Showing posts with label ایصال ثواب. Show all posts
Showing posts with label ایصال ثواب. Show all posts

Saturday, November 12, 2016

مروجہ قران خوانی


بسم اللہ الرحمن الرحیم 

مروجہ قرآن خوانی

آج کل جس طرح قرآن خوانی رائج ہو چکا ہے یہ سراسر بدعت اور ناجائز ہے اور اس پر اجرت لے لینا یہ تو قرآن پر اجرت لینا ہوا جسکی حرمت نصوص شرعیہ سے ثابت ہے نیزاس طرح قرآن پڑھنے والے کو ثواب نہیں ملتا جب پڑھنے والے کو ثواب نہیں ملتا تو مردوں کو کیسے ملے گا؟چنا نچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  ولا تشترو اباٰیاتی ثمناقلیلا (البقرہ / ۴۱)ترجمہ : کہ مت لو بمقابلہ میرے احکام کے معاوضہ حقیرکو(ترجمہ تھانوی)

اب آئیے اور علامہ ابن عابدین کی عبارت ملاحظہ کریں :
فالحاصل انّماشاعت فی زماننا من قرأۃالاجزاء بالاجرۃلا یجوز لانّ فیہ الامر بالقرآۃواعطاء الثواب للآمروالقرأۃلاجل المال فاذالم یکن للقاری ثواب لعدم النّےۃالصحیحۃ فاین یصل الثواب الی المستأجرولو لا الاجرۃماقرأاحدلاحدفی ھذاالزمان بل جعلواالقرآن العظیم مکسباووسیلۃالجمع الدنیا انّاللّہ وانّاالیہ راجعون۔(شامی ۶ / ۵۶)
ترجمہ:حاصل یہ کہ ہمارے زمانے میں جو اجرت پر قرآن پاک پڑھنے کا جو رواج ہوگیا ہے یہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ اس میں دوسروں کے کہنے پر قرآن کا پڑھنا اور مال کی وجہ سے قرآن کا پڑھنا ہے پس نیت کی خالص نہ ہونے کی وجہ سے جب پڑھنے والے کو خود ثوا ب نہیں ملتاتو پھر پڑھانے والے کو ثواب کیسے پہونچے گااگر (اس پڑھنے والے کو)اجرت نہ دیا جائے تو اس زمانے میں کو ئی کسی دوسرے کے لئے نہیں پڑھتا ہے بلکہ لوگوں نے قرآن عظیم کو کمانے اور دنیا جمع کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے انا للّہ وانّاالیہ راجعون
علامہ ابن عابدین شامی ؒ ہی کی ایک شاہکارتصنیف شفاء العلیل وبلّ الغلیل ہے جس میں آپ نے اجرت پرذکروتلاوت کے عدم جواز پر مفصل کلام کیا ہے چنانچہ ایک جگہ آپ ؒ فرماتے ہیں
ومن اھمّ مایؤمر بہ ان یّحذر کل الحذر من اتخاذالقراٰن معیشۃ یکتسب بھافقد جاء من عبد الرحمٰن بن شبلؓ قال :قال رسول اللہ ﷺ اقرؤالقراٰن ولا تأکلوبہ (مجموعہ رسائل ابن عابدین /۱۷۵)
اہم ترین حکم جس سے ہر حال میں بچنا ضروری ہے وہ یہ کہ قرآن کریم کو ذریعہ معاش بنانا ہے چنانچہ عبد الرحمن ابن شبلؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فر مایا :کہ قرآن پڑھو مگر اس کے بدلہ کھاؤنہیں ۔
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ فرماتے ہیں ’’اگر عرف میں یہ بات طے پا چکی کہ قرآن پڑھنے والے کو ضرور کچھ دیتے ہوں تو اگر پہلے سے باہمی اجرت پڑھنے قرآن مجید طے نہ ہوئی ہو تو بھی لینا جائز نہیں اور نہ ایسے پڑھنے پر ثواب میت کو پہنچتا ہے اور اگر دینا عرف کے اندر نہیں اور خالی نیت ہے لوجہ اللہ اس نے پڑھا پھر اگر لے لیوے تو کچھ حرج نہیں ‘‘(فتویٰ رشیدیہ کامل/۲۶۸)
حضرت مفتی اعظم محمود حسن گنگوہی ؒ فرماتے ہیں ’ ’آج کل بعض جگہ قرآن خوانی کر اکے ثواب پہنچانے کا طریقہ جو رائج ہو گیا ہے کہ مکان پر بلاکریا مسجد میں جمع کر کے ثواب پہنچایاجا تا ہے اور پڑھنے والے کو شیرینی،نقد،چائے کھانا ،کپڑااپنے اپنے رواج کے موافق دیتا ہے اور پڑھنے والے اس لا لچ میں جاتے ہیں اگر کچھ نہ دیا گیاتو نا خوش ہوتے ہیں اور اگر پہلے سے معلوم ہو جائے کہ کچھ نہیں ملے گا تو عذر کر دیتے ہیں اور بعض قاری ایک دن میں کئی کئی جگہ جاتے ہیں پھر آپس میں مقابلہ اور مفاخرہ کرتے ہیں کہ ہم نے اتنا کمایا گویاایک پیشہ کمائی کا بنا رکھا ہے اسکی ہر گز اجازت نہیں ‘‘۔ (فتاوی محمودیہ ۱۶ / ۳۰) 
حضرت مفتی نظام الدین ؒ فر ماتے ہیں ’’اس طرح روپیہ لیکر ختم قرآن یا کوئی اور ختم کرنا اجرت لیکریہ اجارہ علی الطاعات میں داخل ہوجائیگا اور اس پر کوئی ثواب نہ ملے گا پھر ایصال ثواب کس چیز کا کریں گے ایصال تو ثواب کا ہو تا ہے (اوریہاں تو نیت خراب ہو نے کی وجہ سے خود پڑھنے والے کو ثواب نہیں ملا)(نظام الفتاویٰ جلد ۶ جز۲/۱۵۰)
اب آئیے اور حضرت مولانا پالن حقانی کی زبانی مروجہ فاتحہ خوانی کا جائزہ لیجیے فر ماتے ہیں ’’ایک مولوی صاحب تھے وہ فاتحہ پڑھنے کا پیسہ لیتے تھے تین قسم کا فاتحہ پڑھتے تھے سوا روپئے والا،سوا پانچ روپیہ والا، سوا دس روپیہ والایہ بات ہمارے بپچپن کی ہے ان فاتحہ پڑھنے والوں کو ہم نے دیکھا ہے سوا روپیہ والا فاتحہ میں ایک سورہ فاتحہ اور تین (مرتبہ)سورہ اخلاص پڑھتے تھے اور سوا پانچ روپیے والے فاتحہ میں سورہ فاتحہ اور الم تر کیف سے لیکر سورہ ناس تک پڑھتے تھے،سوادس روپیے والے فاتحہ میں سورہ فاتحہ کے بعدسورہ یسٓن یا سورہ تبارک بڑی بڑی سورہ پڑھتے تھے‘‘(تقاریر حقانی۲/۲۵۰)
دیکھا آپنے فاتحہ کرنے کا طریقہ ؟اس صورت میں کس طرح میت کو ثواب ملے گا؟جبکہ نصوص شرعیہ اور عبارات فقہا ء متفقہ فیصلہ کررہی ہے کہ اس طرح قرآن پڑھنا اور پڑھوانا دونوں حرام وناجائز ہے
فتاویٰ عبد الحی میں ہے’’تسبیح وتہلیل وتلاوت قرآن اور زیارۃ قبور وغیرہ پراجرت لینا اور دینا دونوں صحیح نہیں‘‘پھراس کے بعد حضرت نے تائید میں فتاویٰ حامدیہ اور فتاویٰ ولوالجیہ کی صریح عبارت کو نقل کیا ہے(فتاویٰ عبد الحی کامل مبوب/۴۸۲)
حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری ؒ فرماتے ہیں’’یہ تو نفس قرآن خوانی کا حکم ہے جس کے ساتھ خلاف سنت اہتمام ،اور دعوتی التزام برادری رسم ورواج کی پابندی اور بد نامی کا ڈروغیرہ خرابیاں شامل نہ ہوں ورنہ یہ رسمی قرآن خوانی ثواب کے بدلہ عذاب کا سبب بن سکتی ہیں جب لوجہ اللہ نہ ہونے کی وجہ سے خود ہی مستحقِ ثواب نہیں بنتاتو میت کو کیا بخش دیگا؟ ‘‘(فتویٰ رحیمیہ۱/۳۹۱)
نیز فتویٰ دارالعلوم میں ہے’’اجرت معروفہ یامشروطہ پر جوقرآن کریم میت کے لئے پڑھواتے ہیں اس میں محققین نے لکھا ہے کہ ثواب نہیں پہونچتا کیو نکہ جب پڑھنے والے کو ثواب نہ ہوا بوجہ نیت اجر عوض کے تو میت کو کہاں سے پہونچے گا البتہ کوئی شخص للّٰہ قرآن شریف پڑھکر میت کو پہو نچادے تو ان شاء اللہ تعالی اس کا ثواب میت کو ملے گا،خو۱ہ مکان پر پڑھ کر ثواب پہونچایاجائے یاقبر پر‘‘(فتویٰ دارالعلوم۵/۳۵ ۴)
اور یہاں یہ بات بھی نہیں ہے کہ یہ صرف علماء دیوبند ہی کا موقف ہو بلکہ تمام محدثین وفقہاء اس با ت پر متفق ہیں کہ اس طرح قرآن پڑھنا اورپڑھوانا حرام ہے ۔
آئیے مولانا احمد رضاخاں صاحب بریلوی کا فتویٰ مروجہ قرآن خوانی کے سلسہ میں کیا ہے اس کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔
ایک استفتاء کے جواب میں فرماتے ہیں’’جب کہ ان میں معہود ومعروف یہی لینا دینا ہے تو یہ اجرت پرپڑھنا اور پڑھوانا ہوافانّ المعروف عرفاََ کا المشروط لفظاََ اور تلاوت قرآن اور ذکر الہی پر اجرت لینا اور دینا دونوں حرام ہے لینے والے اور دینے والے دونوں گنہگار ہو تے ہیں کما حققہ فی رد المحتاروشفاع العلیل وغیرھما اور جب فعل حرام کے مرتکب ہیں تو ثواب کس چیز کا اموات کو بھیجے گا؟۔۔۔(فتای رضویہ ۹/۱۶۸)
ان تمام عبارتوں سے معلوم ہوا کہ قرآن پڑھ کر اجرت لیناچاہے روپیے کی شکل میں ہو یاکھانے کی شکل میں یا کپڑے وغیرہ کی شکل میں یہ حرام و ناجائز ہے اور اس طرح قرآن پڑھنے والے کو خود ثواب نہیں ملتا ہے تو میت کو کیسے ملے گا ؟بلکہ اس طرح قرآن پڑھنے اورپڑھانے والے دونوں گنہگار ہو تے ہیں اس لئے اس عمل قبیح سے بچنا بہت ضروری ہے کہ آج عوام جس عمل کو ثواب سمجھ کر کررہی ہے حقیقت میں وہ عمل ذریعہ عذاب ہے، اگر لوجہ اللہ قرآن پڑھنے والا نہ ملے توخود جتنا ہو اتنا پڑھ کر میت کو ثواب پہنچادے ۔
اس سلسلے میں ایک سوال عموما کیا جاتاہے کہ اگر قرآن پڑھنے والے نے نہ تو اجرت کا مطالبہ کیا اور نہ پڑھانے والے نے کوئی تذکرہ کیا بلکہ خود اپنی جانب سے کچھ پڑھنے والے کو دیدے یا کچھ کھلا دے تو کیا یہ صورت جائز ہے ؟
یہ صورت بھی بالکل حرام وناجائز ہے اگر چہ پڑھنے سے قبل یا بعد میں کوئی لینے دینے کا تذکرہ نہ ہوا پھر بھی لینا دینا جائز نہیں اور اگرکچھ لے لیا یا کچھ کھا لیا تو اب بجا ے ثواب کے عذاب ہو گا کیونکہ عرف میں لینا دینا یا کچھ کھانا بالکل عام ہو چکا ہے پڑھنے والا بھی سمجھ تا ہے کہ کچھ ملے گا اور پڑھا نے والا بھی سمجھ تا ہے کہ کچھ دینا پڑیگا اور فقہ کا مشہور قاعدہ ہے’’ المعروف کاالمشروط‘‘اس لئے اگر چہ کوئی تذکرہ نہ ہو پھر بھی عرف عام کی وجہ سے اجرت کا حکم لگے گا اور اس کا لینا یا کھانا جائز نہیں ہو گا ۔ چنانچہ حضرت مفتی اعظم محمود حسن گنگو ہی ؒ سے دریافت کیا گیا کہ اگر صاحب خانہ اخلاقاچائے وغیرہ پیش کریں تو اس کا پینا اورقرآن پڑھنا کیسا ہے ؟
آپ ؒ جوا ب دیتے ہیں (اس طرح ) اختتام پر چائے وغیرہ پیش کرنا صورتامعاوضہ ہے اس سے بچنا چاہیے(فتوی محمودیہ جزدوم)
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ فرماتے ہیں ’’اگر عرف میں یہ بات طے پا چکی کہ قرآن پڑھنے والے کو ضرور کچھ دیتے ہوں تو اگر پہلے سے باہمی اجرت پڑھنے قرآن مجید طے نہ ہوئی ہو تو بھی لینا جائز نہیں اور نہ ایسے پڑھنے کو ثواب میت کو پہنچتا ہے اوراگر دینا عرف کے اندر نہیں اور خالی نیت ہے لوجہ اللہ اس نے پڑھا پھر اگر لے لیوے تو کچھ حرج نہیں ‘‘(فتویٰ رشیدیہ کامل/۲۶۸)
اللہ تعالیٰ امت سے ان تمام جہالت کو دور کرکے تمام مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا کرے ۔ آمین 

اسی سے ملتے ہوئے اہم مضمون 

ملک بھارت کے سلگتے مسائل

Sunday, November 6, 2016

ایصال ثواب جائز ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ایصال ثواب


اس وقت کچھ لوگ ایصال ثواب کو مطلقاً حرام اور نا جائز سمجھتے ہیں ،اور عوام میں اس بات کا مذاکرہ کرتے پھرتے ہیں کہ ایصال ثواب کی کو ئی حقیقت نہیں ہے ،بہت سے حضرات انکی باتوں کو سن کر شک وشبہ میں پر جاتے ہیں کہ آخر اس سلسلے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟کئی حضرات نے ہم سے بھی دریافت کیا کہ مفتی صاحب فلاں محلہ میں کچھ لوگ آکر ایصال ثواب کا انکار کر رہے تھے اور لوگوں کو سمجھا رہے تھے کہ ایصال ثواب کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،اس وقت ہم نے اس پر کئی مساجد میں جمعہ کے دن بیان بھی کیا اور اس عنوان پر ایک گراں قدر کتاب بنام ’’ ایصال ثواب اور مروجہ قرآن خانی ‘‘ تالیف کرکے اطراف واکناف میں فری تقسیم بھی کرایا ،یہ مضمون بھی اسی کتاب کا اقتباس ہے ۔ ایصال ثواب مردوں کے لئے درست ہے عبادت مالیہ میں تمام اہل سنت والجماعت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ایصال ثواب درست ہے اورعبادت بدنیہ میں اختلاف ہے امام ابو حنیفہ ؒ اور امام احمدؒ اور جمہور سلف وخلف عبادت بدنیہ میں ایصال ثواب کے قائل ہیں اور امام مالک ؒ اور اما م شافعی ؒ عدم وصول کے قائل ہیں صدقات مالیہ وغیرہ میں کچھ اختلاف نہیں اس میں سب متفق ہیں کہ مرنے والے کے لئے اس سے بڑا اور کوئی سہارانہیں ہے کہ انکے لئے دعاواستغفار کیاجائے(معارف السنن ۳/۴۹۲ و فتویٰ عالمگیری اردو جلد اول)

صرف اس مسئلہ میں گمراہ فرقہ اہل قرآن،معتزلہ وغیرہ منکر ہے جبکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں
قُل رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَارَبَّیَانِی صَغِیْرَا ۔(بنی اسرائیل۔۲۴)
کہہ اے پروردگاراندونوں (میرے ماں باپ)پر رحم فرمائیے جیساکہ انہوں نے ہمیں بچپن کی حالت میں پرورش کی،
اس آیت میں اللہ تعالی نے بچوں کو اپنے والدین کے لئے دعا کرنے کاحکم دیاہے اور جب دعا کا حکم اللہ تعالیٰ دے رہے ہیں تو پھر والدین کو فائدنہ ہو یہ ہو نہیں سکتا ورنہ نعوذباللہ اللہ پر بے فائدہ کام کے کرنے کے حکم دینے کا الزام ہوگا۔ 
دوسری جگہ ارشاد باری ہے:والذین جاؤامن بعدھم یقولون ربنااغفر لناولاخوانناالذین سبقونا بالایمان(الحشر ۔ ۱۰)
اس آیت سے معلوم ہواکہ بعد والوں کی دعاپہلوں کو پہونچتی ہے اور اسی کا نام ایصال ثواب ہے ۔
حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ فر ماتے ہیں’’جبکہ اوپر معلوم ہو چکاکہ آیت مذکورہ( لیس للانسان الاّماسعیٰ)کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے فرائض ایمان ونماز وروزہ کو اداکر کے دوسرے کو سبکدوش نہیں کر سکتا تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایک شخص کے نفلی عمل کا کوئی فائدہ اور ثواب دوسرے شخص کو نہیں پہونچ سکے ،ایک شخص کے دعا اور صدقہ کا ثواب دوسرے شخص کو پہونچانا نصوص شرعیہ سے ثابت ہے اور تمام امت کے نزدیک اجماعی مسئلہ ہے(ابن کثیر، معارف القرآن جلد ۸سورہ نجم)
حضرت انسؓ نے رسول اللہ ﷺسے پوچھاکہ یا رسول اللہ ہم خیرات کر تے ہیں اپنے مردوں کے طرف سے اور حج کر تے ہیں انکی طرف سے اور دعا کرتے ہیں انکے واسطے کیا یہ انکو پہو نچتا ہے؟فرمایاکہ ہاں!یہ انکو پہونچتا ہے اور وہ خوش ہو تے ہیں اس سے جیسے کہ تم میں سے کوئی خوش ہو تا ہے اس طبق سے جب کوئی اس کو تحفہ بھیجے(غایۃ الاوطار ترجمہ در مختار۲/۶۰۸ فتاوی رحیمیہ۵/۱۲۱)
ابن عبا سؓ سے مروی ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا میرے ماں نے حج کی نذر مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی کیا میں اسکے جانب سے حج کر وں؟(اسکو فائدہ ہوگا)آپ ﷺنے فرمایا:ہاں!اسکی طرف سے حج کر اگر تیری ماں پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تم ادانہ کرتی؟اللہ تعالی کا حق تو اور پورا کئے جانے کا مستحق ہے(بخاری باب الحج عن ا لمیت)
ابو زرین عقیلیؓ سے مروی ہے کہ وہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ میرے والد بہت بوڑھے ہیں نہ تو وہ حج کر سکتے ہیں اور نہ عمرہ اورنہ وہ سفر کر سکتے ہیں تو آپ ﷺ نے فر مایا اپنے والد کی جانب سے حج وعمرہ کر لو(ترمذی ۱/۱۸۱ ابواب الحج )
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺسے دریافت کیا ‘میری ماں اچانک فوت ہوگئی اور میرا خیال ہے کہ اگر اسے کچھ بولنے کا موقع ملتاتو وہ صدقہ کرنے کی تلقین کر تی ، کیا میں اسکی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے ثواب ملے گا؟آپ ﷺنے فر مایا ہاں!(بخاری باب موت الفجاۃومسلم کتاب الزکوۃ باب الصدقۃ عن ا لمیت)
حضرت حنش فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؓ کو دیکھاکہ وہ دو مینڈھے کی قربانی کر رہے ہیں میں نے ان سے کہایہ کیا ہے؟یعنی آپ دو قربانی کیوں کر رہے ہیں؟تو آپؓ نے جواب دیاکہ رسول اللہ ﷺنے مجھے وصیت کی تھی کہ میں آپکی جانب سے قربانی کروں اسلئے میں نے آپکی جانب سے یہ قربانی کی(ابو داؤد کتاب الضحایا باب الاضحیۃ عن المیت)
حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاصؓ کی روایت میں ہے کہ انکے دادا عاص ابن وائل (جنکو اسلام نصیب نہیں ہوئی )نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی۔۔۔ہشام بن العاص نے اپنے حصے کے پچاس غلام آزاد کر دیاحضرت عمرو بن العاصؓ نے آپ ﷺ سے دریا فت کیا کہ میرے بھائی نے اپنا حصہ پچاس غلام آزاد کر دیا کیا باقی میں بھی آزاد کردوں۔آپ ﷺنے فر مایا اگر تمہارے والد ایمان واسلام کے ساتھ دنیاسے گئے ہو تے پھر تم انکی طرف سے غلام آزاد کرتے یاصدقہ کرتے یا حج کرتے تو ان اعمال کا ثواب انکو پہونچ جاتا(ابوداؤد معارف الحدیث۲/۴۹۲)
چونکہ آج کل غلام شرعی نہیں پائے جا تے ہیں اس لئے غلام آزاد کر کے ایصال ثواب پہونچانا ممکن نہیں ہے ہاں ! دوسری عبادتوں سے ایصال ثواب کر دے(مرتب)
عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی اوپر والی روایت مسند احمد میں ہے اور اس میں حج کی جگہ نماز کا ذکر ہے (معارف الحدیث ۲/۴۹۲ فتاویٰ رحیمیہ۱/۳۸۷)
عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی اوپر والی روایت مسند احمد میں ہے اور اسکی عبارت اس طرح ہے’’فلو اقرّباالتوحید فصمت او تصدقت عنہ نفعہ ذالک‘‘(نیل الاوطار۷/۴۵۱ ومسند احمد)
یعنی اگر تمہارے والد مسلمان ہو تے اور تم انکی جانب سے روزہ رکھتے یاصدقہ کرتے تو ان اعمال کا ثواب انکو پہو نچ جاتا۔
حضرت سعد بن عبادہؓ سے روایت ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ ام سعد فوت ہو گئی ان کے لئے کون سا صدقہ افضل ہے آپ ﷺ نے فر مایا پانی (کا انتظام کردو) تو حضرت سعدؓ نے ایک کنواں کھودا اور کہا یہ ام سعد کے لئے ہے(نیل الاوطار۷/۴۵۱ و مسند احمد)
یہ چند آحادیث بطور استشہاد کے پیش کیا ہے ورنہ ذخیرہ احادیث میں بے شمار ایسی احادیث ہیں جن سے ایصال ثواب کا ثبوت ہو تا ہے ، باقی مزید تفصیل کے لئے میری کتاب ’’ ایصال ثواب اور مروجہ قرآن خوانی ‘‘ضرور پڑھیں

نئی تحریر

قرآنی آیات کوایک لمحہ میں تلاش کریں