بسم اللہ الرحمن الرحیم
ازقلم حضرت مولانا اسرار صاحب قاسمی
عالم اسلام میں مسلمانوں کاحال
یہ درست ہے کہ فی زمانہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب سے بھی زائد ہے، یعنی دنیا میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے جو پہلے کبھی بھی نہیں رہی۔ ایسے ہی یہ بھی درست ہے کہ مسلمانوں کے پاس درجنوں ممالک ہیں، جن میں سے بعض ممالک اقتصادی لحاظ سے کافی مضبوط ہیں اور وہاں قدرتی وسائل کی بھی فراوانی ہے۔ اس کے علاوہ جن ممالک میں حکومت مسلمانوں کی نہیں ہے، وہاں بھی مسلمان خاصی تعداد میں آباد ہیں۔ ہندوستان، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور ایشیا و افریقہ کے ملکوں میں مسلمان بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، مگر اس کے باوجود یہ بھی تلخ حقیقت ہے،کہ وہ اتنی کثیر تعداد میں ہونے اور بے پناہ قدرتی وسائل و ذرائع سے لیس ہونے کے باوجود پسماندگی و زبوں حالی سے اس درجہ دوچار ہیں کہ پسماندگی وپستی کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ ملت اسلامیہ کو پستی کی تہوں سے نکالنے میں نہ ہی ایک ارب سے زائدافراد پر مبنی آبادی متاثر کن ثابت ہورہی ہے، نہ درجنوں مسلم حکومتیں مسلمانوں کو بحران سے نجات میں دینے میں معاون ثابت ہورہی ہیں اور نہ ہی تیل، پٹرول اور گیس جیسے وسائل ملت اسلامیہ کو ترقی دینے میں کوئی کردار ادا کر رہے ہیں۔جب کہ ماضی میں صورت حال اس کے برعکس تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب مسلمانوں کے پاس افرادی قوت نہ تھی، نہ ان کے پاس حربی سازو سامان تھا اور نہ ہی ان کے پاس قدرتی وسائل تھے، پھر بھی انہوں نے ترقی کے اعلی مدارج کو طے کیا تھا اور عالمی سطح پر اپنا مقام بنا یا تھا۔دنیا بھر میں وہ شجاعت و بہادری میں تو مشہور تھے ہی، لیکن سائنس،ٹیکنالوجی اور مختلف علوم میں بھی انہوں نے اپنی بالادستی قائم کر رکھی تھی، ان کی تہذیب کے دنیا بھر میں چرچے تھے۔ ان کے عدل و انصاف کے اپنے وغیر سب قائل تھے۔ وہ ایک زندہ قوم تھے، جو دنیا کی قیادت و امامت کرنے کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ہمت و شجاعت سے بڑے بڑے فتنوں وظالموں کومٹاڈالا تھا اور انہوں نے دنیائے انسانیت کو مصائب و آفات سے بچانے کے لیے آندھیوں اور طوفانوں کا رخ موڑ دیا تھا۔ ماضی کے مسلمانوں نے نہ صرف اپنے بھائیوں کو ترقی کے مواقع فراہم کیے تھے، بلکہ ساری انسانیت کی بھلائی کے لیے انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے تھے۔
آج وہ منظر نامہ بالکل بدل گیا ہے۔ اب مسلمان صفحہ ہستی پر موجود مختلف بے شمار لوگوں کی قیادت و رہبری کے فرائض تو کیا انجام دیتے خو د دوسروں کی رہبری کے محتاج ہوگئے۔ ساری دنیا کے لوگوں کو پسماندگی وجہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے کیا نکالتے وہ خود ہی زبوں حالی کے شکار ہوگئے اور اپنی ڈوبتی نیا کو کنارے لگانے کے لیے دوسری قوموں کا سہارا لینے لگے۔ دنیا میں وہ جہاں کہیں بھی رہتے ہیں پریشانی و مسائل میں گھرے رہتے ہیں۔ ان کے اوپر خوف کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔ کوئی جگہ ان کے لیے محفوظ نہیں، کسی بھی سطح پر ان کا مستقبل تاب ناک نہیں۔ نہ تعلیمی سطح پر، نہ سماجی سطح پر، نہ مذہبی سطح پر، نہ سیاسی سطح پر اور نہ اقتصادی سطح پر۔
سوال یہ ہے کہ آخر اتنی بڑی تبدیلی کیوں واقع ہوگئی؟ کیوں مسلمان ترقی کی چوٹیوں سے گر کرپسماندگی کے ایسے گڑھوں میں گر گئے جہاں سے ان کا نکلنا دشوارتر ہے؟ افراد ان کے پاس، حکومتیں ان کے پاس، وسائل ان کے پاس، اس کے باوجود ان کا وجود کیوں منتشر ہورہا ہے؟ ان کے مسائل میں کیوں اضافہ ہورہا ہے؟ یہ سوچنے کا مقام ہے۔ اس لیے کہ اگر ملت اسلامیہ نے اپنے زوال و انحطاط کے اسباب کو تلاش کرنے کی کو شش نہ کی اور مستقبل کا کوئی لائحہ عمل طے نہ کیا تو پھر آنے والی نہ جانے کتنی صدیاں دنیا کے مسلمانوں کے لیے اور زیادہ تاریک ثابت ہوسکتی ہیں۔
مسلمانوں کے زوال پر گہری نگاہ ڈالنے کے بعد جو اسباب سامنے آتے ہیں ان میں سے ایک ان کے درمیان اتحاد کا فقدان اور اختلافات کا فروغ ہے۔آ ج صورت حال یہ ہے کہ اگر کسی گاؤں یاقصبہ میں چند سو مسلمان ہیں تو وہ مختلف مسلکوں اور برادریوں میں تقسیم ہیں۔پھر مسلک اور برادری کی خلیجیں اتنی گہری ہیں، جو ایک دوسرے کو قریب نہیں ہونے دیتیں۔وہ مسلمان جو خود کو اعلی برادریوں سے منسلک سمجھتے ہیں وہ دوسری برادریوں کے ساتھ میل جول رکھنا پسند نہیں کرتے یا پھر انہیں حقارت سے دیکھتے ہیں۔ برادری کی خلیجیں افسوس اس قدر گہری ہوگئی ہیں کہ بعض دیہاتوں میں مسجدیں تک اپنی اپنی بنالی گئی ہیں۔اگر بات مسلکی اختلاف کی کی جائے تو اکثر و بیشتر مسلک کے نام پر لڑائی جھگڑوں کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ اختلاف صرف اور صرف برادریوں یا مسلکوں تک محدود نہیں، بلکہ اختلاف مسلم ملکوں و حکومتوں کے درمیان بھی پا یا جاتا ہے۔ آج مسلم حکومتوں و مملکتوں کی تعداد پچاس سے زائد بتائی جاتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ باہم متحد نہیں، بلکہ سخت اختلافات کی شکار ہیں۔ کہیں وہ باہم متصادم ہیں تو کہیں ایک دوسرے کی ترقی کو روکنے کے لیے کوشاں ہیں۔گذشتہ چنددہائیوں کے درمیان کئی مسلم ممالک باہم زارونزار ہوچکے ہیں۔اور آج بھی جب کہ حالات ان کے خلاف ہیں وہ ایک پلیٹ فارم پر نظر نہیں آتے اور نہ ہی دوسرے مسلم ملک کے تحفظ کے لیے کوئی کردار ادا کرتے ہیں۔ عراق پر حملہ کیا گیا۔ لیکن اس سے پہلے امریکہ اور اس کے حلیف ممالک نے کئی بار دھمکیاں دیں اور ماحول تیار کیا، لیکن مسلم ممالک نے امریکی حملہ کو روکنے کے لیے کوئی دلچسپی نہ لی۔ شاید اس لیے کہ ان کے عراق سے اختلاف رہ چکے تھے۔وقت کا تقاضہ تھا کہ پرانی رنجشوں کو اس موقع پر ختم کر دیا جاتا یا کم از کم عراق کے عام لوگوں کی ہلاکتوں کے بارے میں سوچ کر عراق پر ہونے والے حملے کی سخت مخالفت کرنی چاہیے تھی، تاکہ لاکھوں مسلمانوں کی جانوں کے ضیاع کو روکا جاتا۔ یہی صورت حال افغانستان میں بھی پیش آئی۔ امریکہ کو حملہ کرنے سے روکنے کی کسی نے کوشش ہی نہ کی بلکہ بعض توالٹے امریکہ کا ہی ساتھ دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ اس اختلاف نے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا یا ہے۔
قرآن میں مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک تمام مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔ احادیث کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مسلمان بھائیو ں کے دکھ در د کو محسو س کرنا چاہیے۔ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان کالے گورے، عربی عجمی اور امیر و غریب کے درمیان کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔لیکن مذکورہ آیت اور احادیث پر ملت اسلامیہ کے زیادہ تر افراد عمل پیرا نظر نہیں آتے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب مسلمانوں کاعمل قرآن و حدیث کے خلاف ہوگا تو انہیں مسائل سے کیسے نجات مل سکتی ہے اور وہ اپنا وہ فریضہ کیسے انجام دے سکتے ہیں جو انہیں انجام دینا چاہیے۔ملت اسلامیہ کی کام یابی کے لیے سب سے موثر کن چیز مذہب ’’اسلام‘‘ ہے۔ اگرچہ اسلام کو مبعوث ہوئے چودہ صدیاں گزرچکی ہیں، تاہم ہنوز اسلام محفوظ ہے۔قرآن جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا وہ آج بھی اپنی اصلی شکل میں موجود ہے، اس کی کسی آیت میں ترمیم تو در کنار، ایک حرف اور نقطہ یا زبر زیر تک میں تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا بڑا ذخیرہ آج بھی محفوظ ہے۔ علاوہ ازیں علمائے کرام، فقہاء اور مفسرین کی مرتب کردہ تصانیف بھی موجود ہیں۔ اگر ساری دنیا کے مسلمان دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اوراس پر عمل پیرا ہوں تو وہ اپنا کھویا ہوا مقام پھر دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔کیوں کہ دین پر مکمل عمل کا مطلب ہے کہ وہ باہم اختلاف کے شکار نہ ہوں گے، وہ کسی کے حقوق غصب نہ کریں گے، ان میں کا کوئی فرد جھوٹ نہ بولے گا، وعدہ خلافی نہ کرے گا، کسی کا دل نہ دکھائے گا، جرائم میں ملوث نہ ہوگا،زنا کاری و فحاشی سے دور بھا گے گا۔ کوئی بھی مسلمان کسی کو قتل نہ کرے گا۔ کسی کی غیبت نہ کرے گا، کسی کی ترقی پر حسد نہ کرے گا، فقیر و محتاج کو نہ دھتکارے گا اور کوئی شخص لایعنی باتوں میں وقت ضائع نہ کرے گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب سچائی، انصاف، برابری، حقوق کی تکمیل،مسکینوں و ضرورت مندوں کی داد رسی جیسے بہترین اوصاف سے تمام مسلمان مزین ہوں گے تو پھر انہیں کام یابی کے اعلی مدارج کو طے کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ وہ دنیا میں بھی کام یاب ہوں گے اور آخرت میں بھی فلاح یابی ان کے قدم چومے گی۔ قرآن وحدیث پر مکمل عمل کرنے کی وجہ سے ان کے اندر ساری دنیا کی قیادت و امامت کی صلاحیت ابھر آئے گی۔ جس کے باعث وہ اہل دنیا کو فتنوں سے محفوظ رکھنے اور انہیں بدعنوانیوں وپریشانیوں سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کرسکیں گے۔