﷽
Showing posts with label مضمون حکومت. Show all posts
Showing posts with label مضمون حکومت. Show all posts
Sunday, April 5, 2020
شب برات اور کورونا وائرس
1۔ شعبان کے مہینے میں نبی رحمت ﷺ بہ نسبت دوسرے مہینوں کے نفلی روزے زیادہ رکھا کرتے تھے بلکہ دو چار دن چھوڑ کر یہ مہینہ نفل روزوں میں گزارتے تھے۔؛اس لئے اس کا خاص اہتمام کیا جائے ۔ 2۔ شعبان کی پندرہویں رات نفلی نماز انفرادی طورپراداکرنی چاہیے۔ 3۔ شعبان کی پندرہویں تاریخ کو نفلی روزہ رکھنا چاہیے۔ 4۔ اس رات کو حضور اقدسﷺ قبرستان تشریف لے گئے؛ مگر وہاں نہ میلہ لگایا،نہ چراغ جلایا،اور نہ اجتماعی طور پر گئےتھے۔؛اسلئے ہم کو بھی انفرادی طورپر اگر ممکن ہوتو قبرستان جانا چاہیے ورنہ گھروںمیں رہتے ہوئے ایصال ثواب کرناچاہیے۔
Friday, April 5, 2019
الیکشن اور حال مسلم
﷽
الیکشن اور حال مسلم
ہندوستان میں ایک بار پھر الیکشن کا ہنگامہ گرم ہورہاہےاوریہ ہنگامہ آئے دن گرم ہوتا جارہاہے،بعض مسلمان تو اپنی بے کسی و بےچارگی کا گاناگانے میں لگےہیں تو بعض لوگ مسلمان کہلا کر بھی دوسرے مسلمان کی بد گوئی ایک دوسرے کی عزت و آبرو سے کھیلنے میں مگن ہیں۔اور بعض پڑھے لکھے طبقہ اپنے ہی مسلم سیاست دان اور دانشوران قوم وملت پر فیس بک ،واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا کےذریعہ زہرافشانی کرنے میں لگاہیں ،اور بعض تو الیکشن کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے ہیں ،ممکن ہے ان تمام بیمار کیلئے یہ مختصر مضمون قرآن وحدیث کی روشنی میں درما بنے ۔
ووٹ کی شرعی حیثیت
شرعاً ووٹ کی حیثیت فقہاء کرام کی عبارت کی روشنی میں تین قسم کی ہو سکتی ہے(1) شہادت(2) شفاعت (سفارش)(3) وکالت ۔گویاکہ جس شخص کو ووٹ دیا جاتا ہے، اس کے حق میں ملک وملت کے خیر خواہ ہونے کی شہادت دی جاتی ہے، اور اس عہدہ کیلئے ایک قسم کی سفارش کرتے ہوئےمتعلقہ امیدوار کو وکیل اور نمائندہ بنایا جاتا ہے۔
الیکشن میں اپنے آپ کو بحیثیت امیدوار پیش کرنا
اسلام میں طلب عہدہ کی ممانعت ہے نبی رحمت ﷺ کا ارشاد عالی ہے :
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ لِىَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- 171 يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ لاَ تَسْأَلِ الإِمَارَةَ فَإِنَّكَ إِذَا أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ فِيهَا إِلَى نَفْسِكَ وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا 187 (سنن أبي داؤد ، أبواب الأحکام ، سنن نسائي ، باب النھي عن مسألۃ الإمارۃ ، )
آپ ﷺنے فرمایا کہ جب آدمی مطالبہ کے بغیر کسی ذمہ داری پر فائز کیا جاتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی خاص مدد ہوتی ہے ، اور جب مطالبہ اور سوال کے ذریعہ کوئی عہدہ حاصل کرتا ہے تو کاپنے نفس کے حوالہ کردیا جاتا ہے اور اللہ کی مدد اس کی شریک حال نہیں ہوتی ہے ۔
لیکن اگر طلبِ عہدہ کے پیچھے خواہش نفس کا دخل نہ ہو،بلکہ محض انسانیت کا درد،ملک و ملت کے ساتھ مفاداتِ عامہ کے تحفظ کا جذبہ کارفرما ہو، نیز جبر وظلم اور شرور وفتن سےخلق خداکو بچانا مقصود ہو ، اور اس عہدہ ومنصب کے لائق تنہا ایک ہی شخص موزوں ہو، تو اب اس شخص موزوںپرمذکورہ تمام مقاصد کے حصول کے لیے الیکشن میں اپنے آپ کو بحیثیت امیدوار پیش کرنا واجب ہے۔اور رہی بات حدیث بالا کا مطلب تو یہ ہے کہ طلب عہدہ حسب ذیل لوگوں کیلئے ممنوع ہے ۔
(1)جو اس عہدے کا لائق نہ ہو ۔(2) جو محض حض نفس کیلئے عہدہ چاہتاہو۔(3) لائق و فائق جو ملک و ملت کیلئے بہتر ہو اس کو عہدہ سے محروم کرنے کا متمنی ہو وغیرہ وغیرہ۔چنانچہ شامی میں ہے:
أَمَّا إذَا تَعَيَّنَ بِأَنْ لَمْ يَكُنْ أَحَدٌ غَيْرُهُ يَصْلُحُ لِلْقَضَاءِ وَجَبَ عَلَيْهِ الطَّلَبُ صِيَانَةً لِحُقُوقِ الْمُسْلِمِينَ،وَدَفْعًالِظُلْمِ الظَّالِمِينَ (شامی،مَطْلَبُ طَرِيقِ التَّنَقُّلِ عَنْ الْمُجْتَهِدِ،)
جو سیاسی پارٹیاں کھلے طور پر مسلم دشمن ہیں اس پارٹی میں شرکت
جو سیاسی پارٹیاں کھلے طور پر اسلام ومسلمان کےدشمن ہیں اور ان کے دفعات و قانون میں اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت شامل ہے، توایسی پارٹی میں شامل ہونے کی گنجائش نہیں ہے، کیوں کہ فرقہ واریت پر مبنی منشور والی پارٹی میں شرکت اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت میں تعاوُن کے مترادف ہے، جو شرعاًحرام و ممنوع ہے۔ کئی دفعہ دیکھا جاتا ہے کہ آدمی اپنی ذاتی مفاد کیلئے اسلام اور مسلمان مخالف پاڑیوں سے ہاتھ ملاکر اسلام و مسلمان کی رسوائی و بربادی میں معاون بن جاتا ہے ،خدا کے واسطے ایسے لوگوں کوڈر نا چاہیے کہ وہ کل قیامت کے دن اللہ و رسول کو کیا منھ دیکھائیگا، اللہ رب العزت کا فرمان ذی شان ہے :{ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان } ۔ ( سورۃ المائدۃ : ۲ )
لمحہ فکر
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستان والو
تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
اس وقت ہندوستان میں2019،کا لوک سبھا الیکشن ہونے جارہاہے کیا ہی خوب ہوتا کہ تمام مسلمان ایک پلیٹ فارم پر آکر ملک و ملت کیلئے اسی فکر ونظر سے سوچتے جو ہمارے اکابرواسلاف ہمیں ایک جمہوری ملک میں رہنے کے طوروطریق کادرس دیکر گئے تھے ،کیا ہم اپنے اکابرو اسلاف کا درس بھول گئے ہیں؟یا اس وقت جو مسلمانوں کی حالت ہے وہ ہماری نگاہوں کے سامنے نہیں ہے؟ ہم مسلسل کتابوں ،تحریروں ،تقریروں،مناظروں اور ریلیوں کے ذریعہ پوری دینا کویہ پیغام دیتے ہیںکہ اسلام امن و سلامتی کا پیغام دیتا ہے، دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا، دہشت گردی کی مخالفت کرتا ہے، مگر اب تک کسی نے نہ سنااورنہ مانا،نہ یقین کیا، اس کی وجہ یہی ہے کہ جس کی لاٹھی اسی کی پھینس ،ہم الیکش کے موقعہ پر اپنی ذاتی مفاد کے مد نظر قوم و ملت کو گروی رکھکرلاٹھی کسی اور کے ہاتھ میں دیدیتے ہیں اور جب دجالی و فرعونی ہاتھوں کا شکنجہ ہمارے سروں پر آپہونچتا ہے تو ریلیاں،جلسے جلوس اور نہ معلوم کیا کیا نہیں کرنے لگتے ہیں،اگر ہم شروع ہی میں بیدار مغزی سے کام لیں تو پھر ظلم وبربریت کے دن دیکھنے کو نہیں ملیں گے ۔
اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد کم نہیں ہے،ہندوستان پوری دنیاں میں دوسری سب سے زیادہ تعداد والا ملک ہے جہاں پر تقریبا 24کڑور مسلمانوں کی آبادی ہے اگر یہ متحد ہوجائیں تو دنیاں کی بڑی سے بڑی طاقت گھٹنہ ٹیک دے ؛لیکن ہم مال کی بنیاد پر،جاہ وجلال کی بنیاد پر ،مسلک کی بنیاد پر تقسیم ہوکر رہ گئے ،ہمیں گزشتہ لوک سبھا الیکشن سے سبق لینا چاہیے کہ سو سو سیٹوں میں ہماراکوئی مسلم لیڈر چیت کر نہ آسکا اسکی واحد وجہ یہی تھی کہ ایک ایک علاقہ میںدو دو تین تین مسلم لیڈر کھڑے ہوگئے جس کی وجہ سے مسلمانوں کاوؤٹ تقسیم ہوکر رہ گیا اور بازی مسلم مخالف طاقت لے لی، ابھی حال ہی میں ایک علاقہ سے ایک مسلم ساست دان کھڑا ہوا تو دوسری جانب ایک دوسرے مسلم نے دوسری پارٹی سے ٹکٹ لیکرکھڑا ہو گیا اور دونوں امیدوار کی جانب سے ان کے ماننے والے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے میں لگے ہیں اگر یہ صورت حال رہی تو نہ یہ آئیں گے نہ وہ ،جبکہ اس علاقہ کی تاریخ رہی ہے کہ کئی دہائیوں سے مسلم لیڈر ہی جیت کر آتے ہیں۔اسی تناظر میں ہم بے ساختہ کہتے ہیں،،شریک جرم ہم خود بھی تو ہیں!،،
الیکشن میں مسلمانوں کا رول
یہ سوال سب کے سامنے ہے کہ ہم لوگوں کو کیسی حکومت کی ضرورت ہے ؟ اس کا فیصلہ ہم ووٹنگ بوتھ میں جانے سے پہلے کریں ۔ ہمارے علماء کرام اور قوم وملت کیلئے درد جگررکھنے والے حضرات جس کو کہیں انہی کو کامیاب بنائیں ، ہم لوگ صرف پارٹی اور امید وار کو دیکھ کر اپنا ووٹ ضائع نہ کریں ،ہم انہیں کو ووٹ دیں جس کا منشور مسلم مخالفت پر نہ ہو اور خاص کر وہ پارٹیاں جو اسلام اور مسلمانوں کیلئے آئے دن زہر افشانی کرتی رہتی ہیں چاہےوہ ہمیں جتنا بھی چھوٹے وعدے کریں اگر ہم امیدواروں کے جھوٹے وعدوں کو دیکھ کر انہیں کامیاب کرائیں تودوبارہ الیکشن ہونے تک پچھتاوا ہمارے ساتھ رہے گا ،ساتھ جو حال مسلمانوں کا ہوگا وہ کسی پر مخفی نہیں ہے ۔ اگر کوئی مسلم لیڈرایسی پارٹی کا ساتھ دے جو سیکولر اور جمہوریت کے خلاف کام کرتی ہے تو ایسے مسلم لیڈر کو بھی ووٹ نہ دیا جائے، اس کے مقابلے کوئی غیر مسلم لیڈر جو سیکولر پسند اور جمہوریت کو فروغ دیتاہواور اپنے ذہن و دماغ سے اسلام و مسلمان کے خلاف زہر افشانی نہ کرتاہو تویقینا اس غیر مسلم کا ساتھ دینا چاہیے۔بس آخر میں یہی تمناہےکہ ووٹنگ بوتھ پر جانے سے قبل رہنماؤں سے معلوم کرلیں کہ کس کو ووٹ دیناہے ؟ورنہ ہمارا ووٹ تو ضائع ہوگاہی ساتھ میں غلط پارٹی کو ووٹ دیکر اپنی بربادی کاشریک جرم ہم خود ہوں گے ۔
اسی سے ملتے جلتے چند اہم مضامین
حضرت مولانا سجاد نعانی مد ظلہ العالیٰ کا ایک گراں قدر مضمون
Thursday, March 21, 2019
مسلمانانِ ہند کی نئی حکمتِ عملی
مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی
بعد حمد و صلاة :
ہم حالت جنگ میں ہیں اور جنگوں میں کبھی بھی ایک ہی طریقہ نہیں اپنایا جاتا، جنگی حکمت عملی بدلتی رہتی ہے، ہر جنگ اس وقت کے مناسب حالات اور طریقے کے مطابق لڑی جاتی ہے۔سیرت نبوی کا نمونہ ہمارے سامنے ہے، بدر میں تو کوئی تیاری ہی نہیں تھی اچانک جنگ سامنے آ گئی، احد میں مسئلہ پیش آیا تو مشورہ ہوا، اس مشورہ میں دو رائے آئیں، ایک رائے یہ تھی کہ باہر نکل کر جنگ نہ کی جائے ہماری پوزیشن ایسی نہیں ہے کہ ہم باہر نکل کر جنگ کریں، بدر کی فتح کے با وجود اکثر صحابہؓ کی رائے یہی تھی کہ باہر نکل کر جنگ نہ کی جائے، لیکن نوجوانوں کی رائے تھی کہ مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کی جائے اور اللہ کے رسولﷺ نے مصلحتا نوجوانوں کی رائے کو قبول کرلیا اور جنگ ہوئی، اس کے بعد خندق کی جنگ اللہ کے رسولﷺ نے بالکل نئے طریقے سے لڑی۔۔۔یہ میں اشارے کر رہا ہوں آپ اہل علم ہیں آپ کے سامنے تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں کفر و اسلام، حق و باطل اور ظلم و انصاف کی لڑائی چل رہی ہے، اس کی حکمت عملیاں بھی بدلتی رہی ہیں اور بدلتے رہنے کی ضرورت ہے، ہمیں جاننا چاہیے کہ ہمارے ملک میں ظلم و انصاف کی جو بھیانک جنگ عرصہ سے چل رہی ہے، اس کے مختلف مراحل اور اسٹیج آئے ہیں، آپ کا یہ احمد نگر کا علاقہ بھی اس جنگ کی تاریخ کا ایک گواہ رہا ہے، اس جنگ کا ایک مرحلہ یہاں سے بھی گزرا ہے، ہمارے دور میں وہ جنگ ایک فیصلہ کن دور میں پہونچ رہی ہے، میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ بات عرض کر رہا ہوں کہ وہ جنگ فیصلہ کن اسٹیج پر پہونچ رہی ہے، ذراسی غلطی، بہت بھیانک نتیجوں تک پہونچا سکتی ہے، اور اگر خوب گہرے غور و فکر کے ساتھ جنگ کی صحیح حکمت عملی کو سمجھ لیا گیا تو اس وقت کے حالات ایسے ہیں کہ امن و انصاف کے علم برداروں اور حق کے خدمت گزاروں کو وہ کامیابی مل سکتی ہے جس کا نہ دوستوں کو اس وقت تصور ہے نہ دشمنوں کو۔
پرانی حکمت عملی پر نظر ثانی کی ضرورت
ہم نے پرانی حکمت عملی جو اپنائی تھی وہ اب کارگر ثابت نہیں ہو رہی ہے۔بلا شبہ اب ہمیں کوئی نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے، جنگ کبھی بھی اس طرح نہیں لڑی جاتی کہ بھئی یہ تو پرانی حکمت عملی کے خلاف طریقہ ہے، اس کو بدلا نہیں جا سکتا۔جس وقت سیدنا سلمان فارسیؓ نے غزوہ خندق کے موقع پر حضورﷺ کے سامنے یہ رائے پیش کی کہ خندق کھود دی جائے،مکہ کی طرف سےمدینہ کا راستہ بند کردیا جائے اور پورے راستے میں اتنی لمبی، اتنی چوڑی اور اتنی گہری خندق کھود دی جائے، تو اللہ کے رسول ﷺ نے یا صحابہ نے یہ نہیں کہا کہ بھئی ہم نے تو آج تک ایسی حکمت عملی نہ دیکھی نہ سنی، یہ طریقہ تو ہمارا نہیں ہے، یہ طریقہ ہمارے بزرگوں کا نہیں ہے، یہ سب نہیں کہا، بل کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فورا قبول کیا اور پھر چوبیسوں گھنٹے عدیم المثال محنت کر کے چند دن اور چند راتوں کے اندر ایسی خندق تیار کردی جو پوری عرب کی تاریخ میں نہ کسی نے دیکھی تھی نہ سنی تھی، اور پھر وہ جنگی حکمت عملی کس طرح کامیاب ہوئی وہ ہم سب جانتے ہیں۔ و رد الله الذين كفروا بغيظهم لم ينالوا خيراً (اور اللہ نے واپس کردیا کفر والوں کو ان کے غیظ و غضب سمیت اس طرح کے ان کے ہاتھ کچھ نہ لگا) ( الأحزاب: ۲۵]
جو حکمت عملی ہم نے پورے اخلاص اور شعور کے ساتھ آزادی کے بعد سے اب تک اپنائی، اس کی بنیاد یہ تھی کہ اس ملک میں ہندو اکثریت میں ہے اور ہم اقلیت میں ہیں، ہمارے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ سیکولر مزاج ہندوؤں کو سپورٹ کریں، اور ان کو تقویت پہونچائیں، کیونکہ ہندو دو قسم کے ہیں ایک سیکولر اور ایک فرقہ پرست، ۔۔۔ اکثریت میں تو وہی ہیں ملک تو انہی کو چلانا ہے، پس ہمارے لیے تو صرف یہی راستہ ہے کہ ان میں سے جو سیکولر لوگ ہیں، ہم ان کو طاقت پہونچائیں، ان کو ووٹ دیں، ان کو آگے بڑھائیں، اور جو فرقہ پرست ہیں ان کو کمزور کریں، اسی حکمت عملی پر ہم نے اب تک عمل کیا ہے، اور پورے اخلاص کے ساتھ کیا ہے، کم سے کم مجھ کو کوئی بد نیتی اس میں دور دور تک نظر نہیں آتی، لیکن آپ دیکھیے کہ اس حکمت عملی کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے؟ جن کو ہم سیکولر سمجھ کر ان پر اعتماد کیا ہوا تھا، ان کا کیا کردار اب تک سامنے آیا ہے؟ کیا اب وقت نہیں آ گیا کہ ہم اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کریں، غور کریں، باہم اصلاح و مشورہ کریں۔ المؤمن لا يلدغ من جحر مرتين (مسلمان کبھی ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا ) ہم تو ہزاروں بار ڈسے جا چکے ہیں، ہمارے ایمانی وجود کا یہ تقاضہ ہے کہ ہم اپنی حکمت عملی پر بڑے ٹھنڈے دل و دماغ سے بہت بصیرت کے ساتھ نظر ثانی کریں، اور ہم یہ دیکھیں کہ کیوں ہم کامیاب نہیں ہو رہے؟ کیا ہوا ہے ہمارے ساتھ؟ ۔
اس حکمت عملی کو برتتے برتتے آج یہ حال ہے کہ جس قوم کو ہم ہندو کہتے تھے اس کی بہت بڑی تعداد واقعی فرقہ پرست بن گئی، اور یہ سب اسی سیکولر نظام کے تحت ہوا، اسی نے نظام تعلیم ایسا چلایا، میڈیا اور اخبارات کو ایسا رنگ دیا، ایسی پالیسیاں بنائیں، بار بار یہ تجربہ ہوتا رہا کہ یہ 148 سیکولر 147 لوگ 148 فرقہ پرستون 147 سے سمجھوتا کرتے رہے، شاید ایک بار بھی انہوں نے سیکولرزم کے تحفظ اور فرقہ پرستوں کے مقابلے کے لیے کوئی مضبوط اصولی موقف اختیار نہیں کیا، اور اب صورت حال یہ ہے کہ نظر ہی نہیں آتا کہ ملک میں سیکولر ہے کون؟ ہمیں ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا ہماری یہ حکمت عملی کامیاب ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے؟ یہ جو عام مسلمانوں میں آپ ایک بے چینی دیکھ رہے ہیں اور سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کریں؟ یہ ہماری تاریخ کا ایک ہم مرحلہ ہے، اگر اس وقت قوم کو دوسری حکمت عملی کی طرف نہیں لے جایا گیا تو قوم ہار مان جائے گی، شکست کھا جائے گی، اور اس کے بعد پھر قوموں کا اٹھنا بہت مشکل ہوتا ہے، قوم اگر ہار مان جائے اور اندر سے ٹوٹ جائے، تو پھر اس قوم میں ارتداد اور بغاوت پھیلنے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں، مایوسی ارتداد تک اور غصہ دہشت گردی تک لے جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے کہا: انه لا ييئس من روح الله الا القوم الكفرون کہ خدا کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوتے ہیں یعنی مایوسی کفر و ارتداد تک لے جاتی ہے اور لے جا رہی ہے۔توجہ سے سنیے! میں یہ نہیں کہ رہا ہوں کہ لے جائے گی، میں کہ رہا ہوں مایوسی کفر تک لے جا رہی ہے۔ ہمیں پتا نہیں کہ اب مسلمان جئے شری رام کے نعرے لگانے میں فخر محسوس کر رہا ہے، پانچسو روپیے میں ایمان بیچا جا رہا ہے، دوسری طرف جو غصہ اور فرسٹریشن ہے وہ لے جاتا ہے اس طرف جس کو آج کل کی اصطلاح میں دہشت گردی کہتے ہیں اور دونوں راستے ہلاکت کے ہیں، ضرورت ہے کہ س وقت با شعور لوگ خلوص کے ساتھ نئی حکمت عملی پر غور کریں، تلاش کریں، صدقہ اور صلوة الحاجۃ کا اہتمام کر کے اللہ سے مانگیں کہ ۔ اللہم الھمنا مراشد امورنا۔ اے اللہ ہمیں راستہ دکھا دیجیے اور بتا دیجیے کہ اس وقت کیا کرنا ہے، اور جب کوئی راستہ دکھایا جائے تو اگر اسے فورا قبول نہ کیا جائے تو فوراً مسترد بھی نہ کیا جائے، اس پر غور کیا جائے، سوچا جائے، اس کے بارے میں بحث اور تبادلۂ خیال کیا جائے۔اس کے متوقع نتیجوں کو قریب سے دیکھنے کی کچھ دن کوشش کی جائے، اس کے بعد رائے بنائی جائے، لیکن نئی حکمت عملی پر غور کرنا، نئی حکمت عملی کو اللہ سے مانگنا، اس کی توفیق و رہبری مانگنا کم سے کم علماء، اہل دانش اور ارباب حل و عقد کے ذمہ اس وقت کا فریضہ ہے۔
حکمت عملی کی بنیاد کا تجزیہ ضروری ہے
سب سے پہلے اس بات پر غور کریں کہ کیا یہ بات سچی اور مطابق واقعہ ہے کہ ہمارے ملک میں 148 ہندو 147 اکثریت میں ہیں۔ کیا بڈھسٹ ہندو ہیں؟ بدھ ازم تو پیدا ہی ہوا تھا ہندو ازم کے خلاف بغاوت کے طور پر، ویدک دھرم، مورتی پوجا اور طبقاتی نظام سے تنگ آ کر بدھ ازم بنا تھا، کس نے کہ دیا کہ بدھسٹ ہندو ہیں؟ کیا سکھ ہندو ہیں؟ کیا لنگایت ہندو ہیں؟ جن کی ساڑھے سات کروڑ آبادی ہے، لنگایت آج سے آٹھ سو سال پہلے بنایا گیا ایک مذہب ہے جو در اصل برہمنیت کے خلاف ایک زبردست قسم کی بغاوت تھی، میں نے خود لنگایت کے لٹریچر کو تھوڑا بہت پڑھا ہے اور ان کے مذہبی رہنماؤں سے تھوڑا سا رابطہ ہے۔انگریزوں کے زمانے میں انہیں ہندوؤں اور مسلمانوں سے الگ ایک مستقل مذہبی گروہ تسلیم کیا جاتا تھا، آزادی کے بعد سیکولر حکومت نے انہیں زبردستی ہندو قرار دے دیا۔ ان میں آج کل اس کے خلاف ایک زبردست تحریک چل رہی ہے۔ ہمیں پوری ایمانداری اور اور حکمت کے ساتھ ان کی تحریک کو تقویت پہونچانی چاہیے۔آدیواسی جو اس ملک کی اصلی آبادی ہے اور ان کی تعداد ۱۱ کروڑ سے بھی زیادہ ہے کیا وہ ہندو ہیں؟ آدیواسی کسی مورتی کی پوجا نہیں کرتے اور چلا چلا کر کہتے ہیں کہ ہم ہندو نہیں ہیں، لیکن عجب شرارت ہوئی ہے ہمارے ملک میں کہ کروڑو آدیواسیوں کو ہندو بنا لیا گیا ان کو بتائے بغیر، پوچھنا تو دور کی بات ہے، بنانے کے بعد بھی نہیں بتایا گیا کہ آپ ہندو ہیں، وہ کہ رہے ہیں کہ بھائی ہم ہندو نہیں ہیں، ان سے کہا جا رہا ہے کہ نہیں نہیں ہم ہندو ہیں، ایک آدمی کہ رہا ہے کہ میرا نام محمد سعید ہے اس سے کہا جا رہا ہے نہیں آپ کا نام محمد سعید نہیں زین العابدین ہیں، کیا تماشہ ہو رہا ہے؟ مزید سوچیے کہ کیا اس ملک کے شیڈول کاسٹ کے لوگ ہندوں ہیں؟ یا انہیں صرف سیاسی طور اور ہندو اکثریت بنانے کے لیے ہندو بنا لیا گیا۔ہمیں جاننا چاہیے کہ اس وقت ان کے اندر (جن کو عام طور پر دلت کہا جاتا ہے) اپنے ہندو شناخت کے انکار کی زبردست تحریک چل رہی ہے۔ ہم نے اس ملک کے قدیم باشندوں کے اصل مذہب کی تاریخ ہی نہیں پڑھی، ہرگز وہ ہندو نہیں تھے، اسی طرح قبائلی لوگ (Tribals) جو بہت بڑی تعداد میں اس ملک میں آباد ہیں کیا وہ ہندو ہیں؟ ہرگز نہیں! تو ہندوؤں کی اکثریت کہاں سے ہوگئی؟ ہم نے جو اپنی حکمت عملی بنائی تھی وہ اس بنیاد پر تھی کہ ہم اقلیت میں ہیں اور ہندو اکثریت میں ہیں، میرا کہنا ہے کہ اس بنیادی بات اور اس پر مبنی حکمت عملی پر نظر ثانی کا وقت آ گیا ہے۔
① ایک اور ② قومی نظریہ کی بحث نے حقیقت پہ پردہ ڈال دیا
اُس وقت حالات کے تجزیہ کا وقت نہیں تھا، اس وقت تو یہ مسلمہ بات تھی، اور مسلمہ بات چلا چلا کر اتنے یقین سے کہی گئی تھی کہ سب نے اس پر یقین کیا اور وہ کیوں کہی گئی؟ اور بھارت کے لوگوں کو ہندو مسلم دو خانوں میں تقسیم کرنے کا رواج کب سے شروع ہوا تھا؟ یہ بھی بڑا دلچسپ ہے، بہت بڑے پیمانے پر دو قوم، دو قوم ایک قوم، ایک قوم کہا گیا تو وہ گروہ اٹھا جس نے دو قومی نظریہ قبول کیا، اور دوسرا گروہ اٹھا جس نے دو قومی نظریہ مسترد کردیا، عجیب بات ہے کہ ملک کی آزادی سے پہلے ایسی نظریاتی دھارائیں بہیں کہ ایک گروہ نے یہ کہا کہ 148بھئی مسلمان اور ہندو دو الگ لگ قومیں ہیں یہ کبھی ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں، مسلمانوں کے لیے الگ ملک ہونا چاہیے 148 یہ ایک تحریک اٹھی اور اسی کے نتیجے میں پاکستان بنا، دوسری طرف یہ تحریک اٹھی جس نے یہ کہا کہ 147 ہم سب ایک قوم ہیں، یہ دو قومی نظریہ غلط ہے، قومیں وطن سے بنتی ہیں، قومیں مذہب سے نہیں بنتیں لہذا ہم سب ایک قوم ہیں 148 دو قومی نظریے کو قبول کرنے والے بھی ہمارے ہی لوگو میں موجود تھے اور مسترد کرنے والے بھی ہمارے ہی لوگوں میں موجود تھے، لیکن بلاشبہ اس بحث میں ہماری نگاہوں سے مخفی رہ گئی یہ حقیقت کہ اس ملک میں دو قومیں نہیں چھ ہزار قومیں بستی ہیں، ان چھ ہزار قوموں میں سے پانچ ہزار نو سو ننانوے قوموں کو نہایت چالاکی کے ساتھ ایک بنا دیا گیا اور اسے ہندو نام دے دیا گیا۔جن لوگوں نے دو قومی نظریہ تسلیم کیا اور جنہوں نے مسترد کیا در اصل وہ دونوں ایک دوسری سازش کا شکار ہو گئے، اور انہیں اس بات کا خیال ہی نہیں ہوا کہ جسے ہندو کہ کر ایک قوم مانا جا رہا ہے وہ ایک قوم نہیں، پانچ ہزار سے زیادہ قوموں اور قبائل کا ایک مجموعہ ہے۔
فسادات کی اصل وجہ
جب ان قوموں کے اندر یہ تحریک اٹھی اور بڑے زور سے اٹھی اور آپ کے مہاراشٹر سے ہی اٹھی کہ بھئی اپنی اصل پہچان کو سمجھو! تم ہندو نہیں ہو، تم کو زبردستی ہندو بنایا گیا ہے، اور جب ان کے اندر اپنی نسلی، قبائلی اور ذات برادری کی شناخت کا شعور پیدا ہونے لگا تو وہ جنہوں نے ان سب کو ایک قوم بنا دیا تھا بہت ڈر گئے کہ اگر یہ بیداری ان قوموں میں پھیل گئی تو جو ہم ہزاروں سال سے ان کو اپنا غلام بنائے ہوئے ہیں یہ غلامی ختم ہو جائے گی، چنانچہ انہوں نے اس وقت ایک زبردست قسم کی تحریک چلا کر ان سب کو ایک قوم اور اپنا غلام بنائے رکھنے کے مقصد سے مسلمانوں سے لڑا دیا، پھر جب ان قوموں نے یہ محسوس کیا کہ ہمارا دشمن مسلمان ہے تو وہ سب کے سب خود بخود ہندو بنتے چلے گئے۔تو مسلمانوں کو دشمن بنا کر پیش کرنا اس لیے ضروری تھا کہ اس کے بغیر وہ ہندو نہ بنتے، وہ او بی سی رہتے، شیڈول کاسٹ رہتے، شیڈول ٹرائب رہتے، لنگایت رہتے، قبائلی اور آدیواسی رہتے، ہندو نہ بنتے، ہندو بنانے کے لیے انہیں ایک دشمن دکھانا ضروری تھا، لہذا اصل قومی شناخت کو چھپانے کے لیے یہ تماشہ کیا گیا، اور اس کا شکار وہ بھی ہوئے، اور ہم بھی ہوئے، وہ بھی سمجھ گئے کہ وہ ہندو ہیں اور ہم نے بھی مان لیا کہ وہ ہندو ہیں، چنانچہ وہ جو بیداری کی لہر پھیلنا شروع ہوئی تھی وہ پھر دب گئی، اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم حالات کے اس رخ پر پہونچ گئے ہیں کہ ہمیں راستے بند نظر آ رہے ہیں، ایسا لگ رہا ہے کہ اب کوئی راستہ ہی نہیں ہے کیا کریں۔ لیکن یقینی طور پر جب ایک راستہ بند ہوتا ہے تو دوسرے راستے ضرور کھلتے ہیں، یہ اللہ کا قانون ہے، تو ان راستوں پر غور کرنا، ان کے امکانات پر غور کرنا، نئی حکمت عملی تلاش کرنا اور اسے اختیار کرنا یہ زندہ قوموں کا فرض اور طرز عمل ہوتا ہے، جنگی حکمت عملیاں کبھی ایک سی نہیں رہتیں طارق بن زیاد کی جنگی حکمت عملی کچھ اور تھی، محمد الفاتح کی حکمت عملی کچھ اور تھی، امیر معاویہ کی بحری جنگی حکمت عملی کچھ اور تھی، ہمیشہ وقت کے قائد نے اس وقت کے حالات کے مطابق نئی جنگی حکمت عملی کو اپنایا ہے، ہم اس وقت اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ یہ بات بالکل یقین کے ساتھ کہی اور سمجھی جا سکتی ہے کہ ہم نے اپنی حکمت عملی کی جو پہلی بنیاد قائم کی تھی اس پر نظر ثانی اب نہایت ضروری ہو گئی ہے۔یہ سوچنا کہ وہ اکثریت میں ہیں اور ہم اقلیت میں ہیں بالکل غلط ہے، بات الٹی ہے، اس ملک میں مظلوموں کی اکثریت ہے اور ظالموں کی اقلیت ہے، اب سیکولر اور فرقہ پرست کہنے سے کام نہیں چلے گا، چلنا ہوتا تو اب تک چل چکا ہوتا بہت عرصہ ہو گیا، یہ تو وہ تقسیم ہے جس کے ذریعہ سے حقیقی تقسیم کو چھپا دیا گیا، کیوں کہ جب ہم سیکولر اور فرقہ پرست کی تقسیم کو قبول کرتے ہیں تو اس سے پہلے ہم یہ مان لیتے ہیں کہ یہ سب ہندو ہیں، البتہ یہ سیکولر ہندو ہیں اور یہ فرقہ پرست ہندو ہیں، حالانکہ سرے سے یہ بنیاد ہی غلط ہے کہ یہ سب ہندو ہیں۔
ملک کی تاریخ کا نیا موڑ 148 ہم ہندو نہیں ہیں 147
اور عجیب بات ہے اللہ تعالی کا نظام دیکھیں، اس کی تکوینی قدرت اور منصوبہ بندی پر غور کریں کہ جس وقت اس پرانی حکمت عملی کے نا کام ہونے کا راز فاش ہو رہا ہے، اسی وقت ان قوموں میں جن کو ایک 148 ہندو 147 نامی قوم میں ضم کردیا گیا تھا، ان کی حقیقی شناخت اور پہچان بتانے کی تحریکیں خود ان کے اندر سے بڑے زور و شور سے کھڑی ہو چکی ہیں۔ اسی لیے میں عرض کرتا ہوں کہ یہ ہماری تاریخ کا بہت اہم موڑ ہے۔اگر تنہا مسلمان ان کو یہ بتانے نکلتا کہ تم ہندو نہیں ہو تو اول تو بتا ہی نہیں سکتا تھا، اتنی کم ہمتی مسلمانوں میں آ گئی ہے کہ پوری سچائی بولنے والا دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں، اور اگر کوئی کھڑا بھی ہوتا تو اس کی بات کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا، اگر صرف مسلمان کہتا تو اس قوم کے لوگ سنتے ہی نہیں بلکہ اس کا الٹا رد عمل ہو سکتا تھا، کیا اس کو آپ اللہ کے تکوینی نظام کے علاوہ اور کچھ سمجھ سکتے ہیں کہ انہی قوموں کے اندر بہت عرصہ پہلے قائدین اٹھ چکے ہیں اور بڑے زوردار انداز سے اپنی اپنی قوم کو آگاہ کر رہے ہیں کہ تم ہندو نہیں ہو، اور میں پچھلے کئی سالوں سے اس کا مشاہدہ کر رہا ہوں اور میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ وہ لوگ جو اپنے کو ہندو مانتے چلے آ رہے تھے، جو پوجا پاٹ، تیوہار اور کیرتن میں لگے ہوئے تھے، اور خوب برہمنوں کو دان دے رہے تھے، اور اپنے پیسوں سے مندروں کا کاروبار چلوا رہے تھے، اور مسلمانوں کے ساتھ خون ریز فسادات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے انہی قوموں کے اندر اگر میں احتیاط سے کہوں کہ کم سے کم روزانہ ایک ہزار لوگ پورے ملک کے طول و عرض میں مجموعی طور پر اس بات کو قبول کر لیتے ہیں کے ہاں ہم ہندو نہیں ہیں، تو غلط نہ ہوگا اور یہ بھی احتیاط سے کہ رہا ہوں، ان میں کئی جن سے میرے اچھے رابطے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان کم از کم اب اس بات کو جان لیں کہ وہ ہندو نہیں ہیں، انہیں اس بات سے بہت غصہ آنے لگا ہے کہ مسلمان انہیں اب بھی ہندو سمجھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ آپ ہمیں ماں بہن کی گالی دیدو ہمیں ہندو نہ کہو، ان کو تو ہمارے اور آپ کے منہ سے 148ہندوستان 148کا لفظ سننا برداشت نہیں ہے، ہم لوگ تو زیادہ تر ہندوستان ہی بولتے ہیں، عجیب بات ہے، اب تک مسلمان ہندوستان بولتے تھے اور وہ لوگ 148 بھارت 147 بولتے تھے، لیکن آپ نے اس بات پر غور کیوں نہیں کیا جب سے یہ نئی سرکار آئی ہے ہمارا وزیر اعظم بھولے سے بھی بھارت نہیں کہتا ہندوستان کہتا ہے 148واؤ 148 مجہول بھی نہیں کہتا ہندوُستان (واو معروف کے ساتھ) کہتا ہے اور نیت یہ ہوتی ہے کہ یہ ملک ہندوؤں کا ہے، اس سے پہلے وہ لوگ بھارت بولا کرتے تھے اور مسلمان ہندوستان بولتا تھا، یہ بہت چونکانے والی بات ہے، اسی لیے امبیڈکر کو اس بات پر شدید اصرار تھا کہ دستور میں india کے لیے ہندی لفظ بھارت استعمال ہوگا، ہندوستان لفظ استعمال نہیں ہوگا۔
تو یہ تاریخ کا ایسا موقع ہے کہ اسی قوم کے اندر سے تحریکیں اٹھ رہی ہیں، میں کسی ایک تحریک کی طرف اشارہ نہیں کر رہا ہوں، اس قوم کی جو مختلف قبائلی اکائیاں ہیں ان کے اندر سے یہ تحریکیں اٹھ رہی ہیں، آدیواسیوں سے میرے اچھے تعلقات ہیں برابر ان سے رابطے میں رہتا ہوں، ان کے اندر اس وقت تیزی سے یہ تحریک پھیل رہی ہے کہ ہم ہندو نہیں ہیں، وہ جلوس نکال رہے ہیں جلسے کر رہے ہیں، دھرنے دے رہے ہیں، مورتیاں نکال نکال کر گھروں سے پھینک رہے ہیں، میڈیا یہ خبر لاتا ہے اور نہ کبھی لائے گا، میڈیا تو بنا ہی اس لیے ہے کہ وہ اصلی صورت حال سے واقفیت پھیلنے نہ دے، یہی اس کا مقصد ہے، لیکن جو ملک میں چل پھر کر دیکھتے ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے، میں پہلے بھی لنگایتوں سے ملا ہوں، آج سے بیس پچیس سال پہلے گلبرگہ میں لنگایت کے بڑے اپا سوامی سے ملاقات ہوئی تھی تو میں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی معلومات کی روشنی میں کچھ کہنا چاہا اور ان سے کہا کہ سوامی جی میں نے بسو یشور ناتھ کی نظموں اور ونچوں میں جو کچھ پڑھا ہے جو در اصل آپ کا صحیفہ ہے،اس میں سرے سے ویدک دھرم اور مورتی پوجا کو نکارا گیا ہے اور سخت تردید خی گئی ہے،تو انہوں نے اس موضوع کو اہمیت نہیں دی بلکہ نظر انداز کردی، وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس موضوع پر کسی مسلمان سے بات کریں،اور آج حالت یہ ہے کہ لنگایتوں کے لاکھوں کے جلوس نکل رہے ہیں، ریلیاں ہو رہی ہیں، جلسے ہو رہے ہیں اور وہ چلا چلا کر کہ رہے ہیں کہ ہم ہندو نہیں ہیں۔ اسی طرح آپ نے سکھ مذہب کے بارے میں پڑھا ہوگا اورنگزیب کا جو رشتہ احمد نگر اور اس خطے سے ہے، اس حوالے سے آپ کو تو ضرور پڑھنا چاہیے کہ اورنگزیب کون تھے اور ان کے سکھوں سے کیسے تعلقات تھے،گرونانک کون شخصیت تھی،سکھ مذہب کی کیا حقیقت ہے؟اگر کسی اور پر اعتبار نہیں تو کم از کم گرونانک کے بارے میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے خیالات ہی پڑھ لیجیے جو تذکرة الرشید میں ان کے سوانح نگار نے ذکر کیے ہیں کہ وہ ان کو کس نظر سے دیکھتے تھے؟ لیکن سکھوں کو بھی ہندو قرار دے دیا گیا، بلکہ اس قدر زیادتی ہوئی کہ آئین ہند کی دفعہ ۲۵، سیکشن B/2 کی تشریح کے طور پر خود دستور میں یہ لکھ دیا گیا کہ: فقرہ ⑵ کے ذیلی فقرہ (B) میں ہندوؤں کے حوالے کی یہ تعبیر کی جائے گی کہ اس میں سکھ جین، یا بدھ مذہب کے پیروں کا حوالہ شامل ہے: ۔سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ سکھوں، جینیوں، اور بڈھستوں کے بارے میں دستور میں کیوں لکھنا پڑا کہ یہ بھی ہندو ہی شمار ہوں گے؟؟؟
میری معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ اب ملک کی تاریخ میں ایک بہت اہم موڑ آ گیا ہے، اور ایسے امکانات پیدا ہو گئے ہیں جن کا تصور مشکل تھا، اور ایسے خطرات بھی ہے کہ اگر ہم نے صورت حال کو صحیح طور پر نہ پڑھا، اور پرانی روش پر یہی کہتے ہوئے چلتے رہے کہ 150 بل وجدنا آباءنا كذلك يفعلون 150 (الشعراء) ۔ یعنی ہم نے اپنے باپ دادا کو یہی کرتے پایا ہے تو یہ وفاداری نہیں ہے، یہ ذمہ داری کا صحیح احساس نہیں ہے، ہمیں بدلے ہوئے حالات میں اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی برابر جاری رکھنی پڑے گی، اور ہم کو اپنا یہ مزاج بنانا پڑے گا کہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں، مایوس نہ ہوں، اس مرحلے کو دور رکھنے اور نہ آنے دینے کی اس مخصوص اقلیت نے ہزاروں سال سے کوشش کی ہے، تا ہم ایسا لگتا ہے کہ اب ان کی کوشش کامیاب ہونے والی نہیں ہے، کیوں کہ ایسے اسٹیج پر بات پہونچ گئی ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ اب یہ آواز دب پائے گی، جگہ جگہ پریشانیاں تو آئیں گی، رکاوٹیں تو ڈالی جائیں گی، لیکن جس پیمانے پر اس وقت بات چل رہی ہے، قبائلی لوگوں میں، شمال مشرق کے لوگوں میں، آدیواسیوں میں، سکھوں میں، لنگایتوں میں، ایس سی ایس ٹی، یہاں تک کہ او بی سی میں جن کی آبادی ۵۲ فیصد ہے، ان سب کے اندر اس وقت اچھی خاصی لہر چل رہی ہے، اور اسی لہر کو روکنے کے لیے اس اقلیت کے مدبر دماغوں نے اپنی طاقت و توجہ کا ۷۰ /۸۰ فیصد حصہ او بی سی سماج پر لگا رکھا ہے، میں پوری ذمہ داری کے ساتھ اطلاع دیتا ہوں کہ نوبت اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جب ان قوموں کے افراد مسلمان کی زبان سے سنتے ہیں بھائی آپ ہندو نہیں ہو تو انہیں برا لگنے کے بجائے ان کا جوش، حوصلہ اور ہم سے ان کی محبت ہزاروں گنا بڑھ جاتی ہے۔
بھولے پن کو دور کیجیے!
جانیے اور سمجھیے کہ اکثریت اصل میں ان ہی قوموں کی ہے ورنہ اس ظالم طبقہ کی تو صرف ساڑھے تین فیصد آبادی ہے، اور اس کے تمام حامیوں کا زیادہ سے زیادہ تناسب پندرہ فیصد ہے۔ لیکن اس کی چالاکیاں ہیں اور ہمارا بھولا پن ہے!! ہمارے بھولے پن کا تو حال یہ ہے کہ ہمارے جلسوں میں کوئی نیتا اگر ٹوپی لگا کر آ گیا تو ہمارا دل چاہتا ہے کہ مصافحہ تو کر ہی لیں کہ کچھ برکت مل جائے گی اور اگر اس نے 148 سلام الیکم 147 کہ دیا تو ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور جی چاہتا ہے کہ اس سے بیعت ہو جائیں، ہم اس قدر بھولے ہیں، مسلمانوں کی ساری چالاکیاں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، ایک دوسرے کی ٹانگ گھسیٹنا، اس پر الزام لگانا، اس کو بدنام کرنا، اس کا دل توڑنا، اس کی غیبت کرنا، بدگمانیاں کرنا اور ناکام کرنے کے منصوبے بنانا، یہ سب ہم آپس میں کرتے ہیں، لیکن جب دشمن یا اس کا کوئی ایجنٹ سامنے آتا ہے تو ہم اتنے بھولے اور مسکین بن جاتے ہیں کہ آؤ ہمیں لوٹ لو، ستر سال سے یہی ہو رہا ہے کہ سب بے وقوف بنا رہے ہیں اور وہ لوگ بھی یہ بات خوب جانتے ہیں کہ مسلمانوں سے بڑھ کر نادان کوئی قوم بھارت میں نہیں ہے، اس سے بڑھ کر بے وقوف، بے عقل، بے شعور، نا سمجھ بھولی اور سیدھی سادھی کوئی قوم نہیں ہے، اس کو دو جملے بول دو یہ لٹو ہو جاتی ہے، ہمارا حال یہ ہے کہ جس پر ہمیں بھروسہ کرنا چاہیے اس پر تو ہم شک کرتے ہیں، اور جس پر ایک سیکنڈ کے لیے اعتبار نہیں کرنا چاہیے اس پر بار بار اعتبار کرتے ہیں، یہی ہماری تاریخ ہے اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس طرز عمل کو بدل لیں! اور میری آپ سے صاف لفظوں میں گزارش ہے کہ آپ میری بات پر یقین نہ کریں آپ ان طبقات کے پاس خود جاکر دیکھیں، ان کے درمیان بیٹھ کر ان کے جلسوں میں شریک ہو کر دیکھیں کہ ان کے اندر کیا ہو رہا ہے، کیا خیالات پروان چڑھ رہے ہیں اور کیا منصوبے بن رہے ہیں، ان کے اندر کیسی بیداری و واقفیت پھیل رہی ہے کہ ہم پر ہزاروں سال سے کتنا ظلم ہوا ہے اور ہمیں ہندو بنا دیا گیا ہے حالانکہ ہم ہندو نہیں ہیں، اور اب وہ اسٹیج بھی آ گیا کہ مسلمان بھی ڈنکے کی چوٹ پر ان کے جلسوں میں شریک ہو کر ان کے پاس بیٹھ کر پوری قوت کےساتھ کہ سکتا ہے کہ بھائی آپ ہندو نہیں ہے۔
مسلمان کس بات کی سزا بھگت رہا ہے؟
میں پچھلے کئی سالوں سے ان کے جلسوں میں شریک ہو کر اس طرح کی باتیں کر رہا ہوں اور اس مضمون کو ان کے سامنے اس طرح بھی بیان کرتا ہوں کہ ہم مسلمان کس چیز کی سزا پا رہے ہیں؟ ہم صرف اس بات کہ سزا پا رہے ہیں کہ ہم نے آپ کی طرح ہندو بن جانا قبول نہیں کیا، ہمارا صرف یہی ایک جرم ہے باقی کوئی جرم نہیں ہے، آپ سب کے آباؤ اجداد نے اپنی جان بچانے کے لیے ہندو بن جانا قبول کر لیا، میں نے ان کی تاریخ پڑھی ہے، میں نے گپتوں کے دور کی تاریخ پڑھی ہے، میں نے اشوکا کے دور کی تاریخ پڑھی ہے، جب بدھسٹ تحریک یہاں پھیلی تھی تب کیا ہوا تھا؟ اس کے بعد شنکرا چاریہ کی تحریک نے کیا کیا؟ ایک طویل تاریخ ہے، بدھسٹوں کو لاکھوں کی تعداد میں جلایا اور مارا گیا تھا، زندہ جلانا یہ برہمن کی خاص الخاص پہچان ہے، وہ اپنے دشمن کو زندہ جلا کر خوش ہوتا ہے، اور ان کو باقاعدہ یہ بتایا جاتا ہے کہ جب تم کسی کو زندہ جلاؤگے تو فلاں دیوتا کی تم پر کرپا ہوگی، میں چلینج کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ یہ سب ان کے مذہب کا حصہ ہے، صرف مسلمانوں کو پہلی بار گجرات میں نہیں جلایا گیا، مسلمان یہی سمجھتے ہیں کہ بس ہمارے ساتھ یہ ظلم ہوا ہے، نہیں ان کو بالکل یہ نہیں معلوم کہ ڈھائی لاکھ بدھ بھکشوؤں (بدھسٹ علماء) کو زندہ جلایا گیا تھا، عوام الناس کا تو کوئی ذکر ہی نہیں، تو پھر بالاخر انہوں نے مجبور ہو کر کہا کہ ہماری جان بخش دو اس کے بدلے ہم سے جو چاہو کرنے کو تیار ہیں، ان سے کہا گیا کہ تم مورتی پوجا شروع کردو اس کے علاوہ ہمارا کوئی اعتراض نہیں ہے، چنانچہ بھارت میں اگر کسی کی سب سے بڑی مورتی ہے تو وہ اس گوتم بدھا کی ہے جس سے بڑھ کر مورتی پوجا کا مخالف اس دھرتی پر میری دانست میں کوئی پیدا ہی نہیں ہوا، علامہ حالی نے اپنی ایک مشہور نظم میں ہمارے اس ملک کو اکّال الامم کہا ہے، یہ وہی بات ہے جو میں کہ رہا ہوں کہ ہزاروں قوموں کواس نے نگل لیا، اگر ہمارے علماء نے مکاتب و مدارس کا جال نہ بچھایا ہوتا تو رب کعبہ کی قسم ہمارا تشخص اندلس کی طرح ختم ہو چکا ہوتا، وہ اندلس جہاں سینکڑوں علماء و محدثین، فقہاء اور علم کلام کے ماہرین، مختلف مکاتب فکر کے بانی، عظیم سائنسداں اور بڑے بڑے مشائخ و اہل اللہ پیدا ہوئے اس اندلس کا یہ حال ہو گیا کہ وہاں سینکڑوں کلومیٹر کے رقبے میں کوئی کلمہ پڑھنے والا نہیں ملتا، یہی حشر ہمارے اس ملک کا ہوتا اور یہی منصوبہ تھا ابلیس اور اس کے لاؤ لشکر کا مگر ؎
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
کسی کا کچھ بھی منصوبہ رہا ہو اللہ کا منصوبہ سر زمین ہند کے بارے میں کچھ اور ہے، و مكروا ومكر الله. و الله خير المكرين، علامہ اقبال نے اس منصوبے کی جھلکیاں روحانی دنیا میں اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھی تھیں، بڑے بڑے عارفین نے کہا ہے کہ اقبال صاحب مقام تھے، سر زمین ہند کے بارے میں جو اللہ کا منصوبہ ہے ان کے بعض اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی کچھ جھلکیاں اللہ نے انہیں دکھا دی تھیں، وہ اشعار یہ ہیں: ؎
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئین پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
آ ملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پے آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہؑ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہؑ توحید سے
یہاں کے بارے میں اللہ کا منصوبہ کچھ اور ہے، یہاں اسلام نہیں مٹے گا، یہیں سے اسلام کی زبردست نشاة ثانیہ ہوگی، اگر یہ اللہ کا منصوبہ نہ ہوتا تو الف ثانی کا مجدد سرزمین ہند میں نہ بھیجا گیا ہوتا، اور اب مجھے لگتا ہے اللہ کے اس منصوبے کی تکمیل کی طرف ہم تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، دیکھنے میں تو یہ لگ رہا ہے رات کا اندھیرا بڑھ رہا ہے لیکن حقیقت میں صبح کی روشنی قریب ہو رہی ہے، لیکن اس کا دار و مدار اس پر ہے کہ ہماری نیتیں خالص ہوں، ہم اپنے ذاتی مفاد کو بالکل بالائے طاق رکھ دیں، ہمارا صرف ایک ہی مقصد ہو کہ میرا اللہ مجھ سے راضی ہو جائے، میری مغفرت کردے، مجھے نجات عطا فرمادے، صرف اسی نیت کے ساتھ اور حالات کے صحیح تجزیے اور نئی حکمت عملی کے مطابق ہم مشترکہ اجتماعی جد و جہد میں اپنی جان و مال، صلاحیتیں اور وقت لگانا شروع کریں تو ہم اس مستقبل کی طرف تیزی سے بڑھیں گے، جس کی طرف میں نے ابھی اشارہ کیا، اور بظاہر اس کے راستے اب کھل چکے ہیں۔
میری معروضات کا حاصل یہ ہے کہ اس ملک کا اصل مسئلہ ہرگز ہندو مسلم نہیں ہے، ہندو مسلم بنایا گیا ہے اصل مسئلہ کو چھپانے کے لیے، اصل مسئلہ ظالم و مظلوم اور اونچ نیچ کا ہے جب تک ہم ہندو مسلم کی بنیاد پر اس ملک میں کوششیں کرتے رہینگے دشمن کو فائدہ اور ہمیں نقصان پہنچتا رہے گا یہ راستہ اتنا آسان نہیں تھا، لیکن اللہ نے پچھلے دس پندرہ سال میں اس آواز کو ایسا پھیلایا ہے کہ میں آپ کو کیا تفصیلات بتاؤں، میں کثرت سے سفر کرتا ہوں، جگہ جگہ ایسا ہوتا ہے کہ ٹرین میں یا ایئرپورٹ پر غیر مسلم دوڑتا ہوا آتا ہے، اور پوچھتا ہے آپ نعمانی صاحب ہیں؟؟ اس کے بعد وہ کہنا شروع کرتا ہے بلکہ عورتیں آکر کہتی ہیں نوجوان بچیاں آکر پیر چھونے کی کوشش کرتی ہیں اور کہتی ہیں نعمانی صاحب آپ کو دور دور سے دیکھ رہے تھے اتنا قریب سے دیکھا ہے، آپ سے بس یہ گزارش ہے کہ آپ نے ہم مظلوموں اور پچھڑوں کے سر پر جو ہاتھ رکھا ہے اب اس ہاتھ کو اٹھائیے گا مت ہم پندرہ بیس سال کا وقت مانگتے ہیں، ہم بھارت کا نقشہ پلٹ کر دکھائیں گے، عجیب صورت حال اور عجیب جوش ہے ان کے اندر اور یہ بھی خاص بات ہے کہ وہ خود اپنے منہ سے کہ رہے ہیں کہ جب تک مسلمان ہمارا پورا ساتھ نہیں دیں گے ہم کامیاب نہیں ہوں گے، ابھی پچھلے مہینے اکتوبر میں جھارکھنڈ میں آدیواسیوں کی بہت بڑی ریلی میں تھا، صرف اٹھارہ منٹ کی میری وہاں گفتگو ہوئی، اور اس کے بعد یہ حال ہوا کہ لوگوں کی عجیب کیفیت ہو گئ، لوگ رونے لگے، میرا وہاں سے نکلنا مشکل ہو گیا، یہاں تک کہ ان میں سے ایک خاتون اسٹیج پر آئیں اور انہوں نے منتظمین سے ضد کی کہ دو منٹ بولنے دیجیے! حالانکہ جلسہ ختم ہو چکا تھا، انہوں نے مائیک پر آ کے صرف اتنا کہا کہ میں پینتیس سال سے آدیواسیوں کی پہچان اور تشخص کے لیے محنت کر رہی ہوں آج میں نے نعمانی صاحب کی بات سنی ہے اور اس سے پہلے بھی میں جو سنتی رہی ہوں اس کے بعد میں مسلم بھائیوں اور بہنوں سے صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ آپ ہمارے سر پہ ہاتھ رکھ دیجیے ہم دو سال کے اندر جھارکھنڈ سے اس برہمن ووستھا (سسٹم) کو اکھاڑ پھینک دیں گے، زمینی سطح پر کئی علاقوں میں اس وقت یہ کیفیت ہے اور اسی لیے اس وقت گائے کے نام پر، لو جہاد کے نام پر اور فلاں فلاں تماشوں کے نام پر وہ چھوٹی سی اقلیت ان طبقات کی توجہ اپنی طرف موڑنا چاہتی ہے، اور ان کو ہندو بنائے رکھنا چاہتی ہے، جن کو ہندوئیت سے نکالنا تنہا ہمارے بس کی بات نہیں تھی، اللہ جس کو چاہے استعمال کر لے بہ تو اللہ کا کام ہے، کوئی سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ اسی قوم کے لوگ کھڑے ہو جائیں گے، پنجاب میں اس وقت جو لہر چل رہی ہے آپ دور بیٹھ کر اس کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے کہ پنجاب کے سکھوں کا اس وقت کیا حال ہے؟ وہاں کیا ہو رہا ہے اور ان کی کیا کیفیت ہے؟ سکھ چلا چلا کر کہ رہے ہیں کہ ہم ہندو نہیں ہے اور ہم اب اس بات کو برداشت نہیں کریں گے کہ ہمیں ہندو کہا جائے۔
علماء کرام سے گزارش
تو بس میں اس وقت یہی بات کہنے آیا ہوں کہ ماضی کے تجربوں سے سبق سیکھتے ہوئے، مستقبل کے امکانات اور خطرات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کو پورے اخلاص کے ساتھ نئی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے، اور اس نئی حکمت عملی کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ اسلام کو سمجھے ہوئے، بصیرت، شعور اور گہرا ایمان رکھنے والے جواں عمر علماء اور دانش مند حضرات کی قیادت میں مسلمانان ہند اس نئی حکمت عملی کو اپنائیں، کیونکہ پچھلی حکمت عملی میں بھی خطرات تھے، وہاں بھی علماء کی نگرانی نصیب رہی اس لیے مسلمان ضم ہونے سے بڑی حد تک بچ گئے اور اس نئی حکمت عملی میں بھی اگر علماء اور اہل اللہ اور اسلام کو مضبوطی کے ساتھ سمجھنے والے لوگوں کی قیادت اور نگرانی کے بغیر اگر ہم نے قوم کو نئی حکمت عملی کی تحریکوں کے حوالے کردیا تو ایک نئی قسم کی گمراہی میں ہم اپنی قوم کو ڈھکیل دیں گے، اس لیے علماء کی نگرانی ضروری ہے، ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے حدود کیا ہیں، ہم انضمام کبھی نہیں کریں گے ہم اتحاد و اشتراک کے قائل ہیں انضمام کے نہیں، اور یہ جو احساس و شعور ہے کہ کس حد تک ہم ساتھ دیں گے اور کن حدود کے آگے ہم ایک انچ نہیں بڑھیں گے یہ بغیر علماء کی قیادت کے سنبھالا نہیں جا سکتا، جن چیزوں میں ہم متفق ہیں ان میں ہم ان شاء اللہ پورے خلوص و قوت کے ساتھ اور مشترکہ جد و جہد کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے اور جن مسائل میں ہم متفق نہیں ہیں وہاں ہمارے راستے بالکل الگ ہوں گے، اس نئی حکمت عملی میں جہاں امکانات ہیں وہیں خطرات بھی ہیں، ایسا نہ ہو کہ مسلمان بھی وہی زبان بولنے لگے، قطعا نہیں ہمیں اپنے دین و شریعت اور تہذیب کے اندر رہتے ہوئے اور مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے بڑی حکمت، بڑے صبر و انتظار، بہت سلیقے اور بہت تحمل کے ساتھ، جلد بازی سے بچتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔
سیرت نبوی ﷺ ہماری حکمت عملی کے لیے اسوہ
حضور ﷺ کی ایک بات کا ذکر کر کے میں اپنی بات کو ختم کروں گا کہ جزیرۃ عرب میں پچاسوں قبائل تھے اور ایک قبیلے کو چھوڑ کر وہ سب بت پرست قبیلے تھے، لیکن اتنی بات تو آپ جانتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ہر قبیلے سے الگ معاہدہ کرنے کی کوشش کی، حالانکہ بظاہر ان کا مذہب ایک تھا، لیکن نبوت کی اس حکمت عملی پر ذرا غور تو کریں، آپ نے انہیں مذہبی وحدت قرار نہیں دیا بلکہ آپ نے ان کی قبائلی شناخت کو ان کی اصل پہچان قرار دے کر قبیلوں کے لیڈروں سے معاہدے کیے، یہی اسوۂ حسنہ ہمارے سامنے ہونا چاہیے، ہمیں ان سب کو ایک مذہبی وحدت قرار دینے کی کوشش اب چھوڑ دینی چاہیے، یاد رکھیں عربوں میں جس سماجی اکائی کو قبیلہ کہا جاتا تھا اسی کو بھارت میں ذات اور کاسٹ کہا جاتا ہے۔
مجھے امید ہے کہ اس مختصر وقت میں جو ضروری بات میں آپ سے کہنے کے لیے حاضر ہوا تھا وہ میں نے بڑی حد تک آپ سے کہ دی ہے، امید ہے کہ آپ بہت سنجیدگی سے غور بھی کریں گے اور اس کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے آپ باقاعدہ وقت نکالیں گے۔ جزاکم اللہ تعالی۔
و آخر دعوانا أن الحمد لله رب العلمين
الیکشن اور مسلمانان ہند
﷽
لوک سبھا الیکشن 2019 کے لئے تاریخوں کا باضابطہ اعلان 10مارچ 2019کوہوچکا ہے۔ آئندہ لوک سبھا انتخابات کے لئے 7 مرحلوں میں ووٹنگ ہوگی۔پہلے مرحلے میں 20 ریاستوں کی 91 سیٹیں، دوسرے مرحلے میں 13 ریاستوں کی 97 سیٹیں، تیسرے مرحلے میں 14 ریاستوں کی 115 سیٹیں، چوتھے مرحلے میں 9 ریاستوں کی 71 سیٹیں، پانچویں مرحلے میں 7 ریاستوں کی 51 سیٹیں، چھٹے مرحلے میں 7 ریاستوں کی 59 سیٹیں اورساتویں مرحلے میں 8 ریاستوں کی 59 سیٹوں پرالیکشن ہوں گے۔
ملک کی جو صورت حال ہے وہ کسی پر مخفی نہیں ہے،اس صورتحال میں اب مسلمان کیا کریں، کون سی راہ اپنائیں، کدھر جائیں، کسے ووٹ دیں، جسے ووٹ دے رہے ہیں اس سے کیا مطالبہ اور کیا معاہدہ کریں؟اپنی ذاتی مفاد کودیکھا جائے یاپوری امت وسماج کی،کس مسلم لیڈرکی بات مانی جائےاورکس کی نہ مانی جائے؟ یہ سب انتہائی اہم سوالات ہیں اور ان کے جوابات تلاش کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر ہم نے اس کا کوئی حل نہیں ڈھونڈا تو پھر ہمارا حال وہی ہوگا جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ اب تک فسادات سے لے کر ظلم وبربریت، حق تلفی و نا انصافی جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے یہ سب ہمارے اسی غلط سوچ، عدم ِمنصوبہ بندی اور ہماری غفلت شعاری وبھولاپن کا نتیجہ ہے۔
مہاراشٹر کے تاریخی شہر احمد نگر میں مولانا سجاد صاحب نعمانی مدظلہ نے علماء کی کثیر تعداد کے سامنے ایک اہم بیان فرمایا اسی تقریر کو تحریری شکل میں الفرقان میں شائع کیا گیا ہے۔یہ مضمون بہت ہی کارآمد اور موجودہ شش وپنج میں مسلمانوں کیلئے مشعلے راہ ہے،اس مضمون کو پڑھنے کیلئے نیچے کلک کریں۔
Thursday, March 7, 2019
سپریم کورٹ کی کشمکش
﷽
سپریم کورٹ کی کشمکش
بابری مسجد کی شہادت سے لیکر آج
تک مسلمانوں کو ہی ہراساں کرنے کیلئے پوٹا،لوٹا جیسے قانون نافذ کئے گئے جب حکومت
ہر طرف سے لاچار ہوجاتی ہے تو بات ثالثی کی آجاتی ہے، بے چارے سپریم کورٹ بھی کس قدر
مجبور ہے جو انصاف کی مندر کو ڈھا سکتی ہے اپنے آئین کے تحت ملیکیت کی بنیاد پر
فیصلہ سنا نہیں سکتی ہے،آج 8-3-2019 بروز جمعہ کو سپریم کورٹ فیصلہ سنانے جارہی ہے کہ رام جنم بھومی تنازع
کو ثالثی کے ذریعے حل کیا جائے ، ہم سپریم کورٹ کے اس سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیںفیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں
،انشاء اللہ آپکا فیصلہ دیش کو منظورہویانہ ہو لیکن ہندوستان کے 23 کروڑ مسلمانوں
کو ضرور منظور ہوگا ،لیکن ہم صرف اور صرف یہ چاہتے ہیں کہ یہ فیصلہ انصاف کی مندر
کو ڈھانہ دے ۔
پھر ہم سپریم کورٹ سے کہیں گے کیا بابری مسجد کے معاملے کو ثالثی کے ذریعے حل
کرنا ممکن ہے ؟ کیا مسلمانوں کی طرح دیش کے ہر ناگریک کو یہ فیصلہ منظور ہے؟کیا
وشوہند و پریشد اوردیگر مسلم مخالف تنظیموں کو بھی منظورہے؟
Sunday, November 13, 2016
طلاق اور موجودہ حکومت
بسم اللہ الرحمن الرحیم
طلاق اور موجودہ حکومت
‘‘ومن لم یحکم بماانزل اللہ فأولئک ھم الکافرون’’
تقریبا آج دو تین مہینے سے طلاق،خلع اور نکاح پر اعتراض کیا جارہا ہے،اور اس اعتراض کرنے میں جہاں بھارت کی حکومت ہے ،وہیں مٹھی بھر نام نہاداپنے آپکو مسلمان بتانے والے،یہودی وعیسائی اور آر ایس ایس کے آلہ کار بھی ان شرعی امور پراعتراض کررہے ہیں،یہ مٹھی بھر مسلمان جو میڈیا پر آکر اعتراض کرتے ہیں اور میڈیا والے اسلام اور مسلمان کو بدنا کرنے کیلئے اسکو بڑھا چڑھاکر چینلوں پر بتاتے ہیں، کہ خود مسلمان بھی ان مسائل میں ترمیم چاہتے ہیں،میڈ یا والے کو نہیں معلوم جن کو وہ ٹیوی پر لاکر سوال وجواب کر تے ہیں،کیا وہ واقعی میں مسلمان ہیں یا پھر آر ایس ایس دماغ کے حامل ظاہری مسلمان اور باطنی منافق ہیں، اورایسے لوگوں کا پایاجانا کوئی بعید نہیں ہے،بلکہ دور نبوت سے لیکر آج تک اسلامی لبادے میں اسلام اور مسلمان کو صف ہستی سے ختم کرنے کیلئے کچھ منافق ظاہر ہوتے رہے ،حقیقت میں یہ لوگ بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں،میں اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگا رہا ہوں بلکہ خود قرآن سے دریافت کر لیجیے کہ ایسے لوگ جو شریعت پر اعتراض کرے اور ہندو والے قانون کو ماننے کے لئے تیارہووہ قرآن کے فتویٰ کی روشنی میں کیساہے؟ارشاد ربانی ہے،‘‘ ومن لم یحکم بماانزل اللہ فأولئک ھم الکافرون ’’(مائدۃ)کہ جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہی لوگ کا فر ہیں،ایک دوسری آیت میں ہے، وہی لوگ فاسق ہیں اور ایک جگہ ہے وہی لوگ ظالم ہیں،ان آیتوں کے پیش نظر ان کے اسلام کا جائزہ آپ حضرات خود لیں ؛تو معلوم ہو گا کہ اگر چہ میڈیا والے اور حکومت اس کو مسلمان کہہ رہے ہیں ،حالانکہ قرآن کی نگاہ میں انکااسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس وقت میں کل تین باتیں پیش کر نا چاہتاہوں (۱) حکومت کیا کرنا چاہتی ہے (۲) اس سلسلے میں حکومت اور میڈیاکے اعتراض اور عاجز کی جانب سےجواب (۳) ہمکو کیا کرنا ہے؟
(۱)حکومت کیا کرنا چاہتی ہے
حکومت یہ چاہتی ہے کہ طلاق اور نکاح میں ایک ہی قانون بنے، نکاح تو ہو لیکن طلاق کو ختم کردیاجائے،یعنی طلاق دینے کے بعد بھی عورت کوگھر میں رکھ کر وہی کام ان کے ساتھ کرے جو ایک میاں بیوی آپس میں کرتے ہیں،اس قانون کے خلاف جگہ جگہ مسلمان مردوں نے،عورتوں نے مورچے نکالے، تمام مسلم تنظیموں نے علاقائی،ضلعی اورملک گیر سطح پر کانفرنس کئے،پورے مکاتب فکر کے علماودانشورانِ قوم نے بیک زبان ایوانِ حکومت تک یہ بات پہونچائی ؛ کہ ہم شریعت میں کسی طرح کی ترمیم کو برادشت نہیں کریں گے،ہم مسلم پرسنل لا کواپنے لئے باعث رحمت اور باعث مغفرت سمجھتے ہیں؛ لیکن اتنا کچھ ہونے کے باجود جب ہماری سرکار بنارس پہنچ تی ہے۔ تو علی الاعلان، بر سر عام غیر جانبدارنہ گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہے ؛کہ ہم مسلمان عورتوں پر ظلم نہیں ہو نے دیں گے ، اور اس سلسلے میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں،حکومت کو وہ مٹھی بھر نام نہاد مسلمان عورتوں کا خیال آرہا ہے؛لیکن اس کے مد مقابل تیس کڑور مسلم مردو عورت کے مطالبے یا دنہیں رہے،جو مسلسل جلسے،جلوس اور ریلیوں کے ذریعہ حکومت سے شریعت میں کسی قسم کی مداخلت نہ کرنے کی مطالبہ کررہے ہیں،ظاہری اور سطحی گفتگو سے نظر ہٹا کر دیکھا جائے،تو اس ظاہری ہمدردی کے پیچھے یہی راز چھپا ہے، کہ مٹھی بھر مسلم عورتوں کا سہارا لیکر آہستہ آہستہ بھارت سے اسلام اور مسلمانوں کی شناخت کو ختم کر دیا جائے،یاد رکھیں حکومت کی یہ چال نہایت زہر آلود ہے،حکومت چاہتی ہے کہ عورت کو طلاق ہو نے کے بعدبھی اپنے گھر میں رکھ کر ان کے ساتھ وہی سارا کام کیا جائے جو ایک شوہر اپنی بیوی سے کرتا ہے،جسکو اسلام زنا کہتا ہے،اس طرح یہ پاگل حکومت ایک عفیف پاکدامن خاتون کو زانیہ اور مرد کو زانی بنانے پر تلی ہوئی ہے،در اصل یہ جن ملکوں کی پیروی کرنا چاہتے ہیں وہاں کی اکثر حکومت زنا کو قانونی طور پر جائز قرار دیا ہے،تقریبا دو سوملکوں میں سے پچاس ملک نے زنا کو جائز قرار دیا ہے۔
یاد رکھیں!طلاق کی شرح مسلموں سے زیادہ غیرمسلموں میں زیادہ ہے اگر ان کو واقعی ہمدردی ہے تو یہ ہمدردی اپنے قوم کی عورتوں پر کرے،مسلمان عورتیں الحمد للہ مسلم پرسنل لا سے مطمئن ہی نہیں بلکہ اپنے ایمان کے لئے ضروری بھی سمجھتی ہیں،
برطانوی جریدے‘‘دی اکانومسٹ’’کی شائع کردہ معلوماتی کتاب‘‘ پاکٹ ورلڈ 2016ء’’میں دئیے گئے اعدادوشمار کے مطابق طلاق کی شرح کے لحاظ سے یورپ کے ممالک سب سے آگے ہیں، مغربی بحر الکاہل میں ہر ایک ہزار افراد میں اوسطاً 4.6 طلاقیں واقعہ ہورہی ہیں۔ اس کے بعد روس کا نمبر ہے جس میں فی ایک ہزار آبادی کے لئے طلاق کی شرح 4.5ہے۔ اسی طرح بیلاروس، لیٹویا، لتھوینیا اور مالدووا بھی طلاق کی شرح کی لحاظ سے فہرست میں نمایاں ترین ہیں۔ ڈنمارک میں فی ایک ہزار لوگوں میں طلاق کی شرح 2.8، امریکا میں بھی 2.8 جبکہ اسلامی ملک اردن میں یہ شرح 2.6 ہے۔
اور ہمارے ہندوستان میں سب سے زیاددہ طلاق کی شرح ہند ومیں اورسب سے کم مسلمانوں میں ہے۔
(۱)طلاق کے سلسلے میں اعتراض
طلاق پر عمو ماً دو اعتراض کئے جاتے ہیں (۱) کہ طلاق ہونا ہی نہیں چاہیے بس نکاح ہو اور طلاق نہ ہو اس سے عورتوں پر ظلم ہو تا ہے،(۲) طلاق کا حق صرف مرد ہی کو کیوں ہے؟ عورت کو بھی ہونا چاہیے اس سے تو مرد عورت پر ظلم کر یگا اور عورت مظلوم ہو نے کے باجود طلاق کا حق نہ رکھنے کی وجہ سے شوہر سے الگ نہیں ہو سکتی ہے۔
پہلا اعتراض :کہ طلاق ہونا ہی نہیں چاہیے،اس سے عورتوں پر ظلم ہوتا ہے، پہلی بات تو یہ ذہن میں رکھیں کہ اسلام میں طلاق اس لئے نہیں دیا ہے، کہ مرد عورت پرظلم کرے ،بلکہ طلاق کا مقصد صرف یہ ہے ،کہ اگر مرد وعورت کا آپس میں نباہ مشکل ہو جائے اور کسی طرح ایک جگہ رہناممکن نہ ہو ؛تو بھر خاوند بیوی کو پاکی میں ایک طلاق دیکر چھوڑ دے اب عورت اپنی عدت گزار کر من پسند مرد سے شادی کر سکتی ہے،اگر مرد ناحق عورت پر طلاق دیکر ظلم کرتا ہے تو شریعت بھی ایسے شخص کو عذاب الٰہی کا پیغام دیتی ہے،آپ ﷺ کا فرمان ہے:‘‘ ابغض الحلال الی اللہ الطلاق’’کہ بد ترین حلال اللہ کے نزدیک طلاق ہے،
فلپائن ملک میں طلاق نام کی کوئی چیز نہیں ہے، وہاں کے عوام کی بد حالی پیپر کے اس رپورٹ سے لگائیں‘‘فلپائن جہاں کٹر کیتھولک عیسائی رہتے ہیں وہاں کی قانون طلاق کی اجازت ہی نہیں دیتی۔ جہاں شادی ہو جائے تو طلاق کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔کٹر کیتھولک عیسائیت کے مطابق شادی ساری عمر کیلئے ہوتی ہے، لہٰذا طلاق کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا،عوام کو اس قانون کی وجہ سے بے پناہ مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑرہاہے۔ اکثر جوڑوں میں اختلافات کی وجہ سے سالوں سال علیحدگی ہو جاتی ہے؛ مگر طلاق نہ ہونے کی وجہ سے وہ دوبارہ مذہبی طور پر شادی نہیں کر سکتے۔عوام کے پرزور مطالبے پر 1991ء میں حکومت نے شادی کے خاتمے کا قانون متعارف کروا دیا؛ لیکن طلاق کی اجازت نہیں دی گئی اس تبدیلی کا نتیجہ یہ ہے کہ شادی کے خاتمہ کے بعد اگرچہ دوبارہ شادی کی جا سکتی ہے لیکن اسے چرچ کی آشیرباد حاصل نہیں ہوپاتی اور مذہبی لحاظ سے اسے گناہ کا فعل قرار دیا جاتا ہے۔ فلپائن کی 80 فیصد آبادی کیتھولک عیسائی ے اور کل آبادی میں سے تقریباً نصف یہ چاہتی ہے کہ علیحدہ ہو جانے والے جوڑوں کو طلاق کا حق دیا جائے تاکہ وہ دوبارہ شادی کر سکیں۔
ہماری سرکار کوچاہیے کہ وہ فلپائن کا حال دیکھ لیں ،کہ وہاں طلاق نہ ہو نے پر لاکھوں جوڑے پریشان ہیں،جس کی وجہ سے دونو ں میاں بیوی کئی کئی سالوں سے الگ رہتے ہیں لیکن دوسری شادی نہیں کر سکتے،اس ملک کی حالت زار اور مرد وعورت کی بد حالی دیکھ اسلام کی حقانییت واضح ہو جاتی ہے۔
(۲)دوسرا اعتراض: یہ کیا جاتا ہے کہ طلاق کا حق صرف مرد ہی کو کیوں ہے؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ آپ ان عقل سے پیدل کو پوچھیں کہ بچہ صرف عورت ہی کہ پیٹ سے کیوں نکل تا ہے؟مرد کے پیٹ سے کیوں نہیں نکلتا؟اس کا جواب یہی دیں گے کہ اس میں ہمارےاراد ے کاکوئی دخل نہیں،یہ تو اللہ کا حکم ہے،تو آپ ان سے کہیں کہ پھر طلاق کا حکم بھی اللہ ہی کا ہے، اور اللہ ہی نے اس کا اختیار مرد کو دیا ہے نہ تو کوئی مفتی بدل سکتا ہے اور نہ کوئی وقت کا قطب وابدال۔
اس کا دوسرا جواب یہ ہے،کہ یہ کہنا طلاق کا حق صرف مرد کو ہے عورت مظلوم ہونے کے باجود کچھ نہیں کر سکتی،یہ اعتراض سراسر غلط ہے، اسلام میں مرد کو طلاق کا حق دیا گیا تو عورت کو خلع کا حق دیا،چنانچہ بخاری کی رویت ہے:
''عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی:یارسول اللہ! ثابت کے دین اور اخلاق کے بارے میں مجھے کوئی شکایت نہیں ہے، مگر یہ کہ میں اسلام میں رہتے ہوئے کفر(ناشکری اور شوہر کی نافرمانی)سے ڈرتی ہوں،(تاہم میں چاہتی ہوں کہ ان سے نکاح میں الگ ہو جاؤں کیونکہ میراطبعی میلان اسکی جانب نہیں ہو تاہے) تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تم وہ باغ (جو ثابت نے نکاح کے وقت مہر میں دیاتھا) اسے واپس کر دوگی، اس نے عرض کی: جی ہاں! چنانچہ اس نے (مہر میں لیا ہوا) وہ(باغ)شوہر کو واپس کر دیا، رسول اللہ ﷺ نے (ثابت سے) فرمایا: باغ قبول کرلو اور اسے ایک طلاق دے دو‘‘ (بخاری: 5273)
یہی ہے خلع جسکو ثابت بن قیس کی بیوی کے قلبی میلان نہ ہو نی کی وجہ سے آپ ﷺ نے دلایا تھا،ہاں عورت کو خلع کرنے کیوقت شریعت نے حکم دیا کہ تمہاری عقل کچی ہوتی ہے ، ذرا سی بات پر بے قابو ہو جاتے ہو؛ اس لئے خلع کے وقت تم اپنے شہر کے اچھے عالم دین (قاضی) کے پاس جاکر اپنے تکلیفوں اور شوہر کے ظلم وجوڑ کا ذکر کرو،وہ عالم صاحب تمہارے دونوں کی ازداجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے مشورے دیں گے ،اور مشورے کے بعد بھی دونوں کی زندگی کاگزرنا مشکل ہو جائے؛تو پھر قاضی خلع کرادیں گے،اگر کسی کے ذہن میں سوال آئے کہ خلع میں بھی تو مرد کی رضامند ی ضروری ہے ،پھر عورت کو خلع کا اختیاردیکر بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا، یہ اعتراض خلع کے تمام پہلو کو نظر انداز کر کے کیا گیا ہے،الحمد للہ ہم نے بھی افتا ء کے ساتھ قضا کیا ہے،اس کا صحیح جواب یہ کہ قاضی شوہر کو خلع پرراضی کریں کے اگر شوہر راضی نہ ہوا،تو عورت پر ظلم وجوڑ کرنے سے منع کریگا،اگر شوہر اپنے ظلم سے باز نہیں آتا ہے،تو یاد رکھیں قاضی ولایت عامہ کے تحت شوہر کا قائم مقام ہو کر اسکی بیوی کو طلاق دیدیں گے یہی امام مالک کا مذہب ہے،اور واقعی عورت پربہت ہی ظلم ہورہاہے، اور شوہر چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہے تو ہمارے ہندوستان میں بھی درالقضا امام مالک ؒ کے مذہب کی بنیاد پر عورت کو طلاق دیتے ہیں۔(دیکھیں پوری تفصیل بحث ونظر میں)
اب اخیر میں ان ملکوں پر بھی تھوڑی نظر ڈالتے ہیں جہاں عورتوں کو عالم و قاضی کے مشورہ کے بغیر طلاق کا حق دیا گیا وہاں کا کیا حال ہے۔
نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق امریکا میں شادی کے بندھن میں بندھنے والے پچاس فيصد جوڑے زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں ایک دوسرے سے طلاق حاصل کر لیتے ہیں۔امریکی ریاست ڈیلاوئیر میں طلاق کے لیے ایک ایسا قانون موجود ہے، جس کے تحت اگر ایک شخص ہنسی مذاق یا شرط نبھانے کے لیے شادی کر لیتا ہے تو، اسے بعد میں طلاق کا مقدمہ دائر کرنے کی اجازت ہے،آسٹریلیا میں قبائلی خواتین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یا تو اپنے شوہر کو طلاق دینے کے لیے آمادہ کریں یا پھر شادی سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک دوسری شادی کر لیں اس طرح ان کی پہلی شادی خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔ امریکی ریاست کینٹکی میں اس بات کی اجازت ہے کہ ایک ہی شخص سے طلاق کے بعد تین بار شادی کر سکتے ہیں لیکن چوتھی بار اسی شخص سے شادی کرنے کی اجازت ریاست کا قانون نہیں دیتا،امریکی ریاست ٹینسی میں اگرشریک حیات جان سے مارنے کے لیے کوئی حربہ مثلاً زہر پلانیکی کوشش کرتا ہے تو اس بنیاد پرطلاق منظور ہو سکتی ہے۔ برطانیہ میں طلاق حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شریک حیات کی حد درجہ برائیوں کا ذکر کیا جائے صرف ذاتی ناپسندیدگی کی بنیاد پر طلاق منظور نہیں کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں جوڑے طلاق کے لیے شریک حیات میں عجیب وغریب عیب تلاش کرتے ہیں۔یہ ان ترقی یافتہ مملک کا حال ہے اللہ تعالی ہمیں صحیح سمجھ عطا کرے آمین
(۳)تیسری بات کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟ اس سے پہلے بھی جمعہ میں ہم نے کہاتھا کہ ہمارے بیان کا یہ مقصد نہیں ہے کہ آپ جا کر برادرانِ وطن سے الجھ جائیں اور لڑائی جھگڑے کرنے لگیں؛بلکہ ہمارے بیان اور ہمارے اکابرین کی موجودہ تمام کانفرنس اور ریلیوں کا واحد مقصد یہی ہے کہ ہم براہ راست حکومت کو کہنا چاہتے ہیں ،کہ برائے کرم یہ ملک ایک جمہوری ملک ہے،جس میں ہر ایک کو مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے،اس لئے آپ مذہب کی آزادی کو چھین نے کی سازش نہ کریں،تو ہمارا مطالبہ براہ راست حکومت سے ہے، نہ کہ برادرانِ وطن سے،دوسراکام جو ہم لوگوں کو کرنا ہےوہ یہ ہے کہ جو لوگ اب تک دسختی مہم میں پرچہ پر دستخط نہیں کیا ہے وہ جلد از جلد کر کے پرچے جمع کردیں تاکہ جلد از جلد اس کو مسلم پرسنل لا بورڈ تک پہونچا دیاجائے۔
اللہ تعالیٰ ملک اور صاحب ملک سب کی حفاظت کرے۔آمین
ملک بھارت سلگتے مسائل
کچھ نئے اہم اور ضروری مضمون
Subscribe to:
Posts (Atom)