میلے اور جترے
میلا جس کو اردو میں بازار اور ہندی میں جترا اور میلا کہتے ہیں،جس کیلئے عربی میں لفظ سوق کا استعمال کیاجا تا ہے،لیکن ہمارے ہندوستان میں میلا یا جترا سے مراد مطلقا بازار نہیں ہو تا ہے ؛بلکہ میلا یا جتراسےوہ مخصوص بازار ہے جس کو غیر مسلم حضرات اپنے مذہب کی بنیاد پر مخصوص وقت اور تاریخ میں منعقدکرتےہیں ؛اس لئے اس کا حکم عام مارکٹ اور بازاروں کی طرح نہیں ہے،اسلئےیہاں اولاً زمانے نبوت کے میلوں اور بازاروں کا تذکرہ کیا جارہاہے، ثانیاً ان میلوں کے شرعی احکام بھی بیان کئے جائیں گے۔
دور نبوت میں مکہ مکرمہ کے زمانہ جاہلیت کے بازار
امام بخاری علیہ الرحمۃ نے کئی مقامات پر ابن عباس کی روایت تخریج کی ہیں،
عنِ ابنِ عَبَّاسٍ رَضِي الله
تَعَالَى عنهُمَا قَالَ كانتْ عُكَاظٌ ومَجَنَّةٌ وذُو المَجَازِ أسْوَاقا فِي
الجَاهِلِيَّةِ فَلَمَّا كانَ الإسْلامُ تأثَّمُوا مِنَ التِّجارَةِ فِيهَا فأنْزَلَ
الله لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِي مَوَاسِمِ الحَجِّ قَرَأَ ابنُ عَبَّاسٍ كَذا.(بخاری
کتاب البیوع باب اسواق التی کانت فی الجاہلیۃ)
(بخاری کتاب البیوع باب اسواق التی کانت فی الجاہلیۃ)
کہ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں عکاظ،مجنۃ ،اور ذوالمجاز زمانہ جاہلیت کے ( مکہ مکرمہ میں)بازار تھے،جب اسلام آیا تو صحابہ کرام اس میں تجارت کرنے کوگناہ سمجھ کر بچنے لگے،تو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا کہ تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں کہ (تم ان بازاروں میں تجارت کرو) ایام حج میں،راوی کہتے ہیں کہ ابن عبا س ؓنے اسی طرح پڑھا،
حدیث کی شرح
زمانہ جاہلیت کے جترے:علامہ عینی ؒ شرح بخاری میں بابُ
التِّجَارَةِ أيَّامَ الْمَوْسِمِ والْبَيْعِ فِي أسْوَاقِ الجَاهِلِيَّةکے تحت حدیث بالاکی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دور نبوت میں زمانہ جاہلیت کے چاربازار تھے عکاظ، مجنہ، ذوالمجاز اور حباشہ،تین بازار کا تذکرہ اوپر کی حدیث میں ہے،حباشہ کا تذکرہ حدیث بالا میں اس لئے نہیں کیا گیا ہے کہ یہ ایام حج میں نہیں لگتے تھے،باقی تینوں بازار ایام حج میں لگتے تھے اور ایام حج ہی میں ختم ہو جاتےتھے،ان بازاروں میں سب سے بڑا بازار حباشہ ہی ہواکرتا تھا،
عکاظ ایک ذیقعدہ سے بیس ذیقعدہ تک رہتاتھا اس کے بعد بیس ذیقعدہ سے ایک ذی الحجہ تک مجنہ رہتا تھا اس کے بعد ایک ذی الحجہ سے آٹھ ذی الحجہ تک ذوالمجاز کا میلارہتا تھا،اس کے بعد یہ حضرات حج کے افعال میں لگ جاتے تھے،اور حباشہ ماہ رجب میں لگتا تھا اور آٹھ دن میں ختم ہو جاتا تھا،
صحابہ کرام ان بازاروں میں خرید وفروخت سے باز آنے لگے،در اصل نبی رحمت ﷺ نے فرمایا ہے،ابغض البقاع الی اللہ تعالیٰ اسواقھا،کہ سب سے بدترین جگہ بازار ہے،نیز ان بازاروں میں صرف خرید وفروخت ہی نہیں ہو تا تھا بلکہ مختلف قسم کے لہو ولعب اور محرمات بھی کھلے عام ہو رہے تھے؛ اس لئے بھی صحابہ کرامؓ نے ان جگہوں پر گناہ ومعصیت کی وجہ سے ضرورت کے باوجود خرید وفروخت کرنےسے احتراز کر نے لگے اس پر اللہ تعالیٰ نےنازل کیا کہ (اگر خرید وفروخت کی ضرورت ہو تو) ان بازاروں میں جاکر خرید وفروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دوصدی ہجری کے اواخر تک یہ بازریں بند ہو گئی تھی،بلکہ عین ممکن ہے کہ اس وقت وہ بازار تو موجود نہ ہوں لیکن ان جگہوں پر دوسرے بازار لگتے ہوں،اور علامہ عینی نے فاکھانی کے قول کو اس طرح نقل کیا ہے کہ یہ بازار جس طرح دور جاہلیت میں لگتے تھے اسی طرح دور اسلام میں بھی قائم رہیں۔سب سے پہلے عکاظ بازار زمانہ خوارج میں ختم ہوا اور سب سے آخر میں حباشہ داؤدبن عسیٰ بن موسیٰ عباسی کے دور میں ۷۹۱ ھ میں ختم ہوا۔
وَقَالَ الفاكهي: وَلم
تزل هَذِه الْأَسْوَاق قَائِمَة فِي الْإِسْلَام إِلَى أَن كَانَ أول من ترك
مِنْهَا سوق عكاظ فِي زمن الْخَوَارِج سنة تسع وَعشْرين وَمِائَة، وَآخر مَا ترك
مِنْهَا سوق حُبَاشَة فِي زمن دَاوُد بن عِيسَى بن مُوسَى العباسي فِي سنة سبع وَتِسْعين
وَمِائَة،(عمدۃ القاری ،بابُ التِّجَارَةِ أيَّامَ
الْمَوْسِمِ والْبَيْعِ فِي أسْوَاقِ الجَاهِلِيَّةِ)
مدینہ منورہ کے اسلام سے قبل بازار اور منڈیاں
اسلام سے قبل مدینہ منورہ کے بازار سوق بنو قینقاع اور سوق زبالہ عالمی شہرت کے حامل تھے،اس وقت کی منڈیوں میں بڑی منڈیاں شمار ہوتےتھے،جب نبی رحمت ﷺ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے ایک مقام پر کھڑے ہوکر پاؤں مبار ک سے نشان لگادیا اور فرمایا یہ مسلمان کے بازار کی حد ہے،چنانچہ مسلمانوں نے اس مقام پر بازار بنالیا،اور یہ بازار مسجد غمالہ سے ثنیۃ الوداع تک لمباتھا،(ماخوذ وفاؤ الوفابااخبار مصطفیٰ)
جتروں اور میلوں کے احکام
ان میلوں میں جانے کی عموماً تین مقاصد ہو سکتے ہیں،مقصد نمبر ۱: مال تجارت فرخت کرنے کیلئے، مقصدنمبر ۲: کوئی سامان خرید نے کیلئے،مقصد نمبر ۳: وہاں کے لہولعب اور کھیل تماشوں میں شرکت کیلئے،
مقصد نمبر ایک کے تحت وہاں جانا، کتاب النوازل میں ہے‘‘ اگر غیر مسلموں کے میلا میں کوئی ایسی چیز فروخت کی جائے جوشرعاً حلال ہو جیسے پھل فروٹ یا سبزیاں وغیرہ تو اس کاروبار کی آمدنی حرام وناجائز نہ ہو گی،البتہ اس طرح کے میلوں میں دوکان لگا نے سے غیر مسلموں کی شان وشوکت میں اضافہ ہو تا ہے،بریں بنا ایسی جگہوں پر کاروبار کرنے سےاحتراز کرنا چاہیے،(جلد ۶۱: ۱۵۳)
مقصد نمبر دو کے تحت میلوں میں جانا، اگر وہ سامان ضرورت کی ہو اور دوسری جگہ نہ ملتی ہو یاملتی تو ہو مگر گراں قدر قیمت میں تو اس سامان کو خرید نے کیلئے میلہ میں جاسکتے ہیں لیکن مقام لہو ولعب اور منکرات سے بچ کر جائے،
حضرت مفتی محمود ؒ فرماتے ہیں ‘‘ جو چیز ضرورت کی ہو اور کسی دوسری جگہ نہ ملتی ہو،تو اسکو خرید نے کیلئے جانا(میلہ میں) درست ہے بلا اس کے نہیں جانا چاہیے ’’(فتاویٰ محمودیہ ۹۱:)
تیسرے مقصد کے پیش نظر میلہ میں جا نا حرام ہے،بلکہ حرام کاموں سے لطف اندوز ہو نے پر کفر کا اندیشہ ہے،
عن ابن عمر قال قال رسول ﷺ من تشبہ بقوم فھو منہ (مشکوٰۃ کتاب اللباس)کہ جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ (قیامت کے دن)انہیں کے ساتھ ہوگا،
ومن خرج الی السدۃ ای مجتمع اھل الکفر فی یوم النوروز کفر (شرح الفقہ الاکبر،فصل فی الکفر صریحا : ۶۸۱)
کہ جو سدہ کیلئے گیا یعنی نوروز کے دن کافروں کے مجمع (میلہ) کی جانب گیاتو اس نے کفر کیا،
اور مجمع النھر میں ہے،‘‘ ویکفر بخروجہ الی نیروز المجوس والموافقۃ معھم فیما یفعلونہ فی ذالک الیوم (مجمع النھر کتاب السیر باب الفاظ الکفر ۴: ۳۱۵) یعنی ایسی مجلس میں شرکت کرنے پر تکفیر کی جائیگی،
ان تمام عبارتوں سے معلوم ہو ا کہ میلااورجترہ میں محض لہو لعب کیلئے شرکت کر نا حرام ہے،اور کفر کابھی خطرہ ہے،
No comments:
Post a Comment
شکریہ آپکا کومینڈ مفتی صاحب کے میل تک پہنچ گیا