Monday, June 21, 2021

نزول عیسیٰ قرآن و احادیث میں

 

t

عیسیٰؑ،قسط:-1

نزول عیسیٰ قرآن و احادیث میں

       حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ آپ ؑجب رشدوہدایت کیلئے اس دنیا میں تشریف لائے تو تھوڑے لوگوں نے آپ پر ایمان لایا ،باقی یہودی العیاذ باللہ آپ کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے، بالاآخر انہوں نے  آپؑ کو قتل کرنے کیلئے ایک یہودی شخص کوبھیجا ،اللہ تعالیٰ نےحضرت عیسیٰ کو زندہ اسمان پراٹھالیا اور اس یہودی شخص کو جو آپ ؑ  کو قتل کرنے آیاتھا، عیسیٰ ؑ کا ہم شکل بنا دیا ، یہودیوں نے اپنے ہی آدمی کو عیسی ؑ سمجھ کر قتل کردیا ،جب قیامت قریب ہو گی اور حضرت امام مہدی ظاہر ہوکر مسلمانوں کی رہبری اور دجال کے مقابلہ میں ہمت افزائی کر رہے ہوں گے ،اس درمیاں ایک مرتبہ حضرت امام مہدی  نماز فجر پڑھانے کیلئے مصلیٰ پر کھڑے ہو چکے ہوں گے،کہ حضرت عیسی ؑ جامع دمشق کے شرقی منارہ کے پاس نزول فرمائیں گے۔ آپ علیہ السلام اپنی دونوں ہتھیلیاں فرشتوں کے پروں پر رکھے ہوئے ہوں گے، ان کی تشریف آوری پر امام مہدی (نماز پڑھانے کیلئےجو مصلے پر جاچکے ہوں گے) پیچھے ہٹ جائیں گے اور ان سے امامت کی درخواست کریں گے، مگر آپ علیہ السلام امام مہدی کو حکم فرمائیں گے کہ نماز پڑھائیں؛ کیونکہ اس نماز کی اقامت آپ کے لیے ہوئی ہے ۔

  قرآنِ مجید میں ارشاد باری ہے :

﴿ وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰکِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ ؕ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًا ﴿۱۵۷﴾ بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِ ؕ وَ کَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا ﴿۱۵۸﴾ وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۚ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَکُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًا ﴿۱۵۹﴾(النساء)

ترجمہ :اور ان کا کہنا کہ ہم نے قتل کیا عیسیٰ بن مریم کو جو اللہ کے رسول (علیہ السلام) ہیں، (تو) انہوں نے نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا؛ لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے، اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لوگ اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں، کچھ نہیں ان کو اس کی خبر صرف اٹکل پر چل رہے ہیں، اور اس کو قتل نہیں کیا  بے شک،  بلکہ اس کو اٹھا لیا اللہ نے اپنی طرف اور اللہ ہے زبردست حکمت والا، اور جتنے فرقے ہیں اہلِ کتاب کے سو عیسیٰ (علیہ السلام) پر یقین لاویں گے اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا ان پر گواہ۔

آیت بالامیں ''موتہ'' کی ضمیر کا مرجع عیسی ؑ  بھی ہو سکتے ہیں اوراہل کتاب بھی ، کہ ’’موته‘‘ کی ضمیر اہل کتاب کی طرف راجع کی جائے تو آیت کا مطلب اس صورت میں یہ ہے کہ یہ یہود اپنی موت سے چند لمحے پیش تر  جب عالمِ برزخ کو دیکھیں گے تو عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر ایمان لے آئیں گے، اگرچہ اس وقت کا ایمان ان کے حق میں نافع نہیں ہو گا۔

دوسری تفسیرجس کو صحابہ تابعین کی بڑی جماعت نے اختیار کیا ہے اور صحیح حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ ’’موته‘‘ کی ضمیر حضرت مسیحؑ کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ یہ اہلِ کتاب اگرچہ اس وقت عیسیٰؑ پر ایمان نہیں لاتے، یہودی تو انہیں نبی ہی تسلیم نہیں کرتے، بلکہ انہیں العیاذ کاذب قرار دیتے ہیں اور نصاریٰ اگرچہ ان پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر حضرت عیسیٰؑ کے مقتول اور مصلوب ہونے کے قائل ہو گئے اور بعض انہیں خدا اور خدا کا بیٹا سجھ لیا، قرآنِ کریم کی اس آیت میں بتلایا گیا ہے کہ یہ لوگ اگرچہ اس وقت حضرت عیسیٰؑ کی نبوت پرایمان نہیں رکھتے، لیکن جب وہ قیامت کے قریب اس زمین پر پھر نازل ہوں گے تو یہ سب اہلِ کتاب ان پر صحیح ایمان لے آئیں گے، نصاریٰ تو سب کے سب صحیح اعتقاد کے ساتھ مسلمان ہو جائیں گے،  یہود میں جو مخالفت کریں گے قتل کردیے جائیں گے، باقی مسلمان ہو جائیں گے ۔(مستفاد ’’معارف القرآن  ‘‘ )

قرآن مجید کی آیات بالاسے معلوم ہوا کہ:

1۔یہودیوں نے عیسیٰ علیہ السلام  کو قتل نہیں کیا۔

2۔اور نہ انکو سولی دی۔

3۔بلکہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام  کو ا پنے پاس اٹھا لئے۔

4۔عیسیٰ علیہ السلام  کی موت سے  پہلے(اس زمانے میں موجود) ہر کتابی ان پر ایمان لے آئے گا(یعنی عیسی ؑ  ابھی تک زندہ ہیں،ان پر موت نہیں آئی ہے، قرب قیامت میں جب نزول فرمائیں گے تو اب آپ کی موت سے پہلے سارے اہل کتاب مومن ہوں گے۔)

احادیث

حضرت  عیسیؑ کے نزول پر تواتر کے ساتھ احادیث وارد ہوئی ہیں، ان احادیث کا متواتر ہونا علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ نے اپنی کتاب «التصريح بما تواتر في نزول المسيح» میں ثابت کیا ہے، تفسیر"البحر ا لمحیط" میں ہے:

" وأجْمَعَتِ الأمّة على ما تَضَمَّنه الْحَدِيث الْمُتَواتِر مِن أنَّ عِيسى عليه السلام في السَّمَاء حَيّ ، وأنه يَنْزِل في آخِر الزَّمان ؛ "

"حدیث متواتر کے اس عقیدہ پر امت کا اجماع اور اتفاق ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود ہیں اور وہ آخری زمانہ میں آسمان سےنازل ہوں گے "

تفسیر"جامع البیان" میں ہے۔

" أجمعت الأمة على ما تضمنه الحديث المتواتر من أن عيسى عليه السلام في السماء حي وأنه ينزل في آخر الزمان فيقتل الخنزير ويكسر الصليب ويقتل الدجال ويفيض العدل ويظهر هذه الملة ملة محمد صلى الله عليه وسلم " (تحت آیۃ :انی متوفیک۔۔۔الخ)

"اس با ت پر اجماع ہے کہ عیسیٰ  علیہ السلام  آسمان  پر زندہ ہیں۔وہآخری دور میں نازل ہوں گے،خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب کو توڑیں گے اور دجال کو قتل کریں گے، عدل قائم ہو جائیگا اوردین(اسلام) کی مدد کریں گے"

چند احادیث پیش خدمت ہیں:

﴿1ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب عیسیٰ ابن مریم تم میں اتریں گے (تم نماز پڑھ رہے ہو گے) اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا۔ (بخاری، أحاديث الأنبياء، - نزول عيسى إبن مريم ،رقم الحديث : 3448)

﴿2 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔ اس وقت کا ایک سجدہ «دنيا وما فيها» سے بڑھ کر ہو گا۔(بخاری، أحاديث الأنبياء، - نزول عيسى إبن مريم ،رقم الحديث : 3448)

﴿3﴾ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااللہ کی قسم! مریم علیہما السلام کے بیٹے اتریں گے (آسمان سے) اور وہ حاکم ہوں گے، عدل کریں گے، تو توڑ ڈالیں گے صلیب کو اور مار ڈالیں گے سور کو اور موقوف کر دیں گے جزیہ کو اور چھوڑ دیں گے جوان اونٹ کو۔ پھر کوئی محنت نہ کرے گا اس پر۔ اور لوگوں کے دلوں میں سے کپٹ اور دشمنی اور جلن جاتی رہے گی۔ اور بلائیں گے وہ لوگوں کو مال دینے کے لیے لیکن کوئی قبول نہ کرے گا۔(مسلم، کتاب الایمان، باب نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ حَاكِمًا، رقم الحدیث:391،)

﴿4ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتمہارا کیا حال ہو گا جب مریم علیہما السلام کے بیٹے اتریں گے تم میں اور امامت کریں گے تمہاری تمہارے ہی میں سے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب نُزُولِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ حَاكِمًا، رقم الحدیث393 ،)

﴿5’’حضرت نواس بن سمعانؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جب اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمائیں گے۔ وہ دمشق کی جامع مسجد کے سفید مشرقی مینار پر اتریں گے۔ وہ دو زرد چادریں پہنے ہوں گے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے ہوں گے۔ پھر وہ دجال کی تلاش میں نکلیں گے۔یہاں تک کہ اسے باب لد کے مقام پر پائیں گے۔ پھر اسے قتل کردیں گے۔‘‘(مسلم، كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ، باب ذکر الدجال، رقم الحدیث:7373 ،)

﴿6ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا، آپ کے خطبے کا اکثر حصہ دجال والی وہ حدیث تھی ۔۔۔۔۔۔۔ایک روز ان کا امام آگے بڑھ کر لوگوں کو صبح کی نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہو گا، کہ اتنے میں عیسیٰ بن مریم علیہما السلام صبح کے وقت نازل ہوں گے، تو یہ امام ان کو دیکھ کر الٹے پاؤں پیچھے ہٹ آنا چاہے گا تاکہ عیسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ کر لوگوں کو نماز پڑھا سکیں، لیکن عیسیٰ علیہ السلام اپنا ہاتھ اس کے دونوں مونڈھوں کے درمیان رکھ کر فرمائیں گے کہ تم ہی آگے بڑھ کر نماز پڑھاؤ اس لیے کہ تمہارے ہی لیے تکبیر کہی گئی ہے، خیر وہ امام لوگوں کو نماز پڑھائے گا۔۔۔۔۔  ( ابن ماجہ، کتاب الفتن،. بَابُ: فِتْنَةِ الدَّجَّالِ وَخُرُوجِ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ، رقم الحدیث:4077)

﴿7’’عبداﷲ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا کہ زمانہ آئندہ میں عیسیٰ علیہ السلام زمین پر اتریں گے۔ (اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس سے پیشتر زمین پر نہ تھے بلکہ زمین کے بالمقابل آسمان پر تھے) اور میرے قریب مدفون ہوں گے۔ قیامت کے دن میں مسیح بن مریم کے ساتھ اور ابوبکرؓ و عمرؓ کے درمیان قبر سے اٹھوں گا۔‘‘( مشکوٰۃ ص480، باب نزول عیسیٰ ابن مریم)

﴿8’’حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اس پاک ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ضرور ابن مریم (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) روحا (مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام) کی گھاٹی میں حج یا عمرہ یا دونوں کی لبیک (تلبیہ) پکاریں گے ایک ہی ساتھ۔‘‘(صحیح مسلم حدیث نمبر 316، جلد 1 صفحہ 408)

ابن کثیر ؒ  نزول عیسیٰؑ کے متعلق  روایات ذکر کر کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں کہ یہ احادیث رسول اللہ ﷺ سے متواتر ہیں، ان کے راویوں میں ابوہریرہ، عبداللہ بن مسعود، عثمان بن ابی العاص، ابو امامہ، نواس بن سمعان، عبداللہ بن عمرو بن عاص، مجمع بن جاریہ، ابو سریحہ اور حذیفہ بن اسید رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل ہیں۔(تفسیر ابن کثیر،النساء)

نئے اور عمدہ مضامین

 1:-          دجال کی حقیقت

2:-     دجال کی شکل و نسل

3:-    دجال پیدا ہوچکا ہے

4:- دجال کی فتنے

 5:- فتنہ دجال سے بچنے کی تدبیر

 6:- دجال کا قتل

7:- مَنَاقِبِ اِمَام ِمِہْدِیْ ؑ

8:-امام مہدی کی حیات و وفات

Thursday, June 17, 2021

حیات مہدی

امام مہدی:-قسط:3

امام مہدی کی حیات و وفات

       حضرت امام مہدی اس امت کی برگزیدہ شخصیت ہوگی ،وہ بھی امت محمدیہ ہی کا ایک فرد اور امتی ہوگا ،آپ کی حیات و وفات کی پوری تفصیل احادیث مبارکہ میں آیا ہے ،تقریبا 72صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حضرت امام مہدی کے متعلق تفصیلات مروی ہیں ، اور یہ تعداد حد تواتر کی ہے ۔

ظہورِامام مہدی  کے وقت مسلمانوں کی عمومی حالت

                                                                  حضرت امام مہدیؑ کا ظہور ایک ایسے وقت میں ہوگا جب امت مسلمہ شدید مشکلات سے دو چار ہورہی ہوگی اور ہر جانب سے  مسلمانوں پر آزمائش ہی آزمائش ہوگی، آخری زمانہ میں فرقہ بندی اور فتنہ و فساد کے ظہور اور ان کے ذریعہ ہونے والی تباہی و بربادی اور ظہور امام مہدیؑ کی علامات  جونبی رحمت ﷺ نے بتائی ہیں اس کوامام مہدی قسط نمبر: 1 میں تحریر کیا جاچکا ہے ۔

احوال مہدی ؑ

                                                                    حضرت امام مہدی ؑ کے احوال پر حضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی  دامت برکاتہم کی تحریر سے چند اقتباسات پیش ہے :

 دوسری شخصیت جن کی آپ ﷺنے خوشخبری دی ہے ، امام مہدی کی ہے ، امام مہدی نہ نبی ہوں گے، نہ ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکام کا نزول ہوگا ، نہ اللہ کی طرف سے ان سے کہا جائے گا کہ میں نے تم کو مہدی بنایا ہے ، یہ نبی کی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشا ہوا کوئی ایسا عہدہ نہیں ہوگا ، جس پر ایمان لانے کی دعوت دی جائے ، یا ان کی مہدویت کو کلمہ کا جزء بنالیا جائے ؛ بلکہ ان کی حیثیت ایک خلیفۂ راشد کی ہوگی ، ان کا سب سے اہم کارنامہ اللہ کے راستہ میں جہاد اور عدل و انصاف کا قیام ہوگا ، وہ اس اُمت کے آخری مجدد اور خلیفۂ راشد ہوں گے ، نہ وہ مہدویت کا دعویٰ کریں گے اور نہ لوگوں کو اپنے آپ پر ایمان لانے کے لئے کہیں گے ؛ بلکہ وہ صلحاء اُمت میں سے ایک عظیم شخصیت ہوں گے ، لوگ ان کے ہاتھوں پر اطاعت اور جہاد کی بیعت کریں گے ، جیساکہ خلفائے راشدین کے ہاتھوں پر صحابہ نے کی تھی ، یہ لوگ انھیں ان علامتوں سے پہچانیں گے ، جو رسول اللہ نے بتائی ہیں اور اصرار کرکے ان کے ہاتھوں پر بیعت کریں گے ۔

چوں کہ امام مہدی اُمت ہی کے ایک فرد ہوں گے اور عام انسانوں ہی کی طرح ان کی پیدائش ہوگی ؛ اس لئے اس بات کا اندیشہ تھا کہ کچھ طالع آزما ، جھوٹے ، دھوکہ باز اور فریبی قسم کے لوگ اپنے آپ کو امام مہدی قرار دینے لگیں اور اس کو جاہ و مال کی سوداگری کا ذریعہ بنائیں ، غالباً اسی مصلحت کی خاطر آپ ﷺ نے زیادہ تفصیل سے امام مہدی کے بارے میں بتایا کہ ان کا نام محمد ہوگا ، ان کے والد کا نام عبد اللہ ہوگا ، وہ حضرت فاطمہ ؓکے بڑے صاحبزادے حضرت حسن بن علی ؓ کی نسل سے ہوں گے ، مدینہ منورہ میں ولادت ہوگی ، مکہ مکرمہ میں رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان لوگ آپ کے ہاتھوں پر بیعت کریں گے ، آپ کے ظہور سے پہلے دریائے فرات ( عراق ) میں ایک سونے کا پہاڑ ظاہر ہوگا ، جس کے لئے ایک خونریز جنگ ہوگی ، ان کے خلاف شام کی طرف سے سفیان نام کا ایک ظالم حکمراں مکہ پر حملہ آور ہوگا اور بری طرح شکست کھائے گا ، امام مہدی عیسائیوں کو شکست دیں گے ، ان کا قیام دمشق کی جامع مسجد میں ہوگا ، جب ان کی شناخت ہوجائے گی تو اس کے چھ سال بعد دجال کا خروج ہوگا ، آپ کی مدد کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اُتارے جائیں گے اور یہودیوں کو فیصلہ کن شکست دیں گے ، امام مہدی اپنے ہاتھوں پر بیعت کے بعد سات سے نو سال تک زندہ رہیں گے ۔(از حضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی  ،نیٹ)

امام مہدی ؑ کے ظہور کی کیفیت

وہ حجاز میں پیدا ہوں گے، اہل بیت کے خاندان سے ہوں گے، ان کے چالیس سال کے ہوتے ہی والئ حجاز کا انتقال ہوجائے گا اور ان سے لوگ کعبۃ اللہ کے صحن میں بیعت کریں گے۔ بیعت کی خبر سن کر شام سے مکہ مکرمہ حملہ کرنے کے لیے ایک لشکر جرار روانہ ہوگا؛ مگر وہ ذوالحلیفہ میں دھنس جائے گا ،اپنے لشکر کی تباہی کے بعد سفیان نامی قبیلہ خود حملہ کرکے عورتوں بچوں کو قتل کرے گا بالآخر اس کو امام مہدی سے شکست ہوگی اور وہ قتل کردیا جائے گا، اس کے بعد مدینہ سے شام کی طرف امام مہدی کوچ کریں گے، وہاں سے آٹھ لاکھ عیسائیوں سے خوں ریز جنگ ہوگی، چوتھے دن مسلمان فتح یاب ہوں گے اور مسلمان اٹلی روم وغیرہ اور واپسی میں قسطنطنیہ کو بھی فتح کرلیں گے، پورے براعظم میں اسلامی فوج پھیل جائے گی۔ اس دوران دجال کے خروج کی افواہ آئے گی، وہ شام کی طرف کوچ کرے گا، مگر اس سے پہلے امام مہدی شام پہنچ چکے ہوں گے، دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی منارے پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا وہاں دجال کے لشکر سے خوں ریز جنگ ہوگی اور عیسیٰ علیہ السلام دجال کو اپنے نیزہ سے قتل کریں گے اسرائیل فتح ہوگا اور عالمی خلافت راشدہ قائم ہوگی، یہ بہت حسین دور ہوگا، مسلمان خوب مال دار ہوں گے۔ اسی سال کے آخر میں امام مہدی کی وفات ہوگی اور عیسیٰ علیہ السلام ان کے جنازہ کی نماز پڑھاکر دفن کریں گے۔ (دار الافتاء دار العلوم دیوبند،نیٹ۔فتوی(د):905=175-6/1431)

امام مہدی کی وفات و تدفین

ملک شام میں امام مہدی کی وفات ہو  گی، ان کی وفات طبعی ہو گی، حضرت عیسی ؑ نماز جنازہ پڑھائیں گے  اور انہیں بیت المقدس میں دفن کریں گے۔ حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ تحریر فرماستے ہیں:

"ویصلي علیہ روح اللہ عیسیٰ علیہ السلام، ویدفنہ في بیت المقدس( کذا في شرح العقیدة السفارینیة: ۲/ ۸۱)".(التعلیق الصبیح،کتاب الفتن، حدیث الأبدال:۶/ ۲۰۳، سعید)

ترجمہ:حضرت امام مہدی کی نمازِ جنازہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پڑھائیں گے اور بیت المقدس میں دفن کریں گے۔

کچھ نئے مضامین

1:-          دجال کی حقیقت

2:-     دجال کی شکل و نسل

3:-    دجال پیدا ہوچکا ہے

4:- دجال کی فتنے

 5:- فتنہ دجال سے بچنے کی تدبیر

 6:- دجال کا قتل

7:- مَنَاقِبِ اِمَام ِمِہْدِیْ ؑ