Friday, April 5, 2019

الیکشن اور حال مسلم





الیکشن اور حال مسلم

     ہندوستان میں ایک بار پھر الیکشن کا ہنگامہ گرم ہورہاہےاوریہ ہنگامہ آئے دن گرم ہوتا جارہاہے،بعض مسلمان تو اپنی بے کسی و بےچارگی کا گاناگانے میں لگےہیں تو بعض لوگ مسلمان کہلا کر بھی دوسرے مسلمان کی بد گوئی ایک دوسرے کی عزت و آبرو سے کھیلنے میں مگن ہیں۔اور بعض پڑھے لکھے طبقہ اپنے ہی مسلم سیاست دان اور دانشوران قوم وملت پر فیس بک ،واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا کےذریعہ زہرافشانی کرنے میں لگاہیں ،اور بعض تو الیکشن کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے ہیں ،ممکن ہے ان تمام بیمار کیلئے یہ مختصر مضمون قرآن وحدیث کی روشنی میں درما بنے ۔

ووٹ کی شرعی حیثیت 


شرعاً ووٹ کی حیثیت فقہاء کرام کی عبارت کی روشنی میں تین قسم کی ہو سکتی ہے(1) شہادت(2) شفاعت (سفارش)(3) وکالت ۔گویاکہ جس شخص کو ووٹ دیا جاتا ہے، اس کے حق میں ملک وملت کے خیر خواہ ہونے کی شہادت دی جاتی ہے، اور اس عہدہ کیلئے ایک قسم کی سفارش کرتے ہوئےمتعلقہ امیدوار کو وکیل اور نمائندہ بنایا جاتا ہے۔

الیکشن میں اپنے آپ کو بحیثیت امیدوار پیش کرنا

اسلام میں طلب عہدہ کی ممانعت ہے نبی رحمت ﷺ کا ارشاد عالی ہے :
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ لِىَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- 171 يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ لاَ تَسْأَلِ الإِمَارَةَ فَإِنَّكَ إِذَا أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ فِيهَا إِلَى نَفْسِكَ وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا 187 (سنن أبي داؤد ، أبواب الأحکام ، سنن نسائي ، باب النھي عن مسألۃ الإمارۃ ، ) 

آپ ﷺنے فرمایا کہ جب آدمی مطالبہ کے بغیر کسی ذمہ داری پر فائز کیا جاتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی خاص مدد ہوتی ہے ، اور جب مطالبہ اور سوال کے ذریعہ کوئی عہدہ حاصل کرتا ہے تو کاپنے نفس کے حوالہ کردیا جاتا ہے اور اللہ کی مدد اس کی شریک حال نہیں ہوتی ہے ۔

لیکن اگر طلبِ عہدہ کے پیچھے خواہش نفس کا دخل نہ ہو،بلکہ محض انسانیت کا درد،ملک و ملت کے ساتھ مفاداتِ عامہ کے تحفظ کا جذبہ کارفرما ہو، نیز جبر وظلم اور شرور وفتن سےخلق خداکو بچانا مقصود ہو ، اور اس عہدہ ومنصب کے لائق تنہا ایک ہی شخص موزوں ہو، تو اب اس شخص موزوںپرمذکورہ تمام مقاصد کے حصول کے لیے الیکشن میں اپنے آپ کو بحیثیت امیدوار پیش کرنا واجب ہے۔اور رہی بات حدیث بالا کا مطلب تو یہ ہے کہ طلب عہدہ حسب ذیل لوگوں کیلئے ممنوع ہے ۔

(1)جو اس عہدے کا لائق نہ ہو ۔(2) جو محض حض نفس کیلئے عہدہ چاہتاہو۔(3) لائق و فائق جو ملک و ملت کیلئے بہتر ہو اس کو عہدہ سے محروم کرنے کا متمنی ہو وغیرہ وغیرہ۔چنانچہ شامی میں ہے:

أَمَّا إذَا تَعَيَّنَ بِأَنْ لَمْ يَكُنْ أَحَدٌ غَيْرُهُ يَصْلُحُ لِلْقَضَاءِ وَجَبَ عَلَيْهِ الطَّلَبُ صِيَانَةً لِحُقُوقِ الْمُسْلِمِينَ،وَدَفْعًالِظُلْمِ الظَّالِمِينَ (شامی،مَطْلَبُ طَرِيقِ التَّنَقُّلِ عَنْ الْمُجْتَهِدِ،)

جو سیاسی پارٹیاں کھلے طور پر مسلم دشمن ہیں اس پارٹی میں شرکت 

    جو سیاسی پارٹیاں کھلے طور پر اسلام ومسلمان کےدشمن ہیں اور ان کے دفعات و قانون میں اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت شامل ہے، توایسی پارٹی میں شامل ہونے کی گنجائش نہیں ہے، کیوں کہ فرقہ واریت پر مبنی منشور والی پارٹی میں شرکت اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت میں تعاوُن کے مترادف ہے، جو شرعاًحرام و ممنوع ہے۔ کئی دفعہ دیکھا جاتا ہے کہ آدمی اپنی ذاتی مفاد کیلئے اسلام اور مسلمان مخالف پاڑیوں سے ہاتھ ملاکر اسلام و مسلمان کی رسوائی و بربادی میں معاون بن جاتا ہے ،خدا کے واسطے ایسے لوگوں کوڈر نا چاہیے کہ وہ کل قیامت کے دن اللہ و رسول کو کیا منھ دیکھائیگا، اللہ رب العزت کا فرمان ذی شان ہے :{ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان } ۔ ( سورۃ المائدۃ : ۲ ) 

لمحہ فکر


نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستان والو

تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

     اس وقت ہندوستان میں2019،کا لوک سبھا الیکشن ہونے جارہاہے کیا ہی خوب ہوتا کہ تمام مسلمان ایک پلیٹ فارم پر آکر ملک و ملت کیلئے اسی فکر ونظر سے سوچتے جو ہمارے اکابرواسلاف ہمیں ایک جمہوری ملک میں رہنے کے طوروطریق کادرس دیکر گئے تھے ،کیا ہم اپنے اکابرو اسلاف کا درس بھول گئے ہیں؟یا اس وقت جو مسلمانوں کی حالت ہے وہ ہماری نگاہوں کے سامنے نہیں ہے؟ ہم مسلسل کتابوں ،تحریروں ،تقریروں،مناظروں اور ریلیوں کے ذریعہ پوری دینا کویہ پیغام دیتے ہیںکہ اسلام امن و سلامتی کا پیغام دیتا ہے، دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا، دہشت گردی کی مخالفت کرتا ہے، مگر اب تک کسی نے نہ سنااورنہ مانا،نہ یقین کیا، اس کی وجہ یہی ہے کہ جس کی لاٹھی اسی کی پھینس ،ہم الیکش کے موقعہ پر اپنی ذاتی مفاد کے مد نظر قوم و ملت کو گروی رکھکرلاٹھی کسی اور کے ہاتھ میں دیدیتے ہیں اور جب دجالی و فرعونی ہاتھوں کا شکنجہ ہمارے سروں پر آپہونچتا ہے تو ریلیاں،جلسے جلوس اور نہ معلوم کیا کیا نہیں کرنے لگتے ہیں،اگر ہم شروع ہی میں بیدار مغزی سے کام لیں تو پھر ظلم وبربریت کے دن دیکھنے کو نہیں ملیں گے ۔

اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد کم نہیں ہے،ہندوستان پوری دنیاں میں دوسری سب سے زیادہ تعداد والا ملک ہے جہاں پر تقریبا 24کڑور مسلمانوں کی آبادی ہے اگر یہ متحد ہوجائیں تو دنیاں کی بڑی سے بڑی طاقت گھٹنہ ٹیک دے ؛لیکن ہم مال کی بنیاد پر،جاہ وجلال کی بنیاد پر ،مسلک کی بنیاد پر تقسیم ہوکر رہ گئے ،ہمیں گزشتہ لوک سبھا الیکشن سے سبق لینا چاہیے کہ سو سو سیٹوں میں ہماراکوئی مسلم لیڈر چیت کر نہ آسکا اسکی واحد وجہ یہی تھی کہ ایک ایک علاقہ میںدو دو تین تین مسلم لیڈر کھڑے ہوگئے جس کی وجہ سے مسلمانوں کاوؤٹ تقسیم ہوکر رہ گیا اور بازی مسلم مخالف طاقت لے لی، ابھی حال ہی میں ایک علاقہ سے ایک مسلم ساست دان کھڑا ہوا تو دوسری جانب ایک دوسرے مسلم نے دوسری پارٹی سے ٹکٹ لیکرکھڑا ہو گیا اور دونوں امیدوار کی جانب سے ان کے ماننے والے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے میں لگے ہیں اگر یہ صورت حال رہی تو نہ یہ آئیں گے نہ وہ ،جبکہ اس علاقہ کی تاریخ رہی ہے کہ کئی دہائیوں سے مسلم لیڈر ہی جیت کر آتے ہیں۔اسی تناظر میں ہم بے ساختہ کہتے ہیں،،شریک جرم ہم خود بھی تو ہیں!،،

الیکشن میں مسلمانوں کا رول 

یہ سوال سب کے سامنے ہے کہ ہم لوگوں کو کیسی حکومت کی ضرورت ہے ؟ اس کا فیصلہ ہم ووٹنگ بوتھ میں جانے سے پہلے کریں ۔ ہمارے علماء کرام اور قوم وملت کیلئے درد جگررکھنے والے حضرات جس کو کہیں انہی کو کامیاب بنائیں ، ہم لوگ صرف پارٹی اور امید وار کو دیکھ کر اپنا ووٹ ضائع نہ کریں ،ہم انہیں کو ووٹ دیں جس کا منشور مسلم مخالفت پر نہ ہو اور خاص کر وہ پارٹیاں جو اسلام اور مسلمانوں کیلئے آئے دن زہر افشانی کرتی رہتی ہیں چاہےوہ ہمیں جتنا بھی چھوٹے وعدے کریں اگر ہم امیدواروں کے جھوٹے وعدوں کو دیکھ کر انہیں کامیاب کرائیں تودوبارہ الیکشن ہونے تک پچھتاوا ہمارے ساتھ رہے گا ،ساتھ جو حال مسلمانوں کا ہوگا وہ کسی پر مخفی نہیں ہے ۔ اگر کوئی مسلم لیڈرایسی پارٹی کا ساتھ دے جو سیکولر اور جمہوریت کے خلاف کام کرتی ہے تو ایسے مسلم لیڈر کو بھی ووٹ نہ دیا جائے، اس کے مقابلے کوئی غیر مسلم لیڈر جو سیکولر پسند اور جمہوریت کو فروغ دیتاہواور اپنے ذہن و دماغ سے اسلام و مسلمان کے خلاف زہر افشانی نہ کرتاہو تویقینا اس غیر مسلم کا ساتھ دینا چاہیے۔بس آخر میں یہی تمناہےکہ ووٹنگ بوتھ پر جانے سے قبل رہنماؤں سے معلوم کرلیں کہ کس کو ووٹ دیناہے ؟ورنہ ہمارا ووٹ تو ضائع ہوگاہی ساتھ میں غلط پارٹی کو ووٹ دیکر اپنی بربادی کاشریک جرم ہم خود ہوں گے ۔ 

اسی سے ملتے جلتے چند اہم مضامین

حضرت مولانا سجاد نعانی مد ظلہ العالیٰ کا ایک گراں قدر مضمون




Thursday, April 4, 2019

سو شل میڈیا کے شرعی مسائل


سو شل میڈیا کے شرعی مسائل

سوشل میڈیاخواہ فیس بک ہو یا واٹس ایپ یاٹوئیٹر وغیرہ ان میں سے ہر ایک کا حکم ایک ہی جیسا ہے یعنی جو کام کسی ایک سوشل میڈیا پر حرام ہوگا وہ کام دوسرے سوشل میڈ پر بھی حرام ہوگا اور جو کام کسی ایک پر جائز ہو گا وہ تمام سوشل میڈ یا پر جائز ہو گا؛اس لئے ہر ایک سوشل میڈ یاکے متعلق الگ الگ عنوان کے تحت مسائل ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک ہی عنوان کے تحت تمام مسائل ذکر کیا جارہا ہے تاکہ کتاب میں اختصار کا دامن فوت نہ ہو جائے۔
سوال: سوشل میڈ یا پر اپنا اکاؤنٹ یا ویزر بنا ناکیسا ہے؟
جواب: تمام سوشل میڈیا میں اپنا اکاؤنٹ بنانا جائز ہے،تاہم الامور بمقاصدھا کے تحت ضرورت کی وجہ سے اور مباح مقاصد کے پیش نظر اپنا اکاؤنٹ بنانے میں کو ئی مضائقہ نہیں ہے،محض لہو ولعب اور ٹائم پاس کے لئے کسی بھی سوشل میڈیا پراکاؤنٹ بنانا جائز نہیں ہو گا خواہ فیس بک پر بنائے یا واٹس ایپ وغیرہ پر۔
آپ ﷺ نے فرمایا:کل شی یلھوبہ الرجل باطل الا الرمی وتادبہ فرسہ وملاعبتہ اھلہ فانھن من الحق۔ (ترمذی باب ماجاء فی فضل الرمی فی سبیل اللّہ)
ہدایہ میں ہے :الملاھی کلھا حرام (ہدایہ آخرین /493)ہر قسم کا لہوو لعب حرام ہے،
فتاویٰ عالمگیری میں ہے :وکل لھو حرام بالاجماع (فتاویٰ عالمگیری5 /352) ہر قسم کا لہوولعب بالاجماع حرام ہے،
جب نگاہیں مسلم نوجوانوں پر پڑتی ہیں تو خیرہ ہو کر رہ جاتی ہے،کہ وہ فیس بک اور واٹس ایپ پر اس قدر منہمک رہتے ہیں کہ فرائض و واجبات کی بھی پرواہ نہیں کرتے،بلکہ بعض تو اسی پر عشقیہ و فحش چٹینگ کے ساتھ ساتھ فحش تصویریں اور بلو فلم وغیرہ کو بھی اپلوڈ کردیتے ہیں خودبھی گناہگار ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گناہگار کرتے ہیں، ایسے افراد کے لئے فیس بک وغیرہ پر اپنااکاؤنٹ بنانا حرام وناجائز ہے۔

(ایک اہم گزارش)

ہم اپنے تما م مسلمان بھا ئیوں سے گزارش کرتے ہیں، کہ وہ اپنے تما م اکاؤنٹس کو ہمیشہ پاک وصاف رکھیں،کہ مو ت کا کو ئی بھروسہ نہیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے اکاؤنٹس یا سوشل میڈ یا پر فحش چیز یں ہو ں اور وہ سب ڈاٹاہم چھوڑ کر اچانک اس دار فانی سے چلے جائیں،اور ظاہر سی بات ہے کہ تمام ویب سائٹس اور سوشل میڈیا کا یوزر آئی ڈی اور پاس ورڈ ہوتا ہے جس کے بغیر نہ تو ان ویب سائٹس سے فحش چیزوں کو ختم کیا جا سکتا ہے اورنہ انکو بند کیا جا سکتا ہے اور اس یوزر آئی ڈی اور پاس ورڈ کو مرنے والا اپنے ساتھ لیکر چلے جانے کی وجہ سے اب اس کے ویب سائٹس کو نہ توکوئی بندکر سکتا ہے اور نہ پا کیزہ کر سکتا ہے، اس طرح مرنے والا تو مر گیا لیکن اسکو گناہ ملتا رہے گا۔
اگر کوئی شخص وفات پاجائے اور کوئی دوسرا اس کے اکاؤنٹ کو کھولنا چاہے تو یاد رکھیں اکاؤنٹ کھولنابغیر پاس ورڈ کے ممکن نہیں ہے، نیز اگر کسی کو مرنے والے کے اکاؤنٹ کا پاس ورڈ معلوم ہوجائے؛تو وہ کھو ل سکتا ہے؛لیکن یہ جرم اور غیر قانونی حرکت ہے۔اس طرح سوشل میڈیا کمپنیاں بھی کسی دوسرے کومرنے والے کے اکاؤنٹ تک رسائی کی اجازت نہیں دیتیں۔
ایک تحقیق کے مطا بق ۰۱سال بعد فیس بک پر 3کروڑ ایسے اکاؤنٹس ہو جائیں گے، جن کے مالکان اس جہاں فانی سے تو رخصت ہوجائیں گے مگروہ سوشل میڈیا پر مر نے کے بعد بھی کسی نہ کسی حوالے سے موجود ہوں گے۔ایک رپورٹ کے مطابق فیس بک کے 8000 صارفین ہر روز اپنے فیس بک فرینڈز کو روتا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔اس صدی کے آخر تک فیس بک دنیا کا سب سے بڑا ڈیجیٹل قبرستان بن جائے گا۔ اس کے مردہ صارفین کی تعداد اس کے زندہ صارفین سے زیادہ ہوجائیگی۔
اس لئے بڑے ہی اہتمام کے ساتھ ہم اپنے تمام مسلمان بھا ئیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ہر لمحہ اپنے ا کاؤنٹس اور سوشل میڈ یا کو پاک وصاف رکھیں۔
سوال: یوٹیوب جوکہ ایک خالص ویڈیو شیئرنگ کی ویب سائیٹ ہے،کیا اس پر اپنا اکاؤنٹ بنا نادرست ہے؟
جواب: یوٹیوب سائیٹ پر اپنا یوٹیوب چائینل بنانا عام حالت میں درست نہیں ہوگا؛ کیونکہ اس ویب سائٹ سے صرف ویڈیو فلم ہی اپلوڈ کر سکتے ہیں اور ویڈیو فلم کے سلسلے میں محققین علماء کرام کا فتویٰ ناجائز کا ہے،اس لئے عام حالت میں اسکی اجازت نہیں ہو گی،ہاں اگرغیر جاندارکی تصویرسے بنائی گئی شرعی ویڈ یو ہوں تو اس کو شیئرکر نے کیلئے یوٹیوب پر اکاؤنٹ بنانادرست ہو گا؛لیکن بعدمیں آدمی تساہل سے کام لیتے ہوئے ہر طرح کی ویڈیو کو اپلوڈ کر نے لگتا ہے اس لئے سداً للباب کے طور پربہتر یہی ہوگا کہ یوٹیوب چائینل بنا یا ہی نہ جا ئے۔
سوال:خالص دینی ودعوتی ویڈیو شیئرنگ کیلئے یوٹیوب چینل یا ٹیلی ویژن چینل قائم کرنا درست ہے؟
جواب:ایسے چینلس جوہر طرح کی فحاشی وعریانی سے پاک وصاف ہوں اور جس کو خالص دینی ودعوتی مقاصد کیلئے قائم کئے جائیں،اسکے جواز اور عدم جواز میں بھی محققین علماء کرام کا اختلاف ہے،چنانچہ اس عنوان کے تحت بارہواں فقہی سمینار (بستی)بتاریخ 8،5ذی القعدہ 1420 ؁ھ مطابق 14،11 فروری 2000ء ہوا تھا جس میں علماء محققین ومفتیان عظام کے تین قسم کے اقوال سامنے آئے (۱) کہ مذکورہ مقاصد وشرائط کے پیش نظر ایسے چینلس کاقائم کرنا جائز ہے، (۲) مذکورہ مقاصد کے پیش نظر بھی ایسے چینلس کاقیام درست نہیں ہے،(۳)مذکورہ مقاصد وشرائط کے ساتھ اگر ان چینلس پر پروگرام کو براہ راست نشر(Live) کئے جائیں تو جائز ہوگا اور اگر محفوظ کیا ہوا پروگرام (Recording Programs)نشر کیا جائے تو جائز نہیں ہوگا،
حالات کے پیش نظر دین کی نشر واشاعت بھی بہت ضروری ہے،اور دین کی نشر واشاعت کے لئے جدید ذرائع ابلاغ بہت ہی مؤثر ثابت ہورہی ہے؛ لیکن ویڈیو گرافی وفوٹوگرافی کی حرمت پر جو احادیث منقول ہیں وہ بقول حضرت مفتی اعظم شفیع صاحب ؒ کے وہ حد تواتر تک پہونچی ہوئی ہے؛ اس لئے دین کی نشر واشاعت کے لئے کو ایسا قدم اٹھا لینا جس کی حرمت پر متوتراً احادیث منقول ہوں اسکی کبھی بھی اجازت نہیں مل سکتی ہے،گویا یہاں دوچیزیں جمع ہو گئیں (۱) دین کی نشر واشاعت(۲) ویڈیوگرافی کی حرمت،اب اگر ہم شرکاء سمینار میں سے پہلاقول پر عمل کرتے ہیں تو دین کی نشر واشاعت ایک حد تک تو ہو جائیگی لیکن ویڈیو گرافی کی حرمت والی احادیث پر بالکل عمل نہیں ہو گا اور ممکن ہے کہ ان احادیث متواترہ کی بے محل اور نامناسب تاویلیں کرنی پڑجائیں،
اور اگر ہم شرکائِ سمینار میں سے دوسرے کے قول پر عمل کرتے ہیں تو اس صورت میں ویڈیو گرافی کی حرمت والی احادیث پر عمل تو ہوجائے گا؛لیکن دین کی نشر واشاعت جو کہ وقت کی ایک اہم ترین ضرورت ہے وہ صحیح معنی میں نہیں ہوپائیگی، اس وقت باطل نے ویڈیو چینلس کے ذریعہ مسلمانون کو بد نام اور اسلام کو مسخ کرنے کی پوری کوشش ہی نہیں بلکہ اپنے حکومتوں کی سر پرستی میں مال ودولت کو پانی کی طرح بہاہی رہا ہے ساتھ ہی ساتھ اپنے بہو بیٹیوں کو بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بازاری بنادیا، اس سنگین دور میں اس عاجز کی رائے یہ ہے کہ شرکاء سمینار میں سے تیسرے کے قول پر عمل کرتے ہوئے ایسے اسلامک چینلس ضرور قائم کئے جائیں جہاں سے (Live)پروگرام کے ذریعہ صحیح اسلام اور مسلمانو کی ترجمانی ہو سکے اورباطل کے یلغاروں کا جواب دیا جاسکے،تیسرے قول پر عمل کی صورت میں دین کی نشرواشاعت تو ہوگی ہی ساتھ ہی یہ عمل احادیث متواترہ کے خلاف بھی نہیں ہوگی کیوں کہ براہ راست پروگرام کی نشر(Live)پر ویڈیو گرافی کا اطلاق نہیں ہو سکتا ہے،کیونکہ کہ (Live) پروگرام محفوظ نہیں کیا جا تا ہے، فقط لائیو تصویر ایک جانب سے دوسرے جانب منتقل کی جاتی ہے مستقل اس کو ویڈیو کی طرح محفوظ نہیں کیا جاتا ہے گو یا وہ ایک عکس ہے مثل آئینہ کے لہذایہ جائز ہو گا، اور اس پر ویڈیو گرافی کا اطلاق نہیں ہو سکتا ہے (مرتب)
الحمد للہ اپنی اس تحریر کو سپرد قرطاس کے بعداچانک میری نگاہ تقریر ترمذی (شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہم العالی)پرپڑی،معلوم ہوا کہ حضرت والا کی بھی یہی موقف ہے کہ جو پروگرام براہ راست نشر (Live)کئے جائیں وہ ویڈیوگرافی کے تحت نہیں آتاہے۔(تقریر ترمذی 2 /351، باب ماجاء فی الصورۃ۔ دیکھیں اختلاف فقہاء کی تفصیل تجاویزآٹھواں فقہی اجتماع ادارۃ المباحث الفقہیہ جمیعۃ العلماء ہند منعقدہ19،18،17،ربیع الاول 1426 ؁ھ، اور بارہواں فقہی سمینار (بستی)بتاریخ8،5،ذی القعدہ 1420 ؁ھ مطابق 14،11 فروری 2000ء ؁) 
ہاں اگر اس پروگرام کو بھی محفوظ کر کے نشر کیا جانے لگے تو اس پر ویڈیو گرافی کا اطلاق ہو نے کی وجہ سے ناجائز ہو گا، (مرتب)
اسی سے ملتے کچھ اہم مضامین

Wednesday, March 27, 2019

مسائل

شریعت وسنت کی نشر واشاعت کے لئے کوشاں میں مفتی محمدعبد اللہ عزرائیل قاسمی مدہوبنی


مسائل وضو