سول کوڈ
از قلم حضرت مفتی مولانا عبداللہ عزرائیل صاحب قاسمی مدھوبنی،تصحیح مولانا فیض الرحمن قاسمی مدہوبنی
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ربِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلامُ عَلٰی سَیِّدِ المُرْسَلِیْن وَ العَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنامَّا بعد
محترم قارئین ملک بھارت کی حالت بہت ہی نازک دور سے گزر رہی ہے حکومت کی پالیسی چل رہی ہے ،کہ پورے بھارت میں ایک ہی جیسا قانون چلے (جو ناممکن در ناممکن ہے)یعنی ایک ہی طرح نکاح ہو ،طلاق کیلئے ایک ہی قانون بنے ،عورتوں کی وراثت میں ایک ہی قانون چلے،جس کا سب کے لئے ماننا ضروری ہو،(چاہے وہ جس مذہب و مسلک کا ماننے والاہو ہندو ہو کے مسلم سکھ ہو کے عیسائی ،وغیرہ )جس کو دوسری زبان میں یونیفارم سول کوڈکہاجاتاہے اس وقت پیپر میڈیا الکٹرانک میڈیا پر یہی بحثیں گرماگرم ہے،ایک طرف موجودہ حکومت جھوٹی ہمدردی بتاکر مسلم پرسنل لاء میں ترمیم کرکے سب کے سر پر اپناجبری قانو ن تھوپنا چاہ رہی ہے ؛تودوسری طرف اس کی حمایت میں کچھ نام نہاد مٹھی بھر مسلمان بلکہ ایمان وضمیر فروش اسلام مخالف طاقتوں کے اٰلہ کار اس کی حمایت میں لگے ہو ئے ہیں ، جب کے بھارت کے تمام مسلم تنظیمیں متحد ہیں کہ ہم کسی صورت میں اس بات کو تسلیم نہیں کریں گے کہ بھارت کے ہرشہری کے لئے ایک ہی قانون بنایاجائے ؛اسلئے کہ جہاں مسلمانوں کے لئے مشکلات آئیں گے وہی اقلیتی قوموں کو بھی ،کیونکہ ہر قوم کااپنا مذہب ہے ،جس کی روشنی میں وہ شادی بیاہ ،طلاق خلع ،اوروراثت کے امور کو انجام دیتے ہیں،نیزخود اس ملک کے اکثریتی قوم ہندؤں کوبھی ایک پلیٹ فارم ، سول کوڈ پرلانامشکل ہیں،کیونکہ خود ہندو دھرم کے لوگ مذہب اور رسم میں مختلف ہیں مثلا :کچھ رام کو مانتے ہیں تو کوئی لکشمن کو ،کچھ لوگ بت کی پوجا کرتے ہیں جبکہ لنگایت دھرم کے ماننے والے سرے سے بت پوجاکومانتے ہی نہیں حالانکہ اس کی بھی تعداد اس ملک میں ایک کڑور سے زیادہ ہے ۔اس ملک کو سیکولرز ملک کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں ہرشخص کو مذہب کی آزادی ہوگی اور وہ مذہب ورسم کی مکمل آزادی کے ساتھ عمل کرسکتاہے،اور اس کی تبلیغ بھی کرسکتا ہے جس کی دفعہ ۲۵ میں وضاحت کی گئی ہے اسی دفعات کی بناپر سپرم کوٹ نے کئی مرتبہ فیصلہ کرچکی ہے ،کہ حکومت کسی مذہب کا پابند نہیں ہوگی ،اورہر شہری کومذہب کی مکمل آزادی ہوگی لیکن ان دفعات اورسپرم کوٹ کے فیصلے کے تناظر میں بھارت حکومت کودیکھاجائے تو وہ بالکل مخالف نظرآتاہے حکومت اعلانیہ طور پربرہمن وادکی نشرواشاعت کررہی ہے ہرجگہ اسکول سے لیکرکالج تک مندر سے لیکرمسجدتک مدرسہ سے لیکر گھرتک برہمن واد کی تعلیم اور اس کے نظریات کوتھوپ رہی ہے،اور اسکی مشن کو عام کررہی ہے ۔جب حکومت سے طلاقِ ثلاثہ،وراثت اوران جیسے مسائل پردریافت کیا گیا تو یہ جواب دیتی ہے،کہ ہم مسلمان عورتوں کی ہمدردی میں کررہے ہیں،ان پر مسلم پرسنل لاکے تحت ظلم ہو رہاہے ،اسلئے مسلم ہرسنل لاء کو ختم کرکے یکساں سول کوڈ نافذ کرناچاہتے ہیں میں برہ راست حکومت سے جواب کا طلبگار ہوں کہ آپ جواب دیں اس وقت آپ کی ہمدردی اورآپ کے جذبات کہاں گئے تھے،جب بھاگل پور ،مظفر نگر،میرٹھ،اورگجرات مین ہزاروں مسلمان عورتوں کو بے گھر کردیا گیا ان پر ظلم وستم کے پہاڑ تودیئے گئے ،ان کے گود سے بچے کولیکر قتلکردیا گیا،انکی عزتیں لوٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیاگیا،ان کے گھروں کوجلاکرراکھ کردیاگیا،اس وقت حکومت سورہی تھی بلکہ میں جواب دیتا ہوں کہ اس وقت عملہ کے ساتھ ظالموں کا ساتھ دیرہی تھی بلکہ ان کی سرپرستی کررہی تھی طلاق ثلاثہ کے مسئلہ کو لیکر مسلمان عورتوں کو مظلوم بتایاجارہاہے،یہ سراسر غلط ہے بلکہ ہندوقوم طلاق کے معاملہ زیادہ میں گرفتار ہے،اور جن مغربی ممالک کا نام لیکر سول کوڈ نافذ کرنے کی جسارت کیا جارہاہے ذرا وہاں کی بھی شرح طلاق کاتحقیقی جائزہ لے لیں تو معلوم ہوجائیگا کہ مسلم پرسنل لاء کس قدر عورتوں کا محافظ ہے،اکانوسٹ کی شائع کردہ معلوماتی کتاب پاکٹ ورلڈ ۲۰۱۶۔کے مطابق طلاق کی شرح کے لحاظ سے مشرقی یورپ کے ممالک سب سے آگے ہیں،اتنا ہی نہیں اس کے ساتھ جسم فروشی زنابالجبرنے تو اسپین سوئیٹرز،لینڈاورامریکہ کواول نمبرپرلاکر کھڑا کردیا ہے خودبھارت میںآبادی کے تناظرمیں طلاق کی شرح غیرمسلموں میں زیادہ ہے اوریہ بات یوہی نہیں لکھ رہاہوں ،پوری دیانت وامانت داری کے ساتھ اگرچہ حکومت ہند کے پاس مطلَّقہ کا مکمل ریکارڈ نہیں ہے لیکن میڈیا کی رپوٹ کے مطابق غیرمسلموں میں طلاق کا رواج زیادہ ہے،اسلئے اس غلط لکچر اور نظریہ کو مدِنظررکھتے ہوئے حکومت سول کوڈ بالکل نافذ نہیں کرسکتی یہی ملک کی سا لمیت اوراس کی ترقی کیلئے ضروری ہے ،ورنہ ممکن ہے ملک میں فسادات روز بروز بڑھتے ہی رہیں گے اور ملکی حالاتِ خانگی جنکی بدجائیگی ۔ایک سوال عموما یہ کیا جاتاہے طلاق کا حق صرف مردوں کوہے اب عورت پر ظلم ہوتا رہے عورت علٰحدگی اختیار نہیں کرسکتی،اسلئے عورت پر مسلم پرسنل لاء میں ظلم ہورہا ہے یہ بات نہایت غلط ہے،شریعت بیشک مردکو طلاق کا ذمہ دار بنایا ،عورت کو اس کا حق نہیں دیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت پر ظلم ہو اورشریعت اس کی رہنمائی نہ کرے بلکہ ایسی عورت کے لئے شریعت نے خلع رکھاہے کہ وہ خلع کے ذریعہ اپنے شوہر سے الگ ہوسکتی ہےیہ بات بھی درجہء تیقن تک پہونچی ہوئی ہے کہ ہر سچا پکا مذہبی شخص اپنے مذہب ورسوم پر آنچ آنے کو برداشت نہیں کرسکتا ہے اپنی جان کا دان دیکر مذہب کی روایت کو برقرار رکھے گا،اسلئے ایسے سیکولر ملک میں کسی مذہب کے مذہبی امور ورسوم کو ختم کرکے زبردستی کسی قانون کوتھوپا جائیگا تو عَلم بغاوت بلند ہونے کا پورا یقین ہوتا ہے چنانچہ قریب ہی میں ملک اور بیرون ملک کی تاریخی اوراق سے یہی سبق ملتا ہے ۔اسلئے یہ سچ ہی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ مختلف مذاہب والوں کواپنے مذہب ورسوم پر عمل کرنے دینا ہی ملک کی سا لمیت کیلئے بہتر ہے اور یہی ملک کے مفاد میں سے ہے۔اللہ تعالی ملک اور تمام ملک والے کی حفاظت کرے آمین
No comments:
Post a Comment
شکریہ آپکا کومینڈ مفتی صاحب کے میل تک پہنچ گیا