
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(کرسی پر بیٹھ کر نماز)
آج کل کرسی پر نماز پڑھنا فیشن ہو گیا ہے بڑے بڑے شہروں میں تو باضابطہ کرسیاں اس طرح رکھی ہوتی ہیں گویاکہ ابھی کچھ مہمان آنے والے ہیں! اور اگر ذمہ دارانِ مسجد کرسیوں کا انتظام نہ کریں تو باضابطہ ہنگامہ کیا جاتاہے مشکل امرتو یہ ہے کہ بعض مسجدوں میں ایسی کرسیاں ہوتی ہیں کہ اس پر نقش ونگاری بھی ہوتی ہیں اور اسی کے ساتھ سامنے سجدہ کرنے کے لئے بینچ بھی ہوتی ہیں حالاں کہ یہ تمام چیزیں غیر ضروری ہیں فقہا نے اسکی کراہت نقل کیا ہے ۔
(کرسی پر نماز پڑھنا کس کے لئے جائز ہے )
اس سلسلہ میں وہ تما م تفصیلات پر ضرور دھیان رکھیں جس کا تذکرہ ہم اس پہلے شائع شدہ مضمون ’’فرض نمازمیں قیام کب معاف ہے‘‘ میں کر چکے ہیں نیز جو شخص قیام پر بالکل قادر نہ ہو تو اس کے لئے دربار نبوت سے بیٹھ کر رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز پڑھنے کا سبق ملا ہے اور اگر بیٹھ کر رکوع اورسجدہ کرنے پر قادر نہ ہو توبھی بیٹھ کر ہی نماز ادا کرے اور رکوع اور سجدہ سرکے شارہ سے اس طرح کرے کہ سجدہ کا اشارہ رکوع کے اشارہ سے زیادہ جھکاہواہو ۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے ’’فاذکرواللّٰہ قیاماً وَّقعوداً وّعلی جنوبکم‘‘ (النساء : ۱۰۳)
کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر(نماز) کھڑے ہوکر ،بیٹھ کر،لیٹ کر اداکرو۔اس آیت کی تفسیر میں حضرت ضحاک ؒ فرماتے ہیں:
’’ھذابیان حال المریض فی اداء الصلوٰۃ بحسب الطاقۃ (المبسوط للسرخسی ۱/۲۱۲)
کہ اس آیت کریمہ میں مریض کی حالت بیان کی گئی ہے نماز اداکرنے کے سلسلے میں مریض کے طاقت کے موافق ۔
اور ابن مسعود کی روایت میں ہے ’’المراد ھذاالذکرالصلاۃ (المحیط البرھانی ۲/۱۴۱)کہ یہاں ذکر سے مراد نماز ہے ،چنانچہ آپ ﷺ کا فرمان ہے ’’عن عمران ابن حسین قال کان بی الناصورۃ فسألتُ النبی ﷺ عن الصلاۃ فقال صلِّ قائماً فان لم تستطیع فقاعداً فان لم تستیع فعلیٰ جنب‘‘(ابن ماجہ /۸۶)
حضر ت عمران ابن حسینؓ فرماتے ہیں کہ مجھے ناسور(بواسیر) کا عارضہ لاحق تھا میں نے آپ ﷺ سے نماز کے متعلق دریا فت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’کھڑے ہوکر نماز پڑھو اگر اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر (نماز) پڑھو اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو کروٹ کے بل لیٹ کر نماز ادا کرلو‘‘۔
ایک دوسری روایت حضرت علیؓ سے ہے کہ آپ ﷺ نے بیمار کی نماز کے متعلق فرمایا : ’’ان لم یستطیع ان یسجد اومأَ وجعل سجودہٗ اخفض من رکوعہٖ‘‘ (بدائع الصنائع۱/۱۰۶)
یعنی اگر بیٹھ کر رکوع وسجود پر قادر نہ ہو تو پھر رکوع اورسجدہ (سر) کے اشارہ سے کرے اور سجدہ کااشارہ زیادہ پست کرے رکوع کے اشارہ سے۔
وان تعذرای الرکوع والسجود او مأ برأ سہٖ قاعداًوجعل سجود ۃ اخفض من رکوعہٖ ولا یر فع الیہ شئ للسجود(شرح وقایۃ ۱/ ۱۸۹)
اور (اگر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں )رکوع اور سجدہ کرنا مشکل ہو جائے تو (بھی) بیٹھ ہی کر اشارہ سے (رکوع اور سجدہ کر کے ) نماز ادا کرے اور سجدہ کو رکوع کے مقابلہ میں زیادہ پست کرے اور سجدہ کے واسطے کسی چیز کو نہ اٹھائے ۔
ویقعد کیف شاء فی الاصح (نور الایضاح : ۱۰۲)اور (بیمار کے لئے اختیار کہ ) وہ جس طرح چاہے بیٹھ جائے صحیح قول کے مطابق ۔
مذکورہ تمام آیت واحادیث اور فقہی عبارتوں سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوئیں ،
(۱)کہ مریض اولاً کھڑے ہو کر نماز ادا کرے اگر قیا م پر بالکل قادر نہ ہو تو بیٹھ کرنماز ادا کرے ۔(۲) اور بیٹھ نے میں جس طرح سہولت ہو اسی طرح بیٹھ جائے کوئی مخصوص طریقہ پر بیٹھنا ضروری نہیں ہے ۔
(۳) بیٹھ کر نماز پڑھ نے کی صورت میں رکوع اورسجدہ کرے اگر اسکی قدرت نہ ہو تو پھر سر کے اشارہ سے رکوع اور سجدہ کرے ۔
(۴) سر کے اشارہ کو سجدہ کیلئے زیادہ جھکائے رکوع کے اشارہ سے۔
(۵) بیٹھ کر اگر رکوع اور سجدہ نہ کرسکتا ہو تو سجدہ کے لئے بینچ وغیرہ کا سامنے رکھنا درست نہیں ہے ۔ اس لئے کہ مریض کے لئے مسنون عمل یہی ہے کہ بیٹھ کر نماز ادا کرے ،اور رکوع اور سجدہ پر قدرت نہ ہو تو رکوع اور سجدہ کے لئے سر سے اشارہ کرے ۔
نیز کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے پرجہاں خود تشفی نہیں ہو تی ہے وہیں بلا ضرورت استعمال سے اتصالِ صفوف بھی برقرار نہیں رہتی ہے اور خلالِ صفوف بھی لازم آتاہے جبکہ اتصالِ صفوف اور عدمِ خلالِ صفوف کی احادیث میں بہت تاکید آئی ہے آپ ﷺ کا فرمان ہے
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بیشک جس نے خالی جگہ کو پُر کیا اسکو اللہ تعالیٰ بلند مقام عطاکیااور فرشتے اس کے لئے دعاء مغفرت کرتے ہیں‘‘( ابن ماجہ باب اقامۃ الصفوف /۷۰)
حضرت ابو جحیفہؓ سے روایت کہ جس نے صف کے خالی جگہ کو پُر کیا اس کو بخش دیا گیا(مسندبزار شاملۃ ۰۱/۱۵۹)
عن انس بن مالک عن النبی ﷺ قال سوُّوا صفوفکم فانّ تسویۃ الصفوف من اقامۃ الصلٰوۃ (بخاری باب اقامۃ الصف من تمام الصلوٰۃ ۱/۱۰۰ )حضرت انس ابن مالکؓ آپ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فر مایا صفوں کو برابر کر وکیونکہ صفوں کو برابر کرنانماز کے درست کرنے کا جز ہے ۔
ہاں!اگر کوئی ایسا معذور ہو کہ اس کے لئے زمین پر کسی بھی ہیئت میں بیٹھنا دشوار ہو تو اس کے لئے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا درست ہے ،اگر زمین پر بیٹھ نے کی استطاعت ہو تو پھر زمین پر بیٹھ کر رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز کا ادا کرنا ضروری،کرسی پر بیٹھ کر اشارہ سے رکوع اور سجدہ کرنا جائز نہیں اوراس صورت میں نماز بھی نہیں ہوگی ۔
جو شخص زمین پر بیٹھ کر رکوع اورسجدہ پر قادرہو اس کے لئے کرسی
جو شخص زمین پربیٹھ کر رکوع اورسجدہ پر قادرہو اس کے لئے کرسی پرنماز جائز نہیں۔وان عجز وقدر علی القعود فانہ یصلی المکتوبۃ قاعداً برکوع وسجود ولا یجزیہٖ غیر ذالک (فتاوی تاتار خانیہ ۲/ ۶۶۶۷)
(کرسی پر رکوع اور سجدہ کا صحیح طریقہ)
بعض حضرات کرسی پرنماز ادا کرتے وقت رکوع کے لئے اپنے ہاتھ کو ران پر رکھتے ہیں اور سجدہ کرتے وقت ہاتھ کو فضا میں معلق کرتے ہیں اس طرح کرنا ثابت نہیں ہے رکوع اور سجدہ دونوں میں اپنے ہاتھ کو ران پر رکھے بس سجدہ میں سر رکوع کے مقابلہ میں زیادہ جھکادے ۔
(رکوع اور سجدہ میں پیچھے کے حصہ کواٹھانا)
خواہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھ رہاہو یا کرسی پر بیٹھ کر ،رکوع اور سجدہ میں سرین کا اٹھنا ضروری نہیں ہے بس سر کو گھٹنے کے برابر میں کر دے اور سجدہ میں اس سے کچھ زیادہ جھک جائے جیساکی امداد الاحکام میں ہے، ’’ بحالت جلوس رکوع کرتے ہوئے صرف اتنا ضروری ہے کہ پیشانی کو گھٹنے کے مقابل کر دیاجائے اس سے زیادہ جھکنے کی ضرورت نہیں، نہ سرین اٹھانے کی ضرورت ہے ۔
‘‘(امدادالاحکام ۱/۶۰۹)
(ٹیبل یابینچ پرسجدہ کرنا)
بعض مسجدوں میں ایسی کرسیاں بنی ہوتی ہیں کہ اس کے سامنے ٹیبل وغیرہ بھی لگا ہو تا ہے اور کرسی پر نماز پڑھنے والے اسی پر سجدہ کرتے ہیں اس طرح کرنا مکروہ ہے، سجدہ کے لئے بس سر سے اشارہ کردے ۔حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ ان قدرت ان تسجد علی الارض فاسجد والاّ فاومی برأسک(البزار بحوالہ البنایۃ شرح الھدایۃ ۲/۶۳۷)کہ اگر تم قدرت رکھتے ہو زمین پر سجدہ کرنے کی تو سجدہ کر و،ورنہ پھر سر کے اشارہ سے سجدہ کرو۔
یہی روایت بیہقی نے معرفہ میں حضرت جابرؓ سے تخریج کی ہے اس میں ہے کہ آپ ﷺ ایک بیمار کی عیادت کرنے گئے ،آپ ﷺ نے دیکھا کہ وہ سجدہ تکیہ پر کر رہا ہے آپ ﷺ نے تکیہ اٹھاکر پھیک دیا اور فرمایا’’ اگر تم قدرت رکھتے ہو زمین پر سجدہ کرنے کی تو سجدہ کر ورنہ پھر سرکے اشارہ سے سجدہ کرو‘‘۔ (مختصر من الحدیث الجابرانظر البنایۃ شرح الھدایۃ ۲/۶۳۷)
فائدہ:غور کریں کہ جب حضور ﷺ نے تکیہ پر سجدہ کرنے کو ناپسند کر کے تکیہ پھینک دیا پھر بینچ وغیرہ پر سجدہ کیوں کرگوارا ہو سکتا ہے ؟
مجددزمانہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں :
’’سجدہ کرنے کے لئے تکیہ وغیرہ کوئی اونچی چیز رکھ لینا اور اس پر سجدہ کرنا بہتر نہیں ،جب سجدہ کی قدرت نہ ہوتو بس اشارہ کر لیا جائے ، تکیہ پر سجدہ کرنے کی ضرورت نہیں‘‘(بہشتی زیور : بیماروں کی نماز)
(ہاتھ اور آنکھ کی اشارہ کااعتبار نہیں)
رکوع اور سجدہ میں سر کے اشارہ کا اعتبار ہے، کہ فقط ہاتھ، آنکھ ، دل کے اشارہ کا اعتبارنہیں۔ولم یؤم بعینہ وقلبہ وحاجبہٖ(نورالایضاح :۱۰۵)
کہ آنکھ ،دل اور آبرو سے اشارہ نہ کرے۔
(سجدہ کے اشارہ میں رکو ع کے اشارہ سے کم جھکاتو ؟)
سجدہ کے اشارہ میں رکو ع کے اشارہ سے کم جھکاتونماز نہیں ہو گی ۔نورالایضاح میں ہے ’’فان لم یخفضہ عنہ لا تصح‘‘ (نورالایضاح :۱۰۴)اگر سجدہ کے اشارہ کو رکوع کے اشارہ سے زیادہ نہیں جھکایا تو سجدہ نہیں ہو گا
(کرسی یازمین پر بیٹھنے کی ہےئت)
صاحب عذر کیلئے کسی خاص انداز میں بیٹھ نالازم نہیں ہے جس طرح آسانی ہو اس طرح بیٹھ جا ئے !کیونکہ کسی ہیئت کی قید مریض کے لئے مناسب نہیں اورقید کی صورت میں مریض کو ایک طرح کی تکلیف بھی ہے،چنانچہ صاحب مجمع نے خلاصہ سے قیدکا قول نقل کر نے کے بعد رقم طراز ہیں ؛’’ولا یخفیٰ انّ الایسر عدم تقیید بکیفیۃ من الکیفیّات لان عذر المریض اسقط عنہ الارکان فلان تسقط عنہ الھیئات اولیٰ (مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر ۱/۱۵۴)
اوریہ بات مخفی نہیں کہ آسانی (بیٹھ نے کی ) کیفیتوں میں سے کسی کیفیت کے ساتھ مقید نہ کرنا ہے ؛کیو نکہ جب مریض کے عذرنے صاحب مرض سے رکن کو ساقط کردیا تو بدرجہ اولیٰ کسی مخصوص ہیئت کو ساقط کر دیگا ۔
( کرسی کیسی ہو؟)
بلا ضرورت کرسیوں کی کثرت نہ ہو جس وہ شادی خانہ یا محفلِ تقریبات معلوم ہو۔ اوربوقت ضرورت کرسی پر نماز پڑھنا ہو تو ٹیبل نما کرسی استعمال نہ کریں ، بس کرسی سیدھی سادی ہو جونقش ونگاری سے پاک ہو ۔
(کرسی صف میں کیسے رکھے؟ )
کرسی کو صف میں اس طرح رکھا جائے کہ کرسی کے پچھلے پاؤں مصلّیوں کے برابر میں ہوں اس سے پیچھے نہ کیا جائے ورنہ پچھلی صف کے نمازی کودورانِ سجدہ تکلیف ہوگی۔
(کرسی پر نماز پڑھنے والے صف میں کہاں بیٹھے؟)
بعض حضرات اوّلاًاپنی کرسی کو صف کے کنارے رکھ دیتے ہیں اور وہیں سے نماز میں شریک ہو جاتے ہیں خواہ آگے کی صف یاخود اسکی صف خالی ر ہے اس کی پرواہ نہیں کرتے غالباً وہ یہ سمجھ تے ہیں کہ اس کی کرسی درمیان صف میں آنے کی وجہ سے اچھا معلوم نہ ہوگا ،حالانکہ وہ بھول جاتے ہیں کہ صف کے درمیان میں جگہ چھوڑنے کی ممانعت احادیث میں آئی ہے اور تنہاں کھڑے ہونے کی بھی ممانعت آئی ہے اسی وجہ سے فقہاء نے صف کے درمیان میں جگہ چھوڑنے کو اور تنہاں کھڑے ہونے کو مکروہ لکھاہے ،پس صاحب عذر اپنی کرسی کو صف جاری میں رکھ کر نماز پڑھے خواہ اس کی کرسی درمیانی صف میں آجائے یا آخری صف میں ،ہاں اگر دوسرے مصلی پہلے سے موجود ہوں تو پہلے ان حضرات کو کھڑے ہو نے دیں پھر اپنی کرسی لگا کر نماز ادا کر لیں ۔
( دوران صلوٰۃمریض صحت یاب ہو گیا)
کرسی پر اشارہ سے نماز پڑھنے والا اتنا صحت یاب ہو گیا جس سے بیٹھ کر رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز ادا کر سکتا ہے تو اب بیٹھ کر ازسرے نو نماز پڑھے ،اور قیام وقعود کے ساتھ نماز پڑھنے والے کے مرض میں اس قدر اضافہ ہو گیا کہ بیٹھ کر کسی طرح نماز نہیں پڑھ سکتا ہے ،البتہ کرسی پرپڑھ سکتاہو تو کرسی پرنماز کوپوری کرے اس صورت میں از سرے نو نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں۔چنانچہ علامہ شرنبلالی ؒ فرماتے ہیں :وان عرض لہ مرض یتمھا بماقدر ولوبالایماء فی المشہور ولو صلی قاعدا یرکع ویسجد فصح بنیٰولو کان مؤمیا لا(نورالایضاح :۱۰۵)
یعنی کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے کومرض پیش آیا تو بیٹھ کر جس طرح قدرت ہو نماز کو پوری کرے اگرچہ اشارہ سے ہو (اسی طرح ) بیٹھ کر نماز رکوع اور سجدہ سے پڑھ رہاہو پھر صحت یاب ہو گیا تو پڑھی ہوئی نماز پر بنا کرلے (ازسرے نو پڑھنے کی ضرورت نہیں) اور اگر پہلے سے اشارہ سے نماز پڑھ رہاہو (پھر اچھا ہو گیا ) تو اب اس پر بنا نہیں کر سکتے (اب از سرے نو نماز پڑھے)۔
(نفل نماز کرسی پر اشارہ سے)
نفل نماز میں قیا م افضل ہے ،فرض نہیں لیکن سجدہ تو فرض ہے اب بوجہ عذر نفل کرسی پر اشارہ سے پڑھا تو جائز ہے ،اوربلاعذر تارک سجدہ کی وجہ سے نماز نہیں ہوگی ۔ولوصلّی التطوع باالایماء من غیر عذر لایجوزُ(فتاویٰ عالمگیری )
(لمحہ فکر)
اب کرسیوں پر نماز ادا کرنے والے حضرات خود اپنے اپنے احوال کا جائزہ لے لیں کہ کیا وہ واقعتا اس درجہ کا مریض ہے کہ شرعاً اس کے لئے کرسی پر نماز جائز ہو ؟ اگر وہ اس درجہ مجبور نہیں ہے تو پھر کرسیوں پر نماز پڑھنے سے احتراج کریں۔
اقوال فقہاء کی روشنی میں اس ناکارہ کے نزدیک وہ نمازیں جو قیام وقعودکے ساتھ رکوع وسجدہ پرقدرت کے با وجود کرسی پر اشارہ سے نماز پڑھی گئی ہیں ان کا اعادہ کرنا ضروری ہے اس لئے کہ تما م متون وشروح متفق ہیں کہ جو شخص بیٹھ کر رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہو اس کے لئے بیٹھ کر رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز کا پڑھنا فرض ہے اور تارکِ فرض کی نماز نہیں ہوتی ۔
واللہ اعلم بالصواب