Tuesday, December 18, 2018

عمرہ کاتفصیلی طریقہ


سم اللہ الرحمن الرحیم
(عمرہ کاتفصیلی طریقہ)

(عمرہ کا حکم) صاحبِ استطاعت کے لئے زندگی میں ایک مرتبہ عمرہ ادا کرنا سنت ہے اور ایک سے زیادہ کرنا مستحب ہے۔

(عمرہ کی فضیلت)

حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو دونوں عمروں کے درمیان سرزد ہوں اور حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے۔ (بخاری ومسلم)حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پے درپے حج وعمرے کیا کرو۔ بے شک یہ دونوں (یعنی حج وعمرہ) غریبی اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے اور سونے وچاندی کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حج وعمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تو وہ قبول فرمائے، اگر وہ اس سے مغفرت طلب کریں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے۔( ابن ماجہ)حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رمضان میں عمرے کا ثواب حج کے برابر ہے۔ (بخاری ومسلم) دوسری روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رمضان میں عمرہ کرنامیرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔( مسلم)

(سفر کا آغاز)
گھر سے روانگی کے وقت دو رکعات نفل ادا کریں اور اللہ تعالیٰ سے سفر کی آسانی کے لئے اور عمرہ کے قبول ہونے کی دعائیں کریں۔ اپنی ضروریات کے سامان کے ساتھ اپنا پاسپورٹ، ٹکٹ اور اخراجات کے لئے رقم بھی ساتھ لے لیں۔ گھر سے نکلنے سے قبل دیکھ لیں کہیں ضروری سامان چھوٹ تو نہیں گیا۔
(سفر میں نماز کو قصر کرنا)
چونکہ آپکا یہ سفرہندوستان سے ہے اس لئے آپ مسافر ہیں لہذا ظہر، عصر اور عشا کی چار رکعات کے بجائے دو دو رکعات فرض ادا کریں اور فجر کی دو اور مغرب کی تین ہی رکعات ادا کریں۔ البتہ کسی مقیم امام کے پیچھے نماز پڑھیں تو امام کے ساتھ پوری نماز ادا کریں۔ ہاں اگر امام بھی مسافر ہو تو چار کے بجائے دو ہی رکعات پڑھیں۔ سنتوں اور نفل کا حکم یہ ہے کہ اگر اطمینان کا وقت ہے تو پوری پڑھیں اور اگر جلدی ہے یا تھکن ہے یا کوئی اور دشواری ہے تو نہ پڑھیں، کوئی گناہ نہیں البتہ وتر اور فجر کی دو رکعات سنتوں کو نہ چھوڑیں۔رہی بات مسجد حرام اور مسجد نبوی میں تو آپ وہاں اگر جماعت سے نماز پڑھ رہے ہیں تو پوری پڑھیں گے۔
(عمرہ کے ارکان)
عمرہ میں چار کام کرنے ہوتے ہیں: (1)میقات سے پہلے عمرہ کا احرام باندھنا،آپ ایئر پوٹ پر ہی باندھ لیں۔(2)مسجد حرام پہونچ کر بیت اللہ کا طواف کرنا۔(3)صفا مروہ کی سعی کرنا۔(4)سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا۔
(احرام)
احرام باندھنے سے پہلے طہارت اور پاکیزگی کا خاص خیال رکھیں،ناخن کاٹ لیں اور زیر ناف وبغل کے بال صاف کرلیں، سنت کے مطابق غسل کرلیں اگروہاں مشکل ہو تو صرف وضو کرنا بھی کافی ہے اور احرام کی نیت سے دو رکعت نماز نفل ادا کریں اور اس کے بعد احرام کا کپڑا پہن کرعمرہ کرنے کی نیت کریں ’’اے اللہ! میں آپ کی رضا کے واسطے عمرہ کی نیت کرتاہوں اس کو میرے لئے آسان فرما اور اپنے فضل وکرم سے قبول فرما‘‘اس کے بعد مرد حضرات بقدر آواز سے تلبیہ پڑھے:
لَبَّیک، اَللّٰمَّ لَبَّیک، لَبَّیکَ لَا شَرِیکَ لَکَ لَبَّیک، اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَاشَرِیکَ لَک‘‘ ترجمہ:میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں،تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بیشک تمام تعریفیں اور سب نعمتیں تیری ہی ہیں، ملک اور بادشاہت تیری ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔
اتنا کر لینے کے بعد آپ محرم ہو گئے اب آپ کیلئے وہ سارے کام حرام ہوگئے جو حالت احرام جائز نہیں ہے۔
نوٹ:مرد حضرات کا احرام صرف دو چادر ہیں ایک کو لنکی کی طرح باندھ لے اور دوسرے کو چادر کی طرح اڑھ لے عورتوں کیلئے احرام میں کوئی خاص لباس نہیں، بس غسل وغیرہ سے فارغ ہوکر عام سادہ لباس پہن لیں اور چہرہ سے کپڑا ہٹالیں پھر نیت کرکے آہستہ سے تلبیہ پڑھیں۔ عورتیں تلبیہ ہمیشہ آہستہ آواز سے پڑھیں۔
نوٹ:اگر آپ پہلے مدینہ منورہ جارہے ہیں تو مدینہ منورہ جانے کے لئے ہندوستان سے احرام کی ضرورت نہیں ہے، جب آپ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جائیں تو پھر مدینہ منورہ کی میقات(مسجد ذو الحلیفہ) پر احرام باندھیں۔مسئلہ:احرام کی حالت میں احرام کے کپڑے اتارکر غسل بھی کرسکتے ہیں اور احرام تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔
(احرام کے ممنوعات)
یہ ممنوعاتِ احرام مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے برا بر ہیں: (1) خوشبو استعمال کرنا۔ (2)ناخن کاٹنا۔ (3)جسم سے بال دور کرنا۔ (4)چہرہ کا ڈھانکنا۔ (5)میاں بیوی والے خاص تعلق اور جنسی شہوت کے کام کرنا۔ (6)خشکی کے جانور کا شکار کرنا۔
یہ ممنوعاتِ احرام صرف مردوں کے لئے ہے: (1)سلے ہوئے کپڑے پہننا۔ (2) سر کو ٹوپی یا پگڑی وغیرہ سے ڈھانکنا۔ (3)ایسا جوتا پہننا جس سے ٹکھنا چھپ جائے۔
(مکروہاتِ احرام)
(1)بدن سے میل دور کرنا۔(2)صابن کا استعمال کرنا۔(3)کنگھا کرنا۔
(مسجد حرام کی حاضری)
مکہ مکرمہ پہونچ کر سامان وغیرہ اپنے قیام گاہ پر رکھ کر اگر آرام کی ضرورت ہو تو تھوڑا آرام کرلیں ورنہ وضو یا غسل کرکے عمرہ کرنے کے لئے مسجد حرام کی طرف انتہائی سکون اور اطمینان کے ساتھ تلبیہ (لبیک) پڑھتے ہوئے چلیں۔ عظمت وجلال کا لحاظ رکھتے ہوئے دایاں قدم اندر رکھ کر مسجد میں داخل ہونے کی دعا پڑھتے ہوئے مسجد حرام میں داخل ہوجائیں۔
(کعبہ پر پہلی نظر)
جس وقت خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑے تو اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرکے جو چاہیں اپنی زبان میں اللہ تعالیٰ سے مانگیں کیونکہ یہ دعاؤں کے قبول ہونے کا خاص وقت ہے۔
(طواف کی فضیلت)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے،کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے طواف کے سات چکر کئے اوراچھی طرح اس کی گنتی کی تو اس کو ایک غلام آزاد کرنے کاثواب ملے گا،اور میں نے حضرت نبی کریم ﷺ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ طواف کرنے والا جو بھی قدم رکھتا ہے اوراٹھاتا ہے تو اس کیلئے دس نیکیاں لکھدی جاتی ہیں، اور دس گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں،اور دس درجات بلند کردیئے جاتے ہیں۔ (رواہ احمد ۲/۳)
ابوہریرہ ؓ نے یہ حدیث بیان کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا رکن یمانی پر ستر فرشتے مقرر ہیں جو بھی یہاں اللّہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِي الدُّنْیَاوَالْآخِرَۃِ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْیاَ حَسَنَۃً وَفِي الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَاعَذَابَ النَّارِ! پڑھے تو فرشتے آمیں کہتے ہیں۔ 
(طواف کا طریقہ)
مسجد حرام میں داخل ہوکر کعبہ شریف کے اس کونہ کے سامنے آجائیں جس میں حجر اسود لگا ہوا ہے جس کے سامنے پیلر پر ہری لائٹ لگی ہے اور طواف کی نیت کرلیں۔ پھر حجر اسود کے سامنے کھڑے ہوکر بسم اللہ اللہ اکبر کہتے ہوئے اگر ممکن ہو تو حجر اسود کا بوسہ لیں ورنہ دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو حجر اسود کی طرف کرکے ہاتھوں کا بوسہ لیں اور پھر کعبہ کو بائیں طرف رکھ کر طواف کو رمل اور اضطباع سے شروع کردیں۔ طواف کرتے وقت نگاہ سامنے رکھ کر حسب عادت وسہولت چلیں، یعنی کعبہ شریف آپ کے بائیں جانب رہے۔ طواف کے دوران بغیر ہاتھ اٹھائے چلتے چلتے دعائیں کرتے رہیں یا اللہ کا ذکر کرتے رہیں اس سلسلے میں کوئی خاص دعا نہیں ہے آپکو جو مسنون دعائیں یا دہوں وہ پڑھیں۔ہاں ہاتھ میں کتاب لیکر چلتے چلتے پڑھنا مناسب نہیں ہے، رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان چلتے ہوئے یہ دعا بار بار پڑھیں: رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْیاَ حَسَنَۃً وَفِي الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَاعَذَابَ النَّارپھر حجر اسود کے سامنے پہونچ کر اسکی طرف ہتھیلیوں کا رخ کریں، بسم اللہ اللہ اکبر کہیں اور ہتھیلیوں کا بوسہ لیں۔ اس طرح آپ کا ایک چکر پورا ہوگیا، اس کے بعد باقی چھ چکر بالکل اسی طرح کریں۔ کل سات چکر کرنے ہیں، آخری چکر کے بعد بھی حجر اسود کا استلام کریں اور صفا جانے سے پہلے دو رکعت نفل طواف پڑھیں یہ واجب ہے۔
(طواف سے متعلق بعض اہم مسائل)
تلبیہ جو احرام باندھنے کے بعد سے برابر پڑھ رہے تھے، طواف شروع کرنے سے پہلے بند کردیں۔طواف کے دوران کوئی مخصوص دعا ضروری نہیں ہے بلکہ جو چاہیں اور جس زبان میں چاہیں دعا مانگتے رہیں،اگر کچھ نہ بھی پڑھیں بلکہ خاموش رہیں تب بھی طواف صحیح ہوجاتا ہے۔عمرہ کے طواف اور ہر اس طواف میں جس کے بعد سعی کر نا ہو ’’رمل اور اضطباع ‘‘ مسنون ہے ، رمل کا مطلب یہ ہے کہ طواف کے شروع کے تین چکر میں اکڑ کر کاندھے ہلاتے ہوئے کچھ تیزی کے ساتھ قریب قریب قدم رکھتے ہوئے پیر کے اگلے حصہ (یعنی پنجوں) پر چلے۔ ہاں! طواف میں اتنا ہجوم ہو کہ رمل نہ کرسکے یا ضعیف یا بوڑھا آدمی تو کوئی حرج نہیں۔اضطباع یہ ہے کہ اوپر کی چادر کے داہنے پلے کو داہنے بغل کے نیجے سے نکال کر بائیں کاندھے پر ڈال دیں اس طرح کہ داہنا کاندھا کھلا رہے اور دونوں پلے بائیں کاندھے پر پڑے رہیں۔ طواف شروع کرنے سے پہلے اضطباع کرلینا چاہئے،اضطباع طواف کے ساتوں چکروں میں رہیگا۔ ابتدائے طواف کے وقت مذکورہ دعا پڑھنی چاہیے ’’بِسْمِ اللہِ وَااللہُ اَکْبَرْ اَللّٰھُمَّ اِیْمَاناً بِکَ وَتَصْدِیقًا بِکِتَابِکَ وَوَفاءً بِعَھْدِکَ وَاتِّباعًا لِّسُنَّۃِ نَبِیِّکَ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ‘‘ اور رمل کے وقت یہ دعا پڑھیں ’’ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ عمرًا مَّبْرُوْرًا وَذنْبًا مَّغْفُوْرًا وَسَعْیًا مَّشْکُوْرًا‘‘ اور بقیہ چار چکروں میں یہ دعا پڑھیں ’’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ وَارْحَمْ، وَاعْفُ عَمَّا تَعْلَمْ وَاَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَکْرَمْ، رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃ وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘۔ اگریہ دعائیں یا د نہ ہوں کوئی حرج نہیں ہے،اس کے بغیر بھی طواف ہو جائیگا۔طواف کے دوران جماعت کی نماز شروع ہونے لگے یا تھکن ہوجائے تو طواف روک دیں، پھر جس جگہ سے طواف بند کیا تھا اسی جگہ سے طواف شروع کردیں۔اگر طواف کے دوران وضو ٹوٹ جائے توطواف روک دیں اور وضو کرکے اسی جگہ سے طواف شروع کردیں جہاں سے طواف بند کیا تھاکیونکہ بغیر وضو کے طواف کرنا جائز نہیں ہے۔طواف نفلی ہو یا فرض، اس میں سات ہی چکر ہوتے ہیں،نیز اس کی ابتداء حجر اسود کے استلام سے ہی ہوتی ہے اور اس کے بعد دو رکعات نماز پڑھی جاتی ہے۔اگر طواف کے چکروں کی تعداد میں شک ہوجائے تو کم تعداد شمار کرکے باقی چکروں سے طواف مکمل کریں۔مسجد حرام کے اندر اوپر یا نیچے یا مطاف میں کسی بھی جگہ طواف کرسکتے ہیں۔طواف حطیم کے باہر سے ہی کریں۔ اگر حطیم میں داخل ہوکر طواف کریں گے تو وہ معتبر نہیں ہوگا۔اگر کسی عورت کو طواف کے دوران حیض آجائے تو فوراً طواف بند کردے اور مسجد سے باہر چلی جائے۔ہجوم ہونے کی صورت میں خواتین حجر اسود کا بوسہ لینے کی کوشش نہ کریں، بس دور سے اشارہ کرنے پر اکتفا کریں۔ اسی طرح ہجوم ہونے کی صورت میں رکن یمانی کو بھی نہ چھوئیں۔اگر حجر اسود کے سامنے سے اشارہ کئے بغیر گزر جائیں اور ازدحام زیادہ ہے تو حجر اسود کے استلام کے لئے دوبارہ واپس آنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ طواف کے دوران حجر اسود کا بوسہ لینا یا اس کی طرف اشارہ کرنا سنت ہے واجب نہیں ہے۔

دو رکعت نماز: طواف سے فراغت کے بعد مقامِ ابراہیم کے پاس آئیں اگر سہولت سے مقامِ ابراہیم کے پیچھے جگہ مل جائے تو وہاں‘ورنہ مسجد حرام میں کسی بھی جگہ طواف کی دو رکعات ادا کریں۔ طواف کی اِن دو رکعات کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورہ کافرون اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھی جائے۔ ہجوم کے دوران بلکہ عورتیں مقام ابراہیم کے پاس طواف کی دو رکعات نماز پڑھنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ اس سے طواف کرنے والوں کو تکلیف ہوتی ہے، بلکہ مسجد حرام میں کسی بھی جگہ ادا کرلیں۔
(آب زمزم)
طواف کی دو رکعت نفل سے فراغت کے بعد قبلہ رو ہوکر بسم اللہ پڑھ کر تین سانس میں خوب سیر ہوکر زمزم کا پانی پئیں اور الحمد للہ کہہ کر یہ دعا پڑھیں (اگر یاد ہو): اَللّٰہُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ عِلْمَاً نَافِعَاً وَرِزْقَاً وَاسِعَاً وَشِفَاءً مِنْ کُلِّ دَاءٍ (اے اللہ! میں آپ سے نفع دینے والے علم کا اور کشادہ رزق کا اور ہر مرض سے شفایابی کا سوال کرتا ہوں)۔ مسجد حرام میں ہر جگہ زمزم کا پانی بآسانی مل جاتا ہے۔ زمزم کا پانی بیٹھ کر بھی پی سکتے ہیں البتہ کھڑے ہوکر پینا مستحب ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمزم پلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیا۔ (بخاری) زمزم کا پانی پی کر اس کا کچھ حصہ سر اور بدن پر ڈالنا بھی مستحب ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: زمزم کا پانی جس نیت سے پیا جائے وہی فائدہ اس سے حاصل ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روئے زمین پر سب سے بہتر پانی زمزم ہے جو بھوکے کے لئے کھانا اور بیمار کے لئے شفا ہے۔( طبرانی)
(صفا مروہ کے درمیان سعی)
صفا پر پہونچ کر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے دعا کی طرح ہاتھ اٹھالیں اور تیں مرتبہ اللہ اکبر کہیں۔ اس کے بعد کھڑے ہوکر خوب دعائیں مانگیں۔ یہ دعاؤں کے قبول ہونے کا خاص مقام اور خاص وقت ہے۔ دعاؤں سے فارغ ہوکر نیچے اترکر مروہ کی طرف عام چال سے چلیں۔ دعائیں مانگتے رہیں یا اللہ کا ذکر کرتے رہیں۔ سعی کے دوران بھی کوئی خاص دعالازم نہیں سبز ستونوں کے درمیان (جہاں ہری ٹیوب لائٹیں لگی ہوئی ہیں اس کے درمیان مرد حضرات تیزی سے چلیں لیکن عورتیں عادت کے موافق چلیں۔ مروہ پر پہونچ کرقبلہ کی طرف رخ کرکے ہاتھ اٹھاکر دعائیں مانگیں، یہ سعی کا ایک پھیرا ہوگیا۔ اسی طرح مروہ سے صفا کی طرف چلیں۔ یہ دوسرا چکر ہوجائے گا۔ اس طرح آخری وساتواں چکر مروہ پر ختم ہوگا۔ ہر مرتبہ صفا اور مروہ پر پہونچ کر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے دعائیں کرنی چاہئیں۔خلاصہ سعی صفا سے شروع ہو گا اور مروہ پر ختم۔
(سعی سے متعلق بعض اہم مسائل)
سعی کے لئے وضو کا ہونا ضروری نہیں البتہ افضل وبہتر ہے۔حیض (ماہواری) کی حالت میں بھی سعی کی جاسکتی ہے البتہ طواف حیض کی حالت میں ہرگز نہ کریں بلکہ مسجد حرام میں بھی داخل نہ ہوں۔یعنی اگر کسی عورت کو طواف کے بعد ماہواری شروع ہوجائے تو ناپاکی کی حالت میں سعی کرسکتی ہے۔طواف سے فارغ ہوکر اگر سعی کرنے میں تاخیر ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔ سعی کو طواف کے بعد کرنا شرط ہے، ، صفا ومروہ پر پہونچ کر بیت اللہ کی طرف ہاتھ سے اشارہ نہ کریں بلکہ اسکی جانب چہرہ کرکے دعا کی طرح دونوں ہاتھ اٹھاکر دعائیں کریں۔سعی کے دوران نماز شروع ہونے لگے یا تھک جائیں تو سعی کو روک دیں پھر جہاں سے سعی کو بند کیا تھااسی جگہ سے شروع کردیں۔طواف کی طرح سعی بھی پیدل چل کر کرنا چاہئے، البتہ اگر کوئی عذر ہو تو وہیل چےئر پر بھی سعی کرسکتے ہیں۔اگر سعی کے چکروں کی تعداد میں شک ہوجائے تو کم تعداد شمار کرکے باقی چکروں سے سعی مکمل کریں۔خواتین سعی میں سبز ستونوں (جہاں ہری ٹیوب لائٹیں لگی ہوئی ہیں) کے درمیان مردوں کی طرح دوڑکر نہ چلیں۔اگر چاہیں تو سعی کے بعد بھی دو رکعات نماز ادا کرلیں۔
(بال کٹوانا)
طواف اور سعی سے فارغ ہوکرعورتیں سر کے بال کٹوادیں۔ مردوں کے لئے منڈوانا افضل ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بال منڈوانے والوں کے لئے رحمت ومغفرت کی دعا تین مرتبہ فرمائی ہے اور بال کٹوانے والوں کے لئے صرف ایک مرتبہ، نیز اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پاک کلام قرآن کریم میں حلق کرانے والوں کا ذکر پہلے اور بال کٹوانے والوں کا ذکر بعد میں کیا ہے۔ لیکن خواتین چوٹی کے آخر میں سے ایک یا دو پورے کے برابر بال خود کاٹ لیں یا کسی محرم سے کٹوالیں۔
تنبیہ: بعض مرد حضرات چند بال سر کے ایک طرف سے اور چند بال دوسری طرف سے قینچی سے کاٹ کر احرام کھول دیتے ہیں، یہ صحیح نہیں ہے۔ ایسی صورت میں جمہور علماء کے نزدیک دم واجب ہوجائے گا، لہذا یاتو سر کے بال منڈوائیں یا اس طرح بالوں کو کٹوائیں کہ پورے سر کے بال کٹ جائیں۔ اگر بال زیادہ ہی چھوٹے ہوں تو منڈوانا ہی لازم ہے۔ سر کے بال منڈوانے یا کٹوانے سے پہلے نہ احرام کھولیں اور نہ ہی ناخن وغیرہ کاٹیں ورنہ دم لازم ہوجائے گا۔بال کا حدود حرم میں کٹوانا ضروری ہے، لہذا جدہ میں بال منڈوانے کی صورت میں دم واجب ہوگا۔جب بال کٹوانے کا وقت ہوجائے یعنی طواف وسعی سے فراغت ہوگئی تو ایک دوسرے کے بال کاٹ سکتے ہیں۔
(عمرہ پورا ہوگیا)
اب آپ کا عمرہ پورا ہوگیا،اب آپ کے لئے وہ سب چیزیں جائز ہوگئیں جو احرام کی وجہ سے ناجائز ہوگئی تھیں۔
(متعدد عمرے کرنا)
عمرہ کرنے کے بعد اپنی طرف سے یا اپنے متعلقین کی طرف سے نفلی عمرے کرنا چاہیں تو حل میں کسی جگہ مثلاً مسجد عائشہ( تنعیم)جاکر غسل کرکے احرام باندھیں، دو رکعات نماز پڑھ کر نیت کریں کہ اے اللہ میں فلاں کی جانب سے عمرہ کررہاہوں اور تلبیہ پڑھیں پھر عمرہ کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق عمرہ کریں۔بعض علماء فرماتے ہیں کہ با ر بار عمرہ کر نے سے بہتر ہے کہ بار بار طواف کریں،میرے خیال میں جو حضرات دور دراز سے آ تے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ دو تین مرتبہ عمرہ کرکے باقی وقت طواف میں لگا ئیں،نیز اگر طواف میں تھک جائیں تو پھر قرآن اور نفل نمازیں بھی پڑھتے رہے کہ حرم میں تمام عبادتوں کا ثواب بہت زیادہ ہے۔عورتیں مرد کی طرف سے اور مرد عورتوں کی طرف سے نفلی عمرے د کرسکتے ہیں۔
(عورتوں کیلئے مخصوص اعمال)
1. عورتوں کیلئے احرام میں کوئی خاص لباس نہیں، بس غسل وغیرہ سے فارغ ہوکر عام سادہ لباس پہن لیں عورتی تلبیہ آہستہ پڑھیں گیں۔2. طواف میں رمل اور اضطباع نہیں کریں گیں 3. سعی کرتے وقت دونوں ہری لائٹ کے درمیا ن تیزی سے نہ چلیں گیں۔4. احرام کھولنے کے وقت کا قصر کریں گیں۔
(مخصوص مقامات)
(1)مقامِ ابراہیم: یہ ایک پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کو تعمیر کیا تھا، اس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشانات ہیں۔ یہ کعبہ کے سامنے ایک جالی دار شیشے کے چھوٹے سے قبہ میں محفوظ ہے جس کے اطراف پیتل کی خوشنما جالی نصب ہے۔ یہ قبولیت دعا کی جگہ ہے۔(2)ملتزم: حجر اسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیان دو میٹر کے قریب کعبہ کی دیوار کا جو حصہ ہے وہ ملتزم کہلاتا ہے۔ اور اس سے چمٹ کر خوب دعائیں مانگیں۔ یہ دعاؤں کے قبول ہونے کی خاص جگہ ہے۔ ادر رش ہو تو عورتیں ہر گز نہ جائیں۔(3)صفا: اس مقام پر دعا قبول ہوتی ہے۔اورمروہ: اس مقام پر بھی دعا قبول ہوتی ہے۔زمزم: پینے کے بعد دعا قبول ہوتی ہے۔
(4)کعبہ: پر جب پہلی نظر پڑے تو دعا قبول ہوتی ہے۔(5)حطیم میں اور میزاب رحمت کے پاس دعاقبول ہو تی ہے۔(6)حجر اسود اور رکن یمانی کے پاس اور غلاف کعبہ پکڑ کر دعا قبول ہوتی ہے۔(6)مدینہ: مدینہ میں روضہ اقدس کے قریب،ریاض الجنہ میں اور ریاض الجنہ میں چندستون ہیں وہاں دعا قبول ہوتی ہے۔(8) 



نوٹ: پورا مسجد حرام اور مسجد نبوی میں جہاں بھی دعا کئ جائے ان شاء اللہ وہ دعا ضرور قبول ہوتی ہے ۔

Monday, October 29, 2018

کلمات دعایہ

دعاء نبوی ﷺ
پیش کش حضرت مولانا ضیاء الحق صدیقی مہتمم مدرسہ عربیہ قاسم العلوم چند گڑھ کولہا پور



 أَعُوذُ بِاَللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، أَعُوذُ بِاَللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، أَعُوذُ بِاَللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ۔ هُوَ اللَّهُ الَّذِي لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ, هُوَ اللَّهُ الَّذِي لا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ, هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ۔
''سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ  ، سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِيمِ، "۔
'' سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ "۔
''سُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الأَرْضِ، وَسُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا بَيْنَ ذَلِكَ، وَسُبْحَانَ اللهِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ مِثْلَ ذَلِكَ، وَالحَمْدُ لِلَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ مِثْلَ ذَلِكَ''۔
''هُوَ اللَّهُ الَّذِي لا إِلَهَ إِلا هُوَ الرَّحْمَنُ، الرَّحِيمُ، الْمَلِكُ، الْقُدُّوسُ، السَّلامُ، الْمُؤْمِنُ، الْمُهَيْمِنُ، الْعَزِيزُ، الْجَبَّارُ، الْمُتَكَبِّرُ، الْخَالِقُ، الْبَارِئُ، الْمُصَوِّرُ، الْغَفَّارُ، الْقَهَّارُ، الْوَهَّابُ، الرَّزَّاقُ، الْفَتَّاحُ، الْعَلِيمُ، الْقَابِضُ، الْبَاسِطُ، الْخَافِضُ، الرَّافِعُ، الْمُعِزُّ، الْمُذِلُّ، السَّمِيعُ، الْبَصِيرُ،الْحَكَمُ، الْعَدْلُ، اللَّطِيفُ، الْخَبِيرُ، الْحَلِيمُ، الْعَظِيمُ، الْغَفُورُ، الشَّكُورُ، الْعَلِيُّ، الْكَبِيرُ، الْحَفِيظُ، الْمُقِيتُ، الْحَسِيبُ، الْجَلِيلُ، الْكَرِيمُ، الرَّقِيبُ، الْمُجِيبُ، الْوَاسِعُ، الْحَكِيمُ، الْوَدُودُ، الْمَجِيدُ، الْبَاعِثُ، الشَّهِيدُ، الْحَقُّ، الْوَكِيلُ، الْقَوِيُّ، الْمَتِينُ، الْوَلِيُّ، الْحَمِيدُ، الْمُحْصِي، الْمُبْدِئُ، الْمُعِيدُ، الْمُحْيِي، الْمُمِيتُ، الْحَيُّ، الْقَيُّومُ، الْوَاجِدُ، الْمَاجِدُ، الْوَاحِدُ، الصَّمَدُ، الْقَادِرُ، الْمُقْتَدِرُ، الْمُقَدِّمُ، الْمُؤَخِّرُ، الأَوَّلُ، الآخِرُ، الظَّاهِرُ، الْبَاطِنُ، الْوَالِي، الْمُتَعَالِي، الْبَرُّ، التَّوَّابُ، الْمُنْتَقِمُ، الْعَفُوُّ، الرَّءُوفُ، مَالِكُ الْمُلْكِ، ذُو الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ، الْمُقْسِطُ، الْجَامِعُ، الْغَنِيُّ، الْمُغْنِي، الْمَانِعُ، الضَّارُّ، النَّافِعُ، النُّورُ، الْهَادِي، الْبَدِيعُ، الْبَاقِي، الْوَارِثُ، الرَّشِيدُ، الصَّبُورُ''۔
'' لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ'' ۔
''لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ''.
'' اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّكَ أَنْتَ  الْأَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ''۔
'' اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْحَنَّانُ الْمَنَّانُ، بَدِيعُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ، يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ، أَسْأَلُكَ '' ۔
" اللَّهُمَّ لَكَ الحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الحَمْدُ لَكَ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الحَمْدُ أَنْتَ مَلِكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، وَلَكَ الحَمْدُ أَنْتَ الحَقُّ وَوَعْدُكَ الحَقُّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَقَوْلُكَ حَقٌّ، وَالجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ المُقَدِّمُ، وَأَنْتَ المُؤَخِّرُ، لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ " ۔

صیغہ درود شریف

'' اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ "۔
'' اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ " ۔
'' اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ''۔
'' اللهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ''۔
'' اللهُمَّ وَتَرَحَّمْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا تَرَحَّمْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ''۔
اللهُمَّ وَتَحَنَّنْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا تَحَنَّنْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللهُمَّ وَسَلِّمْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا سَلَّمْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ''۔ 

کلمات استغفار

'' أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الحَيَّ القَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ ''۔ 
'' اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي وَجَهْلِي، وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِي، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي. اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي هَزْلِي وَجِدِّي وَخَطَايَايَ وَعَمْدِي، وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي '' ۔
'' اللهم إني أستغفرك لما تبت إليك منه، ثم عدت فيه، وأستغفرك لما أعطيتك من نفسي ثم لم أوف لك به، وأستغفرك للنعم التي أنعمت بها علي فتقويت بها على معاصيك وأستغفرك لكل خير أردت به وجهك فخالطني فيه ما ليس لك، اللهم لا تخزني فإنك بي عالم، ولا تعذبني فإنك علي قادر ". 
اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّى لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ خَلَقْتَنِى وَأَنَا عَبْدُكَ وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ أَبُوءُ بِنِعْمَتِكَ وَأَبُوءُ بِذَنْبِى فَاغْفِرْ لِى إِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ۔

کلمات استعاذۃ

'' اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ جَهْدِ البَلاَءِ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ، وَسُوءِالقَضَاءِ ، وَ شَمَاتَةِ الأَعْدَاءِ ''۔
'' اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الكَسَلِ وَالهَرَمِ، وَالمَغْرَمِ وَالمَأْثَمِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَفِتْنَةِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ القَبْرِ وَعَذَابِ القَبْرِ، وَشَرِّ فِتْنَةِ الغِنَى، وَشَرِّ فِتْنَةِ الفَقْرِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ ''۔
''اللهُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ ''۔
''اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَحْيَا وَفِتْنَةِ المَمَاتِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ المَأْثَمِ وَالمَغْرَمِ "۔
''« أَلِّفْ اللَّهُمَّ عَلَى الْخَيْرِ بَيْنَ قُلُوبِنَا، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا، وَاهْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ، وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ، وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَبَارِكْ لَنَا فِي أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوبِنَا وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا، وَتُبْ عَلَيْنَا، إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ، وَاجْعَلْنَا شَاكِرِينَ لِنِعْمَتِكَ، مُثْنِينَ بِهَا، قَابِلِيهَا وَأَتِمَّهَا عَلَيْنَا''۔
''اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ، أَنَا شَهِيدٌ أَنَّكَ أَنْتَ الرَّبُّ وَحْدَكَ لَا شَرِيكَ لَكَ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ أَنَا شَهِيدٌ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُولُكَ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ، أَنَا شَهِيدٌ أَنَّ الْعِبَادَ كُلَّهُمْ إِخْوَةٌ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَرَبَّ كُلِّ شَيْءٍ، اجْعَلْنِي مُخْلِصًا لَكَ وَأَهْلِي فِي كُلِّ سَاعَةٍ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ اسْمَعْ وَاسْتَجِبْ، اللَّهُ أَكْبَرُ الْأَكْبَرُ، اللَّهُمَّ نُورَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ اللَّهُ أَكْبَرُ الْأَكْبَرُ، حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ، اللَّهُ أَكْبَرُ الْأَكْبَرُ''۔
'' اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ، وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ، وَالْبُخْلِ، وَالْهَرَمِ،وَعَذَابِ، الْقَبْرِ اللهُمَّ آتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا،وَزَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّاهَا،أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ،وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا''
'' اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ، وَتَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ، وَفُجَاءَةِ نِقْمَتِكَ، وَجَمِيعِ سَخَطِكَ '' .
''  اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشِّقَاقِ، وَالنِّفَاقِ، وَسُوءِ الْأَخْلَاقِ ''۔
'' اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ سَمْعِي، وَمِنْ شَرِّ بَصَرِي، وَمِنْ شَرِّ لِسَانِي، وَمِنْ شَرِّ قَلْبِي، وَمِنْ شَرِّ مَنِيِّي "۔
'' اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُوعِ، فَإِنَّهُ بِئْسَ الضَّجِيعُ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخِيَانَةِ، فَإِنَّهَا بِئْسَتِ الْبِطَانَةُ ''۔
'' اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ البَرَصِ، وَالْجُذَامِ، وَالْجُنُونِ، وَمِنْ سَيِّئِ الْأَسْقَامِ '' ۔ 
'' اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الهَدْمِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ التَّرَدِّي، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْغَرَقِ، وَالْحَرَقِ، وَالْهَرَمِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ يَتَخَبَّطَنِي الشَّيْطَانُ عِنْدَ الْمَوْتِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ فِي سَبِيلِكَ مُدْبِرًا، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أَمُوتَ لَدِيغًا ''۔
'' اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الأَخْلَاقِ، وَالأَعْمَالِ وَالأَهْوَاءِ''۔
'' اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ، وَشَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ''۔

کلمات دعائیہ

''رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ''
''رَبَّنَا لا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْراً كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلا تُحَمِّلْنَا مَا لا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ۔''
'' رَبَّنَا لا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ''
''رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنْ الْخَاسِرِينَ''
''رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ، رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ''۔
''رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيراً''۔
''اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك مِنَ الْخَيْرِ كُلِّهِ عَاجِلِهِ وَآجِلِهِ , مَا عَلِمْت مِنْهُ ، وَمَا لَمْ أَعْلَمْ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّرِّ كُلِّهِ , مَا عَلِمْت مِنْهُ ، وَمَا لَمْ أَعْلَمْ ، اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَك عَبْدُك وَنَبِيُّك ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ مِنْهُ عَبْدُك وَنَبِيُّك ، اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك الْجَنَّةَ ، وَمَا قَرَّبَ إلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ ، أَوْ عَمَلٍ , وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ ، وَمَا قَرَّبَ إلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ ، أَوْ عَمَلٍ ، وَأَسْأَلُك أَنْ تَجْعَلَ كُلَّ قَضَاءٍ تَقْضِيهِ لِي خَيْرًا.''۔
'' رَبِّ أَعِنِّي وَلَا تُعِنْ عَلَيَّ، وَانْصُرْنِي وَلَا تَنْصُرْ عَلَيَّ، وَامْكُرْ لِي وَلَا تَمْكُرْ عَلَيَّ، وَاهْدِنِي وَيَسِّرِ الهُدَى لِي، وَانْصُرْنِي عَلَى مَنْ بَغَى عَلَيَّ، رَبِّ اجْعَلْنِي لَكَ شَكَّارًا، لَكَ ذَكَّارًا، لَكَ رَهَّابًا، لَكَ مِطْوَاعًا، لَكَ مُخْبِتًا، إِلَيْكَ أَوَّاهًا مُنِيبًا، رَبِّ تَقَبَّلْ تَوْبَتِي، وَاغْسِلْ حَوْبَتِي، وَأَجِبْ دَعْوَتِي، وَثَبِّتْ حُجَّتِي، وَسَدِّدْ لِسَانِي، وَاهْدِ قَلْبِي، وَاسْلُلْ سَخِيمَةَ صَدْرِي''۔
'' اللهُمَّ أَصْلِحْ لِي دِينِي الَّذِي هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِي، وَأَصْلِحْ لِي دُنْيَايَ الَّتِي فِيهَا مَعَاشِي، وَأَصْلِحْ لِي آخِرَتِي الَّتِي فِيهَا مَعَادِي، وَاجْعَلِ الْحَيَاةَ زِيَادَةً لِي فِي كُلِّ خَيْرٍ، وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَةً لِي مِنْ كُلِّ شَرٍّ''۔ 
'' اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى، وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى ''.
'' اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الصِّحَّةَ، وَالْعِفَّةَ، وَالْأَمَانَةَ، وَحُسْنَ الْخُلُقِ، وَالرِّضَا بِالْقَدَرِ''۔
'' اللَّهُمَّ اجْعَلْ سَرِيرَتِي خَيْرًا مِنْ عَلَانِيَتِي، وَاجْعَلْ عَلَانِيَتِي صَالِحَةً، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ صَالِحِ مَا تُؤْتِي النَّاسَ مِنَ المَالِ وَالأَهْلِ وَالوَلَدِ، غَيْرِ الضَّالِّ والْمُضِلِّ " ۔
'' اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَالْفَوْزَ بِالْجَنَّةِ، وَالنَّجَاةَ مِنَ النَّارِ''۔ 
'' اللَّهُمَّ احْفَظْنِي بِالْإِسْلَامِ قَائِمًا، وَاحْفَظْنِي بِالْإِسْلَامِ قَاعِدًا، وَاحْفَظْنِي بِالْإِسْلَامِ رَاقِدًا، وَلَا تُشْمِتْ بِي عَدُوًّا حَاسِدًا، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ كُلِّ خَيْرٍ خَزَائِنُهُ بِيَدِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ كُلِّ شَرٍّ خَزَائِنُهُ بِيَدِكَ''۔
" اللهُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا، وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْيَا، وَعَذَابِ الْآخِرَةِ "۔
'' اللَّهُمَّ طَهِّرْ قَلْبِي مِنَ النِّفَاقِ، وَعَمَلِي مِنَ الرِّيَاءِ، وَلِسَانِي مِنَ الْكَذِبِ، وَعَيْنِي مِنَ الْخِيَانَةِ، فَإِنَّكَ تَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ، وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ''۔
'' اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ فِي الأَمْرِ، وَأَسْأَلُكَ عَزِيمَةَ الرُّشْدِ، وَأَسْأَلُكَ شُكْرَ نِعْمَتِكَ، وَحُسْنَ عِبَادَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ لِسَانًا صَادِقًا، وَقَلْبًا سَلِيمًا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا تَعْلَمُ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا تَعْلَمُ، وَأَسْتَغْفِرُكَ مِمَّا تَعْلَمُ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الغُيُوبِ''.
'' اللهُمَّ أَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا، وَأَلِّفْ بَيْنَ قُلُوبِنَا، وَاهْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ، وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ، وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ لَنَا وَمَا بَطَنَ، اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوبِنَا وَأَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا، وَتُبْ عَلَيْنَا؛ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ، وَاجْعَلْنَا شَاكِرِينَ لِنِعْمَتِكَ، مُثْنِينَ بِهَا قَائِلِيهَا، وَأَتِمَّهَا عَلَيْنَا''.
'' اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ نَفْسًا بِكَ مُطْمَئِنَّةً، تُؤْمِنُ بِلِقَائِكَ، وَتَرْضَى بِقَضَائِكَ، وَتَقْنَعُ بِعَطَائِكَ '' ۔
'' اللَّهُمَّ افْتَحْ مَسَامِعَ قَلْبِي لِذِكْرِكَ، وَارْزُقْنِي طَاعَتَكَ وَطَاعَةَ رَسُولِكَ، وَعَمَلًا بِكِتَابِكَ''۔
''اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي أَخْشَاكَ حَتَّى كَأَنِّي أَرَاكَ أَبَدًا حَتَّى أَلْقَاكَ، وَأَسْعِدْنِي بِتَقْوَاكَ، وَلَا تُشْقِنِي بِمَعْصِيَتِكَ''۔
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ، وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ، وَالعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ، اللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَأَهْلِي، وَمِنَ الْمَاءِ البَارِدِ ''
'' اللهم أنت الخلاق العظيم، اللهم إنك سميع عليم، اللهم إنك غفور رحيم، اللهم إنك رب العرش العظيم، اللهم إنك أنت الجواد الكريم، فاغفر لي وارحمني وعافني وارزقني واسترني واجبرني وارفعني واهدني ولا تضلني وأدخلني الجنة برحمتك يا أرحم الراحمين،" ۔
'' اللَّهُمَّ لَكَ الحَمْدُ كَالَّذِي نَقُولُ وَخَيْرًا مِمَّا نَقُولُ، اللَّهُمَّ لَكَ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي، وَإِلَيْكَ مَآبِي، وَلَكَ رَبِّ تُرَاثِي، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ وَوَسْوَسَةِ الصَّدْرِ وَشَتَاتِ الأَمْرِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا يَجِيءُ بِهِ الرِّيحُ''۔
''أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ هَذِهِ اللَّيْلَةِ، وَخَيْرِ مَا فِيهَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا، وَشَرِّ مَا فِيهَا، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ، وَالْهَرَمِ، وَسُوءِ الْكِبَرِ، وَفِتْنَةِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ''۔
''اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي، اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي وَآمِنْ رَوْعَاتِي، اللَّهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ، وَمِنْ خَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي، وَعَنْ شِمَالِي، وَمِنْ فَوْقِي، وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي''۔
''رَضِيتُ بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا" ۔
'' اللهُمَّ خَلَقْتَ نَفْسِي وَأَنْتَ تَوَفَّاهَا، لَكَ مَمَاتُهَا وَمَحْيَاهَا، إِنْ أَحْيَيْتَهَا فَاحْفَظْهَا، وَإِنْ أَمَتَّهَا فَاغْفِرْ لَهَا، اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ الْعَافِيَةَ ''۔
'' اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ، رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لاَ مَلْجَأَ وَلاَ مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ ''۔
'' : أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعَذَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ''۔
'': لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، الحَمْدُ لِلَّهِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَلاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ''۔
''  لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ''۔
''. اللَّهُمَّ اغْفِرْ للْمُؤْمِنِينَ وَالمُؤْمِناتِ والمُسْلِمِيَ والمُسْلِماتِ، وأصْلِح ذَاتَ بَيْنِهِمْ، وأَلِّفْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ، وَاجْعَلْ فِي قُلُوبِهِم الإِيمَانَ وَالحِكْمَةَ، وَثَبِّتْهُمْ على مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صلى اللّه عليه وسلم، وَأَوْزِعْهُمْ أنْ يُوفُوا بِعَهْدِكَ الَّذي عاهَدْتَهُمْ عَلَيْهِ، وَانْصُرْهُمْ على عَدُّوَكَ وَعَدُوِّهِمْ إِلهَ الحَقّ وَاجْعَلْنا مِنْهُمْ ''۔
'' اللهُمَّ إِنَّكَ تَسْمَعُ كَلَامِي، وَتَرَى مَكَانِي، وَتَعْلَمُ سِرِّي وَعَلَانِيَتِي، لَا يَخْفَى عَلَيْكَ شَيْءٌ مِنْ أَمْرِي، أَنَا الْبَائِسُ الْفَقِيرُ الْمُسْتَغِيثُ الْمُسْتَجِيرُ الْوَجِلُ الْمُشْفِقُ الْمُقِرُّ الْمُعْتَرِفُ بِذَنَبِهِ، أَسْأَلُكَ مَسْأَلَةَ الْمِسْكِيْنِ وأَبْتَهِلُ إِلَيْكَ اِبْتِهَالَ الْمُذْنِبِ الذَّلِيلِ، وَأَدْعُوكَ دُعَاءَ الْخَائِفِ الضَّرِيرِ مَنْ خَضَعَتْ لَكَ رَقَبَتُهُ وَفَاضَتْ لَكَ عَيْنَاهُ وذلَّ جَسَدُهُ وَرَغِمَ أَنْفُهُ لَكَ، اللهُمَّ لَا تَجْعَلْنِي بدُعائِكَ شَقِيًّا، وَكُنْ بِي دَوْمًا رَحِيمًا، يَا خَيْرَ الْمَسْئُولينَ وَيَا خَيْرَ الْمُعْطِينَ''۔
اللَّهُمَّ إلَيْكَ أَشْكُو ضَعْفَ قُوَّتِي، وَقِلَّةَ حِيلَتِي، وَهَوَانِي عَلَى النَّاسِ، يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ، أَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِينَ، وَأَنْتَ رَبِّي، إلَى مَنْ تَكِلْنِي؟ إلَى بَعِيدٍ يَتَجَهَّمُنِي، أَمْ إلَى عَدُوٍّ مَلَّكْتَهُ أَمْرِي، إنْ لَمْ يَكُنْ بِكَ عليَّ غَضَبٌ فَلَا أُبَالِي، وَلَكِنَّ عَافِيَتَكَ هِيَ أَوْسَعُ لِي، أَعُوذُ بِنُورِ وَجْهِكَ الَّذِي أَشْرَقَتْ لَهُ الظلماتُ، وَصَلُحَ عَلَيْهِ أمرُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ مِنْ أَنْ تُنزل بِي غَضَبَكَ، أَوْ يَحِلَّ عليَّ سُخْطُك، لَكَ العُتْبَى حَتَّى ترضَى، وَلَا حولَ وَلَا قوةَ إلَّا بك".
''اللَّهُمَّ إِنَّانَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ المُسْتَعَانُ، وَعَلَيْكَ البَلَاغُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ "۔
''اللَّهُمَّ إِنَّانَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَأَلَكَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ المُسْتَعَانُ، وَعَلَيْكَ البَلَاغُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ "۔ 
'' اللَّهُمَّ هَذَا الدُّعَاءُ وَعَلَيْكَ الإِجَابَةُ، وَهَذَا الجُهْدُوَعَلَيْكَ التُّكْلاَنُ، اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي نُورًا فِي قَلْبِي، وَنُورًا فِي قَبْرِي، وَنُورًا مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ، وَنُورًا مِنْ خَلْفِي، وَنُورًا عَنْ يَمِينِي، وَنُورًا عَنْ شِمَالِي، وَنُورًا مِنْ فَوْقِي، وَنُورًا مِنْ تَحْتِي، وَنُورًا فِي سَمْعِي، وَنُورًا فِي بَصَرِي، وَنُورًا فِي شَعْرِي، وَنُورًا فِي بَشَرِي، وَنُورًا فِي لَحْمِي، وَنُورًا فِي دَمِي، وَنُورًا فِي عِظَامِي، اللَّهُمَّ أَعْظِمْ لِي نُورًا، وَأَعْطِنِي نُورًا، وَاجْعَلْ لِي نُورًا، سُبْحَانَ الَّذِي تَعَطَّفَ العِزَّ وَقَالَ بِهِ، سُبْحَانَ الَّذِي لَبِسَ الْمَجْدَ وَتَكَرَّمَ بِهِ، سُبْحَانَ الَّذِي لاَ يَنْبَغِي التَّسْبِيحُ إِلاَّ لَهُ، سُبْحَانَ ذِي الفَضْلِ وَالنِّعَمِ، سُبْحَانَ ذِي الْمَجْدِ وَالكَرَمِ، سُبْحَانَ ذِي الجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ '' ۔

مناجات حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ


خُذْ بِلُطْفِکَ یَااِلٰھِیْ مَنْ لَّہٗ زَادٌ قَلِیْل
مُفْلِسٌ بِالصِّدْقِ یَاتِیْ عِنْدَ بَابِکَ یَاجَلِیْل
ذَنْبُہٗ ذَنْبٌ عَظِیْمٌ فَاغْفِرِالذَّنْبَ الْعَظِیْم
اِنَّہٗ شَخْصٌ غَرِیْبٌ مُذْنِبٌ عَبْدٌ ذَلِیْل
مِنْہُ عِصْیَانٌ وَنِسْیَانٌ وَسَھْوٌ بَعْدَ سَھْوٍ
مِنْکَ اِحْسَانٌ وَفَضْلٌ بَعْدَ اَعْطَاءِ الْجَزِیْل
طَالَ یَا رَبِّیْ ذُنُوْبِیْ مِثْلَ رَمْلٍ لَاتُعَدْ
فَاعْفُ عَنِّی کُلَّ ذَنْبٍ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْل
قُلْ لِّّنَارٍ اَبْرِدِیْ یَا رَبِّ فِیْ حَقِّیْ کَمَا
قُلْتَ قُلْنَا نَارُکُوْنِیْ بَرَداً فِیْ حَقِّّ الْخَلِیْل
کَیْفَ حَالِیْ یَا اِلٰھِی لَیْسَ لِیْ خَیْرُ الْعَمَل
سُوْءُ اَعْمَالِیْ کَثِیْرٌ زَادُ طَاعَاتِیْ قَلِیْل
اَنْتَ شَافِیْ اَنْتَ کَافِیْ فِیْ مُھِمَّاتِ الْاُمُوْر
اَنْتَ حَسْبِیْ اَنْتَ رَبِّیْ اَنْتَ لِیْ نِعْمَ الْوَکِیْل
عَافِنِیْ مِنْ کُلِّ دَاءٍ فَاقْضِ عَنِّی حَاجَتِیْ
اِنَّّ لِیْ قَلْبًا سَقِیْمًا اَنْتَ مَنْ یَّشْفِی الْعَلِیْل
ھَبْ لَنَا مُلْکًا کَبِیْراً نَجِّنَا مِمَّا نَخَافُ
رَبَّنَا اِذْ اَنْتَ قَاضٍ وَالْمُنَادِیْ جِبْرَءِیْل
رَبِّ ھَبْ لِیْ کَنْزَ فَضْلٍ اَنْتَ وَھَّابٌ کَرِیْم
اَعْطِنِیْ مَافِیْ ضَمِیْرِیْ دُلَّنِیْ خَیْرَالدَّلِیْل
اَیْنَ مُوْسٰی اَیْنَ عِیْسٰی اَیْنَ یَحْیٰی اَیْنَ نُوْح
اَنْتَ یَا صِدِّیْق عَاصٍ تُبْ اِلَی الْمَوْلَی الْجَلِیْل



نوٹ: یہ تمام کلمات دعائیہ احادیث مبارک کے ہیں جن کو معارف الحدیث جلد پنجم اور دوسری کتب کے مختلف مقامات سے لیا گیا ہے ۔

طالب دعا: محمد عبد اللہ عزرائیل قاسمی ۔


Wednesday, September 19, 2018

تعزیہ علماء دیوبند اور علماء بریلوی کے نزدیک


بسم اللہ الرحمن الرحیم

تعزیہ علماء دیوبند اور علماء بریلوی کے فتاوے میں

    ماتم اور تعزیہ داری کی ایجاد:352ھ کے شروع ہونے پر ابن بویہ مذکور نے حکم دیا کہ 10 محرم کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے غم میں تمام دکانیں بند کردی جائیں، بیع و شراء بالکل موقوف رہے، شہر و دیہات کے لوگ ماتمی لباس پہنیں اوراعلانیہ نوحہ کریں۔ عورتیں اپنے بال کھولے ہوئے، چہروں کو سیاہ کیے ہوئے، کپڑوں کوپھاڑتے ہوئے سڑکوں اور بازاروں میں مرثیے پڑھتی، منہ نوچتی اور چھاتیاں پیٹتی ہوئی، نکلیں۔ شیعوں نے اس حکم کی بخوشی تعمیل کی مگر اہل سنت دم بخوداورخاموش رہے کیونکہ شیعوں کی حکومت تھی۔ آئندہ سال 353ھ میں پھر اسی حکم کا اعادہ کیا گیا اور سنیوں کو بھی اس کی تعمیل کا حکم دیا گیا۔اہل سنت اس ذلت کو برداشت نہ کرسکےچنانچہ شیعہ اور سنیوں میں فساد برپا ہوا اور بہت بڑی خون ریزی ہوئی۔ اس کے بعد شیعوں نے ہر سال اس رسم کو زیر عمل لانا شروع کردیا اور آج تک اس کا رواج ہندوستان میں ہم دیکھ رہےہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہندوستان (متحدہ) میں اکثر سنی لوگ بھی تعزیے بناتے ہیں۔ ( تاریخ اسلام اکبر خان نجیب آبادی۔ ج:2، ص 566، طبع کراچی)
 میں ہندکےاندر تعزیہ سازی کا جائزہ لیا جائے تو پتہ جلتا ہے کہ اس کی اول بنیادمغل بادشاہ تیمور نے اپنے دور حکمرانی 1370ء 150 1405ء میں رکھی تھی کہا جاتا ہے کہ چودھویں صدی میں امیر تیمور نے کربلا عراق کا دورہ کیا اور وہاں سے حضرت امام حسین کی شبیہ دہلی لیکر آئےاور یہاں جب سے تعزیہ داری کی بدعت شروع ہوئی۔

تعزیہ بنا ناکیساہے؟

حضرت سہارنپوری ؒو تھانوی ؒ وگنگوہیؒ کے فتاوے

تعزیہ بنانا اور تعزیہ کے ساتھ شریک ہونا اور بنظر تعظیم اسکو دیکھناشعار روافض سے ہے اورتشبہ بالروافض ہے، اور جو شخص شعار روافض بجالاوے وہ بحکم ظاہر شرع روافض میں شمار ہے ، دیکھو زنارپہننا اورذی کفار اختیار کرنا بروے شرع کفر لکھا ہے، حالانکہ بظاہر وہ شخص اپنے اعتقاد میں مسلمانی اظہار کرتا ہے لہٰذا جو شعار اختیار کیا جائیگا اسی کا حکم ہوگا، پس ایسے شخص پر جو تعزیہ بناتا ہے گو کسی تاویل سے بنائے اورفیما بینہ وی بین اللہ اس کے کچھ ہی نیت ہو لیکن بحکم ظاہر شرع اسکو رفض سے تعبیر کیا جائیگا، اور مستفتی نے جس حدیث سے تعزیہ کا جواز ثابت کرنا چاہا ہے وہ بھی غلط ہے اور نہ اس سے یہ مدعا ثابت ہوتا ہے، پس جس عالم نے رفض کا فتویٰ شخص مذکور پردیا ہے ہ وہ صحیح ہے، فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب،(فتاوی مظاہر العلوم ص222۔امدا د الاحکام ج 1 ص185۔فتاویٰ رشیدیہ ص 105۔)

حضرت مولانا احمد رضا خانؒ کا فتویٰ

سوال:کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ تعزیہ بناناکیساہے؟ اور اس پرشیرینی وغیرہ چڑھاناکیساہے؟ اور بنانے والے اور تعظیم کرنے والے کاعندالشرع کیاحکم ہے؟ اور جوشخص تعزیہ کے ناجوازی کاقائل ہے اس کو کافر یامرتد کہنا اور کافرسمجھ کر اس کے پیچھے نمازنہ پڑھنا کیساہے؟ اور تعزیہ داری میں غلو کرنے والے کے پیچھے نمازپڑھناکیساہے؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب : تعزیہ رائجہ ناجائز وبدعت ہے اور اس کابناناگناہ ومعصیت اور اس پرشیرینی وغیرہ چڑھانا محض جہالت اور اس کی تعظیم بدعت وجہالت۔ اور جوتعزیہ کوناجائزکہے اس بناپر اسے کافر یامرتد کہنااشدعظیم گناہ کبیرہ ہے، کہنے والے کوتجدیداسلام ونکاح چاہئے، یوہیں اس وجہ سے اس کے پیچھے نمازنہ پڑھنا مردودوباطل ہے۔(فتاویٰ رضویہ کتاب الحضر والاباحہ ج24 ص105۔)
ایک جگہ کہتے ہیں:الجواب: تعزیہ جس طرح رائج ہے نہ ایک بدعت مجمع بدعات ہے نہ وہ روضہ مبارک کانقشہ ہے اور ہوتو ماتم اور سینہ کوبی اورتاشے باجوں کے گشت اورخاک میں دبانا یہ کیا روضہ مبارک کی شان ہے اور پریوں اور براق کی تصویریں بھی شاید روضہ مبارکہ میں ہوں گی امام عالی مقام کی طر ف اپنی ہو سات مخترعہ کی نسبت امام رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی توہین ہے کیاتوہین امام قابل تعظیم ہے۔ کعبہ معظمہ میں زمانہ جاہلیت میں مشرکین نے سیدنا ابراہیم وسیدنا اسمٰعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام کی تصویریں بنائیں اور ہاتھ میں پانسے دئے تھے جن پر لعنت فرمائی اور ان تصویروں کومحوفرمادیا یہ توانبیائے عظام کی طرف نسبت تھی کیا اس سے وہ ملعون پانسے معظم ہوگئے یاتصویریں قابل ابقا۔(فتاوی رضویہ ج24ص107۔)

کیا تعزیہ داری میں مالی تعاون درست ہے ؟

علماء دیوبند کا فتاوے

سوال(۴۹)کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: تعزیہ داری میں شرکت کرنا اور چندہ دینا اور ملیدہ بناکر فاتحہ کرنا اور اس کو عوام میں تقسیم کرنا کیسا ہے، جائز ہے یا ناجائز؟
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سوال میں ذکر کردہ سبھی امور بدعت اور ناجائز ہیں، ان کی شریعت اسلامی میں کوئی اصل نہیں ہے۔ 
وأما اتخاذہ ماتما لأجل قتل الحسین بن علي کما یفعلہ الروافض فہو من عمل الذین ضل سعیہم فی الحیوۃ الدنیا وہم یحسبون أنہم یحسنون صنعًا، إذ لم یأمر اللّٰہ ولا رسولہ باتخاذ أیام مصائب الأنبیاء وموتہم ماتماً فکیف بمن دونہم؟ یجب علی ولاۃ الدین أن یمنعوہم، والمستمعون لا یعذرون في الاستماع۔ (مجالس الأبرار ۲۵۳ بحوالہ: فتاویٰ محمودیہ ۵؍۴۸۵ میرٹھ) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

مولانا احمد رضا خان صاحب کا فتویٰ

سوال:اس کے بنانے میں کسی قسم کی امدادجائزہے یانہیں؟
جواب:تعزیہ میں کسی قسم کی امدادجائزنہیں۔ قال اﷲ تعالٰی ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان۔اﷲ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: گناہ اور زیادتی کے معاملات میں ایک دوسرے کی مدد نہ کیاکرو(ت)(فتاویٰ رضویہ ج24 ص107۔)

تعزیہ کے سامنے مٹھائی وغیرہ رکھنا اور منت ماننا کیساہے ؟

حضرت تھا نوی ؒ وگنگوہی ؒ کا فتاوے

سوال: پنجے نصب کرنا اور اس سے نذونیاز کرنا دست بستہ سامنے کھڑے ہوکرفاتحہ دلانا اور اس کو تبرک سمجھ کر کھانا اور پنجوں پر عرضیاں چڑھانا اور پنجوں کے سامنے ازدیارعمر کے لیے بچو ں کو ڈالنا اور منت اور مراد ماننااور مراد برآنے پرکچھ تدردینا اور دلیلوں کانام علم نصب کرکے نذرونیاز کرنا اور وہاں جشن کرنایہ تمام افعال ازروئے شرع حرام ہیں یا شرک؟
الجواب: یہ جملہ افعال شرکیہ ہیں ان سے احتراز لازم اور توبہ کرناواجب ہے لیکن اگر یہ لوگ موثرحق تعالیٰ کومانتے ہیں اور ان اشیاء کو یاجن سے یہ اشیاء نامزد ہیں موثرنہیں مانتے ، محض برکت کی چیزیں مانتے ہیں تو گویا یہ اعتقاد بھی گناہ عظیم ہے مگر اس صورت میں یہ لوگ ایمان سے خارج نہیں ہوئے، اور اگر یہ لوگ ان اشیاء کو یااصحاب اشیائے کو ایسا موثر مانتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں اختیارات دیدیئے ہیں تو اس صورت میں یہ لوگ ایمان سے بھی باہرہوجائیں گے ، تجدید ایمان ونکاح لازم ہوگا۔(امدالاحکام ج1ص 185۔فتاویٰ رشیدیہ 105۔)

مولانا احمد رضا صاحب کا فتویٰ

سوال ہشتم : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ تعزیہ بنانا اور اس پرنذرنیاز کرناعرائض بامید حاجت براری لٹکانا اور بہ نیت بدعت حسنہ اس کو داخل حسنات جاننا او رموافق شریعت ان امور کو اور جوکچھ اس سے پیدا اور یا متعلق ہوں کتناگناہ ہے، اورزید اگر ان باتوں کوجو فی زماننا متعلق تعزیہ داری وعلم داری کے ہیں موافق مذہب اہل سنت کے تصورکرے تو وہ کس قسم کے مرتکب ہوااور اس پرشرع کی تعزیرکیالازم آتی ہے،اور ان امور کے ارتکاب سے وہ شرک خفی یا جلی میں مبتلا ہے یانہیں، او ر اس کی زوجہ اس کے نکاح سے باہر ہوئی یانہیں، درصورتیکہ وہ امور متذکرہ بالا کو داخل عقیدت اہلسنت وجماعت بنظرثواب عمل میں لاتاہو۔بیّنواتوجروا۔
الجواب : افعال مذکورہ جس طرح عوام زمانہ میں رائج ہیں بدعت سیئہ وممنوع وناجائزہیں انہیں داخل ثواب جاننا اور موافق شریعت مذہب اہلسنت ماننا اس سے سخت تروخطائے عقیدہ وجہل اشد ہے، شرعی تعزیر حاکم شرع سلطان کی رائے پرمفوض ہے باایں ہمہ وہ شرک وکفرہرگز نہیں، نہ اس بناء پرعورت نکاح سے باہرہو، عرائض بامید حاجت براری لٹکانا محض بہ نیت توسل ہے جو اس کاجہل ہے کہ امورممنوعہ لائق توسل نہیں ہوتے باقی حاجت روا بالذات کوئی کلمہ گوحضرت امام عالی مقام رضی اﷲ تعالٰی عنہ کوبھی نہیں جانتا کہ معاذاﷲ تعالٰی شرک ہو، یہ وہابیہ کاجہل وضلال ہے، واﷲ تعالٰی اعلم فقط

محرم کے کھیل تماشے میں شرکت کرنا

علماء دیوبند کے فتاوے

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: تعزیہ داری میں شرکت کرنا اور چندہ دینا اور ملیدہ بناکر فاتحہ کرنا اور اس کو عوام میں تقسیم کرنا کیسا ہے، جائز ہے یا ناجائز؟
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سوال میں ذکر کردہ سبھی امور بدعت اور ناجائز ہیں، ان کی شریعت اسلامی میں کوئی اصل نہیں ہے۔ 
وأما اتخاذہ ماتما لأجل قتل الحسین بن علي کما یفعلہ الروافض فہو من عمل الذین ضل سعیہم فی الحیوۃ الدنیا وہم یحسبون أنہم یحسنون صنعًا، إذ لم یأمر اللّٰہ ولا رسولہ باتخاذ أیام مصائب الأنبیاء وموتہم ماتماً فکیف بمن دونہم؟ یجب علی ولاۃ الدین أن یمنعوہم، والمستمعون لا یعذرون في الاستماع۔ (مجالس الابرار ۲۵۳ بحوالہ: فتاویٰ محمودیہ ۵؍۴۸۵ میرٹھ) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

مولانا احمد رضا صاحب کا ملفوظ

عرض : تعزیہ داری میں لہو ولعب (یعنی کھیل کودیا تماشا)سمجھ کر جائے تو کیسا ہے ؟
ارشاد: نہیں چاہیے۔ ناجائز کام میں جس طر ح جان مال سے مدد کریگا یونہی سَواد(یعنی گروہ) بڑھا کر بھی مدد گار ہو گا۔ ناجائز بات کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے ۔ بندر نچانا حرام ہے ،اس کا تماشا دیکھنا بھی حرام ہے۔دُرِّمختار وحاشیہ علامہ طحطاوی میں ان مسائل کی تصریح ہے ۔ آجکل لوگ ان سے غافل ہیں۔ متقی لوگ جن کو شریعت کی احتیاط ہے، ناواقفی سے ریچھ یا بند ر کا تماشا یا مرغوں کی پالی(یعنی لڑائی) دیکھتے ہیں اورنہیں جانتے کہ اس سے گنہگار ہوتے ہیں ۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت ص 286۔)
تعزیہ داری اور اس میں شرکت اور اسے موجب برکت سمجھنا یہ سب علماء دیوبند کے یہاں تو ناجائز وحرام اور بدعت توہے ہی علماء بریلوی کے فتاوے بھی ملاحظہ کرلیں۔

مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب فرماتے ہیں

ہمارے ملک میں ان مبارک مہینوں میں حسبِ ذیل رسمیں ہوتی ہیں محرم کے پہلے دس دن اور خاص کر دسویں محرم یعنی عاشورہ کا دن کھیل کود، تماشہ اورمیلوں کازمانہ سمجھاگیا ہے۔ کاٹھیاواڑمیں اس زمانہ میں تعزیہ داری کے ساتھ کتے،گدھے،بندر،کی سی صورتیں بناکر مسلمان تعزیوں کے آگے کودتے ہوئے نکلتے ہیں اور سبیلوں کی خوب زیبائش کرتے ہیں اور شرابیں پی پی کر چوکاروں میں کھڑے ہوکر ماتم کے بہانے سے کودتے ہیں اور یوپی میں مسلمان ان دس دنوں میں برابر رافضیوں کی مجلسوں میں مرثیے سننے اور مٹھائی لینے پہنچ جاتے ہیں۔ پھر آٹھویں تاریخ کو عَلَم اور نویں تاریخ کو تعزیوں کی گشت اور دسویں کو تعزیوں کا جلوس خود بھی نکالتے ہیں اور رافضیوں کے تعزیوں کے جلوس میں بھی شرکت کرتے ہیں بعض جاہل لوگ ماتم بھی کرتے ہوئے جاتے ہیں پھر بارہویں محرم کو تعزیوں کا تیجہ اور ۲۰ صفر کو تعزیوں کا چالیسواں نکالا جاتا ہے جس میں چند طرح کے جلوس نکلتے ہیں،۔۔۔۔۔

ان رسموں کی خرابیاں

محرم کا مہینہ نہایت مبارک مہینہ ہے، خاص کر عاشورہ کا دن بہت ہی مبارک ہے کہ دسویں محرم جمعہ کے دن حضرت نوح علیہ السلام کشتی سے زمین پر تشریف لائے اور اسی تاریخ اور اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے نجات پائی اور فرعون غرق ہوا، اسی تاریخ اور اسی دن میں سید الشہداامام حسین نے کربلا کے میدان میں شہادت پائی اور اسی جمعہ کا دن اور غالباًاسی دسویں محرم کو قیامت آئے گی۔غرضیکہ جمعہ کا دن اور دسویں محرم بہت مبارک دن ہے اسلام میں سب سے پہلے صرف عاشورہ کا روزہ فرض ہوا،پھر رمضان شریف کے روزوں سے اس روزے کی فرضیّت تو منسوخ ہوگئی مگر اس دن کا روزہ اب بھی سنت ہے لہٰذا ان دنوں میں جس طرح نیک کام کرنے کا ثواب زیادہ ہے اسی طرح گناہ کرنے کا عذاب بھی زیادہ تعزیہ داری اور عَلَم نکالنا کودنا،ناچنا،یہ وہ کام ہیں جو یزیدی لوگوں نے کئے تھے کہ امام حسین ودیگر کو شہدائے کربلا رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے سر نیزوں پر رکھ کر ان کے آگے کودتے ناچتے خوشیاں مناتے ہوئے کربلاسے کوفہ اور کوفہ سے دمشق یزید پلید کے پاس لے گئے۔ باقی اہلِ بیت نے نہ کبھی تعزیہ داری کی اور نہ عَلَم نکالے،نہ سینے کوٹے نہ ماتم کئے۔ لہٰذا اے مسلمانوں ان مبارک دنوں میں یہ کام ہرگز نہ کرو ورنہ سخت گنہگار ہوگے۔خو د بھی ان جلوسوں اور ماتم میں شریک نہ ہو اور اپنے بچوں اپنی بیویوں، دوستوں کو بھی روکو،رافضیوں کی مجلس میں ہرگز شرکت نہ کرو۔(اسلامی زندگی ص 72 تا 74۔)


حضرت مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی فرماتےہیں:

انہیں بدعات سیئہ اور حرام ناجائز کاموں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مسئلہ ۸: تعزیہ داری کہ واقعات کربلا کے سلسلہ میں طرح طرح کے ڈھانچے بناتے اور ان کو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے روضہ پاک کی شبیہ کہتے ہیں، کہیں تخت بنائے جاتے ہیں، کہیں ضریح بنتی ہے (1)اور علم اور شدے (2)نکالے جاتے ہیں، ڈھول تاشے اور قسم قسم کے باجے بجائے جاتے ہیں، تعزیوں کا بہت دھوم دھام سے گشت ہوتا ہے، آگے پیچھے ہونے میں جاہلیت کے سے جھگڑے ہوتے ہیں، کبھی درخت کی شاخیں کاٹی جاتیں ہیں، کہیں چبوترے کھودوائے جاتے ہیں، تعزیوں سے منتیں مانی جاتی ہیں، سونے چاندی کے عَلَم چڑھائے جاتے ہیں،ہار پھول ناریل چڑھاتے ہیں، وہاں جوتے پہن کر جانے کو گناہ جانتے ہیں بلکہ اس شدت سے منع کرتے ہیں کہ گناہ پر بھی ایسی ممانعت نہیں کرتے چھتری لگانے کو بہت برا جانتے ہیں۔ 
تعزیوں کے اندر دو مصنوعی قبریں بناتے ہیں، ایک پر سبز غلاف اور دوسری پر سرخ غلاف ڈالتے ہیں، سبز غلاف والی کو حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قبر اور سرخ غلاف والی کو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قبر یا شبیہ قبر بتاتے ہیں اور وہاں شربت مالیدہ وغیرہ پر فاتحہ دلواتے ہیں۔ یہ تصور کرکے کہ حضرت امام عالی مقام کے روضہ اور مواجہہ اقدس میں فاتحہ دلارہے ہیں پھر یہ تعزیے دسویں تاریخ کو مصنوعی کربلا میں لے جا کر دفن کرتے ہیں گویا یہ جنازہ تھا جسے دفن کر آئے پھر تیجہ دسواں چالیسواں سب کچھ کیا جاتا ہے اور ہر ایک خرافات پر مشتمل ہوتا ہے۔
حضرت قاسم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی منہدی نکالتے ہیں گویا ان کی شادی ہورہی ہے اور منہدی رچائی جائے گی اور اسی تعزیہ داری کے سلسلہ میں کوئی پیک (3)بنتا ہے جس کے کمرسے گھنگرو بندھے ہوتے ہیں گویا یہ حضرت امام عالی مقام کا قاصد اور ہر کارہ ہے جو یہاں سے خط لے کر ابن زیاد یا یزید کے پاس جائے گا اور وہ ہر کاروں کی طرح بھاگا پھرتا ہے۔ 
کسی بچہ کو فقیر بنایا جاتا ہے اوس کے گلے میں جھولی ڈالتے اور گھر گھر اس سے بھیک منگواتے ہیں، کوئی سقہ (4) بنایا جاتا
ہے، چھوٹی سی مشک اس کے کندھے سے لٹکتی ہے گویا یہ دریائے فرات سے پانی بھر کر لائے گا، کسی علَم پر مشک لٹکتی ہے اور اس میں تیر لگا ہوتا ہے، گویا یہ حضرت عباس علَم دار ہیں کہ فُرات سے پانی لارہے ہیں اور یزیدیوں نے مشک کو تیر سے چھید دیا ہے، اسی قسم کی بہت سی باتیں کی جاتی ہیں یہ سب لغوو خرافات ہیں ان سے ہر گز سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ خوش نہیں یہ تم خود غور کرو کہ انھوں نے اِحیائے دین و سنت کے لیے یہ زبردست قربانیاں کیں اور تم نے معاذ اﷲاس کو بدعات کا ذریعہ بنالیا۔ 
بعض جگہ اسی تعزیہ داری کے سلسلہ میں براق بنایا جاتا ہے جو عجب قسم کا مجسمہ ہوتا ہے کہ کچھ حصہ انسانی شکل کا ہوتا ہے اور کچھ حصہ جانور کا سا۔ شاید یہ حضرت امام عالی مقام کی سواری کے لیے ایک جانور ہوگا۔ کہیں دلدل بنتا ہے، کہیں بڑی بڑی قبریں بنتی ہیں، بعض جگہ آدمی ریچھ، بندر، لنگور(1)بنتے ہیں اور کودتے پھرتے ہیں جن کو اسلام تو اسلام انسانی تہذیب بھی جائز نہیں رکھتی ایسی بری حرکت ،اسلام ہرگز جائز نہیں رکھتا۔ افسوس کہ محبت اہلِ بیت کرام کا دعویٰ اور ایسی بے جا حرکتیں یہ واقعہ تمھارے لیے نصیحت تھا اور تم نے اس کو کھیل تماشہ بنالیا۔ 
اسی سلسلے میں نوحہ و ماتم بھی ہوتا ہے اور سینہ کوبی ہوتی ہے، اتنے زور زور سے سینہ کوٹتے ہیں کہ ورم ہوجاتا ہے، سینہ سرخ ہوجاتا ہے بلکہ بعض جگہ زنجیروں اور چھریوں سے ماتم کرتے ہیں کہ سینے سے خون بہنے لگتا ہے۔ تعزیوں کے پاس مرثیہ (2)پڑھا جاتا ہے اور تعزیہ جب گشت کو نکلتا ہے اس وقت بھی اس کے آگے مرثیہ پڑھا جاتا ہے، مرثیہ میں غلط واقعات نظم کیے جاتے ہیں، اہل بیتِ کرام کی بے حرمتی اور بے صبری اور جزع فزع کا ذکر کیا جاتا ہے اور چونکہ اکثر مرثیہ رافضیوں ہی کے ہیں، بعض میں تَبَرَّا بھی ہوتا ہے مگر اس رو میں سنّی بھی اسے بے تکلف پڑھ جاتے ہیں اور انھیں اس کا خیال بھی نہیں ہوتا کہ کیا پڑھ رہے ہیں، یہ سب ناجائز اور گناہ کے کام ہیں۔ 
مسئلہ ۹: اظہارِ غم کے لیے سر کے بال بکھیرتے ہیں، کپڑے پھاڑتے اور سر پر خاک ڈالتے اور بھوسا اڑاتے ہیں، یہ بھی ناجائز اور جاہلیت کے کام ہیں، ان سے بچنا نہایت ضروری ہے، احادیث میں ان کی سخت ممانعت آئی ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایسے امور سے پرہیز کریں اور ایسے کام کریں جن سے اﷲ(عزوجل)اور رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم راضی ہوں کہ یہی نجات کا راستہ ہے۔
مسئلہ ۱۰: تعزیوں اور علم کے ساتھ بعض لوگ لنگر لٹاتے ہیں یعنی روٹیاں یا بسکٹ یا اور کوئی چیز اونچی جگہ سے پھینکتے ہیں یہ ناجائز ہے، کہ رزق کی سخت بے حرمتی ہوتی ہے، یہ چیزیں کبھی نالیوں میں بھی گرتی ہیں اور اکثر لوٹنے والوں کے پاؤں کےنیچے بھی آتی ہیں اور بہت کچھ کچل کر ضائع ہوتی ہیں۔ اگر یہ چیزیں انسانیت کے طریق پر فقرا کو تقسیم کی جائیں تو بے حرمتی بھی نہ ہو اور جن کو دیا جائے انھیں فائدہ بھی پہنچے، مگر وہ لوگ اس طرح لٹانے ہی کو اپنی نیک نامی تصور کرتے ہیں۔(بہار شریعت ج 16ص 464تا468۔)
یہ چند اقتباسات ہیں ماننے والے کیلئے یہ کیا بس ایک عبارت کافی ہے اور نہ ماننے والے کیلئے دفتر کا ددفتر بھی کم ہے ۔
التماس : یہ وہ امور ہیں جن کو علماء دیوبند ہی نہیں بلکہ علماء بریلوی بھی ناجائز اور بدعت کہتے ہیں خداکے واسطے ان کاموں کو چھوڑ کر اپنے اپنے اکابرین و اسلام کے سچے پیروکار بنیں۔

Monday, September 17, 2018

انٹر نیٹ پر کیا جائز ہے اور کیا ناجائز



بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا انٹر نیٹ استعمال کر نا جائز ہے؟

جواب: اس مسئلہ کا مداراس کے استعمال کرنے والے پر ہے، اگر اس کو جائز کاموں میں استعما ل کیا گیا تو جائز ہے ورنہ حرام،چناچہ فقہ کا قاعدہ ہے، ’’الاموربمقاصدھا‘‘ (الاشباہ والنظائر /۳۲ بیروت)
سوال: کیا انٹر نیٹ پیک ریچارج کرنا دوکاندار کے لئے جائز ہے؟
جواب: انٹر نیٹ کا جہاں غلط استعمال ہے وہیں پر اسکے استعمال کے مباح طریقے بھی ہیں؛اس لئے دوکاندار کا گراہک کیلئے انٹر نیٹ پیک مارنا درست ہوگا اگر کوئی اس کا غلط استعمال کرتا ہے، تو اس کا گناہ خود استعما ل کر نے والے پرہوگا۔
’’وعُلم من ھذا انہ لا یکرہ بیع مالم تقم المعصیۃ بہ کبیع الجاریۃ المغنیّۃ‘‘ (شامی ۶ /۱۹۳)
سوال: دوسرے کا انٹرنیٹ وائی فائی (Wi۔Fi)کے ذریعہ استعمال کر نا کیسا ہے؟
جواب:آج امت کا حال یہ ہو چکا ہے، کہ وہ چوری کو صرف محدود چیزوں میں ہی حرام سمجھ رہی ہے،غالباً جو چیزیں نظروں میں آتی ہوں اس کی چوری کوچوری تو سمجھا جا رہا ہے، لیکن جو چیز یں نظروں میں نہ آتی ہوں اس کی چوری کو چوری نہیں سمجھاجا رہا ہے،انہیں میں سے وائی فائی (Wi۔Fi)کنکشن کی چوری ہے،یاد رکھیں جس طرح دیگر اشیاء کی چوری حرام وناجائز ہے، اسی طرح وائی فائی کنکشن کی چوری بھی حرام وناجائز ہے، ہاں جس کا وائی فائی(Wi۔Fi) استعمال کر رہاہو اسکی جانب سے اجازت ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ 
سوال: انٹر نیٹ کیفے چلانا کیسا ہے؟ یعنی انٹر نیٹ سینٹر جس میں معاوضہ دیکر انٹرنیٹ کا استعمال کرتاہواور استعمال کرنے والا بالکل آزاد ہو، کچھ بھی دیکھ سکتا ہو اور کچھ بھی لوڈ کر سکتا ہو،چاہے دینی بیانات یا پھر گانا،فلم وغیرہ ......
جواب: انٹر نیٹ کیفے میں اگر اس کا التزام کیا جائے کہ صارفین اس کا غلط استعمال نہ کر سکیں تو اس کارو بار کے جواز کی گنجائش نکل سکتی ہے؛ لیکن صارفین کو کھلی آزادی ہو کہ وہ کوئی بھی پروگرام دیکھیں یا استعمال کریں جیسا کہ عام معمول ہے، تو گناہ پر تعاون کی وجہ سے کاروبار مکروہ ضرور ہو گا،اس سے احتراز کرنا چاہیے۔(کتاب النوازل ۷۱/۶۰۱)
حضرت مولانا ومفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ العالی فرماتے ہیں ’’اگر حکومت کی طرف سے غیر اخلاق مواد بند کردیا گیا ہے تو اس قسم کی انٹر نیٹ سروس مہیا کرنا اور اس پر فیس وصول کرنا جائز ہے۔ (فتاویٰ عثمانی ۳/ ۳۰۴)
سوال: انٹر نیٹ ٹیلی فون سروس سے فون کرنا کیسا ہے؟
جواب: انٹر نیٹ کے ذریعہ دوسروں سے بات کرناجائز ہے۔
سوال: کیا انٹر نیٹ ٹیلی فون سروس سے ویڈیو کا ل کر سکتے ہیں؟
جواب: ویڈیو کال کرنے میں کو ئی مضائقہ نہیں ہے؛کیونکہ ویڈ یو کال میں ویڈیو گرافی اور ریکاڑڈنگ عموماً نہیں پائی جاتی ہے فقط لائیو (Live)تصویر ایک جانب سے دوسرے جانب منتقل کی جاتی ہے؛اس لئے ویڈیو کال کرنا جائز ہے۔ (انظر حاشیہ کتاب الفتاوی ۶ /۰۷۱) 
سوال: کیا انٹر نیٹ ٹیلی فون سروس کے ذریعہ ویڈیو کا ل کرکے کسی اجنبی عورت سے بات کرنا جائز ہے؟
جواب: اجنبی عورت (غیر محرم)سے ویڈیو کا ل کرکے بات کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ویڈیو کال میں مکمل نقل وحرکت کے ساتھ ایک دوسرے کی تصویر نظر آتی ہے،اور غیر محرم کا دیکھنا حرام ہے(النور /۱۳) اس لئے کسی غیر محرم عورت سے بوقت ضرورت شدیدہ بات کرنا ہی پڑ جائے توویڈیو کال کرنے کے بجائے آڈیو کال کرکے مختصر جچے تلے لہجہ میں بات کرلے۔ ولا یکلم الاجنبیۃ الا عجوزاً(الدر المختار مع الشامی ۹/۰۳۵وامدادالفتاویٰ ۴/۷۹۱)
سوال: انٹر نیٹ چیٹ (chatting)کیا ہو تا ہے؟
جواب:انٹرنیٹ پر بہت سی ایسی سائٹس ہیں جہاں اجنبی اشخاص ایک دوسرے کو پیغامات بھیج کر فوراً جواب حاصل کر سکتے ہیں،اِسی کو چیٹ روم کہا جاتا ہے۔اور ایک دوسرے کا آپس میں اس طرح smsکے ذریعہ گفتگو کرنے کو چیٹنگ (chatting) کہتے ہیں،اس طرح کا کام سوشل میڈیا سے بھی لیا جا تا ہے۔ 
سوال: انٹر نیٹ چیٹنگ (chatting)کرنا کیسا ہے؟
جواب: انٹر نیٹ چیٹیگ(chatting) پر خط وکتابت اور تبادلہ معلومات کا کام لیا جائے تو درست ہو گا۔
سوال: ٹائم پاس یا غیرمحرم سے دل لگی کیلئے چیٹنگ (chatting) کرنا کیسا ہے؟
جواب:محض اس پر ٹائم پاس کرنا یا کسی لڑکی وغیرہ سے فحش اور عشقیہ چیٹنگ کرنا حرام وناجائز ہوگا۔قال رسول اللّہ ﷺ من حسن اسلام المرأ ترک مالا یعنیہ (شعب الایمان) و فی الشامی وکرہ کل لھو ای کل لعب وعبث الاخ (شامی ۹/۶۶۵)
سعودی عرب کے ایک ممتاز عالم دین اور علماء کونسل کے سین یئر ’’رکن الشیخ عبداللہ المطلق‘‘ کا ایک نیا فتویٰ نیٹ پرسامنے آیا ہے جس میں انہوں نے غیر محرم عورت ومرد کی انٹرنیٹ چیٹ کو خلوت صحیحہ سے تعبیر کرتے ہوئے حرام قرار دیا ہے۔
سوشل میڈیا شیطانی افکار و خیالات کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ مسلمان نوجوانوں کو اس کے استعمال میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔سعودی عرب سے شائع ہونے والے تقریبا تمام ہی اخبارات نے الشیخ المطلق کے فتوے کو جلی سرخیوں کے ساتھ اشاعت میں جگہ دی ہے۔
الشیخ المطلق مزید فرماتے ہیں کہ کسی نامحرم مرد کا نامحرم خاتون کے ساتھ تنہائی میں مُکالمہ 'غیر شرعی' ہے۔ سماجی میڈیا کے ذریعے نامحرم مرد و زن کے مابین چیٹنگ کے دوران شیطان انہیں گمراہ کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ کسی غلط کام میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض اوقات مرد و زن چیٹنگ کے دوران غیر محرموں سے ایسی باتیں بھی کہہ بیٹھتے ہیں جنہیں وہ خودجانتا ہے۔ خاص طور پر خواتین کے ساتھ چیٹنگ کے دوران شیطان مردوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ میں خاص طور پر خواتین کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اجنبی اور نامحرم مردوں کے ساتھ انٹرنیٹ پر کسی بھی قسم کی بات چیت سے سختی سے گریز کریں۔
سوال: کیا منگیتر سے بذریعہ نیٹ کالنگ یا چیٹنگ کرنا درست ہے؟
جواب: جس لڑکا یا لڑکی سے منگنی ہوئی ہو وہ بھی اجنبی مرد و عورت کے حکم میں ہے،یعنی صرف منگنی ہو نے سے وہ لڑ کا یا لڑکی بیوی اور شوہر کے حکم میں نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ بھی آپس میں ایک اجنبی مرد وعورت کی طرح ہے اور اجنبی مرد وعورت سے بات کرنے کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
 ’’یَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء إِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِہِ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفاً‘‘(الأحزاب: 32) 
اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں جیسی نہیں ہو، اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو،(اگر بغرض ضرورت غیر محرم مردسے بات کرنا پڑے)تو پرکشش لہجہ میں گفتگو نہ کرو،ورنہ جسکے دل میں مرض ہے وہ طمع لگا بیٹھے گا، اور معروف بات کہو۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غیر محرموں سے گفتگو کرنے کے لیے دوشرطیں ذکر کی ہیں:۔ ۱۔ لہجہ پرکشش نہ ہو۔ ۲۔ معروف بات ہو۔ یعنی اجنبی مرد وعورت سے گفتگوکرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ گفتگو معروف یعنی اچھائی،بھلائی،نیکی،ضروری اور پاکیزہ گفتگوہو نیز گفتگو بھی ایسے لہجے میں کیا جائے کہ جس سے کسی قسم کا توقع نہ ہو سکے،ظاہر سی بات ہے کہ منگیتر سے گفتگو کرنا نہ تو ضروری ہوتا ہے اورنہ پاکیزہ بلکہ عین ممکن ہے کہ کہیں بات اور چیٹنگ کرتے کرتے شادی سے پہلے ہی غلط تعلقات قائم نہ ہو جائیں، اس لئے منگیتر یا غیر منگیتر کسی سے بھی چیٹنگ یاگفتگو بلاضرورت شدیدہ جائزنہیں ہے،اس امت کی سب سے پاکیزہ خواتین ازواج مطہرات ہیں، انکو بھی غیر محرم مردوں سے انہی اصولوں کو مدنظر رکھ کر گفتگو کرنے کا قرآن نے (مذکورہ بالا آیت میں)حکم دیاہے،اس لئے تمام مرد وعورت کیلئے یہی حکم ہو گا کہ وہ بلاوجہ،غیر شرعی، غیر ضروری نہ تو کسی غیر محرم سے گفتگو کر سکتے ہیں اور نہ چیٹنگ کر سکتے ہیں۔

کچھ نئے مضامین