Tuesday, March 31, 2020

دہلی مرکز کا صحیح صور تِ حال


بسم اللہ الرحمن الرحیم
دہلی مرکز کا صحیح صور تِ حال
آج پورے دن سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر یہی بتایاگیا کہ حضرت نظام الدین دہلی مرکز میں تقریبا دو ہزار آدمی چھپے ہوئے تھے،جبکہ پورے شہر میں لاگ ڈاؤن لاگو ہے، اس طرح کر کے ذمہ دارانِ مرکز نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے،ان کے خلاف ایف،آئی، آر درج ہونی چاہیے۔اور اس معاملے کولیکر مسلمانوں کو بدنام کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی افواہیں پھیلائی جارہی ہے، بعض نیوز چینل والوں نے تو قسم ہی کھا لیا ہے کہ اپنی چینل کی قبولیت، سسکرائبراور ویویزکو ایسی ہی خبروں کے ذریعے ہی بڑھائیگا۔بعض جاہل اور ناواقف تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ یہ تبلیغی وائرس ہے،العیاذ باللہ من ذالک۔
جبکہ صورت حال یہ ہے کہ 13مارچ سے 15مارچ تک مرکز میں ایک جلسہ ہواتھا جس کی وجہ سے مختلف جگہوں سے یہ حضرات مرکز میں جمع ہوئے تھے،اور انہیں کیا خبر تھی کہ اچانک لاگ ڈاؤن اور جنتا کرفیو لاگو ہونے والا ہے، اس لئے یہ حضرات اور کچھ جماعتیں بھی ہمیشہ کی طرح وہاں کچھ دنوں کیلئے مقیم ہو گئے؛لیکن 22مارچ کو جنتاکرفیوکا اعلان ہوجاتا ہے،اور23مارچ کو رات و رات لاگ ڈاؤن کا حکم نافذ ہوتا ہے،جس کے نیتجہ میں ہر قسم کی ٹرین اور بسیں بند ہوجاتی ہیں۔اب اس صورت حال میں مرکز نظام الدین میں ہی نہیں بلکہ ملک کے تمام جگہوں پر ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ پھنس گئے،عام مسافر،گاری اورٹرک ڈرائیوراور مزدوریلوٹیشن،بس اسٹین اور ہائیویپر پھنس گئے، اور آخر یہ حضرات جائیں گے تو کہاں جائیں گے؟ نہ تو ٹرین ہے اورنہ بس ۔
نیز مرکزمیں جو جماعتیں مقیم تھیں وہ تمام حضرات چھپ چھپاکر نہیں تھے؛ بلکہ مرکزکے ذمہ داروں نے25مارچ کو انتظامیہ کوخط لکھ کربتایاتھاکہ1500 لوگوں کو انکے گھروں کوبھیج دیاگیاہے اور لاگ ڈاؤن کی وجہ سے تقریبا 1000لوگ اب بھی پھنسے ہوئے ہیں؛اس لئے گاری پاس جاری کئے جائیں تاکہ ان لوگوں کو ان گاریوں کے ذریعے گھروں تک بھیجاجائے؛لیکن انتظامیہ نے گاری پاس جاری نہیں کئے۔
اس وقت تقربا300 حضرات کو ٹسٹ کیلئے ہاسپیٹل میں لےجایا گیا ہے،جن میں سے 99 میں کوروناکے جراثیم ہونے کا اشارہ ملاہے،اور 6میں کوروناکی تصدیق ہوئی ہے۔ اللہ خیر فرمائے۔ آمین ثم آمین۔



Wednesday, March 25, 2020

کرفیو میں گھروں کے اندر جمعہ


بسم اللہ الرحمن الرحیم

کرفیو میں گھروں میں جمعہ

سوال:دفعہ 144اور کوروناوائرس کی موجودہ حالات کے پیش نظر مسجد کے علاوہ شہر کے دوسرے مقامات پر چند افراد مل کر جمعہ کی نماز پڑھ لےتوکیسا ہے؟
جواب:حامداومصلیاامابعد:- واقعی حالات بڑے نازک ہیں، حکومت ہند کی جاری ہر احتیاطی تدابیر اختیار کی جانی چاہئے،حکومت نے مسجد کے خاص عملہ کے علاوہ باہری مصلیوں کو جماعت کی نماز سے روک دیاہے تاکہ وائرس سے لوگوں کو بچایا جاسکے۔ بہرحال  جمعہ کے قیام کے لئے مسجد کاہونا شرط نہیں؛ لہذا جن جگہوں پر جمعہ پڑھنا واجب ہے  مثلا شہر،  قصبہ، بڑا گاوں وغیرہ وہاں پرناگزیر حالات میں اپنے گھروں پر بھی جمعہ اداء کرسکتے ہیں، بس شرط یہ ہے کہ امام کے علاوہ کم ازکم  تین مقتدی ہوں، جو خطبہ وجماعت میں شامل رہیں،تین سے کم مقتدی ہوں گے تو جمعہ صحیح نہ ہوگا۔ اور خطبہ میں کوئی طویل خطبہ ضروری نہیں بلکہ تین آیات کی بقدر کافی ہے ، اگر تین سے کم مقتدی ہیں تو مسجد کے عملہ کی جماعت ختم ہونے کے بعد گھروں پر اپنی اپنی ظہر پڑھ لیں۔خلاصہ: موجودہ صورت حال میں شہر یا قصبہ کے اندر جہاں پہلے سے جمعہ ہورہی ہووہاں چند افراد ملکر مسجد کے علاوہ دوسرے مقامات پر نماز جمعہ پڑھ سکتاہے۔ہاں!جہاں اسلامی حکومتیں ہیں جیسے سعودی عربیہ، دبئی، کویت، قطر وغیرھم وہاں جمعہ کے لئے اذن سلطان شرط ہے لہذا ان جگہوں میں گھروں پر ظہر کی نماز ہی پڑھی جائیگی۔

گھروں میں نماز جمعہ کرنے کیلئے چند ہدایات

(1)امام کو چھوڑ کر کم از کم تین مقتدی کا ہونا ضروری ہے۔(2) اذان اول تو مسجد ہی سے ہوگی، گھروں میں جمعہ کرتے وقت اذان اول کا دینا ضروری نہیں ہے، بس اذان ثانی یعنی خطبہ سے پہلے والی اذان کہے پھر امام صاحب مختصر خطبہ دے اور خطبہ کے بعد اقامت کہے اور اقامت کے بعد نماز شروع کردے۔(3)جمعہ پڑھانے کیلئے عالم یا حافظ کا ہو نا ضروری نہیں ہے،بس محتاط متقی آدمی جو اچھی طرح قرآت کر سکتاہو اور دیکھ کر خطبہ دے سکتاہو اور جمعہ کیمعروف مسائل کو جانتا ہو تو وہ شخص نما جمعہ پڑھا سکتاہے۔ السادس الجماعۃ: واقلہا ثلاثۃ رجال، ولو غیر الثلاثۃ الذین حضروا الخطبۃ سوی الإمام بالنص؛ لانہ لابد من الذکر وہو الخطیب وثلاثۃ سواہ بنص فاسعوا إلی ذکر اللہ۔ (شامی ج:3ص:24۔ زکریا).

وقالا: لابد من ذکر طویل یسمی خطبۃ، وہو مقدار ثلاث آیات عند الکرخی۔ (العنایۃ، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ، زکریا ج:2ص57۔دارالفکر مصری قدیم ج:2ص:59۔ وھکذا فی البنایہ اشرفیۃ دیوبند ج:3ص:59۔)

ملتے جلتے مضامین




کرفیو میں نماز جمعہ

سوال :۔اس وقت  کورونا وائرس کی وجہ سے تقریبا پورے ہندوستان میں لاگ ڈاؤن لگا ہواہے توکہیں دفعہ 144لاگو ہے ، اسی کے ساتھ بلاتفریق مذاہب حکومت کی جانب سے اعلان ہے کہ کہیں پر لوگ بھربھاڑ نہ کریں جس کے نتیجے میں مندریں بھی بند ہیں تو مسجد وںمیں اذان کے ساتھ دوچار آدمی باجماعت نماز پڑھتے ہیں باقی حضرات اپنے اپنے گھروں میں ہی پنج وقتہ نماز ادا کرتے ہیں اب ایسی صورت حال میں نماز جمعہ مسجدوں میں ادا کیا جائے یا پھر اپنے اپنےگھروں ہیں جمعہ کے بجائےظہر نماز ہی پڑھی جائے؟


جواب :یقینا کورونا وائر س ایک مہلک مرض ہے جس سے اپنے آپ کو بچانا ضروری ہے اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
{ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا} نساء: 29۔
اور نہ قتل کرو آپس میں بیشک اللہ تم پر مہربان ہے ۔
علامہ جلال الدین سیوطی ؒ فرماتے ہیں:
 بِارْتِكَابِ مَا يُؤَدِّي إلَى هَلَاكهَا   أَيًّا كَانَ فِي الدُّنْيَا أَوْ الْآخِرَة ۔( جلالین،نساء:29۔)
حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ آیت بالا کی تفسیر میں فرماتے ہیں : لفظی معنی یہ ہیں کہ تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو اس میں باتفاق مفسرین خودکشی بھی داخل ہے اور یہ بھی کہ ایک دوسرے کو ناحق قتل کرے۔
دوسری  جگہ ارشاد باری ہے:
{وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إلَى التَّهْلُكَة}بقرہ: 195۔
اور نہ ڈالو اپنی جان کو ہلاکت میں۔
 یہ دونوں آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں انسان کے اوپر ہر اس چیز سے بچنا فرض کے درجہ میں ضروری ہے جو اس کی ہلاکت کا سبب ہو۔
موجودہ صورت حال میں کئی اعذار جمع ہوگئی ہیں (1) کورونا وائرس،(2) دفعہ 144یعنی کرفیو(3) حکومت کی جانب  چند افراد کے جمع ہونے پر گرفتاری کاحکم۔(4) مسجدوں میں بدستور جماعت  کرنے پربالکلیہ مسجد بند کروادینے کا خدشہ۔
ان تمام اعذار کی موجودگی میں نماز جمعہ یا پنج وقتہ نمازکیلئے مسجد میں جاناکوئی ضروری نہیں ہے؛ بلکہ ہر فرد اپنے اپنے گھروں میں نماز جمعہ کے بجائے نماز ظہر ادا کرلے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے ،احادیث مبارکہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے :
(1)عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ نَادَى بِالصَّلَاةِ فِي لَيْلَةٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِيحٍ وَمَطَرٍ، فَقَالَ فِي آخِرِ نِدَائِهِ: أَلَا صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ، أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ الْمُؤَذِّنَ، إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ بَارِدَةٌ، أَوْ ذَاتُ مَطَرٍ فِي السَّفَرِ، أَنْ يَقُولَ: «أَلَا صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ»مسلم ،بَابُ الصَّلَاةِ فِي الرِّحَالِ فِي الْمَطَرِ۔
(2)قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ»بخاری،بَابُ لاَ هَامَةَ ۔
 (3)«لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ فِي الْإِسْلَامِ»مؤطاامام مالک،باب القضاء في المرفق۔
 احادیث بالا سے بھی  یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے نازک حالت میں پنچ وقتہ نماز کی طرح جمعہ کے بجائے
 ظہر بھی اپنے اپنے گھروں پڑھ لی جائے۔
اس کے علاوہ نماز جمعہ کے وجوب شرائط میں سےایک  شرط یہ بھی ہے کہ امن ہو اور دشمن کا خوف نہ ہے ۔اور موجودہ صورت حال میں کئی جمع چیزوں کا خوف جمع ہوگیا ہے ،جیساکہ اوپر مذکور ہوا۔
شامی میں ہے:
(وَشُرِطَ لِافْتِرَاضِهَا) تِسْعَةٌ  ۔۔۔وَعَدَمُ خَوْفٍ  أَيْ مِنْ سُلْطَانٍ أَوْ لِصٍّ مِنَحٌ۔ (شامی،باب الجمعۃ)
نورالایضاح میں ہے:
صلاة الجمعة: فرض عين على من اجتمع فيه سبعة شرائط:۔۔۔والأمن من ظالم۔ (نورالایضاح،باب الجمعۃ)
فتاویٰ حکمت میں ہے :
نماز جمعہ فرض ہونے  کے  لئے  من جملہ نو شرائط کے  ایک شرط امن ہونااور خوف نہو نا بھی ہے۔ موجودہ حالات میں  چونکہ امن نہیں  ہے  اور باہر نکلنے  پر پورا خطرہ وخوف بھی ہے  اس لئے  نماز جمعہ فرض نہیں  ہے۔ جن شہر ی وحوالی شہر علاقوں  میں  کرفیو لگا ہوا ہے  اور امن نہیں  ہے  وہاں  مسجدوں  میں  جا کر جمعہ پڑھنے  کے  بجائے  اپنے  اپنے  گھروں  میں  رہتے  ہوئے  ظہر کی نماز پڑھ لیں۔ (فتاویٰ حکمت ،ج:1ص:192۔)
احسن الفتاویٰ میں ہے :
اگر فوج نماز کے لئے مسجد جانے والوں کو منع نہ کرتی ہو تو مسجد میں جانا ضروری ہے، ورنہ گھر میں جماعت کے ساتھ ادا کی جائے، قانون کی خلاف ورزی اور عزت وجان کو خطرہ میں ڈالنا جائز نہیں۔(احسن الفتاویٰ:ج:3ص:311۔ زکریا بکڈپو، دیوبند)
خلاصہ:اس وقت کی موجودہ صورت حال میں بہتر شکل یہ ہے کہ جس طرح پنج وقتہ نماز کی جماعت  حکومت کی نظر میں نہ آتے ہوئے مسجدمیں مخصوص افرادکرلیتےہیں اسی طرح چند مخصوص حضرات حکومت کی نظرمیں نہ آتے ہوئےمسجد میں جمعہ نماز بھی ادا کرلے،بالکلیہ مسجد کو ویران کرنادرست نہیں ہے۔اور مابقیہ حضرات اپنے اپنے گھروں میں نماز جمعہ کے بجائے نمازظہر ادا کرلے تو کوئی حرج نہیں ہے نیزظہر ادا کرنے والے کو کسی قسم کا گناہ  بھی نہیں ہوگا ۔واللہ اعلم بالصواب ۔