Wednesday, January 11, 2017

تجارت حلال یا حرام



بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس سے قبل عاجز نے ’’ معیشت وتجارت کی فضیلت ‘‘کے عنوان پر مفصل مقالہ نیٹ پر اپنے بلاگ دینی معلومات سے شائع کرچکاہے،الحمد للہ بہت سے تاجر دوستوں نے اس سے استفادہ کیا ہے ،مزید استفادہ کے پیش نظر اس وقت بعنوان ’’تجارت حلال یا حرام ‘‘ کچھ تحریریں شائع کررہاہوں ،اللہ تعالیٰ اسے ذریعہ بناکر شریعت وسنت کے فضاء کو عام وتام فرمادے آمین،

عبادت کی قسمیں

عبادت کی دوقسمیں ہیں (۱) بلاواسطہ یعنی وہ اعمال جو براہ راست عبادت ہیں مثلاً: نماز ،روزہ،حج ،زکوٰۃ وغیرہ (۲) بالواسطہ یعنی وہ اعمال جو براہ راست عبادت نہ ہوں بلکہ کسی امر خارج کی وجہ سے وہ عبادت شمار ہوتا ہو،مثلاً: خریدو فروخت ،کھاناپینا،بیوی سے ملاقات وغیرہ یہ سارے اعمالِ جوازحسنِ نیت کی وجہ سے زمرۂ عبادت میں داخل ہوجاتا ہے ،اورعدم نیت سے وہ اعمالِ جواز محض ایک فعل اور عمل بن کر رہ جاتا ہے جس پر کسی قسم کاثواب مرتب نہیں ہو تا ہے ،
حسن نیت سے بیوی کے منھ میں لقمہ ڈالنا بھی باعث ثواب اور سبب نیکی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم اپنے اہل وعیال پر جو کچھ خرچ کروگے اسکا تمہیں ثواب ملے گا ،حتی کہ تم کو اس لقمہ پر بھی ثواب ملے گا جو تم اپنے بیوی کے منھ میں ڈالتے ہو ‘‘( بخاری )ایک روایت سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان کو اپنی بیوی سے خواہش (جماع) پوری کرنے پر بھی ثواب ملتا ہے،کیوں کہ اس جماع کی وجہ سے میاں بیوی دونوں ناجائز طریقے سے خواہشات کو پوری کرنے سے روک جائے گااور ناجائز کاموں سے بچنابھی نیکی ہے ۔ 

طالب معیشت کے اقسام

انسان کے احوال اور نیتیں مختلف ہونے کی وجہ سے طلب معیشت میں انسان کی تین قسمیں ہیں ،نمبر ۱؂   وہ لوگ جوطلب معاش میں پڑنے کی وجہ سے معاد سے بے خبر ہو جائے یعنی دنیا کمانے میں اس قدر منہمک ہو جائے کہ اعمال شریعت اور افعال دینیہ سے دور ہوجائے، یہ لوگ دنیوی اعتبارسے کتناہی مالدار کیوں نہ ہو جائیں؛ لیکن اخروی لحاظ سے یہی لوگ کنگال ہیں،یہ راہ راست سے بھٹک کر ہلاکت وبربادی کے راستہ پر گامزن ہیں ،جن آیتوں اور احادیث میں دنیا کوفتنہ ، ملعون،مبغوض ،مردود، مردار،وغیرہ بتایا گیا ہے ،ان تمام آیات و احادیث کا صحیح مصداق یہی قسم اول کے لوگ ہیں ،انہیں کے لئے طلب معیشت ناجائز اور قابل گرفت ہے، نمبر ۲؂وہ نفوس قدسیہ جو معاد کی وجہ سے معاش سے بے نیا ز ہو جائے ، یعنی ذکرواذکار، عبادت وریاضت میں اس قدر مست ہو ں کہ انکو حضور قلبی کی دولت عظمیٰ حاصل ہو چکی ہو ،جس کی وجہ سے دنیا کا طلب کسی بھی درجہ میں ان کیلئے وحشت ہی وحشت ہو،ایسے مقدس حضرات کو اللہ تعالیٰ اپنے غیبی نظام کے تحت رزق عطافرمادیتے ہیں یا پھر انکے لئے فقر اور غنا کی حالتوں کو یکساں کر کے بغیر خوردونوش کے وہ جسمانی قوت عطا فرمادیتے ہیں جو قوت جسمانی عام آدمی کو کھانے پینے کے بعد حاصل ہوتی ہے ،گویا رب کریم ان نفوس قدسیہ مطمئنہ کے لئے غذاء روحانی (عبادت وریاضت )کو غذاء جسمانی بنادیتے ہیں ،چناچہ نبی رحمت ﷺ نے صحابہ کرام کو صوم وصال سے منع کرتے ہو ئے فرمایا کہ تم اسکی طاقت نہیں رکھتے اور رہی بات ہمارا صوم وصال پر قادر ہو ناتووہ اس لئے ہے کہ مجھے اللہ رب العزت کھلادیتا ہے ، ابوداؤد شریف کی روایت ہے ، ’’ عن ابن عمر ان رسول اللہ ﷺ نھی عن صوم الوصال قالوا فانک تواصل یا رسول اللہ قال انی لست کھیئتکم انی اطعم واسقیٰ (ابوداؤد باب الوصال )
ظاہر سی بات ہے یہاں کھلانے سے مراد یہ نہیں ہے کہ جنت سے آپ کے لئے کوئی کھانا اتر تا تھا اور اسکو آپ تناول فرمالیتے تھے ،ورنہ صوم وصال کا کوئی مطلب ہی نہیں رہ جاتا،بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو بغیر کھانا تناول کیئے اس قدر جسمانی قوت عطافرمادیتے تھے، گو یاذکرو اذکار سے جس طرح روحانی قوت حاصل ہوتی تھی اسی طرح جسمانی قوت بھی حاصل ہوجاتی تھی ،اور آپ ﷺ ہی کے صدقہ طفیل میں آپکے جانثار صحابہ کرام ،اولیاء عظام اور بزرگان دین کو بھی گاہے بگاہے یہ نعمت عظمیٰ حاصل ہو جاتی ہے۔ بہر حال ان مقدس حضرات کے لئے طلب معاش بہتر نہیں ہے ،غالباًاسی مخصوص حالت کے پیش نظر نبی رحمت ﷺ کا ارشاد ہے ، ’’مااوحیٰ الی ان اجمع المال وکن من التاجرین ولاکن ا وحیٰ ان سبح بحمد ربک وکن من الساجدین وعبد ربک حتیٰ یاتیک الیقین ‘‘ (احیاء العلوم بحوالہ ابن مردودیہ فی التفسیر عن ابن مسعود ) کہ مجھ پر وحی نازل نہیں ہوئی کہ مال جمع کرواور تاجر بن جاؤ بلکہ یہ وحی آئی کہ اپنے رب کی خوبیاں بیان کرو اورسجدے کرنے والوں میں سے ہوجاؤ،اور اپنے رب کی عبادت کرو یہاں تک کہ یقین (موت ) آجائے ۔ 
نمبر ۳؂ وہ حضرات جو معاد کے لئے معاش میں مشغول ہو یعنی وہ لوگ جو آخرت کی وجہ سے دنیا کمارہاہو ،دنیا اس لئے کمارہا ہے کہ اس سے اپنے بیوی ،بچے ،ماں ،باپ ،رشتہ دار ،پڑوسی ،دوست اور احباب کے حقوق کو اداکریگا اور اس سے حاصل شدہ رقم سے صدقہ وزکوٰۃ ،حج وعمرہ کریگا ،تو ان لوگوں کیلئے طلب معاش جائز ہی نہیں بلکہ حقوق واجبہ کی ادائیگی کیلئے فرض و واجب بھی ہے ، اور جب اس کو صحیح نیت کے ساتھ جائزطریقوں سے حاصل کریگا تو پھر ان کیلئے وہ تمام بشارتیں ہیں جن کو ہم نے اس سے پہلے ’’ معیشت وتجارت کی فضیلت ‘‘کے عنوان میں ذکر کر دیاہے،
ان لوگوں کو طلب معاش باعث ثواب ومغفرت دو شرطوں کے ساتھ ہے شرط اول کہ طلب معاش میں نیت نبی کی اقتدا ،اور حقوق وغیرہ کو اداکرنے کی ہو، محض خواہش نفس،یا ذخیرہ اندوزی نہ ہو ،دوسری شرط کہ وہ طلب معاش کے طریقے جائز اور حلال ہوں۔ 

کن لوگوں کیلئے طلب معاش بہتر نہیں

چند حضرات ایسے بھی ہیں جو طلب معاش کی فضیلت سے مستثنیٰ ہیں ،ان کے لئے طلب معاش سے بہتر اور افضل کام وہی ہے جس کو وہ حضرات انجام دے رہے ہیں ،(۱) وہ حضرات جو روحانی منزل کو طے کرچکا ہو اور انکو حضور قلبی حاصل ہوچکی ہو ، احوال ومکاشفات کے علوم قلب میں موجزن ہوں اور اسی روحانی وعرفانی ترقیات کی منازل کو امت کیلئے روشناس کراتا ہو (۲) عالم ،مفتی ، مفسر، محدث وغیرہ جو اپنے علوم ظاہری سے لوگوں کی رشد وہدایات میں لگے ہوں(۳) بادشاہ اور قاضی جو مسلمانوں کے معاملات ومفادات کا نگہبان ہوں ،ان تمام حضرات کے لیے کسب وتجارت افضل نہیں ہے بلکہ یہ حضرات انہیں کاموں میں لگے رہیں گے اور ان کے اخراجات بیت المال سے یا لوگ اپنے صدقات نافلہ وغیرہ سے پوراکریں گے، اس سے ان مقدس جماعت کی ضروریات دنیویہ بھی پورے ہوتے رہیں گے اور امت کی بھی راہ نمائی اور آبیاری ہوتی رہے گی ۔

ملتے جلتے مضمون

معیشت وتجارت کی فضیلت

No comments:

Post a Comment

شکریہ آپکا کومینڈ مفتی صاحب کے میل تک پہنچ گیا