برطانیہ میں تو ماضی قریب تک لڑکی شادی ہونے کے بعد اپنی ہستی کھودیتی تھی، قانون کے مطابق وہ کسی جائیداد کی مالک نہیں بن سکتی تھی، یہانتک کہ بیوی کی کمائی اور تنخواہ بھی خاوند کی ہوجاتی تھی، قانونی نظریہ یہ تھا کہ شادی کے بعد عورت کی اپنی کوئی شخصیت نہیں رہتی بلکہ خاوند میں مدغم ہوجاتی ہے، اسی لئے آج بھی برطانیہ میں یہ رواج ہے کہ شادی کے بعد بیوی خاوند کا نام اپنا لیتی ہے جیسے مسز ابراہم، مسز بارکلے اور مسز انتھونی وغیرہ۔
برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلس آکسفورڈ کے اسلامی سینٹر میں تقریر کرتے ہوئے اس کا اعتراف کرچکے ہیں کہ ’’چند دہائی قبل تک میری دادی کو بھی جو حقوق حاصل نہیں تھے، اسلام چودہ سال پہلے وہ تمام حقوق عورتوں کو عطا کرچکا ہے‘‘۔
مغربی ممالک میں زمانہ قدیم سے عورت زبوں حالی اورپائمالی کا شکار رہی ہے اسے تیسرے درجہ سے بھی کمتر سمجھا جاتا تھا، ایسا کھلونا جس سے جب جی چاہا کھیلا اور دل بھر گیا تو پھینک دیا، اپنا حق مانگنا تو دور، اپنے اوپر ظلم وستم کے خلاف آواز اٹھانے کی بھی اسے اجازت نہیں تھی۔ اگر یوروپ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو وہاں کے معاشرہ میں عورت کو کوئی مقام ومرتبہ حاصل نہ تھا، مسیحی کلیسا نے تو عورت کو گناہِ آدم کا مجرم قرار دیکر عزت واحترام کا مقام دینے سے انکار کردیا تھا، حضرت عیسیٰ مسیحؑ نے شادی نہیں کی اس لئے عیسائی معاشرہ میں عائلی اسوہ موجود نہیں ہے تورات میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں کوئی واضح ہدایت نہیں ملتی لہذا مسیحیت عورتوں کے تعلق سے کلیسائی رویہ کے تابع رہی ہے، یہانتک کہ کلیسا کے ذمہ داروں کیلئے تجرد کو لازمی سمجھا گیا، چنانچہ کلیسا میں مرد اور عورت دونوں ایک غیر فطری مجرد زندگی گزارنے لگے،جس سے سنگین مسائل پیدا ہوئے ان کی خانقاہوں میں جنسی بے راہ روی اتنی بڑھی کہ اس کے واقعات ہر خاص وعام کی زبان پر آگئے، وقت کے ساتھ کلیسا میں بھی تبدیلیاں آئیں لیکن مغربی معاشرہ میں آج بھی عورت صرف ایک جنسی کھلونا ہے، عورت کی آزادی کے نام نہاد نعروں کے ساتھ اسے نائٹ کلب، شراب خانے، فلم اور ٹی وی ہر جگہ نیم عریاں بلکہ برہنہ کرکے پیش کیا جارہا ہے۔
یہی حال ہندوستان کا رہا کہ یہاں صنفِ نازک مرد کے مقابلہ میں نہایت ذلیل وخوار تھی، مرد خدا تھا، معبود تھا، آقا تھا اور عورت محض ایک داسی، جس کا اپنا کوئی وجود تھا، نہ رائے اور نہ پسند، ساری زندگی وہ مرد کی خدمت کرتی اور اس کے مرنے کے بعد، اسی کے ساتھ زندہ جلا دی جاتی جسے ’’ستی‘‘ کی رسم کہتے تھے، بیوہ کی شادی کا تصور تو دور اسے زندگی بھر ہر آسائش ورنگینی کو اپنے اوپر حرام کرنا پڑتا بلکہ بیوگی کے بعد اس کا سرمونڈھ دیا جاتا تاکہ وہ بدصورت نظر آئے، اسے اپنی مذہبی کتابیں پڑھنے یا ہاتھ لگانے کی اجازت بھی نہ تھی، آج بھی بنارس میں ایسی عورتوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ہندوؤں کے رہنما اور مصلح راجہ رام چندر رائے نے اپنی کوششوں سے ’’ستی‘‘ کی اس رسم کو ختم کروایا، پھر بھی آزاد ہندوستان میں ’’ستی‘‘ کے واقعات اکثر ہوجاتے ہیں، بیوہ عورت کو شوہر کی جائیداد میں حق اور لڑکیوں کو حق وراثت تین ساڑھے تین ہزار سال پرانے ہندو مذہب اور تہذیب کو ۱۹۳۸ء اور ۱۹۵۶ء میں کافی جدوجہد کے بعد فراہم ہوئے، جسے اسلام اور مسلمانوں کے اثرات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اسلام کی آمد سے پہلے عرب میں بھی صنف نازک کی حالت بہتر نہیں تھی، لڑکی کے پیدا ہوتے ہی اسے زندہ درگور کردیا جاتا تھا، اسلام نے وحشیانہ اس رسم کو سختی کے ساتھ ختم کردیا، اہل عرب بے شمار شادیاں کرتے تھے، شوہر کے مرنے کے بعد بیویاں بھی ترکے کی طرح تقسیم ہوجاتیں، سوتیلی مائیں بیٹیوں کو مل جاتیں، شعر وشاعری میں صنف نازک کو رسوا کیا جاتا، ان کی سر عام تضحیک کی جاتی گویا معاشرہ میں عورتوں کی عزت واحترام کا کوئی تصور نہ تھا۔
اسلام جب طلوع ہوا تو اس کے سورج کی کرنیں دوسرے شعبوں کے ساتھ عورتوں کیلئے بھی سماجی اور اقتصادی مساوات کے حقوق کی روشنی لیکر نمودار ہوئیں، اہل اسلام نے اس پر عمل کرکے عورتوں کو نہ صرف عزت واحترام دیا بلکہ اس کی عفت عصمت کے محافظ بنے اور عورتوں کو وہ حقوق عطا کئے جن کا تصور بھی دوسری اقوام میں نہیں ملتا۔