Showing posts with label مضمون. Show all posts
Showing posts with label مضمون. Show all posts

Sunday, January 19, 2025

جامعہ اسلامیہ کا قیام

 

{جامعہ اسلامیہ کا قیام کب اور کیسے  ؟}

    قرب وجوار میں بے دینی اور کفر و شرک سے مسلم گھرانے بھی متاثر ہونے لگے اور بچے دینی تعلیم سے کوسوں دور ہوکر شرک و بدعات اور مخرب عادتوں کا شکار ہونے لگے،الحاد و بے دینی عام ہونے لگی اس وقت تعلیم و تر بیت اور شرک و بدعات کی بیخ کنی کیلئےالحاج حسیب الرحمن صاحب ناظم و بانی جامعہ ھذا نے اس وقت کےاکابرین علماء کرام کےمشورہ  سے جامعہ کی بنیاد کا فیصلہ لیا اور مستقل جانفشانی اور گرانقدری  جانی و مالی قربانی کے بعد  بتاریخ 6/ اپریل 2006ء میں برموتر سرکاری اسکول کے قریب (اسی خطہ اراضی پر جہاں آج جامعہ موجود ہے) ایک عظیم الشان اجلاس زیر صدارت حضرت مولانا ممتاز علی صاحب  ؒ مظاہری سابق پرنسپل مدرسہ رحمانیہ یکہتہ، منعقدہوا ،گرد و نواہ کے اصحاب علم و فکر ،علم دوست حضرات بالخصوص ماسٹر معراج الحق صاحب، ؒ الحاج جناب ماسٹر مشیر الحق صاحب ،الحاج جناب عبد الرشید صاحب ؒ،الحاج جناب انیس الرحن صاحب ؒ ، الحاج جناب ماسٹر فیاض الرحمن صاحب ؒ شانہ بشانہ رہے، جن میں سے کئی ایک اللہ کے پیارے ہوگئے ،البتہ الحاج ماسٹر مشیر الحق صاحب موجودہ سکریٹری کے عہدہ پر فائز ہیں ۔
  اس مبارک اجلاس میں ریاست بہارکے تقریبا تمام اکابرین علماء کرام نے شرکت فرمائی ، بالخصوص فقیہ عصر حضرت مولانا قاسم صاحب مظفرپوری ؒ سابق سرپرست جامعہ ہذا وسابق قاضی شریعت بہار، اڑیسہ و جھارکھنڈ ، حضرت اقدس قاضی حبیب اللہ صاحب قاسمی سابق صدر جامعہ ہذا،حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب امام عیدین کلکتہ ، حضرت مولانا مفتی ثناء الہدیٰ صاحب قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ،  حضرت قاری شبیر صاحب مہتمم مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ ، قاری ابوالحیات صاحب ندائے اسلام کلکتہ ، حضرت مولا نا وصی احمد صدیقی سابق مہتمم مدرسہ چشمہ فیض ململ کے علاوہ علاقہ کے ممتاز علماء کرام اور دانشوارانِ قوم و ملت کی موجودگی میں ہی  7 / اپریل2006 کو  دو روم کی بنیاد رکھی گئی جس کی تکمیل کے بعد تعلیم شروع ہوئی؛ لیکن کسی سبب سے کچھ وقت کیلئے تعلیمی سلسلہ موقوف ہوگیا، اور پھرماہ رمضان 2015 ء  میں ایک مرتبہ فقیہ عصر حضرت مولانا قاسم صاحب مظفرپوری ؒ سابق سرپرست جامعہ ہذا نے جامعہ کے بانی الحاج حسیب الرحمن صاحب سے کلکتہ میں کہا حسیب صاحب! آپ مدرسہ بنائیں گے یا نہیں ؟ بس  کیا تھا، از دل ریزد بر دل خیزد، ایک ولی کامل کی بات حضرت حاجی صاحب کے دل پرمکمل اثر کر گئی ، بالآخر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے دوبارہ 10 اپریل 2015 ء  میں موجود ہ عمارت کی بنیاد رکھی گئی، اور اللہ کے فضل و کرم سے یہ عمارت مکمل ہوئی ، پھربتاریخ 24 شوال المکرم 1440ھ مطابق 28  جون 2019  ء میں  فقیہ عصرحضرت مظفر پوری ؒ ، کی زیر صدارت یک روزہ تعلیمی بیداری کانفرنس منعقد ہوا جس میں حضرت اقدس مولانا حبیب اللہ صاحب قاسمی سابق قاضی شریعت مدہوبنی ؒ ، حضرت مولانا مفتی ثناء الہدیٰ صاحب قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ ، حضرت مولانا شبلی صاحب قاسمی قائم مقام ناظم امارت شرعیہ پھلوار شریف ،پٹنہ ،قطب وقت حضرت مولانا اظہار الحق صاحب دامت برکاتہم ناظم اعلیٰ مدرسہ اشرف العلوم کنہواں ضلع سیتامرہی ،کے علاوہ کابرین امت ، بہی خواہان قوم و ملت اور صوبہ بہار و بنگال کے علماء کرام کی پر سوز دعاؤں سے تعلیمی سفر کا آغاز ہوا۔
الحمد للہ اس قلیل مدت میں جامعہ نے روحانی و مادی دونوں ترقیات حاصل کیا ،جامعہ ہذا  میں دینیات ، حفظ ،دور، فارسی، ازعربی اول تا عربی پنجم کی تعلیم ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کی نصاب کے مطابق مکمل انتظام ہے ،جامعہ میں جہاں دینی تعلیم سے طلبہ کو آراستہ کیا جاتا ہے وہیں ہندی ، انگلش ، حساب اور سائنس کی تعلیم بھی باضابطہ بہار سرکار کے اسکول کے مطابق دی جاتی ہے ، نیز مستقبل قریب میں ہائی اسکول تک کی تعلیم دینے کا بھی پروگرام ہے ۔


 


جامعہ ہی کے تحت جامعہ تہذیب النساء بھی چل رہا ہےجس میں مسلم بچیوں کے لئے علیٰحدہ دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا بھی مکمل انتظام ہے، الحمد للہ فی الوقت عربی دوم تک کی تعلیم دی جارہی ہے  انشاء اللہ آئندہ سال سے عالمیت تک کی تعلیم کے ساتھ میٹرک کی تعلیم کا مکمل انتظام رہے گا۔جامعہ تہذیب النساء فی الوقت موجو دہ عمارت ہی میں جانب شمال کے کمروں میں چل رہا ہے ،مستقبل قریب ہی میں زمین کی حصولیابی کرکے مستقل علیحدہ عمارت بنانے کا عزم مصمم ہے ،اللہ تعالیٰ اس مقصد کی تکمیل جلد از جلد کرائے،آمین ۔



فوٹو گلیری







Wednesday, September 6, 2023

موجودہ حالات اور ہماری ذمہ داری، موجودہ حالات میں مسلمانوں کا لائحہ عمل

 

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     

ملک کے موجودہ حالات اور کرنے کے اہم کام

قائین کرام پیش نظر گراں قدر اصلاحی پر مغز مضمون در اصل حضرت مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم (شیخ الحدیث و مہتمم دارالعلوم دیوبند) کی خطاب ہے ،جو موجودہ حالات اور ہماری ذمہ داری،جس کو مولاناعبدالرشید طلحہ نعمانی، نے پڑی محنت سے ترتیب و تلخیص کیا ہے ، راقم نے اشاعت دین کے پیش نظر شائع کررہا ہے ، اللہ تعالیٰ حضرت مہتمم صاحب کے ساتھ مرتب و راقم کیلئے زاد آخرت بنائے آمین ۔

            اس وقت ملک کے جو تشویش ناک حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں،ہر شعور رکھنے والا جانتا ہے کہ مسلمان، اسلام اور اسلامی شعائر کے خلاف دن بہ دن دائرہ تنگ کیاجارہاہے، حالات نازک سے نازک تر ہوتے جارہے ہیں، پہلے بھی فسادات ہوتے تھے کچھ دکانیں جل جاتی تھیں، کچھ مکانات میں آگ لگ جاتی تھی، کچھ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے،پھر آہستہ آہستہ زخم مندمل ہوجاتے تھے؛ لیکن اب شرعی احکام اور شعائرِ اسلام پر حملے ہورہے ہیں،اسلامی حجاب پر، نمازِ جمعہ کھلے میں اداکرنے پر اور لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ اذان دینے پر پابندی عائد کی جارہی ہے نیز اس طرح کے کئی ایک مسائل(جن کا اسلامی تشخص سے تعلق ہے) برابر اٹھائے جارہے ہیں اور ماحول کو زیادہ سے زیادہ زہریلا اور گندا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔

            ابھی حالیہ دنوں میں The Kashmir file کے نام سے کشمیری پنڈتوں سے متعلق ایک فلم بنائی گئی اور پورے ملک میں دکھائی گئی؛جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے خلاف غیرمسلوں کے دلوں میں نفرت کا جذبہ پیدا ہو، وہ اشتعال میں آئیں اور انتقامی کارروائی کے لیے انھیں ابھارا جائے۔

            ناموافق حالات مسلسل آرہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کو اس کا علم و ادراک نہیں۔سب جانتے ہیں؛مگر اس کے مقابلے کے لیے تیار نہیں؟ جو لوگ دانشور کہلاتے ہیں یا اپنے کو فکرمند ظاہرکرتے ہیں وہ سوائے قائدین کو کوسنے اور سوشل میڈیا پر زبانی جمع خرچ کے کچھ نہیں کررہے ہیں، عام مسلمانوں کو اس موقع پر کیا کرنا چاہیے؟ یہ بات کسی کی طرف سے سامنے نہیں آرہی ہے،آج میں یہی بات عرض کرنا چاہتاہوں کہ ان حالات میں ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ اور ہم سب کو کیا کرنا چاہیے؟ میرے خیال میں تین کام ہیں جو اس وقت ہمارے کرنے کے ہیں۔میں سب سے پہلے اپنے آپ سے مخاطب ہوں،پھر اپنے اہلِ خانہ و متعلقین سے، پھر اہلِ محلہ و اہلِ شہر سے اور پورے ملک کے لوگوں سے جہاں تک یہ آواز پہونچ سکتی ہے۔

پہلا کام

            سب سے پہلی چیز اپنے ایمان کو مضبوط کریں اور اعمال و اخلاق کو درست کریں، اللہ جل شانہ ارشاد فرماتے ہیں: وَلَا تَہِنُواْ وَلَا تَحْزَنُواْ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ (آل عمران:۱۳۹) تم کمزور مت پڑو اور رنجیدہ مت ہو، تم ہی سربلند رہوگے بشرطے کہ تم ایمان والے ہو،یعنی ایمان تمہارے اندر مضبوط ہو اور ایمان کے تقاضوں پر عمل کرتے ہو تو یقینی طور پر تمہیں کامیابی اور سربلندی ملے گی۔یاد رکھیں!یہ اللہ کا جو اعلان ہے، وہ ہمیشہ کے لیے ہے: فلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَبْدِیلاً وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَحْوِیلاً (فاطر:۴۳)تم ہرگز اللہ کے طریقہ میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤگے، اللہ کے فیصلہ میں کوئی رد و بدل نہیں ہوگا،جو ضابطہ ہے،وہ ہمیشہ کے لیے ہے۔

            لہٰذا سب سے پہلا کام تو یہ ہے کہ کمزور نہ پڑیں، بزدل نہ بنیں، دل کے اندرایمانی قوت پیدا کریں، موت ایک مرتبہ آنی ہے اور وقت مقرر پر آنی ہے، یہ ہمارا عقیدہ ہے، اس کا استحضار رکھیں۔

موت کا ایک دن معین ہے، ایمان کی بنیادی چیزوں میں یہ بات شامل ہے کہ جب بندہ پیدا ہوتا ہے تو اللہ کی طرف سے اپنی عمر متعین کرواکے آتاہے: فاذَا جَآءَ أَجَلُہُمْ لَا یَسْتاْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا یَسْتَقْدِمُونَ (الاعراف:۳۴) جب مرنے کا متعین وقت آجاتاہے تو بندہ نہ ایک لمحہ آگے جاسکتاہے اور نہ ایک لمحہ پیچھے آسکتاہے۔قرآن مجید کے مطابق آدمی اگر مضبوط قلعوں کے اندر بھی چھپ کر بیٹھے گا تو موت وہاں پہونچ کر رہے گی؛ اس لیے موت تو آنی ہے، ہر ایک کو آنی ہے،اپنے وقت پر آنی ہے اور صرف ایک مرتبہ آنی ہے؛لہٰذا موت کے خوف سے آدمی کا ہر وقت ڈرتے رہنا اور اپنے دل کو کمزور کرنا یہ ایمانی قوت کے بالکل خلاف ہے۔ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کا حال تو یہ تھا کہ ان کو میدان جنگ میں برچھی لگتی تو وہ کہتے: فُزتُ وَرَبِ الکَعبَة خدا کی قسم میں تو کامیاب ہوگیا؛ اس لیے دل کو مضبوط رکھیں اور جو کام کرنے کے ہیں،انھیں کرتے رہیں،ایمان کو طاقت وربنانے کے ساتھ ساتھ اعمال کی اصلاح کریں، اخلاق کو درست کریں، جلوت اور خلوت کی زندگی کو تقوی والی زندگی بنائیں، اللہ کی نافرمانی سے اپنے آپ کو بچائیں،رمضان ہو کہ غیر رمضان نمازوں کا اہتمام سو فیصد ہو،دیگر اسلامی احکامات پر مکمل عمل پیرا رہیں،اسی طرح جو ہماری اخلاقی کمزوریاں اور خرابیاں ہیں، ان سے خود بھی رکیں اور توبہ کریں، ساتھ ہی ساتھ اپنے گھر والوں کو، بچوں کو،عورتوں کو، جوانوں کو ان سے روکیں، ماحول سے خرابیوں کو مٹانے کی کوشش کریں؛ اس لیے کہ اللہ کی مدد تقوی اور صبر کے ساتھ مشروط ہے: إِنَّہُ مَنْ یَتَّقِ وَیَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّٰہَ لَا یُضِیعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِینَ(یوسف:۹۰) جو آدمی تقوی اختیار کرتا ہے،اللہ سے ڈرتاہے اور دین پر جم جاتاہے،اللہ تعالی اس کی مدد فرماتے ہیں اور اس کے اجر کو ضائع نہیں فرماتے۔صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی اِسی تقوی اور صبر کی بنیادپر مدد ہوئی ہے؛ لہٰذا ہم بھی اپنے ایمان کو بنائیں، اعمال کو درست کریں اور اخلاق کو سنوارنے کی فکر کریں۔

دوسرا کام

            دوسری چیز یہ ہے کہ اپنے عمل کے ذریعہ اسلام کا سچا پیغام لوگوں تک پہونچائیں؛اس لیے کہ ایک تصویر تو اسلام اور مسلمانوں کی وہ ہے جو دوسروں کی طرف سے دنیا والوں کے ذہن میں بٹھائی جارہی ہے کہ یہ متشدد ہیں، دہشت گرد ہیں، بد اخلاق ہیں، قاتل ہیں، خونی ہیں وغیرہ اور ایک اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی تصویر ہے جو ہمیں اسلام نے سکھائی ہے، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے،جس پر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم قائم تھے،یعنی ہم امن پسند ہیں، غریبوں، مسکینوں اور پڑوسیوں کے مددگار ہیں، انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کی خبر گیری اور ہم دردی کرنے والے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے عمل کے ذریعہ اِس کو ثابت کریں اور یہ بھی ذہن میں رکھیں!اغیار کی غلط تشہیروں، فرضی فلموں اور بے بنیادپروپیگنڈوں کے ذریعہ مسلمانوں کے تشدد پسند، دہشت گرد اور خونخوار ہونے کا جو تصور بٹھایا جارہاہے،یہ صرف تقاریرو بیانات سے ختم نہیں ہوگا؛بل کہ عمل کے ذریعہ اس کا ازالہ کرنا ہوگا۔

            آپ دیکھ لیجیے!ابھی سال دوسال پہلے لاک ڈاؤن کے زمانہ میں جو پریشانیاں آئی ہیں،زندگی کے لالے پڑے ہیں، کھانے پینے کی چیزوں کا قحط ہوا ہے، اس موقع پر جن مسلمانوں نے اسلامی اخلاق اور انسانیت نوازی کا مظاہرہ کیا، اُس کا اثر برادرانِ وطن پر پڑا اور جو مسلمانوں سے نفرت کرنے والے تھے، ان کے اندر احساس پیداہوا اور اُنھیں بھی یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ ہم مسلمانوں کے بارے میں غلط رائے رکھتے تھے!۔ایسا کیوں ہوا؟ اِس لیے کہ اُس وقت اسلامی اخلاق کا مظاہر کیاگیا، اسلام کا عملی تعارف پیش کیا گیا اور نبوی تعلیمات کا نمونہ دکھایا گیا۔اگر ہماری زندگی میں یہ کام ہمیشہ زندہ رہیں اور ہم نفرت کا جواب نفرت سے دینے کے بجائے محبت سے دینے لگ جائیں تو ان شاء اللہ اُس کا ضرور اثر ہوگا اور اچھے نتائج سامنے آئیں گے:

اُن کا جو فرض ہے وہ اہلِ سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

            ہمیں محبت کا پیغام عام کرنا چاہیے، محبت کا پیغام پہونچانا چاہیے اور محبتوں کو بانٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں ہرگز دوسروں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے،جو حالات چل رہے ہیں،ہم دیکھ رہے ہیں، نہ کوئی سیاسی پارٹی اِن کے خلاف آواز اٹھارہی ہے، نہ کوئی سیاسی لیڈرکھل کر سامنے آرہاہے، ہمیں جو کچھ کرنا ہے اپنے زور بازو اور قوت ایمانی کی بنیاد پر کرناہے؛ اس لیے اپنے اعمال و اخلاق کو درست کریں اور دل کے اندر ہمت پیدا کریں۔اب رہا یہ سوال کہ حالات کی بنا پر جو دل میں کمزوری آرہی ہے،ذہن میں جوخوف بیٹھا ہواہے،عجیب طرح کی دہشت طاری ہے،اس کی کیا وجہ ہے؟ اور یہ کیسے دور ہوگی؟

ہماری بے وزنی کا اصل سبب

            اس موقع پر ایک حدیث یاد آئی، جو پہلے سے آپ کے علم میں ہوگی اور آپ بارہا سن چکے ہوں گے،وہ حدیث آج کے حالات پر من وعن صادق آرہی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یُوشِکُ الأُمَمُ أَنْ تَدَاعَی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الأکلَةُ إِلَی قَصْعَتِہَا. فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ قَالَ: ”بَلْ أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیرٌ وَلَکِنَّکُمْ غُثَاءٌ کَغُثَاءِ السَّیْلِ وَلَیَنْزِعَنَّ اللَّہُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّکُمُ الْمَہَابَةَ مِنْکُمْ وَلَیَقْذِفَنَّ اللَّہُ فِی قُلُوبِکُمُ الْوَہَنَ“ فَقَالَ قَائِلٌ یَا رَسُولَ اللَّہِ وَمَا الْوَہَنُ قَالَ: ”حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاہِیَةُ الْمَوْتِ

            ترجمہ:قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں، جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں،(آپ…کا یہ فرمان سن کر) ایک کہنے والے نے کہا:کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ … نے فرمایا:نہیں؛ بلکہ تم اس وقت بہت ہوگے؛لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح(بے وقعت) ہوگے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں ”وہن“ڈال دے گا۔ ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! وہن کیا چیز ہے؟ آپ …نے فرمایا:یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈرہے۔(ابوداؤد)

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت یہ پیشین گوئی فرمائی تھی، اس وقت صحابہ کرامکی شوکت تھی، قوت تھی دبدبہ تھا،ایک مہینے کے فاصلہ تک ان کا رعب پہونچا ہوا تھا؛اس لیے وہ آپ … کا ارشاد سن کر تعجب سے کہنے لگے: کیا اُس وقت ہم لوگ تعداد کے اعتبار سے بہت تھوڑے ہوں گے؟ آپ…نے فرمایا:نہیں! تم لوگ اُس وقت تعداد میں بہت ہوگے؛ لیکن تمہاری حیثیت وہ ہوگی جو سیلاب کے زمانے میں پانی کی سطح پر بہنے والے کوڑے کرکٹ اور جھاڑ جھنکاڑ کی ہوتی ہے،نہ ان کی کوئی قدر و قیمت ہوتی ہے،نہ ان کے اندر کوئی طاقت و قوت ہوتی ہے، وہ بہاؤ سے اپنے آپ کو نہیں روک سکتے، وہ اپنے وجود کو باقی نہیں رکھ سکتے، پانی کا بہاؤ جدھر لیے جارہاہے، بہتے چلے جارہے ہیں، کہیں کوئی چیز آگئی ٹکرا گئے،نشیب آیا تو نیچے گرگئے۔ بالکل اِسی طرح تم بے وقعت ہوجاؤگے۔

            مزید فرمایا:اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا رعب نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں کمزوری پیدا کردے گا۔ صحابہنے پوچھا کہ یہ بزدلی کہاں سے آئے گی اورکیوں آئے گی؟آپ …نے فرمایا:اس کے دو سبب ہوں گے:دنیا کی محبت اور موت کی کراہیت۔یہ دو اسباب ہیں جو بزدلی لانے والے اوردل میں کمزوری پیدا کرنے والے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ جو اسباب کمزوری اور بزدلی لانے والے ہیں ان کا علاج یہ ہے کہ ان کو ختم کیاجائے اور انھیں ہٹانے کی کوشش کی جائے۔

دنیا کی محبت کیا ہے؟

            دنیا کی محبت یہ ہے کہ ہم آخرت کی زندگی سے غافل ہوجائیں اور دنیا کی فانی لذتوں کے اسیر بن جائیں۔یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج نیند ہمیں پیاری ہے،نماز پیاری نہیں،ہم سود لے رہے ہیں،جھوٹ بول رہے ہیں، بے ایمانی کررہے ہیں، وعدہ خلافی کر رہے ہیں، خیانت کررہے ہیں، وارثوں کا حق مار رہے ہیں،پڑوسیوں کو تکلیف پہنچارہے ہیں، بے ایمانی کررہے ہیں اور یہ سب کام چار پیسے کی خاطر، تھوڑی سی لذت اور تھوڑی سی راحت کی خاطر کیے جارہے ہیں،یہی حب الدنیا ہے؛جس کے ہوتے ہوئے اللہ کی مدد نہیں آسکتی۔ایک مقام پرارشاد باری ہے:

 قُلْ إِن کَانَ آبَآؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَٰنُکُمْ وَأَزْوَٰجُکُمْ وَعَشِیرَتُکُمْ وَأَمْوَٰلٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَٰرَةٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ أَحَبَّ إِلَیْکُم مِّنَ اللَّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِی سَبِیلِہِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّیٰ یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہ وَاللَّہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَٰسِقِینَ.(التوبة:۲۴)

            ترجمہ: اے پیغمبر! مسلمانوں سے کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارا خاندان، اور وہ مال و دولت جو تم نے کمایا ہے اور وہ کاروبار جس کے مندا ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے، اور وہ رہائشی مکان جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے، اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں،تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرمادے اور اللہ نافرمان لوگوں کو منزل تک نہیں پہنچاتا۔

            یاد رکھیں!صرف فریاد کرنے اور حالات کا شکوہ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، اپنے اندر قوت پیدا کریں اور جن راستوں سے یہ کمزوری آرہی ہے، ان کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالی کے ہاں ایمان و اعمال کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں اورایمان والوں کے امتحانات بھی ہوتے ہیں،ہم جانتے ہیں کہ صحابہ پر حالات آئے، غزوہ احد میں حالات آئے، غزوہ حنین میں حالات آئے اور صرف آپ … ہی پر نہیں،پچھلے انبیاء کرام پر بھی حالات آئے؛ جن کا قرآن میں تذکرہ کیا گیا کہ انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا گیا یہاں تک کہ رسول اور اُن کے امتی کہنے لگے آخر اللہ کی مدد کب آئے گی، اللہ فرماتے ہیں: سنو!اللہ کی مدد قریب ہے۔

            ایک مقام پراسی ابتلاوآزمائش کا یوں ذکر کیاگیا: وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْن(البقرة:۱۵۵) ہم ضرور تم کو آزمائیں گے؟ کس چیز سے آزمائیں گے؟ کچھ خوف میں مبتلا کریں گے،فاقے میں مبتلا کریں گے،مالوں کی کمی میں مبتلا کریں گے،جانوں کی کمی میں مبتلا کریں گے، پیداوار کی قلت کے ذریعہ آزمائیں گے،یہ سارے حالات ہماری طرف سے ضرور بالضرور آئیں گے؛لیکن یہ امتحان ہوگا اور امتحان کس لیے ہوتاہے؟ یہ دیکھنے کے لیے کہ کون اس میں کامیاب ہوتاہے اور کون ناکام ہوتاہے۔ جو کامیاب ہوتاہے وہ نوازاجاتاہے اور جو ناکام ہوتاہے اس کو سزا ملتی ہے۔پھرفرمایا: اِس امتحان کے اندر کامیابی انھیں لوگوں کو ملے گی جو ثابت قدم رہنے والے اور صبر کرنے والے ہیں۔صبر کے معنی صرف مصیبت کو برداشت کرنانہیں ہے؛ بلکہ مصیبت ہو یا راحت ہر حال میں دین پر جمے رہنا، ہر طاعت کو اختیار کرنا،ہر معصیت سے اپنے نفس کو روک کر رکھنا اور حالات کو اللہ کی طرف سے سمجھ کر انھیں برداشت کرنا، یہ صبر کا مجموعہ ہے یعنی طاعت پرصبر، معصیت سے بچنے کے لیے صبراور مصیبت پرصبر۔ جہاں یہ صبر کی تینوں قسمیں پائی جائیں گی،اللہ فرماتے ہیں:ان صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنادیجیے !جن کا شیوہ اور طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کے پاس ہمیں لوٹ کر جانا ہے؛یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی طرف سے خصوصی رحمتیں بھی نازل ہوتی ہیں اور عام رحمت میں بھی ان کا حصہ ہوتا ہے اور یہی سیدھے راستے پر چلنے والے ہیں۔

تیسرا کام

            ان حالات میں تیسرا کام یہ ہے کہ ہم دعاؤں کا اہتمام کریں۔میں نے سب سے اخیر میں دعا کا ذکر کیا ہے؛اس لیے کہ صرف قنوتِ نازلہ پڑھنے سے، صرف آیاتِ کریمہ کا ختم کرنے سے اور صرف حصنِ حصین پڑھ کر ہاتھ اٹھانے سے حالات نہیں بدلیں گے۔ حالات بدلیں گے اپنے آپ کو بدلنے سے اور اپنے اندر انقلاب پیداکرنے سے:

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

            ہم اپنے کو بدلیں گے تو سب کچھ بدلے گا،اللہ تعالی کے یہاں فیصلے اعمال اور اخلاق کی بنیاد پر ہوا کرتے ہیں،دعائیں اپنی جگہ ضروری ہیں،اللہ پاک ہی دعائیں قبول کریں گے؛ لیکن دعاؤں کے ساتھ ہمیں بھی کچھ کرنا ہوگا ؛اس لیے صرف دعاؤں پر اکتفا نہ کریں۔

خلاصہٴ کلام

            ابھی جو باتیں آپ کے سامنے رکھی گئی ہیں، اجمالی طور پر ان کا اعادہ مناسب سمجھتا ہوں۔سب سے پہلی بات: اپنا ایمان مضبوط کریں، اپنے اعمال و اخلاق کو درست کریں، گناہوں سے توبہ کریں اور نئے سرے سے زندگی کا آغاز کریں۔

            دوسری بات : برادران وطن اور پڑوسیوں کے سامنے اسلامی اخلاق و کردار کی وہ تصویر پیش کریں جو مسلمانوں کی حقیقی تصویر ہے،جو اسلام کی حقیقی تعلیم ہے؛ تاکہ ان کے ذہن کو گندگی سے بھرنے جو کوشش ہورہی ہے اس کا عملی توڑ ہوسکے۔

            تیسری بات :دعا ئیں کرتے رہیں اوراس کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو مضبوط رکھیں، خوف و دہشت دل سے نکالیں، موت کا خوف ختم کریں،یاد رکھیں!موت اپنے وقت پر آئے گی، وہ ایک مرتبہ آئے گی، کوئی موت کو روک نہیں سکتا؛لیکن موت کے ڈر سے ہم گھر کے اندر بیٹھے کانپتے رہیں، یہ طریقہ درست نہیں ہے، اپنی حفاظت کا حق شریعت اور قانون نے ہم کو دیا ہے،اس کا استعمال کریں، خدانخواستہ حالات ایسے آجائیں کہ ہماری جان اور مال پر حملہ ہوجائے تو ہم بزدل بن کر گھر میں نہ بیٹھے رہیں۔ہم امن و امان کے محافظ ہیں؛ اس لیے اپنی طرف سے امن کے خلاف کوئی اقدام نہ کریں؛ لیکن اگر ہماری جان و مال اورعزت وآبرو پر کوئی حملہ آور ہوتا ہے تو صرف چھت پر چڑھ کر نعرہ تکبیر نہ لگائیں ؛بلکہ اللہ نے جتنی طاقت و ہمت دی ہے، جتنی استطاعت ہے، جو اسباب فراہم ہیں، ان کے ذریعہ اپنا دفاع کرنے کی کوشش کریں!اخیر میں پھر کہوں گا کہ موت آئے تو عزت کے ساتھ آئے؛ لیکن دلوں میں بزدلی اور کمزوری بٹھاکر اپنے کو دوسروں کے سپرد کردینا ، ایمان والے کی شان نہیں ہے۔

            اللہ تعالی ہم سب کو صحیح سمجھ عطافرمائے اور صحیح طورپرعمل کرنے کی توفیق بخشے،آمین!

——————————————

دارالعلوم ‏، شمارہ5۔6،  جلد: 106 ‏،16 محرم الحرام  1445ہجری مطابق 4اگست.2023ء


Monday, August 7, 2023

ہندوستان کی آزادی

                  

ہندوستان کی آزادی

انصاف ور مؤرخوں نےاپنی کتاب میں اس سچی تاریخ کو بھی رقمطرازکیا ہےکہ مسلمانوں کی تقریبا دوسوسال تک مسلسل قربانیوں اور جانفشانیوں کے بعد آزادی کا دن میسر ہوا، جانوں کا نذرانہ پیش کرنے اور سب کچھ لٹانے کے بعد ہمارا ہندوستان آزاد ہوا۔ آج جو اطمینا ن اور سکون اور آزادی کے ساتھ جی رہے ہیں یہ سب مسلم عوام اور علماء کی دَین ہے،یہی تاریخی حقیقت اور ناقابل ِ فراموش سچائی ہے کہ مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس ملک کو آزاد کرانے کی کوشش کی، سخت ترین اذیتوں کو جھیلا، خطرناک سزاؤں کو برادشت کیا، طرح طرح کی مصیبتوں سے دوچار ہوئے، حالات و آزمائشوں میں گرفتار ہوئے، ان حالات میں بھی برابر آزادی کا نعرہ لگاتے رہے اور ہر ہندوستانی کو بیدار کرتے رہے، کبھی میدان سے راہ ِ فرار اختیار نہیں کی اور نہ ہی کسی موقع پر ملک ووطن کی محبت میں کمی آنے دی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے اقتدارمسلم حکمرانوں سے ہی چھیناتھا،انھیں حاکم سے محکوم بنناپڑا، اس کی تکلیف اوردکھ انھیں جھیلناپڑا، اسی لیے محکومیت وغلامی سے آزادی کی اصل لڑائی بھی انھیں کولڑنی پڑی۔آیئے تاریخی کتب اور مؤرخین کے حوالے سے اس حقیقت کو سمجھیں ۔

17 ویں صدی میں یورپی تجار ملک بھارت میں آنا شروع ہوئے اور انہوں نے اپنی جگہ جگہ چوکیاں قائم کر لیں۔ آہستہ آہستہ فوج جمع کرکے دیکھتے ہی دیکھتے ایک طاقتور فوج قائم کرلی اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے  مختلف علاقائی راجاؤں کو اپنے زیر اثر لے لیا اور بالآخر اٹھارہویں صدی میں کمپنی راج قائم کر لیا اور یوں وہ ہندوستان کی غالب طاقت بن گئی۔اور ہندوستانیوں پر نت نئے طریقے سے ظلم ستم کے پہاڑ توڑ نے لگے،اور جب ظلم و بربریت کی انتہاء ہوگئی تو سلسلہ وار مسلمانوں کے قائدین اور مسلم حکمرانوں نے کمپنی راج ختم کرنے کیلئے کئی مرتبہ جنگ کی جس کا مختصر تاریخ حسب ذیل ہے :

علی وردی خان اور نواب سراج الدولہ

انگریزوں سے باقاعدہ منظم جنگ نواب سراج الدولہ کے ناناعلی وردی خان نے 1754ء میں کی اوران کوشکست دی،کلکتہ کاڈائمنڈہاربر Diamond Harbourاور فورٹ ولیم Fort Williamانگریزوں کامرکزتھا،علی وردی خان نے فورٹ ولیم پرحملہ کرکے انگریزوں کو بھگایا، انگریزڈائمنڈ ہاربرمیں پناہ لینے پرمجبورہوئے۔اسے پہلی منظم جنگ آزادی قرار دیا جاسکتاہے۔ علی وردی خان کے بعدان کے نواسہ نواب سراج الدولہ حاکم ہوئے ،اور انگریز سے خطرہ محسوس کرکے انگریزوں کوشکست دیناچاہا؛مگراپنوں کی سازش کی وجہ سےانہیں شکست ہوئی اور1757ء میں برٹش فوج نے ان کے دارالسلطنت مرشدآبادمیں انھیں شہیدکردیا۔نیز پلاسی کی جنگ 1757ء اوربکسرکی جنگ1764کی میں بھی ہندوستانیوں کی شکست پرختم ہوئی،اس کے بعدانگریزبنگال، بہار اور اوڑیسہ پرپوری طرح قابض ہوگئے۔

حیدر علی اور ٹیپو سلطان ؒ

دکن فرمانروا حیدرعلی(م1782ء) اوران کے بیٹے ٹیپوسلطان  نے بھی انگریزوں سے جنگ کی ہے، حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے کئی جنگیں کیں، ٹیپوسلطان 1782ء میں حکراں ہوئے،1783ء میں انگریزوں سے ٹیپوکی پہلی جنگ ہوئی جس میں انگریزوں کوشکست ہوئی۔یہ جنگ 1784ء میں ختم ہوئی، انگریز اپنی شکست کاانتقام لینے کے لیے بے چین تھے؛ چنانچہ 1792ء میں انگریزوں نے اپنی شکست کاانتقام لیتے ہوئے حملہ کیا؛مگر اپنے بعض وزراء وافسران کی بے وفائی اور اچانک حملہ کی وجہ سے ٹیپو معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ٹیپو کو بطور تاوان تین کروڑ روپئے، نصف علاقہ اوردو شہزادوں کوبطورِیرغمال انگریزوں کودینا پڑا۔آخرکاراس مجاہد بادشاہ نے ۴/مئی ۱۷۹۹ ء کوسرنگا پٹنم کے معرکہ میں شہیدہوکر سرخروئی حاصل کی، انھوں نے انگریزوں کی غلامی اوراسیری اوران کے رحم وکرم پرزندہ رہنے پرموت کوترجیح دی، ان کامشہور تاریخی مقولہ ہے کہ ’’گیڈرکی صد سالہ زندگی سے شیرکی ایک دن کی زندگی اچھی ہے‘‘۔ جب جرنل HORSE کوسلطان کی شہادت کی خبرملی تواس نے ان کی نعش پرکھڑے ہوکریہ الفاظ کہے کہ:آج سے ہندوستان ہماراہے۔‘‘(ہندوستانی مسلمان ص۱۳۷)

شاہ عبد العزیز اور ان کے رفقاء

 شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی رحمہ الله (م1824ء)نے اپنے والدکی تحریک کوبڑھاتے ہوئے1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتوی دیا،جس میں ہندوستان کودارالحرب قرار دیا گیا اور سیداحمد شہید رائے بریلوی رحمہ الله کولبریشن موومنٹ کا قائد مقرر کیا۔1831ء میں سیداحمدشہید رحمہ الله اورشاہ اسماعیل شہید رحمہ الله بالاکوٹ میں اپنے بے شمار رفقاء کے ساتھ انگریزوں  کے خلاف جہادمیں شہیدہوئے؛آپ کے بعدمولانا نصیرالدین دہلوی رحمہ الله نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔1840ء میں آپ کی وفات کے بعدمولانا ولایت علی عظیم آبادی رحمہ الله  (م1852ء)اورانکے بھائی مولاناعنایت علی عظیم آبادی (م1858ء) نے اس تحریک کوزندہ رکھنے میں اہم کرداراداکیا۔اور یہ سلسلہ چلتارہا یہاں تک کہ  1857ء  ۔

1857ء میں علماء کرام

1857 ء میں علماء کرام کی ایک جماعت تیارہوئی۔ جن میں مولانااحمدالله شاہ مدراسی رحمہ الله ، مولانا رحمت الله کیرانوی رحمہ الله ، مولانافضلِ حق خیرآبادی، رحمہ الله مولاناسرفراز رحمہ الله ، حاجی امدالله مہاجرمکی رحمہ الله ، مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ الله ، مولانا قاسم نانوتوی رحمہ الله ،حافظ ضامن شہید رحمہ الله اور مولانا منیر نانوتوی رحمہ الله خاص طور پر قابل ذکرہیں۔اسی زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی رحمہ الله نے انگیریزوں کے خلاف فتوی مرتب کرایاجس پر علماء دہلی سے دستخط لیے گئے، اور یہی فتوی مولاناکی گرفتاری کاسبب بنا ۔1857ء کے زمانہ میں مولانااحمدالله شاہ مدراسی رحمہ الله سپہ سالارکی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ ہومزلکھتاہے: ’’مولوی احمدالله شاہ شمالی ہندمیں انگریزوں کاسب سے بڑادشمن تھا۔1865ء میں مولانااحمدالله عظیم آبادی رحمہ الله ، مولانایحییٰ علی رحمہ الله ، مولاناعبدالرحیم صادق پوری رحمہ الله ، مولانا جعفرتھانیسری رحمہ الله کوانڈمان بطور سزابھیج دیا گیا جو کالاپانی کہلاتاہے۔اسی زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی رحمہ الله ، مفتی احمدکاکوروی رحمہ الله اورمفتی مظہرکریم دریابادی  رحمہ الله کوبھی انڈمان روانہ کیاگیا، جن میں مولانا احمدالله عظیم آبادی رحمہ الله ، مولانایحییٰ علی رحمہ الله ، اورمولانا فضل حق خیرآبادی رحمہ الله  وغیرہم کا وہیں انتقال ہوگیا۔ مولانا عبدالرحیم صادق پوری رحمہ الله  اورمولانا جعفر تھانیسری رحمہ الله اٹھارہ سال کی قیدبامشقت اور جلاوطنی کے بعد 1883ء میں اپنے وطن واپس ہوئے۔ مولاناجعفرتھانیسری رحمہ الله اپنی کتاب کالاپانی میں تحریرفرماتے ہیں:’’ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پیروں میں بیڑیاں، جسم پرجیل کا لباس اور کمرپرلوہے کی سلاخیں تھیں۔انگریزہم تین علماء کے لیے خاص لوہے کے قفس تیار کروائے اور ہمیں ان میں ڈال دیا۔اس پنجرے میں لوہے کی چونچ دارسلاخیں بھی لگوائیں، جس کی وجہ سے ہم نہ سہارالے سکتے تھے، نہ بیٹھ سکتے تھے۔ہماری آنکھوں سے آنسوں اورپیروں سے خون بہہ رہے تھے۔غدر کے ملزمان انگریزوں کی نگاہ میں اتنے بڑے مجرم سمجھے گئے کہ غدر1857ء میں پکڑے گئے لوگوں کو یاتوسرعام پھانسی دیدی گئی یابہت سے لوگوں کواسی جزیرے انڈمان میں موت سے بدترزندگی گذارنے کے لیے بھیجاگیا۔ 1857ء میں شاملی ضلع مظفرنگرکے میدان میں علماء دیوبندنے انگریزوں سے باقاعدہ جنگ کی، جس کے امیرحاجی امدالله مہاجرمکی رحمہ الله مقررہوئے۔اور اس کی قیادت مولانارشیداحمدگنگوہی رحمہ الله ، مولاناقاسم نانوتوی رحمہ الله ، اورمولانامنیرنانوتوی رحمہ الله کررہے تھے۔ اس جنگ میں حافظ ضامن  رحمہ الله شہیدہوئے، مولانا قاسم نانوتوی رحمہ الله انگریزوں کی گولی لگ کرزخمی ہوئے۔مولانارشیداحمدگنگوہی رحمہ الله کوگرفتارکیاگیااورسہارنپورکے قیدخانہ کے بعدچند دن کال کوٹھری میں رکھ کرمظفرنگرکے قیدخانہ میں منتقل کیاگیا ۔1857ء کی جنگ میں مسلمانوں کوبظاہرشکست ہوئی۔

مؤرخ لکھتے ہیں : اس 18 57 کی جنگ میں جو تقریباّ پورے ہندوستان میں شروع ہوچکی تھی اس میں پانچ لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا جس میں 5000 صرف علماء تھے۔کہا جاتا ہے کہ جی ٹی روڈ پر دہلی سے کلکتہ تک کوئی ایسا درخت نہیں تھا جس پر کسی عالم کی لاش نہ لٹکی ہو۔

 

انڈین نیشنل کانگرس کاقیام اوراس میں مسلمانوں کاحصہ

1884ء میں انڈین نیشنل کانگرس کاپہلااجلاس منعقدہوا، کے بانیوں میں دیگرمسلمانوں کے ساتھ بدرالدین طیب جی اوررحمت الله سیانی بھی شامل تھے،  ہندوستان کی تاریخ کی کئی عظیم شخصیات بھی اس جماعت سے وابستہ رہی ہیں جن میں موہن داس گاندھی، جواہر لعل نہرو، ولبھ بھائی پٹیل، راجندرہ پرساد، خان عبدالغفار خان اور ابو الکلام آزاد زیادہ معروف ہیں۔کانگرس کا چوتھااجلاس 1887ء میں مدراس میں ہوا،جس کی صدارت بدرالدین طیب جی نے کی،اسی جماعت کا تقریبا  9 صدور مسلم ہوئے ہیں ۔

گاندھی جی اور آزادی

موہن داس کرم چند گاندھی،1915ء میں جب افریقہ سے واپس ہوئے اور اپنے ملک کے لوگوں کا حال دیکھاخاص کرکے امرتسر میں جنرل ڈائر نے 20 ہزار افراد کے ہجوم پر فائرنگ کر دی جس میں 400 سے زیادہ افراد ہلاک اور 1300 سے زیادہ افراد زخمی ہوگئے۔اس قتل عام کے بعد گاندھی کو یقین ہوگیا کہ انھیں ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا باضابطہ آغاز  کرنا چاہیے۔اور اسطرح وہ انڈین نیشنل کانگرس کا کا نمایاں چہرہ بن گئے۔ اوربرطانیہ سے ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے رہنما بھی بنے۔

جمعیت کا قیام

1919ء میں جمعیت علماء ہندکاقیام عمل میں آیا،جس کے بنیادی ارکان میں شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی رحمہ الله ،مولاناحسین احمدمدنی رحمہ الله ، مولاناعطاء الله شاہ بخاری، مولانا ثناء الله امرستری رحمہ الله ، مولانامفتی کفایت الله دہلوی رحمہ الله ، مولانامحمدعلی جوہر،مولاناشوکت علی،مولانا ابوالمحاسن سجاد، مولانا احمدعلی لاہوری رحمہ الله ، مولاناابوالکلام آزاد، مولاناحفظ الرحمن سیورہاروی رحمہ الله ، مولانا احمدسعید دہلوی رحمہ الله ، مولانا سیدمحمدمیاں دیوبندی رحمہ الله  جیسے دانشوران قوم تھے۔شیخ الہند رحمہ الله  کی رہائی کے بعد سب سے پہلے 29جولائی 1920ء کوترکِ موالات کافتوی شائع کیاگیا۔

تحریک خلافت اورہندومسلم اتحاد

1919 ء میں جلیاں والاباغ سانحہ پیش آیا جس میں کئی افراد ہلاک ہوئے،انھیں ایام میں تحریکِ خلافت وجودمیں آئی،جس کے بانی مولانامحمدعلی جوہر تھے، اس تحریک سے ہندومسلم اتحادعمل میں آیا۔گاندھی جی،علی برادران (مولانامحمدعلی جوہر ومولانا شوکت علی)اورمسلم رہنماوٴں کے ساتھ ملک گیردورہ کیا،اس تحریک نے عوام اورمسلم علماء کوایک پلیٹ فارم پرکھڑاکردیا،جن میں شیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندی رحمہ الله ،مولانا عبدالباری فرنگی محلی رحمہ الله ، مولاناآزادسبحانی،مولاناثناء الله امرتسری رحمہ الله ، مفتی کفایت الله دہلوی رحمہ الله ، مولاناسیدمحمدفاخر،مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ الله ، مولانااحمدسعیددہلوی وغیرھم شریک تھے،الغرض ہندوستان کے اکابرعلماء نے سالہاسال کے اختلافات کو نظرانداز کرکے تحریکِ خلافت میں شانہ بشانہ کام کیا۔

تحریکِ ترک موالات

1920ء میں گاندھی جی اورمولاناابوالکلام آزادنے غیرملکی مال کے بائیکاٹ اورنان کوآپریشن(ترک موالات)کی تجویزپیش کی،یہ بہت کارگرہتھیارتھا، جواس جنگ آزادی اورقومی جدوجہدمیں استعمال کیاگیا، انگریزی حکومت اس کاپوراپورانوٹس لینے پر مجبورہوئی اوراس کاخطرہ پیداہواکہ پوراملکی نظام مفلوج ہوجائے اورعام بغاوت پھیل جائے، آثارانگریزی حکومت کے خاتمہ کی کی پیشینگوئی کررہے تھے۔(ہندوستانی مسلمان،ص۱۵۷)

1921ء میں موپلابغاوت،1922ء میں چوراچوری میں پولیس فائرنگ،1930ء میں تحریک سول نافرمانی ونمک آندولن، 1942ء میں ہندوستان چھوڑوتحریک(Quit India Movement)، 1946ء میں ممبئی میں بحری بیڑے کی بغاوت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں پرپولیس فائرنگ کے دوران ہزاروں مسلمان شہیدہوئے۔ مسلمانوں کے علاوہ شہیدعلماء کی تعدادبیس ہزار سے پچاس ہزارتک بتائی جاتی ہے،

 مذکورہ بالا شخصیتوں کے علاوہ بہادرشاہ ظفر،بیگم محل،نواب مظفرالدولہ،امام بخش صہبائی، مولانابرکت الله بھوپالی، مولاناحسرت موہانی، مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی،ڈاکٹرسیف الدین کچلو، مولانا مظہرالحق، ڈاکٹرسیدمحمود، مولوی احمد اللہ، شہزادہ فیروز شاہ، بخت خاں، نواب ولی داد خاں (مالا گڑھ ضلع بلند شہر)، نواب تفضل حسین خاں (فرخ آباد)، خان بہادر خاں (بریلی)، نواب محمود علی خاں (نجیب آباد)، مولوی لیاقت علی (الٰہ آباد)، عظیم اللہ (کانپور)، مولانا پیر علی خاں (پٹنہ)، فاضل محمد خاں، عادل محمد خاں (بھوپال)، سعادت خاں میواتی (اندور)، مولانا علاؤ الدین اور طرہی باز خاں (حیدر آباد)، نواب قادر خاں (ناگپور)وغیرہم نے جنگ آزادی میں بھرپورحصہ لیا۔

ان مجاہدین کی قربانیاں رائیگاں نہیں ہوئی،1947 میں اسی تاریخ کو ہندوستان نے ایک طویل جدوجہد کے بعد انگریزوں کے استعمار سے آزادی حاصل کی تھی۔

 (اس مضمون کے اکثر مواد ماخوذ ہیں ماہنامہ دارالعلوم دیوبند ، جمادی الاول1432ھ، ماہنامہ البینات کرچی، رمضان المبارک ، 1428ھ، ساتھ ہی کہیں کہیں نیٹ پر موجود مضامین سے  بھی استفادہ کیا گیا )

               نئے مضامین


قیمتی باتیں                      حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی