﷽
نواقض وضو
اصولی طورپر نیچے کی چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے :
1. آگے یا پیچھے کی شرمگاہ سے کسی چیز کا نکلنا مثلاً پاخانہ، پیشاب، استحاضہ کا خون، کیڑا وغیرہ
2. پیچھے کے راستہ سے ہوا کا نکلنا ۔
3.
بدن کے کسی حصے سے نجاست کا نکل کے بہہ جانا،مثلا خون، پیپ، مواد
وغیرہ۔
4.
منھ بھر کے قے کرنا ۔
5.
ٹیک لگا کر سوجانا ۔
6.
بے ہوش یا پاگل ہوجانا ۔
7.
بالغ کا رکوع سجدہ والی نماز میں قہقہہ لگانا۔
8. مباشرت فاحشہ یعنی بلا کسی
حائل کے شرمگاہ کا شرمگاہ سےملانا ۔
سبیلین سے نکلنے والے:یعنی ہر وہ چیز جو آگے اور پیچھے کے راستے سے نکلےخواہ نکلنے والا ایسا ہو
جو عادتا نکلتا ہے ،جیسے: پیشاب ،پائخانہ ،
مذی ،ریاح وغیرہ یا وہ ہو جو عادتا نہیں نکلتا ہے ،جیسے : حیض ، نفاس، کیڑا
، پتھروغیرہ ۔ان تمام چیزوں کی نکلنے سے وضو ٹوٹ جائیگا ۔
مسئلہ :مرد کے آگے کے عضو سےہواکا نکلناناقض وضو نہیں ہے ،
(شامی مصری ج:1ص:126)
مسئلہ : عورت کی اگلی شرمگاہ سے ہوا کا نکلنا بھی ناقض وضو
نہیں ہے ، ہاں اگر عورت مفضات ہوں یعنی ایسی عورت ہو جس کے سبیلن کا پردہ پھٹ گیا
یا پردہ میں سوراخ ہو گیا ہو تو پھر ایسی عورت کی اگلی شرمگاہ سے نکلنے والی ہواسے
وضو ٹوٹ جائیگا ۔ (شامی مصری ج:1ص:126)
مسئلہ : بعض امراض کی وجہ سے طبعی طریقہ پر فضلا ت کانکالنا دشوار ہوتا ہے جس کی وجہ
سے ان دونوں جگہوں پر یا پیٹ کے نچلے حصے میں جگہ بناکر پائپ لگا دیا جاتا ہے، جس
سے پیشاب و پائخانہ خارج ہوکر ایک تھیلی میں جمع ہوتا ہے،جب پیشاب و پائخانہ نکل کر نلکی میں آجائے ،تو یہ ناقض وضو ہوگا، اور
چوں کہ پیشاب نلکی میں تقریبا تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے، لہذا یہ مریض سلسل
البول کے حکم میں ہوگا اور اس کے لیے ہر نماز کے وقت وضو واجب ہوگا۔
قے کرنا : کھانا ، پانی ، جمے ہوے خون یا پت کی منھ بھرکی قے
کرنا ناقض وضو ہے، منھ بھر کی قے کا پہچان یہ ہے کہ بلاتکلف منھ بند نہ کرسکے ۔
مسئلہ : اگر ایک ہی دفعہ کی متلی سے قے تھوڑا تھوڑا کئی
مرتبہ ہوا ہو اور ان سب کی مقدار اس قدر ہو جو منھ بھر کے بقدر ہو تو اس سے بھی
وضو ٹوٹ جائیگا ۔
مسئلہ: قے تھوڑا تھوڑا کئی متلی سے ہوا ہو تو سب کو جمع
نہیں کیا جائیگا ۔(مراقی الفلاح ،ص: 49)
بدن کے کسی حصہ سے نجاست کا خروج: یعنی بدن کے کسی دوسرے
حصے سے کسی نجس چیز کا نکل کرایسے مقام کی جانب بہہ جانا جسکو وضو یا غسل میں پاک
کرنا ضروری ہو، اگر وہ نجس چیز بہا نہ ہو صرف دیکھا یا اسی جگہ نکل کر ٹہرا رہا تو
فقط اس ظہور سے وضو نہیں ٹوٹے گا ۔( مراقی الفلاح ص: 48)
مسئلہ
: اگر دانت یا منھ سے خون نکلا اور خون کی سرخی تھوک پر غالب ہو تو وضو ٹوٹ جائیگا
،اگر تھوک صرف زرد ہو تو خون مغلوب ہوگا اور اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا ۔( مراقی الفلاح ص:49)
مسئلہ : اگر کان سے خون یا مواد بہا اور اس حصہ تک آگیا جہاں دھونا غسل میں
فرض ہے تو وضو ٹوٹ جائیگا ۔(شامی ،ج: 1ص،: 137)
ٹیک لگا کر سوجانا : جس نیند کی وجہ سے انسان
اپنے اعضاء پر قدرت نہ رکھ سکےاس کی
وجہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، لہذا اگر کوئی شخص پہلو پر یا ایک کولہے پر
یا چہرے کے بل یا چت لیٹ کرسوجائے یا کسی ایسی چیز سے ٹیک لگا کر سوجائے کہ اگر اس
چیز کو ہٹایا جائے تو وہ گرجائے تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس میں وقت کی کوئی
مقدار نہیں اگر تھوڑی دیر بھی آنکھ لگ جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔البتہ صرف اونگھنے
سے وضو نہیں ٹوٹتا ۔( مراقی الفلاح ص:49)
بے ہوش یا پاگل ہوجانا: کسی شخص پر بے ہوشی یا
جنون طاری ہوجا ئے تو وضو ٹوٹ جا تا ہے ،
مسئلہ : شراب یا افیون
وغیرہ کے استعمال سے اس قدر نشہ طاری ہوجائے کہ وہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگے تو یہ
ناقض وضو ہے ۔ (کتاب المسائل ص: 156)
نماز میں قہقہ لگانا: یعنی اگر کسی بالغ شخص
نے نماز میں قہقہ لگایا تو اس کا حکم اس طرح ہے ،قہقہہ وہ ہنسی ہے جو دوسرے کو بھی
سنائی دے اس سے بیداری کی حالت میں وضو اور نماز دونوں فاسد ہوجاتے ہیں۔ ضحک وہ
ہنسی ہے جس کی آواز اپنے تک محدود رہے اس سے بیداری کی حالت میں نماز فاسد ہوتی ہے
، نہ کہ وضو۔ اور تبسم وہ مسکراہٹ ہے جس میں کوئی آواز نہ ہو۔ اس سے نہ نماز فاسد
ہوتی ہے نہ وضو، نماز کے اندر سونے کی حالت میں ہنسنے یعنی ضحک سے نہ نماز فاسد
ہوتی ہے نہ وضو، اور سونے کی حالت میں قہقہہ لگانے سے صرف نماز فاسد ہوجاتی ہے وضو
نہیں ٹوٹتا۔ (نجم الفتاویٰ جلد دوم )
مسئلہ: نماز
جنازہ میں آواز سے ہنسی آگئی تو وضو نہیں ٹوٹے گا البتہ نماز باطل ہو جائیگی
۔(شامی ،ج:1 ص:135)
مسئلہ : دوران
سجدہ تلاوت ہنسی آجائے تو تو وضو نہیں ٹوٹے گا البتہ سجدہ تلاوت باطل ہو جائیگی
۔(شامی ،ج:1 ص:135)
مباشرت فاحشہ: یعنی بغیر کسی پردہ وغیرہ کے شرمگاہوں کا شہوت کے ساتھ ملنابھی ہے ناقض وضو ہے ، اگرچہ مذی (رطوبت) نہ نکلنے ۔ خواہ مرد کا عورت سے ہو یا مرد کا مرد کے دبرسے ہو یا عورت کا عورت سے ہو ( مراقی الفلاح مع الطحطاوی ،ص: 51)