ارطغرل غازی
رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ کا تیسرا دن تھا ، بعد عصر ذکرو تلاوت کے بعد چند منٹ کیلئے مسجد کے سامنے احوال ناس سے باخبر ہونے کیلئے باہر آیا کہ اچانک رفیق محترم جناب عثمان ملا نے سوال کیا کہ مفتی صاحب ارطغرل غازی کیا ہے ، اور اس کی حقیقت کیا ہے ؟میں نے انکو ماحضر مواد سے اتنا کہہ دیا کہ یہ ایک سریل ہے جس کو ترکی کی حکومت نےکئی قسطوں میں ٹی وی پر نشر کیا ہے ، اس سریل میں خلافت عثمانیہ کا کردار اور اسکی جفاکشی کو دیکھا یا گیا ہے جس کو دنیاکے اکثر ممالک نے لائک کیا ہے اور اس سے متاثر ہواہے ،اس قدر جواب اس کیلئے کافی تھا؛ لیکن مجھے بعد میں اس کی صحیح معلومات کو نشرکرنے کی فکر لاحق ہوئی، اسی فکر کا نتیجہ آپ ناظرین کی خدمت میں پیش ہے ۔اس مضمون میں حسب ذیل امور پر مختصر کلام کیا گیا ہے ۔
(1) ارطغرل کا صحیح تلفظ و معنیٰ کیا ہے ؟ (2) ارطغرل غازی کیاہے ؟ (3) ارطغرل غازی کو دنیا کس نگاہ سے دیکھ رہی ہے ۔(5) ارطغرل غازی فرضی ہے یا اس کی کوئی حقیقت بھی ہے ؟(6)ارطغرل کا نام ونسب (7) احوال ارطغرل(8) ارطغرل غازی کا عوام پرکیا اثرہوا ؟ (9) ارطغرل غازی کا دیکھنا کیسا ہے ؟ (10) ارطغرل غازی کے متعلق عاجز کی رائے۔(11) تصویر
ارطغرل کا صحیح تلفظ و معنیٰ کیا ہے ؟
اس کا صحیح تلفظ ”ارطغرل“ ہے، ارطغرل (Ertuğrul)ترکی زبان کا لفظ ہے، ترکی میں ’’ار‘‘ کے معنی آدمی، بہادر یا فوجی کے ہیں، ’’طغرل‘‘ کے معنی عقاب، زخمی کرنے والا بہادر پرندہ، اس اعتبار سے ترکی زبان میں ’’ارطغرل‘‘ کے معنی ہیں: بہادر آدمی، عقابی شخص۔ارطغرل غازی کیاہے ؟
دسمبر 2014 میں ترکی کے سرکاری ٹی وی چینل ٹی آر ٹی نے ایک ڈرامہ نشر کیا ڈریلریس ارطغرل۔ یہ 2019 تک جاری رہا ہے ۔ یہ ڈرامہ پانچ سیشن پر مشتمل ہے ۔ اس میں کل 150 ایپسوڈ(Episode) ہیں اور ہر ایک ایپسوڈ (Episode) کا دورانیہ تقریباً دو گھنٹے کا ہے ۔ اب تک 160 ممالک میں اسے دیکھا جاچکا ہے ۔ 90 سے زیادہ زبانوں میں اس کی باضابطہ ترجمہ ہوچکا ہے ۔ اس ڈرامہ کے رائٹر اور ڈائریکٹر محمد بوزدیغ ہیں اور اس کے اصل ہیرو انگین آلتان دوزیاتان ہیں جنہوں نے ارطغرل غازی کا کردار ادا کیا ۔ سلیمان شاہ (قائی قبیلے کا سردار، ارطغرل کا باپ، عثمان اول کا دادا)کا کردارسردار کوگخان نے ادا کیا ہے ،ڈرامہ ’ارطغرل غازی‘ کی ہیروئن حلیمہ سلطان ہے جو ڈرامہ میں ہیرو (ارطغرل غازی ) کی بیوی کا کردار ادا کرتی ہے، اور شیخ ابن عربی (جواندلسی صوفی بزرگ، ایک روحانی شخصیت جو ارطغرل اور اس کے ساتھیوں کی قدم قدم پر رہنمائی اور مدد کرتے ہیں) اس کا کردار عثمان سویقوت اداکرتا ہے۔کہانی کی شروعات اوغوز ترک نسل کے قائی قبیلہ کی ہجرت کے منظر سے ہوتی ہے جب یہ قبیلہ منگولوں کے حملوں سے بچنے کے لیے دوران میں ہجرت پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا۔ 400 خیموں سے آباد یہ بستی اپنی نئی منزل کی تلاش میں تھی۔ یہ تیرہویں صدی کا زمانہ تھا۔ قحط کے مشکل وقت سے گزرنے کے بعد وہ ایک بہتر جگہ کی طرف ہجرت کرنے کا عزم کرتے ہیں جہاں وہ نئی زندگی کا آغاز کرسکیں۔ سلیمان شاہ قائی قبیلے کا سردار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ڈرامے میں یہ دیکھایا گیا ہے کہ تیرہویں صدی میں کائی نام کا ایک ترک قبیلہ تھا جو منگلولوں کے ظلم وستم سے پریشان تھا ۔ صلیبیوں نے ان پر مسلسل ظلم و زیادتی کی؛ اس لئے انہوں نے منگلولوں اور صلیبیوں سے مسلسل لڑائی کی ۔اور دونوں کو شکست سے دوچار کرتا رہا اور کئی صلیبی قلعوں کو اس نے فتح کرلیا ۔ ارطغرل کی پوری جنگی مہم میں شیخ ابن العربی نے روحانی پیر کے طور پر بہت مدد کی ۔ اس کے علاوہ ارطغرل کے تین بہادر ساتھ بامسی بابر(نور الدین سونمز)، ترغت الپ (جنگیز جوشقون) اور روشان (جاوید چتین گونر)اس کا بہت ساتھ دیتے ہیں اور تقریباً پورا ڈرامہ انہیں تینوں کی بہادری ، شجاعت اور جاں نثاری کے ارد گرد ہے ۔
ارطغرل غازی کو دنیا کس نگاہ سے دیکھ رہی ہے؟
ہم یہ بتا چکے ہیں کہ اس ڈرامہ کو 90سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور بہت سے ممالک نے اس کو اپنے ملک کے چینلوں سے نشر بھی کیا ہے، مثلا:خلاصہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کرنے والا اسلامی فتوحات پر مبنی ترکی کا مشہور ڈراما ارطغرل غازی ہی ہے ۔
ارطغرل غازی فرضی ہے یا اس کی کوئی حقیقت بھی ہے ؟
یوں تو ہرزندہ دل انسان کو بارہا تجربہ ہوتارہتاہےکہ اسلام مخالف طاقتوں نے ہر ایسی چیز کی مخالفت یا کم ازکم اس کے خلاف لوگوں میں غلط معلومات بھیلانے کی ہر طرح کی کوشش کی ہےجو چیز مسلمانوں سے متعلق ہوں ۔ اسی طرح اس ڈرامہ کے متعلق بھی حال ہی میں بی بی سی نے ایک مضمون لکھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی تھی کہ ارطغرل ڈرامہ میں جو دکھا گیا ہے وہ خلاف حقیقت اور تاریخ کے برعکس ہے ۔ کئی یورپین اور امریکی دانشوروں نے بھی اس ڈرمہ پر سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ ارطغرل ایک گمنام ہے جسے ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے زبردستی ہیرو بناکر پیش کردیا ہے ۔ امیریکن یونیورسٹی آف بیروت کے ماہر بشریات جوش کارنی نے مڈل ایسٹرن رویو میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں سوال اُٹھایا کہ ’ترک حکومت نے کئی مشہور کرداروں کو چھوڑ کر آخر ارطغرل کا ہی انتخاب کیوں کیا؟‘۔ آئیے جانتے ہیں سچائی کیا ہے ۔ڈرامہ ارطغرل غازی کو بالکل بے بنیاد اور فرضی بتانا تاریخ کے اوراق کو یکسربھلادینا ہے اور حقیقت سے تعصبانہ عیاری ہے ؛تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ڈرامہ میںجو کچھ دیکھایا گیا ہے سب کا سب سچ ہی نہیں ہے ؛بلکہ اس میں سچ اور چھوٹ دونوں کی آمزش ہے ۔
ارطغرل کا نام ونسب
أرطغرل بن سليمان بن فياألب جد خلفاء آل عثمان ووالدعثمان خان مؤسس الدولة العثمانية، (الموسوعة الموجزة في التاريخ الإسلامي، ج:10ص:306۔شاملۃ)احوال ارطغرل
امیر غازی ارطغرل بن سلیمان شاہ قایوی ترکمانی ترک اوغوز کی شاخ قائی قبیلہ کے سردار سلیمان شاہ کے بیٹے اور سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان اول کے والد تھے۔[5] ولادت کا زمانہ سنہ 1191ء کے آس پاس کا ہے جبکہ سنہ وفات 1281ء بتائی جاتی ہے اور مدفن اناطولیہ کے شہر سوغوت میں واقع ہے۔ ارطغرل غازی ایک بہادر، نڈر، بے خوف، عقلمند، دلیر، ایماندار اور بارعب سپاہی تھے۔ وہ ساری عمر سلجوقی سلطنت کے وفادار رہے۔ سلطان علاء الدین کیقباد نے ارطغرل کی خدمات سے متاثر ہو کر ان کو سوغوت اور اس کے نواح میں واقع دوسرے شہر بطور جاگیر عطا کیے اور ساتھ ہی "سردار اعلیٰ" کا عہدہ بھی دیا۔ اس کے بعد آس پاس کے تمام ترک قبائل ان کے ماتحت آگئے تھے۔(آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا )ومبدأ ظُهُورهمْ وَسبب ملكهم أَن آل سلجوق لما تركُوا وطنهم من فتْنَة جنكز خَان ملك التتار وعزموا إِلَى جَانب بِلَاد الرّوم جَاءَ مَعَهم من طَائِفَة أغوز رجل اسْمَع أرطعزل يتَّصل نسبه بياقث بن نوح عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام وَكَانَ بِصُحْبَتِهِ نَحْو ثَلَاثمِائَة وَأَرْبَعين رجلا وَكَانَ شجاعاً ثمَّ تشمر فِي خدمَة السُّلْطَان عَلَاء الدّين كيقباد بن كيخسرو بن قلج أرسلان بن طغرل السلجوقي وَكَانَ يُحِبهُ السُّلْطَان عَلَاء الدّين لكَونه شجاعاً وَفتحت على يَدَيْهِ بِلَاد كَثِيرَة من بِلَاد الْكفَّاروَلما كَانَت سنة 697 سبع وَتِسْعين وسِتمِائَة توفّي الْغَازِي أرطغرل فَكتب السُّلْطَان عَلَاء الدّين لعُثْمَان بن أرطغرل بموافقة السلطنة وَأرْسل إِلَيْهِ خلعة وسيفاً ونقارة وَخَصه بالغزو على الْكفَّار فَسَار عُثْمَان بن أرطغرل فَفتح اينه كولي ويني شهر وكوبري حِصَار وبلجك وَغير ذَلِك ثمَّ لما توفّي السُّلْطَان عَلَاء الدّين سنة تسع وَتِسْعين وسِتمِائَة اجْتمع أَكثر الْغُزَاة عِنْد عُثْمَان بن أرطغرل فتسلطن عُثْمَان الْغَازِي وَجلسَ على تخت السلطنة فِي السّنة الْمَذْكُورَة۔ ( سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي، ج:4ص:70۔ شاملۃ)
دولت عثمانیہ کو موجد اور اسی ارطغرل کو قرار دیا گیا ہے :
ومؤسس هَذِه الدولة هُوَ ارطغرل بن سُلَيْمَان شاه التركماني قَائِد احدى قبائل التّرْك النازحين من سهول اسيا الغربية إِلَى بِلَاد اسيا الصُّغْرَى وَذَلِكَ انه كَانَ رَاجعا إِلَى بِلَاد الْعَجم بعد موت ابيه غرقا عِنْد اجتيازه اُحْدُ الانهر اذ شَاهد جيشين مشتبكين فَوقف على مُرْتَفع من الارض ليمتع نظره بِهَذَا المنظر المالوف لَدَى الرحل من الْقَبَائِل الحربية وَلما انس الضعْف اُحْدُ الجيشين وَتحقّق انكساره وخذلانه ان لم يمد اليه يَد المساعدة دبت فِيهِ النخوة الحربية وَنزل هُوَ وفرسانه مُسْرِعين لنجدة اضعف الجيشين وهاجم الْجَيْش الثَّانِي بِقُوَّة وشجاعة عظيمتين حَتَّى وَقع الرعب فِي قُلُوب الَّذين كَادُوا يفوزون بالنصر لَوْلَا هَذَا المدد الفجائي واعمل فيهم السَّيْف وَالرمْح ضربا ووخزا حَتَّى هَزَمَهُمْ شَرّ هزيمَة وَكَانَ ذَلِك فِي اواخر الْقرن السَّابِع لِلْهِجْرَةِ ۔( تاريخ الدولة العلية العثمانية، ج:1ص:115۔ شاملۃ)
اسی بات کو مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی نے اپنی کتاب تاریخ اسلام میں لکھا ہے کہ ارطغرل اپنے چار سو جنگجوؤں کے ساتھ اناطولیہ جارہے تھے وہاں انہوں نے دیکھا دو فوجیں آپس میں لڑری ہیں ۔ ایک فوج جیت رہی تھی اور دوسری فوج شکست کھانے کے قریب پہونچ چکی تھی ۔ ارطغرل نے اس وقت اپنے ساتھیوں کے ساتھ شکست خوردہ فوج کا ساتھ دیا ۔ ارطغرل نے شکست خوردہ فوج کا ساتھ محض اپنی اس فطر ت کی وجہ سے دیا کہ وہ کمزوروں اور مظلوں کا ساتھ دینا فرض سمجھتا تھا ۔ اس نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ یہ فوج کون سی ہے اور اس کے بدلے کیا انعام ملے گا ۔ ارطغرل کے حملہ کے بعد جیتی ہوئی فوج شکست سے دوچار ہوگئی اور جو فوج ہار رہی تھی وہ جیت گئی ۔ اس طر ح جنگ کا پانسہ بدل گیا ۔ ارطغرل نے جس فوج کا ساتھ دیا تھا وہ سلجوق سطلنت کی فوج تھی اور سامنے منگلولوں کی فوج تھی ۔ بعض مؤرخین نے صلیبی فوج لکھا ہے ۔ بہر حال سلجوق سلطان علاء الدین نے ارطغرل کی اس بہادری سے خوش ہوکر انہیں سوغوت کا علاقہ جاگیر کے طور پر دے دیا اور اپنا سردار اعلی منتخب کیا ۔(تاریخ الاسلام ، ج:3ص:380تا381۔)
مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی نے ارطغرل کے باپ سلیمان خان اور ارطغرل کے جنگی کارناموں کو تقریباچھے صفحات میں تفصیل سے بیان کیا ہے ۔
ارطغرل غازی کا عوام پرکیا اثرپڑا ؟
اس ڈرامہ کا اتنا اثر ہوا کہ مغرب کے ہزاروں غیر مسلموں میں اس نے دعوت کا بھی کام کر دیا اور لوگوں کو حقیقی تاریخ کی طرف مائل کردیا ،نیز اسلام کو پڑھنے اورلوگوں کو اس کے آغوش میں لانے میں مدد گار ثابت ہوا۔ ساتھ ہی کئی لوگوں نےاسلام بھی قبول کیا ہے،اور حقیقت بھی ہے کہ اس ڈرامہ سےروشن ماضی خود بخودیاد آجاتاہے؛لیکن مغرب اور خلافت عثمانیہ کے باغیوںکواس سے پریشانی ہے کہ اس سے مسخ شدہ حقائق سامنے آنے لگے ہیں اور ترکی اب ایک بہتر با اخلاق متبادل کے ساتھ فلم انڈسٹری میں بھی اپنا سکہ جمانے لگا ہے؛چنانچہ اس سیریل کے اثرات اور مقبولیت کو ختم کرنے کے لئے اس سیریل کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑکر کے مکمل پابندی عائد کرنےکی ناکام کوشش بھی کی ہے۔
ارطغرل غازی کا دیکھنا کیسا ہے ؟
اس سلسلے میں کئی مفتیان کرام کے فتاوے آچکے ہیں کہ اگرچہ ارطغرل غازی میں سچ اور کچھ حقیقت بھی ہے ؛ لیکن اس طرح فلمی شکل میں پیش کرنا اور اسکا دیکھنا درست نہیں ہے ، جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن کاایک فتاویٰ شائع ہواہے اس کو ملاحظہ فرمائیں:الجواب وبالله التوفيق:
ارطغرل غازی یا Ertugrul Dirillis ایک ترکی تاریخی ڈراما ہے، جس میں خلافتِ عثمانیہ کے بانی عثمان کے والد ارطغرل اور ان کے قبیلہ کے حالات کو فلم بند کیا گیا ہے، لیکن اس کے تمام واقعات مستند اور تصدیق شدہ نہیں ہیں، بلکہ اس داستان میں سچ اور جھوٹ دونوں کی آمیزش ہے۔ معتبر ذرائع سے ملی اطلاع اور آپ کے سوال سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس ڈرامے کے کردار و مناظر بڑے سحر انگیز ہیں، جس کی وجہ سے عوام و خواص، بلکہ دِین دار افراد تک اس پر فریفتہ ہیں اور اس کے دیوانے بنے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ بعض نام نہاد علماء اور خود ساختہ مفکرین بڑے بڑے مضامین لکھ کر اس کو دیکھنے کی دعوت دے رہیں؛ لہٰذا ایسے حالات میں ضروری ہوجاتا ہے کہ اس قسم کے ڈراموں کی شرعی حیثیت کو واضح کیا جائے، اور لوگوں کی صحیح راہ نمائی کی جائے!(تو جان لیجیے)‘‘کسی بھی جائز مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ناجائز طریقہ اپنانا درست نہیں، خلافتِ عثمانیہ کے تاریخی دور کی روئیداد تاریخ کی کتابوں کے مطالعہ اور اس سے متعلق لٹریچر عام کرکے ہوسکتی ہے؛ اس کے لیے فلم، ڈراما بنانا اور دیکھنا جائز نہیں ہے۔ نیز اگر سوال میں مذکورہ مفاسد بھی اس میں پائے جاتے ہیں تو یہ قباحت اس پر مستزاد ہے۔ فقط واللہ اعلم۔
"قلت: وفي البزازية: استماع صوت الملاهي - كضرب قصب، ونحوه - حرام؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: "استماع الملاهي معصية، والجلوس عليها فسق، والتلذذ بها كفر" أي: بالنعمة، فصرف الجوارح إلى غير ما خلق لأجله كفر بالنعمة، لا شكر، فالواجب كل الواجب أن يجتنب كي لايسمع؛ لما روي أنه عليه الصلاة والسلام أدخل أصبعه في أذنه عند سماعه، وأشعار العرب لو فيها ذكر الفسق تكره، اهـ أو لتغليظ الذنب، -كما في الاختيار -، أو للاستحلال، - كما في النهاية -". ( الشامية، كتاب الحظر و الإباحة، قبيل فصل في اللبس،ج:9ص:504۔، ط: دار عالم الكتب، وکذا فی فتاویٰ قاضی خان، بَابُ الْبَيَانِ وَالشِّعْرِ ، الْفَصْلُ الثَّالِث)
ارطغرل غازی کے متعلق عاجز کی رائے۔
یہ ترکی کی ایک اچھی پیش کش ہے ؛لیکن جہاں تک اس کے دیکھنے کا سوال ہےوہ اوپر ہی کے فتاویٰ کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے” کسی بھی جائز مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ناجائز طریقہ اپنانا درست نہیں ہے، خلافتِ عثمانیہ کے تاریخی دور کےاحوال و کوائف کوتاریخ کی کتابوں کے مطالعہ اور اس سے متعلق لٹریچر عام کرکے ہوسکتی ہے،اس کے لیے فلم، ڈرامہ بنانا اور دیکھنا جائز نہیں ہے۔
تصویری معلومات


اس ڈرامہ میں ارطغرل غازی (ہیرو)کا کردار اس نے ادا کیا ہے ۔اس کانام انگین آلتان دوزیاتان ہے ۔
اس ڈرامہ میں ارطغرل غازی کی بیوی ( ہیروئن )کا کردار اس نے ادا کیا ہے،اس کا اصل نا م اسرا بیلگیج ہے ۔