Wednesday, November 23, 2016

عالم اسلام میں مسلمان کا حال

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ازقلم حضرت مولانا اسرار صاحب قاسمی

عالم اسلام میں مسلمانوں کاحال


          یہ درست ہے کہ فی زمانہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب سے بھی زائد ہے، یعنی دنیا میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے جو پہلے کبھی بھی نہیں رہی۔ ایسے ہی یہ بھی درست ہے کہ مسلمانوں کے پاس درجنوں ممالک ہیں، جن میں سے بعض ممالک اقتصادی لحاظ سے کافی مضبوط ہیں اور وہاں قدرتی وسائل کی بھی فراوانی ہے۔ اس کے علاوہ جن ممالک میں حکومت مسلمانوں کی نہیں ہے، وہاں بھی مسلمان خاصی تعداد میں آباد ہیں۔ ہندوستان، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور ایشیا و افریقہ کے ملکوں میں مسلمان بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، مگر اس کے باوجود یہ بھی تلخ حقیقت ہے،کہ وہ اتنی کثیر تعداد میں ہونے اور بے پناہ قدرتی وسائل و ذرائع سے لیس ہونے کے باوجود پسماندگی و زبوں حالی سے اس درجہ دوچار ہیں کہ پسماندگی وپستی کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ ملت اسلامیہ کو پستی کی تہوں سے نکالنے میں نہ ہی ایک ارب سے زائدافراد پر مبنی آبادی متاثر کن ثابت ہورہی ہے، نہ درجنوں مسلم حکومتیں مسلمانوں کو بحران سے نجات میں دینے میں معاون ثابت ہورہی ہیں اور نہ ہی تیل، پٹرول اور گیس جیسے وسائل ملت اسلامیہ کو ترقی دینے میں کوئی کردار ادا کر رہے ہیں۔جب کہ ماضی میں صورت حال اس کے برعکس تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب مسلمانوں کے پاس افرادی قوت نہ تھی، نہ ان کے پاس حربی سازو سامان تھا اور نہ ہی ان کے پاس قدرتی وسائل تھے، پھر بھی انہوں نے ترقی کے اعلی مدارج کو طے کیا تھا اور عالمی سطح پر اپنا مقام بنا یا تھا۔دنیا بھر میں وہ شجاعت و بہادری میں تو مشہور تھے ہی، لیکن سائنس،ٹیکنالوجی اور مختلف علوم میں بھی انہوں نے اپنی بالادستی قائم کر رکھی تھی، ان کی تہذیب کے دنیا بھر میں چرچے تھے۔ ان کے عدل و انصاف کے اپنے وغیر سب قائل تھے۔ وہ ایک زندہ قوم تھے، جو دنیا کی قیادت و امامت کرنے کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ہمت و شجاعت سے بڑے بڑے فتنوں وظالموں کومٹاڈالا تھا اور انہوں نے دنیائے انسانیت کو مصائب و آفات سے بچانے کے لیے آندھیوں اور طوفانوں کا رخ موڑ دیا تھا۔ ماضی کے مسلمانوں نے نہ صرف اپنے بھائیوں کو ترقی کے مواقع فراہم کیے تھے، بلکہ ساری انسانیت کی بھلائی کے لیے انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے تھے۔
آج وہ منظر نامہ بالکل بدل گیا ہے۔ اب مسلمان صفحہ ہستی پر موجود مختلف بے شمار لوگوں کی قیادت و رہبری کے فرائض تو کیا انجام دیتے خو د دوسروں کی رہبری کے محتاج ہوگئے۔ ساری دنیا کے لوگوں کو پسماندگی وجہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے کیا نکالتے وہ خود ہی زبوں حالی کے شکار ہوگئے اور اپنی ڈوبتی نیا کو کنارے لگانے کے لیے دوسری قوموں کا سہارا لینے لگے۔ دنیا میں وہ جہاں کہیں بھی رہتے ہیں پریشانی و مسائل میں گھرے رہتے ہیں۔ ان کے اوپر خوف کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔ کوئی جگہ ان کے لیے محفوظ نہیں، کسی بھی سطح پر ان کا مستقبل تاب ناک نہیں۔ نہ تعلیمی سطح پر، نہ سماجی سطح پر، نہ مذہبی سطح پر، نہ سیاسی سطح پر اور نہ اقتصادی سطح پر۔
سوال یہ ہے کہ آخر اتنی بڑی تبدیلی کیوں واقع ہوگئی؟ کیوں مسلمان ترقی کی چوٹیوں سے گر کرپسماندگی کے ایسے گڑھوں میں گر گئے جہاں سے ان کا نکلنا دشوارتر ہے؟ افراد ان کے پاس، حکومتیں ان کے پاس، وسائل ان کے پاس، اس کے باوجود ان کا وجود کیوں منتشر ہورہا ہے؟ ان کے مسائل میں کیوں اضافہ ہورہا ہے؟ یہ سوچنے کا مقام ہے۔ اس لیے کہ اگر ملت اسلامیہ نے اپنے زوال و انحطاط کے اسباب کو تلاش کرنے کی کو شش نہ کی اور مستقبل کا کوئی لائحہ عمل طے نہ کیا تو پھر آنے والی نہ جانے کتنی صدیاں دنیا کے مسلمانوں کے لیے اور زیادہ تاریک ثابت ہوسکتی ہیں۔
مسلمانوں کے زوال پر گہری نگاہ ڈالنے کے بعد جو اسباب سامنے آتے ہیں ان میں سے ایک ان کے درمیان اتحاد کا فقدان اور اختلافات کا فروغ ہے۔آ ج صورت حال یہ ہے کہ اگر کسی گاؤں یاقصبہ میں چند سو مسلمان ہیں تو وہ مختلف مسلکوں اور برادریوں میں تقسیم ہیں۔پھر مسلک اور برادری کی خلیجیں اتنی گہری ہیں، جو ایک دوسرے کو قریب نہیں ہونے دیتیں۔وہ مسلمان جو خود کو اعلی برادریوں سے منسلک سمجھتے ہیں وہ دوسری برادریوں کے ساتھ میل جول رکھنا پسند نہیں کرتے یا پھر انہیں حقارت سے دیکھتے ہیں۔ برادری کی خلیجیں افسوس اس قدر گہری ہوگئی ہیں کہ بعض دیہاتوں میں مسجدیں تک اپنی اپنی بنالی گئی ہیں۔اگر بات مسلکی اختلاف کی کی جائے تو اکثر و بیشتر مسلک کے نام پر لڑائی جھگڑوں کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ اختلاف صرف اور صرف برادریوں یا مسلکوں تک محدود نہیں، بلکہ اختلاف مسلم ملکوں و حکومتوں کے درمیان بھی پا یا جاتا ہے۔ آج مسلم حکومتوں و مملکتوں کی تعداد پچاس سے زائد بتائی جاتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ باہم متحد نہیں، بلکہ سخت اختلافات کی شکار ہیں۔ کہیں وہ باہم متصادم ہیں تو کہیں ایک دوسرے کی ترقی کو روکنے کے لیے کوشاں ہیں۔گذشتہ چنددہائیوں کے درمیان کئی مسلم ممالک باہم زارونزار ہوچکے ہیں۔اور آج بھی جب کہ حالات ان کے خلاف ہیں وہ ایک پلیٹ فارم پر نظر نہیں آتے اور نہ ہی دوسرے مسلم ملک کے تحفظ کے لیے کوئی کردار ادا کرتے ہیں۔ عراق پر حملہ کیا گیا۔ لیکن اس سے پہلے امریکہ اور اس کے حلیف ممالک نے کئی بار دھمکیاں دیں اور ماحول تیار کیا، لیکن مسلم ممالک نے امریکی حملہ کو روکنے کے لیے کوئی دلچسپی نہ لی۔ شاید اس لیے کہ ان کے عراق سے اختلاف رہ چکے تھے۔وقت کا تقاضہ تھا کہ پرانی رنجشوں کو اس موقع پر ختم کر دیا جاتا یا کم از کم عراق کے عام لوگوں کی ہلاکتوں کے بارے میں سوچ کر عراق پر ہونے والے حملے کی سخت مخالفت کرنی چاہیے تھی، تاکہ لاکھوں مسلمانوں کی جانوں کے ضیاع کو روکا جاتا۔ یہی صورت حال افغانستان میں بھی پیش آئی۔ امریکہ کو حملہ کرنے سے روکنے کی کسی نے کوشش ہی نہ کی بلکہ بعض توالٹے امریکہ کا ہی ساتھ دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ اس اختلاف نے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا یا ہے۔
قرآن میں مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک تمام مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔ احادیث کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مسلمان بھائیو ں کے دکھ در د کو محسو س کرنا چاہیے۔ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان کالے گورے، عربی عجمی اور امیر و غریب کے درمیان کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔لیکن مذکورہ آیت اور احادیث پر ملت اسلامیہ کے زیادہ تر افراد عمل پیرا نظر نہیں آتے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب مسلمانوں کاعمل قرآن و حدیث کے خلاف ہوگا تو انہیں مسائل سے کیسے نجات مل سکتی ہے اور وہ اپنا وہ فریضہ کیسے انجام دے سکتے ہیں جو انہیں انجام دینا چاہیے۔ملت اسلامیہ کی کام یابی کے لیے سب سے موثر کن چیز مذہب ’’اسلام‘‘ ہے۔ اگرچہ اسلام کو مبعوث ہوئے چودہ صدیاں گزرچکی ہیں، تاہم ہنوز اسلام محفوظ ہے۔قرآن جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا وہ آج بھی اپنی اصلی شکل میں موجود ہے، اس کی کسی آیت میں ترمیم تو در کنار، ایک حرف اور نقطہ یا زبر زیر تک میں تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا بڑا ذخیرہ آج بھی محفوظ ہے۔ علاوہ ازیں علمائے کرام، فقہاء اور مفسرین کی مرتب کردہ تصانیف بھی موجود ہیں۔ اگر ساری دنیا کے مسلمان دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اوراس پر عمل پیرا ہوں تو وہ اپنا کھویا ہوا مقام پھر دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔کیوں کہ دین پر مکمل عمل کا مطلب ہے کہ وہ باہم اختلاف کے شکار نہ ہوں گے، وہ کسی کے حقوق غصب نہ کریں گے، ان میں کا کوئی فرد جھوٹ نہ بولے گا، وعدہ خلافی نہ کرے گا، کسی کا دل نہ دکھائے گا، جرائم میں ملوث نہ ہوگا،زنا کاری و فحاشی سے دور بھا گے گا۔ کوئی بھی مسلمان کسی کو قتل نہ کرے گا۔ کسی کی غیبت نہ کرے گا، کسی کی ترقی پر حسد نہ کرے گا، فقیر و محتاج کو نہ دھتکارے گا اور کوئی شخص لایعنی باتوں میں وقت ضائع نہ کرے گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب سچائی، انصاف، برابری، حقوق کی تکمیل،مسکینوں و ضرورت مندوں کی داد رسی جیسے بہترین اوصاف سے تمام مسلمان مزین ہوں گے تو پھر انہیں کام یابی کے اعلی مدارج کو طے کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ وہ دنیا میں بھی کام یاب ہوں گے اور آخرت میں بھی فلاح یابی ان کے قدم چومے گی۔ قرآن وحدیث پر مکمل عمل کرنے کی وجہ سے ان کے اندر ساری دنیا کی قیادت و امامت کی صلاحیت ابھر آئے گی۔ جس کے باعث وہ اہل دنیا کو فتنوں سے محفوظ رکھنے اور انہیں بدعنوانیوں وپریشانیوں سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کرسکیں گے۔

ملک بھارت کے سلگتے مسائل پڑھنے کے نیچے کلک کریں

Sunday, November 20, 2016

پتنجلی کی چیزیں حرام ہیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پتنجلی کی چیزیں حرام ہیں

الحمد للہ رب العٰلمین الرحمن الرحیم،مالک یو م الدین
    میں رمضان المبارک کے بعد جب شہر چند گڑھ تشریف لایا تو ایک بندہ نے چلتے چلتے مجھ سے دریافت کیا کہ مفتی صاحب میرے والد محتر م نے آج میرے گھر میں پتن جلی کمپنی کا صابن وغیرہ خریدکر لایاہے، اسکا استعمال کر سکتے ہیں؟ میں نے ان سے کہا بھا ئی پتن جلی کمپنی کا مالک ’’رام دیو بابا ‘‘نے ایک انٹر ویو میں ٹیوی پرکہاتھا کہ ہم کائے کا پیشاب ملاتے ہیں،اگر مسلمان نہیں استعمال کرتے ہیں تو یہ انکی مرضی ہے، ہماری قوم اسکو اپنے لئے پوتر سمجھ تی ہے،اور اس کو استعمال کرتی ہے؛ اس لئے ہم اپنے پروجکٹ میں گاؤمتر ملاتے ہیں۔اس لئے اس پس منظر میں پتنجلی کے پروجکٹ کا استعمال کرنا جائزنہیں ہے،میں نے یہ جواب تو انکو دے دیا لیکن میں نے اسی وقت ارداہ کیا کہ اس بات کو پورے عوام کے سام آنا چاہیے، جس کے لئے ہمیں اس عنوان پر کسی جمعہ بات کرنی ہوگی ،لیکن درمیان میں حکومت نے کچھ ایسے مسائل پیش کردئے (یکساں سول کوڈوغیرہ)جس پر تبصرہ کرنا اور امت کے لئے راہ عمل کیلئے نشادہی کرنا نہایت ضروری تھا؛اس لئے مذکورہ عنوان پر اب تک مذاکرہ نہ کر سکااور آج بتایخ 11۔11۔2016 کواپنے مسلمان بھائیوں کو قرآن واحادیث کی روشنی میں ا سی عنوان کے تحت مذاکرہ کرنا چاہتا ہوں،تو آج صرف ہم پتنجلی کے پروجکٹ پر گفتگو نہیں کریں کہ بلکہ اس گفتگو کا تعلق ہر اس سامان سےہے جس میں کسی قسم کا حرام چیز ملاگیا ہو۔
تواس وقت آپکی خدمت میں کل دو باتیں عرض کرونگا، (۱) جن چیزوں میں حر ام چیزیں مثلا:گائیکا پیشاب،سوگر کی چربی، مردار کی ہڈی کا رس،حرام جانور کی چربی یا گوشت وغیرہ ڈال کر بنایا جائے،انکوبطور دواکے استعمال کرنا،(۲)دواکے علاودوسریکاموں میں استعمال کرنا،
نمبر ۱؂ کہ جن چیزوں میں گائے کا پیشاب وغیرہ ڈالاگیا ہو اس کو بطور دواکے استعمال کی دو صورتیں ہیں ۱؂ پہلی صورت داخلی (جسم کے اندرونی) طورپر استعمال کرنا،اس کا تفصیلی حکم یہ ہے کہ اگر اضطراری حالت ہوکہ اس کے بغیر آدمی مرجائے گا،تو بھر ایسی دوا کا استعمال کرنا جائز ہے،اگر اضطرار کی حالت نہ ہو مگر بیماری اور تکلیف کی شدت ایسی ہو جو مریض کو بے چین کردے اور خطرہ ہو کہ مرض شدت پکڑ لیگا،تو اس صورت میں حرام اور نجس دوا کو استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جمہور فقہاء اس کی اجازت دیتے ہیں، بشرطیکہ کسی معتمد مسلم ڈاکٹر کی رائے میں اس کے علاوہ کوئی علاج نہ ہو اور اس حرام چیز سے بیماری اور تکلیف دور ہوجانے کا پورا یقین ہو،اگر جان کا خطرہ نہ ہو اور مرض کی شدت بھی نہ ہو، مگر مرض کی مدت بہت زیادہ طویل ہونے کا معاملہ ہو تو اس صورت میں بھی بعض فقہاء نے حرام کے استعمال کی اجازت دی ہے، لیکن اجتناب بہتر ہے۔ اور اگرطوالت کا اندیشہ بھی نہ ہو، صرف بدن کی تقویت یا حسن میں اضافہ اور تفریحِ طبع یا محض ہوس رانی مقصود ہو تو حرام اور نجس شے کے استعمال کرنے کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔،اوپر کی پوری تفصیل اندواؤں کے متعلق ہیں جن دواؤ میں حرام چیز بعینہ موجود ہوں، اگر وہ حرام چیز کسی تکنیکی اعتبار سے بعینہ موجود نہ رہے جیسے کہ بعض دواؤں میں جو الکحل ہو تی ہے اسکی حقیقت بدل جاتی ہے اور وہ اپنے جسم وجثہ کے ساتھ دوا میں نہیں رہتا ہے، تو ایسے دواؤں کا استعمال مطلقاً جائز ہے،یہ پوری تفصیل ان دواؤں کے متعلق ہوئی جنکو داخلی طور پر استعمال کیا جا تا ہے،۲؎ دوسری صورت: اگر ایسی دواؤں کو خارجی طور پر استعما کیا جائے تو مطلقاًجائز ہے،ہاں اگر وہ دوا ایسی ہیجس میں حرام چیز بعینہ موجود ہو، تو جن جگہوں پر ان دواؤں کو لگا یا ہے وہ جگہیں ناپاک ہو جائیگا اگر کپڑا میں لگ جائے تو کپڑا بھی ناپاک ہو جائیگا نماز پڑھنے سے پہلے انکو دھونا پڑیگا،
اب ہم ان چیزوں کے احکام کا تذکرہ کرتے ہیں جن میں حرام چیز پیشاب وغیرہ ڈالاجا تا ہے اور اسکا استعمال دواکے علاوہ کاموں میں کیا جا تا ہو،جیسے کہ پتنجلی کی اکثر پروجکٹ،اس سلسلے میں ہم دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ پیش کرتے ہیں ، دارالا فتا سے کسی نے پتنجلی کےسامان کے متعلق دریافت کیا تو دارالافتاسے جواب ملتا ہے ’’پتنجلی کی مصنوعات میں اگر پیشاب کی آمیزش ہو،تو اس کا استعمال کرنا جائز نہیں، لہذا جن مصنوعات میں گائے کے پیشاب کی آمیزش کا خود کمپنی والے اعتراف کریں، یا کسی دوسرے ذرائع سے یقین یا ظن غالب کی حد تک پیشاب کی آمیزش کا علم ہوجائے،ان کا استعمال ناجائز ہے، باقی چیزیں جن میں پیشاب کی آمیزش نہ ہونا یقینی طور پر معلوم ہو ان کا استعمال جائز ہے۔ اور یقینی طور سے معلوم نہ ہوسکنے کی صورت میں احتیاط کرلینا بہتر ہے‘‘(Fatwa ID: 934۔757/D23611 /1437) 
اس فتویٰ کی روشنی میں اچھی طرح معلوم ہو گیا،کہ پتن جلی کے مصنوعات کا کیا حکم ہے،
نوٹ: اوپر میں جس بیان کو تحریری شکل میں پیش کیا گیا ہے،اس بیان کا ایک حصہ عاجز نے حذف کردیا ہے،اور بہت ہی اختصار اور اضافہ یسیر کے ساتھ جمع کر کے زاد آخرت کے لئے تمام امت کے سامنے پیش کیا ہے،اللہ تعالیٰ پوری امت کی حفاظت فرمائے۔آمین

 ملک بھارت کے سلگتے مسائل پڑھنے کے نیچے کلک کریں

Sunday, November 13, 2016

طلاق اور موجودہ حکومت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

طلاق اور موجودہ حکومت


‘‘ومن لم یحکم بماانزل اللہ فأولئک ھم الکافرون’’

تقریبا آج دو تین مہینے سے طلاق،خلع اور نکاح پر اعتراض کیا جارہا ہے،اور اس اعتراض کرنے میں جہاں بھارت کی حکومت ہے ،وہیں مٹھی بھر نام نہاداپنے آپکو مسلمان بتانے والے،یہودی وعیسائی اور آر ایس ایس کے آلہ کار بھی ان شرعی امور پراعتراض کررہے ہیں،یہ مٹھی بھر مسلمان جو میڈیا پر آکر اعتراض کرتے ہیں اور میڈیا والے اسلام اور مسلمان کو بدنا کرنے کیلئے اسکو بڑھا چڑھاکر چینلوں پر بتاتے ہیں، کہ خود مسلمان بھی ان مسائل میں ترمیم چاہتے ہیں،میڈ یا والے کو نہیں معلوم جن کو وہ ٹیوی پر لاکر سوال وجواب کر تے ہیں،کیا وہ واقعی میں مسلمان ہیں یا پھر آر ایس ایس دماغ کے حامل ظاہری مسلمان اور باطنی منافق ہیں، اورایسے لوگوں کا پایاجانا کوئی بعید نہیں ہے،بلکہ دور نبوت سے لیکر آج تک اسلامی لبادے میں اسلام اور مسلمان کو صف ہستی سے ختم کرنے کیلئے کچھ منافق ظاہر ہوتے رہے ،حقیقت میں یہ لوگ بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں،میں اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگا رہا ہوں بلکہ خود قرآن سے دریافت کر لیجیے کہ ایسے لوگ جو شریعت پر اعتراض کرے اور ہندو والے قانون کو ماننے کے لئے تیارہووہ قرآن کے فتویٰ کی روشنی میں کیساہے؟ارشاد ربانی ہے،‘‘ ومن لم یحکم بماانزل اللہ فأولئک ھم الکافرون ’’(مائدۃ)کہ جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہی لوگ کا فر ہیں،ایک دوسری آیت میں ہے، وہی لوگ فاسق ہیں اور ایک جگہ ہے وہی لوگ ظالم ہیں،ان آیتوں کے پیش نظر ان کے اسلام کا جائزہ آپ حضرات خود لیں ؛تو معلوم ہو گا کہ اگر چہ میڈیا والے اور حکومت اس کو مسلمان کہہ رہے ہیں ،حالانکہ قرآن کی نگاہ میں انکااسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس وقت میں کل تین باتیں پیش کر نا چاہتاہوں (۱) حکومت کیا کرنا چاہتی ہے (۲) اس سلسلے میں حکومت اور میڈیاکے اعتراض اور عاجز کی جانب سےجواب (۳) ہمکو کیا کرنا ہے؟

(۱)حکومت کیا کرنا چاہتی ہے 

      حکومت یہ چاہتی ہے کہ طلاق اور نکاح میں ایک ہی قانون بنے، نکاح تو ہو لیکن طلاق کو ختم کردیاجائے،یعنی طلاق دینے کے بعد بھی عورت کوگھر میں رکھ کر وہی کام ان کے ساتھ کرے جو ایک میاں بیوی آپس میں کرتے ہیں،اس قانون کے خلاف جگہ جگہ مسلمان مردوں نے،عورتوں نے مورچے نکالے، تمام مسلم تنظیموں نے علاقائی،ضلعی اورملک گیر سطح پر کانفرنس کئے،پورے مکاتب فکر کے علماودانشورانِ قوم نے بیک زبان ایوانِ حکومت تک یہ بات پہونچائی ؛ کہ ہم شریعت میں کسی طرح کی ترمیم کو برادشت نہیں کریں گے،ہم مسلم پرسنل لا کواپنے لئے باعث رحمت اور باعث مغفرت سمجھتے ہیں؛ لیکن اتنا کچھ ہونے کے باجود جب ہماری سرکار بنارس پہنچ تی ہے۔ تو علی الاعلان، بر سر عام غیر جانبدارنہ گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہے ؛کہ ہم مسلمان عورتوں پر ظلم نہیں ہو نے دیں گے ، اور اس سلسلے میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں،حکومت کو وہ مٹھی بھر نام نہاد مسلمان عورتوں کا خیال آرہا ہے؛لیکن اس کے مد مقابل تیس کڑور مسلم مردو عورت کے مطالبے یا دنہیں رہے،جو مسلسل جلسے،جلوس اور ریلیوں کے ذریعہ حکومت سے شریعت میں کسی قسم کی مداخلت نہ کرنے کی مطالبہ کررہے ہیں،ظاہری اور سطحی گفتگو سے نظر ہٹا کر دیکھا جائے،تو اس ظاہری ہمدردی کے پیچھے یہی راز چھپا ہے، کہ مٹھی بھر مسلم عورتوں کا سہارا لیکر آہستہ آہستہ بھارت سے اسلام اور مسلمانوں کی شناخت کو ختم کر دیا جائے،یاد رکھیں حکومت کی یہ چال نہایت زہر آلود ہے،حکومت چاہتی ہے کہ عورت کو طلاق ہو نے کے بعدبھی اپنے گھر میں رکھ کر ان کے ساتھ وہی سارا کام کیا جائے جو ایک شوہر اپنی بیوی سے کرتا ہے،جسکو اسلام زنا کہتا ہے،اس طرح یہ پاگل حکومت ایک عفیف پاکدامن خاتون کو زانیہ اور مرد کو زانی بنانے پر تلی ہوئی ہے،در اصل یہ جن ملکوں کی پیروی کرنا چاہتے ہیں وہاں کی اکثر حکومت زنا کو قانونی طور پر جائز قرار دیا ہے،تقریبا دو سوملکوں میں سے پچاس ملک نے زنا کو جائز قرار دیا ہے۔
یاد رکھیں!طلاق کی شرح مسلموں سے زیادہ غیرمسلموں میں زیادہ ہے اگر ان کو واقعی ہمدردی ہے تو یہ ہمدردی اپنے قوم کی عورتوں پر کرے،مسلمان عورتیں الحمد للہ مسلم پرسنل لا سے مطمئن ہی نہیں بلکہ اپنے ایمان کے لئے ضروری بھی سمجھتی ہیں، 
برطانوی جریدے‘‘دی اکانومسٹ’’کی شائع کردہ معلوماتی کتاب‘‘ پاکٹ ورلڈ 2016ء’’میں دئیے گئے اعدادوشمار کے مطابق طلاق کی شرح کے لحاظ سے یورپ کے ممالک سب سے آگے ہیں، مغربی بحر الکاہل میں ہر ایک ہزار افراد میں اوسطاً 4.6 طلاقیں واقعہ ہورہی ہیں۔ اس کے بعد روس کا نمبر ہے جس میں فی ایک ہزار آبادی کے لئے طلاق کی شرح 4.5ہے۔ اسی طرح بیلاروس، لیٹویا، لتھوینیا اور مالدووا بھی طلاق کی شرح کی لحاظ سے فہرست میں نمایاں ترین ہیں۔ ڈنمارک میں فی ایک ہزار لوگوں میں طلاق کی شرح 2.8، امریکا میں بھی 2.8 جبکہ اسلامی ملک اردن میں یہ شرح 2.6 ہے۔
اور ہمارے ہندوستان میں سب سے زیاددہ طلاق کی شرح ہند ومیں اورسب سے کم مسلمانوں میں ہے۔

(۱)طلاق کے سلسلے میں اعتراض

طلاق پر عمو ماً دو اعتراض کئے جاتے ہیں (۱) کہ طلاق ہونا ہی نہیں چاہیے بس نکاح ہو اور طلاق نہ ہو اس سے عورتوں پر ظلم ہو تا ہے،(۲) طلاق کا حق صرف مرد ہی کو کیوں ہے؟ عورت کو بھی ہونا چاہیے اس سے تو مرد عورت پر ظلم کر یگا اور عورت مظلوم ہو نے کے باجود طلاق کا حق نہ رکھنے کی وجہ سے شوہر سے الگ نہیں ہو سکتی ہے۔
پہلا اعتراض :کہ طلاق ہونا ہی نہیں چاہیے،اس سے عورتوں پر ظلم ہوتا ہے، پہلی بات تو یہ ذہن میں رکھیں کہ اسلام میں طلاق اس لئے نہیں دیا ہے، کہ مرد عورت پرظلم کرے ،بلکہ طلاق کا مقصد صرف یہ ہے ،کہ اگر مرد وعورت کا آپس میں نباہ مشکل ہو جائے اور کسی طرح ایک جگہ رہناممکن نہ ہو ؛تو بھر خاوند بیوی کو پاکی میں ایک طلاق دیکر چھوڑ دے اب عورت اپنی عدت گزار کر من پسند مرد سے شادی کر سکتی ہے،اگر مرد ناحق عورت پر طلاق دیکر ظلم کرتا ہے تو شریعت بھی ایسے شخص کو عذاب الٰہی کا پیغام دیتی ہے،آپ ﷺ کا فرمان ہے:‘‘ ابغض الحلال الی اللہ الطلاق’’کہ بد ترین حلال اللہ کے نزدیک طلاق ہے،
فلپائن ملک میں طلاق نام کی کوئی چیز نہیں ہے، وہاں کے عوام کی بد حالی پیپر کے اس رپورٹ سے لگائیں‘‘فلپائن جہاں کٹر کیتھولک عیسائی رہتے ہیں وہاں کی قانون طلاق کی اجازت ہی نہیں دیتی۔ جہاں شادی ہو جائے تو طلاق کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔کٹر کیتھولک عیسائیت کے مطابق شادی ساری عمر کیلئے ہوتی ہے، لہٰذا طلاق کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا،عوام کو اس قانون کی وجہ سے بے پناہ مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑرہاہے۔ اکثر جوڑوں میں اختلافات کی وجہ سے سالوں سال علیحدگی ہو جاتی ہے؛ مگر طلاق نہ ہونے کی وجہ سے وہ دوبارہ مذہبی طور پر شادی نہیں کر سکتے۔عوام کے پرزور مطالبے پر 1991ء میں حکومت نے شادی کے خاتمے کا قانون متعارف کروا دیا؛ لیکن طلاق کی اجازت نہیں دی گئی اس تبدیلی کا نتیجہ یہ ہے کہ شادی کے خاتمہ کے بعد اگرچہ دوبارہ شادی کی جا سکتی ہے لیکن اسے چرچ کی آشیرباد حاصل نہیں ہوپاتی اور مذہبی لحاظ سے اسے گناہ کا فعل قرار دیا جاتا ہے۔ فلپائن کی 80 فیصد آبادی کیتھولک عیسائی ے اور کل آبادی میں سے تقریباً نصف یہ چاہتی ہے کہ علیحدہ ہو جانے والے جوڑوں کو طلاق کا حق دیا جائے تاکہ وہ دوبارہ شادی کر سکیں۔
ہماری سرکار کوچاہیے کہ وہ فلپائن کا حال دیکھ لیں ،کہ وہاں طلاق نہ ہو نے پر لاکھوں جوڑے پریشان ہیں،جس کی وجہ سے دونو ں میاں بیوی کئی کئی سالوں سے الگ رہتے ہیں لیکن دوسری شادی نہیں کر سکتے،اس ملک کی حالت زار اور مرد وعورت کی بد حالی دیکھ اسلام کی حقانییت واضح ہو جاتی ہے۔
(۲)دوسرا اعتراض: یہ کیا جاتا ہے کہ طلاق کا حق صرف مرد ہی کو کیوں ہے؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ آپ ان عقل سے پیدل کو پوچھیں کہ بچہ صرف عورت ہی کہ پیٹ سے کیوں نکل تا ہے؟مرد کے پیٹ سے کیوں نہیں نکلتا؟اس کا جواب یہی دیں گے کہ اس میں ہمارےاراد ے کاکوئی دخل نہیں،یہ تو اللہ کا حکم ہے،تو آپ ان سے کہیں کہ پھر طلاق کا حکم بھی اللہ ہی کا ہے، اور اللہ ہی نے اس کا اختیار مرد کو دیا ہے نہ تو کوئی مفتی بدل سکتا ہے اور نہ کوئی وقت کا قطب وابدال۔
اس کا دوسرا جواب یہ ہے،کہ یہ کہنا طلاق کا حق صرف مرد کو ہے عورت مظلوم ہونے کے باجود کچھ نہیں کر سکتی،یہ اعتراض سراسر غلط ہے، اسلام میں مرد کو طلاق کا حق دیا گیا تو عورت کو خلع کا حق دیا،چنانچہ بخاری کی رویت ہے:
''عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی:یارسول اللہ! ثابت کے دین اور اخلاق کے بارے میں مجھے کوئی شکایت نہیں ہے، مگر یہ کہ میں اسلام میں رہتے ہوئے کفر(ناشکری اور شوہر کی نافرمانی)سے ڈرتی ہوں،(تاہم میں چاہتی ہوں کہ ان سے نکاح میں الگ ہو جاؤں کیونکہ میراطبعی میلان اسکی جانب نہیں ہو تاہے) تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تم وہ باغ (جو ثابت نے نکاح کے وقت مہر میں دیاتھا) اسے واپس کر دوگی، اس نے عرض کی: جی ہاں! چنانچہ اس نے (مہر میں لیا ہوا) وہ(باغ)شوہر کو واپس کر دیا، رسول اللہ ﷺ نے (ثابت سے) فرمایا: باغ قبول کرلو اور اسے ایک طلاق دے دو‘‘ (بخاری: 5273)
یہی ہے خلع جسکو ثابت بن قیس کی بیوی کے قلبی میلان نہ ہو نی کی وجہ سے آپ ﷺ نے دلایا تھا،ہاں عورت کو خلع کرنے کیوقت شریعت نے حکم دیا کہ تمہاری عقل کچی ہوتی ہے ، ذرا سی بات پر بے قابو ہو جاتے ہو؛ اس لئے خلع کے وقت تم اپنے شہر کے اچھے عالم دین (قاضی) کے پاس جاکر اپنے تکلیفوں اور شوہر کے ظلم وجوڑ کا ذکر کرو،وہ عالم صاحب تمہارے دونوں کی ازداجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے مشورے دیں گے ،اور مشورے کے بعد بھی دونوں کی زندگی کاگزرنا مشکل ہو جائے؛تو پھر قاضی خلع کرادیں گے،اگر کسی کے ذہن میں سوال آئے کہ خلع میں بھی تو مرد کی رضامند ی ضروری ہے ،پھر عورت کو خلع کا اختیاردیکر بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا، یہ اعتراض خلع کے تمام پہلو کو نظر انداز کر کے کیا گیا ہے،الحمد للہ ہم نے بھی افتا ء کے ساتھ قضا کیا ہے،اس کا صحیح جواب یہ کہ قاضی شوہر کو خلع پرراضی کریں کے اگر شوہر راضی نہ ہوا،تو عورت پر ظلم وجوڑ کرنے سے منع کریگا،اگر شوہر اپنے ظلم سے باز نہیں آتا ہے،تو یاد رکھیں قاضی ولایت عامہ کے تحت شوہر کا قائم مقام ہو کر اسکی بیوی کو طلاق دیدیں گے یہی امام مالک کا مذہب ہے،اور واقعی عورت پربہت ہی ظلم ہورہاہے، اور شوہر چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہے تو ہمارے ہندوستان میں بھی درالقضا امام مالک ؒ کے مذہب کی بنیاد پر عورت کو طلاق دیتے ہیں۔(دیکھیں پوری تفصیل بحث ونظر میں)
اب اخیر میں ان ملکوں پر بھی تھوڑی نظر ڈالتے ہیں جہاں عورتوں کو عالم و قاضی کے مشورہ کے بغیر طلاق کا حق دیا گیا وہاں کا کیا حال ہے۔
نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق امریکا میں شادی کے بندھن میں بندھنے والے پچاس فيصد جوڑے زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں ایک دوسرے سے طلاق حاصل کر لیتے ہیں۔امریکی ریاست ڈیلاوئیر میں طلاق کے لیے ایک ایسا قانون موجود ہے، جس کے تحت اگر ایک شخص ہنسی مذاق یا شرط نبھانے کے لیے شادی کر لیتا ہے تو، اسے بعد میں طلاق کا مقدمہ دائر کرنے کی اجازت ہے،آسٹریلیا میں قبائلی خواتین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یا تو اپنے شوہر کو طلاق دینے کے لیے آمادہ کریں یا پھر شادی سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک دوسری شادی کر لیں اس طرح ان کی پہلی شادی خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔ امریکی ریاست کینٹکی میں اس بات کی اجازت ہے کہ ایک ہی شخص سے طلاق کے بعد تین بار شادی کر سکتے ہیں لیکن چوتھی بار اسی شخص سے شادی کرنے کی اجازت ریاست کا قانون نہیں دیتا،امریکی ریاست ٹینسی میں اگرشریک حیات جان سے مارنے کے لیے کوئی حربہ مثلاً زہر پلانیکی کوشش کرتا ہے تو اس بنیاد پرطلاق منظور ہو سکتی ہے۔ برطانیہ میں طلاق حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شریک حیات کی حد درجہ برائیوں کا ذکر کیا جائے صرف ذاتی ناپسندیدگی کی بنیاد پر طلاق منظور نہیں کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں جوڑے طلاق کے لیے شریک حیات میں عجیب وغریب عیب تلاش کرتے ہیں۔یہ ان ترقی یافتہ مملک کا حال ہے اللہ تعالی ہمیں صحیح سمجھ عطا کرے آمین
(۳)تیسری بات کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟ اس سے پہلے بھی جمعہ میں ہم نے کہاتھا کہ ہمارے بیان کا یہ مقصد نہیں ہے کہ آپ جا کر برادرانِ وطن سے الجھ جائیں اور لڑائی جھگڑے کرنے لگیں؛بلکہ ہمارے بیان اور ہمارے اکابرین کی موجودہ تمام کانفرنس اور ریلیوں کا واحد مقصد یہی ہے کہ ہم براہ راست حکومت کو کہنا چاہتے ہیں ،کہ برائے کرم یہ ملک ایک جمہوری ملک ہے،جس میں ہر ایک کو مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے،اس لئے آپ مذہب کی آزادی کو چھین نے کی سازش نہ کریں،تو ہمارا مطالبہ براہ راست حکومت سے ہے، نہ کہ برادرانِ وطن سے،دوسراکام جو ہم لوگوں کو کرنا ہےوہ یہ ہے کہ جو لوگ اب تک دسختی مہم میں پرچہ پر دستخط نہیں کیا ہے وہ جلد از جلد کر کے پرچے جمع کردیں تاکہ جلد از جلد اس کو مسلم پرسنل لا بورڈ تک پہونچا دیاجائے۔
اللہ تعالیٰ ملک اور صاحب ملک سب کی حفاظت کرے۔آمین

ملک بھارت سلگتے مسائل

کچھ نئے اہم اور ضروری مضمون

Saturday, November 12, 2016

مروجہ قران خوانی


بسم اللہ الرحمن الرحیم 

مروجہ قرآن خوانی

آج کل جس طرح قرآن خوانی رائج ہو چکا ہے یہ سراسر بدعت اور ناجائز ہے اور اس پر اجرت لے لینا یہ تو قرآن پر اجرت لینا ہوا جسکی حرمت نصوص شرعیہ سے ثابت ہے نیزاس طرح قرآن پڑھنے والے کو ثواب نہیں ملتا جب پڑھنے والے کو ثواب نہیں ملتا تو مردوں کو کیسے ملے گا؟چنا نچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  ولا تشترو اباٰیاتی ثمناقلیلا (البقرہ / ۴۱)ترجمہ : کہ مت لو بمقابلہ میرے احکام کے معاوضہ حقیرکو(ترجمہ تھانوی)

اب آئیے اور علامہ ابن عابدین کی عبارت ملاحظہ کریں :
فالحاصل انّماشاعت فی زماننا من قرأۃالاجزاء بالاجرۃلا یجوز لانّ فیہ الامر بالقرآۃواعطاء الثواب للآمروالقرأۃلاجل المال فاذالم یکن للقاری ثواب لعدم النّےۃالصحیحۃ فاین یصل الثواب الی المستأجرولو لا الاجرۃماقرأاحدلاحدفی ھذاالزمان بل جعلواالقرآن العظیم مکسباووسیلۃالجمع الدنیا انّاللّہ وانّاالیہ راجعون۔(شامی ۶ / ۵۶)
ترجمہ:حاصل یہ کہ ہمارے زمانے میں جو اجرت پر قرآن پاک پڑھنے کا جو رواج ہوگیا ہے یہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ اس میں دوسروں کے کہنے پر قرآن کا پڑھنا اور مال کی وجہ سے قرآن کا پڑھنا ہے پس نیت کی خالص نہ ہونے کی وجہ سے جب پڑھنے والے کو خود ثوا ب نہیں ملتاتو پھر پڑھانے والے کو ثواب کیسے پہونچے گااگر (اس پڑھنے والے کو)اجرت نہ دیا جائے تو اس زمانے میں کو ئی کسی دوسرے کے لئے نہیں پڑھتا ہے بلکہ لوگوں نے قرآن عظیم کو کمانے اور دنیا جمع کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے انا للّہ وانّاالیہ راجعون
علامہ ابن عابدین شامی ؒ ہی کی ایک شاہکارتصنیف شفاء العلیل وبلّ الغلیل ہے جس میں آپ نے اجرت پرذکروتلاوت کے عدم جواز پر مفصل کلام کیا ہے چنانچہ ایک جگہ آپ ؒ فرماتے ہیں
ومن اھمّ مایؤمر بہ ان یّحذر کل الحذر من اتخاذالقراٰن معیشۃ یکتسب بھافقد جاء من عبد الرحمٰن بن شبلؓ قال :قال رسول اللہ ﷺ اقرؤالقراٰن ولا تأکلوبہ (مجموعہ رسائل ابن عابدین /۱۷۵)
اہم ترین حکم جس سے ہر حال میں بچنا ضروری ہے وہ یہ کہ قرآن کریم کو ذریعہ معاش بنانا ہے چنانچہ عبد الرحمن ابن شبلؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فر مایا :کہ قرآن پڑھو مگر اس کے بدلہ کھاؤنہیں ۔
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ فرماتے ہیں ’’اگر عرف میں یہ بات طے پا چکی کہ قرآن پڑھنے والے کو ضرور کچھ دیتے ہوں تو اگر پہلے سے باہمی اجرت پڑھنے قرآن مجید طے نہ ہوئی ہو تو بھی لینا جائز نہیں اور نہ ایسے پڑھنے پر ثواب میت کو پہنچتا ہے اور اگر دینا عرف کے اندر نہیں اور خالی نیت ہے لوجہ اللہ اس نے پڑھا پھر اگر لے لیوے تو کچھ حرج نہیں ‘‘(فتویٰ رشیدیہ کامل/۲۶۸)
حضرت مفتی اعظم محمود حسن گنگوہی ؒ فرماتے ہیں ’ ’آج کل بعض جگہ قرآن خوانی کر اکے ثواب پہنچانے کا طریقہ جو رائج ہو گیا ہے کہ مکان پر بلاکریا مسجد میں جمع کر کے ثواب پہنچایاجا تا ہے اور پڑھنے والے کو شیرینی،نقد،چائے کھانا ،کپڑااپنے اپنے رواج کے موافق دیتا ہے اور پڑھنے والے اس لا لچ میں جاتے ہیں اگر کچھ نہ دیا گیاتو نا خوش ہوتے ہیں اور اگر پہلے سے معلوم ہو جائے کہ کچھ نہیں ملے گا تو عذر کر دیتے ہیں اور بعض قاری ایک دن میں کئی کئی جگہ جاتے ہیں پھر آپس میں مقابلہ اور مفاخرہ کرتے ہیں کہ ہم نے اتنا کمایا گویاایک پیشہ کمائی کا بنا رکھا ہے اسکی ہر گز اجازت نہیں ‘‘۔ (فتاوی محمودیہ ۱۶ / ۳۰) 
حضرت مفتی نظام الدین ؒ فر ماتے ہیں ’’اس طرح روپیہ لیکر ختم قرآن یا کوئی اور ختم کرنا اجرت لیکریہ اجارہ علی الطاعات میں داخل ہوجائیگا اور اس پر کوئی ثواب نہ ملے گا پھر ایصال ثواب کس چیز کا کریں گے ایصال تو ثواب کا ہو تا ہے (اوریہاں تو نیت خراب ہو نے کی وجہ سے خود پڑھنے والے کو ثواب نہیں ملا)(نظام الفتاویٰ جلد ۶ جز۲/۱۵۰)
اب آئیے اور حضرت مولانا پالن حقانی کی زبانی مروجہ فاتحہ خوانی کا جائزہ لیجیے فر ماتے ہیں ’’ایک مولوی صاحب تھے وہ فاتحہ پڑھنے کا پیسہ لیتے تھے تین قسم کا فاتحہ پڑھتے تھے سوا روپئے والا،سوا پانچ روپیہ والا، سوا دس روپیہ والایہ بات ہمارے بپچپن کی ہے ان فاتحہ پڑھنے والوں کو ہم نے دیکھا ہے سوا روپیہ والا فاتحہ میں ایک سورہ فاتحہ اور تین (مرتبہ)سورہ اخلاص پڑھتے تھے اور سوا پانچ روپیے والے فاتحہ میں سورہ فاتحہ اور الم تر کیف سے لیکر سورہ ناس تک پڑھتے تھے،سوادس روپیے والے فاتحہ میں سورہ فاتحہ کے بعدسورہ یسٓن یا سورہ تبارک بڑی بڑی سورہ پڑھتے تھے‘‘(تقاریر حقانی۲/۲۵۰)
دیکھا آپنے فاتحہ کرنے کا طریقہ ؟اس صورت میں کس طرح میت کو ثواب ملے گا؟جبکہ نصوص شرعیہ اور عبارات فقہا ء متفقہ فیصلہ کررہی ہے کہ اس طرح قرآن پڑھنا اور پڑھوانا دونوں حرام وناجائز ہے
فتاویٰ عبد الحی میں ہے’’تسبیح وتہلیل وتلاوت قرآن اور زیارۃ قبور وغیرہ پراجرت لینا اور دینا دونوں صحیح نہیں‘‘پھراس کے بعد حضرت نے تائید میں فتاویٰ حامدیہ اور فتاویٰ ولوالجیہ کی صریح عبارت کو نقل کیا ہے(فتاویٰ عبد الحی کامل مبوب/۴۸۲)
حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری ؒ فرماتے ہیں’’یہ تو نفس قرآن خوانی کا حکم ہے جس کے ساتھ خلاف سنت اہتمام ،اور دعوتی التزام برادری رسم ورواج کی پابندی اور بد نامی کا ڈروغیرہ خرابیاں شامل نہ ہوں ورنہ یہ رسمی قرآن خوانی ثواب کے بدلہ عذاب کا سبب بن سکتی ہیں جب لوجہ اللہ نہ ہونے کی وجہ سے خود ہی مستحقِ ثواب نہیں بنتاتو میت کو کیا بخش دیگا؟ ‘‘(فتویٰ رحیمیہ۱/۳۹۱)
نیز فتویٰ دارالعلوم میں ہے’’اجرت معروفہ یامشروطہ پر جوقرآن کریم میت کے لئے پڑھواتے ہیں اس میں محققین نے لکھا ہے کہ ثواب نہیں پہونچتا کیو نکہ جب پڑھنے والے کو ثواب نہ ہوا بوجہ نیت اجر عوض کے تو میت کو کہاں سے پہونچے گا البتہ کوئی شخص للّٰہ قرآن شریف پڑھکر میت کو پہو نچادے تو ان شاء اللہ تعالی اس کا ثواب میت کو ملے گا،خو۱ہ مکان پر پڑھ کر ثواب پہونچایاجائے یاقبر پر‘‘(فتویٰ دارالعلوم۵/۳۵ ۴)
اور یہاں یہ بات بھی نہیں ہے کہ یہ صرف علماء دیوبند ہی کا موقف ہو بلکہ تمام محدثین وفقہاء اس با ت پر متفق ہیں کہ اس طرح قرآن پڑھنا اورپڑھوانا حرام ہے ۔
آئیے مولانا احمد رضاخاں صاحب بریلوی کا فتویٰ مروجہ قرآن خوانی کے سلسہ میں کیا ہے اس کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔
ایک استفتاء کے جواب میں فرماتے ہیں’’جب کہ ان میں معہود ومعروف یہی لینا دینا ہے تو یہ اجرت پرپڑھنا اور پڑھوانا ہوافانّ المعروف عرفاََ کا المشروط لفظاََ اور تلاوت قرآن اور ذکر الہی پر اجرت لینا اور دینا دونوں حرام ہے لینے والے اور دینے والے دونوں گنہگار ہو تے ہیں کما حققہ فی رد المحتاروشفاع العلیل وغیرھما اور جب فعل حرام کے مرتکب ہیں تو ثواب کس چیز کا اموات کو بھیجے گا؟۔۔۔(فتای رضویہ ۹/۱۶۸)
ان تمام عبارتوں سے معلوم ہوا کہ قرآن پڑھ کر اجرت لیناچاہے روپیے کی شکل میں ہو یاکھانے کی شکل میں یا کپڑے وغیرہ کی شکل میں یہ حرام و ناجائز ہے اور اس طرح قرآن پڑھنے والے کو خود ثواب نہیں ملتا ہے تو میت کو کیسے ملے گا ؟بلکہ اس طرح قرآن پڑھنے اورپڑھانے والے دونوں گنہگار ہو تے ہیں اس لئے اس عمل قبیح سے بچنا بہت ضروری ہے کہ آج عوام جس عمل کو ثواب سمجھ کر کررہی ہے حقیقت میں وہ عمل ذریعہ عذاب ہے، اگر لوجہ اللہ قرآن پڑھنے والا نہ ملے توخود جتنا ہو اتنا پڑھ کر میت کو ثواب پہنچادے ۔
اس سلسلے میں ایک سوال عموما کیا جاتاہے کہ اگر قرآن پڑھنے والے نے نہ تو اجرت کا مطالبہ کیا اور نہ پڑھانے والے نے کوئی تذکرہ کیا بلکہ خود اپنی جانب سے کچھ پڑھنے والے کو دیدے یا کچھ کھلا دے تو کیا یہ صورت جائز ہے ؟
یہ صورت بھی بالکل حرام وناجائز ہے اگر چہ پڑھنے سے قبل یا بعد میں کوئی لینے دینے کا تذکرہ نہ ہوا پھر بھی لینا دینا جائز نہیں اور اگرکچھ لے لیا یا کچھ کھا لیا تو اب بجا ے ثواب کے عذاب ہو گا کیونکہ عرف میں لینا دینا یا کچھ کھانا بالکل عام ہو چکا ہے پڑھنے والا بھی سمجھ تا ہے کہ کچھ ملے گا اور پڑھا نے والا بھی سمجھ تا ہے کہ کچھ دینا پڑیگا اور فقہ کا مشہور قاعدہ ہے’’ المعروف کاالمشروط‘‘اس لئے اگر چہ کوئی تذکرہ نہ ہو پھر بھی عرف عام کی وجہ سے اجرت کا حکم لگے گا اور اس کا لینا یا کھانا جائز نہیں ہو گا ۔ چنانچہ حضرت مفتی اعظم محمود حسن گنگو ہی ؒ سے دریافت کیا گیا کہ اگر صاحب خانہ اخلاقاچائے وغیرہ پیش کریں تو اس کا پینا اورقرآن پڑھنا کیسا ہے ؟
آپ ؒ جوا ب دیتے ہیں (اس طرح ) اختتام پر چائے وغیرہ پیش کرنا صورتامعاوضہ ہے اس سے بچنا چاہیے(فتوی محمودیہ جزدوم)
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ فرماتے ہیں ’’اگر عرف میں یہ بات طے پا چکی کہ قرآن پڑھنے والے کو ضرور کچھ دیتے ہوں تو اگر پہلے سے باہمی اجرت پڑھنے قرآن مجید طے نہ ہوئی ہو تو بھی لینا جائز نہیں اور نہ ایسے پڑھنے کو ثواب میت کو پہنچتا ہے اوراگر دینا عرف کے اندر نہیں اور خالی نیت ہے لوجہ اللہ اس نے پڑھا پھر اگر لے لیوے تو کچھ حرج نہیں ‘‘(فتویٰ رشیدیہ کامل/۲۶۸)
اللہ تعالیٰ امت سے ان تمام جہالت کو دور کرکے تمام مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا کرے ۔ آمین 

اسی سے ملتے ہوئے اہم مضمون 

ملک بھارت کے سلگتے مسائل

Friday, November 11, 2016

معاملات کی ادائیگی

شریعت وسنت کی نشر واشاعت کے لئے کوشاں میں مفتی مد کعبد اللہ عزرائیل قاسمی مدہوبنی

Sunday, November 6, 2016

ایصال ثواب جائز ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ایصال ثواب


اس وقت کچھ لوگ ایصال ثواب کو مطلقاً حرام اور نا جائز سمجھتے ہیں ،اور عوام میں اس بات کا مذاکرہ کرتے پھرتے ہیں کہ ایصال ثواب کی کو ئی حقیقت نہیں ہے ،بہت سے حضرات انکی باتوں کو سن کر شک وشبہ میں پر جاتے ہیں کہ آخر اس سلسلے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟کئی حضرات نے ہم سے بھی دریافت کیا کہ مفتی صاحب فلاں محلہ میں کچھ لوگ آکر ایصال ثواب کا انکار کر رہے تھے اور لوگوں کو سمجھا رہے تھے کہ ایصال ثواب کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،اس وقت ہم نے اس پر کئی مساجد میں جمعہ کے دن بیان بھی کیا اور اس عنوان پر ایک گراں قدر کتاب بنام ’’ ایصال ثواب اور مروجہ قرآن خانی ‘‘ تالیف کرکے اطراف واکناف میں فری تقسیم بھی کرایا ،یہ مضمون بھی اسی کتاب کا اقتباس ہے ۔ ایصال ثواب مردوں کے لئے درست ہے عبادت مالیہ میں تمام اہل سنت والجماعت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ایصال ثواب درست ہے اورعبادت بدنیہ میں اختلاف ہے امام ابو حنیفہ ؒ اور امام احمدؒ اور جمہور سلف وخلف عبادت بدنیہ میں ایصال ثواب کے قائل ہیں اور امام مالک ؒ اور اما م شافعی ؒ عدم وصول کے قائل ہیں صدقات مالیہ وغیرہ میں کچھ اختلاف نہیں اس میں سب متفق ہیں کہ مرنے والے کے لئے اس سے بڑا اور کوئی سہارانہیں ہے کہ انکے لئے دعاواستغفار کیاجائے(معارف السنن ۳/۴۹۲ و فتویٰ عالمگیری اردو جلد اول)

صرف اس مسئلہ میں گمراہ فرقہ اہل قرآن،معتزلہ وغیرہ منکر ہے جبکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں
قُل رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَارَبَّیَانِی صَغِیْرَا ۔(بنی اسرائیل۔۲۴)
کہہ اے پروردگاراندونوں (میرے ماں باپ)پر رحم فرمائیے جیساکہ انہوں نے ہمیں بچپن کی حالت میں پرورش کی،
اس آیت میں اللہ تعالی نے بچوں کو اپنے والدین کے لئے دعا کرنے کاحکم دیاہے اور جب دعا کا حکم اللہ تعالیٰ دے رہے ہیں تو پھر والدین کو فائدنہ ہو یہ ہو نہیں سکتا ورنہ نعوذباللہ اللہ پر بے فائدہ کام کے کرنے کے حکم دینے کا الزام ہوگا۔ 
دوسری جگہ ارشاد باری ہے:والذین جاؤامن بعدھم یقولون ربنااغفر لناولاخوانناالذین سبقونا بالایمان(الحشر ۔ ۱۰)
اس آیت سے معلوم ہواکہ بعد والوں کی دعاپہلوں کو پہونچتی ہے اور اسی کا نام ایصال ثواب ہے ۔
حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ فر ماتے ہیں’’جبکہ اوپر معلوم ہو چکاکہ آیت مذکورہ( لیس للانسان الاّماسعیٰ)کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے فرائض ایمان ونماز وروزہ کو اداکر کے دوسرے کو سبکدوش نہیں کر سکتا تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایک شخص کے نفلی عمل کا کوئی فائدہ اور ثواب دوسرے شخص کو نہیں پہونچ سکے ،ایک شخص کے دعا اور صدقہ کا ثواب دوسرے شخص کو پہونچانا نصوص شرعیہ سے ثابت ہے اور تمام امت کے نزدیک اجماعی مسئلہ ہے(ابن کثیر، معارف القرآن جلد ۸سورہ نجم)
حضرت انسؓ نے رسول اللہ ﷺسے پوچھاکہ یا رسول اللہ ہم خیرات کر تے ہیں اپنے مردوں کے طرف سے اور حج کر تے ہیں انکی طرف سے اور دعا کرتے ہیں انکے واسطے کیا یہ انکو پہو نچتا ہے؟فرمایاکہ ہاں!یہ انکو پہونچتا ہے اور وہ خوش ہو تے ہیں اس سے جیسے کہ تم میں سے کوئی خوش ہو تا ہے اس طبق سے جب کوئی اس کو تحفہ بھیجے(غایۃ الاوطار ترجمہ در مختار۲/۶۰۸ فتاوی رحیمیہ۵/۱۲۱)
ابن عبا سؓ سے مروی ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا میرے ماں نے حج کی نذر مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی کیا میں اسکے جانب سے حج کر وں؟(اسکو فائدہ ہوگا)آپ ﷺنے فرمایا:ہاں!اسکی طرف سے حج کر اگر تیری ماں پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تم ادانہ کرتی؟اللہ تعالی کا حق تو اور پورا کئے جانے کا مستحق ہے(بخاری باب الحج عن ا لمیت)
ابو زرین عقیلیؓ سے مروی ہے کہ وہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ میرے والد بہت بوڑھے ہیں نہ تو وہ حج کر سکتے ہیں اور نہ عمرہ اورنہ وہ سفر کر سکتے ہیں تو آپ ﷺ نے فر مایا اپنے والد کی جانب سے حج وعمرہ کر لو(ترمذی ۱/۱۸۱ ابواب الحج )
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺسے دریافت کیا ‘میری ماں اچانک فوت ہوگئی اور میرا خیال ہے کہ اگر اسے کچھ بولنے کا موقع ملتاتو وہ صدقہ کرنے کی تلقین کر تی ، کیا میں اسکی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے ثواب ملے گا؟آپ ﷺنے فر مایا ہاں!(بخاری باب موت الفجاۃومسلم کتاب الزکوۃ باب الصدقۃ عن ا لمیت)
حضرت حنش فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؓ کو دیکھاکہ وہ دو مینڈھے کی قربانی کر رہے ہیں میں نے ان سے کہایہ کیا ہے؟یعنی آپ دو قربانی کیوں کر رہے ہیں؟تو آپؓ نے جواب دیاکہ رسول اللہ ﷺنے مجھے وصیت کی تھی کہ میں آپکی جانب سے قربانی کروں اسلئے میں نے آپکی جانب سے یہ قربانی کی(ابو داؤد کتاب الضحایا باب الاضحیۃ عن المیت)
حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاصؓ کی روایت میں ہے کہ انکے دادا عاص ابن وائل (جنکو اسلام نصیب نہیں ہوئی )نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی۔۔۔ہشام بن العاص نے اپنے حصے کے پچاس غلام آزاد کر دیاحضرت عمرو بن العاصؓ نے آپ ﷺ سے دریا فت کیا کہ میرے بھائی نے اپنا حصہ پچاس غلام آزاد کر دیا کیا باقی میں بھی آزاد کردوں۔آپ ﷺنے فر مایا اگر تمہارے والد ایمان واسلام کے ساتھ دنیاسے گئے ہو تے پھر تم انکی طرف سے غلام آزاد کرتے یاصدقہ کرتے یا حج کرتے تو ان اعمال کا ثواب انکو پہونچ جاتا(ابوداؤد معارف الحدیث۲/۴۹۲)
چونکہ آج کل غلام شرعی نہیں پائے جا تے ہیں اس لئے غلام آزاد کر کے ایصال ثواب پہونچانا ممکن نہیں ہے ہاں ! دوسری عبادتوں سے ایصال ثواب کر دے(مرتب)
عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی اوپر والی روایت مسند احمد میں ہے اور اس میں حج کی جگہ نماز کا ذکر ہے (معارف الحدیث ۲/۴۹۲ فتاویٰ رحیمیہ۱/۳۸۷)
عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی اوپر والی روایت مسند احمد میں ہے اور اسکی عبارت اس طرح ہے’’فلو اقرّباالتوحید فصمت او تصدقت عنہ نفعہ ذالک‘‘(نیل الاوطار۷/۴۵۱ ومسند احمد)
یعنی اگر تمہارے والد مسلمان ہو تے اور تم انکی جانب سے روزہ رکھتے یاصدقہ کرتے تو ان اعمال کا ثواب انکو پہو نچ جاتا۔
حضرت سعد بن عبادہؓ سے روایت ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ ام سعد فوت ہو گئی ان کے لئے کون سا صدقہ افضل ہے آپ ﷺ نے فر مایا پانی (کا انتظام کردو) تو حضرت سعدؓ نے ایک کنواں کھودا اور کہا یہ ام سعد کے لئے ہے(نیل الاوطار۷/۴۵۱ و مسند احمد)
یہ چند آحادیث بطور استشہاد کے پیش کیا ہے ورنہ ذخیرہ احادیث میں بے شمار ایسی احادیث ہیں جن سے ایصال ثواب کا ثبوت ہو تا ہے ، باقی مزید تفصیل کے لئے میری کتاب ’’ ایصال ثواب اور مروجہ قرآن خوانی ‘‘ضرور پڑھیں

نئی تحریر

قرآنی آیات کوایک لمحہ میں تلاش کریں

Saturday, November 5, 2016

قرآنی آیت کو تلاش کریں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

محترم ساتھیو! آج میں آپ حضرات کی خدمت میں ایک ایسی معلومات لیکر آیا ہوں جوہم میں سے اکثر حضرات کو نہیں معلوم ہے ، میری مراد اس سے کسی بھی آیت قرآنی کو آسانی کے ساتھ تلاش کرنا ہے ،بہت دفعہ ہم لوگوں کسی خاص مضمون  لکھتے وقت  ،بیان کے وقت یا کسی اور دوسرے اہم مقاصد کے پیش نظرکسی آیت کی معلومات فراہم  کر ناچاہتے ہیں کہ وہ مکمل آیت کس طرح ہے؟ اور سورہ ،پارہ نمبر کونساہے؟
اب انشأاللہ ایسانہیں ہوگا بس ہم ایک مصری پروگرام کا پتہ بتا تے ہیں،جو بہت ہی کارآمد ہونے کے ساتھ نہایت ہی آسان اور بلاتاخیر کے آیتوں کو تلاش کر نے والی ہے ،بس اس پروگرام پر جائیں اور مطلوبہ آیت کریمہ کو لکھ کر ریسرچ کریں ، چند ہی لمحوں میں اس آیت کو اور اس جیسی تمام آیتوں کو آپ کے سامنے لاکر رکھ دیا جائیگا،اس پروگرام پر جانے کےلیئے یہاں کلک کریں ؛ لیکن پروگرام پر جانے سے پہلے  ان ہدایات کو سمجھ لیں،کہ آیت کو تلاش کر نے کے لیئے مکمل آیت نہیں لکھنی ہے ،بلکہ مطلوبہ آیت میں سے کسی لفظ کےصرف تین حرف لکھ کر رسرچ آئیکان پر کلک کر دینا ہے ،اب چند ہی لمحموں میں پورے قرآن میں وہ لفظ جتنی جگہ آیا ہے ان تمام جگہوں کی آیتوں کو سورہ اور آیت نمبر کے ساتھ آپکے سامنے حاضر کردیگا،مثلا: ہم کو ‘‘أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنذِرِ  ’’ تلاش کرنی تو اس کے لئے پوری آیت کو رسرچ بار میں لکھ کر تلاش نہیں کرنی ہے ،بلکہ اس آیت میں  تقریباً چھ الفاظ ہیں  ۱؎   کان ۲؎ ناس ،۳؎ عجب،۴؎  وحی ،۵؎ رجل ،۶؎ نذر،
اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہم نے الفاظ لکھتے وقت زائد حروف کو نہیں لیا ہے مثلا:  کان سے پہلے ہمزہ  کو،ناس سے پہلے لام کو اسی طرح وحی میں پہلے الف ،واو اور بعد میں نا کو نہیں لیا اسی طرح آپکو بھی آیت مطلوبہ کے کسی لفظ کو رسرچ بار میں لکھ کر سرچ کرنا ہے رسرچ کر تے ہی قرآن میں وہ لفظ جن مقامات پرآیا ہے ان تمام مقامات کی آیاتوں کو سورہ اور آیت کے حوالوں کےساتھ آپکے سامنے  کر دیگا،جب آپ  پروگرام پر جائیں گے تو آپکے سامنے اس طرح کا پروگرام ظاہر ہوگا،

الكريم
محفظ.net
دخول وتسجيل الأعضاء
بحث
 
عرض  
تكرار  
  استماع عشوائي
الفهرس  الصفحاتالحفظ0%مراجعة بالكتابة
  

جہاںپر میں لکھاہے دخول تسجیل العضا وہاں آیت کے کسی  لفظ کو

 لکھ کر رسرچ آئیکان پر کلک کردیں،مثلا:  آیت مذکورہ تلاش کرنے کیلئے صرف وحی ،یاعجب،یانذر وغیرہ لکھ کر رسرچ کریں، جب ہم لفظ وحی لکھ کر رسرچ کریں گے تو ہم کو معلوم ہو گا کہ یہ لفظ پورے قرآن میں ۸۱ مرتبہ آیا ہےجسکا سورہ اور آیت نمبر یہ ہے اور اوپر والی آیت سورہ یونس کی دوسرے نمبر کی آیت ہے جس کو پروگرام کے ۱۷  نمبر پر بتایا گیا ہے،اور جب ہم عجب لکھ کر رسرچ کریں گے تو ہم کو پروگرام جواب دیگا کہ عجب پورے قرآن میں کل ۲۲ مرتبہ آیا ہے۔

 نیزواضح رہے کہ لفظ لکھنے کے لیے جب ہم مذکورہ جگہ پر کلک کریں  گے تو ایک کی بوڑڈ ظاہر ہو گا اسی  بوڑڈ کی مدد سے رسرچ بار میں لفظ کو لکھنا ہے ۔اس کےبعد جہاں القران لکھا ہے وہاں گول دائرہ میں ہے  قرائ کرام کے نام کو منتخب کرکے قرآن کریم کو صوتی آواز میں بھی سن سکتے ہیں۔اسی پروگرام   میں ایک جگہ  
الأجزاءالسورتفسير & Translations ظاہر ہوگی اگر الاجزا پر کلک کریں گے تو تمام پارے بالترتیب ظاہر ہونگے اور السور پر کلک کریں گے تو تمام سورتیں بالترتیب ظاہر ہونگی اور اگر تفسیر پر کلک کریں گے تو چند تفاسیرمثلا: ابن کثیر ،جلالین ،طبری وغیرۃ ظاہر ہو گی آپ کسی ایک کو کلک کر کے پڑھ  بھی سکتے ہیں.
تمام حضرات سے گزارش ہے کہ اس معلوما ت کو زیادہ سے زیادہ شیر کریں تاکہ قرآن کریم سے استفادہ عام ہو جائے اور آیتوں کی تلاش میں جو پریشانیاں آتی ہیں ہو آسانی سے ختم ہوجائے۔

    آیات قرآنی کو تلاش کرنے کیلئے پروگرام پریہاں کلککر کے جائیں

ملک بھارت کے چند سلگتے مسائل  

Thursday, November 3, 2016

عورت کا مقام

برطانیہ میں تو ماضی قریب تک لڑکی شادی ہونے کے بعد اپنی ہستی کھودیتی تھی، قانون کے مطابق وہ کسی جائیداد  کی مالک نہیں بن سکتی تھی، یہانتک کہ بیوی کی کمائی اور تنخواہ بھی خاوند کی ہوجاتی تھی، قانونی نظریہ یہ تھا کہ شادی کے بعد عورت کی اپنی کوئی شخصیت نہیں رہتی بلکہ خاوند میں مدغم ہوجاتی ہے، اسی لئے آج بھی برطانیہ میں یہ رواج ہے کہ شادی کے بعد بیوی خاوند کا نام اپنا لیتی ہے جیسے مسز ابراہم، مسز بارکلے اور مسز انتھونی وغیرہ۔
برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلس آکسفورڈ کے اسلامی سینٹر میں تقریر کرتے ہوئے اس کا اعتراف کرچکے ہیں کہ ’’چند دہائی قبل تک میری دادی کو بھی جو حقوق حاصل نہیں تھے، اسلام چودہ سال پہلے وہ تمام حقوق عورتوں کو عطا کرچکا ہے‘‘۔
مغربی ممالک میں زمانہ قدیم سے عورت زبوں حالی اورپائمالی کا شکار رہی ہے اسے تیسرے درجہ سے بھی کمتر سمجھا جاتا تھا، ایسا کھلونا جس سے جب جی چاہا کھیلا اور دل بھر گیا تو پھینک دیا، اپنا حق مانگنا تو دور، اپنے اوپر ظلم وستم کے خلاف آواز اٹھانے کی بھی اسے اجازت نہیں تھی۔ اگر یوروپ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو وہاں کے معاشرہ میں عورت کو کوئی مقام ومرتبہ حاصل نہ تھا، مسیحی کلیسا نے تو عورت کو گناہِ آدم کا مجرم قرار دیکر عزت واحترام کا مقام دینے سے انکار کردیا تھا، حضرت عیسیٰ مسیحؑ نے شادی نہیں کی اس لئے عیسائی معاشرہ میں عائلی اسوہ موجود نہیں ہے تورات میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں کوئی واضح ہدایت نہیں ملتی لہذا مسیحیت عورتوں کے تعلق سے کلیسائی رویہ کے تابع رہی ہے، یہانتک کہ کلیسا کے ذمہ داروں کیلئے تجرد کو لازمی سمجھا گیا، چنانچہ کلیسا میں مرد اور عورت دونوں ایک غیر فطری مجرد زندگی گزارنے لگے،جس سے سنگین مسائل پیدا ہوئے ان کی خانقاہوں میں جنسی بے راہ روی اتنی بڑھی کہ اس کے واقعات ہر خاص وعام کی زبان پر آگئے، وقت کے ساتھ کلیسا میں بھی تبدیلیاں آئیں لیکن مغربی معاشرہ میں آج بھی عورت صرف ایک جنسی کھلونا ہے، عورت کی آزادی کے نام نہاد نعروں کے ساتھ اسے نائٹ کلب، شراب خانے، فلم اور ٹی وی ہر جگہ نیم عریاں بلکہ برہنہ کرکے پیش کیا جارہا ہے۔
یہی حال ہندوستان کا رہا کہ یہاں صنفِ نازک مرد کے مقابلہ میں نہایت ذلیل وخوار تھی، مرد خدا تھا، معبود تھا، آقا تھا اور عورت محض ایک داسی، جس کا اپنا کوئی وجود تھا، نہ رائے اور نہ پسند، ساری زندگی وہ مرد کی خدمت کرتی اور اس کے مرنے کے بعد، اسی کے ساتھ زندہ جلا دی جاتی جسے ’’ستی‘‘ کی رسم کہتے تھے، بیوہ کی شادی کا تصور تو دور اسے زندگی بھر ہر آسائش ورنگینی کو اپنے اوپر حرام کرنا پڑتا بلکہ بیوگی کے بعد اس کا سرمونڈھ دیا جاتا تاکہ وہ بدصورت نظر آئے، اسے اپنی مذہبی کتابیں پڑھنے یا ہاتھ لگانے کی اجازت بھی نہ تھی، آج بھی بنارس میں ایسی عورتوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ہندوؤں کے رہنما اور مصلح راجہ رام چندر رائے نے اپنی کوششوں سے ’’ستی‘‘ کی اس رسم کو ختم کروایا، پھر بھی آزاد ہندوستان میں ’’ستی‘‘ کے واقعات اکثر ہوجاتے ہیں، بیوہ عورت کو شوہر کی جائیداد میں حق اور لڑکیوں کو حق وراثت تین ساڑھے تین ہزار سال پرانے ہندو مذہب اور تہذیب کو ۱۹۳۸ء اور ۱۹۵۶ء میں کافی جدوجہد کے بعد فراہم ہوئے، جسے اسلام اور مسلمانوں کے اثرات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اسلام کی آمد سے پہلے عرب میں بھی صنف نازک کی حالت بہتر نہیں تھی، لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اسے زندہ درگور کردیا جاتا تھا، اسلام نے وحشیانہ اس رسم کو سختی کے ساتھ ختم کردیا، اہل عرب بے شمار شادیاں کرتے تھے، شوہر کے مرنے کے بعد بیویاں بھی ترکے کی طرح تقسیم ہوجاتیں، سوتیلی مائیں بیٹیوں کو مل جاتیں، شعر وشاعری میں صنف نازک کو رسوا کیا جاتا، ان کی سر عام تضحیک کی جاتی گویا معاشرہ میں عورتوں کی عزت واحترام کا کوئی تصور نہ تھا۔
اسلام جب طلوع ہوا تو اس کے سورج کی کرنیں دوسرے شعبوں کے ساتھ عورتوں کیلئے بھی سماجی اور اقتصادی مساوات کے حقوق کی روشنی لیکر نمودار ہوئیں، اہل اسلام نے اس پر عمل کرکے عورتوں کو نہ صرف عزت واحترام دیا بلکہ اس کی عفت عصمت کے محافظ بنے اور عورتوں کو وہ حقوق عطا کئے جن کا تصور بھی دوسری اقوام میں نہیں ملتا۔