﷽
معتکف کی فضیلت
عَنِ ابْنِ عَباَّسٍؓ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ قاَلَ فِیْ الْمُعْتَکِفِ: ’’ھُوَ یَعْتَکِفُ الذُّنُوْبَ، وَیَجْرِیْ لَہٗ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ کُلِّھَا۔‘‘ (رواہ أبو داود وابن ماجہ، مشکوٰۃ/ص: ۱۸۳/ باب الاعتکاف، الفصل الثالث)حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ،رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ’’ وہ (اعتکاف کی وجہ سے ) گناہوں سے بچا رہتا ہے ،اور اس کے لیے نیکیاں جاری رہتی ہیں، ساری نیکیاں کرنے والے کی طرح (اس کے لیے نیکیاں اتنی لکھی جاتی ہیں جتنی کرنے والے کے لیے )
اعتکاف کی تعریف
اعتکاف کی نیت سے مرد کا مسجد شرعی میں ٹھہرنا یا عورت کا اپنے گھر کی مسجد میں بیٹھنا اعتکاف کہلاتا ہےاعتکاف کی قسمیں
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں:(1)واجب اعتکاف: یہ وہ اعتکاف ہے جس کی نذر مانی جائے، مثلا:کوئی کہے اگر میرا یہ کام ہوگیا تو میں اتنے دنوں کا اعتکاف کرونگا۔
(2)مسنون اعتکاف:رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں اعتکاف کے لئے بیٹھنا مسنون اعتکاف ہے ' آپ ﷺ ۖ سے بالالتزام رمضان المبارک کے اخیرعشرہ میں اعتکاف کرنا ثابت ہے؛ ' اس لئے رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ ہے مگر یہ سنت مؤکدہ ایسا ہے کہ اگر بعض افرادمحلے کی مسجد میں اعتکاف کے لئے بیٹھ جائیں تو سب کا ذمہ فارغ ہو جائے گا ۔
(3)نفلی اعتکاف:رمضان المبارک کے آخیر عشرہ کے علاوہ کسی وقت بھی مسجد میں اعتکاف کی نیت سے بیٹھنا نفلی اعتکاف کہلاتا ہے۔
شرائطِ اعتکاف
اعتکاف کی صحت کے لئے چند شرائط کا ہونا ضروری ہے ۔(1)اعتکاف نفلی ہو ' واجب ہو یا سنت سب میں اعتکاف کی نیت کا ہونا شرط ہے بغیر نیت کے مسجد میں ٹھہرنا شرعی اعتکاف نہیں کہلاتاہے ۔
(2)اور نیت کی صحت کے لئے اسلام اور عقل شرط ہے؛ اس لئے معتکف کا مسلمان ہونا اور عاقل ہونا بھی لازمی ہے؛ البتہ اعتکاف کے لئے بلوغ شرط نہیں لہذا اگر سمجھدار بچہ اعتکاف کیلئے بیٹھ جائے تو اعتکاف درست ہے ۔
(3)اسی طرح اعتکاف کے لئے معتکف کا جنابت ' حیض ونفاس سے پاک ہونا بھی ضروری ہے۔
(4)اعتکاف کے لئے شرعی مسجد کا ہونا ضروری ہے چاہے اس میں پنج وقت نماز باجماعت ادا ہوتی ہو یا نہیں۔ البتہ عورت گھر میں اس جگہ اعتکاف کرلے جہاں وہ پنجگانہ نماز پڑھتی ہو اور جگہ مقرر نہ ہو تو اعتکاف سے پہلے نماز کے لئے جگہ مقرر کرکے وہاں اعتکاف کرلے۔
(5)واجب اعتکاف کیلئے روزہ رکھنابھی ضروری اور شرط ہے ' حتی کہ اگر اعتکاف کیلئے بیٹھنے سے پہلے قبل نیت بھی کرلے کہ میں روزہ نہیں رکھوں گا تب بھی روزہ رکھنا ہوگا! ہاں روزہ کا خاص اعتکاف کیلئے رکھنا ضروری نہیں خواہ کسی بھی غرض سے روزہ رکھا جائے تو بھی اعتکاف کیلئے کافی ہے ' اسی طرح مسنون اعتکاف کیلئے بھی روزہ شرط ہے اگرچہ مسنون اعتکاف میں عموماً رمضان کا روزہ ہی ہوتا ہے۔البتہ نفلی اعتکاف کیلئے مفتی قول کے مطابق روزہ شرط نہیں۔
مسائل اعتکاف
مسئلہ: اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں رہے اور سوائے ایسی حاجات ضروریہ کے جو مسجد میں پوری نہ ہوسکیں (جیسے پیشاب، پاخانہ کی ضرورت یا غسل واجب اور وضو کی ضرورت) مسجد سے باہر نہ جائے۔مسئلہ: رمضان کے عشرئہ اخیر میں اعتکاف کرنا سنت موٴکدہ علی الکفایہ ہے۔ یعنی اگر بڑے شہروں کے محلہ میں اور چھوٹے دیہات کی پوری بستی میں کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب کے اوپر ترکِ سنت کا وبال رہتا ہے اور کوئی ایک بھی محلہ میں اعتکاف کرے تو سب کی طرف سے سنت ادا ہوجاتی ہے۔
مسئلہ: بالکل خاموش رہنا اعتکاف میں ضروری نہیں؛ بلکہ مکروہ ہے؛ البتہ نیک کلام کرنا اور لڑائی جھگڑے اور فضول باتوں سے بچنا چاہیے۔
مسئلہ: اعتکاف میں کوئی خاص عبادت شرط نہیں، نماز، تلاوت یا دین کی کتابوں کا پڑھنا پڑھانا یا جو عبادت دل چاہے کرتا رہے۔
مسئلہ: جس مسجد میں اعتکاف کیاگیا ہے، اگر اس میں جمعہ نہیں ہوتا، تو نماز جمعہ کے لیے اندازہ کرکے ایسے وقت مسجد سے نکلے جس میں وہاں پہنچ کر سنتیں ادا کرنے کے بعد خطبہ سن سکے۔ اگر کچھ زیادہ دیر جامع مسجد میں لگ جائے، جب بھی اعتکاف میں خلل نہیں آتا۔
مسئلہ: بلا ضرورت طبعی شرعی تھوڑی دیر بھی مسجد سے باہر چلا جائے گا تو اعتکاف فاسد ہوجائیگا، خواہ عمداً نکلے یا بھول کر۔ اس صورت میں اعتکاف کی قضا کرنا چاہیے۔
مسئلہ: آخر عشرہ کا اعتکاف کرنا ہوتو ۲۰/تاریخ کو غروبِ آفتاب سے پہلے مسجد میں چلا جائے اور جب عید کا چاند نظر آجائے تب اعتکاف سے باہر ہو۔
مسئلہ: غسلِ جمعہ یا محض ٹھنڈک کے لیے غسل کے واسطے مسجد سے باہر نکلنا مُعتکف کو جائز نہیں ہے۔
مسئلہ: واجب اعتکاف کم از کم ایک دن کا ہوسکتا ہے اور زیادہ جس قدر چاہے معتکف نیت کرسکتا ہے،مسنون اعتکاف دس دن ہوگا۔ اس لئے مسنون اعتکاف رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں ہوتا ہے اور مستحب اعتکاف کے لئے کوئی مقدار مقرر نہیں۔
مسئلہ: معتکف کیلئے حالت اعتکاف میں مسجد سے حاجت انسانی مثلاً بول وبراز ' غسل جنابت کے لئے نکلنا بشرطیکہ مسجد میں غسل کا انتظام ممکن نہ ہو اور حاجت شرعی مثلاً جمعہ اذان وغیرہ کیلئے نکلنا جائز ہے؛ مگر جیسے ہی ضرورت پوری ہو جائے تو واپس مسجد چلا آئے۔ اسلئے بلاضرورت مسجد سے ایک لمحہ کیلئے نکلنے سے بھی اعتکاف فاسد ہو جاتا ہے۔
مسئلہ: قضاء حاجت کے لئے قریب سے قریب تر جگہ جانا چاہیے ۔قضاء حاجت میں وضو کرنا بھی ضروری ہے ۔
مسئلہ: اخراج ریح کے لئے مسجد سے نکلنا مندوب ہے ' اور مسجد میں اخراج ریح کراہت سے خالی نہیںہے۔
مسئلہ: حقہ وغیرہ پینے کے لئے مسجد سے نکلنا درست نہیں ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ اس ضرورت کو قضاء حاجت کے دوران پورا کیا جائے یا مسجد کے احاطہ میں کھڑے ہو کر دھواں باہر نکالا جائے ۔
مسئلہ: اعتکاف کے دوران اخبار پڑھنے یا خبریں سننے سے احتراز کرنا چاہیے۔ اعتکاف کے دوران رضا الہٰی والے امور میں مشغول رہنا چاہیے۔
مسئلہ: اعتکاف کیلئے چونکہ ساری مسجد معتکف ہے اس لئے معتکف دھوپ کے لئے مسجد کے کسی بھی کونے میں بیٹھ سکتا ہے ۔
مسئلہ: معتکف کیلئے اعتکاف کی حالت میں خاموشی کو عبادت سمجھ کر چپ رہنا مکروہ تحریمی ہے مگر بلاضرورت اور فضول باتوں سے احتراز کرے دوران اعتکاف دینی اور دنیوی گفتگو بقدر ضرورت کی جاسکتی ہے۔
مسئلہ: معتکف کے لئے مسجد میں اتنی جگہ گھیرنا جس سے دوسرے معتکفین یا نمازیوں کو تکلیف ہو مکروہ ہے۔
مسئلہ: اعتکاف کے دوران مجبوری میں خرید و فروخت کرنا اگرچہ جائز ہے مگر سودا مسجد میں لانا مکروہ تحریمی ہے۔
مسئلہ:اعتکاف کے دوران نماز جنازہ ' کسی مریض کی عیادت سرکاری یا غیر سرکاری ڈیوٹی ' اور اس قسم کے دوسرے قسم کے امور کے لئے نکلنا جو حوائج انسانی یا شرعی میں داخل نہیںہے ۔تاہم اگر معتکف اعتکاف میں بیٹھنے سے قبل مذکورہ امور کے لئے نکلنے کی نیت کرے تو بقدر ضرورت نکل سکتا ہے ۔
مسئلہ:اعتکاف کا مقصد چونکہ قرب الہیٰ حاصل کرنا ہے ' اس لئے معتکف اپنے گھر بار دینوی مشاغل چھوڑ کر مسجد میں مقیم ہو جاتا ہے ' فقہا کرام نے لکھا ہے کہ معتکف حالت اعتکاف میں قرآن کریم کی تلاوت ' احادیث مبارکہ ' آنحضرت ۖ کی سیرت طیبہ ' انبیاء کرام اور سلف صالحین کے حالات کے مطالعہ اور دیگر دینی امور میں مشغول رہنا چاہیے۔ دنیاوی باتیں ' ہنسی مذاق سے احتراز کرنا چاہیے ۔ (الہندیة ،ج:1ص:221۔)
مسئلہ:اعتکاف ایک عبادت ہے، اس پر نہ اجرت کا لینا جائز ہے اور نہ دینا جائز ہے، اور نہ اس کے لئے نمازیوں سے چندہ کرنا جائز ہے، اور نہ باہر سے کرایہ پر معتکف کو لانا جائز ہے، اس لئے ان طریقوں کو ختم کرکے ہر مسجد میں بلااجرت اعتکاف کے لئے معتکفین کا انتظام کرنا چاہئے؛ تاکہ ترکِ اعتکاف کے گناہ سے پوری آبادی محفوظ رہ سکے۔ ( کتاب النوازل ،ج:6ص:241۔ )
مسئلہ: اعتکاف مسنون ٹوٹ جانے کی صورت میں امام ابویوسفؒ کے نزدیک پورے دس یوم کی قضا لازم ہوتی ہے، جب کہ طرفین کے نزدیک صرف اسی دن کی قضا لازم ہوتی ہے جس دن اعتکاف ٹوٹا ہے؛ اس لئے احوط یہ ہے کہ دس دن کی قضا کی جائے؛ لیکن یہ مشکل ہو تو کم از کم ایک یوم کی قضا تو بہر حال لازم ہے اور یہ قضا روزہ کے ساتھ ہوگی۔ ( کتاب النوازل ،ج:6ص:242۔)
مسئلہ: کسی عورت کواس بات کایقین ہے کہ پچیسویں رمضان کو حیض آئے گا، تو ایسی عورت کے لئے اعتکاف مسنون کی نیت سے بیٹھنا مناسب نہیں ہے؛ لیکن اگر وہ اس کے باوجود بیٹھ گئی اور درمیانِ اعتکاف حیض آگیا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوگیا، اور پاک ہونے کے بعد کم از کم ایک دن کے اعتکاف کی قضا روزے کے ساتھ کرے۔ ( کتاب النوازل ،ج:6ص:246۔ )
مسئلہ: نفلی اعتکاف حالتِ حیض ونفاس میں درست نہیں ہے؛ کیوں کہ حیض ونفاس سے پاک ہونا ہر طرح کے اعتکاف کے لئے لازم ہے۔ ( کتاب النوازل ،ج:6ص:247۔ )
نوٹ : یہ تحریرعاجز کی مستقل نہیں ہے ؛بلکہ تحفہ خواتین، ماہنامہ الحق ستمبر2004۔فتاویٰ حقانیہ، فتاویٰ رحیمیہ اور کتاب النوازل وغیرہ کی تحریروں کو جمع کردیا ہے ۔
رمضان سے متعلق مضامین
No comments:
Post a Comment
شکریہ آپکا کومینڈ مفتی صاحب کے میل تک پہنچ گیا