بسم اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحیم
(سول کوڈ اور ملک بھارت)
اَلْحَمْدُللّٰہِ وَکَفٰی وسَلَامٌ عَلٰی عِبَادہِ الَّذِینَ اصطَفٰی اَمَّا بَعْد: اعُوذُبِااللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیم بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم قال اللہ تعالیٰ ’’وَمَنْ لَّمْ یَحْکُم بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولٰئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ ‘‘(سورہ مآئدہ ۴۴)
محترم حضرات !اس وقت ملک بھارت اور بھارت میں رہنے والے انسان بہت ہی نازک دور سے گزررہاہے شاید بھارت پر آزادی کے بعد سے آج تک ایسا دور نہیں آیاتھا،حکومت چاہ رہی ہے، یونیفارم سول کوڈ بنانا یعنی ایک ہی جیسا قانون مسلم ہندو ،سکھ وعیسائی ،سب کے لئے ایک ہی قانون ہوہرقوم وملت والے ایک ہی جیسا نکاح کرے ،طلاق کے لئے ایک ہی قانون بنے ،خلع اوروراثت میں سب کیلئے ایک ہی قانون ہو ،جسکو آپ اورہم سمادھان قانون یکساں، برابرقانون سمجھ رہے ہیں۔
اتنے اھم اورنازک عنوان کو لیکر اپنے بزرگوں کے حکم اور موجودہ مسلم سماج کمیٹی چندگڑھ کے مشورہ سے تشریف لایاہوں،اس وقت ہم آپ کی خدمت میں کل چار باتیں پیش کرینگے ،
(۱)موجودہ حکومت کیا کرناچاہتی ہے؟ (۲)جوکام وہ کرنا چاہتی ہے کیاوہ ہندوستان میں چل سکتاہے؟(۳)اس سلسلے میں ہماری شریعت کیا کہتی ہے؟(۴)اس وقت ہم کو کیا کرنا ہے؟دعا کریں اللہ تعالیٰ ہم سبکو عمل کرنے کی توفیق عطاکرے۔
(۱)پہلی بات کہ موجودہ حکومت کیا کرنا چاہرہی ہے موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ وہ طلاق، نکاح، خلع، اوروراثت کے مسئلے میں مسلمانوں کا مذہبی قانون وشریعت بدل کرسول کوڈ نافذ کریں کہ مسلمان کے لئے بھی ان چیزوں میں وہی قانون بنے جو غیر مسلموں کے لئے ہے ،اور یاد رکھیں حکومت اس وقت انہیں چار کا نام لیتی ہے لیکن ان کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں سے ان کی شناخت کوختم کردیا جائے مسلمان صرف اور صرف نام کے رہ جائیں باقی عمل تو وہ مکمل طور پر برہمن وادپرکرے ،
چنانچہ مسلمانون کے خلاف جتنی اندرونی اوربیرونی تنظیمیں ہیں سب کا ایک ہی مشن، طریقہ ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کی زندگی سے اسلام کی شناخت وپہچان کوختم کردیا جائے ،
سیکڑوں مرتبہ تقریری،تحریری پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیاپردیکھنے اورسننے کوملتاہے کہ بھارت کو ہندو راشٹری بنایا جائے توکبھی گھرواپسی کااندولن چلایاجاتا ہے تو کبھی گائے ماتا کہکر مسلمانوں پرظلم کیاجاتا ہے اورکبھی آذان ونماز کولاؤڈاسپیکرپرپابندی لگائی جاتی ہے ان تمام کامقصد ایک ہی ہے،کہ کسی طرح مسلمان اوراسلام کو صف ہستی سے مٹادیاجائے یادرہے ! ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا‘‘
جب ان سے پوچھا جاتاہے کہ طلاق اورنکاح میں سول کوڈ کیوں نافذ کیاجارہاہے توبڑے بے شرم ہوکرکہتے ہیں کہ مسلم پرسنل لاء میں مسلم عورتوں پر ظلم ہورہاہے اسلئے ہم اس کی ہمدردی میں ایسا کررہے ہیں، چنانچہ مودی بنارس کے بھاشن میں کہا کہ ہم مسلمان عورتوں پر اس سلسلے میں ظلم نہ ہونے دیں گے ساتھ ہی مودی نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے،میں پوچھتا ہوںمودی سے جب گجرات میں،بھاگل پور میں، مظفرنگرمیں، میرٹھ میں مسلمان عورتوں پر ظلم ہوا،ان کوزندہ جلایاگیاانکی عزتیں لوٹی گئی ان کے بیٹے اورشوہروں کوشہید کردیاگیا اتنا ہی نہیں الٹا مسلمانوں کو ہی گرفتار کرکے جیل کے سلاخوں میں ڈالدیا گیا ،جنکے بچے اوربیویاں بے یاروں مددگاربیس بیس سال سے حکومت سے فریاد کررہی ہے کیاحکومت کوان مسلمان عورتوں پر ہمدردی ہوئی؟ان پرحکومت اورپولس کاعملہ نے جوظلم وبربریت کے پہاڑ توڑے اس کے متعلق ذرا بھی سوچا؟اچانک اتنی ہمدردی کیسے پیدا ہوگئی ؟ ضرور دال میں کچھ کالا ہے اوریقیناًہے اوروہ یہ ہے کہ ظاہری ہمدردی بتاکرمسلمانوں کے پرسنل لاء کوبدل کر سو ل کوڈ اوربرہمن وادکونافذ کیاجائے،اس ملک بھارت کوہندوراشٹری بنادیاجائے،
(۲)دوسری بات جسکو حکومت کرناچاہرہی ہے کیا وہ اس ملک میں چل سکتی ہے؟
محترم حضرات ۔یہ ملک سیکولر ملک ہے جسکو جمہوری ملک کہاجاتا ہے ،یہاں کے ہربسنے والے کومذہب پرچلنے کی آزادی دی گئی ہے،جیسا کہ دستور۲۵ میں کہاگیا ہے اوردستور ۲۶ میں ہے کہ ہرایک کو اپنے مذہب کے تبلیغ کی بھی اجازت ہوگی، جب کہ امن عامہ کوخطرہ نہ ہو،بھارت کی بدقسمتی آزادی کے بعد جوقانون ساز کمیٹی بنی ان میں ڈاکٹر امبیڈکر ،اے سی سوامی یہ کٹر سول کوڈ کے حامی تھے،ساتھ ہی جواہر لال نہرو بھی یہی چاہتاتھا کہ بھارت میں سول کوڈ ہی چلے جسکی وجہ سے انہوں نے دفعہ۴۴ میں سول کوڈ کی بات بھی کہدی جب ہمارے اکابر نے ڈاکٹر امبیڈکر کو کہا کہ دفعہ ۴۴ سے تواقلیت کاحق ختم ہوجائیگا اوربعد میں انکوپریشانی ہوگی تواسوقت ڈاکٹرامبیڈکرنے یہ کہکرچلدیاکہ اس سے کوئی حکومت یونیفارم سول کوڈ نافذ نہیں کرے گی جوکرے گی وہ پاگل ہی ہوگی۔جب دستور ہند کی بات چلنے لگی تو آئیےے اندفعات پر ایک روشنی ڈالتے چلیں،
دفعہ ۲۵: میں ہے تمام اشخاص کو آزادی ضمیر، اورآزادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کا مساوی حق ہے ، دفعہ ۲۶: میں ہے کہ تبلیغ کی اجازت اس شرط کے ساتھ ہے کہ امن عامہ،اور صحت عامہ متأثر نہ ہوں ، دفعہ۷ ۲: میں ہے کسی شخص کو ایسے ٹیکسوں کے ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جائیگا جن کی آمدنی کسی خاص مذہب یا مذہبی فرقہ کی ترقی یا اس کو قائم رکھنے کے مصارف ادا کرنے کیلئے صراحتاً صرف کی جائے۔دفعہ۸ ۲: میں ہے کسی ایسے تعلیمی ادارے میں جو بالکلیہ حکومت کے فنڈسے چلایاجاتا ہو کوئی مذہبی تعلیم نہیں دی جائے گی۔
دفعہ۹ ۲: میں ہے بھارت کے علاقہ میں یا اس کے کسی حصہ میں رہنے والے شہریوں کے کسی طبقہ کو جس کی اپنی الگ جداگانہ زبان، رسم الخط، یا ثقافت ہو اس کو محفوظ رکھنے کاحق ہوگا۔دفعہ ۳۰:میں ہے تمام اقلیتوں کو خواہ وہ مذہب کی بناپر ہوں یا زبان کی ،اپنی پسند کی تعلیمی ادارے قائم کرنے اوران کاانتظام کرنے کا حق ہوگا۔ (بھارت کا آئین یکم جنوری ۵۸۹۱/ تک ترمیم شدہ شائع کردہ ترقی اردو بیورو وزارت تعلیم حصہ ۳ بنیادی حقوق، ص:۶۴۔۷۴)
محترم حضرات ! ایک نظران دفعات کو دیکھیں اور دوسری طرف شرپسند تنظیموں اورغیر جانب دارانہ باتیں کرنے والی حکومت کی وقتاًفوقتاً اٹھنے والی آوازوں کا جائزہ لیں تو آپکو معلوم ہو جائے گا کہ یہ لوگ سراسر دستور ہندکی خلاف ورزی کر رہے ہیں ،اور جو شخص دستور ہند کو نہ ماننے صحیح مانے میں وہی مجرم ہے۔
آپکے علم میں رہے ،امریکہ جوان کاپیشوا ہے وہاں بھی ایک سول کوڈنہیں چل رہاہے ،جی ہاں! پوری امانت داری سے کہہ رہاہوں وہاں بھی ایک سول کوڈ نہیں ہے بلکہ وہاں الگ الگ علاقے کے لئے وہاں کے لوگ اوران کی رسوم ومذاہب کومدِنظر رکھتے ہوئے الگ الگ سول کوڈ ہے،کل ملا کربات یہ ہے کہ یہاں ایک سول کوڈ چل ہی نہیں سکتی،
بقول حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ’’مسلمانوں کو تو یونیفارم سول کوڈ پر اعتراض ہے ہی ؛ لیکن اگر غور کیا جائے تو عملی طورپر خود اکثریتی فرقہ بھی اس کو قبول نہیں کرے گا ، ہندوؤں کی مختلف ذاتیں ہیں اور نکاح وغیرہ کے سلسلہ میں ان کے الگ الگ طریقے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ ملک کے سارے ہندوؤں کا ایک ہی طریقہ ہو ، حد تو یہ ہے کہ وہ اپنے بنیادی عقائد اور عبادات کی باتوں میں بھی یکساں نہیں ہیں ، کوئی مورتی پوجا کا قائل نہیں ہے ، کوئی قائل ہے ، کوئی راون کو بُرا بھلا کہتا اور رام کو پوجتا ہے ، کوئی رام کو بُرا بھلا کہتا ہے اور راون کی پرستش کرتا ہے ، خود نکاح کے سلسلہ میں دیکھیں کہ شمالی ہند میں ماموں اور بھانجی کے درمیان نکاح کا تصور نہیں ؛ لیکن جنوبی ہند میں بہن کا اپنے بھائی پر حق سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس کی بیٹی سے نکاح کرلے ، قبائلوں کے یہاں خاندانی رسم و رواج بالکل مختلف ہیں ، آج بھی بعض قبائل میں ایک مرد ایک درجن سے زائد عورت سے نکاح کرسکتا ہے ، یہاں تک کہ ابھی بھی ایسی رسمیں پائی جاتی ہیں کہ ایک عورت ایک سے زیادہ مرد کے نکاح میں ہوتی ہے ، جس ملک میں مذاہب اورتہذیبوں کا اس قدر تنوع پایا جاتا ہو ، وہاں ایک ہی قانون تمام گروہوں کے لئے کیسے مناسب ہوسکتا ہے ؟ ‘‘
(۳)تیسری بات ہماری شریعت اس سلسلے میں کیا کہتی ہے؟
آئیے قرآن سے ہم دریافت کرتے ہیں ،کہ وہ ہماری اس سلسلے میں کیاپیغام دیتاہے،قرآن کا فرمان ہے ، ’’وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَااَنْزَلَ اللّٰہ فَاُولٰئکَ ھُمُ الْکَافِرُون‘‘ کہ جواللہ کے احکام کے موافق تمام احکام میں فیصلہ نہ کرے وہ کافر ہے چاہے طلاق ہویانکاح ،وراثت ہو یا خلع ہر احکام میں قرآن کا فیصلہ ماننا ضروری ہے اور جو فیصلہ نہ مانے وہ کافر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جنگ آزادی کے نامور مجاہد اور عظیم رہنما مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک موقع پر حکومت برطانیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:
’’اسلام کے احکام کوئی راز نہیں جن تک گورنمنٹ کی رسائی نہ ہو وہ چھپی ہوئی کتابوں میں مرتب ہیں اور مدرسوں کے اندر شب وروز اس کا درس دیتے ہیں۔ پس گورنمنٹ کو چاہئے کہ صرف اس بات کی جانچ کرے کہ واقعی اسلام کے شرعی احکام ایسے ہیں یا نہیں! اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ایسا ہی ہے تو پھر صرف دوہی راہیں گورنمنٹ کے سامنے ہونی چاہئیں یا مسلمانوں کے لئے ان کے مذہب کو چھوڑ دے اور کوئی ایسی بات نہ کرے جس سے ان کے مذہب میں مداخلت ہو یا پھر اعلان کردے کہ حکومت کو مسلمانوں کے مذہبی احکام کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ نہ اس پالیسی پر قائم ہے کہ ’’ان کے مذہب میں مداخلت نہیں ہوگی‘‘ اس کے بعد مسلمانوں کے لئے نہایت آسانی ہوجائے گی کہ وہ اپنا وقت بے سود شور وفغاں میں ضائع نہ کریں اور برٹش گورنمنٹ اور اسلام ان دونوں میں سے کوئی ایک بات اپنے لئے پسند کرلیں۔
محترم حضرات ،یہ کبھی نہیں ہوسکتا ہے کہ مسلمان سول کوڈ کومانے حکومت کہنا چاہتی ہے کہ تین طلاق کے بعد بھی مسلمان مرد ،عورت کواپنے نکاح میں رکھے اور ایک مسلمان کا عقیدہ ہے قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ تین طلاق کے بعد عورت اجنبی ہوجاتی ہے اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا سونا وغیرہ سب حرام ہوجاتاہے اب حکومت کہناچاہتی ہے کے تمہاری بیوی نہ ہو پھر بھی اس کو بیوی بنا کر رکھو ،اورنعوذباللہ تم اس کے ساتھ منہ کالا کرو،
آپ دیکھے کیا حکومت عورتوں پر ہمدردی کررہی ہے ؟یا شیطانی چال سے ایک پاک بازمسلمان عورت کواستغفراللہ زانیہ بدکار بنارہی ہے،اسلئے مسلمان یہ کبھی نہیں مان سکتا ۔
(۴)چوتھی بات کہ ہم کو کیا کرناچاہئے ؟
ہمکو نہ لڑناہے اورنہ فتنہ برپاکرناہے بلکہ میں رک کر کہتا ہوں کہ میرے بیان کا اوراکابرین کی اس تحریک کا ہرگز مقصد نہیں ہے کہ ہم کسی غیرمسلم سے لڑپڑیں،یہ قوم تو بڑے اچھے ہیں انکو ایک مرتبہ چائے پلادیں تووہ اگلے دن سے آپ کو نمستے نمسکار رکہنے لگیں گے۔
ایک اعلان جس میں حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی مدظلہ العالی کے بیان کو نقل کرتاہوں
حکومت ہند کے ذمداروں کی طرف سے شریعت اسلامی میں تبدیلی کی کوشش کاجوآغازہواہے اس کوامت مسلمہ کے تمام حلقوں نے مستردکردیاہے کیونکہ شریعت اسلام میں کسی کوبھی تبدیلی کاحق نہیں،آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈنے اس سلسلے میں دستخطی مہم شروع کی ہے جوپورے ملک میں جاری ہے تمام مسلمان مردوں اورعورتوں سے اپیل ہے،اس دستخطی مہم میں پوری تندہی سے حصہ لیں اورمسلم پرسنل لاء کے پیغام کوگھرگھرپہنچائیں اوراپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں اوراس بات کاعہد کریں کہ ہم اسلامی شریعت میں کسی تبدیلی کوقطعابرداشت نہیں کریں گے۔
نوٹ : دراصل یہ حضرت مولانا مفتی عبداللہ عزرائیل صاحب قاسمی کا بیان ہے جسکو حضرت مولانا فیض الرحمن قاسمی نےنہایت عرق ریزی کے ساتھ قلم زد کر کے ترتیب جدیداور اضافہ یسیرکے ساتھ فائدہ عام کے پیش نظر نیٹ پر شائع کیا ہے اللہ اس مضمون کی بر کت سے مسلم اور غیر مسلم تمام حضرات کو صحیح فہم عطاکرے۔ آمین
سول کوڈ ہی کے سلسلے میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مد ظلہ العالی کاایک تازہ مضمون پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
No comments:
Post a Comment
شکریہ آپکا کومینڈ مفتی صاحب کے میل تک پہنچ گیا