﷽
حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب مدظلہ العالی کے ویڈیو بیان کا لنک نیچے ہے ۔
مسائل ووٹ
شرعاً ووٹ کی حیثیت فقہاء کرام کی عبارت کی روشنی میں تین قسم کی ہو سکتی ہے(1) شہادت(2) شفاعت(3) وکالت ۔ اگر ووٹ کو شہادت کے درجے مانا جائےاور ووٹر پر کسی ایک امیدوار کی اہلیت اور صداقت ودیانت منکشف ہوجائے،تو پھر اپنے ووٹ کا استعمال اس صاحب کے حق میں واجب ہے۔اور اگرووٹ کو شفاعت ، وکالت کےدرجے میں ماناجائے تو مذکورہ صفات کے حامل امیدوار کے حق میں ووٹنگ امرِ مستحب ہے۔
مسلم خواتین کا بوتھ پر ووٹ دینے جانا
خواتین انتخابات کے موقع پر اپنا حق رائے دہی ( ووٹ ) کا استعمال کرسکتی ہیں بشرطیکہ پردہ اور دیگر امور شرعیہ کا لحاظ وخیال کریں ، ورنہ ارتکابِ معصیت سے ووٹ کا ترک افضل ہے ، حضرت مفتی ٔ اعظم مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عورتوں کا ووٹر بننا ممنوع نہیں ہے ، ہاں ! ووٹ دیتے وقت شرعی پردہ کا لحاظ رکھنا لازم ہوگا ۔ ( کفایت المفتی ج9ص 349۔ وکذا فی فتاویٰ حقانیہ ، ج2ص 213۔)
معتدہ کا ووٹنگ کے لیے نکلنا
جو عورت طلاق یا وفات کی عدت گذار رہی ہے ، اس کے لیے ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے ، کیوں کہ الیکشن میں ووٹ ڈالنا ایسی ضرورت نہیں ہے ، جس کی وجہ سے عدت میں عورت کو نکلنے کی اجازت دی جائے ۔
ووٹ کے بدلے مال لینا
تینوں حیثیتوں(شہادت،شفاعت،وکالت) کے اعتبار سے ووٹ مالِ متقوم نہیں یعنی ایسا مال نہیں ہے جس سے شرعاً نفع اٹھانا ممکن ہو ، جب کہ شرعاً کسی بھی چیز کی خریدو فروخت جائز ہونے کے لیے اس کا مالِ متقوم ہونا ضروری ہے ، اس لیے ووٹ کی خرید وفروخت شرعاًجائز نہیں ہے ۔ نیز رشوت لینے والے پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے :
عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ، وَالْمُرْتَشِيَ فِي الْحُكْمِ "۔(ترمذی،باب مَا جَاءَ فِي الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي فِي الْحُكْمِ، 1336۔)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلے میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے ۔
دوسرے جھوٹی گواہی دینے کا ، کیوں کہ وہ ایک شخص کو نامناسب یا کم مناسب خیال کرنے کے باوجود اس کے حق میں ووٹ کا استعمال کر رہا ہے ، اور جھوٹی گواہی دینے کو رسول اللہ ﷺ نے شرک کا ہم درجہ قرار دیا ہے :
فَقَالَ: عُدِلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ، بِالْإِشْرَاكِ بِاللَّهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ قَرَأَ: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ، ( ابوداؤد،باب فِي شَهَادَةِ الزُّورِ،3599۔)
آپ ﷺنے فرمایا:جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دہرایا پھر یہ آیت پڑھی۔۔۔بتوں کی گندگی اور جھوٹی باتوں سے بچتے رہو 147(مستفاد:کتاب الفتاویٰ جلد 6۔)
ووٹ کے بدلے لی ہوئی رقم کا حکم
جب اوپر کے سطور سے معلوم ہوگیا کہ ووٹ کے بدلے رقم لینا رشوت ہے ، جو نص قطعی سے حرام ہے ؛ اسلئےاس کا استعمال اپنی ذات پر یا کسی رفاعی کام میں مثلا:مسجد کی تعمیر ، یا مسجد ، عیدگاہ اور قبرستان کی زمین کی خریدی ، اور ان کی چہار دیواری وغیرہ بنانے میں صرف کرنا شرعاً ناجائز وحرام ہے ۔
عورتوں کا ریزرویشن بل سے فائدہ اٹھا کر مخصوص سیٹوں کا انتخاب لڑنا
عورت کا بے پردہ رہنا کسی حال میں جائز نہیں، دوسری طرف اگر خواتین کے لئے مخصوص سیٹوں پر مسلم عورتیں اُمیدوار ہی نہ بنیں ، تو ایسی صورت میں حکومت کی سیٹوں میں مسلم نمائندگی مفقود ہونے کی وجہ سے قومی وملی نقصان کا اندیشہ؛ بلکہ یقین ہے۔ بریں بنا ( اَھون البلیتین )کو اختیار کرتے ہوئے مسلم عورتوں کو شرعی حدود میں رہ کر ایسی سیٹوں میں انتخاب میں حصہ لینے کی گنجائش دی جائے گی، اور اُن پر لازم ہوگا کہ انتخاب سے پہلے اور انتخاب کے بعد ممکن حدتک شرعی پابندیوں کا لحاظ رکھیں، اگر نہیں رکھیں گی تو گنہگار ہوں گی۔ (مستفاد: دعوتِ فکر وعمل ،ص317۔کتاب النوازل ،ج17۔)
الیکشن کے موقع پر لگی ہوئی سیاہی کا حکم
بعض ارباب فتاویٰ نے کہاہےکہ، انگشت پر لگائی جانے والی یہ روشنائی انگلی پر لگے رہنے کی حالت میں وضو وغسل صحیح ہے ، کیوں کہ وہ تہہ دار نہ ہونے کی وجہ سے وضو اور غسل میں بدن تک پانی پہنچنے کو نہیں روکتی ہے،جبکہ خود بند نے تجربہ کیا ہے کہ وہ سیاہی سوکھنے کے بعد ہلکے پنٹ جیسی ہوجاتی ہے جوپانی پہنچنے سے مانع ہوتی ہے ،یہ تومعلوم ہی ہے کہ وضومیں اعضائے وضوکابھیگ جانااورپانی کاہرجگہ پہونچناضروری ہے،مگرالیکشن کی ضرورت کوسامنے رکھتے ہوئے علیٰ الاطلاق منع نہیں کیاجاسکتا،لہٰذاپیشگی احتیاط کے طورپراس انگلی پرکوئی چکنی چیز لگالی جائے یافوری طورپراسے رگڑدیاجائے ،اگرکسی نے ایسانہیں کیااورداغ پڑگیاتوحتیٰ الامکان اس کے چھڑانے کی کوشش کرے ورنہ وضونہیں ہوگا،اوراگررگڑنےسے کھال کے چھلنے اورخون کے بہنے کاظن ِغالب ہوجیساکہ عموماایساہی ہوتاہےتواوپرہی سے پانی کابہالینا کافی ہے۔واللّٰہ أعلم بالصواب (مستفاد:فتاویٰ ریاض العلوم جلد دوم )
ہم کس کو ووٹ دیں ؟
2019 کی لوک سبھا الیکشن میں ووٹ کس کو دیں؟ یقینا اس وقت ہر مسلمان کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اس مرتبہ ووٹ کس کو دیں ؟
(1) ایسی سیاسی پارٹی جس کی دفعات و قانون میں اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت شامل نہیں ہے اسے ووٹ دینا چاہیے۔
(2) کسی جگہ دو پارٹی کے امیدوار کھڑے ہوں اور وہ دونوں سیکولر اور جمہوریت پسند ہو تو پھر اندونوں امید وار میں ووٹ اس سیکولر و جمہوریت کے حامل امیدوار کو دے جس کی جیت کی امید زیادہ ہو چاہے اس کے مد مقابل میں کسی بھی پارٹی کا کوئی بھی فردہو۔
حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب مدظلہ العالی کا ایک تازہ بیان جس سے آپ کومعلوم ہو جائیگا کہ اس وقت ہمیں کیا کرناچاہیے اور کس پارٹی کو ووٹ دینا چاہیے، حضرت مولانا کا بیان سننے کیلئے نیچے کی لنک پر کلیک کریں۔