرہ ہوتے تو کانوں کی لو سے زیادہ لمبے نہ ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چمکدار روشن رنگ والے کے تھے، پیشانی وسیع اور کشادہ تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لمبی، باریک خمدار پلکوں والے تھے جو پوری اور کامل تھیں، ان کے کنارے آپس میں ملے ہوئے نہیں تھے، ان کے درمیان ایک رگ جو غصے کے وقت خون سے بھر کر اوپر ابھر آتی تھی، یہ درمیان سے محدب تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناک کا بانسہ باریک اور لمبا اس کے اوپر اونچا نور دکھائی دیتا، جس نے غور سے نہ دیکھا ہوتا وہ خیال کرتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناک مبارک درمیان سے اونچی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھنی داڑھی والے اور کشادہ و ہموار رخساروں والے تھے، دانت مبارک کھلے اور کشادہ تھے، سینے کے بال ناف تک باریک لکیر کی طرح تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک صاف چاندی کی طرح خوبصورت منقش مورتی کی گردن جیسی تھی، درمیانی اور معتدل خلقت والے تھے، مضبوط اور متوازن جسم والے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ اور پیٹ برابر اور ہموار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک کشادہ تھا، دونوں کندھوں کے درمیان کچھ دوری اور فرق تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہڈیوں کے جوڑ موٹے اور گوشت سے پر تھے، جسم کا وہ حصہ جو کپڑے سے یا بالوں سے ننگا ہوتا وہ روشن اور چمکدار تھا سینے کے اوپر ناف تک ایک لکیر کی طرح بال ملے ہوئے تھے، چھاتی اور پیٹ بالوں سے خالی تھے، دونوں بازوؤں، کندھوں اور سینہ کے بالائی حصہ پر بال تھے، کلائیوں اور پنڈلیوں کی ہڈیان لمبی تھیں اور ہتھیلیاں کشادہ تھیں، ہاتھ اور پاؤں کی ہڈیاں موٹی اور مضبوط تھیں، انگلیاں لمبی اور پاؤں کے تلوے قدرے گہرے تھے، قدم ہموار اور اتنے نرم و نازک کہ ان پر پانی نہ ٹھہرتا تھا، چلتے تو قوت کے ساتھ آگے کی جانب جھک کر چلتے، بڑے سکون اور وقار کے ساتھ تیز تیز چلتے، چلتے ہوئے معلوم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلندی سے نشیب کی طرف اتر رہے ہیں، اور جس کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو یکبارگی متوجہ ہوتے، نظر جھکا کر چلتے۔(شمائل ترمذی)

حضرت حسان بن ثابت رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کَہتے ہیں:

                                                                                                                        "واحسن منک لم ترقط عینی

واجمل منک لم تلد النساء"

یعنی آپ سے زیادہ حسین آج تک میری آنکھوں نے دیکھا ہی نہیں، اور آپ سے زیادہ  جمال والا آج تک کسی ماں نے جنم ہی نہیں دیا-

یا صاحب الجمال و یا سید البشر

من وجه المنیر لقد نور القمر

لا یمکن الثناء کما کان حقہ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

آپ کا اخلاق عظیمہ:

آپﷺ کے اخلاق کریمانہ کی مثال پیش کرنا یا اس کو الفاظ کی لڑی میں پڑونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، ایک مرتبہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے لوگوں نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق کریمانہ کیا تھا ؟ حضرت صدیقہ رضی رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ:

کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ (مسند احمد،ح:25108 )

کہ ’’آپ کا خلق قرآن تھا‘‘ یعنی حق تعالیٰ نےقرآن میں جس چیز کی  اچھا ئی ذکر فرمایا ہے اس چیز کوآپ کی طبیعت چاہتی تھی اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں برائی سے یاد کیا ہے اس سے آپ کی طبیعت کو نفرت تھی۔

حضرت  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ "(سنن کبریٰ  ح: 20782۔)

 یعنی ’’میں اس واسطے مبعوث ہوا ہوں کہ پہلے  تمام انبیاء و رسل کی بزرگی اور اچھائیوں کو پورا کروں۔‘‘

آپ ﷺ اخلاق کے آخری درجہ پر فائز تھے، اس  سےآگے کوئی منزل ہی نہیں تھی ، اور نہ اس سے زیادہ کسی بشر کی طاقت تھی ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ ، (القلم ، )

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں،،۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اخلاق درجہ انتہاء کو پہونچی ہوئی تھی ، خواہ وہ خلق صدق ہو، خلق صبر ہو، خلق حیاء ہو، خلق احسان ہو، خلق احصان ہو (پاک دامنی) خلق امانت داری ہو خلق دیانت داری ہو۔ خلق وفائے عہد ہو، خلق شکر ہو خلق عفو ہو، خلق عدل و انصاف ہو، خلق تواضع و انکساری ہو، خلق حلم و بردباری ہو، خلق رحم و مہربانی ہو، خلق سخاوت و جودو کرم ہو، خلق شجاعت و بہادری ہو، خلق ایثار و بے نفسی ہو، خلق حق گوئی اور صاف گوئی ہو، خلق اعتدال و توازن ہو اور خلق رفق ونرمی ہو،ان کے علاوہ اور بھی جوحسن اخلاق  ہیں یا ہو سکتے ہیں وہ آپ  ﷺ کی زندگی مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھیں ۔

رحلت :

بعض حضرات کا کہنا ہے کہ آپ ﷺ کی وفات بھی بارہ ربیع  الاول کوہوئی ہے ، لیکن بارہ ۱۲/ربیع الاول کو تاریخِ وفات کہناصحیح نہیں ہے؛ اس لیے کہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پیرکے دن ہوئی، اور صحیح بخاری ہی کی روایت میں منقول ہے کہ حجة الوداع کے موقع پر عرفہ کا دن جمعہ کا دن تھا، اور ایک روایت سے معلوم ہوتاہے کہ عرفہ کے اکیاسی(۸۱)دن کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔اس حساب سے ۱۲/ربیع الاول کو پیرکادن کسی طرح نہیں پڑتاہے،اسی وجہ سے علامہ ابن حجرعسقلانی  کی رائے  ہےکہ آپ کی وفات دو(۲)ربیع الاول بروزپیر کو ہوئی۔

علامہ سہیلی نے روض الانف میں، علامہ تقی الدین ابن تیمیہ نے منہاج السنة میں، علامہ شبلی نعمانی سیرت النبی میں یکم/ربیع الاول لکھا ہے۔ اور علامہ مغلطائی، علامہ ابن حجرعسقلانی نے فتح الباری میں، شیخ محمدبن عمر بحرقی حضرمی شافعینے حدائق الانوارمیں، حضرت مفتی محمد شفیع  نے سیرت خاتم الانبیاء میں لکھاہے۔ تاریخ وفات میں مشہور یہ ہے کہ ۱۲/ربیع الاول کو واقع ہوئی اور یہی جمہور مورخین لکھتے چلے آئے ہیں؛لیکن حساب کے اعتبار سے یہ تاریخ وفات نہیں ہوسکتی ہے؛ کیوں کہ یہ بھی متفق علیہ اور یقینی امر ہے کہ وفات دوشنبہ کو ہوئی اور یہ بھی یقینی ہے کہ آپ کا حج۹/ ذی الحجہ روزجمعہ کو ہواان دونوں باتوں کے ملانے سے ۱۲/ربیع الاول روز دوشنبہ میں نہیں پڑتی؛ اسی لیے حافظ ابن حجرنے شرح صحیح بخاری میں طویل بحث کے بعد اس کو صحیح قرار دیاہے کہ تاریخ وفات دوسری ربیع الاوّل ہے، کتابت کی غلطی سے ۲ کا ۱۲ بن گیا۔ حافظ مغلطائینے بھی دوسری تاریخ کو ترجیح دی ہے۔

خلاصہ کلام ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال دوم/ربیع الاول۱۱ ہجری مطابق ۲۸/مئی ۶۳۲ء     کو ہوا۔واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب․

اس  احساس اور حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے قلم کو روک رہا  ہوں :

زندگیاں بیت گئیں اور قلم ٹوٹ گئے

تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوا

نئے مضامین 

1:۔شاتم رسول

2:۔قیمتی باتیں

mdabdullahqasmi@gmail.com

 

 

Friday, September 2, 2022

شاتم رسول

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شاتم رسول

ازقلم : مفتی محمد عبد اللہ عزرائیل قاسمی استاذ جامعہ اسلامیہ، برموتر مدہوبنی ،بہار

سیّد الاولین وآلاخرین،خاتم النبیین ، شفیع المذنبین ، رحمۃ للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہنسی اڑانا،یا ان کی سیرت و زندگی کے کسی گوشے کے بارے میں استہزائیہ انداز اختیا رکرنا، یا ان کی کسی قسم کی توہین و تنقیص کرنایا ان کی شان میں گستاخی کرنا موجب کفرہے،ایسےلوگوں کی دینا و آخرت دونوں برباد ہے ۔آپ ﷺ کی شان میں ذرہ برابر فرق نہیں آسکتا ہے ۔ارشاد باری ہے :

ورفعنا لک ذکرک ﴿ الم نشرح لک ،ت:1

 ہم نے تمہارے لئے تمہارا ذکر بلند کیا،

فانوس بن کرجس کی حفاظت خدا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت کو خود اللہ رب العزت نے بلند کیا ہے اورگستاخ رسول کو قرآن حکیم نے جگہ جگہ دندان شکن جواب دیا ہے، ولید بن مغیرہ نے آپ کو معاذاللہ مجنوں پاگل کہا کہ اللہ نے ولید جہنمی کو جواب ہی نہیں؛ بلکہ اس کے دس عیوب ذکر کرتے ہوئے خوب مذمت کی،  ارشاد باری ہے:

اور کسی بھی ایسے شخص کی باتوں میں نہ آنا جو بہت قسمیں کھانے والا، بےوقعت شخص ہے۔طعنے دینے کا عادی ہے، چغلیاں لگاتا پھرتا ہے۔بھلائی سے روکنے والا، زیادتی کرنے والا، بد عمل ہے۔بد مزاج ہے اور اس کے علاوہ

 نچلے نسب والا بھی۔(القلم،)

جب مشرکین نے آپ کوشاعر  کہا،اس کےجواب میں ارشادباری ہوا:

وَ مَا عَلَّمْنٰهُ الشِّعْرَ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لَه (     یسن ،ت:69    )

اور ہم نے ان کو شعر کہنا نہ سکھایا اور نہ وہ ان کی شان کے لائق ہے ۔

ابو لہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ''الهذا جمعتنا تبا لك ''( ترمذی، ح: 3363۔)کہکر گستاخی کی تو قرآن حکیم میں مکمل سورہ نازل ہوا:

تَبَّتْ يَدَآ اَبِىْ لَـهَبٍ وَّتَبَّ ۔۔۔۔ ( اللہب ، ت:1 )

ہاتھ ابولہب کے برباد ہوں، اور وہ خود برباد ہوچکا ہے۔اس کی دولت اور اس نے جو کمائی کی تھی وہ اس کے کچھ کام نہیں آئی۔وہ بھڑکتے شعلوں والی آگ میں داخل ہوگا۔

جب آپ ﷺ کو ساحر کہا تو ارشاد باری ہوا:

فَذَكِّرْ فَمَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّ لَا مَجْنُوْنٍؕ  (۲۹)

تو اے محبوب تم نصیحت فرماؤ کہ تم اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہو نہ مجنون ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مشرکین مکہ کو ابتر مقطوع النسل ہونے کا طعنہ دیا،اس پر اللہ تعالی  نے مکمل سورہ نازل فرمایا آپ کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا یہی کافی لوگ ابتر ہے، ارشاد باری ہے:

إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ  ( الکوثر ،  ت:1 )

یقین جانو تمہارا دشمن ہی وہ ہے جس کی جڑ کٹی ہوئی ہے۔

یہ تو زمانے ماضی کی بات تھی زمانے حال میں بھی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں آئے دن ملحد و زندیق گستاخی کرتے رہتے  ہیں جب کہ  یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اس سے رتی برابر  آپ کی ذات اقدس اور علوم مقام میں فرق نہیں آسکتا، آپ کی شان اللہ نے بہت بلند کر دیا ہے، آپ کی شان اتنی بلندی پر ہے کہ اگر کوئی آپ کی برائی کرنا بھی چاہے تو برائی ہو ہی نہیں سکتی ؛کیونکہ آپ کا نام ہی محمد (تعریف کیا گیا)ہے ۔

گستاخ خودہی اپنی دنیا و آخرت برباد کر رہا ہے، آخرت توتو برباد ہے ہی اس میں کوئی شک و شبہ نہیں، دنیا بھی ان نالائقوں کی برباد ہے،تاریخ کی کتابوں میں ایسے کئی جہنمی کے واقعات موجود ہیں کہ اللہ تعالی نےان کو دنیا میں عبرت ناک انجام دیا ہے۔ارشاد باری ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا( الاحزاب ، ت:57)

ترجمہ: جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں اللہ نے دنیا اور آخرت میں ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے ایسا عذاب تیار کر رکھا ہے جو ذلیل کر کے رکھ دے گا۔

شاتم رسول کی سزا

شاتم رسول کسی مسلم ملک میں رہتاہوتو اس کو قتل کرنا مسلمانوں کی حکومت پر واجب ہے اور مشہور قول میں اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ اور جو اس کے کفر میں شک کرتاہے وہ بھی کافر ہے، یہی ائمہ اربعہ کا مذہب ہے اور اسی پر امت کا اجماع ہے۔اور اگر جمہوری ملک میں رہتا ہوتو پھر آئین کے تحت حکومت سے پر زور انداز میں مطالبہ کرے کہ وہ شاتم رسول کوزبردست سزا دیکر ملک میں امن امان  اور گنگا جمنی تہذیب کو بحال رکھے ۔

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ ؒ  فرماتے ہیں :

’’ان من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم من مسلم او کافر فانہ یجب قتلہ ھذا مذھب علیہ عامۃ اھل العلم ۔قال ابن المنذر: أجمع عوام أھل العلم علی أن حد من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، القتل ، وممن قالہ مالک واللیث واحمد واسحق وھو مذھب الشافعی ۔۔۔۔وقد حکی ابوبکر الفارسی من اصحاب الشافعی اجماع المسلمین علی ان حد من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم القتل‘‘۔(الصارم المسلول علی شاتم الرسول ، المسئلۃ الاولی : ص: 3،4۔ )

ترجمہ : جو آدمی خواہ مسلمان ہو یا کافر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے اس کو قتل کرنا واجب ہے، اسی مذہب پر عام اہل علم ہیں۔ ابن منذر نے فرمایا کہ عام اہل علم کا اجماع ہے کہ جو آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے، اس کی حد قتل کرنا ہے اور جن حضرات نے یہ کہا ہے ان میں سے امام مالک، امام لیث، امام احمد، امام اسحق ہیں اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے…… اور ابوبکر فارسی نے اصحابِ امام شافعی سے مسلمانوں کا اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حد قتل ہے۔

آخر میں اپنے تمام قارئین کرام سے التجا کریں گے آپ جس مقام پر بھی ہوں جس ماحول میں ہوں سیرت نبوی کو عام کریں غیرمسلموں تک حسب استطاعت سیرت نبوی کو پہنچائیں جو ان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوچکی ہیں اس کو دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔

اللھم انا نجعلک فی نحورھم ونعوذبک من شرورھم ۔


Saturday, July 3, 2021

میراگاؤں

جمیلا میپ    ،  Jamaila

میراگاؤں میری جان

جمیلا ، ( Jamaila जमीला)

                                                                          یہ ایک چھوٹا سا ، سندر ،خوبصورت، اور دلفریب و دلکش ایک گاؤں ہے،جو قدیم تاریخی

 شان کا حامل ہے ، یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ گاؤں اور  دیہات میں حسن و فطرت کی فروانی ہوتی ہے۔ جہاں فطرت اپنے اصلی روپ میں نظر آتاہے۔ ایک مقولہ  مشہور ہے"دیہات خدا نے بنائے اور شہر انسان نے"خاص طور سے گاؤں کے صبح وشام کے مناظر قابلِ دید اور قابل رشک ہوتے ہیں۔ یہ مناظر اس قدر پر کشش اوردلفریب ہوتے ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ انسان دیکھتا ہی رہے۔عام طور پر اور خاص طور پرگاؤں کا ماحول اور اس کی آب و ہوا صاف ستھری ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دیہات میں بیماریاں کم ہوتی ہیں۔

میں اپنے آپ کوبڑا خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ میں نے بھی ''جمیلا'' جیسے گاؤں کے اس صاف وشفاف اور قدرتی خوبصورت سے ماحول میں آنکھیں کھولیں۔ جہاں لہلہاتے ہوئے کھیت، ہرے بھرے سایہ دار درخت، کھلی فضا اور تازہ ہوا گاؤں والوں کے لیے قدرت کا بہت بڑا عطیہ ہے۔ اسی دیہاتی تہذیب و تمدن ، صاف شفاف  کھلی فضا ،تازہ ہوااور قدرتی مناظرکے پیش نظر آپ ﷺ کی ولادت کے وقت عرب میں یہ رواج تھا کہ پیدائش کے بعد اپنے دودھ پیتے بچے کو اچھی تربیت اور پرورش کے لئے صحرا یا دیہات میں دایہ کے حوالے کر دیتے تھے تاکہ بچے باہر کی کھلی اور صحت بخش ہوا میں پرورش پاسکیں۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ کو بھی قبیلہ بنی سعد کی ایک شریف و معززخاتون حضرت دائی حلیمہ سعدیہ کے سپرد کر دیا گیا۔

میرے گاؤں کے لوگ

        کسی نے کہا:کھیت میں ہل چلنے سے جو لکیر بنتی ہے اگر اس کا سرا ڈھونڈنے لگیں تو نہیں ملتا۔ اس کے ساتھ ساتھ چلیں تو گھوم پھر کر انسان وہیں آ پہنچتا ہے جہاں سے چلا تھا۔ الگ الگ نظر آنے والی سب لکیریں بظاہر ایک ہی نظر آتی ہیں،کہیں کہیں ایک دوسرے کا ٹری ہوئی دو لکیروں سے اچانک ایک تیسری لکیر بن جاتی ہے اور یہ لکیربھی گھوم گھام کر پہلے والی لکیروں میں گم ہو جاتی ہے،گویا سب لکیریں الگ الگ ہونے کے باوجودالجھے ہوئے،اور الجھے ہوئےہونے کے باوجودالگ الگ نظر آتی ہیں ۔

میرے گاؤں کے لوگ بھی ان لکیروں جیسے تھے ۔ سادہ، الجھے ہوئے ، الگ الگ مگرایک دوسرے سے ملے ہوئے ، ملے ہوئے مگر ایک دوسرے سے بظاہرالگ الگ۔

پیار کا بیج ڈالو تو كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-   کی طرح :ایک بیج سے ایک پودا، ہر پودے کی سات شاخیں ، ہر شاخ پر تین بالیاں اور ہر بالی میں ستر دانے زرد و سبز رنگ کے نکل پڑتے ہیں؛لیکن نفرت کی فصل بھی اسی طرح گہرے سرخ رنگ میں جھومتی، لہلہاتی ہے ۔جہاں پر ترقی کی راہ پر گامزن ہونالوگوں کو حسد اور جلن کی دعوت ہی نہیں؛ بلکہ یک راہ ، دو راہ ، سہ راہ پر موضوع سخن بن جاتا ہے ۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بہت ہی برد بار شخصیت جس کو ''جمیلا'' کے معاشرہ میں صفر کی حیثیت تھی ،لوگ ان سے بے اعتنائی ہی نہیں؛ بلکہ ان کے وجودی حیثیت کو معدوم ہی سمجھتے تھے؛لیکن وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ۝۰ۚنے جب حق و صداقت کا پیغام سنایا اوربردبار شخصیت کے ذی ہوش اور ذی لوث خدمت گزارنرینہ اولادوں نے محض 20000کا ڈراف چیک عروس بلاد ممبئی سے ارسال کرکے قدم بوسی کردیا، تو پھر کیا تھا ہرجگہ ذکر کا دھوم مچ گیا ،اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے اشخاص سلام و آداب بجانے لگے۔ اور ان کے وجود کوآداب و تسلیم کا مرکز تسلیم کرلیا۔

جب میں تولدہوااسی وقت سے اپنے گاؤں کو دیکھنا شروع کیا؛ البتہ سمجھنے تب لگا جب میری عمر قریب البلوغ ہوگئی ،وہی برد بار شخصیت (داداجی )نے آنے جانے والوں سے کہنا شروع کر دیا کہ کسی کو بھی خط لکھوانا ہو یا کوئی عرضی، ہمارے گھر آ جائے میرا پوتا اس کام کے لیے حاضر ہے ۔ نیا نیا رواج چلا تھا کہ لوگ کمانے کے لیے دوسرے ملکوں کا رخ کرنے لگے تھے ۔ ایسے میں دادا جی کی طرف سے ایسی سہولت کی فراہمی گویا اندھیری گلی میں چراغ جلانے کی طرح تھی۔ اب  مردوں سے زیادہ خواتین کےرجوع کا میں مرکز بن گیا،اورمیں بیٹھا پردیسیوں کے نام ضرورتیں ، خواہشات اور جذبات قلم بند کرتا تو کبھی  لوگ مجھے آنے والا خط پڑھواتےتھے ۔

مکتوب نویسی کے دوران زوجین ، والدین ، اخوین ، رجلین ، امرءتین، خلیلین، صاحبین،رفیقین ، ساس بہو، نند بھابھی اور دو دیادنی کے آپسی نصیب و فراز اور ان کے مابین محبت ، عداوت ، الفت ، بغاوت کے مسائل سے آگاہی بھی ہوتی گئی ۔

جمیلا کے لہلہا تے کھیت و باغات      Jamaiula madhubani

                                                   خوبصورتی

میرے گاؤں کی خوبصورتی کی بڑی وجہ سرسبز و شادابی اورسنہری لہلہاتی کھیتیاں اور باغات ہیں۔نیز اس کے قرب جوار میں جھیل نما تالاب اس کے حسن کو دو بالا کرتی ہیں۔

 گرمی جب شباب پر ہوتی تو اس وقت بھی مئی، جون میں سنہری گندم، سبز درخت، تالاب و ندیاں کی بل کھاتی لہریں مل کر ایسا دعوت نظارہ دیتے ہیں کہ ہزار رنگ اس رنگین تصویر پر قربان! سردی کے موسم میں یہ ترتیب بدل جاتی ہے، مکئی اور دالوں کے ہرے کھیتوں کے درمیاں خاکستری رنگ کےباغات پورے گاؤں کو آغوش میں لے لیتا۔

جمیلا بوقت شام،      Jamaila Madhubani

دن و رات

میرے گاؤں کے دن ورات اور سارے موسم اچھے لگتے  ۔ بس شام میں جب کبھی اپنے گاؤں کے کچی سڑک پر کھڑا رہتا تو دن ڈھلنے کے بعد اندھیرا چھانے تک اپنا گاؤں ایک تباہ حال بستی کی مانند لگتا ،جسے دشمن کا لشکر روند کر جا چکا ہے ۔ ہر گھر سے اٹھتا دھواں ، لوٹتے ہوئے مویشی اورچروا ہے ، میدان سےکھیل چھوڑتے بچے ،کہیں کہیں ٹمٹماتی چراغ اور چڑیوں کا اپنے گھونسلوں میں شوروغل، یوں لگتا تھا کہ زندگی کی چادر لپیٹی جا رہی ہو۔ پتا نہیں شام ہوتے ہی لوگوں پر کیا جادو ہوجاتا تھا کہ ہر بندہ روٹھا روٹھا ، تھکا ماندہ اپنے کھلیانوں اور چوپالوں میں براجمان ہوجاتا،اور بڑے پرانے ٹولیوں میں بٹ بٹ کر باتیں کرتے رہتے ۔ساتھ ہی چاند تاروں کی روشنی میں دادی اور نانی ماں جنوں اور پریوں کی کہانیا ں سناتے۔

میرے گاؤں میں پری اور جن

جن اور پریوں سے ایک بات یاد آئی کہ میرے خاندان والوں کاگاؤں سے ملحق ایک تالا ب اور اس کے کنارے بڑے بڑے شیشم اور لیچی کے پیڑ تھے، مشہور تھا کہ اس تالاب اور اس کے اطراف میں جن کی ایک بڑی بستی آباد ہے ، دن میں تو  یہ جگہ مرد و عورت ، صغیر وکبیر کیلئے توجہ کا مر کز رہتا ؛لیکن رات ہوتےہی تمام درخت غصہ ور سیاہ پوش چوکیدار اور دیو ہیکل شاخوں پر جھولتے بھوت  لگتے تھے،اور اس وقت کا عالم بھی میرے لئے قر یب  المرگ ہوتا تھا جب ہم اپنے ہم جولیوں کے ساتھ عشاء سے پہلےٹیوشن پڑھ کر گھر لوٹ  تے ہوئے راستے میں ان درختوں کا سامناکرتے توکبھی پیچھے سے تو کبھی دائیں اور بائیں سے جن و بھوت کادوڑنا ، آنا، بولنا محسوس ہوتا تھا، اورجب اچکتی نگاہ کسی شاخ پر پڑ جاتی تو دل کو یقین ہی ہوجاتاکہ وہاں کوئی بھوت یا چڑیل جھولا جھول رہاہے۔ان درختوں کا   کام ہی گویا لوگوں کوڈرا دھمکا کر گھروں میں بھیجنا تھا۔

جمیلا مدہوبنی ہٹیا،    Hatia Jamaila Madhubani  

گاؤں کا ہٹیا

ایک ہٹیا (بازار)گزرا نہیں کہ دوسرے ہٹیاکا بے صبری سے انتظار ہوتا تھادراصل اس گاؤں کی آؤ بھگت کیلئے ذمہ داروں نے اس ہٹیا کی بنیا درکھی، جو بڑوں کیلئے تو ہٹیا ہی تھا؛ لیکن بچوں کیلئے کسی میلہ سے کم نہیں ، اس وقت دادی اور امی جان کا دیا ہو ا بیس پیسہ میرے نگاہ میں ہفت اقلیم سے کم نہیں تھا،پھر دادی جان کاگھریلوں ضروریات کو پورا کرکے  ہٹیا سے واپس ہونا ہم بچوں کی نگاہ میں دادی جان کچھ اس انداز سے  معلوم ہوتی تھی:

جب بھی لوٹا گاؤں کے بازار سے
مجھ کو سب بچوں نے دیکھا پیار سے

شہر نما

اب تو میرا گاؤں بھی شہرنما ہوتا جارہا ہے، یہاں کی سڑکیں تو در کنارگلیاں بھی سمینٹیٹ ہوگئی  ہیں ، سڑکوں اور گھروں میں بے آب نل اور پانی کی ٹانکی  بھی  ریاساتی گورنمینٹ کے  زیر سایہ لگ چکا ہے،جہاں گاؤں میں ٹائر گاڑی بھی دوسرے جگہ سے حاصل کی جاتی تھی وہاں اب ہزاروں کی تعداد میں ٹو ویلر ، تھیری ویلر ، فور ویلر، سکس ویلر وغیرہ آسانی سے دسیتاب ہے،اتناہی نہیں بڑے کانوں نے جہاں کبھی تار اورٹیلی فون سماعت نہیں کیا تھا وہاں آج ہر گھر نہیں بلکہ ہر فرد کی جیب اسمارٹ فون کا مسکن ہے،   گویا رفتہ رفتہ میرا گاؤں شہر تو نہیں شہریت نماجامہ زیب تن کر رہا ہے ؛ لیکن میرے گاؤں کی اب بھی یہ خصوصیت ہے کہ وہاں ضروریات محدود اور زندگی لامحدود ہے ؛جبکہ شہر وں میں ضرورتیں بے حد و حساب اور زندگی منٹوں  اور سیکینڈوں کی بٹی رسی میں بندھی ہو ئی  ہوتی ہے ۔شاعر کہتا ہے :

جس بات کا مطلب خوشبو ہے ہر گاؤں کے کچے رستے پر

اس بات کا مطلب بدلے گا جب پکی سڑک آ جائے گی

خون کے آنسو

میرے گاؤں میں ملن ساری اور ایک دوسرے کی خیر خواہی کا وہ جذبہ تھا کہ غلہ رکھنے کیلئے مٹی کی بنی  ہوئی کوٹھی اٹھا نے کیلئے قرب و جوار کے تمام مردو زن جمع ہوجاتے تھے اور جب کسی کے گھر کا چھپر اٹھا نا ہوتا تو پھر کیا کہنا ، اٹھانے والوں کا ایک میلہ لگ جاتاتھا ،یہی حال تھا ماضی قریب تک گاؤں کی بیٹیوں کی شادی میں مددگاروں کی بھیڑ جمع ہوجاتی تھی ،اب تونہ وہ مخلص مدگار رہے اور نہ پھسلتے قدموں کو سہارا دینے والےمجذوب زمانہ۔ شاعرکہتاہے :

                       تمہارے شہر میں میت کو سب کاندھا نہیں دیتے

ہمارے گاؤں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں

میرا گاؤں کہاں کھو گیا

میرے گاؤں میں ایک دوسرے کی غم خواری و ہمدردی کا تذکرہ اوپر معلوم ہو گیا ، تہذیب و تمدن کا یہ عالم تھاکہ ہر شخص دوسروں کا خیال کرتے تھے، بچے جب گولی گولی یا کسی دوسرے کھیل میں مصروف ہوتے اور کسی بڑے کا صرف قریب سے گزرہوتا تو بچے اپنے آلات  لہو و لعب چھوڑکر اس طرح بھاگتے تھے  جیسے کسی فاتح قوم کے سامنے سے مفتوح قوم !ہر طفل کو دوران کھیل چاروں طرف نظر سرگرداں رکھنا پڑتا تھا کہ کسی جانب سے کوئی آتونہیں رہے ہیں۔لیکن آج تو یہ حال ہے کہ بس ۔۔۔۔۔۔۔

یہ شہرِتمنا یہ امیروں کی دنیا

یہ خود غرض اور بے ضمیروں کی دنیا

یہاں سکھ مجھے دو جہاں کا ملا ہے

میرا گاؤں جانے کہاں کھو گیا ہے

وہ گاؤں کے بچے، وہ بچوں کی ٹولی

وہ بھولی، وہ معصوم چاہت کی بولی

وہ گُلی وہ ڈنڈا وہ لڑنا جھگڑنا

مگر ہاتھ پھر دوستی سے پکڑنا

وہ منظر ہر اک یاد پھر آ رہا ہے

میرا گاؤں جانے کہاں کھو گیا ہے

وہ چوپال وہ نانی اماں کے قصے

وہ گیتوں کی گنگا، وہ ساون کے جھولے

وہ لٹتا ہوا پیار وہ زندگانی

ہے میرے لئے بُھولی بسری کہانی

چھلکتی ہیں آنکھیں، یہ دل رو رہا ہے

میرا گاؤں جانے کہاں کھو گیا ہے

یہ چاندی، یہ سونا، یہ ہیرے یہ موتی

تھی انمول ان سب سے اک سوکھی روٹی

جو میں نے گنوایا نہ کوئی گنوائے

کہ گھر چھوڑ کوئی نہ پردیس آئے

ملے گا نہ اب وہ جو پیچھے لٹا ہے

میرا گاؤں جانے کہاں کھو گیا ہے


میرا گاؤں ایک نظر میں

Locality Name : Jamaila ( जमीला )جمیلا
Block Name : Andhratharhi
District : Madhubani
State : Bihar
Division : Darbhanga
Language : Maithili and Hindi, Urdu, English
Time zone: IST (UTC+5:30)
Elevation / Altitude: 61 meters. Above Seal level
Telephone Code / Std Code: 06273
Assembly constituency : Rajnagar assembly constituency
Lok Sabha constituency : Jhanjharpur parliamentary constituency
Pin Code 847401
Post Office Name : Andhra
Main Village Name : Jamaila جمیلا ،

 Madarsa & Schools in Jamaila

Madarsa Imdadu uloom

Darul uloom

Darul uloom muhammaia

U.m.s. Jamaila Urdu

فوٹو گلری 



جمیلا نئی مسجد ، وضو خانہ
 جمیلا، نئی مسجد ، خارجی حصہ 



 

جمیلا نئی مسجد
جمیلا نئی مسجد بیرونی منظر
 

 

 

 

 

 

حجرہ راقم

مدرسہ امدادالعلوم




زیر تعمیر عید گاہ

 کچھ نئے مضامین

﴿1﴾                     نزول عیسیٰ قرآن و احادیث میں                                                                 ﴿2﴾                 امام مہدی کی حیات و وفات

﴿3﴾                   مَنَاقِبِ اِمَام ِمِہْدِیْ ؑ                ﴿4﴾              دجال کی حقیقت

﴿5﴾                  دجال کی شکل و نسل                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                   ﴿6﴾                    دجال پیدا ہوچکا ہے

﴿7﴾                  دجا ل کے فتنے                                                                                                             ﴿8﴾                   فتنہ دجال سے بچنے کی تدبیر

﴿9﴾                     دجال کا قتل