Wednesday, June 20, 2018

تہجد



{نما زِتہجد}

نمازتہجد کی احادیث میں بہت خوبیاں بیان کی گئی ہیں اور رسول اللہ  ﷺنے اس کی بہت ترغیب دی ہے اور بعض علما نے نمازِ تہجد کو سنّتِ مؤکدہ کہا ہے،حنفیہ کے نزدیک افضل ترین نفل ہے ،اس لیے خود بھی تہجد کا حتی الوسع اہتمام کرنا چاہیے اور اپنے گھر والوں کو بھی اسکی ترغیب دینی چاہیے۔ رسول اللہ  ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائیں جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھتاہے اور اپنی بیوی کو بھی اٹھاتاہے کہ وہ نماز پڑھے،
{تہجد کے فضائل}
حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے:
’’وَمِنَ اللَّیلِ فَتَہَجَّدْ بِہ نَافِلَۃً لَّکَ، عَسیٰ اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوْداً‘‘۔ (بنی اسرائیل:۹۷)
ترجمہ:۔’’اور رات کے کچھ حصہ میں تہجد پڑھ لیاکرو جو آپ کے حق میں زائد چیز ہے، امیدکہ آپ کا رب آپ کو ’’مقام محمود‘‘ میں جگہ دے‘‘۔
’’مقام محمود‘‘ مقامِ شفاعتِ کبریٰ ہے، جس پر قیامت کے دن فائز ہوکر آپ  ﷺ اپنی امت کی بخشش کرائیں گے۔ (ابن کثیرمکتبہ جبرئیل)
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:
’’إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ، اٰخِذِیْنَ مَآاٰتٰہُمْ رَبُّہُمْ إِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ، کَانُوْا قَلِیْلاً مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ وَبِالأَسْحَارِہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ‘‘۔ (الذاریات5 1تا18)
ترجمہ:۔’’بے شک پرہیزگار بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے اور اپنے رب کی عطا کردہ نعمتیں لے رہے ہوں گے (اس بات پر کہ) بے شک یہ لوگ اس سے پہلے (دنیا میں) نیکو کار تھے، رات کو (تہجد پڑھنے کی وجہ سے) بہت کم سوتے تھے اور اخیر شب میں استغفار کیا کرتے تھے‘‘۔ 
دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ’’اور اللہ کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں اور جب جاہل قسم کے لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ ان سے یہ کہتے ہیں کہ بھئی سلام (معاف کرو)یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے حضور قیام اور سجدہ کرتے ہوئے رات بسر کرتے ہیں‘‘۔(سورہ الفرقان:۳۶) 
مذکورہ بالا ارشادات کی روشنی میں رات کو جس وقت آنکھ کھل جائے، وضو کرکے دورکعت، چار رکعت، چھ رکعت یا آٹھ رکعت جس قدر طاقت اور فرصت ہو، دل کی رغبت ہو، پڑھ لیا جائے، تہجد کا ثواب مل جائے گا، خصوصاً رمضان المبارک میں زیادہ اہتمام جائے،
تہجد کی فضیلت میں بہت سی احادیث ہیں، یہاں چند احادیث کا ترجمہ ذکر کیا جاتا ہے،
آپ  ﷺنے ارشاد فرمایا:
’’ سب روزوں میںافضل رمضان کے بعد محرم کے روزے ہیں جو اللہ کا مہینہ ہے،فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد ہے‘‘۔ (مسلم،باب  صَوْمِ یوم عاشورا 1:358)
حضرت عبد اللہ بن سلام جو تورات کے زبردست عالم تھے، مدینہ منورہ میں حضور اقدس  ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور چہرئہ انور دیکھ کر یقین ہوگیا کہ آپ ﷺاللہ کے سچے رسول ہیں، آپ جھوٹے نہیں ہوسکتے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سب سے پہلا کلام جو آپ ﷺکی زبان مبارک سے سنا، وہ یہ تھا:
’’یا ایہا الناس! افشوا السلام واطعموا الطعام وصلوا الارحام وصلوا باللیل والناس نیام، تدخلوا الجنۃ بسلام‘‘۔ (ترمذی باب فضل اطعام الطعام)
ترجمہ:۔’’اے لوگو! سلام کو پھیلاؤ، لوگوں کو کھانا کھلاؤ، رشتہ داری کو جوڑو اور رات میں تہجد کی نماز پڑھو، جبکہ لوگ سورہے ہوں، تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے‘‘۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اس شخص پر رحم کرتا ہے جو آدھی رات کو اٹھتا ہے اور تہجد کی نماز پڑھتا ہے اور اپنی بیوی کو بھی جگاتا ہے اور وہ بھی نماز پڑھتی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو وہ اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے (پیار سے) پھینکتا ہے اور اللہ اس عورت پر بھی نظر کرم فرماتا ہے جو رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتی ہے اور اپنے خاوند کو بھی تہجد کے لیے جگاتی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو وہ عورت (پیار سے) اپنے خاوند کے منہ پر پانی کے چھینٹے پھینکتی ہے۔‘‘ (ابو داؤد، باب قِيَامِ اللَّيْل) 
آپ  ﷺنے ارشاد فرمایا: 
’’جنت میں ایک محل ہے جس کا اندرونی حصہ باہر سے اور باہر کا حصہ اندر سے نظر آتا ہوگا۔حضرت ابو مالک اشعری نے پوچھا: یہ کس کو ملے گا اے اللہ کے رسول! فرمایا: اس کو جو شیریں کلام ہو اور لوگوں کو کھانا کھلاتا ہو اور نماز تہجد میں کھڑے ہوئے رات گذارتا ہو، جبکہ لوگ سورہے ہوں‘‘۔ (طبرانی،ترمذی، باب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ غُرَفِ الْجَنَّةِ) 
ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ  ﷺنے ارشاد فرمایاکہ’’جس شخص کی رات میں نماز (تہجد) زیادہ ہوگی، اس کا چہرہ دن میں زیادہ حسین ہوگا‘‘۔ (ابن ماجہ ،بَابُ: مَا جَاءَ فِي قِيَامِ اللَّیل)
جناب رسول اللہ  ﷺ نے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا کہ:
’’تمہیں تہجد ضرور پڑھنا چاہئے، اس لئے کہ یہ تمہارے سے پہلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے رب سے نزدیک ہونے کا ذریعہ ہے، گناہوں کا کفارہ ہے اور گناہوں سے روکنے والی ہے‘‘۔ (ترمذی باب فِي دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ)
ایک اور حدیث میں ہے کہ’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ رحم کرے اس آدمی پر جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے، پھر اپنی بیوی کو بیدار کرے، تو وہ (بھی) نماز پڑھے، اگر نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اور اللہ رحم کرے اس عورت پر جو رات کو اٹھے اور تہجد پڑھے، پھر اپنے شوہر کو (بھی) بیدار کرے، تو وہ بھی تہجد پڑھے، اور اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے“۔ (نسائی  بَابُ: التَّرْغِيبِ فِي قِيَامِ اللَّيلِ)
ایک اور حدیث میں چند خوش نصیبوں کا ذکر ہے، جن کے تین انعامات ہیں:
(۱)اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے۔
(۲)ان کے سامنے ہنستا ہے۔
(۳)ان سے خوش ہوتا ہے۔
ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس کی خوبصورت بیوی ہو، عمدہ نرم بستر ہو اور وہ ان کو چھوڑ کر رات کو نماز تہجد کے لئے اٹھے، اس کے بارے میں خدا خود فرمائے گا کہ اس نے اپنی خواہش چھوڑ دی اور میرا ذکر کیا، حالانکہ اگر یہ چاہتا تو سوجاتا‘‘۔ (طبرانی)
اسی حدیث کی دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ:
’’اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھے گا: میرے بندے کو اس کام (تہجد پڑھنے) پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ فرشتے عرض کریں گے: اے رب! آپ کے پاس کی چیز (جنت ونعمت) کی امید نے اور آپ کے پاس کی چیز (دوزخ وعذاب)کے خوف نے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: تحقیق میں نے ان کو وہ چیز عطا کردی، جس کی امید کی تھی اور اس چیز سے محفوظ کردیا، جس سے وہ ڈرتے تھے‘‘۔ (مسنداحمد)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ سرور کونینﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی مرد رات کو اپنی بیوی کو جگائے اور دونوں نماز تہجد ادا کرلیں تو ان دونوں میاں بیوی کا نام اللہ کی یاد سے خاص تعلق رکھنے والوں میں لکھ دیا جائے گا۔ (ابوداؤد/109)
حضرت ابوامامہ راوی ہیں کہ سرور کونین  ﷺ نے فرمایا ': قیام اللیل (یعنی نماز تہجد پڑھنے کو) ضروری جانو کیونکہ (اول تو) یہ طریقہ تم سے پہلے کے نیک لوگوں کا ہے اور پھر مزید یہ کہ) قیام لیل تمہارے لئے پروردگار کی نزدیکی اور گناہوں کے دور ہونے کا سبب ہے، نیز یہ کہ تمہیں گناہوں سے باز رکھنے والا ہے۔'' (جامع ترمذی، باب فِي دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلّم)
حضرت عبد اللہ بن سلام کہتے ہیں کہ: تورات میں لکھا ہے کہ:
’’جن لوگوں کے پہلو خوابگاہوں سے جدا رہتے ہیں، ان کے لئے خدانے ایسی نعمتیں تیار کررکھی ہیں، جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا،نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی آدمی کے دل پر اس کا خیال گذرا، ان نعمتوں کو مقرب فرشتے اور نبی مرسل بھی نہیں جانتے‘‘۔ (حاکم)
{تہجد کے وقت اٹھنے کے طبی فوائد }
رات کی آخری گھڑیوں میں اٹھ کر تہجد ادا کرنے سے ویسے تو وہ تمام میڈیکل فوائد حاصل ہوتے ہیں جو ہر نماز سے حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً جسم کے پٹھوں اور جوڑوں کی ورزش، سجدہ کی وجہ سے چہرے کے مساموں (Tissues)میں خون کی مزید گردش، انسان کے Sinusesمیں جمع شدہ بلغم کا اخراج، رات کو تنفس (Breathing)کی رفتار آہستہ ہونے کی وجہ سے پھیپھڑوں کے مکمل طور پر کھل نہ سکنے کی وجہ سے جو ایک تہائی ہوا (Residual Air)جمع ہوتی ہے اسے بھی پھیپھڑوں سے نکلنے اور داخل ہونے کا موقع مل جاتا ہے سجدے کی حالت میں دماغ کو زائد خون پہنچتا ہے جو اس کی نشوو نما کے لیے اہم کر دیتا ہے اس کے علاوہ سحر خیزی کے مزید بے شمار فوائد ہیں جو نمازِ تہجد کے اٹھنے کے ساتھ مخصوص ہیں۔ حضرت سلمان الفارسی(رضی اللہ عنہ) رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)سے حدیث روایت کرتے ہیں۔ ’’تہجد کے وقت اٹھ کر نماز پڑھنے کی عادت بنا لو کیونکہ تم سے پہلی قوموں کے صالح لوگوں کی یہ عادت تھی، یہ تمہیں خدا سے قریب کرتی ہے، تمہارے گناہوں کا کفارہ ہے، تمہارے گناہوں کو مٹاتی ہے اور جسم سے بیماری کو دور کرتی ہے‘‘۔(فقہ السنہ ازسید الثاقب)
 صحیح حدیث میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا: ’’بورک لامتی فی بکورہٖ‘‘۔(الحدیث)’’میری امت کے لیے صبح اٹھنے میں برکت رکھی گئی ہے‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ تہجد کے وقت اٹھنا جسم میں بیماریوں کو دور کرتا ہے صبح جلدی بیدار ہونے سے جسم میں جمع شدہ فضلا ت (پیشاب و پاخانہ وغیرہ) کو جسم سے جلدی نکلنے کا موقع مل جاتا ہے جو کہ بصورتِ دیگر جسم میں رہ کر فساد پیدا کرتے ہیں اور گردوں پر زائد بوجھ پڑتا ہے اس کے علاوہ آکسیجن سے بھر پور صبح کی تازہ ہوا میں سانس لینے سے پھیپھڑوں اور دماغ کو تقویت ملتی ہے امریکہ کے نامور مفکر، سیاستدان او رسائنسدان بینجمن فریکلن (Benjamin Franklin)۔(المتوفی:۱۷۹۰ئ) نے سحر خیزی کے انہی فوائد کے پیشِ نظر اپنی کتاب (Poor Richards Almand)میں یہ قول زریں رقم کیا تھا۔
 (Early To Bed And Early To Rises. Makes The Man Healthy, Wealthy and wire) ’’رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا انسان کو صحت مند، مالدار اور عقلمند بناتا ہے‘‘۔ 

مزید مضامین کیلئے نیچے کے لنک پر جائیں


ہندوستان کے سلگتے مسائل                  

(۱)سول کوڈ                                                   برما کے مظلوم مسلمان


(۲)یکساں سول کوڈ                                           تین طلاق اور ہندوستان کی عدالت


No comments:

Post a Comment

شکریہ آپکا کومینڈ مفتی صاحب کے میل تک پہنچ گیا