Saturday, July 3, 2021

میراگاؤں

جمیلا میپ    ،  Jamaila

میراگاؤں میری جان

جمیلا ، ( Jamaila जमीला)

                                                                          یہ ایک چھوٹا سا ، سندر ،خوبصورت، اور دلفریب و دلکش ایک گاؤں ہے،جو قدیم تاریخی

 شان کا حامل ہے ، یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ گاؤں اور  دیہات میں حسن و فطرت کی فروانی ہوتی ہے۔ جہاں فطرت اپنے اصلی روپ میں نظر آتاہے۔ ایک مقولہ  مشہور ہے"دیہات خدا نے بنائے اور شہر انسان نے"خاص طور سے گاؤں کے صبح وشام کے مناظر قابلِ دید اور قابل رشک ہوتے ہیں۔ یہ مناظر اس قدر پر کشش اوردلفریب ہوتے ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ انسان دیکھتا ہی رہے۔عام طور پر اور خاص طور پرگاؤں کا ماحول اور اس کی آب و ہوا صاف ستھری ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دیہات میں بیماریاں کم ہوتی ہیں۔

میں اپنے آپ کوبڑا خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ میں نے بھی ''جمیلا'' جیسے گاؤں کے اس صاف وشفاف اور قدرتی خوبصورت سے ماحول میں آنکھیں کھولیں۔ جہاں لہلہاتے ہوئے کھیت، ہرے بھرے سایہ دار درخت، کھلی فضا اور تازہ ہوا گاؤں والوں کے لیے قدرت کا بہت بڑا عطیہ ہے۔ اسی دیہاتی تہذیب و تمدن ، صاف شفاف  کھلی فضا ،تازہ ہوااور قدرتی مناظرکے پیش نظر آپ ﷺ کی ولادت کے وقت عرب میں یہ رواج تھا کہ پیدائش کے بعد اپنے دودھ پیتے بچے کو اچھی تربیت اور پرورش کے لئے صحرا یا دیہات میں دایہ کے حوالے کر دیتے تھے تاکہ بچے باہر کی کھلی اور صحت بخش ہوا میں پرورش پاسکیں۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ کو بھی قبیلہ بنی سعد کی ایک شریف و معززخاتون حضرت دائی حلیمہ سعدیہ کے سپرد کر دیا گیا۔

میرے گاؤں کے لوگ

        کسی نے کہا:کھیت میں ہل چلنے سے جو لکیر بنتی ہے اگر اس کا سرا ڈھونڈنے لگیں تو نہیں ملتا۔ اس کے ساتھ ساتھ چلیں تو گھوم پھر کر انسان وہیں آ پہنچتا ہے جہاں سے چلا تھا۔ الگ الگ نظر آنے والی سب لکیریں بظاہر ایک ہی نظر آتی ہیں،کہیں کہیں ایک دوسرے کا ٹری ہوئی دو لکیروں سے اچانک ایک تیسری لکیر بن جاتی ہے اور یہ لکیربھی گھوم گھام کر پہلے والی لکیروں میں گم ہو جاتی ہے،گویا سب لکیریں الگ الگ ہونے کے باوجودالجھے ہوئے،اور الجھے ہوئےہونے کے باوجودالگ الگ نظر آتی ہیں ۔

میرے گاؤں کے لوگ بھی ان لکیروں جیسے تھے ۔ سادہ، الجھے ہوئے ، الگ الگ مگرایک دوسرے سے ملے ہوئے ، ملے ہوئے مگر ایک دوسرے سے بظاہرالگ الگ۔

پیار کا بیج ڈالو تو كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-   کی طرح :ایک بیج سے ایک پودا، ہر پودے کی سات شاخیں ، ہر شاخ پر تین بالیاں اور ہر بالی میں ستر دانے زرد و سبز رنگ کے نکل پڑتے ہیں؛لیکن نفرت کی فصل بھی اسی طرح گہرے سرخ رنگ میں جھومتی، لہلہاتی ہے ۔جہاں پر ترقی کی راہ پر گامزن ہونالوگوں کو حسد اور جلن کی دعوت ہی نہیں؛ بلکہ یک راہ ، دو راہ ، سہ راہ پر موضوع سخن بن جاتا ہے ۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بہت ہی برد بار شخصیت جس کو ''جمیلا'' کے معاشرہ میں صفر کی حیثیت تھی ،لوگ ان سے بے اعتنائی ہی نہیں؛ بلکہ ان کے وجودی حیثیت کو معدوم ہی سمجھتے تھے؛لیکن وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ۝۰ۚنے جب حق و صداقت کا پیغام سنایا اوربردبار شخصیت کے ذی ہوش اور ذی لوث خدمت گزارنرینہ اولادوں نے محض 20000کا ڈراف چیک عروس بلاد ممبئی سے ارسال کرکے قدم بوسی کردیا، تو پھر کیا تھا ہرجگہ ذکر کا دھوم مچ گیا ،اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے اشخاص سلام و آداب بجانے لگے۔ اور ان کے وجود کوآداب و تسلیم کا مرکز تسلیم کرلیا۔

جب میں تولدہوااسی وقت سے اپنے گاؤں کو دیکھنا شروع کیا؛ البتہ سمجھنے تب لگا جب میری عمر قریب البلوغ ہوگئی ،وہی برد بار شخصیت (داداجی )نے آنے جانے والوں سے کہنا شروع کر دیا کہ کسی کو بھی خط لکھوانا ہو یا کوئی عرضی، ہمارے گھر آ جائے میرا پوتا اس کام کے لیے حاضر ہے ۔ نیا نیا رواج چلا تھا کہ لوگ کمانے کے لیے دوسرے ملکوں کا رخ کرنے لگے تھے ۔ ایسے میں دادا جی کی طرف سے ایسی سہولت کی فراہمی گویا اندھیری گلی میں چراغ جلانے کی طرح تھی۔ اب  مردوں سے زیادہ خواتین کےرجوع کا میں مرکز بن گیا،اورمیں بیٹھا پردیسیوں کے نام ضرورتیں ، خواہشات اور جذبات قلم بند کرتا تو کبھی  لوگ مجھے آنے والا خط پڑھواتےتھے ۔

مکتوب نویسی کے دوران زوجین ، والدین ، اخوین ، رجلین ، امرءتین، خلیلین، صاحبین،رفیقین ، ساس بہو، نند بھابھی اور دو دیادنی کے آپسی نصیب و فراز اور ان کے مابین محبت ، عداوت ، الفت ، بغاوت کے مسائل سے آگاہی بھی ہوتی گئی ۔

جمیلا کے لہلہا تے کھیت و باغات      Jamaiula madhubani

                                                   خوبصورتی

میرے گاؤں کی خوبصورتی کی بڑی وجہ سرسبز و شادابی اورسنہری لہلہاتی کھیتیاں اور باغات ہیں۔نیز اس کے قرب جوار میں جھیل نما تالاب اس کے حسن کو دو بالا کرتی ہیں۔

 گرمی جب شباب پر ہوتی تو اس وقت بھی مئی، جون میں سنہری گندم، سبز درخت، تالاب و ندیاں کی بل کھاتی لہریں مل کر ایسا دعوت نظارہ دیتے ہیں کہ ہزار رنگ اس رنگین تصویر پر قربان! سردی کے موسم میں یہ ترتیب بدل جاتی ہے، مکئی اور دالوں کے ہرے کھیتوں کے درمیاں خاکستری رنگ کےباغات پورے گاؤں کو آغوش میں لے لیتا۔

جمیلا بوقت شام،      Jamaila Madhubani

دن و رات

میرے گاؤں کے دن ورات اور سارے موسم اچھے لگتے  ۔ بس شام میں جب کبھی اپنے گاؤں کے کچی سڑک پر کھڑا رہتا تو دن ڈھلنے کے بعد اندھیرا چھانے تک اپنا گاؤں ایک تباہ حال بستی کی مانند لگتا ،جسے دشمن کا لشکر روند کر جا چکا ہے ۔ ہر گھر سے اٹھتا دھواں ، لوٹتے ہوئے مویشی اورچروا ہے ، میدان سےکھیل چھوڑتے بچے ،کہیں کہیں ٹمٹماتی چراغ اور چڑیوں کا اپنے گھونسلوں میں شوروغل، یوں لگتا تھا کہ زندگی کی چادر لپیٹی جا رہی ہو۔ پتا نہیں شام ہوتے ہی لوگوں پر کیا جادو ہوجاتا تھا کہ ہر بندہ روٹھا روٹھا ، تھکا ماندہ اپنے کھلیانوں اور چوپالوں میں براجمان ہوجاتا،اور بڑے پرانے ٹولیوں میں بٹ بٹ کر باتیں کرتے رہتے ۔ساتھ ہی چاند تاروں کی روشنی میں دادی اور نانی ماں جنوں اور پریوں کی کہانیا ں سناتے۔

میرے گاؤں میں پری اور جن

جن اور پریوں سے ایک بات یاد آئی کہ میرے خاندان والوں کاگاؤں سے ملحق ایک تالا ب اور اس کے کنارے بڑے بڑے شیشم اور لیچی کے پیڑ تھے، مشہور تھا کہ اس تالاب اور اس کے اطراف میں جن کی ایک بڑی بستی آباد ہے ، دن میں تو  یہ جگہ مرد و عورت ، صغیر وکبیر کیلئے توجہ کا مر کز رہتا ؛لیکن رات ہوتےہی تمام درخت غصہ ور سیاہ پوش چوکیدار اور دیو ہیکل شاخوں پر جھولتے بھوت  لگتے تھے،اور اس وقت کا عالم بھی میرے لئے قر یب  المرگ ہوتا تھا جب ہم اپنے ہم جولیوں کے ساتھ عشاء سے پہلےٹیوشن پڑھ کر گھر لوٹ  تے ہوئے راستے میں ان درختوں کا سامناکرتے توکبھی پیچھے سے تو کبھی دائیں اور بائیں سے جن و بھوت کادوڑنا ، آنا، بولنا محسوس ہوتا تھا، اورجب اچکتی نگاہ کسی شاخ پر پڑ جاتی تو دل کو یقین ہی ہوجاتاکہ وہاں کوئی بھوت یا چڑیل جھولا جھول رہاہے۔ان درختوں کا   کام ہی گویا لوگوں کوڈرا دھمکا کر گھروں میں بھیجنا تھا۔

جمیلا مدہوبنی ہٹیا،    Hatia Jamaila Madhubani  

گاؤں کا ہٹیا

ایک ہٹیا (بازار)گزرا نہیں کہ دوسرے ہٹیاکا بے صبری سے انتظار ہوتا تھادراصل اس گاؤں کی آؤ بھگت کیلئے ذمہ داروں نے اس ہٹیا کی بنیا درکھی، جو بڑوں کیلئے تو ہٹیا ہی تھا؛ لیکن بچوں کیلئے کسی میلہ سے کم نہیں ، اس وقت دادی اور امی جان کا دیا ہو ا بیس پیسہ میرے نگاہ میں ہفت اقلیم سے کم نہیں تھا،پھر دادی جان کاگھریلوں ضروریات کو پورا کرکے  ہٹیا سے واپس ہونا ہم بچوں کی نگاہ میں دادی جان کچھ اس انداز سے  معلوم ہوتی تھی:

جب بھی لوٹا گاؤں کے بازار سے
مجھ کو سب بچوں نے دیکھا پیار سے

شہر نما

اب تو میرا گاؤں بھی شہرنما ہوتا جارہا ہے، یہاں کی سڑکیں تو در کنارگلیاں بھی سمینٹیٹ ہوگئی  ہیں ، سڑکوں اور گھروں میں بے آب نل اور پانی کی ٹانکی  بھی  ریاساتی گورنمینٹ کے  زیر سایہ لگ چکا ہے،جہاں گاؤں میں ٹائر گاڑی بھی دوسرے جگہ سے حاصل کی جاتی تھی وہاں اب ہزاروں کی تعداد میں ٹو ویلر ، تھیری ویلر ، فور ویلر، سکس ویلر وغیرہ آسانی سے دسیتاب ہے،اتناہی نہیں بڑے کانوں نے جہاں کبھی تار اورٹیلی فون سماعت نہیں کیا تھا وہاں آج ہر گھر نہیں بلکہ ہر فرد کی جیب اسمارٹ فون کا مسکن ہے،   گویا رفتہ رفتہ میرا گاؤں شہر تو نہیں شہریت نماجامہ زیب تن کر رہا ہے ؛ لیکن میرے گاؤں کی اب بھی یہ خصوصیت ہے کہ وہاں ضروریات محدود اور زندگی لامحدود ہے ؛جبکہ شہر وں میں ضرورتیں بے حد و حساب اور زندگی منٹوں  اور سیکینڈوں کی بٹی رسی میں بندھی ہو ئی  ہوتی ہے ۔شاعر کہتا ہے :

جس بات کا مطلب خوشبو ہے ہر گاؤں کے کچے رستے پر

اس بات کا مطلب بدلے گا جب پکی سڑک آ جائے گی

خون کے آنسو

میرے گاؤں میں ملن ساری اور ایک دوسرے کی خیر خواہی کا وہ جذبہ تھا کہ غلہ رکھنے کیلئے مٹی کی بنی  ہوئی کوٹھی اٹھا نے کیلئے قرب و جوار کے تمام مردو زن جمع ہوجاتے تھے اور جب کسی کے گھر کا چھپر اٹھا نا ہوتا تو پھر کیا کہنا ، اٹھانے والوں کا ایک میلہ لگ جاتاتھا ،یہی حال تھا ماضی قریب تک گاؤں کی بیٹیوں کی شادی میں مددگاروں کی بھیڑ جمع ہوجاتی تھی ،اب تونہ وہ مخلص مدگار رہے اور نہ پھسلتے قدموں کو سہارا دینے والےمجذوب زمانہ۔ شاعرکہتاہے :

                       تمہارے شہر میں میت کو سب کاندھا نہیں دیتے

ہمارے گاؤں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں

میرا گاؤں کہاں کھو گیا

میرے گاؤں میں ایک دوسرے کی غم خواری و ہمدردی کا تذکرہ اوپر معلوم ہو گیا ، تہذیب و تمدن کا یہ عالم تھاکہ ہر شخص دوسروں کا خیال کرتے تھے، بچے جب گولی گولی یا کسی دوسرے کھیل میں مصروف ہوتے اور کسی بڑے کا صرف قریب سے گزرہوتا تو بچے اپنے آلات  لہو و لعب چھوڑکر اس طرح بھاگتے تھے  جیسے کسی فاتح قوم کے سامنے سے مفتوح قوم !ہر طفل کو دوران کھیل چاروں طرف نظر سرگرداں رکھنا پڑتا تھا کہ کسی جانب سے کوئی آتونہیں رہے ہیں۔لیکن آج تو یہ حال ہے کہ بس ۔۔۔۔۔۔۔

یہ شہرِتمنا یہ امیروں کی دنیا

یہ خود غرض اور بے ضمیروں کی دنیا

یہاں سکھ مجھے دو جہاں کا ملا ہے

میرا گاؤں جانے کہاں کھو گیا ہے

وہ گاؤں کے بچے، وہ بچوں کی ٹولی

وہ بھولی، وہ معصوم چاہت کی بولی

وہ گُلی وہ ڈنڈا وہ لڑنا جھگڑنا

مگر ہاتھ پھر دوستی سے پکڑنا

وہ منظر ہر اک یاد پھر آ رہا ہے

میرا گاؤں جانے کہاں کھو گیا ہے

وہ چوپال وہ نانی اماں کے قصے

وہ گیتوں کی گنگا، وہ ساون کے جھولے

وہ لٹتا ہوا پیار وہ زندگانی

ہے میرے لئے بُھولی بسری کہانی

چھلکتی ہیں آنکھیں، یہ دل رو رہا ہے

میرا گاؤں جانے کہاں کھو گیا ہے

یہ چاندی، یہ سونا، یہ ہیرے یہ موتی

تھی انمول ان سب سے اک سوکھی روٹی

جو میں نے گنوایا نہ کوئی گنوائے

کہ گھر چھوڑ کوئی نہ پردیس آئے

ملے گا نہ اب وہ جو پیچھے لٹا ہے

میرا گاؤں جانے کہاں کھو گیا ہے


میرا گاؤں ایک نظر میں

Locality Name : Jamaila ( जमीला )جمیلا
Block Name : Andhratharhi
District : Madhubani
State : Bihar
Division : Darbhanga
Language : Maithili and Hindi, Urdu, English
Time zone: IST (UTC+5:30)
Elevation / Altitude: 61 meters. Above Seal level
Telephone Code / Std Code: 06273
Assembly constituency : Rajnagar assembly constituency
Lok Sabha constituency : Jhanjharpur parliamentary constituency
Pin Code 847401
Post Office Name : Andhra
Main Village Name : Jamaila جمیلا ،

 Madarsa & Schools in Jamaila

Madarsa Imdadu uloom

Darul uloom

Darul uloom muhammaia

U.m.s. Jamaila Urdu

فوٹو گلری 



جمیلا نئی مسجد ، وضو خانہ
 جمیلا، نئی مسجد ، خارجی حصہ 



 

جمیلا نئی مسجد
جمیلا نئی مسجد بیرونی منظر
 

 

 

 

 

 

حجرہ راقم

مدرسہ امدادالعلوم




زیر تعمیر عید گاہ

 کچھ نئے مضامین

﴿1﴾                     نزول عیسیٰ قرآن و احادیث میں                                                                 ﴿2﴾                 امام مہدی کی حیات و وفات

﴿3﴾                   مَنَاقِبِ اِمَام ِمِہْدِیْ ؑ                ﴿4﴾              دجال کی حقیقت

﴿5﴾                  دجال کی شکل و نسل                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                   ﴿6﴾                    دجال پیدا ہوچکا ہے

﴿7﴾                  دجا ل کے فتنے                                                                                                             ﴿8﴾                   فتنہ دجال سے بچنے کی تدبیر

﴿9﴾                     دجال کا قتل