Saturday, January 21, 2017

حرام کھانا



بسم اللہ الرحمن الرحیم

لقمہ حرام


      جس طرح نصوص قطعیہ سے یہ ثابت ہے کہ حلا ل وپاکیزہ کسب معاش فرض ہے اسی طرح قرآن واحادیث سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ حرام کمائی سے بچنا فرض ہے،بلکہ بعض حضرات کیلئے حلال کمائی ضروری بھی نہیں ہے لیکن حرام کمائی سے بچنا تو ہر ایک کے لئے ضروری ہے اس میں کسی کا بھی استثناء نہیں،حرا م مال کا ایک لقمہ بھی جہنم میں لے جانے کیلئے کافی ہے ؛اس لئے نہایت ضروری ہے کہ اسباب معیشت اور پیشہ اختیار کرتے وقت شریعت کے نقطہ نظر سے جانچ لے کہ وہ پیشہ حرام ہے یا حلال ؟

(آپ ﷺ کی پیشین گوئی)


آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
عن أبي هريرةرضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يأتي على الناس زمان لا يبالي المرء ما أخذ منه، أمن الحلال أم الحرام؛ (رواه البخاري.(
کہ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئیگا جس میں انسان نہیں غور وفکر کریگا کہ وہ کہاں سے اور کس طرح مال کما رہا ہے،حلال طریقے سے یا حرام طریقے سے؟
اس حدیث پاک میں جس زمانے کی پیشین گوئی کی گئی ہے ،وہ یہی زمانہ ہے آج اس مادیاتی دور میں ہر کوئی کسب معاش میں لگا ہواہے،ایک گھر کے تین تین چار چار اشخاص روزی کمانے میں لگے ہوئے ہیں،اور ان میں سے کسی کو یہ فکر نہیں ہے کہ جس طرح ہم روزی کمارہے ہیں کیا وہ طریقہ شریعت کے نقطہ نظرسے جائز بھی ہے یا حرام؟ نہ تو باپ بیٹے سے پوچھتا ہے،اورنہ بیٹا باپ سے کہ آپ صبح سے شام تک جو کام کر کے کے گھر میں روپیے لاتے ہیں کیا وہ کا م جائزبھی ہے؟یاد رکھیں حرام مال کا استعمال کرنا تو حرام ہے ہی اس کی سزا قیامت کے دن جہنم ہے۔

(حرام کھانے والا جہنم میں)

حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے روایت ہے، کہ نبی رحمت ﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔(کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، الفصل الاول فی فضائل کسب الحلال)

حضرت سیّدناعبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:جس نے دنیا میں حرام طریقے سے مال کمایا اور اسے ناحق جگہ خرچ کیا تو اللہ تعالیٰ اسے ذلت و حقارت کے گھر (یعنی جہنم)میں داخل کردے گا(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان، ۴/۶۹۳، حدیث: ۷۲۵۵)

وَعَن جَابر بن عبد الله رَضِي الله عَنْهُمَا أَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ يَا كَعْب بن عجْرَة إِنَّه لَا يدْخل الْجنَّة لحم نبت من سحت، (الترغیب والترھیب کتاب البیوع، الحدیث۲۶۷۸)

حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی رحمت ﷺ نے فر مایا اے کعب بن عجرہ(غور سے سنو ) جس گوشت (جسم ) کی پرورش حرام مال سے ہوگی وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا،

(حرام مال کی نحوست)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ایک طویل روایت میں ہے،نبی رحمت ﷺ نےارشاد فرمایا: ’’جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُ س میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ، الحدیث: ۲۷۶۳)

(لقمہ حرام کی وجہ سے کوئی عمل قبول نہیں)

حضرت سعد بن وقاص کی روایت میں ہے، ’’وَالَّذِي نفس مُحَمَّد بِيَدِهِ إِن العَبْدليقذف اللُّقْمَة الْحَرَام فِي جَوْفه مَا يتَقَبَّل مِنْهُ عمل أَرْبَعِينَ يَوْمًا۔۔۔۔۔۔(الترغیب والترھیب کتاب البیوع، الحدیث ۲۶۶۴)

آپﷺ فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد (ﷺ) کی جان ہے کہ جب کوئی بندہ حرام لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اسکی چالیس دن تک کوئی عمل قبول  نہیں کیا جاتا ،
وَرُوِيَ عَن ابْن عمر رَضِي الله عَنْهُمَا قَالَ من اشْترى ثوبا بِعشْرَة دَرَاهِم وَفِيه دِرْهَم من حرَام لم يقبل الله عز وَجل لَهُ صَلَاة مَا دَامَ عَلَيْهِ (الترغیب والترھیب کتاب البیوع، الحدیث ۲۶۶۶)
حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ جس نے دس درہم میں کوئی کپڑاخریدا اس میں ایک درہم حرام کا تھا (تو اس حرام درہم کی وجہ سے ) اللہ تعالیٰ اسکی کوئی نمازاس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک وہ کپڑا اس کے پدن پر رہیگا،
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا قول ہے: ایسے شخص کی اللہ تبارک و تعالیٰ نماز قبول نہیں فرماتا جس کے پیٹ میں حرام موجود ہو، تاوقتیکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ نہ کرلے۔
مُکاشَفَۃُ الْقُلوب میں ہے:آدَمی کے پیٹ میں جب حرام لقمہ پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اُس پر لعنت کرتاہے جب تک (حرام لقمہ )اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں(یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودگی میں)موت آ گئی تو جہنم میں داخل ہو گا،(مکاشَفَۃُ القُلوب،الباب الاول فی بیان الخوف،)
جب اس قدر حرام کے ایک لقمہ پر پکڑ ہے تو ہر مسلمان کیلئے، پیشہ، ملازمت، معیشت وتجارت سے پہلے ضروری ہی نہیں بلکہ فرض بھی ہےکہ وہ اس کی تحقیق کرلیں کہ وہ جس کام کو کرنے جارہاہے کیا شریعت کی نگا ہ میں وہ جائز بھی ہے یانہیں؟
اب تک تو وہ باتیں تھیں جس کو حرام صریح کہتے ہیں،اور ان سے بچنا فرض ہے ،اسی کے ساتھ شریعت کا مطالبہ مشتبہ امور کو بھی چھوڑ دینے کا ہے خواہ وہ مشتبہ لقمہ ہو یا اور کوئی چیز ارشاد نبی ﷺ ہے ،

(مشتبہ امور سے بچنا بھی ضروری ہے )

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’کہ حلال ظاہر ہے حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے  لہذا جس شخص نے مشتبہ چیزوں سے پرہیزکیا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو پاک ومحفوظ کرلیا (یعنی مشبہ امور سے بچنے والے کے ایمان کی یقناًمحفوظ ہے) اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں مبتلاء ہوا وہ حرام میں مبتلاء ہوگیا اور اس کی مثال اس چروا ہے کی سی ہے جو ممنوعہ چراگاہ کے آس پاس چراتا  ہے ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ اس کے جانور اس ممنوعہ چرا گاہ  میں گھس کر چرنے لگیں… جان لوکہ ہر باد شاہ کی ممنوعہ چرا گاہ ہوتی ہے اور یا رکھو! کی اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چرا گاہ حرام چیزیں ہیں… اور اس بات کو بھی ملحوظ رکھو! کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکرا ہے جب وہ درست حالت میں رہتا ہے ، تو پورا جسم درست حالت میں رہتا ہے اور جب اس ٹکرے میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے… یاد رکھو! گوشت کا وہ ٹکرا دل ہے‘‘۔ (بخاری ومسلم)

وَعَن النواس بن سمْعَان رَضِي الله عَنهُ عَن النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ الْبر حسن الْخلق وَالْإِثْم مَا حاك فِي صدرك وكرهت أَن يطلع عَلَيْهِ النَّاس
(رَوَاهُ مُسلم)
حضرت نواس بن سمعان ؓ سے روایت کہ نبی رحمت ﷺ نے فرمایا نیکی اچھے اخلاق کو اور گناہ دل میں کھٹکنے والی چیز کو کہتے ہیں جس پر دوسروں کا مطلع ہو نا تم بر ا سمجھو،
اللہ تعالی پو ری امت مسلمہ کوحرام اور مشتبہ امور سے حفاظت فرمائے آمین

No comments:

Post a Comment

شکریہ آپکا کومینڈ مفتی صاحب کے میل تک پہنچ گیا