Friday, May 8, 2020

اعتکاف کے جدید مسائل



﷽  

لاک ڈاؤن میں اعتکاف

رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کااعتکاف سنت مؤکدہ کفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہےکے اگر مسجد میں کوئی ایک شخص بھی اعتکاف کر لے تو اہل محلہ اعتکاف کی ذمہ داری سے بری ہوجائیگا ،اگر کسی نے بھی اعتکاف نہیں کیاتو پورے محلے والے گنہگار ہونگے؛ اس لئےجس طرح مساجد میں لاک ڈاون میں چند حضرات جمعہ و جماعت کرلیتے ہیں اسی طرح انہی حضرات میں سے کوئی اعتکاف کیلئے بھی بیٹھ جائے تاکہ اہل محلہ گنگار ہونے سے بچ جائے ۔
اجتماعی اعتکاف سے بچیں
 اعتکاف بھی مساجد میں ہو؛ لیکن احتیاطی تدابیر اور فاصلہ کے مطابق،اور اجتماعی اعتکاف سے کلی طور پر احتراج کرنا چاہیے۔  
کورونا وائرس کی وبا  کی وجہ سے مرد گھر میں اعتکاف کر سکتا ہے یا نہیں؟ 
 مردوں کے لیے ایسی مساجد میں اعتکاف کرنا شرط ہے جہاں امام و مؤذن مقرر ہوں، ایسی مساجد کے علاوہ دوسری جگہوںاور گھروں میں اعتکاف کرنے کی شرعاً اجازت نہیں، البتہ خواتین کے لیے اپنے گھر میں جگہ مقرر کرکے اعتکاف کرنے کا حکم ہے۔ مردوں کے لیے وبا کی وجہ سے گھروں میں اعتکاف کرنے کی کسی بھی مسلک میں اجازت نہیں ہے۔(الموسوعة الفقهية الكوتية، ج:5ص211تا212۔)
مخنث کہاں اعتکاف کرے؟
مخنث کا اعتکاف مسجد میں درست ہے لہذا اس بارے میں زید کا موقف ہے کیونکہ مذکر ہونے کے احتمال کے ساتھ اس کا اعتکاف گھر میں صحیح نہیں جبکہ مؤنث ہونے کےاحتمال کے ساتھ مسجد میں کراھت کے ساتھ ادتکاف درست ہوگا تاہم مسجد میں اعتکاف کرنے کے لیے خنثی پر لازم ہے کہ مردانہ ھئیت اور وضع قطع اختیار کرے ،زنانہ لباس اور زنانہ ھئیت کے ساتھ مسجد میں اعتکاف کرنے سے بچے۔اجمع الفقھاء علی انہ لا یصح اعتکاف الرجل و الخنثی الا فی مسجد، لقولہ تعالیٰ (و انتم عاکفون فی المسااجد) و للاتباع لان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یعتکف الا فی المسجد۔ ( الموسوعۃ)
مسجد سے متصل حجرے میں اعتکاف کرنا
مسجد سے متصل ایسے حجرہ میں اعتکاف کرنا جس میں نماز نہ ہوتی ہو بلکہ وہ حجرہ امام، مؤذن یا مسجد کا سامان رکھنے کیلئے بنایا گیا ہو شرعاً درست نہیں ہے، اس لئے کہ اعتکاف کیلئے ایسی مسجد شرط ہے جس میں پنج وقتہ نماز با جماعت ہوتی ہو ۔ (النھر الفائق، کتاب الصوم ، باب الاعتکاف)
 زنجیری اعتکاف کرنے سے سنت اعتکاف ادا نہ ہوگا
اعتکافِ سنت یہ ہے کہ ایک ہی شخص بیس رمضان کو غروب آفتاب سے پہلے مسجد میں داخل ہوجائے ،اور ہلال عید طلوع ہونے تک اعتکاف کی حالت میں رہے ،مختلف دنوں میں مختلف لوگ بیٹھیں تویہ اعتکاف نفل ہوگا، اس سے اعتکاف سنت ادا نہیں ہوگا ،اور اہل محلہ پر اس کی ذمہ داری باقی رہے گی ۔(کتاب الفتاویٰ جلد131/3۔)
اُجرت لے کر اعتکاف کرنا
اعتکاف ایک عبادت ہے، اس پر نہ اجرت کا لینا جائز ہے اور نہ دینا جائز ہے، اور نہ اس کے لئے نمازیوں سے چندہ کرنا جائز ہے، اور نہ باہر سے کرایہ پر معتکف کو لانا جائز ہے، اس لئے ان طریقوں کو ختم کرکے ہر مسجد میں بلااجرت اعتکاف کے لئے معتکفین کا انتظام کرنا چاہئے؛ تاکہ ترکِ اعتکاف کے گناہ سے پوری آبادی محفوظ رہ سکے۔(کتاب النوازل جلد17)
کسی مقصد کی حصول یابی کیلئے تین دن اعتکاف کی منت ماننا
آدمی جتنے دن کے اعتکاف کی نذر مانے، اتنے دن لگاتار روزہ کے ساتھ اعتکاف کرنا ضروری ہے، ۔(ہدایہ ج:1 ص :231۔)
دائی کا حالتِ اعتکاف میں معتکف کے اندر بچہ جنوانا
عورت کا معتکف مسجد کے حکم میں نہیں ہے؛ لہٰذا اس معتکف میں اگر وہ کسی عورت کو بچہ جنوائے، تو اس سے اعتکاف میں کوئی فرق نہیں آئے گا؛ تاہم بہتر یہی ہے کہ بحالتِ اعتکاف ایسا عمل نہ کرے۔ (مستفاد: فتاوی محمودیہ ،ج:10ص:251 ڈابھیل)
اعتکاف کی حالت میں تصویر کھینچنا اور اس کو سوشل میڈیا پر شئیر کرنا 
 اعتکاف کی حالت میں تصویر کھینچنا اور اس کو سوشل میڈیا پر شئیر کرنا توکئی گناہوں کا مجموعہ ہے،مثلا:  اس سے مسجد کا تقدس پامال ہوتا ہے،  اور اس کی بے حرمتی ہوتی ہے،  اس میں ریاکاری کا شائبہ بھی ہے کہ اعتکاف کی حالت میں تصویر شئیر کرنے سے مقصد لوگوں کو بتانا ہے کہ ہم اعتکاف میں بیٹھے ہیں،نیز اس سے مقصد اعتکاف بھی فوت ہوجاتا ہے، اعتکاف کا مقصد دنیا سے یک سو  ہوکر اللہ سے تعلق جوڑنا ہوتا ہے، اعتکاف کے دوران سوشل میڈیا کا استعمال اور تصویر کشی کرنا لہو لعب اور وقت کا ضیاع ہے۔ (مستفاد:فتاویٰ بنوری نیٹ)
اعتکاف میں فیس بک اور واٹس ایپ کا استعمال کرنا
اعتکاف کا مقصد دنیاوی امور سے یکسو ہو کر اللہ سے لو لگانا ہے، نفسِ موبائل اس مقصد کے حصول میں رکاوٹ ہے، پھر اس میں فیس بک اور واٹس ایپ کا استعمال بالکل زہر قاتل اور مقصد سے محرومی کا ذریعہ ہے۔ ( فتاویٰ بنوری نیٹ)
بیماری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتے ہیں تو کیا مسنون اعتکاف کرسکتا ہے ؟
رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف مسنون ہے، اور مسنون اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے، روزہ کے بغیر مسنون اعتکاف صحیح نہیں ہوتا، البتہ نفلی اعتکاف کے لیے روزہ شرط نہیں ہے، اس لیے اگر بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے پر قادر نہ ہوتو مسنون اعتکاف تو صحیح نہیں ہوگا، البتہ نفلی اعتکاف کی نیت سے اعتکاف کرلیں، اس کا اجر وثواب ملے گا۔(شامی ج:2ص:442۔)
ضرورت کے وقت کھانا کھانے کے لئے معتکف کا گھر جانا
اگر معتکف کے گھر سے یا کسی اور جگہ سے کھانا وغیرہ آنے کا کوئی نظم نہیں ہے تو وہ حسبِ ضرورت غروب کے بعد کھانا کھانے کے لئے اپنے گھر جاسکتا ہے اس لئے کہ یہ بھی طبعی ضرورت میں داخل ہے۔(طحطاوی علی المراقی ،ص:384۔البحر الرائق ،ج:2ص:303۔)
حرمین شریفین میں معتکفین کا کھانے کے لئے باہر نکلنا
حرمین شریفین میں کھانے کا سامان اندر لانے کی اجازت نہیں ہوتی؛ لہٰذا رمضان المبارک میں وہاں اعتکاف کی سعادت حاصل کرنے والے حضرات اگر مغرب کے بعد قریبی ہوٹل پر جاکر کھانا کھا آئیں یا باہری صحن میں نکل کر کھانا کھائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیوںکہ یہ طبعی ضرورت میں داخل ہے؛ البتہ کھانے کے بعد وہاں بیٹھے نہ رہیں؛ بلکہ فارغ ہوکر فوراً مسجد میں آجائیں۔  (طحطاوی علی المراقی ،ص:384۔البحر الرائق ،ج:2ص:303۔)
مسجدِ نبوی کے معتکفین کا صلوٰۃ وسلام پیش کرنے کے لئے مسجد سے باہر جانا
مسجد نبوی میں بھیڑ کے اوقات میں حکومت کی طرف سے صلوٰۃ وسلام پیش کرنے کے لئے یہ نظام رہتا ہے کہ لوگ باب السلام سے داخل ہوتے ہیں، اور باب البقیع سے باہر نکلتے ہیں، اور اس وقت اس نظام کی خلاف ورزی کسی کے لئے ممکن نہیں رہتی؛ لہٰذا مسجد نبوی کے معتکفین پر لازم ہے کہ وہ صلوٰۃ وسلام کے لئے مسجد کی حدود سے باہر نہ جائیں؛ بلکہ ایسے وقت میں سلام کے لئے حاضری کا اہتمام رکھیں، جب کہ مسجد سے باہر نہ جانا پڑے، مثلاً: اشراق کے بعد، یا عصر کے ایک گھنٹہ کے بعد یا تراویح کے ایک گھنٹے کے بعد، وغیرہ۔
 فإذا خرج من المسجد ولو ناسیاً ساعۃً بلا عذر، فسد اعتکافہ عند الامام؛ لوجود المنافی ولو قلیلاً۔ (مجمع الانہر ج:1ص:315، آئینہ رمضان ،ص:298۔)
معتکف کا ڈاکٹر کو دکھانے کے لئے جانا
اگر معتکف شخص بیمار ہو اور اسے مسجد سے باہر جاکر ڈاکٹر کو دکھانے کی ضرورت ہو تو امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اس مقصد سے مسجد سے باہر جانے سے اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا؛ لیکن عذر کی بنا پر گناہ نہ ہوگا۔ إذا خرج ساعۃ بعذر المرض فسد اعتکافہ۔(ہندیۃ ،ج:1ص:212۔)
معتکف کا عدالت کی تاریخ پر حاضر ہونا
اگر معتکف کا کوئی مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہو، اور دورانِ اعتکاف عدالت میں حاضری کی تاریخ پیش آجائے اور حاضر نہ ہونے کی شکل میں سخت نقصان کا اندیشہ ہو، یا کسی مقدمہ میں گواہی کی ضرورت ہو اور معتکف کے علاوہ کوئی گواہ موجود نہ ہو اور عدالت میں حاضر نہ ہونے کی صورت میں صاحب حق کا حق ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں ضرورۃً صاحبین کے قول پر عمل کرتے ہوئے ایسے معتکف کے لئے مسجد سے باہر جانے کی گنجائش ہے۔
 وفی شرح الصوم للفقیہ ابی اللیثؒ: المعتکف یخرج لاداء الشہادۃ، وتأویلہ اذا لم یکن شاہدٌ اٰخر فیتوی حقہ۔ (فتح القدیر بیروت ،ج:2ص:396۔)
 ومن الضرورۃ اداء الشہادۃ۔ (الدر المنتقیٰ ،ج:1ص:178۔)
نوٹ: اس مسئلہ میں دوسرا قول یہ ہے کہ شہادت دینے کے لئے معتکف کا مسجد سے باہر آنا بہرحال مفسد اعتکاف ہے، یہ الگ بات ہے کہ ضرورت کی بنا پر اس اقدام کی وجہ سے وہ گنہگار نہ ہوگا، احتیاطا بہت سے فقہاء کرام نے اسی قول پر فتویٰ دیا ہے اس لئے بہتر ہے اسی قول پر عمل کیا جائے۔  (فتح القدیر بیروت ،ج:2ص:396۔)
 مسجد کا حدود
   مسجد کمیٹی سے مسجد کی حدود معلوم کرلینی چاہیئے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مسجد کے مضافات اور صحن وغیرہ کو مسجد سمجھ کر اس میں بھی آمدورفت رہتی ہے، حالانکہ اس سے سنت اعتکاف ختم ہوچکا ہوتا ہے، اعتکاف صرف مسجد کی اصلی حدود میں ہوتا ہے۔
معتکف کیلئے بیان سننے جامع مسجد جانا
اذان جمعہ سے قبل جو آج کل و عظ کہنے کا رواج ہے دوسری مسجد کے معتکف کو اس کے سننے کے لیے جامع مسجد میں نہ جانا چاہیے۔ ہاں اگر تحیۃ المسجد اور جمعہ کی سنت پڑھنے کے بعد جماعت کے قیام میں اندازہ سے زیادہ دیر لگ گئی تو ایسے وقت اگر جماعت کے انتظار کی حالت میں وعظ بھی سنتا رہا ہے تو کچھ حرج نہیں۔ (بارہ مہینوں کے فضائل ومسائل،/167۔)
مرض کی وجہ سے اعتکاف توڑنے کا حکم
 مرض اور اس کا علاج ایسا عذر ہے جس کی وجہ سے اعتکاف توڑنا جائز ہے ۔بعد میں ایک دن کا اعتکاف روزہ کے ساتھ قضاکرلے۔(فتاویٰ عثمانی، ج:2ص:238۔)
مستورات کا مساجد میں اعتکاف کرنا
مستورات کا عام مسجدوں میں جاکر اعتکاف کرنا سخت فتنہ کا سبب ہے، اگر وہاں پردہ کا معقول انتظام ہو پھر بھی عورتوں کو اعتکاف سے منع کیا جائے گا اور جن مساجد میں پردہ کا انتظام ہی نہ ہو وہاں بدرجہ اولیٰ ممانعت ہوگی؛ اِس لئے اس سلسلہ میں حکمتِ عملی کے ساتھ روکنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔(کتاب النوازل جلد17)
کسی عورت کو پختہ یقین ہوکہ رمضان کے اخیر عشرہ کی فلاں تاریخ مثلا: پچیسویں رمضان کو حیض آئے گا، تو ایسی عورت کے لئے اعتکاف مسنون کی نیت سے بیٹھنا مناسب نہیں ہے؛ لیکن اگر وہ اس کے باوجود بیٹھ گئی اور درمیان اعتکاف حیض آگیا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوگیا، اور پاک ہونے کے بعد کم از کم ایک دن کے اعتکاف کی قضا روزے کے ساتھ کرے۔ (بدائع الصنائع ،ج:2ص:287۔زکریا)
عورت حیض یا نفاس کی حالت میں اپنے گھر میں نفلی اعتکاف نہیں کرسکتی 
نفلی اعتکاف حالتِ حیض ونفاس میں درست نہیں ہے؛ کیوں کہ حیض ونفاس سے پاک ہونا ہر طرح کے اعتکاف کے لئے لازم ہے۔ 
کیا عورت اپنے گھر کے علاوہ کسی اور کے گھر میں اعتکاف میں بیٹھ سکتی ہے؟
گھر میں اگر عورت نے نماز پڑھنے کے لیے جگہ مقرر کی ہوئی ہو تو اس کے لیے افضل یہ ہے کہ اسی نماز پڑھنے کی جگہ اعتکاف کرے، اس جگہ اعتکاف کرنا اس کے حق میں ایسا ہے جیسے مرد کے لیے جماعت والی مسجد میں اعتکاف کرنا،وہاں سے ضروری حاجت کے سوا نکلنا جائز نہیں،اور اپنے گھر میں نماز کی جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ بھی اعتکاف کرنا جائز ہے۔اور اگر گھر میں نماز کے لیے کوَئی جگہ مقرر نہیں ہے تو عورت کو چاہیے کہ کسی جگہ کو نماز کے لیے مقرر کرکے وہاں اعتکاف کے لیے بیٹھے۔کسی اور کے گھر  سے مراد اگر محرم رشتہ دار کا گھر ہے جہاں شرعی پردے کا انتظام بھی ہو اور اعتکاف میں یکسوئی اور عبادات بھی اچھی طرح انجام دی جاسکتی ہوں اور اپنے گھر میں ماحول میسر نہ ہو تو وہاں اعتکاف کی گنجائش ہوگی، لیکن عام حالات میں کسی دوسرے کے گھر جا کر اعتکاف کرنا صحیح نہیں  ہے۔( فتاویٰ بنوری نیٹ)

اعتکاف کو فاسد کرنے والی چیزیں
(۱)بغیر عذر مسجد سے نکلنے سے۔ 
(۲)حیض اور نفاس کے آجانے کی وجہ سے۔ 
(۳)جماع یا دواعی جماع کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے جیسے بوسہ لینا یا شہوت سے چھونا۔ 
 بغیر اعتکاف کی نیت کے مسجد میں سونا،کھانا ،پینا ، بات کر نا وغیرہ جائز ہے یا نہیں ؟ 
 مسجد عبادت کی جگہ ہے اس میں قیام گاہ اور چوپال بنانادرست نہیں؛ لہٰذا اعتکاف یا کسی معقول عذر کے بغیر مسجد میں کھانا پینا سونا مکروہ ہوگا، اس لئے اس سے احتراز کر نا چاہئے؛ البتہ فقہاء نے ضرورۃً پردیسی مسافر کے لئے مسجد میں قیام کی اجازت دی ہے۔ (کتاب النوازل جلد 6۔بحوالہ مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ،ج:22ص:410تا411۔ میرٹھ)

نئے مضامین




Monday, May 4, 2020

مسائل اعتکاف



معتکف کی فضیلت
عَنِ ابْنِ عَباَّسٍؓ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ قاَلَ فِیْ الْمُعْتَکِفِ: ’’ھُوَ یَعْتَکِفُ الذُّنُوْبَ، وَیَجْرِیْ لَہٗ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ کُلِّھَا۔‘‘ (رواہ أبو داود وابن ماجہ، مشکوٰۃ/ص: ۱۸۳/ باب الاعتکاف، الفصل الثالث)
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ،رحمت عالم  صلی اللہ علیہ و سلم  نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ’’ وہ (اعتکاف کی وجہ سے ) گناہوں سے بچا رہتا ہے ،اور اس کے لیے نیکیاں جاری رہتی ہیں، ساری نیکیاں کرنے والے کی طرح (اس کے لیے نیکیاں اتنی لکھی جاتی ہیں جتنی کرنے والے کے لیے )

اعتکاف کی تعریف 

اعتکاف کی نیت سے مرد کا مسجد شرعی میں ٹھہرنا یا عورت کا اپنے گھر کی مسجد میں بیٹھنا اعتکاف کہلاتا ہے 

اعتکاف کی قسمیں

اعتکاف کی تین قسمیں ہیں:
 (1)واجب اعتکاف: یہ وہ اعتکاف ہے جس کی نذر مانی جائے، مثلا:کوئی کہے اگر میرا یہ کام ہوگیا تو میں اتنے دنوں کا اعتکاف کرونگا۔
(2)مسنون اعتکاف:رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں اعتکاف کے لئے بیٹھنا مسنون اعتکاف ہے ' آپ ﷺ ۖ سے بالالتزام رمضان المبارک کے اخیرعشرہ میں اعتکاف کرنا ثابت ہے؛ ' اس لئے رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ ہے مگر یہ سنت مؤکدہ ایسا ہے کہ اگر بعض افرادمحلے کی مسجد میں اعتکاف کے لئے بیٹھ جائیں تو سب کا ذمہ فارغ ہو جائے گا ۔
(3)نفلی اعتکاف:رمضان المبارک کے آخیر عشرہ کے علاوہ کسی وقت بھی مسجد میں اعتکاف کی نیت سے بیٹھنا نفلی اعتکاف کہلاتا ہے۔

شرائطِ اعتکاف

اعتکاف کی صحت کے لئے چند شرائط کا ہونا ضروری ہے ۔
(1)اعتکاف نفلی ہو ' واجب ہو  یا  سنت سب میں اعتکاف کی نیت کا ہونا شرط ہے بغیر نیت کے مسجد میں ٹھہرنا شرعی اعتکاف نہیں کہلاتاہے ۔
(2)اور نیت کی صحت کے لئے اسلام اور عقل شرط ہے؛ اس لئے معتکف کا مسلمان ہونا اور عاقل ہونا بھی لازمی ہے؛ البتہ اعتکاف کے لئے بلوغ شرط نہیں لہذا اگر سمجھدار بچہ اعتکاف کیلئے بیٹھ جائے تو اعتکاف درست ہے ۔
(3)اسی طرح اعتکاف کے لئے معتکف کا جنابت ' حیض ونفاس سے پاک ہونا بھی ضروری ہے۔
(4)اعتکاف کے لئے شرعی مسجد کا ہونا ضروری ہے چاہے اس میں پنج وقت نماز باجماعت ادا ہوتی ہو یا نہیں۔ البتہ عورت گھر میں اس جگہ اعتکاف کرلے جہاں وہ پنجگانہ نماز پڑھتی ہو اور جگہ مقرر نہ ہو تو اعتکاف سے پہلے نماز کے لئے جگہ مقرر کرکے وہاں اعتکاف کرلے۔
(5)واجب اعتکاف کیلئے روزہ رکھنابھی ضروری اور شرط ہے ' حتی کہ اگر اعتکاف کیلئے بیٹھنے سے پہلے قبل نیت بھی کرلے کہ میں روزہ نہیں رکھوں گا تب بھی روزہ رکھنا ہوگا! ہاں روزہ کا خاص اعتکاف کیلئے رکھنا ضروری نہیں خواہ کسی بھی غرض سے روزہ رکھا جائے تو بھی اعتکاف کیلئے کافی ہے ' اسی طرح مسنون اعتکاف کیلئے بھی روزہ شرط ہے اگرچہ مسنون اعتکاف میں عموماً رمضان کا روزہ ہی ہوتا ہے۔البتہ نفلی اعتکاف کیلئے مفتی قول کے مطابق روزہ شرط نہیں۔

مسائل اعتکاف 

  مسئلہ:      اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں رہے اور سوائے ایسی حاجات ضروریہ کے جو مسجد میں پوری نہ ہوسکیں (جیسے پیشاب، پاخانہ کی ضرورت یا غسل واجب اور وضو کی ضرورت) مسجد سے باہر نہ جائے۔
مسئلہ:     رمضان کے عشرئہ اخیر میں اعتکاف کرنا سنت موٴکدہ علی الکفایہ ہے۔ یعنی اگر بڑے شہروں کے محلہ میں اور چھوٹے دیہات کی پوری بستی میں کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب کے اوپر ترکِ سنت کا وبال رہتا ہے اور کوئی ایک بھی محلہ میں اعتکاف کرے تو سب کی طرف سے سنت ادا ہوجاتی ہے۔
مسئلہ:     بالکل خاموش رہنا اعتکاف میں ضروری نہیں؛ بلکہ مکروہ ہے؛ البتہ نیک کلام کرنا اور لڑائی جھگڑے اور فضول باتوں سے بچنا چاہیے۔
مسئلہ:     اعتکاف میں کوئی خاص عبادت شرط نہیں، نماز، تلاوت یا دین کی کتابوں کا پڑھنا پڑھانا یا جو عبادت دل چاہے کرتا رہے۔
مسئلہ:      جس مسجد میں اعتکاف کیاگیا ہے، اگر اس میں جمعہ نہیں ہوتا، تو نماز جمعہ کے لیے اندازہ کرکے ایسے وقت مسجد سے نکلے جس میں وہاں پہنچ کر سنتیں ادا کرنے کے بعد خطبہ سن سکے۔ اگر کچھ زیادہ دیر جامع مسجد میں لگ جائے، جب بھی اعتکاف میں خلل نہیں آتا۔
مسئلہ:    بلا ضرورت طبعی شرعی تھوڑی دیر بھی مسجد سے باہر چلا جائے گا تو اعتکاف فاسد ہوجائیگا، خواہ عمداً نکلے یا بھول کر۔ اس صورت میں اعتکاف کی قضا کرنا چاہیے۔
مسئلہ:      آخر عشرہ کا اعتکاف کرنا ہوتو ۲۰/تاریخ کو غروبِ آفتاب سے پہلے مسجد میں چلا جائے اور جب عید کا چاند نظر آجائے تب اعتکاف سے باہر ہو۔
مسئلہ:     غسلِ جمعہ یا محض ٹھنڈک کے لیے غسل کے واسطے مسجد سے باہر نکلنا مُعتکف کو جائز نہیں ہے۔
مسئلہ:       واجب اعتکاف کم از کم ایک دن کا ہوسکتا ہے اور زیادہ جس قدر چاہے معتکف نیت کرسکتا ہے،مسنون اعتکاف دس دن ہوگا۔ اس لئے مسنون اعتکاف رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں ہوتا ہے اور مستحب اعتکاف کے لئے کوئی مقدار مقرر نہیں۔
مسئلہ: معتکف کیلئے حالت اعتکاف میں مسجد سے حاجت انسانی مثلاً بول وبراز ' غسل جنابت کے لئے نکلنا بشرطیکہ مسجد میں غسل کا انتظام ممکن نہ ہو اور حاجت شرعی مثلاً جمعہ اذان وغیرہ کیلئے نکلنا جائز ہے؛ مگر جیسے ہی ضرورت پوری ہو جائے تو واپس مسجد چلا آئے۔ اسلئے بلاضرورت مسجد سے ایک لمحہ کیلئے نکلنے سے بھی اعتکاف فاسد ہو جاتا ہے۔
مسئلہ: قضاء حاجت کے لئے قریب سے قریب تر جگہ جانا چاہیے ۔قضاء حاجت میں وضو کرنا بھی ضروری ہے ۔
مسئلہ: اخراج ریح کے لئے مسجد سے نکلنا مندوب ہے ' اور مسجد میں اخراج ریح کراہت سے خالی نہیںہے۔
مسئلہ:  حقہ وغیرہ پینے کے لئے مسجد سے نکلنا درست نہیں ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ اس ضرورت کو قضاء حاجت کے دوران پورا کیا جائے  یا مسجد کے احاطہ میں کھڑے ہو کر دھواں باہر نکالا جائے ۔ 
مسئلہ: اعتکاف کے دوران اخبار پڑھنے یا خبریں سننے سے احتراز کرنا چاہیے۔ اعتکاف کے دوران رضا الہٰی والے امور میں مشغول رہنا چاہیے۔
مسئلہ: اعتکاف کیلئے چونکہ ساری مسجد معتکف ہے اس لئے معتکف دھوپ کے لئے مسجد کے کسی بھی کونے میں بیٹھ سکتا ہے ۔ 
مسئلہ: معتکف کیلئے اعتکاف کی حالت میں خاموشی کو عبادت سمجھ کر چپ رہنا مکروہ تحریمی ہے مگر بلاضرورت اور فضول باتوں سے احتراز کرے دوران اعتکاف دینی اور دنیوی گفتگو بقدر ضرورت کی جاسکتی ہے۔
مسئلہ: معتکف کے لئے مسجد میں اتنی جگہ گھیرنا جس سے دوسرے معتکفین یا نمازیوں کو تکلیف ہو مکروہ ہے۔
مسئلہ: اعتکاف کے دوران مجبوری میں خرید و فروخت کرنا اگرچہ جائز ہے مگر سودا مسجد میں لانا مکروہ تحریمی ہے۔
مسئلہ:اعتکاف کے دوران نماز جنازہ ' کسی مریض کی عیادت سرکاری یا غیر سرکاری ڈیوٹی ' اور اس قسم کے دوسرے قسم کے امور کے لئے نکلنا جو حوائج انسانی یا شرعی میں داخل نہیںہے ۔تاہم اگر معتکف اعتکاف میں بیٹھنے سے قبل مذکورہ امور کے لئے نکلنے کی نیت کرے تو بقدر ضرورت نکل سکتا ہے ۔
مسئلہ:اعتکاف کا مقصد چونکہ قرب الہیٰ حاصل کرنا ہے ' اس لئے معتکف اپنے گھر بار دینوی مشاغل چھوڑ کر مسجد میں مقیم ہو جاتا ہے ' فقہا کرام نے لکھا ہے کہ معتکف حالت اعتکاف میں قرآن کریم کی تلاوت ' احادیث مبارکہ ' آنحضرت ۖ کی سیرت طیبہ ' انبیاء کرام اور سلف صالحین کے حالات کے مطالعہ اور دیگر دینی امور میں مشغول رہنا چاہیے۔ دنیاوی باتیں ' ہنسی مذاق سے احتراز کرنا چاہیے ۔ (الہندیة ،ج:1ص:221۔)
مسئلہ:اعتکاف ایک عبادت ہے، اس پر نہ اجرت کا لینا جائز ہے اور نہ دینا جائز ہے، اور نہ اس کے لئے نمازیوں سے چندہ کرنا جائز ہے، اور نہ باہر سے کرایہ پر معتکف کو لانا جائز ہے، اس لئے ان طریقوں کو ختم کرکے ہر مسجد میں بلااجرت اعتکاف کے لئے معتکفین کا انتظام کرنا چاہئے؛ تاکہ ترکِ اعتکاف کے گناہ سے پوری آبادی محفوظ رہ سکے۔ ( کتاب النوازل ،ج:6ص:241۔ )
مسئلہ: اعتکاف مسنون ٹوٹ جانے کی صورت میں امام ابویوسفؒ کے نزدیک پورے دس یوم کی قضا لازم ہوتی ہے، جب کہ طرفین کے نزدیک صرف اسی دن کی قضا لازم ہوتی ہے جس دن اعتکاف ٹوٹا ہے؛ اس لئے احوط یہ ہے کہ دس دن کی قضا کی جائے؛ لیکن یہ مشکل ہو تو کم از کم ایک یوم کی قضا تو بہر حال لازم ہے اور یہ قضا روزہ کے ساتھ ہوگی۔ ( کتاب النوازل ،ج:6ص:242۔)
مسئلہ:  کسی عورت کواس بات کایقین ہے کہ پچیسویں رمضان کو حیض آئے گا، تو ایسی عورت کے لئے اعتکاف مسنون کی نیت سے بیٹھنا مناسب نہیں ہے؛ لیکن اگر وہ اس کے باوجود بیٹھ گئی اور درمیانِ اعتکاف حیض آگیا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوگیا، اور پاک ہونے کے بعد کم از کم ایک دن کے اعتکاف کی قضا روزے کے ساتھ کرے۔  ( کتاب النوازل ،ج:6ص:246۔ )
مسئلہ: نفلی اعتکاف حالتِ حیض ونفاس میں درست نہیں ہے؛ کیوں کہ حیض ونفاس سے پاک ہونا ہر طرح کے اعتکاف کے لئے لازم ہے۔ ( کتاب النوازل ،ج:6ص:247۔ )

نوٹ : یہ تحریرعاجز کی مستقل نہیں ہے ؛بلکہ تحفہ خواتین، ماہنامہ الحق ستمبر2004۔فتاویٰ حقانیہ، فتاویٰ رحیمیہ اور کتاب النوازل وغیرہ کی تحریروں کو جمع کردیا ہے ۔
رمضان سے متعلق مضامین 

Wednesday, April 29, 2020

تراویح میں ہونے والی کوتاہیاں



تراویح میں ہونے والی کوتاہیوں سے بچنا ضروری ہے!

ارشاد باری ہے :
اَلَّذِينَ اٰتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهٗ حَقَّ تِلاَوَتِهٖ أُوْلٰٓئِكَ يُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ۔ (البقرہ:122)
جن کو ہم نے یہ کتاب (قرآن کریم) دی ہے وہ اِس کی اِس طرح تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ تلاوت کرنے کا حق ہے۔یہی وہ لوگ ہیں جو اِس پر ایمان رکھتے ہیں۔
تراویح سنت مؤکدہ ہے اور اس میں ایک مرتبہ قرآن مجید ختم کرنا بھی سنت ہے، قرآن مجید پڑھنے میں صحت کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے، حروف بدل جانے سے یعنی س کی ص یا ث، اسی طرح ص کی جگہ س یا ث، ض کی جگہ ز یا ذ، ذ کی جگہ ض یا ز، ت کی جگہ ط، ط کی جگہ ت وغیرہ پڑھنے سے لحن جلی لازم آتا ہے اور کبھی اس قسم کی غلطی سے معنی بدل کر نماز فاسد ہوجاتی ہے، مد، غنہ، اخفاء اور اظہار کی غلطی لحن خفی ہے، اس سے نماز تو فاسد نہ ہوگی مگر بڑی فضیلتوں سے محرومی ہوگی، رمضان المبارک جیسے مقدس اور مبارک مہینے میں اگر تراویح میں باقاعدہ اور پوری صحت ، دلچسپی اور ذوق و شوق کے ساتھ قرآن مجید ختم نہ کیا جائے تو اس سے زیادہ محرومی اور کیا ہوگی؟
تیز پڑھنا مطلقاً قابل مذمت نہیں ہے، اسی لئے قراء نے قراءت کے تین درجے مقرر کئے ہیں، ترتیل، تدویر اور حدر، ترتیل میں آہستہ پڑھا جاتا ہے، تدویر میں اس سے تیز اور حدر میں اس سے تیز، مگر شرط یہ ہے کہ صحت اور صفائی میں کوئی خامی نہ آنے پائے، جو امام تراویح ایسا جلدی اور تیز پڑھتا ہو کہ پاس والے مقتدیوں کو بھی سمجھ میں نہیں آتا تو ایسی قراءت نہ ہونے کے برابر ہے اور اگر ایسی غلطی ہوجائے کہ جس سے لحن جلی لازم آئے اور معنی بدل جائے تو ایسی صورت میں کسی کی بھی تراویح نہ ہوگی اور رمضان المبارک میں تراویح کے اندر ایک مرتبہ قرآن ختم کرنے کی جو سنت ہے وہ سنت بھی کسی کی ادا نہ ہوگی۔
امام پر لازم ہے کہ صحیح صحیح پڑھے، تمام حروف مخارج سے ادا کرنے کا اہتمام کرے اور مقتدیوں پر بھی لازم ہے کہ ایسے شخص کو امام بنائیں (فرض نماز ہو یا تراویح) جو قرآن مجید صحیح صحیح پڑھتا ہو، آج کل حفاظ اور لوگوں نے تراویح میں بہت ہی لا پرواہی اختیار کررکھی ہے، جس میں مسجد میں جلد تراویح پوری ہوتی ہو اور جو حافظ غلط سلط پڑھ کر جلد ختم کردیتا ہو نہ سنت کے مطابق رکوع و سجدہ کرتا ہو نہ قومہ وجلسہ میں تعدیل ارکان کی رعایت کرتا ہو اس کی تعریف کی جاتی ہے، کس قدر افسوس کی بات ہے یہ صورت بھی ہجران قرآن (قرآن چھوڑنے) میں داخل ہے۔

( مستفاد: انوار الاسلام بحوالہ فتاویٰ رحیمیہ:۶/۲۶۷، مکتبہ دارالاشاعت، کراچی۔فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۴/۲۵۷، مکتبہ دارالعلوم دیوبند)


اسی ملتے جلتے مضمون

جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے 
جدید مسائل جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے
سحری و افطاری میں نبوی طریقے