Showing posts with label مسائل. Show all posts
Showing posts with label مسائل. Show all posts

Tuesday, August 22, 2023

ناقض وضو

 

نواقض وضو

اصولی طورپر نیچے کی چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے :

1.      آگے یا پیچھے کی شرمگاہ سے کسی چیز کا نکلنا مثلاً پاخانہ، پیشاب، استحاضہ کا خون، کیڑا وغیرہ

2.                                                       پیچھے کے راستہ سے ہوا کا نکلنا ۔

3.     بدن کے کسی حصے سے نجاست کا نکل کے بہہ جانا،مثلا خون، پیپ، مواد وغیرہ۔

4.     منھ بھر کے قے کرنا ۔

5.     ٹیک لگا کر سوجانا ۔

6.     بے ہوش یا پاگل ہوجانا ۔

7.     بالغ کا رکوع سجدہ والی نماز میں قہقہہ لگانا۔

8.     مباشرت فاحشہ یعنی بلا کسی حائل کے شرمگاہ کا شرمگاہ سےملانا ۔

سبیلین سے نکلنے والے:یعنی ہر وہ چیز جو آگے اور پیچھے کے راستے سے نکلےخواہ نکلنے والا ایسا ہو جو عادتا نکلتا ہے ،جیسے: پیشاب ،پائخانہ ،  مذی ،ریاح وغیرہ یا وہ ہو جو عادتا نہیں نکلتا ہے ،جیسے : حیض ، نفاس، کیڑا ، پتھروغیرہ ۔ان تمام چیزوں کی نکلنے سے وضو ٹوٹ جائیگا ۔

مسئلہ :مرد کے آگے کے عضو سےہواکا نکلناناقض وضو نہیں ہے ، (شامی مصری ج:1ص:126)

مسئلہ : عورت کی اگلی شرمگاہ سے ہوا کا نکلنا بھی ناقض وضو نہیں ہے ، ہاں اگر عورت مفضات ہوں یعنی ایسی عورت ہو جس کے سبیلن کا پردہ پھٹ گیا یا پردہ میں سوراخ ہو گیا ہو تو پھر ایسی عورت کی اگلی شرمگاہ سے نکلنے والی ہواسے وضو ٹوٹ جائیگا ۔ (شامی مصری ج:1ص:126)

مسئلہ : بعض امراض کی وجہ سے طبعی طریقہ پر فضلا ت کانکالنا دشوار ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان دونوں جگہوں پر یا پیٹ کے نچلے حصے میں جگہ بناکر پائپ لگا دیا جاتا ہے، جس سے پیشاب و پائخانہ خارج ہوکر ایک تھیلی میں جمع ہوتا ہے،جب پیشاب و پائخانہ  نکل کر نلکی میں آجائے ،تو یہ ناقض وضو ہوگا، اور چوں کہ پیشاب نلکی میں تقریبا تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے، لہذا یہ مریض سلسل البول کے حکم میں ہوگا اور اس کے لیے ہر نماز کے وقت وضو واجب ہوگا۔

قے کرنا : کھانا ، پانی ، جمے ہوے خون یا پت کی منھ بھرکی قے کرنا ناقض وضو ہے، منھ بھر کی قے کا پہچان یہ ہے کہ بلاتکلف منھ بند نہ کرسکے ۔

مسئلہ : اگر ایک ہی دفعہ کی متلی سے قے تھوڑا تھوڑا کئی مرتبہ ہوا ہو اور ان سب کی مقدار اس قدر ہو جو منھ بھر کے بقدر ہو تو اس سے بھی وضو ٹوٹ جائیگا ۔

مسئلہ: قے تھوڑا تھوڑا کئی متلی سے ہوا ہو تو سب کو جمع نہیں کیا جائیگا ۔(مراقی الفلاح ،ص: 49)

بدن کے کسی حصہ سے نجاست کا خروج: یعنی بدن کے کسی دوسرے حصے سے کسی نجس چیز کا نکل کرایسے مقام کی جانب بہہ جانا جسکو وضو یا غسل میں پاک کرنا ضروری ہو، اگر وہ نجس چیز بہا نہ ہو صرف دیکھا یا اسی جگہ نکل کر ٹہرا رہا تو فقط اس ظہور سے وضو نہیں ٹوٹے گا ۔( مراقی الفلاح ص: 48)

مسئلہ : اگر دانت یا منھ سے خون نکلا اور خون کی سرخی تھوک پر غالب ہو تو وضو ٹوٹ جائیگا ،اگر تھوک صرف زرد ہو تو خون مغلوب ہوگا اور اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا ۔( مراقی الفلاح ص:49)

مسئلہ : اگر کان سے خون یا مواد بہا اور اس حصہ تک آگیا جہاں دھونا غسل میں فرض ہے تو وضو ٹوٹ جائیگا ۔(شامی ،ج: 1ص،: 137)

ٹیک لگا کر سوجانا : جس نیند کی وجہ سے انسان  اپنے اعضاء پر قدرت  نہ رکھ سکےاس کی وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، لہذا اگر کوئی شخص  پہلو پر یا  ایک کولہے پر یا چہرے کے بل یا چت لیٹ کرسوجائے یا کسی ایسی چیز سے ٹیک لگا کر سوجائے کہ اگر اس چیز کو ہٹایا جائے تو وہ گرجائے تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس میں وقت کی کوئی مقدار نہیں اگر تھوڑی دیر بھی آنکھ لگ جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔البتہ صرف اونگھنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ۔( مراقی الفلاح ص:49)

بے ہوش یا پاگل ہوجانا: کسی شخص پر بے ہوشی یا جنون طاری ہوجا ئے تو وضو ٹوٹ جا تا ہے ،

مسئلہ : شراب یا افیون وغیرہ کے استعمال سے اس قدر نشہ طاری ہوجائے کہ وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے تو یہ ناقض وضو ہے ۔ (کتاب المسائل ص: 156)

نماز میں قہقہ لگانا: یعنی اگر کسی بالغ شخص نے نماز میں قہقہ لگایا تو اس کا حکم اس طرح ہے ،قہقہہ وہ ہنسی ہے جو دوسرے کو بھی سنائی دے اس سے بیداری کی حالت میں وضو اور نماز دونوں فاسد ہوجاتے ہیں۔ ضحک وہ ہنسی ہے جس کی آواز اپنے تک محدود رہے اس سے بیداری کی حالت میں نماز فاسد ہوتی ہے ، نہ کہ وضو۔ اور تبسم وہ مسکراہٹ ہے جس میں کوئی آواز نہ ہو۔ اس سے نہ نماز فاسد ہوتی ہے نہ وضو، نماز کے اندر سونے کی حالت میں ہنسنے یعنی ضحک سے نہ نماز فاسد ہوتی ہے نہ وضو، اور سونے کی حالت میں قہقہہ لگانے سے صرف نماز فاسد ہوجاتی ہے وضو نہیں ٹوٹتا۔ (نجم الفتاویٰ جلد دوم )

مسئلہ: نماز جنازہ میں آواز سے ہنسی آگئی تو وضو نہیں ٹوٹے گا البتہ نماز باطل ہو جائیگی ۔(شامی ،ج:1 ص:135)

مسئلہ : دوران سجدہ تلاوت ہنسی آجائے تو تو وضو نہیں ٹوٹے گا البتہ سجدہ تلاوت باطل ہو جائیگی ۔(شامی ،ج:1 ص:135)

مباشرت فاحشہ: یعنی بغیر کسی پردہ وغیرہ کے شرمگاہوں کا شہوت کے ساتھ ملنابھی ہے ناقض وضو ہے ، اگرچہ مذی (رطوبت) نہ نکلنے ۔ خواہ مرد کا عورت سے ہو یا مرد کا مرد کے دبرسے ہو یا عورت کا عورت سے ہو ( مراقی الفلاح مع الطحطاوی ،ص: 51)


Thursday, June 22, 2023

تکبیر تشریق کے احکام




تکبیر تشریق کے احکام

الفاظ تکبیر تشریق:اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلَہَ اِلَّاللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْد

 ترجمہ:اﷲ سب سے بڑا ہے۔اﷲ سب سے بڑا ہے۔اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اﷲ سب سے بڑا ہے۔اور شکر و حمد اﷲ ہی کے لئے ہے۔

تکبیر تشریق کا پس منظر    

جب اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بذریعہ وحی(خواب) یہ حکم دیا کہ وہ اپنے نور نظر لخت جگرحضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے راستے میں قربان کر دیں، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام تعمیل حکم خداوندی میں نور نظرکو ذبح کرنے کے لیے چھری گلے پر رکھ دی؛ لیکن اللہ کی مرضی امتحان مقصود تھا جس میں صد فی صد حضرت ابراہیمؑ و اسماعیل ؑ امتحان میں کامیاب ہوئے،اور ارشاد ربانی ہوا:" قد صدقت الرؤیا "اور حضرت جبرائیلؑ کو جنت کا ایک دنبہ دیکر بھیجا، جب حضرت جبرئیلؑ دنبہ لے آسمان دنیاپر تشریف لائے آئے تو حضرت ابراہیمؑ و اسماعیل ؑ کو دیکھ بلند آواز سے کہا : اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ حضرت ابراہیم نے جب جبرئیل ؑ  کو دنبہ کے ہمراہ دیکھا تو کہنے لگے لا إله إلا الله والله اكبر اور جب اسماعیل علیہ السلام  نے دیکھا کہ اللہ نے میرے لئے ایک دنبہ بطور فدیہ بھیجا ہے ، تو حضرت اسماعیل کی زبان سے نکلا ۔ الله أكبر ولله الحمد تینوں مقدس ہستیوں کی تسبیحات ملکر تکبیرتشریق بن گئی جو قیامت تک اللہ نے امت پر واجب کردی ۔

تکبیر تشریق کی وجہ تسمیہ

تشریق' شروق سے مشتق ہے، تشریق کسی چیز کو دھوپ میں سکھانے کو کہتے ہیں، چوں کہ ان دنوں میں اہل عرب قربانی کا گوشت سکھایا کرتے تھے اس لیے ان دنوں کو 'ایامِ تشریق' کہا جانے لگا۔

ثبوت

رسول کریم ﷺسے یہ ثابت ہے کہ آپ یومِ عرفہ کی فجر سے ایامِ تشریق کے آخری دن کی عصر تک یہ تکبیرات ادافرماتے تھے:

"عن جابر عن أبي الطفيل عن علي وعمار أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يجهر في المكتوبات بـ {بسم الله الرحمن الرحيم}، وكان يقنت في الفجر، وكان يكبر يوم عرفة صلاة الغداة ويقطعها صلاة العصر آخر أيام التشريق". (2/389)

تکبیرِ تشریق پڑھنے کا طریقہ

تکبیر  تشریق مرد جہراً پڑھیں گے اور عورتیں آہستہ آواز سے پڑھیں گی ، (تبیین الحقائق  ہندیۃ ۱؍۱۵۲، درمختار زکریا ۳؍۶۴)

مسبوق بھی تکبیرِ تشریق پڑھے
مسبوق شخص اپنا سلام پھیرنے کے بعد تکبیر تشریق پڑھے گا۔ (ہندیۃ ۱؍۱۵۲، تبیین الحقائق ۱؍۵۴۶، )

تکبیرِ تشریق پڑھنا کب واجب نہیں رہتا

اگر تکبیرِ تشریق سے پہلے بات چیت کرلی، تکبیرِ تشریق سے پہلے عمداً وضو توڑ دیا، تکبیرِ تشریق پڑھے بغیر مسجد سے باہر آگیا، تکبیرِ تشریق پڑھنے سے پہلے سینہ قبلہ سے پھیر لیا،توان تمام صورتوں میں تکبیرِ تشریق کا وجوب اس کے ذمہ سے ساقط ہوجاتا ہے؛ (یعنی اس کا پڑھنا واجب نہیں رہتا) لہٰذا سلام پھیرنے کےبعد فورا تکبیرِ تشریق پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ فلو خرج من المسجد أو تکلم عامداً أو ساہیاً أو أحدث عامداً سقط عنہ التکبیر۔ (شامی زکریا ۳؍۶۳)

سلام کے بعد تکبیرِ تشریق سے پہلے بلاارادہ وضو ٹوٹ گیا

بعد سلام تکبیر تشریق پڑھنے سے پہلے خود بخود وضو ٹوٹ گیا تو اصح قول یہ ہے کہ اسی حالت  میں تکبیر تشریق کہہ لے، اور (شامی زکریا ۳؍۶۳)

مسئلہ : نو ذی الحجہ کی فجر کی نماز سے لے کر تیرہ ذی الحجہ کی عصر کی نماز تک تکبیر تشریق کا وقت ہے، اور یہ کل پانچ میں23 نمازیں بنتی ہیں۔*

مسئلہ: تکبیر تشریق ہر فرض نماز کے بعد مرد،عورت،شہری،دیہاتی، مقیم ومسافر، حاجی وغیرحاجی، تنہا اور جماعت سے نماز پڑھنے والے  پر ایک مرتبہ پڑھنا چاہئے۔*

مسئلہ: تکبیر تشریق فرض نمازوں بشمول جمعہ کی نماز کے بعد پڑھی جائےاور بہتر ہے عید الاضحیٰ کے بعد بھی پڑھ لی جائے۔ وتر، سنت اور نفل کے بعدتکبیر تشریق نہیں ہے۔*

مسئلہ: فرض نماز کے سلام کے بعد  فورا تکبیر پڑھنی چاہئے،  سلام کے  بعد اگر کوئی پڑھنا بھول جائے،اور نماز کے خلاف کوئی کام نہیں کیا ہوتو یاد آنے کی صورت میں تکبیر کہہ دینی چاہیے اور اگر نماز کے خلاف کوئی کام  کرلیا ہو ،مثلا: بات کرلیا، ہنس دیا وغیرہ  تو تکبیر کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔*

 


Monday, May 4, 2020

مسائل اعتکاف



معتکف کی فضیلت
عَنِ ابْنِ عَباَّسٍؓ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ قاَلَ فِیْ الْمُعْتَکِفِ: ’’ھُوَ یَعْتَکِفُ الذُّنُوْبَ، وَیَجْرِیْ لَہٗ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ کُلِّھَا۔‘‘ (رواہ أبو داود وابن ماجہ، مشکوٰۃ/ص: ۱۸۳/ باب الاعتکاف، الفصل الثالث)
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ،رحمت عالم  صلی اللہ علیہ و سلم  نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ’’ وہ (اعتکاف کی وجہ سے ) گناہوں سے بچا رہتا ہے ،اور اس کے لیے نیکیاں جاری رہتی ہیں، ساری نیکیاں کرنے والے کی طرح (اس کے لیے نیکیاں اتنی لکھی جاتی ہیں جتنی کرنے والے کے لیے )

اعتکاف کی تعریف 

اعتکاف کی نیت سے مرد کا مسجد شرعی میں ٹھہرنا یا عورت کا اپنے گھر کی مسجد میں بیٹھنا اعتکاف کہلاتا ہے 

اعتکاف کی قسمیں

اعتکاف کی تین قسمیں ہیں:
 (1)واجب اعتکاف: یہ وہ اعتکاف ہے جس کی نذر مانی جائے، مثلا:کوئی کہے اگر میرا یہ کام ہوگیا تو میں اتنے دنوں کا اعتکاف کرونگا۔
(2)مسنون اعتکاف:رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں اعتکاف کے لئے بیٹھنا مسنون اعتکاف ہے ' آپ ﷺ ۖ سے بالالتزام رمضان المبارک کے اخیرعشرہ میں اعتکاف کرنا ثابت ہے؛ ' اس لئے رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ ہے مگر یہ سنت مؤکدہ ایسا ہے کہ اگر بعض افرادمحلے کی مسجد میں اعتکاف کے لئے بیٹھ جائیں تو سب کا ذمہ فارغ ہو جائے گا ۔
(3)نفلی اعتکاف:رمضان المبارک کے آخیر عشرہ کے علاوہ کسی وقت بھی مسجد میں اعتکاف کی نیت سے بیٹھنا نفلی اعتکاف کہلاتا ہے۔

شرائطِ اعتکاف

اعتکاف کی صحت کے لئے چند شرائط کا ہونا ضروری ہے ۔
(1)اعتکاف نفلی ہو ' واجب ہو  یا  سنت سب میں اعتکاف کی نیت کا ہونا شرط ہے بغیر نیت کے مسجد میں ٹھہرنا شرعی اعتکاف نہیں کہلاتاہے ۔
(2)اور نیت کی صحت کے لئے اسلام اور عقل شرط ہے؛ اس لئے معتکف کا مسلمان ہونا اور عاقل ہونا بھی لازمی ہے؛ البتہ اعتکاف کے لئے بلوغ شرط نہیں لہذا اگر سمجھدار بچہ اعتکاف کیلئے بیٹھ جائے تو اعتکاف درست ہے ۔
(3)اسی طرح اعتکاف کے لئے معتکف کا جنابت ' حیض ونفاس سے پاک ہونا بھی ضروری ہے۔
(4)اعتکاف کے لئے شرعی مسجد کا ہونا ضروری ہے چاہے اس میں پنج وقت نماز باجماعت ادا ہوتی ہو یا نہیں۔ البتہ عورت گھر میں اس جگہ اعتکاف کرلے جہاں وہ پنجگانہ نماز پڑھتی ہو اور جگہ مقرر نہ ہو تو اعتکاف سے پہلے نماز کے لئے جگہ مقرر کرکے وہاں اعتکاف کرلے۔
(5)واجب اعتکاف کیلئے روزہ رکھنابھی ضروری اور شرط ہے ' حتی کہ اگر اعتکاف کیلئے بیٹھنے سے پہلے قبل نیت بھی کرلے کہ میں روزہ نہیں رکھوں گا تب بھی روزہ رکھنا ہوگا! ہاں روزہ کا خاص اعتکاف کیلئے رکھنا ضروری نہیں خواہ کسی بھی غرض سے روزہ رکھا جائے تو بھی اعتکاف کیلئے کافی ہے ' اسی طرح مسنون اعتکاف کیلئے بھی روزہ شرط ہے اگرچہ مسنون اعتکاف میں عموماً رمضان کا روزہ ہی ہوتا ہے۔البتہ نفلی اعتکاف کیلئے مفتی قول کے مطابق روزہ شرط نہیں۔

مسائل اعتکاف 

  مسئلہ:      اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں رہے اور سوائے ایسی حاجات ضروریہ کے جو مسجد میں پوری نہ ہوسکیں (جیسے پیشاب، پاخانہ کی ضرورت یا غسل واجب اور وضو کی ضرورت) مسجد سے باہر نہ جائے۔
مسئلہ:     رمضان کے عشرئہ اخیر میں اعتکاف کرنا سنت موٴکدہ علی الکفایہ ہے۔ یعنی اگر بڑے شہروں کے محلہ میں اور چھوٹے دیہات کی پوری بستی میں کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب کے اوپر ترکِ سنت کا وبال رہتا ہے اور کوئی ایک بھی محلہ میں اعتکاف کرے تو سب کی طرف سے سنت ادا ہوجاتی ہے۔
مسئلہ:     بالکل خاموش رہنا اعتکاف میں ضروری نہیں؛ بلکہ مکروہ ہے؛ البتہ نیک کلام کرنا اور لڑائی جھگڑے اور فضول باتوں سے بچنا چاہیے۔
مسئلہ:     اعتکاف میں کوئی خاص عبادت شرط نہیں، نماز، تلاوت یا دین کی کتابوں کا پڑھنا پڑھانا یا جو عبادت دل چاہے کرتا رہے۔
مسئلہ:      جس مسجد میں اعتکاف کیاگیا ہے، اگر اس میں جمعہ نہیں ہوتا، تو نماز جمعہ کے لیے اندازہ کرکے ایسے وقت مسجد سے نکلے جس میں وہاں پہنچ کر سنتیں ادا کرنے کے بعد خطبہ سن سکے۔ اگر کچھ زیادہ دیر جامع مسجد میں لگ جائے، جب بھی اعتکاف میں خلل نہیں آتا۔
مسئلہ:    بلا ضرورت طبعی شرعی تھوڑی دیر بھی مسجد سے باہر چلا جائے گا تو اعتکاف فاسد ہوجائیگا، خواہ عمداً نکلے یا بھول کر۔ اس صورت میں اعتکاف کی قضا کرنا چاہیے۔
مسئلہ:      آخر عشرہ کا اعتکاف کرنا ہوتو ۲۰/تاریخ کو غروبِ آفتاب سے پہلے مسجد میں چلا جائے اور جب عید کا چاند نظر آجائے تب اعتکاف سے باہر ہو۔
مسئلہ:     غسلِ جمعہ یا محض ٹھنڈک کے لیے غسل کے واسطے مسجد سے باہر نکلنا مُعتکف کو جائز نہیں ہے۔
مسئلہ:       واجب اعتکاف کم از کم ایک دن کا ہوسکتا ہے اور زیادہ جس قدر چاہے معتکف نیت کرسکتا ہے،مسنون اعتکاف دس دن ہوگا۔ اس لئے مسنون اعتکاف رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں ہوتا ہے اور مستحب اعتکاف کے لئے کوئی مقدار مقرر نہیں۔
مسئلہ: معتکف کیلئے حالت اعتکاف میں مسجد سے حاجت انسانی مثلاً بول وبراز ' غسل جنابت کے لئے نکلنا بشرطیکہ مسجد میں غسل کا انتظام ممکن نہ ہو اور حاجت شرعی مثلاً جمعہ اذان وغیرہ کیلئے نکلنا جائز ہے؛ مگر جیسے ہی ضرورت پوری ہو جائے تو واپس مسجد چلا آئے۔ اسلئے بلاضرورت مسجد سے ایک لمحہ کیلئے نکلنے سے بھی اعتکاف فاسد ہو جاتا ہے۔
مسئلہ: قضاء حاجت کے لئے قریب سے قریب تر جگہ جانا چاہیے ۔قضاء حاجت میں وضو کرنا بھی ضروری ہے ۔
مسئلہ: اخراج ریح کے لئے مسجد سے نکلنا مندوب ہے ' اور مسجد میں اخراج ریح کراہت سے خالی نہیںہے۔
مسئلہ:  حقہ وغیرہ پینے کے لئے مسجد سے نکلنا درست نہیں ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ اس ضرورت کو قضاء حاجت کے دوران پورا کیا جائے  یا مسجد کے احاطہ میں کھڑے ہو کر دھواں باہر نکالا جائے ۔ 
مسئلہ: اعتکاف کے دوران اخبار پڑھنے یا خبریں سننے سے احتراز کرنا چاہیے۔ اعتکاف کے دوران رضا الہٰی والے امور میں مشغول رہنا چاہیے۔
مسئلہ: اعتکاف کیلئے چونکہ ساری مسجد معتکف ہے اس لئے معتکف دھوپ کے لئے مسجد کے کسی بھی کونے میں بیٹھ سکتا ہے ۔ 
مسئلہ: معتکف کیلئے اعتکاف کی حالت میں خاموشی کو عبادت سمجھ کر چپ رہنا مکروہ تحریمی ہے مگر بلاضرورت اور فضول باتوں سے احتراز کرے دوران اعتکاف دینی اور دنیوی گفتگو بقدر ضرورت کی جاسکتی ہے۔
مسئلہ: معتکف کے لئے مسجد میں اتنی جگہ گھیرنا جس سے دوسرے معتکفین یا نمازیوں کو تکلیف ہو مکروہ ہے۔
مسئلہ: اعتکاف کے دوران مجبوری میں خرید و فروخت کرنا اگرچہ جائز ہے مگر سودا مسجد میں لانا مکروہ تحریمی ہے۔
مسئلہ:اعتکاف کے دوران نماز جنازہ ' کسی مریض کی عیادت سرکاری یا غیر سرکاری ڈیوٹی ' اور اس قسم کے دوسرے قسم کے امور کے لئے نکلنا جو حوائج انسانی یا شرعی میں داخل نہیںہے ۔تاہم اگر معتکف اعتکاف میں بیٹھنے سے قبل مذکورہ امور کے لئے نکلنے کی نیت کرے تو بقدر ضرورت نکل سکتا ہے ۔
مسئلہ:اعتکاف کا مقصد چونکہ قرب الہیٰ حاصل کرنا ہے ' اس لئے معتکف اپنے گھر بار دینوی مشاغل چھوڑ کر مسجد میں مقیم ہو جاتا ہے ' فقہا کرام نے لکھا ہے کہ معتکف حالت اعتکاف میں قرآن کریم کی تلاوت ' احادیث مبارکہ ' آنحضرت ۖ کی سیرت طیبہ ' انبیاء کرام اور سلف صالحین کے حالات کے مطالعہ اور دیگر دینی امور میں مشغول رہنا چاہیے۔ دنیاوی باتیں ' ہنسی مذاق سے احتراز کرنا چاہیے ۔ (الہندیة ،ج:1ص:221۔)
مسئلہ:اعتکاف ایک عبادت ہے، اس پر نہ اجرت کا لینا جائز ہے اور نہ دینا جائز ہے، اور نہ اس کے لئے نمازیوں سے چندہ کرنا جائز ہے، اور نہ باہر سے کرایہ پر معتکف کو لانا جائز ہے، اس لئے ان طریقوں کو ختم کرکے ہر مسجد میں بلااجرت اعتکاف کے لئے معتکفین کا انتظام کرنا چاہئے؛ تاکہ ترکِ اعتکاف کے گناہ سے پوری آبادی محفوظ رہ سکے۔ ( کتاب النوازل ،ج:6ص:241۔ )
مسئلہ: اعتکاف مسنون ٹوٹ جانے کی صورت میں امام ابویوسفؒ کے نزدیک پورے دس یوم کی قضا لازم ہوتی ہے، جب کہ طرفین کے نزدیک صرف اسی دن کی قضا لازم ہوتی ہے جس دن اعتکاف ٹوٹا ہے؛ اس لئے احوط یہ ہے کہ دس دن کی قضا کی جائے؛ لیکن یہ مشکل ہو تو کم از کم ایک یوم کی قضا تو بہر حال لازم ہے اور یہ قضا روزہ کے ساتھ ہوگی۔ ( کتاب النوازل ،ج:6ص:242۔)
مسئلہ:  کسی عورت کواس بات کایقین ہے کہ پچیسویں رمضان کو حیض آئے گا، تو ایسی عورت کے لئے اعتکاف مسنون کی نیت سے بیٹھنا مناسب نہیں ہے؛ لیکن اگر وہ اس کے باوجود بیٹھ گئی اور درمیانِ اعتکاف حیض آگیا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوگیا، اور پاک ہونے کے بعد کم از کم ایک دن کے اعتکاف کی قضا روزے کے ساتھ کرے۔  ( کتاب النوازل ،ج:6ص:246۔ )
مسئلہ: نفلی اعتکاف حالتِ حیض ونفاس میں درست نہیں ہے؛ کیوں کہ حیض ونفاس سے پاک ہونا ہر طرح کے اعتکاف کے لئے لازم ہے۔ ( کتاب النوازل ،ج:6ص:247۔ )

نوٹ : یہ تحریرعاجز کی مستقل نہیں ہے ؛بلکہ تحفہ خواتین، ماہنامہ الحق ستمبر2004۔فتاویٰ حقانیہ، فتاویٰ رحیمیہ اور کتاب النوازل وغیرہ کی تحریروں کو جمع کردیا ہے ۔
رمضان سے متعلق مضامین 

Wednesday, April 29, 2020

تراویح میں ہونے والی کوتاہیاں



تراویح میں ہونے والی کوتاہیوں سے بچنا ضروری ہے!

ارشاد باری ہے :
اَلَّذِينَ اٰتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهٗ حَقَّ تِلاَوَتِهٖ أُوْلٰٓئِكَ يُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ۔ (البقرہ:122)
جن کو ہم نے یہ کتاب (قرآن کریم) دی ہے وہ اِس کی اِس طرح تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ تلاوت کرنے کا حق ہے۔یہی وہ لوگ ہیں جو اِس پر ایمان رکھتے ہیں۔
تراویح سنت مؤکدہ ہے اور اس میں ایک مرتبہ قرآن مجید ختم کرنا بھی سنت ہے، قرآن مجید پڑھنے میں صحت کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے، حروف بدل جانے سے یعنی س کی ص یا ث، اسی طرح ص کی جگہ س یا ث، ض کی جگہ ز یا ذ، ذ کی جگہ ض یا ز، ت کی جگہ ط، ط کی جگہ ت وغیرہ پڑھنے سے لحن جلی لازم آتا ہے اور کبھی اس قسم کی غلطی سے معنی بدل کر نماز فاسد ہوجاتی ہے، مد، غنہ، اخفاء اور اظہار کی غلطی لحن خفی ہے، اس سے نماز تو فاسد نہ ہوگی مگر بڑی فضیلتوں سے محرومی ہوگی، رمضان المبارک جیسے مقدس اور مبارک مہینے میں اگر تراویح میں باقاعدہ اور پوری صحت ، دلچسپی اور ذوق و شوق کے ساتھ قرآن مجید ختم نہ کیا جائے تو اس سے زیادہ محرومی اور کیا ہوگی؟
تیز پڑھنا مطلقاً قابل مذمت نہیں ہے، اسی لئے قراء نے قراءت کے تین درجے مقرر کئے ہیں، ترتیل، تدویر اور حدر، ترتیل میں آہستہ پڑھا جاتا ہے، تدویر میں اس سے تیز اور حدر میں اس سے تیز، مگر شرط یہ ہے کہ صحت اور صفائی میں کوئی خامی نہ آنے پائے، جو امام تراویح ایسا جلدی اور تیز پڑھتا ہو کہ پاس والے مقتدیوں کو بھی سمجھ میں نہیں آتا تو ایسی قراءت نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر ایسی غلطی ہوجائے کہ جس سے لحن جلی لازم آئے اور معنی بدل جائے تو ایسی صورت میں کسی کی بھی تراویح نہ ہوگی اور رمضان المبارک میں تراویح کے اندر ایک مرتبہ قرآن ختم کرنے کی جو سنت ہے وہ سنت بھی کسی کی ادا نہ ہوگی۔
امام پر لازم ہے کہ صحیح صحیح پڑھے، تمام حروف مخارج سے ادا کرنے کا اہتمام کرے اور مقتدیوں پر بھی لازم ہے کہ ایسے شخص کو امام بنائیں (فرض نماز ہو یا تراویح) جو قرآن مجید صحیح صحیح پڑھتا ہو، آج کل حفاظ اور لوگوں نے تراویح میں بہت ہی لا پرواہی اختیار کررکھی ہے، جس میں مسجد میں جلد تراویح پوری ہوتی ہو اور جو حافظ غلط سلط پڑھ کر جلد ختم کردیتا ہو نہ سنت کے مطابق رکوع و سجدہ کرتا ہو نہ قومہ وجلسہ میں تعدیل ارکان کی رعایت کرتا ہو اس کی تعریف کی جاتی ہے، کس قدر افسوس کی بات ہے یہ صورت بھی ہجران قرآن (قرآن چھوڑنے) میں داخل ہے۔

( مستفاد: انوار الاسلام بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ:۶/۲۶۷، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی۔فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۴/۲۵۷، مکتبہ دارالعلوم دیوبند)


اسی ملتے جلتے مضمون

جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے 
جدید مسائل جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے
سحری و افطاری میں نبوی طریقے