Saturday, January 21, 2017

حرام کھانا



بسم اللہ الرحمن الرحیم

لقمہ حرام


      جس طرح نصوص قطعیہ سے یہ ثابت ہے کہ حلا ل وپاکیزہ کسب معاش فرض ہے اسی طرح قرآن واحادیث سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ حرام کمائی سے بچنا فرض ہے،بلکہ بعض حضرات کیلئے حلال کمائی ضروری بھی نہیں ہے لیکن حرام کمائی سے بچنا تو ہر ایک کے لئے ضروری ہے اس میں کسی کا بھی استثناء نہیں،حرا م مال کا ایک لقمہ بھی جہنم میں لے جانے کیلئے کافی ہے ؛اس لئے نہایت ضروری ہے کہ اسباب معیشت اور پیشہ اختیار کرتے وقت شریعت کے نقطہ نظر سے جانچ لے کہ وہ پیشہ حرام ہے یا حلال ؟

(آپ ﷺ کی پیشین گوئی)


آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
عن أبي هريرةرضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يأتي على الناس زمان لا يبالي المرء ما أخذ منه، أمن الحلال أم الحرام؛ (رواه البخاري.(
کہ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئیگا جس میں انسان نہیں غور وفکر کریگا کہ وہ کہاں سے اور کس طرح مال کما رہا ہے،حلال طریقے سے یا حرام طریقے سے؟
اس حدیث پاک میں جس زمانے کی پیشین گوئی کی گئی ہے ،وہ یہی زمانہ ہے آج اس مادیاتی دور میں ہر کوئی کسب معاش میں لگا ہواہے،ایک گھر کے تین تین چار چار اشخاص روزی کمانے میں لگے ہوئے ہیں،اور ان میں سے کسی کو یہ فکر نہیں ہے کہ جس طرح ہم روزی کمارہے ہیں کیا وہ طریقہ شریعت کے نقطہ نظرسے جائز بھی ہے یا حرام؟ نہ تو باپ بیٹے سے پوچھتا ہے،اورنہ بیٹا باپ سے کہ آپ صبح سے شام تک جو کام کر کے کے گھر میں روپیے لاتے ہیں کیا وہ کا م جائزبھی ہے؟یاد رکھیں حرام مال کا استعمال کرنا تو حرام ہے ہی اس کی سزا قیامت کے دن جہنم ہے۔

(حرام کھانے والا جہنم میں)

حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے روایت ہے، کہ نبی رحمت ﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔(کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، الفصل الاول فی فضائل کسب الحلال)

حضرت سیّدناعبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:جس نے دنیا میں حرام طریقے سے مال کمایا اور اسے ناحق جگہ خرچ کیا تو اللہ تعالیٰ اسے ذلت و حقارت کے گھر (یعنی جہنم)میں داخل کردے گا(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان، ۴/۶۹۳، حدیث: ۷۲۵۵)

وَعَن جَابر بن عبد الله رَضِي الله عَنْهُمَا أَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ يَا كَعْب بن عجْرَة إِنَّه لَا يدْخل الْجنَّة لحم نبت من سحت، (الترغیب والترھیب کتاب البیوع، الحدیث۲۶۷۸)

حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے فر مایا اے کعب بن عجرہ(غور سے سنو ) جس گوشت (جسم ) کی پرورش حرام مال سے ہوگی وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا،

(حرام مال کی نحوست)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ایک طویل روایت میں ہے،نبی رحمت ﷺ نےارشاد فرمایا: ’’جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُ س میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ، الحدیث: ۲۷۶۳)

(لقمہ حرام کی وجہ سے کوئی عمل قبول نہیں)

حضرت سعد بن وقاص کی روایت میں ہے، ’’وَالَّذِي نفس مُحَمَّد بِيَدِهِ إِن العَبْدليقذف اللُّقْمَة الْحَرَام فِي جَوْفه مَا يتَقَبَّل مِنْهُ عمل أَرْبَعِينَ يَوْمًا۔۔۔۔۔۔(الترغیب والترھیب کتاب البیوع، الحدیث ۲۶۶۴)

آپﷺ فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد (ﷺ) کی جان ہے کہ جب کوئی بندہ حرام لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اسکی چالیس دن تک کوئی عمل قبول  نہیں کیا جاتا ،
وَرُوِيَ عَن ابْن عمر رَضِي الله عَنْهُمَا قَالَ من اشْترى ثوبا بِعشْرَة دَرَاهِم وَفِيه دِرْهَم من حرَام لم يقبل الله عز وَجل لَهُ صَلَاة مَا دَامَ عَلَيْهِ (الترغیب والترھیب کتاب البیوع، الحدیث ۲۶۶۶)
حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ جس نے دس درہم میں کوئی کپڑاخریدا اس میں ایک درہم حرام کا تھا (تو اس حرام درہم کی وجہ سے ) اللہ تعالیٰ اسکی کوئی نمازاس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک وہ کپڑا اس کے پدن پر رہیگا،
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا قول ہے: ایسے شخص کی اللہ تبارک و تعالیٰ نماز قبول نہیں فرماتا جس کے پیٹ میں حرام موجود ہو، تاوقتیکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ نہ کرلے۔
مُکاشَفَۃُ الْقُلوب میں ہے:آدَمی کے پیٹ میں جب حرام لقمہ پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اُس پر لعنت کرتاہے جب تک (حرام لقمہ )اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں(یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں)موت آ گئی تو جہنم میں داخل ہو گا،(مکاشَفَۃُ القُلوب،الباب الاول فی بیان الخوف،)
جب اس قدر حرام کے ایک لقمہ پر پکڑ ہے تو ہر مسلمان کیلئے، پیشہ، ملازمت، معیشت وتجارت سے پہلے ضروری ہی نہیں بلکہ فرض بھی ہےکہ وہ اس کی تحقیق کرلیں کہ وہ جس کام کو کرنے جارہاہے کیا شریعت کی نگا ہ میں وہ جائز بھی ہے یانہیں؟
اب تک تو وہ باتیں تھیں جس کو حرام صریح کہتے ہیں،اور ان سے بچنا فرض ہے ،اسی کے ساتھ شریعت کا مطالبہ مشتبہ امور کو بھی چھوڑ دینے کا ہے خواہ وہ مشتبہ لقمہ ہو یا اور کوئی چیز ارشاد نبی ﷺ ہے ،

(مشتبہ امور سے بچنا بھی ضروری ہے )

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’کہ حلال ظاہر ہے حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے  لہذا جس شخص نے مشتبہ چیزوں سے پرہیزکیا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو پاک ومحفوظ کرلیا (یعنی مشبہ امور سے بچنے والے کے ایمان کی یقناًمحفوظ ہے) اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں مبتلاء ہوا وہ حرام میں مبتلاء ہوگیا اور اس کی مثال اس چروا ہے کی سی ہے جو ممنوعہ چراگاہ کے آس پاس چراتا  ہے ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ اس کے جانور اس ممنوعہ چرا گاہ  میں گھس کر چرنے لگیں… جان لوکہ ہر باد شاہ کی ممنوعہ چرا گاہ ہوتی ہے اور یا رکھو! کی اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چرا گاہ حرام چیزیں ہیں… اور اس بات کو بھی ملحوظ رکھو! کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکرا ہے جب وہ درست حالت میں رہتا ہے ، تو پورا جسم درست حالت میں رہتا ہے اور جب اس ٹکرے میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے… یاد رکھو! گوشت کا وہ ٹکرا دل ہے‘‘۔ (بخاری ومسلم)

وَعَن النواس بن سمْعَان رَضِي الله عَنهُ عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ الْبر حسن الْخلق وَالْإِثْم مَا حاك فِي صدرك وكرهت أَن يطلع عَلَيْهِ النَّاس
(رَوَاهُ مُسلم)
حضرت نواس بن سمعان ؓ سے روایت کہ نبی رحمت ﷺ نے فرمایا نیکی اچھے اخلاق کو اور گناہ دل میں کھٹکنے والی چیز کو کہتے ہیں جس پر دوسروں کا مطلع ہو نا تم بر ا سمجھو،
اللہ تعالی پو ری امت مسلمہ کوحرام اور مشتبہ امور سے حفاظت فرمائے آمین

Friday, January 13, 2017

میلا کا شرعی حکم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میلے اور جترے



      میلا جس کو اردو میں بازار اور ہندی میں جترا اور میلا کہتے ہیں،جس کیلئے عربی میں لفظ سوق کا استعمال کیاجا تا ہے،لیکن ہمارے ہندوستان میں میلا یا جترا سے مراد مطلقا بازار نہیں ہو تا ہے ؛بلکہ میلا یا جتراسےوہ مخصوص بازار ہے جس کو غیر مسلم حضرات اپنے مذہب کی بنیاد پر مخصوص وقت اور تاریخ میں منعقدکرتےہیں ؛اس لئے اس کا حکم عام مارکٹ اور بازاروں کی طرح نہیں ہے،اسلئےیہاں اولاً زمانے نبوت کے میلوں اور بازاروں کا تذکرہ کیا جارہاہے، ثانیاً ان میلوں کے شرعی احکام بھی بیان کئے جائیں گے۔

دور نبوت میں مکہ مکرمہ کے زمانہ جاہلیت کے بازار


امام بخاری علیہ الرحمۃ نے کئی مقامات پر ابن عباس کی روایت تخریج کی ہیں، 

عنِ ابنِ عَبَّاسٍ رَضِي الله تَعَالَى عنهُمَا قَالَ كانتْ عُكَاظٌ ومَجَنَّةٌ وذُو المَجَازِ أسْوَاقا فِي الجَاهِلِيَّةِ فَلَمَّا كانَ الإسْلامُ تأثَّمُوا مِنَ التِّجارَةِ فِيهَا فأنْزَلَ الله لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِي مَوَاسِمِ الحَجِّ قَرَأَ ابنُ عَبَّاسٍ كَذا.(بخاری کتاب البیوع باب اسواق التی کانت فی الجاہلیۃ)
(بخاری کتاب البیوع باب اسواق التی کانت فی الجاہلیۃ)


کہ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں عکاظ،مجنۃ ،اور ذوالمجاز زمانہ جاہلیت کے ( مکہ مکرمہ میں)بازار تھے،جب اسلام آیا تو صحابہ کرام اس میں تجارت کرنے کوگناہ سمجھ کر بچنے لگے،تو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا کہ تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں کہ (تم ان بازاروں میں تجارت کرو) ایام حج میں،راوی کہتے ہیں کہ ابن عبا س ؓنے اسی طرح پڑھا،

حدیث کی شرح


زمانہ جاہلیت کے جترے:علامہ عینی ؒ شرح بخاری میں بابُ التِّجَارَةِ أيَّامَ الْمَوْسِمِ والْبَيْعِ فِي أسْوَاقِ الجَاهِلِيَّةکے تحت حدیث بالاکی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دور نبوت میں زمانہ جاہلیت کے چاربازار تھے عکاظ، مجنہ، ذوالمجاز اور حباشہ،تین بازار کا تذکرہ اوپر کی حدیث میں ہے،حباشہ کا تذکرہ حدیث بالا میں اس لئے نہیں کیا گیا ہے کہ یہ ایام حج میں نہیں لگتے تھے،باقی تینوں بازار ایام حج میں لگتے تھے اور ایام حج ہی میں ختم ہو جاتےتھے،ان بازاروں میں سب سے بڑا بازار حباشہ ہی ہواکرتا تھا،

عکاظ ایک ذیقعدہ سے بیس ذیقعدہ تک رہتاتھا اس کے بعد بیس ذیقعدہ سے ایک ذی الحجہ تک مجنہ رہتا تھا اس کے بعد ایک ذی الحجہ سے آٹھ ذی الحجہ تک ذوالمجاز کا میلارہتا تھا،اس کے بعد یہ حضرات حج کے افعال میں لگ جاتے تھے،اور حباشہ ماہ رجب میں لگتا تھا اور آٹھ دن میں ختم ہو جاتا تھا، 

صحابہ کرام ان بازاروں میں خرید وفروخت سے باز آنے لگے،در اصل نبی رحمت ﷺ نے فرمایا ہے،ابغض البقاع الی اللہ تعالیٰ اسواقھا،کہ سب سے بدترین جگہ بازار ہے،نیز ان بازاروں میں صرف خرید وفروخت ہی نہیں ہو تا تھا بلکہ مختلف قسم کے لہو ولعب اور محرمات بھی کھلے عام ہو رہے تھے؛ اس لئے بھی صحابہ کرامؓ نے ان جگہوں پر گناہ ومعصیت کی وجہ سے ضرورت کے باوجود خرید وفروخت کرنےسے احتراز کر نے لگے اس پر اللہ تعالیٰ نےنازل کیا کہ (اگر خرید وفروخت کی ضرورت ہو تو) ان بازاروں میں جاکر خرید وفروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

دوصدی ہجری کے اواخر تک یہ بازریں بند ہو گئی تھی،بلکہ عین ممکن ہے کہ اس وقت وہ بازار تو موجود نہ ہوں لیکن ان جگہوں پر دوسرے بازار لگتے ہوں،اور علامہ عینی نے فاکھانی کے قول کو اس طرح نقل کیا ہے کہ یہ بازار جس طرح دور جاہلیت میں لگتے تھے اسی طرح دور اسلام میں بھی قائم رہیں۔سب سے پہلے عکاظ بازار زمانہ خوارج میں ختم ہوا اور سب سے آخر میں حباشہ داؤدبن عسیٰ بن موسیٰ عباسی کے دور میں ۷۹۱ ؁ھ میں ختم ہوا۔
وَقَالَ الفاكهي: وَلم تزل هَذِه الْأَسْوَاق قَائِمَة فِي الْإِسْلَام إِلَى أَن كَانَ أول من ترك مِنْهَا سوق عكاظ فِي زمن الْخَوَارِج سنة تسع وَعشْرين وَمِائَة، وَآخر مَا ترك مِنْهَا سوق حُبَاشَة فِي زمن دَاوُد بن عِيسَى بن مُوسَى العباسي فِي سنة سبع وَتِسْعين وَمِائَة،(عمدۃ القاری ،بابُ التِّجَارَةِ أيَّامَ الْمَوْسِمِ والْبَيْعِ فِي أسْوَاقِ الجَاهِلِيَّةِ)

مدینہ منورہ کے اسلام سے قبل بازار اور منڈیاں

اسلام سے قبل مدینہ منورہ کے بازار سوق بنو قینقاع اور سوق زبالہ عالمی شہرت کے حامل تھے،اس وقت کی منڈیوں میں بڑی منڈیاں شمار ہوتےتھے،جب نبی رحمت ﷺ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے ایک مقام پر کھڑے ہوکر پاؤں مبار ک سے نشان لگادیا اور فرمایا یہ مسلمان کے بازار کی حد ہے،چنانچہ مسلمانوں نے اس مقام پر بازار بنالیا،اور یہ بازار مسجد غمالہ سے ثنیۃ الوداع تک لمباتھا،(ماخوذ وفاؤ الوفابااخبار مصطفیٰ)

جتروں اور میلوں کے احکام 

ان میلوں میں جانے کی عموماً تین مقاصد ہو سکتے ہیں،مقصد نمبر ۱: مال تجارت فرخت کرنے کیلئے، مقصدنمبر ۲: کوئی سامان خرید نے کیلئے،مقصد نمبر ۳: وہاں کے لہولعب اور کھیل تماشوں میں شرکت کیلئے،
مقصد نمبر ایک کے تحت وہاں جانا، کتاب النوازل میں ہے‘‘ اگر غیر مسلموں کے میلا میں کوئی ایسی چیز فروخت کی جائے جوشرعاً حلال ہو جیسے پھل فروٹ یا سبزیاں وغیرہ تو اس کاروبار کی آمدنی حرام وناجائز نہ ہو گی،البتہ اس طرح کے میلوں میں دوکان لگا نے سے غیر مسلموں کی شان وشوکت میں اضافہ ہو تا ہے،بریں بنا ایسی جگہوں پر کاروبار کرنے سےاحتراز کرنا چاہیے،(جلد ۶۱: ۱۵۳)
مقصد نمبر دو کے تحت میلوں میں جانا، اگر وہ سامان ضرورت کی ہو اور دوسری جگہ نہ ملتی ہو یاملتی تو ہو مگر گراں قدر قیمت میں تو اس سامان کو خرید نے کیلئے میلہ میں جاسکتے ہیں لیکن مقام لہو ولعب اور منکرات سے بچ کر جائے،
حضرت مفتی محمود ؒ فرماتے ہیں ‘‘ جو چیز ضرورت کی ہو اور کسی دوسری جگہ نہ ملتی ہو،تو اسکو خرید نے کیلئے جانا(میلہ میں) درست ہے بلا اس کے نہیں جانا چاہیے ’’(فتاویٰ محمودیہ ۹۱:)
تیسرے مقصد کے پیش نظر میلہ میں جا نا حرام ہے،بلکہ حرام کاموں سے لطف اندوز ہو نے پر کفر کا اندیشہ ہے، 
عن ابن عمر قال قال رسول ﷺ من تشبہ بقوم فھو منہ (مشکوٰۃ کتاب اللباس)کہ جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ (قیامت کے دن)انہیں کے ساتھ ہوگا،
ومن خرج الی السدۃ ای مجتمع اھل الکفر فی یوم النوروز کفر (شرح الفقہ الاکبر،فصل فی الکفر صریحا : ۶۸۱)
کہ جو سدہ کیلئے گیا یعنی نوروز کے دن کافروں کے مجمع (میلہ) کی جانب گیاتو اس نے کفر کیا،
اور مجمع النھر میں ہے،‘‘ ویکفر بخروجہ الی نیروز المجوس والموافقۃ معھم فیما یفعلونہ فی ذالک الیوم (مجمع النھر کتاب السیر باب الفاظ الکفر ۴: ۳۱۵) یعنی ایسی مجلس میں شرکت کرنے پر تکفیر کی جائیگی،
ان تمام عبارتوں سے معلوم ہو ا کہ میلااورجترہ میں محض لہو لعب کیلئے شرکت کر نا حرام ہے،اور کفر کابھی خطرہ ہے،

ا سملتے جلتے عمدہ اور مدلل مضمون

ملک بھارت کے سلگتے مسائل



Wednesday, January 11, 2017

تجارت حلال یا حرام



بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس سے قبل عاجز نے ’’ معیشت وتجارت کی فضیلت ‘‘کے عنوان پر مفصل مقالہ نیٹ پر اپنے بلاگ دینی معلومات سے شائع کرچکاہے،الحمد للہ بہت سے تاجر دوستوں نے اس سے استفادہ کیا ہے ،مزید استفادہ کے پیش نظر اس وقت بعنوان ’’تجارت حلال یا حرام ‘‘ کچھ تحریریں شائع کررہاہوں ،اللہ تعالیٰ اسے ذریعہ بناکر شریعت وسنت کے فضاء کو عام وتام فرمادے آمین،

عبادت کی قسمیں

عبادت کی دوقسمیں ہیں (۱) بلاواسطہ یعنی وہ اعمال جو براہ راست عبادت ہیں مثلاً: نماز ،روزہ،حج ،زکوٰۃ وغیرہ (۲) بالواسطہ یعنی وہ اعمال جو براہ راست عبادت نہ ہوں بلکہ کسی امر خارج کی وجہ سے وہ عبادت شمار ہوتا ہو،مثلاً: خریدو فروخت ،کھاناپینا،بیوی سے ملاقات وغیرہ یہ سارے اعمالِ جوازحسنِ نیت کی وجہ سے زمرۂ عبادت میں داخل ہوجاتا ہے ،اورعدم نیت سے وہ اعمالِ جواز محض ایک فعل اور عمل بن کر رہ جاتا ہے جس پر کسی قسم کاثواب مرتب نہیں ہو تا ہے ،
حسن نیت سے بیوی کے منھ میں لقمہ ڈالنا بھی باعث ثواب اور سبب نیکی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم اپنے اہل وعیال پر جو کچھ خرچ کروگے اسکا تمہیں ثواب ملے گا ،حتی کہ تم کو اس لقمہ پر بھی ثواب ملے گا جو تم اپنے بیوی کے منھ میں ڈالتے ہو ‘‘( بخاری )ایک روایت سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان کو اپنی بیوی سے خواہش (جماع) پوری کرنے پر بھی ثواب ملتا ہے،کیوں کہ اس جماع کی وجہ سے میاں بیوی دونوں ناجائز طریقے سے خواہشات کو پوری کرنے سے روک جائے گااور ناجائز کاموں سے بچنابھی نیکی ہے ۔ 

طالب معیشت کے اقسام

انسان کے احوال اور نیتیں مختلف ہونے کی وجہ سے طلب معیشت میں انسان کی تین قسمیں ہیں ،نمبر ۱؂   وہ لوگ جوطلب معاش میں پڑنے کی وجہ سے معاد سے بے خبر ہو جائے یعنی دنیا کمانے میں اس قدر منہمک ہو جائے کہ اعمال شریعت اور افعال دینیہ سے دور ہوجائے، یہ لوگ دنیوی اعتبارسے کتناہی مالدار کیوں نہ ہو جائیں؛ لیکن اخروی لحاظ سے یہی لوگ کنگال ہیں،یہ راہ راست سے بھٹک کر ہلاکت وبربادی کے راستہ پر گامزن ہیں ،جن آیتوں اور احادیث میں دنیا کوفتنہ ، ملعون،مبغوض ،مردود، مردار،وغیرہ بتایا گیا ہے ،ان تمام آیات و احادیث کا صحیح مصداق یہی قسم اول کے لوگ ہیں ،انہیں کے لئے طلب معیشت ناجائز اور قابل گرفت ہے، نمبر ۲؂وہ نفوس قدسیہ جو معاد کی وجہ سے معاش سے بے نیا ز ہو جائے ، یعنی ذکرواذکار، عبادت وریاضت میں اس قدر مست ہو ں کہ انکو حضور قلبی کی دولت عظمیٰ حاصل ہو چکی ہو ،جس کی وجہ سے دنیا کا طلب کسی بھی درجہ میں ان کیلئے وحشت ہی وحشت ہو،ایسے مقدس حضرات کو اللہ تعالیٰ اپنے غیبی نظام کے تحت رزق عطافرمادیتے ہیں یا پھر انکے لئے فقر اور غنا کی حالتوں کو یکساں کر کے بغیر خوردونوش کے وہ جسمانی قوت عطا فرمادیتے ہیں جو قوت جسمانی عام آدمی کو کھانے پینے کے بعد حاصل ہوتی ہے ،گویا رب کریم ان نفوس قدسیہ مطمئنہ کے لئے غذاء روحانی (عبادت وریاضت )کو غذاء جسمانی بنادیتے ہیں ،چناچہ نبی رحمت ﷺ نے صحابہ کرام کو صوم وصال سے منع کرتے ہو ئے فرمایا کہ تم اسکی طاقت نہیں رکھتے اور رہی بات ہمارا صوم وصال پر قادر ہو ناتووہ اس لئے ہے کہ مجھے اللہ رب العزت کھلادیتا ہے ، ابوداؤد شریف کی روایت ہے ، ’’ عن ابن عمر ان رسول اللہ ﷺ نھی عن صوم الوصال قالوا فانک تواصل یا رسول اللہ قال انی لست کھیئتکم انی اطعم واسقیٰ (ابوداؤد باب الوصال )
ظاہر سی بات ہے یہاں کھلانے سے مراد یہ نہیں ہے کہ جنت سے آپ کے لئے کوئی کھانا اتر تا تھا اور اسکو آپ تناول فرمالیتے تھے ،ورنہ صوم وصال کا کوئی مطلب ہی نہیں رہ جاتا،بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو بغیر کھانا تناول کیئے اس قدر جسمانی قوت عطافرمادیتے تھے، گو یاذکرو اذکار سے جس طرح روحانی قوت حاصل ہوتی تھی اسی طرح جسمانی قوت بھی حاصل ہوجاتی تھی ،اور آپ ﷺ ہی کے صدقہ طفیل میں آپکے جانثار صحابہ کرام ،اولیاء عظام اور بزرگان دین کو بھی گاہے بگاہے یہ نعمت عظمیٰ حاصل ہو جاتی ہے۔ بہر حال ان مقدس حضرات کے لئے طلب معاش بہتر نہیں ہے ،غالباًاسی مخصوص حالت کے پیش نظر نبی رحمت ﷺ کا ارشاد ہے ، ’’مااوحیٰ الی ان اجمع المال وکن من التاجرین ولاکن ا وحیٰ ان سبح بحمد ربک وکن من الساجدین وعبد ربک حتیٰ یاتیک الیقین ‘‘ (احیاء العلوم بحوالہ ابن مردودیہ فی التفسیر عن ابن مسعود ) کہ مجھ پر وحی نازل نہیں ہوئی کہ مال جمع کرواور تاجر بن جاؤ بلکہ یہ وحی آئی کہ اپنے رب کی خوبیاں بیان کرو اورسجدے کرنے والوں میں سے ہوجاؤ،اور اپنے رب کی عبادت کرو یہاں تک کہ یقین (موت ) آجائے ۔ 
نمبر ۳؂ وہ حضرات جو معاد کے لئے معاش میں مشغول ہو یعنی وہ لوگ جو آخرت کی وجہ سے دنیا کمارہاہو ،دنیا اس لئے کمارہا ہے کہ اس سے اپنے بیوی ،بچے ،ماں ،باپ ،رشتہ دار ،پڑوسی ،دوست اور احباب کے حقوق کو اداکریگا اور اس سے حاصل شدہ رقم سے صدقہ وزکوٰۃ ،حج وعمرہ کریگا ،تو ان لوگوں کیلئے طلب معاش جائز ہی نہیں بلکہ حقوق واجبہ کی ادائیگی کیلئے فرض و واجب بھی ہے ، اور جب اس کو صحیح نیت کے ساتھ جائزطریقوں سے حاصل کریگا تو پھر ان کیلئے وہ تمام بشارتیں ہیں جن کو ہم نے اس سے پہلے ’’ معیشت وتجارت کی فضیلت ‘‘کے عنوان میں ذکر کر دیاہے،
ان لوگوں کو طلب معاش باعث ثواب ومغفرت دو شرطوں کے ساتھ ہے شرط اول کہ طلب معاش میں نیت نبی کی اقتدا ،اور حقوق وغیرہ کو اداکرنے کی ہو، محض خواہش نفس،یا ذخیرہ اندوزی نہ ہو ،دوسری شرط کہ وہ طلب معاش کے طریقے جائز اور حلال ہوں۔ 

کن لوگوں کیلئے طلب معاش بہتر نہیں

چند حضرات ایسے بھی ہیں جو طلب معاش کی فضیلت سے مستثنیٰ ہیں ،ان کے لئے طلب معاش سے بہتر اور افضل کام وہی ہے جس کو وہ حضرات انجام دے رہے ہیں ،(۱) وہ حضرات جو روحانی منزل کو طے کرچکا ہو اور انکو حضور قلبی حاصل ہوچکی ہو ، احوال ومکاشفات کے علوم قلب میں موجزن ہوں اور اسی روحانی وعرفانی ترقیات کی منازل کو امت کیلئے روشناس کراتا ہو (۲) عالم ،مفتی ، مفسر، محدث وغیرہ جو اپنے علوم ظاہری سے لوگوں کی رشد وہدایات میں لگے ہوں(۳) بادشاہ اور قاضی جو مسلمانوں کے معاملات ومفادات کا نگہبان ہوں ،ان تمام حضرات کے لیے کسب وتجارت افضل نہیں ہے بلکہ یہ حضرات انہیں کاموں میں لگے رہیں گے اور ان کے اخراجات بیت المال سے یا لوگ اپنے صدقات نافلہ وغیرہ سے پوراکریں گے، اس سے ان مقدس جماعت کی ضروریات دنیویہ بھی پورے ہوتے رہیں گے اور امت کی بھی راہ نمائی اور آبیاری ہوتی رہے گی ۔

ملتے جلتے مضمون

معیشت وتجارت کی فضیلت