Sunday, May 10, 2020

ارطغرل غازی



ارطغرل غازی

رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ کا تیسرا دن تھا ، بعد عصر ذکرو تلاوت کے بعد چند منٹ کیلئے مسجد کے سامنے احوال ناس  سے باخبر ہونے کیلئے باہر آیا کہ اچانک رفیق محترم جناب عثمان ملا نے سوال کیا کہ مفتی صاحب ارطغرل غازی کیا ہے ، اور اس کی حقیقت کیا ہے ؟میں نے انکو ماحضر مواد سے اتنا کہہ دیا کہ یہ ایک سریل ہے جس کو ترکی کی حکومت  نےکئی قسطوں میں ٹی وی پر نشر کیا ہے ، اس سریل میں خلافت عثمانیہ کا کردار اور اسکی جفاکشی کو دیکھا یا گیا ہے جس کو دنیاکے اکثر ممالک نے لائک کیا ہے اور اس سے متاثر ہواہے ،اس قدر جواب اس کیلئے کافی تھا؛ لیکن مجھے بعد میں اس کی صحیح معلومات کو نشرکرنے کی فکر لاحق ہوئی، اسی فکر کا نتیجہ آپ ناظرین کی خدمت میں پیش ہے ۔
اس مضمون میں حسب ذیل امور پر مختصر کلام کیا گیا ہے ۔
(1) ارطغرل کا صحیح تلفظ و معنیٰ کیا ہے ؟ (2)  ارطغرل غازی کیاہے ؟ (3) ارطغرل غازی  کو دنیا کس نگاہ سے دیکھ رہی ہے ۔(5) ارطغرل غازی فرضی ہے یا اس کی کوئی حقیقت بھی ہے ؟(6)ارطغرل کا نام ونسب (7) احوال ارطغرل(8) ارطغرل غازی کا عوام پرکیا اثرہوا ؟ (9) ارطغرل غازی  کا دیکھنا کیسا ہے ؟ (10) ارطغرل غازی کے متعلق عاجز کی رائے۔(11) تصویر

 ارطغرل کا صحیح تلفظ و معنیٰ کیا ہے ؟

اس کا صحیح تلفظ ”ارطغرل“ ہے،  ارطغرل (Ertuğrul)ترکی زبان کا لفظ ہے،  ترکی میں ’’ار‘‘  کے معنی آدمی، بہادر  یا فوجی کے ہیں، ’’طغرل‘‘  کے معنی عقاب، زخمی کرنے والا بہادر پرندہ، اس اعتبار سے ترکی زبان میں ’’ارطغرل‘‘  کے معنی ہیں: بہادر آدمی، عقابی شخص۔

ارطغرل غازی کیاہے ؟

دسمبر 2014 میں ترکی کے سرکاری ٹی وی چینل ٹی آر ٹی نے ایک ڈرامہ نشر کیا ڈریلریس ارطغرل۔ یہ 2019 تک جاری رہا ہے ۔ یہ ڈرامہ پانچ سیشن پر مشتمل ہے ۔ اس میں کل 150 ایپسوڈ(Episode) ہیں اور ہر ایک ایپسوڈ (Episode) کا دورانیہ تقریباً دو گھنٹے کا ہے ۔ اب تک 160 ممالک میں اسے دیکھا جاچکا ہے ۔ 90 سے زیادہ زبانوں میں اس کی باضابطہ ترجمہ  ہوچکا ہے ۔ اس ڈرامہ کے رائٹر اور ڈائریکٹر محمد بوزدیغ ہیں اور اس کے اصل ہیرو انگین آلتان دوزیاتان ہیں جنہوں نے ارطغرل غازی کا کردار ادا کیا ۔ سلیمان شاہ (قائی قبیلے کا سردار، ارطغرل کا باپ، عثمان اول کا دادا)کا کردارسردار کوگخان نے ادا کیا ہے ،ڈرامہ ’ارطغرل غازی‘ کی ہیروئن حلیمہ سلطان ہے جو ڈرامہ میں ہیرو (ارطغرل غازی ) کی بیوی کا کردار ادا کرتی ہے، اور شیخ ابن عربی (جواندلسی صوفی بزرگ، ایک روحانی شخصیت جو ارطغرل اور اس کے ساتھیوں کی قدم قدم پر رہنمائی اور مدد کرتے ہیں) اس کا کردار عثمان سویقوت اداکرتا ہے۔
کہانی کی شروعات اوغوز ترک نسل کے قائی قبیلہ کی ہجرت کے منظر سے ہوتی ہے جب یہ قبیلہ منگولوں کے حملوں سے بچنے کے لیے دوران میں ہجرت پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا۔ 400 خیموں سے آباد یہ بستی اپنی نئی منزل کی تلاش میں تھی۔ یہ تیرہویں صدی کا زمانہ تھا۔ قحط کے مشکل وقت سے گزرنے کے بعد وہ ایک بہتر جگہ کی طرف ہجرت کرنے کا عزم کرتے ہیں جہاں وہ نئی زندگی کا آغاز کرسکیں۔ سلیمان شاہ قائی قبیلے کا سردار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ڈرامے میں یہ دیکھایا گیا ہے کہ تیرہویں صدی میں کائی نام کا ایک ترک قبیلہ تھا جو منگلولوں کے ظلم وستم سے پریشان تھا ۔ صلیبیوں نے ان پر مسلسل ظلم و زیادتی کی؛ اس لئے انہوں نے منگلولوں اور صلیبیوں سے مسلسل لڑائی کی ۔اور دونوں کو شکست سے دوچار کرتا رہا اور کئی صلیبی قلعوں کو اس نے فتح کرلیا ۔  ارطغرل کی پوری جنگی مہم میں شیخ ابن العربی نے روحانی پیر کے طور پر بہت مدد کی ۔ اس کے علاوہ ارطغرل کے تین بہادر ساتھ بامسی بابر(نور الدین سونمز)، ترغت الپ (جنگیز جوشقون) اور روشان (جاوید چتین گونر)اس کا بہت ساتھ دیتے ہیں اور تقریباً پورا ڈرامہ انہیں تینوں کی بہادری ، شجاعت اور جاں نثاری کے ارد گرد ہے ۔ 

ارطغرل غازی  کو دنیا کس نگاہ سے دیکھ رہی ہے؟

ہم یہ بتا چکے ہیں کہ اس ڈرامہ کو 90سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور بہت سے ممالک نے اس کو اپنے ملک کے چینلوں سے نشر بھی کیا ہے، مثلا: 

خلاصہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کرنے والا اسلامی فتوحات پر مبنی ترکی کا مشہور ڈراما ارطغرل غازی  ہی ہے ۔ 

  ارطغرل غازی فرضی ہے یا اس کی کوئی حقیقت بھی ہے ؟

یوں تو ہرزندہ دل انسان کو بارہا تجربہ ہوتارہتاہےکہ اسلام مخالف طاقتوں نے ہر ایسی چیز کی مخالفت یا کم ازکم اس کے خلاف لوگوں میں غلط معلومات بھیلانے کی ہر طرح کی کوشش کی ہےجو چیز مسلمانوں سے متعلق ہوں ۔ اسی طرح اس ڈرامہ کے متعلق بھی حال ہی میں بی بی سی نے ایک مضمون لکھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ ارطغرل ڈرامہ میں جو دکھا گیا ہے وہ خلاف حقیقت اور تاریخ کے برعکس ہے ۔ کئی یورپین اور امریکی دانشوروں نے بھی اس ڈرمہ پر سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ ارطغرل ایک گمنام ہے جسے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے زبردستی ہیرو بناکر پیش کردیا ہے ۔ امیریکن یونیورسٹی آف بیروت کے ماہر بشریات جوش کارنی نے مڈل ایسٹرن رویو میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں سوال اُٹھایا کہ ’ترک حکومت نے کئی مشہور کرداروں کو چھوڑ کر آخر ارطغرل کا ہی انتخاب کیوں کیا؟‘۔ آئیے جانتے ہیں سچائی کیا ہے ۔
ڈرامہ ارطغرل غازی کو بالکل بے بنیاد اور فرضی بتانا تاریخ کے اوراق کو یکسربھلادینا ہے اور حقیقت سے تعصبانہ عیاری ہے ؛تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ڈرامہ میںجو کچھ دیکھایا گیا ہے سب کا سب سچ ہی نہیں ہے ؛بلکہ اس میں سچ اور چھوٹ دونوں کی  آمزش ہے ۔ 

ارطغرل کا نام ونسب 

أرطغرل بن سليمان بن فياألب جد خلفاء آل عثمان ووالدعثمان خان مؤسس الدولة العثمانية، (الموسوعة الموجزة في التاريخ الإسلامي، ج:10ص:306۔شاملۃ)

احوال ارطغرل

امیر غازی ارطغرل بن سلیمان شاہ قایوی ترکمانی  ترک اوغوز کی شاخ قائی قبیلہ کے سردار سلیمان شاہ کے بیٹے اور سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے والد تھے۔[5] ولادت کا زمانہ سنہ 1191ء کے آس پاس کا ہے جبکہ سنہ وفات 1281ء بتائی جاتی ہے اور مدفن اناطولیہ کے شہر سوغوت میں واقع ہے۔ ارطغرل غازی ایک بہادر، نڈر، بے خوف، عقلمند، دلیر، ایماندار اور بارعب سپاہی تھے۔ وہ ساری عمر سلجوقی سلطنت کے وفادار رہے۔ سلطان علاء الدین کیقباد نے ارطغرل کی خدمات سے متاثر ہو کر ان کو سوغوت اور اس کے نواح میں واقع دوسرے شہر بطور جاگیر عطا کیے اور ساتھ ہی "سردار اعلیٰ" کا عہدہ بھی دیا۔ اس کے بعد آس پاس کے تمام ترک قبائل ان کے ماتحت آگئے تھے۔(آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا )
ومبدأ ظُهُورهمْ وَسبب ملكهم أَن آل سلجوق لما تركُوا وطنهم من فتْنَة جنكز خَان ملك التتار وعزموا إِلَى جَانب بِلَاد الرّوم جَاءَ مَعَهم من طَائِفَة أغوز رجل اسْمَع أرطعزل يتَّصل نسبه بياقث بن نوح عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام وَكَانَ بِصُحْبَتِهِ نَحْو ثَلَاثمِائَة وَأَرْبَعين رجلا وَكَانَ شجاعاً ثمَّ تشمر فِي خدمَة السُّلْطَان عَلَاء الدّين كيقباد بن كيخسرو بن قلج أرسلان بن طغرل السلجوقي وَكَانَ يُحِبهُ السُّلْطَان عَلَاء الدّين لكَونه شجاعاً وَفتحت على يَدَيْهِ بِلَاد كَثِيرَة من بِلَاد الْكفَّاروَلما كَانَت سنة 697 سبع وَتِسْعين وسِتمِائَة توفّي الْغَازِي أرطغرل فَكتب السُّلْطَان عَلَاء الدّين لعُثْمَان بن أرطغرل بموافقة السلطنة وَأرْسل إِلَيْهِ خلعة وسيفاً ونقارة وَخَصه بالغزو على الْكفَّار فَسَار عُثْمَان بن أرطغرل فَفتح اينه كولي ويني شهر وكوبري حِصَار وبلجك وَغير ذَلِك ثمَّ لما توفّي السُّلْطَان عَلَاء الدّين سنة تسع وَتِسْعين وسِتمِائَة اجْتمع أَكثر الْغُزَاة عِنْد عُثْمَان بن أرطغرل فتسلطن عُثْمَان الْغَازِي وَجلسَ على تخت السلطنة فِي السّنة الْمَذْكُورَة۔ ( سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي، ج:4ص:70۔ شاملۃ)
دولت عثمانیہ کو موجد اور اسی ارطغرل کو قرار دیا گیا ہے :
ومؤسس هَذِه الدولة هُوَ ارطغرل بن سُلَيْمَان شاه التركماني قَائِد احدى قبائل التّرْك النازحين من سهول اسيا الغربية إِلَى بِلَاد اسيا الصُّغْرَى وَذَلِكَ انه كَانَ رَاجعا إِلَى بِلَاد الْعَجم بعد موت ابيه غرقا عِنْد اجتيازه اُحْدُ الانهر اذ شَاهد جيشين مشتبكين فَوقف على مُرْتَفع من الارض ليمتع نظره بِهَذَا المنظر المالوف لَدَى الرحل من الْقَبَائِل الحربية وَلما انس الضعْف اُحْدُ الجيشين وَتحقّق انكساره وخذلانه ان لم يمد اليه يَد المساعدة دبت فِيهِ النخوة الحربية وَنزل هُوَ وفرسانه مُسْرِعين لنجدة اضعف الجيشين وهاجم الْجَيْش الثَّانِي بِقُوَّة وشجاعة عظيمتين حَتَّى وَقع الرعب فِي قُلُوب الَّذين كَادُوا يفوزون بالنصر لَوْلَا هَذَا المدد الفجائي واعمل فيهم السَّيْف وَالرمْح ضربا ووخزا حَتَّى هَزَمَهُمْ شَرّ هزيمَة وَكَانَ ذَلِك فِي اواخر الْقرن السَّابِع لِلْهِجْرَةِ ۔( تاريخ الدولة العلية العثمانية، ج:1ص:115۔ شاملۃ)
اسی بات کو مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی نے اپنی کتاب تاریخ اسلام میں لکھا ہے کہ ارطغرل اپنے چار سو جنگجوؤں کے ساتھ اناطولیہ جارہے تھے وہاں انہوں نے دیکھا دو فوجیں آپس میں لڑری ہیں ۔ ایک فوج جیت رہی تھی اور دوسری فوج شکست کھانے کے قریب پہونچ چکی تھی ۔ ارطغرل نے اس وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ شکست خوردہ فوج کا ساتھ دیا ۔ ارطغرل نے شکست خوردہ فوج کا ساتھ محض اپنی اس فطر ت کی وجہ سے دیا کہ وہ کمزوروں اور مظلوں کا ساتھ دینا فرض سمجھتا تھا ۔ اس نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ یہ فوج کون سی ہے اور اس کے بدلے کیا انعام ملے گا ۔ ارطغرل کے حملہ کے بعد جیتی ہوئی فوج شکست سے دوچار ہوگئی اور جو فوج ہار رہی تھی وہ جیت گئی ۔ اس طر ح جنگ کا پانسہ بدل گیا ۔ ارطغرل نے جس فوج کا ساتھ دیا تھا وہ سلجوق سطلنت کی فوج تھی اور سامنے منگلولوں کی فوج تھی ۔ بعض مؤرخین نے صلیبی فوج لکھا ہے ۔ بہر حال سلجوق سلطان علاء الدین نے ارطغرل کی اس بہادری سے خوش ہوکر انہیں سوغوت کا علاقہ جاگیر کے طور پر دے دیا اور اپنا سردار اعلی منتخب کیا ۔(تاریخ الاسلام ، ج:3ص:380تا381۔)
مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی نے ارطغرل کے باپ سلیمان خان اور ارطغرل کے جنگی کارناموں کو تقریباچھے صفحات میں تفصیل سے بیان کیا ہے ۔
ارطغرل غازی کا عوام پرکیا اثرپڑا ؟
 اس ڈرامہ کا اتنا اثر ہوا کہ مغرب کے ہزاروں غیر مسلموں میں اس نے دعوت کا بھی کام کر دیا اور لوگوں کو حقیقی تاریخ کی طرف مائل کردیا ،نیز اسلام کو پڑھنے اورلوگوں کو اس کے آغوش میں لانے میں مدد گار ثابت ہوا۔ ساتھ ہی کئی لوگوں نےاسلام بھی قبول کیا ہے،اور حقیقت بھی ہے کہ اس ڈرامہ سےروشن ماضی خود بخودیاد آجاتاہے؛لیکن مغرب اور خلافت عثمانیہ  کے باغیوںکواس سے پریشانی ہے کہ اس سے مسخ شدہ حقائق سامنے آنے لگے ہیں اور ترکی اب ایک بہتر با اخلاق متبادل کے ساتھ فلم انڈسٹری میں بھی اپنا سکہ جمانے لگا ہے؛چنانچہ اس سیریل کے اثرات اور مقبولیت کو ختم کرنے کے لئے اس سیریل کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑکر کے مکمل پابندی عائد کرنےکی ناکام کوشش  بھی کی ہے۔
  ارطغرل غازی  کا دیکھنا کیسا ہے ؟
اس سلسلے میں کئی مفتیان کرام کے فتاوے آچکے ہیں کہ اگرچہ ارطغرل غازی میں سچ اور کچھ حقیقت بھی ہے ؛ لیکن اس طرح فلمی شکل میں پیش کرنا اور اسکا دیکھنا درست نہیں ہے ، جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن کاایک فتاویٰ شائع  ہواہے اس کو ملاحظہ فرمائیں:
الجواب وبالله التوفيق:
ارطغرل غازی یا Ertugrul Dirillis ایک ترکی تاریخی ڈراما ہے، جس میں خلافتِ عثمانیہ کے بانی عثمان کے والد ارطغرل اور ان کے قبیلہ کے حالات کو فلم بند کیا گیا ہے، لیکن اس کے تمام واقعات مستند اور تصدیق شدہ نہیں ہیں، بلکہ اس داستان میں سچ اور جھوٹ دونوں کی آمیزش ہے۔ معتبر ذرائع سے ملی اطلاع اور آپ کے سوال سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس ڈرامے کے کردار و مناظر بڑے سحر انگیز ہیں، جس کی وجہ سے عوام و خواص، بلکہ دِین دار افراد تک اس پر فریفتہ ہیں اور اس کے دیوانے بنے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ بعض نام نہاد علماء اور خود ساختہ مفکرین بڑے بڑے مضامین لکھ کر اس کو دیکھنے کی دعوت دے رہیں؛  لہٰذا ایسے حالات میں ضروری ہوجاتا ہے کہ اس قسم کے ڈراموں کی شرعی حیثیت کو واضح کیا جائے، اور لوگوں کی صحیح راہ نمائی کی جائے!(تو جان لیجیے)‘‘کسی بھی جائز مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ناجائز طریقہ اپنانا درست نہیں،  خلافتِ عثمانیہ کے تاریخی دور کی روئیداد  تاریخ کی کتابوں کے مطالعہ اور اس سے متعلق لٹریچر عام کرکے ہوسکتی ہے؛ اس کے لیے فلم، ڈراما بنانا اور دیکھنا جائز نہیں ہے۔ نیز  اگر سوال میں مذکورہ مفاسد بھی اس میں پائے جاتے ہیں تو یہ قباحت اس پر مستزاد ہے۔  فقط واللہ اعلم۔
"قلت: وفي البزازية: استماع صوت الملاهي - كضرب قصب، ونحوه - حرام؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: "استماع الملاهي معصية، والجلوس عليها فسق، والتلذذ بها كفر" أي: بالنعمة، فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة، لا شكر، فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لايسمع؛ لما روي أنه عليه الصلاة والسلام أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه، وأشعار العرب لو فيها ذكر الفسق تكره، اهـ أو لتغليظ الذنب، -كما في الاختيار -، أو للاستحلال، - كما في النهاية -". ( الشامية، كتاب الحظر و الإباحة، قبيل فصل في اللبس،ج:9ص:504۔، ط: دار عالم الكتب، وکذا فی فتاویٰ قاضی خان، بَابُ الْبَيَانِ وَالشِّعْرِ ، الْفَصْلُ الثَّالِث)
 ارطغرل غازی کے متعلق عاجز کی رائے۔
یہ ترکی کی ایک اچھی پیش کش ہے ؛لیکن جہاں تک اس کے دیکھنے کا سوال ہےوہ اوپر ہی کے فتاویٰ کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے” کسی بھی جائز مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ناجائز طریقہ اپنانا درست نہیں ہے، خلافتِ عثمانیہ کے تاریخی دور کےاحوال و کوائف کوتاریخ کی کتابوں کے مطالعہ اور اس سے متعلق لٹریچر عام کرکے ہوسکتی ہے،اس کے لیے فلم، ڈرامہ بنانا اور دیکھنا جائز نہیں ہے۔ 

تصویری معلومات

اس ڈرامہ کا تخلیق محمد بوزداغ نےکیا ہے ۔




اس ڈرامہ میں ارطغرل غازی (ہیرو)کا کردار اس نے ادا کیا ہے ۔اس کانام انگین آلتان دوزیاتان ہے ۔




اس ڈرامہ میں ارطغرل غازی  کی بیوی ( ہیروئن )کا کردار اس نے ادا کیا ہے،اس کا اصل نا م اسرا بیلگیج ہے ۔







Friday, May 8, 2020

اعتکاف کے جدید مسائل



﷽  

لاک ڈاؤن میں اعتکاف

رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کااعتکاف سنت مؤکدہ کفایہ ہے جس کا مطلب یہ ہےکے اگر مسجد میں کوئی ایک شخص بھی اعتکاف کر لے تو اہل محلہ اعتکاف کی ذمہ داری سے بری ہوجائیگا ،اگر کسی نے بھی اعتکاف نہیں کیاتو پورے محلے والے گنہگار ہونگے؛ اس لئےجس طرح مساجد میں لاک ڈاون میں چند حضرات جمعہ و جماعت کرلیتے ہیں اسی طرح انہی حضرات میں سے کوئی اعتکاف کیلئے بھی بیٹھ جائے تاکہ اہل محلہ گنگار ہونے سے بچ جائے ۔
اجتماعی اعتکاف سے بچیں
 اعتکاف بھی مساجد میں ہو؛ لیکن احتیاطی تدابیر اور فاصلہ کے مطابق،اور اجتماعی اعتکاف سے کلی طور پر احتراج کرنا چاہیے۔  
کورونا وائرس کی وبا  کی وجہ سے مرد گھر میں اعتکاف کر سکتا ہے یا نہیں؟ 
 مردوں کے لیے ایسی مساجد میں اعتکاف کرنا شرط ہے جہاں امام و مؤذن مقرر ہوں، ایسی مساجد کے علاوہ دوسری جگہوںاور گھروں میں اعتکاف کرنے کی شرعاً اجازت نہیں، البتہ خواتین کے لیے اپنے گھر میں جگہ مقرر کرکے اعتکاف کرنے کا حکم ہے۔ مردوں کے لیے وبا کی وجہ سے گھروں میں اعتکاف کرنے کی کسی بھی مسلک میں اجازت نہیں ہے۔(الموسوعة الفقهية الكوتية، ج:5ص211تا212۔)
مخنث کہاں اعتکاف کرے؟
مخنث کا اعتکاف مسجد میں درست ہے لہذا اس بارے میں زید کا موقف ہے کیونکہ مذکر ہونے کے احتمال کے ساتھ اس کا اعتکاف گھر میں صحیح نہیں جبکہ مؤنث ہونے کےاحتمال کے ساتھ مسجد میں کراھت کے ساتھ ادتکاف درست ہوگا تاہم مسجد میں اعتکاف کرنے کے لیے خنثی پر لازم ہے کہ مردانہ ھئیت اور وضع قطع اختیار کرے ،زنانہ لباس اور زنانہ ھئیت کے ساتھ مسجد میں اعتکاف کرنے سے بچے۔اجمع الفقھاء علی انہ لا یصح اعتکاف الرجل و الخنثی الا فی مسجد، لقولہ تعالیٰ (و انتم عاکفون فی المسااجد) و للاتباع لان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یعتکف الا فی المسجد۔ ( الموسوعۃ)
مسجد سے متصل حجرے میں اعتکاف کرنا
مسجد سے متصل ایسے حجرہ میں اعتکاف کرنا جس میں نماز نہ ہوتی ہو بلکہ وہ حجرہ امام، مؤذن یا مسجد کا سامان رکھنے کیلئے بنایا گیا ہو شرعاً درست نہیں ہے، اس لئے کہ اعتکاف کیلئے ایسی مسجد شرط ہے جس میں پنج وقتہ نماز با جماعت ہوتی ہو ۔ (النھر الفائق، کتاب الصوم ، باب الاعتکاف)
 زنجیری اعتکاف کرنے سے سنت اعتکاف ادا نہ ہوگا
اعتکافِ سنت یہ ہے کہ ایک ہی شخص بیس رمضان کو غروب آفتاب سے پہلے مسجد میں داخل ہوجائے ،اور ہلال عید طلوع ہونے تک اعتکاف کی حالت میں رہے ،مختلف دنوں میں مختلف لوگ بیٹھیں تویہ اعتکاف نفل ہوگا، اس سے اعتکاف سنت ادا نہیں ہوگا ،اور اہل محلہ پر اس کی ذمہ داری باقی رہے گی ۔(کتاب الفتاویٰ جلد131/3۔)
اُجرت لے کر اعتکاف کرنا
اعتکاف ایک عبادت ہے، اس پر نہ اجرت کا لینا جائز ہے اور نہ دینا جائز ہے، اور نہ اس کے لئے نمازیوں سے چندہ کرنا جائز ہے، اور نہ باہر سے کرایہ پر معتکف کو لانا جائز ہے، اس لئے ان طریقوں کو ختم کرکے ہر مسجد میں بلااجرت اعتکاف کے لئے معتکفین کا انتظام کرنا چاہئے؛ تاکہ ترکِ اعتکاف کے گناہ سے پوری آبادی محفوظ رہ سکے۔(کتاب النوازل جلد17)
کسی مقصد کی حصول یابی کیلئے تین دن اعتکاف کی منت ماننا
آدمی جتنے دن کے اعتکاف کی نذر مانے، اتنے دن لگاتار روزہ کے ساتھ اعتکاف کرنا ضروری ہے، ۔(ہدایہ ج:1 ص :231۔)
دائی کا حالتِ اعتکاف میں معتکف کے اندر بچہ جنوانا
عورت کا معتکف مسجد کے حکم میں نہیں ہے؛ لہٰذا اس معتکف میں اگر وہ کسی عورت کو بچہ جنوائے، تو اس سے اعتکاف میں کوئی فرق نہیں آئے گا؛ تاہم بہتر یہی ہے کہ بحالتِ اعتکاف ایسا عمل نہ کرے۔ (مستفاد: فتاوی محمودیہ ،ج:10ص:251 ڈابھیل)
اعتکاف کی حالت میں تصویر کھینچنا اور اس کو سوشل میڈیا پر شئیر کرنا 
 اعتکاف کی حالت میں تصویر کھینچنا اور اس کو سوشل میڈیا پر شئیر کرنا توکئی گناہوں کا مجموعہ ہے،مثلا:  اس سے مسجد کا تقدس پامال ہوتا ہے،  اور اس کی بے حرمتی ہوتی ہے،  اس میں ریاکاری کا شائبہ بھی ہے کہ اعتکاف کی حالت میں تصویر شئیر کرنے سے مقصد لوگوں کو بتانا ہے کہ ہم اعتکاف میں بیٹھے ہیں،نیز اس سے مقصد اعتکاف بھی فوت ہوجاتا ہے، اعتکاف کا مقصد دنیا سے یک سو  ہوکر اللہ سے تعلق جوڑنا ہوتا ہے، اعتکاف کے دوران سوشل میڈیا کا استعمال اور تصویر کشی کرنا لہو لعب اور وقت کا ضیاع ہے۔ (مستفاد:فتاویٰ بنوری نیٹ)
اعتکاف میں فیس بک اور واٹس ایپ کا استعمال کرنا
اعتکاف کا مقصد دنیاوی امور سے یکسو ہو کر اللہ سے لو لگانا ہے، نفسِ موبائل اس مقصد کے حصول میں رکاوٹ ہے، پھر اس میں فیس بک اور واٹس ایپ کا استعمال بالکل زہر قاتل اور مقصد سے محرومی کا ذریعہ ہے۔ ( فتاویٰ بنوری نیٹ)
بیماری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتے ہیں تو کیا مسنون اعتکاف کرسکتا ہے ؟
رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف مسنون ہے، اور مسنون اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے، روزہ کے بغیر مسنون اعتکاف صحیح نہیں ہوتا، البتہ نفلی اعتکاف کے لیے روزہ شرط نہیں ہے، اس لیے اگر بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے پر قادر نہ ہوتو مسنون اعتکاف تو صحیح نہیں ہوگا، البتہ نفلی اعتکاف کی نیت سے اعتکاف کرلیں، اس کا اجر وثواب ملے گا۔(شامی ج:2ص:442۔)
ضرورت کے وقت کھانا کھانے کے لئے معتکف کا گھر جانا
اگر معتکف کے گھر سے یا کسی اور جگہ سے کھانا وغیرہ آنے کا کوئی نظم نہیں ہے تو وہ حسبِ ضرورت غروب کے بعد کھانا کھانے کے لئے اپنے گھر جاسکتا ہے اس لئے کہ یہ بھی طبعی ضرورت میں داخل ہے۔(طحطاوی علی المراقی ،ص:384۔البحر الرائق ،ج:2ص:303۔)
حرمین شریفین میں معتکفین کا کھانے کے لئے باہر نکلنا
حرمین شریفین میں کھانے کا سامان اندر لانے کی اجازت نہیں ہوتی؛ لہٰذا رمضان المبارک میں وہاں اعتکاف کی سعادت حاصل کرنے والے حضرات اگر مغرب کے بعد قریبی ہوٹل پر جاکر کھانا کھا آئیں یا باہری صحن میں نکل کر کھانا کھائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیوںکہ یہ طبعی ضرورت میں داخل ہے؛ البتہ کھانے کے بعد وہاں بیٹھے نہ رہیں؛ بلکہ فارغ ہوکر فوراً مسجد میں آجائیں۔  (طحطاوی علی المراقی ،ص:384۔البحر الرائق ،ج:2ص:303۔)
مسجدِ نبوی کے معتکفین کا صلوٰۃ وسلام پیش کرنے کے لئے مسجد سے باہر جانا
مسجد نبوی میں بھیڑ کے اوقات میں حکومت کی طرف سے صلوٰۃ وسلام پیش کرنے کے لئے یہ نظام رہتا ہے کہ لوگ باب السلام سے داخل ہوتے ہیں، اور باب البقیع سے باہر نکلتے ہیں، اور اس وقت اس نظام کی خلاف ورزی کسی کے لئے ممکن نہیں رہتی؛ لہٰذا مسجد نبوی کے معتکفین پر لازم ہے کہ وہ صلوٰۃ وسلام کے لئے مسجد کی حدود سے باہر نہ جائیں؛ بلکہ ایسے وقت میں سلام کے لئے حاضری کا اہتمام رکھیں، جب کہ مسجد سے باہر نہ جانا پڑے، مثلاً: اشراق کے بعد، یا عصر کے ایک گھنٹہ کے بعد یا تراویح کے ایک گھنٹے کے بعد، وغیرہ۔
 فإذا خرج من المسجد ولو ناسیاً ساعۃً بلا عذر، فسد اعتکافہ عند الامام؛ لوجود المنافی ولو قلیلاً۔ (مجمع الانہر ج:1ص:315، آئینہ رمضان ،ص:298۔)
معتکف کا ڈاکٹر کو دکھانے کے لئے جانا
اگر معتکف شخص بیمار ہو اور اسے مسجد سے باہر جاکر ڈاکٹر کو دکھانے کی ضرورت ہو تو امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک اس مقصد سے مسجد سے باہر جانے سے اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا؛ لیکن عذر کی بنا پر گناہ نہ ہوگا۔ إذا خرج ساعۃ بعذر المرض فسد اعتکافہ۔(ہندیۃ ،ج:1ص:212۔)
معتکف کا عدالت کی تاریخ پر حاضر ہونا
اگر معتکف کا کوئی مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہو، اور دورانِ اعتکاف عدالت میں حاضری کی تاریخ پیش آجائے اور حاضر نہ ہونے کی شکل میں سخت نقصان کا اندیشہ ہو، یا کسی مقدمہ میں گواہی کی ضرورت ہو اور معتکف کے علاوہ کوئی گواہ موجود نہ ہو اور عدالت میں حاضر نہ ہونے کی صورت میں صاحب حق کا حق ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں ضرورۃً صاحبین کے قول پر عمل کرتے ہوئے ایسے معتکف کے لئے مسجد سے باہر جانے کی گنجائش ہے۔
 وفی شرح الصوم للفقیہ ابی اللیثؒ: المعتکف یخرج لاداء الشہادۃ، وتأویلہ اذا لم یکن شاہدٌ اٰخر فیتوی حقہ۔ (فتح القدیر بیروت ،ج:2ص:396۔)
 ومن الضرورۃ اداء الشہادۃ۔ (الدر المنتقیٰ ،ج:1ص:178۔)
نوٹ: اس مسئلہ میں دوسرا قول یہ ہے کہ شہادت دینے کے لئے معتکف کا مسجد سے باہر آنا بہرحال مفسد اعتکاف ہے، یہ الگ بات ہے کہ ضرورت کی بنا پر اس اقدام کی وجہ سے وہ گنہگار نہ ہوگا، احتیاطا بہت سے فقہاء کرام نے اسی قول پر فتویٰ دیا ہے اس لئے بہتر ہے اسی قول پر عمل کیا جائے۔  (فتح القدیر بیروت ،ج:2ص:396۔)
 مسجد کا حدود
   مسجد کمیٹی سے مسجد کی حدود معلوم کرلینی چاہیئے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مسجد کے مضافات اور صحن وغیرہ کو مسجد سمجھ کر اس میں بھی آمدورفت رہتی ہے، حالانکہ اس سے سنت اعتکاف ختم ہوچکا ہوتا ہے، اعتکاف صرف مسجد کی اصلی حدود میں ہوتا ہے۔
معتکف کیلئے بیان سننے جامع مسجد جانا
اذان جمعہ سے قبل جو آج کل و عظ کہنے کا رواج ہے دوسری مسجد کے معتکف کو اس کے سننے کے لیے جامع مسجد میں نہ جانا چاہیے۔ ہاں اگر تحیۃ المسجد اور جمعہ کی سنت پڑھنے کے بعد جماعت کے قیام میں اندازہ سے زیادہ دیر لگ گئی تو ایسے وقت اگر جماعت کے انتظار کی حالت میں وعظ بھی سنتا رہا ہے تو کچھ حرج نہیں۔ (بارہ مہینوں کے فضائل ومسائل،/167۔)
مرض کی وجہ سے اعتکاف توڑنے کا حکم
 مرض اور اس کا علاج ایسا عذر ہے جس کی وجہ سے اعتکاف توڑنا جائز ہے ۔بعد میں ایک دن کا اعتکاف روزہ کے ساتھ قضاکرلے۔(فتاویٰ عثمانی، ج:2ص:238۔)
مستورات کا مساجد میں اعتکاف کرنا
مستورات کا عام مسجدوں میں جاکر اعتکاف کرنا سخت فتنہ کا سبب ہے، اگر وہاں پردہ کا معقول انتظام ہو پھر بھی عورتوں کو اعتکاف سے منع کیا جائے گا اور جن مساجد میں پردہ کا انتظام ہی نہ ہو وہاں بدرجہ اولیٰ ممانعت ہوگی؛ اِس لئے اس سلسلہ میں حکمتِ عملی کے ساتھ روکنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔(کتاب النوازل جلد17)
کسی عورت کو پختہ یقین ہوکہ رمضان کے اخیر عشرہ کی فلاں تاریخ مثلا: پچیسویں رمضان کو حیض آئے گا، تو ایسی عورت کے لئے اعتکاف مسنون کی نیت سے بیٹھنا مناسب نہیں ہے؛ لیکن اگر وہ اس کے باوجود بیٹھ گئی اور درمیان اعتکاف حیض آگیا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوگیا، اور پاک ہونے کے بعد کم از کم ایک دن کے اعتکاف کی قضا روزے کے ساتھ کرے۔ (بدائع الصنائع ،ج:2ص:287۔زکریا)
عورت حیض یا نفاس کی حالت میں اپنے گھر میں نفلی اعتکاف نہیں کرسکتی 
نفلی اعتکاف حالتِ حیض ونفاس میں درست نہیں ہے؛ کیوں کہ حیض ونفاس سے پاک ہونا ہر طرح کے اعتکاف کے لئے لازم ہے۔ 
کیا عورت اپنے گھر کے علاوہ کسی اور کے گھر میں اعتکاف میں بیٹھ سکتی ہے؟
گھر میں اگر عورت نے نماز پڑھنے کے لیے جگہ مقرر کی ہوئی ہو تو اس کے لیے افضل یہ ہے کہ اسی نماز پڑھنے کی جگہ اعتکاف کرے، اس جگہ اعتکاف کرنا اس کے حق میں ایسا ہے جیسے مرد کے لیے جماعت والی مسجد میں اعتکاف کرنا،وہاں سے ضروری حاجت کے سوا نکلنا جائز نہیں،اور اپنے گھر میں نماز کی جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ بھی اعتکاف کرنا جائز ہے۔اور اگر گھر میں نماز کے لیے کوَئی جگہ مقرر نہیں ہے تو عورت کو چاہیے کہ کسی جگہ کو نماز کے لیے مقرر کرکے وہاں اعتکاف کے لیے بیٹھے۔کسی اور کے گھر  سے مراد اگر محرم رشتہ دار کا گھر ہے جہاں شرعی پردے کا انتظام بھی ہو اور اعتکاف میں یکسوئی اور عبادات بھی اچھی طرح انجام دی جاسکتی ہوں اور اپنے گھر میں ماحول میسر نہ ہو تو وہاں اعتکاف کی گنجائش ہوگی، لیکن عام حالات میں کسی دوسرے کے گھر جا کر اعتکاف کرنا صحیح نہیں  ہے۔( فتاویٰ بنوری نیٹ)

اعتکاف کو فاسد کرنے والی چیزیں
(۱)بغیر عذر مسجد سے نکلنے سے۔ 
(۲)حیض اور نفاس کے آجانے کی وجہ سے۔ 
(۳)جماع یا دواعی جماع کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے جیسے بوسہ لینا یا شہوت سے چھونا۔ 
 بغیر اعتکاف کی نیت کے مسجد میں سونا،کھانا ،پینا ، بات کر نا وغیرہ جائز ہے یا نہیں ؟ 
 مسجد عبادت کی جگہ ہے اس میں قیام گاہ اور چوپال بنانادرست نہیں؛ لہٰذا اعتکاف یا کسی معقول عذر کے بغیر مسجد میں کھانا پینا سونا مکروہ ہوگا، اس لئے اس سے احتراز کر نا چاہئے؛ البتہ فقہاء نے ضرورۃً پردیسی مسافر کے لئے مسجد میں قیام کی اجازت دی ہے۔ (کتاب النوازل جلد 6۔بحوالہ مستفاد: فتاویٰ محمودیہ ،ج:22ص:410تا411۔ میرٹھ)

نئے مضامین




Monday, May 4, 2020

مسائل اعتکاف



معتکف کی فضیلت
عَنِ ابْنِ عَباَّسٍؓ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ قاَلَ فِیْ الْمُعْتَکِفِ: ’’ھُوَ یَعْتَکِفُ الذُّنُوْبَ، وَیَجْرِیْ لَہٗ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ کُلِّھَا۔‘‘ (رواہ أبو داود وابن ماجہ، مشکوٰۃ/ص: ۱۸۳/ باب الاعتکاف، الفصل الثالث)
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے ،رحمت عالم  صلی اللہ علیہ و سلم  نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں فرمایا کہ’’ وہ (اعتکاف کی وجہ سے ) گناہوں سے بچا رہتا ہے ،اور اس کے لیے نیکیاں جاری رہتی ہیں، ساری نیکیاں کرنے والے کی طرح (اس کے لیے نیکیاں اتنی لکھی جاتی ہیں جتنی کرنے والے کے لیے )

اعتکاف کی تعریف 

اعتکاف کی نیت سے مرد کا مسجد شرعی میں ٹھہرنا یا عورت کا اپنے گھر کی مسجد میں بیٹھنا اعتکاف کہلاتا ہے 

اعتکاف کی قسمیں

اعتکاف کی تین قسمیں ہیں:
 (1)واجب اعتکاف: یہ وہ اعتکاف ہے جس کی نذر مانی جائے، مثلا:کوئی کہے اگر میرا یہ کام ہوگیا تو میں اتنے دنوں کا اعتکاف کرونگا۔
(2)مسنون اعتکاف:رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں اعتکاف کے لئے بیٹھنا مسنون اعتکاف ہے ' آپ ﷺ ۖ سے بالالتزام رمضان المبارک کے اخیرعشرہ میں اعتکاف کرنا ثابت ہے؛ ' اس لئے رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ ہے مگر یہ سنت مؤکدہ ایسا ہے کہ اگر بعض افرادمحلے کی مسجد میں اعتکاف کے لئے بیٹھ جائیں تو سب کا ذمہ فارغ ہو جائے گا ۔
(3)نفلی اعتکاف:رمضان المبارک کے آخیر عشرہ کے علاوہ کسی وقت بھی مسجد میں اعتکاف کی نیت سے بیٹھنا نفلی اعتکاف کہلاتا ہے۔

شرائطِ اعتکاف

اعتکاف کی صحت کے لئے چند شرائط کا ہونا ضروری ہے ۔
(1)اعتکاف نفلی ہو ' واجب ہو  یا  سنت سب میں اعتکاف کی نیت کا ہونا شرط ہے بغیر نیت کے مسجد میں ٹھہرنا شرعی اعتکاف نہیں کہلاتاہے ۔
(2)اور نیت کی صحت کے لئے اسلام اور عقل شرط ہے؛ اس لئے معتکف کا مسلمان ہونا اور عاقل ہونا بھی لازمی ہے؛ البتہ اعتکاف کے لئے بلوغ شرط نہیں لہذا اگر سمجھدار بچہ اعتکاف کیلئے بیٹھ جائے تو اعتکاف درست ہے ۔
(3)اسی طرح اعتکاف کے لئے معتکف کا جنابت ' حیض ونفاس سے پاک ہونا بھی ضروری ہے۔
(4)اعتکاف کے لئے شرعی مسجد کا ہونا ضروری ہے چاہے اس میں پنج وقت نماز باجماعت ادا ہوتی ہو یا نہیں۔ البتہ عورت گھر میں اس جگہ اعتکاف کرلے جہاں وہ پنجگانہ نماز پڑھتی ہو اور جگہ مقرر نہ ہو تو اعتکاف سے پہلے نماز کے لئے جگہ مقرر کرکے وہاں اعتکاف کرلے۔
(5)واجب اعتکاف کیلئے روزہ رکھنابھی ضروری اور شرط ہے ' حتی کہ اگر اعتکاف کیلئے بیٹھنے سے پہلے قبل نیت بھی کرلے کہ میں روزہ نہیں رکھوں گا تب بھی روزہ رکھنا ہوگا! ہاں روزہ کا خاص اعتکاف کیلئے رکھنا ضروری نہیں خواہ کسی بھی غرض سے روزہ رکھا جائے تو بھی اعتکاف کیلئے کافی ہے ' اسی طرح مسنون اعتکاف کیلئے بھی روزہ شرط ہے اگرچہ مسنون اعتکاف میں عموماً رمضان کا روزہ ہی ہوتا ہے۔البتہ نفلی اعتکاف کیلئے مفتی قول کے مطابق روزہ شرط نہیں۔

مسائل اعتکاف 

  مسئلہ:      اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں رہے اور سوائے ایسی حاجات ضروریہ کے جو مسجد میں پوری نہ ہوسکیں (جیسے پیشاب، پاخانہ کی ضرورت یا غسل واجب اور وضو کی ضرورت) مسجد سے باہر نہ جائے۔
مسئلہ:     رمضان کے عشرئہ اخیر میں اعتکاف کرنا سنت موٴکدہ علی الکفایہ ہے۔ یعنی اگر بڑے شہروں کے محلہ میں اور چھوٹے دیہات کی پوری بستی میں کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب کے اوپر ترکِ سنت کا وبال رہتا ہے اور کوئی ایک بھی محلہ میں اعتکاف کرے تو سب کی طرف سے سنت ادا ہوجاتی ہے۔
مسئلہ:     بالکل خاموش رہنا اعتکاف میں ضروری نہیں؛ بلکہ مکروہ ہے؛ البتہ نیک کلام کرنا اور لڑائی جھگڑے اور فضول باتوں سے بچنا چاہیے۔
مسئلہ:     اعتکاف میں کوئی خاص عبادت شرط نہیں، نماز، تلاوت یا دین کی کتابوں کا پڑھنا پڑھانا یا جو عبادت دل چاہے کرتا رہے۔
مسئلہ:      جس مسجد میں اعتکاف کیاگیا ہے، اگر اس میں جمعہ نہیں ہوتا، تو نماز جمعہ کے لیے اندازہ کرکے ایسے وقت مسجد سے نکلے جس میں وہاں پہنچ کر سنتیں ادا کرنے کے بعد خطبہ سن سکے۔ اگر کچھ زیادہ دیر جامع مسجد میں لگ جائے، جب بھی اعتکاف میں خلل نہیں آتا۔
مسئلہ:    بلا ضرورت طبعی شرعی تھوڑی دیر بھی مسجد سے باہر چلا جائے گا تو اعتکاف فاسد ہوجائیگا، خواہ عمداً نکلے یا بھول کر۔ اس صورت میں اعتکاف کی قضا کرنا چاہیے۔
مسئلہ:      آخر عشرہ کا اعتکاف کرنا ہوتو ۲۰/تاریخ کو غروبِ آفتاب سے پہلے مسجد میں چلا جائے اور جب عید کا چاند نظر آجائے تب اعتکاف سے باہر ہو۔
مسئلہ:     غسلِ جمعہ یا محض ٹھنڈک کے لیے غسل کے واسطے مسجد سے باہر نکلنا مُعتکف کو جائز نہیں ہے۔
مسئلہ:       واجب اعتکاف کم از کم ایک دن کا ہوسکتا ہے اور زیادہ جس قدر چاہے معتکف نیت کرسکتا ہے،مسنون اعتکاف دس دن ہوگا۔ اس لئے مسنون اعتکاف رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں ہوتا ہے اور مستحب اعتکاف کے لئے کوئی مقدار مقرر نہیں۔
مسئلہ: معتکف کیلئے حالت اعتکاف میں مسجد سے حاجت انسانی مثلاً بول وبراز ' غسل جنابت کے لئے نکلنا بشرطیکہ مسجد میں غسل کا انتظام ممکن نہ ہو اور حاجت شرعی مثلاً جمعہ اذان وغیرہ کیلئے نکلنا جائز ہے؛ مگر جیسے ہی ضرورت پوری ہو جائے تو واپس مسجد چلا آئے۔ اسلئے بلاضرورت مسجد سے ایک لمحہ کیلئے نکلنے سے بھی اعتکاف فاسد ہو جاتا ہے۔
مسئلہ: قضاء حاجت کے لئے قریب سے قریب تر جگہ جانا چاہیے ۔قضاء حاجت میں وضو کرنا بھی ضروری ہے ۔
مسئلہ: اخراج ریح کے لئے مسجد سے نکلنا مندوب ہے ' اور مسجد میں اخراج ریح کراہت سے خالی نہیںہے۔
مسئلہ:  حقہ وغیرہ پینے کے لئے مسجد سے نکلنا درست نہیں ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ اس ضرورت کو قضاء حاجت کے دوران پورا کیا جائے  یا مسجد کے احاطہ میں کھڑے ہو کر دھواں باہر نکالا جائے ۔ 
مسئلہ: اعتکاف کے دوران اخبار پڑھنے یا خبریں سننے سے احتراز کرنا چاہیے۔ اعتکاف کے دوران رضا الہٰی والے امور میں مشغول رہنا چاہیے۔
مسئلہ: اعتکاف کیلئے چونکہ ساری مسجد معتکف ہے اس لئے معتکف دھوپ کے لئے مسجد کے کسی بھی کونے میں بیٹھ سکتا ہے ۔ 
مسئلہ: معتکف کیلئے اعتکاف کی حالت میں خاموشی کو عبادت سمجھ کر چپ رہنا مکروہ تحریمی ہے مگر بلاضرورت اور فضول باتوں سے احتراز کرے دوران اعتکاف دینی اور دنیوی گفتگو بقدر ضرورت کی جاسکتی ہے۔
مسئلہ: معتکف کے لئے مسجد میں اتنی جگہ گھیرنا جس سے دوسرے معتکفین یا نمازیوں کو تکلیف ہو مکروہ ہے۔
مسئلہ: اعتکاف کے دوران مجبوری میں خرید و فروخت کرنا اگرچہ جائز ہے مگر سودا مسجد میں لانا مکروہ تحریمی ہے۔
مسئلہ:اعتکاف کے دوران نماز جنازہ ' کسی مریض کی عیادت سرکاری یا غیر سرکاری ڈیوٹی ' اور اس قسم کے دوسرے قسم کے امور کے لئے نکلنا جو حوائج انسانی یا شرعی میں داخل نہیںہے ۔تاہم اگر معتکف اعتکاف میں بیٹھنے سے قبل مذکورہ امور کے لئے نکلنے کی نیت کرے تو بقدر ضرورت نکل سکتا ہے ۔
مسئلہ:اعتکاف کا مقصد چونکہ قرب الہیٰ حاصل کرنا ہے ' اس لئے معتکف اپنے گھر بار دینوی مشاغل چھوڑ کر مسجد میں مقیم ہو جاتا ہے ' فقہا کرام نے لکھا ہے کہ معتکف حالت اعتکاف میں قرآن کریم کی تلاوت ' احادیث مبارکہ ' آنحضرت ۖ کی سیرت طیبہ ' انبیاء کرام اور سلف صالحین کے حالات کے مطالعہ اور دیگر دینی امور میں مشغول رہنا چاہیے۔ دنیاوی باتیں ' ہنسی مذاق سے احتراز کرنا چاہیے ۔ (الہندیة ،ج:1ص:221۔)
مسئلہ:اعتکاف ایک عبادت ہے، اس پر نہ اجرت کا لینا جائز ہے اور نہ دینا جائز ہے، اور نہ اس کے لئے نمازیوں سے چندہ کرنا جائز ہے، اور نہ باہر سے کرایہ پر معتکف کو لانا جائز ہے، اس لئے ان طریقوں کو ختم کرکے ہر مسجد میں بلااجرت اعتکاف کے لئے معتکفین کا انتظام کرنا چاہئے؛ تاکہ ترکِ اعتکاف کے گناہ سے پوری آبادی محفوظ رہ سکے۔ ( کتاب النوازل ،ج:6ص:241۔ )
مسئلہ: اعتکاف مسنون ٹوٹ جانے کی صورت میں امام ابویوسفؒ کے نزدیک پورے دس یوم کی قضا لازم ہوتی ہے، جب کہ طرفین کے نزدیک صرف اسی دن کی قضا لازم ہوتی ہے جس دن اعتکاف ٹوٹا ہے؛ اس لئے احوط یہ ہے کہ دس دن کی قضا کی جائے؛ لیکن یہ مشکل ہو تو کم از کم ایک یوم کی قضا تو بہر حال لازم ہے اور یہ قضا روزہ کے ساتھ ہوگی۔ ( کتاب النوازل ،ج:6ص:242۔)
مسئلہ:  کسی عورت کواس بات کایقین ہے کہ پچیسویں رمضان کو حیض آئے گا، تو ایسی عورت کے لئے اعتکاف مسنون کی نیت سے بیٹھنا مناسب نہیں ہے؛ لیکن اگر وہ اس کے باوجود بیٹھ گئی اور درمیانِ اعتکاف حیض آگیا تو اس کا اعتکاف فاسد ہوگیا، اور پاک ہونے کے بعد کم از کم ایک دن کے اعتکاف کی قضا روزے کے ساتھ کرے۔  ( کتاب النوازل ،ج:6ص:246۔ )
مسئلہ: نفلی اعتکاف حالتِ حیض ونفاس میں درست نہیں ہے؛ کیوں کہ حیض ونفاس سے پاک ہونا ہر طرح کے اعتکاف کے لئے لازم ہے۔ ( کتاب النوازل ،ج:6ص:247۔ )

نوٹ : یہ تحریرعاجز کی مستقل نہیں ہے ؛بلکہ تحفہ خواتین، ماہنامہ الحق ستمبر2004۔فتاویٰ حقانیہ، فتاویٰ رحیمیہ اور کتاب النوازل وغیرہ کی تحریروں کو جمع کردیا ہے ۔
رمضان سے متعلق مضامین