Wednesday, September 19, 2018

تعزیہ علماء دیوبند اور علماء بریلوی کے نزدیک


بسم اللہ الرحمن الرحیم

تعزیہ علماء دیوبند اور علماء بریلوی کے فتاوے میں

    ماتم اور تعزیہ داری کی ایجاد:352ھ کے شروع ہونے پر ابن بویہ مذکور نے حکم دیا کہ 10 محرم کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے غم میں تمام دکانیں بند کردی جائیں، بیع و شراء بالکل موقوف رہے، شہر و دیہات کے لوگ ماتمی لباس پہنیں اوراعلانیہ نوحہ کریں۔ عورتیں اپنے بال کھولے ہوئے، چہروں کو سیاہ کیے ہوئے، کپڑوں کوپھاڑتے ہوئے سڑکوں اور بازاروں میں مرثیے پڑھتی، منہ نوچتی اور چھاتیاں پیٹتی ہوئی، نکلیں۔ شیعوں نے اس حکم کی بخوشی تعمیل کی مگر اہل سنت دم بخوداورخاموش رہے کیونکہ شیعوں کی حکومت تھی۔ آئندہ سال 353ھ میں پھر اسی حکم کا اعادہ کیا گیا اور سنیوں کو بھی اس کی تعمیل کا حکم دیا گیا۔اہل سنت اس ذلت کو برداشت نہ کرسکےچنانچہ شیعہ اور سنیوں میں فساد برپا ہوا اور بہت بڑی خون ریزی ہوئی۔ اس کے بعد شیعوں نے ہر سال اس رسم کو زیر عمل لانا شروع کردیا اور آج تک اس کا رواج ہندوستان میں ہم دیکھ رہےہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہندوستان (متحدہ) میں اکثر سنی لوگ بھی تعزیے بناتے ہیں۔ ( تاریخ اسلام اکبر خان نجیب آبادی۔ ج:2، ص 566، طبع کراچی)
 میں ہندکےاندر تعزیہ سازی کا جائزہ لیا جائے تو پتہ جلتا ہے کہ اس کی اول بنیادمغل بادشاہ تیمور نے اپنے دور حکمرانی 1370ء 150 1405ء میں رکھی تھی کہا جاتا ہے کہ چودھویں صدی میں امیر تیمور نے کربلا عراق کا دورہ کیا اور وہاں سے حضرت امام حسین کی شبیہ دہلی لیکر آئےاور یہاں جب سے تعزیہ داری کی بدعت شروع ہوئی۔

تعزیہ بنا ناکیساہے؟

حضرت سہارنپوری ؒو تھانوی ؒ وگنگوہیؒ کے فتاوے

تعزیہ بنانا اور تعزیہ کے ساتھ شریک ہونا اور بنظر تعظیم اسکو دیکھناشعار روافض سے ہے اورتشبہ بالروافض ہے، اور جو شخص شعار روافض بجالاوے وہ بحکم ظاہر شرع روافض میں شمار ہے ، دیکھو زنارپہننا اورذی کفار اختیار کرنا بروے شرع کفر لکھا ہے، حالانکہ بظاہر وہ شخص اپنے اعتقاد میں مسلمانی اظہار کرتا ہے لہٰذا جو شعار اختیار کیا جائیگا اسی کا حکم ہوگا، پس ایسے شخص پر جو تعزیہ بناتا ہے گو کسی تاویل سے بنائے اورفیما بینہ وی بین اللہ اس کے کچھ ہی نیت ہو لیکن بحکم ظاہر شرع اسکو رفض سے تعبیر کیا جائیگا، اور مستفتی نے جس حدیث سے تعزیہ کا جواز ثابت کرنا چاہا ہے وہ بھی غلط ہے اور نہ اس سے یہ مدعا ثابت ہوتا ہے، پس جس عالم نے رفض کا فتویٰ شخص مذکور پردیا ہے ہ وہ صحیح ہے، فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب،(فتاوی مظاہر العلوم ص222۔امدا د الاحکام ج 1 ص185۔فتاویٰ رشیدیہ ص 105۔)

حضرت مولانا احمد رضا خانؒ کا فتویٰ

سوال:کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ تعزیہ بناناکیساہے؟ اور اس پرشیرینی وغیرہ چڑھاناکیساہے؟ اور بنانے والے اور تعظیم کرنے والے کاعندالشرع کیاحکم ہے؟ اور جوشخص تعزیہ کے ناجوازی کاقائل ہے اس کو کافر یامرتد کہنا اور کافرسمجھ کر اس کے پیچھے نمازنہ پڑھنا کیساہے؟ اور تعزیہ داری میں غلو کرنے والے کے پیچھے نمازپڑھناکیساہے؟ بیّنواتوجروا۔
الجواب : تعزیہ رائجہ ناجائز وبدعت ہے اور اس کابناناگناہ ومعصیت اور اس پرشیرینی وغیرہ چڑھانا محض جہالت اور اس کی تعظیم بدعت وجہالت۔ اور جوتعزیہ کوناجائزکہے اس بناپر اسے کافر یامرتد کہنااشدعظیم گناہ کبیرہ ہے، کہنے والے کوتجدیداسلام ونکاح چاہئے، یوہیں اس وجہ سے اس کے پیچھے نمازنہ پڑھنا مردودوباطل ہے۔(فتاویٰ رضویہ کتاب الحضر والاباحہ ج24 ص105۔)
ایک جگہ کہتے ہیں:الجواب: تعزیہ جس طرح رائج ہے نہ ایک بدعت مجمع بدعات ہے نہ وہ روضہ مبارک کانقشہ ہے اور ہوتو ماتم اور سینہ کوبی اورتاشے باجوں کے گشت اورخاک میں دبانا یہ کیا روضہ مبارک کی شان ہے اور پریوں اور براق کی تصویریں بھی شاید روضہ مبارکہ میں ہوں گی امام عالی مقام کی طر ف اپنی ہو سات مخترعہ کی نسبت امام رضی اﷲ تعالٰی عنہ کی توہین ہے کیاتوہین امام قابل تعظیم ہے۔ کعبہ معظمہ میں زمانہ جاہلیت میں مشرکین نے سیدنا ابراہیم وسیدنا اسمٰعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام کی تصویریں بنائیں اور ہاتھ میں پانسے دئے تھے جن پر لعنت فرمائی اور ان تصویروں کومحوفرمادیا یہ توانبیائے عظام کی طرف نسبت تھی کیا اس سے وہ ملعون پانسے معظم ہوگئے یاتصویریں قابل ابقا۔(فتاوی رضویہ ج24ص107۔)

کیا تعزیہ داری میں مالی تعاون درست ہے ؟

علماء دیوبند کا فتاوے

سوال(۴۹)کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: تعزیہ داری میں شرکت کرنا اور چندہ دینا اور ملیدہ بناکر فاتحہ کرنا اور اس کو عوام میں تقسیم کرنا کیسا ہے، جائز ہے یا ناجائز؟
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سوال میں ذکر کردہ سبھی امور بدعت اور ناجائز ہیں، ان کی شریعت اسلامی میں کوئی اصل نہیں ہے۔ 
وأما اتخاذہ ماتما لأجل قتل الحسین بن علي کما یفعلہ الروافض فہو من عمل الذین ضل سعیہم فی الحیوۃ الدنیا وہم یحسبون أنہم یحسنون صنعًا، إذ لم یأمر اللّٰہ ولا رسولہ باتخاذ أیام مصائب الأنبیاء وموتہم ماتماً فکیف بمن دونہم؟ یجب علی ولاۃ الدین أن یمنعوہم، والمستمعون لا یعذرون في الاستماع۔ (مجالس الأبرار ۲۵۳ بحوالہ: فتاویٰ محمودیہ ۵؍۴۸۵ میرٹھ) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

مولانا احمد رضا خان صاحب کا فتویٰ

سوال:اس کے بنانے میں کسی قسم کی امدادجائزہے یانہیں؟
جواب:تعزیہ میں کسی قسم کی امدادجائزنہیں۔ قال اﷲ تعالٰی ولاتعاونوا علی الاثم والعدوان۔اﷲ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: گناہ اور زیادتی کے معاملات میں ایک دوسرے کی مدد نہ کیاکرو(ت)(فتاویٰ رضویہ ج24 ص107۔)

تعزیہ کے سامنے مٹھائی وغیرہ رکھنا اور منت ماننا کیساہے ؟

حضرت تھا نوی ؒ وگنگوہی ؒ کا فتاوے

سوال: پنجے نصب کرنا اور اس سے نذونیاز کرنا دست بستہ سامنے کھڑے ہوکرفاتحہ دلانا اور اس کو تبرک سمجھ کر کھانا اور پنجوں پر عرضیاں چڑھانا اور پنجوں کے سامنے ازدیارعمر کے لیے بچو ں کو ڈالنا اور منت اور مراد ماننااور مراد برآنے پرکچھ تدردینا اور دلیلوں کانام علم نصب کرکے نذرونیاز کرنا اور وہاں جشن کرنایہ تمام افعال ازروئے شرع حرام ہیں یا شرک؟
الجواب: یہ جملہ افعال شرکیہ ہیں ان سے احتراز لازم اور توبہ کرناواجب ہے لیکن اگر یہ لوگ موثرحق تعالیٰ کومانتے ہیں اور ان اشیاء کو یاجن سے یہ اشیاء نامزد ہیں موثرنہیں مانتے ، محض برکت کی چیزیں مانتے ہیں تو گویا یہ اعتقاد بھی گناہ عظیم ہے مگر اس صورت میں یہ لوگ ایمان سے خارج نہیں ہوئے، اور اگر یہ لوگ ان اشیاء کو یااصحاب اشیائے کو ایسا موثر مانتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں اختیارات دیدیئے ہیں تو اس صورت میں یہ لوگ ایمان سے بھی باہرہوجائیں گے ، تجدید ایمان ونکاح لازم ہوگا۔(امدالاحکام ج1ص 185۔فتاویٰ رشیدیہ 105۔)

مولانا احمد رضا صاحب کا فتویٰ

سوال ہشتم : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ تعزیہ بنانا اور اس پرنذرنیاز کرناعرائض بامید حاجت براری لٹکانا اور بہ نیت بدعت حسنہ اس کو داخل حسنات جاننا او رموافق شریعت ان امور کو اور جوکچھ اس سے پیدا اور یا متعلق ہوں کتناگناہ ہے، اورزید اگر ان باتوں کوجو فی زماننا متعلق تعزیہ داری وعلم داری کے ہیں موافق مذہب اہل سنت کے تصورکرے تو وہ کس قسم کے مرتکب ہوااور اس پرشرع کی تعزیرکیالازم آتی ہے،اور ان امور کے ارتکاب سے وہ شرک خفی یا جلی میں مبتلا ہے یانہیں، او ر اس کی زوجہ اس کے نکاح سے باہر ہوئی یانہیں، درصورتیکہ وہ امور متذکرہ بالا کو داخل عقیدت اہلسنت وجماعت بنظرثواب عمل میں لاتاہو۔بیّنواتوجروا۔
الجواب : افعال مذکورہ جس طرح عوام زمانہ میں رائج ہیں بدعت سیئہ وممنوع وناجائزہیں انہیں داخل ثواب جاننا اور موافق شریعت مذہب اہلسنت ماننا اس سے سخت تروخطائے عقیدہ وجہل اشد ہے، شرعی تعزیر حاکم شرع سلطان کی رائے پرمفوض ہے باایں ہمہ وہ شرک وکفرہرگز نہیں، نہ اس بناء پرعورت نکاح سے باہرہو، عرائض بامید حاجت براری لٹکانا محض بہ نیت توسل ہے جو اس کاجہل ہے کہ امورممنوعہ لائق توسل نہیں ہوتے باقی حاجت روا بالذات کوئی کلمہ گوحضرت امام عالی مقام رضی اﷲ تعالٰی عنہ کوبھی نہیں جانتا کہ معاذاﷲ تعالٰی شرک ہو، یہ وہابیہ کاجہل وضلال ہے، واﷲ تعالٰی اعلم فقط

محرم کے کھیل تماشے میں شرکت کرنا

علماء دیوبند کے فتاوے

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: تعزیہ داری میں شرکت کرنا اور چندہ دینا اور ملیدہ بناکر فاتحہ کرنا اور اس کو عوام میں تقسیم کرنا کیسا ہے، جائز ہے یا ناجائز؟
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سوال میں ذکر کردہ سبھی امور بدعت اور ناجائز ہیں، ان کی شریعت اسلامی میں کوئی اصل نہیں ہے۔ 
وأما اتخاذہ ماتما لأجل قتل الحسین بن علي کما یفعلہ الروافض فہو من عمل الذین ضل سعیہم فی الحیوۃ الدنیا وہم یحسبون أنہم یحسنون صنعًا، إذ لم یأمر اللّٰہ ولا رسولہ باتخاذ أیام مصائب الأنبیاء وموتہم ماتماً فکیف بمن دونہم؟ یجب علی ولاۃ الدین أن یمنعوہم، والمستمعون لا یعذرون في الاستماع۔ (مجالس الابرار ۲۵۳ بحوالہ: فتاویٰ محمودیہ ۵؍۴۸۵ میرٹھ) فقط واللہ تعالیٰ اعلم

مولانا احمد رضا صاحب کا ملفوظ

عرض : تعزیہ داری میں لہو ولعب (یعنی کھیل کودیا تماشا)سمجھ کر جائے تو کیسا ہے ؟
ارشاد: نہیں چاہیے۔ ناجائز کام میں جس طر ح جان مال سے مدد کریگا یونہی سَواد(یعنی گروہ) بڑھا کر بھی مدد گار ہو گا۔ ناجائز بات کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے ۔ بندر نچانا حرام ہے ،اس کا تماشا دیکھنا بھی حرام ہے۔دُرِّمختار وحاشیہ علامہ طحطاوی میں ان مسائل کی تصریح ہے ۔ آجکل لوگ ان سے غافل ہیں۔ متقی لوگ جن کو شریعت کی احتیاط ہے، ناواقفی سے ریچھ یا بند ر کا تماشا یا مرغوں کی پالی(یعنی لڑائی) دیکھتے ہیں اورنہیں جانتے کہ اس سے گنہگار ہوتے ہیں ۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت ص 286۔)
تعزیہ داری اور اس میں شرکت اور اسے موجب برکت سمجھنا یہ سب علماء دیوبند کے یہاں تو ناجائز وحرام اور بدعت توہے ہی علماء بریلوی کے فتاوے بھی ملاحظہ کرلیں۔

مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب فرماتے ہیں

ہمارے ملک میں ان مبارک مہینوں میں حسبِ ذیل رسمیں ہوتی ہیں محرم کے پہلے دس دن اور خاص کر دسویں محرم یعنی عاشورہ کا دن کھیل کود، تماشہ اورمیلوں کازمانہ سمجھاگیا ہے۔ کاٹھیاواڑمیں اس زمانہ میں تعزیہ داری کے ساتھ کتے،گدھے،بندر،کی سی صورتیں بناکر مسلمان تعزیوں کے آگے کودتے ہوئے نکلتے ہیں اور سبیلوں کی خوب زیبائش کرتے ہیں اور شرابیں پی پی کر چوکاروں میں کھڑے ہوکر ماتم کے بہانے سے کودتے ہیں اور یوپی میں مسلمان ان دس دنوں میں برابر رافضیوں کی مجلسوں میں مرثیے سننے اور مٹھائی لینے پہنچ جاتے ہیں۔ پھر آٹھویں تاریخ کو عَلَم اور نویں تاریخ کو تعزیوں کی گشت اور دسویں کو تعزیوں کا جلوس خود بھی نکالتے ہیں اور رافضیوں کے تعزیوں کے جلوس میں بھی شرکت کرتے ہیں بعض جاہل لوگ ماتم بھی کرتے ہوئے جاتے ہیں پھر بارہویں محرم کو تعزیوں کا تیجہ اور ۲۰ صفر کو تعزیوں کا چالیسواں نکالا جاتا ہے جس میں چند طرح کے جلوس نکلتے ہیں،۔۔۔۔۔

ان رسموں کی خرابیاں

محرم کا مہینہ نہایت مبارک مہینہ ہے، خاص کر عاشورہ کا دن بہت ہی مبارک ہے کہ دسویں محرم جمعہ کے دن حضرت نوح علیہ السلام کشتی سے زمین پر تشریف لائے اور اسی تاریخ اور اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے نجات پائی اور فرعون غرق ہوا، اسی تاریخ اور اسی دن میں سید الشہداامام حسین نے کربلا کے میدان میں شہادت پائی اور اسی جمعہ کا دن اور غالباًاسی دسویں محرم کو قیامت آئے گی۔غرضیکہ جمعہ کا دن اور دسویں محرم بہت مبارک دن ہے اسلام میں سب سے پہلے صرف عاشورہ کا روزہ فرض ہوا،پھر رمضان شریف کے روزوں سے اس روزے کی فرضیّت تو منسوخ ہوگئی مگر اس دن کا روزہ اب بھی سنت ہے لہٰذا ان دنوں میں جس طرح نیک کام کرنے کا ثواب زیادہ ہے اسی طرح گناہ کرنے کا عذاب بھی زیادہ تعزیہ داری اور عَلَم نکالنا کودنا،ناچنا،یہ وہ کام ہیں جو یزیدی لوگوں نے کئے تھے کہ امام حسین ودیگر کو شہدائے کربلا رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے سر نیزوں پر رکھ کر ان کے آگے کودتے ناچتے خوشیاں مناتے ہوئے کربلاسے کوفہ اور کوفہ سے دمشق یزید پلید کے پاس لے گئے۔ باقی اہلِ بیت نے نہ کبھی تعزیہ داری کی اور نہ عَلَم نکالے،نہ سینے کوٹے نہ ماتم کئے۔ لہٰذا اے مسلمانوں ان مبارک دنوں میں یہ کام ہرگز نہ کرو ورنہ سخت گنہگار ہوگے۔خو د بھی ان جلوسوں اور ماتم میں شریک نہ ہو اور اپنے بچوں اپنی بیویوں، دوستوں کو بھی روکو،رافضیوں کی مجلس میں ہرگز شرکت نہ کرو۔(اسلامی زندگی ص 72 تا 74۔)


حضرت مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی فرماتےہیں:

انہیں بدعات سیئہ اور حرام ناجائز کاموں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مسئلہ ۸: تعزیہ داری کہ واقعات کربلا کے سلسلہ میں طرح طرح کے ڈھانچے بناتے اور ان کو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے روضہ پاک کی شبیہ کہتے ہیں، کہیں تخت بنائے جاتے ہیں، کہیں ضریح بنتی ہے (1)اور علم اور شدے (2)نکالے جاتے ہیں، ڈھول تاشے اور قسم قسم کے باجے بجائے جاتے ہیں، تعزیوں کا بہت دھوم دھام سے گشت ہوتا ہے، آگے پیچھے ہونے میں جاہلیت کے سے جھگڑے ہوتے ہیں، کبھی درخت کی شاخیں کاٹی جاتیں ہیں، کہیں چبوترے کھودوائے جاتے ہیں، تعزیوں سے منتیں مانی جاتی ہیں، سونے چاندی کے عَلَم چڑھائے جاتے ہیں،ہار پھول ناریل چڑھاتے ہیں، وہاں جوتے پہن کر جانے کو گناہ جانتے ہیں بلکہ اس شدت سے منع کرتے ہیں کہ گناہ پر بھی ایسی ممانعت نہیں کرتے چھتری لگانے کو بہت برا جانتے ہیں۔ 
تعزیوں کے اندر دو مصنوعی قبریں بناتے ہیں، ایک پر سبز غلاف اور دوسری پر سرخ غلاف ڈالتے ہیں، سبز غلاف والی کو حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قبر اور سرخ غلاف والی کو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قبر یا شبیہ قبر بتاتے ہیں اور وہاں شربت مالیدہ وغیرہ پر فاتحہ دلواتے ہیں۔ یہ تصور کرکے کہ حضرت امام عالی مقام کے روضہ اور مواجہہ اقدس میں فاتحہ دلارہے ہیں پھر یہ تعزیے دسویں تاریخ کو مصنوعی کربلا میں لے جا کر دفن کرتے ہیں گویا یہ جنازہ تھا جسے دفن کر آئے پھر تیجہ دسواں چالیسواں سب کچھ کیا جاتا ہے اور ہر ایک خرافات پر مشتمل ہوتا ہے۔
حضرت قاسم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی منہدی نکالتے ہیں گویا ان کی شادی ہورہی ہے اور منہدی رچائی جائے گی اور اسی تعزیہ داری کے سلسلہ میں کوئی پیک (3)بنتا ہے جس کے کمرسے گھنگرو بندھے ہوتے ہیں گویا یہ حضرت امام عالی مقام کا قاصد اور ہر کارہ ہے جو یہاں سے خط لے کر ابن زیاد یا یزید کے پاس جائے گا اور وہ ہر کاروں کی طرح بھاگا پھرتا ہے۔ 
کسی بچہ کو فقیر بنایا جاتا ہے اوس کے گلے میں جھولی ڈالتے اور گھر گھر اس سے بھیک منگواتے ہیں، کوئی سقہ (4) بنایا جاتا
ہے، چھوٹی سی مشک اس کے کندھے سے لٹکتی ہے گویا یہ دریائے فرات سے پانی بھر کر لائے گا، کسی علَم پر مشک لٹکتی ہے اور اس میں تیر لگا ہوتا ہے، گویا یہ حضرت عباس علَم دار ہیں کہ فُرات سے پانی لارہے ہیں اور یزیدیوں نے مشک کو تیر سے چھید دیا ہے، اسی قسم کی بہت سی باتیں کی جاتی ہیں یہ سب لغوو خرافات ہیں ان سے ہر گز سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ خوش نہیں یہ تم خود غور کرو کہ انھوں نے اِحیائے دین و سنت کے لیے یہ زبردست قربانیاں کیں اور تم نے معاذ اﷲاس کو بدعات کا ذریعہ بنالیا۔ 
بعض جگہ اسی تعزیہ داری کے سلسلہ میں براق بنایا جاتا ہے جو عجب قسم کا مجسمہ ہوتا ہے کہ کچھ حصہ انسانی شکل کا ہوتا ہے اور کچھ حصہ جانور کا سا۔ شاید یہ حضرت امام عالی مقام کی سواری کے لیے ایک جانور ہوگا۔ کہیں دلدل بنتا ہے، کہیں بڑی بڑی قبریں بنتی ہیں، بعض جگہ آدمی ریچھ، بندر، لنگور(1)بنتے ہیں اور کودتے پھرتے ہیں جن کو اسلام تو اسلام انسانی تہذیب بھی جائز نہیں رکھتی ایسی بری حرکت ،اسلام ہرگز جائز نہیں رکھتا۔ افسوس کہ محبت اہلِ بیت کرام کا دعویٰ اور ایسی بے جا حرکتیں یہ واقعہ تمھارے لیے نصیحت تھا اور تم نے اس کو کھیل تماشہ بنالیا۔ 
اسی سلسلے میں نوحہ و ماتم بھی ہوتا ہے اور سینہ کوبی ہوتی ہے، اتنے زور زور سے سینہ کوٹتے ہیں کہ ورم ہوجاتا ہے، سینہ سرخ ہوجاتا ہے بلکہ بعض جگہ زنجیروں اور چھریوں سے ماتم کرتے ہیں کہ سینے سے خون بہنے لگتا ہے۔ تعزیوں کے پاس مرثیہ (2)پڑھا جاتا ہے اور تعزیہ جب گشت کو نکلتا ہے اس وقت بھی اس کے آگے مرثیہ پڑھا جاتا ہے، مرثیہ میں غلط واقعات نظم کیے جاتے ہیں، اہل بیتِ کرام کی بے حرمتی اور بے صبری اور جزع فزع کا ذکر کیا جاتا ہے اور چونکہ اکثر مرثیہ رافضیوں ہی کے ہیں، بعض میں تَبَرَّا بھی ہوتا ہے مگر اس رو میں سنّی بھی اسے بے تکلف پڑھ جاتے ہیں اور انھیں اس کا خیال بھی نہیں ہوتا کہ کیا پڑھ رہے ہیں، یہ سب ناجائز اور گناہ کے کام ہیں۔ 
مسئلہ ۹: اظہارِ غم کے لیے سر کے بال بکھیرتے ہیں، کپڑے پھاڑتے اور سر پر خاک ڈالتے اور بھوسا اڑاتے ہیں، یہ بھی ناجائز اور جاہلیت کے کام ہیں، ان سے بچنا نہایت ضروری ہے، احادیث میں ان کی سخت ممانعت آئی ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایسے امور سے پرہیز کریں اور ایسے کام کریں جن سے اﷲ(عزوجل)اور رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم راضی ہوں کہ یہی نجات کا راستہ ہے۔
مسئلہ ۱۰: تعزیوں اور علم کے ساتھ بعض لوگ لنگر لٹاتے ہیں یعنی روٹیاں یا بسکٹ یا اور کوئی چیز اونچی جگہ سے پھینکتے ہیں یہ ناجائز ہے، کہ رزق کی سخت بے حرمتی ہوتی ہے، یہ چیزیں کبھی نالیوں میں بھی گرتی ہیں اور اکثر لوٹنے والوں کے پاؤں کےنیچے بھی آتی ہیں اور بہت کچھ کچل کر ضائع ہوتی ہیں۔ اگر یہ چیزیں انسانیت کے طریق پر فقرا کو تقسیم کی جائیں تو بے حرمتی بھی نہ ہو اور جن کو دیا جائے انھیں فائدہ بھی پہنچے، مگر وہ لوگ اس طرح لٹانے ہی کو اپنی نیک نامی تصور کرتے ہیں۔(بہار شریعت ج 16ص 464تا468۔)
یہ چند اقتباسات ہیں ماننے والے کیلئے یہ کیا بس ایک عبارت کافی ہے اور نہ ماننے والے کیلئے دفتر کا ددفتر بھی کم ہے ۔
التماس : یہ وہ امور ہیں جن کو علماء دیوبند ہی نہیں بلکہ علماء بریلوی بھی ناجائز اور بدعت کہتے ہیں خداکے واسطے ان کاموں کو چھوڑ کر اپنے اپنے اکابرین و اسلام کے سچے پیروکار بنیں۔

Monday, September 17, 2018

انٹر نیٹ پر کیا جائز ہے اور کیا ناجائز



بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا انٹر نیٹ استعمال کر نا جائز ہے؟

جواب: اس مسئلہ کا مداراس کے استعمال کرنے والے پر ہے، اگر اس کو جائز کاموں میں استعما ل کیا گیا تو جائز ہے ورنہ حرام،چناچہ فقہ کا قاعدہ ہے، ’’الاموربمقاصدھا‘‘ (الاشباہ والنظائر /۳۲ بیروت)
سوال: کیا انٹر نیٹ پیک ریچارج کرنا دوکاندار کے لئے جائز ہے؟
جواب: انٹر نیٹ کا جہاں غلط استعمال ہے وہیں پر اسکے استعمال کے مباح طریقے بھی ہیں؛اس لئے دوکاندار کا گراہک کیلئے انٹر نیٹ پیک مارنا درست ہوگا اگر کوئی اس کا غلط استعمال کرتا ہے، تو اس کا گناہ خود استعما ل کر نے والے پرہوگا۔
’’وعُلم من ھذا انہ لا یکرہ بیع مالم تقم المعصیۃ بہ کبیع الجاریۃ المغنیّۃ‘‘ (شامی ۶ /۱۹۳)
سوال: دوسرے کا انٹرنیٹ وائی فائی (Wi۔Fi)کے ذریعہ استعمال کر نا کیسا ہے؟
جواب:آج امت کا حال یہ ہو چکا ہے، کہ وہ چوری کو صرف محدود چیزوں میں ہی حرام سمجھ رہی ہے،غالباً جو چیزیں نظروں میں آتی ہوں اس کی چوری کوچوری تو سمجھا جا رہا ہے، لیکن جو چیز یں نظروں میں نہ آتی ہوں اس کی چوری کو چوری نہیں سمجھاجا رہا ہے،انہیں میں سے وائی فائی (Wi۔Fi)کنکشن کی چوری ہے،یاد رکھیں جس طرح دیگر اشیاء کی چوری حرام وناجائز ہے، اسی طرح وائی فائی کنکشن کی چوری بھی حرام وناجائز ہے، ہاں جس کا وائی فائی(Wi۔Fi) استعمال کر رہاہو اسکی جانب سے اجازت ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ 
سوال: انٹر نیٹ کیفے چلانا کیسا ہے؟ یعنی انٹر نیٹ سینٹر جس میں معاوضہ دیکر انٹرنیٹ کا استعمال کرتاہواور استعمال کرنے والا بالکل آزاد ہو، کچھ بھی دیکھ سکتا ہو اور کچھ بھی لوڈ کر سکتا ہو،چاہے دینی بیانات یا پھر گانا،فلم وغیرہ ......
جواب: انٹر نیٹ کیفے میں اگر اس کا التزام کیا جائے کہ صارفین اس کا غلط استعمال نہ کر سکیں تو اس کارو بار کے جواز کی گنجائش نکل سکتی ہے؛ لیکن صارفین کو کھلی آزادی ہو کہ وہ کوئی بھی پروگرام دیکھیں یا استعمال کریں جیسا کہ عام معمول ہے، تو گناہ پر تعاون کی وجہ سے کاروبار مکروہ ضرور ہو گا،اس سے احتراز کرنا چاہیے۔(کتاب النوازل ۷۱/۶۰۱)
حضرت مولانا ومفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ العالی فرماتے ہیں ’’اگر حکومت کی طرف سے غیر اخلاق مواد بند کردیا گیا ہے تو اس قسم کی انٹر نیٹ سروس مہیا کرنا اور اس پر فیس وصول کرنا جائز ہے۔ (فتاویٰ عثمانی ۳/ ۳۰۴)
سوال: انٹر نیٹ ٹیلی فون سروس سے فون کرنا کیسا ہے؟
جواب: انٹر نیٹ کے ذریعہ دوسروں سے بات کرناجائز ہے۔
سوال: کیا انٹر نیٹ ٹیلی فون سروس سے ویڈیو کا ل کر سکتے ہیں؟
جواب: ویڈیو کال کرنے میں کو ئی مضائقہ نہیں ہے؛کیونکہ ویڈ یو کال میں ویڈیو گرافی اور ریکاڑڈنگ عموماً نہیں پائی جاتی ہے فقط لائیو (Live)تصویر ایک جانب سے دوسرے جانب منتقل کی جاتی ہے؛اس لئے ویڈیو کال کرنا جائز ہے۔ (انظر حاشیہ کتاب الفتاوی ۶ /۰۷۱) 
سوال: کیا انٹر نیٹ ٹیلی فون سروس کے ذریعہ ویڈیو کا ل کرکے کسی اجنبی عورت سے بات کرنا جائز ہے؟
جواب: اجنبی عورت (غیر محرم)سے ویڈیو کا ل کرکے بات کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ویڈیو کال میں مکمل نقل وحرکت کے ساتھ ایک دوسرے کی تصویر نظر آتی ہے،اور غیر محرم کا دیکھنا حرام ہے(النور /۱۳) اس لئے کسی غیر محرم عورت سے بوقت ضرورت شدیدہ بات کرنا ہی پڑ جائے توویڈیو کال کرنے کے بجائے آڈیو کال کرکے مختصر جچے تلے لہجہ میں بات کرلے۔ ولا یکلم الاجنبیۃ الا عجوزاً(الدر المختار مع الشامی ۹/۰۳۵وامدادالفتاویٰ ۴/۷۹۱)
سوال: انٹر نیٹ چیٹ (chatting)کیا ہو تا ہے؟
جواب:انٹرنیٹ پر بہت سی ایسی سائٹس ہیں جہاں اجنبی اشخاص ایک دوسرے کو پیغامات بھیج کر فوراً جواب حاصل کر سکتے ہیں،اِسی کو چیٹ روم کہا جاتا ہے۔اور ایک دوسرے کا آپس میں اس طرح smsکے ذریعہ گفتگو کرنے کو چیٹنگ (chatting) کہتے ہیں،اس طرح کا کام سوشل میڈیا سے بھی لیا جا تا ہے۔ 
سوال: انٹر نیٹ چیٹنگ (chatting)کرنا کیسا ہے؟
جواب: انٹر نیٹ چیٹیگ(chatting) پر خط وکتابت اور تبادلہ معلومات کا کام لیا جائے تو درست ہو گا۔
سوال: ٹائم پاس یا غیرمحرم سے دل لگی کیلئے چیٹنگ (chatting) کرنا کیسا ہے؟
جواب:محض اس پر ٹائم پاس کرنا یا کسی لڑکی وغیرہ سے فحش اور عشقیہ چیٹنگ کرنا حرام وناجائز ہوگا۔قال رسول اللّہ ﷺ من حسن اسلام المرأ ترک مالا یعنیہ (شعب الایمان) و فی الشامی وکرہ کل لھو ای کل لعب وعبث الاخ (شامی ۹/۶۶۵)
سعودی عرب کے ایک ممتاز عالم دین اور علماء کونسل کے سین یئر ’’رکن الشیخ عبداللہ المطلق‘‘ کا ایک نیا فتویٰ نیٹ پرسامنے آیا ہے جس میں انہوں نے غیر محرم عورت ومرد کی انٹرنیٹ چیٹ کو خلوت صحیحہ سے تعبیر کرتے ہوئے حرام قرار دیا ہے۔
سوشل میڈیا شیطانی افکار و خیالات کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ مسلمان نوجوانوں کو اس کے استعمال میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔سعودی عرب سے شائع ہونے والے تقریبا تمام ہی اخبارات نے الشیخ المطلق کے فتوے کو جلی سرخیوں کے ساتھ اشاعت میں جگہ دی ہے۔
الشیخ المطلق مزید فرماتے ہیں کہ کسی نامحرم مرد کا نامحرم خاتون کے ساتھ تنہائی میں مُکالمہ 'غیر شرعی' ہے۔ سماجی میڈیا کے ذریعے نامحرم مرد و زن کے مابین چیٹنگ کے دوران شیطان انہیں گمراہ کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ کسی غلط کام میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض اوقات مرد و زن چیٹنگ کے دوران غیر محرموں سے ایسی باتیں بھی کہہ بیٹھتے ہیں جنہیں وہ خودجانتا ہے۔ خاص طور پر خواتین کے ساتھ چیٹنگ کے دوران شیطان مردوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ میں خاص طور پر خواتین کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اجنبی اور نامحرم مردوں کے ساتھ انٹرنیٹ پر کسی بھی قسم کی بات چیت سے سختی سے گریز کریں۔
سوال: کیا منگیتر سے بذریعہ نیٹ کالنگ یا چیٹنگ کرنا درست ہے؟
جواب: جس لڑکا یا لڑکی سے منگنی ہوئی ہو وہ بھی اجنبی مرد و عورت کے حکم میں ہے،یعنی صرف منگنی ہو نے سے وہ لڑ کا یا لڑکی بیوی اور شوہر کے حکم میں نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ بھی آپس میں ایک اجنبی مرد وعورت کی طرح ہے اور اجنبی مرد وعورت سے بات کرنے کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
 ’’یَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء إِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِہِ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفاً‘‘(الأحزاب: 32) 
اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں جیسی نہیں ہو، اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو،(اگر بغرض ضرورت غیر محرم مردسے بات کرنا پڑے)تو پرکشش لہجہ میں گفتگو نہ کرو،ورنہ جسکے دل میں مرض ہے وہ طمع لگا بیٹھے گا، اور معروف بات کہو۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غیر محرموں سے گفتگو کرنے کے لیے دوشرطیں ذکر کی ہیں:۔ ۱۔ لہجہ پرکشش نہ ہو۔ ۲۔ معروف بات ہو۔ یعنی اجنبی مرد وعورت سے گفتگوکرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ گفتگو معروف یعنی اچھائی،بھلائی،نیکی،ضروری اور پاکیزہ گفتگوہو نیز گفتگو بھی ایسے لہجے میں کیا جائے کہ جس سے کسی قسم کا توقع نہ ہو سکے،ظاہر سی بات ہے کہ منگیتر سے گفتگو کرنا نہ تو ضروری ہوتا ہے اورنہ پاکیزہ بلکہ عین ممکن ہے کہ کہیں بات اور چیٹنگ کرتے کرتے شادی سے پہلے ہی غلط تعلقات قائم نہ ہو جائیں، اس لئے منگیتر یا غیر منگیتر کسی سے بھی چیٹنگ یاگفتگو بلاضرورت شدیدہ جائزنہیں ہے،اس امت کی سب سے پاکیزہ خواتین ازواج مطہرات ہیں، انکو بھی غیر محرم مردوں سے انہی اصولوں کو مدنظر رکھ کر گفتگو کرنے کا قرآن نے (مذکورہ بالا آیت میں)حکم دیاہے،اس لئے تمام مرد وعورت کیلئے یہی حکم ہو گا کہ وہ بلاوجہ،غیر شرعی، غیر ضروری نہ تو کسی غیر محرم سے گفتگو کر سکتے ہیں اور نہ چیٹنگ کر سکتے ہیں۔

کچھ نئے مضامین

Thursday, September 13, 2018

انٹر نیٹ کے فائدے اور نقصان

انٹر نیٹ کے فائدے اور نقصان از مفتی محمد عبد اللہ عزرائیل قاسمی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

(انٹر نیٹ کے فائدے)

      انٹرنیٹ کی اہمیت و افادیت سے آج کے دور میں انکار نہیں کیا جا سکتا ہے، اگرچہ ہم نے مذہب اور سائنس کو الگ الگ کر دیا ہے جب کہ ایک زمانہ تھا کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں کسی قوم سے کم نہیں تھے بلکہ بعض خشک مزاج دیندار تو اس کو دین سے بالکل الگ سمجھتے ہیں جبکہ دینی علوم تو دین ہے ہی،اگر دنیوی علوم بھی حسن نیت سے حاصل کیا جائے تو دین بن جاتا ہے اور نیت کا فساد تو ایسا سم قاتل ہے کہ تحصیلِ علوم دینیہ کو بھی باعث ذلت وخوار بنادیتی ہے چہ جائے کہ علوم دنیویہ............. علامہ اقبال کا مشہورشعر اس موقعہ پر یا د آرہا ہے :
’’اللہ سے کرے دور؛ تو تعلیم بھی فتنہ‘‘ 
’’املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ‘‘
’’ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ‘‘
’’شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ‘‘
اس لئے ہر ایجاد کو یک لخت حرام وناجائز کہہ دینا امت کو تنگی میں ڈالنے کے مترادف ہے،نیزاسی طرح ہر ایجادات کو آنکھ بند کر کے اپنا لینا بھی احتیاط کے خلاف ہے؛ اس لئے ہر ایجادات کے متعلق قرآن وسنت کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے،تاکہ جہاں تک گنجائش اور اجازت ہو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں،آئیے اٹر نیٹ کے فوائد پر تھوڑی سی روشنی ڈالیں۔
انٹرنیٹ کی ایجادات نے ذرائع ابلاغ کے میدان میں بہت آسانی پیدا کر دی ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعہ ہم اپنے دوست واحباب کی بر وقت خبر گیری، والدین سے آڈیو،ویڈیو باتیں،خط وکتابت بذریعہ ای میل، ای کا مرس، ای بزنس،آن لائن تعلیم وتعلم،فاصلاتی تعلیم،آن لائن اکزامس، یونیورسٹی، کمپنی کی تمام اشیاء کی معلومات، اخبار و رسائل،فلاحی وزرعی تنظیمیں،سیاسی پارٹیوں کی جانکاری، بینکنگ، ہر قسم کے بلوں کی ادائیگی، طبی و سائنسی معلومات، کے ساتھ ساتھ قراء عظام کی دل کش آواز میں قرآن کریم کی تلاوت،دینی بیانات، شعراء کرام کی دلکش نعتیں بشکل آڈیو ویڈیو، ہر عنوان پرہر زبان میں اسلامک کتابیں، غرض تمام شرعی ودینی احکام و مسائل اور قرآن و حدیث کو سمعی و بصری شکل میں حاصل کر سکتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ کی متنازعہ فلم’انوسنس آف مسلم‘ انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی لوگوں تک پہنچ سکی اور اسی طرح مشرقی وسطی میں تیونس،مصر،لیبیا میں مطلق العنان حکومتوں کے خلاف جو انقلاب آیا اس میں انٹرنیٹ کا اہم رول رہا ہے۔ اس سے سرحدی فاصلے ختم ہو گئے اور بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ پوری دنیا ایک انسان کی مٹھی میں آگئی ہے۔اگر انٹر نیٹ کا استعمال بہتر مقاصد اور تعمیری کاموں کے لیے ہو،معلومات میں اضافے کے لیے ہو، تعلیم و تعلم میں ہو تو یہ جائز ہے کیونکہ ایسے کاموں کا قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے، 
’’وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْویٰ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ‘‘(سورۃالمائدہ: ۲) اور آپس میں (ایک دوسرے کو)نیک کام اور پرہیزگاری پر مدد کرواور مدد نہ کرو (ایک دوسرے کو)گناہ اور ظلم پر،
غرض آج انٹرنیٹ پر دینی ودنیوی تقریبا سارے معلومات ہیں،جس کوہر انسان آسانی سے حاصل کرسکتا ہے۔

(انٹر نیٹ کے نقصانات)

      انٹرنیٹ جہاں اچھاہے وہیں وہ برا بھی ہے بلکہ اسکی برائی اورخرابی اچھائیوں پر غالب ہے، قرآن کی آیت اِثمُھُمَا اَکْبَرُمِنْ نَّفِعِھِمَا(البقرۃ /۹۱۲) اس پر صادق آتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کچھ علماء کرام نے ابتداء میں اسکو استعمال کرنے سے منع کیا تھا، انٹرنیٹ کی خاص برائیوں میں فحش گانے،بلو فلمیں،بے حیائی کے مناظر،اشتہارات کے نام پر بے پر دگی، عریانیت،بت پرستانہ و مشرکانہ رسوم،خریدوفروخت میں غبن ودھوکادہی، اور فحش پیغامات و فحش مواد دوسروں کوبھیجناوغیرہ ہے۔
یہی انٹر نیٹ کا منفی پہلو ہے جس کے ذریعے اسلام مخالف قوتیں ہماری تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے کے درپے ہیں جس کو دوسرے لفظوں میں یہود کا ’ذرائع ابلاغ کہا جا سکتا ہے۔ اور ان ذرائع ابلاغ (خاص کر ٹی وی،ڈش اور انٹرنیٹ) کو بدقسمتی سے ہم لوگ بنا کسی روک ٹوک کے اپناتے جا رہے ہیں،نہ حرام کی فکر ہے اورنہ حلال کی،جب بھی کوئی نئی چیز مارکٹ میںآتی ہے تو ہم حلال وحرام کی تمیز کئے بغیر اس کو اپنا لیتے ہیں،جس کے بارے میں سخت وعید ہے جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں’’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتِّخِذُھَا ھُزُوًا اُولٓءِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ‘‘ (سورۃلقمان:/۶)اوربعض انسان ایسا بھی ہے جو اللہ تعالی سے غافل کرنے والی باتیں خریدتا ہے تاکہ اللہ کی راہ حق سے بے سمجھے بوجھے (دوسروں کو) گمراہ کرے اور اس (راہ حق) کی ہنسی اڑائے،ایسے ہی لوگوں کے لیے(آخرت میں) ذلت کا عذاب ہے۔
اگر ہمارا یہی طرزعمل جاری رہا تو پھر ہم لوگوں کو تباہی و بربادی کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ کیونکہ ہاری ہوئی جنگ کو فتح میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، مگر تہذیب و ثقافت کی شکست پوری قوم کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔آج زیادہ تر انٹرنیٹ کا استعمال فحش و بے حیائی و اخلاقی بگاڑ کی طرف دعوت دینے، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور غلط معلومات کو پھیلانے میں ہو رہا ہے۔اگر بے حیائی و فحش فلموں اور ویڈیو کی بات کی جائے تو اس کا دیکھنا،سننا اور پسند کرنا بھی حرام ہے،خاص کر نوجوانوں کا طبقہ نیٹ پر بیٹھنے کے ساتھ ہی بلو فلم،گندی اور فحش تصاویر کودیکھنے اور سننے لگتا ہے، 
اس وقت جب کہ انٹرنیٹ ایک اہم و بنیادی ضرورت بن چکا ہے ہم کسی کو بھی اس کے استعمال سے روک نہیں سکتے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔کیونکہ ہمارے پاس اس کا کوئی دوسرا بدل نہیں ہے۔البتہ اس کے غلط استعمال کی برائی بتا بتا کر غلط استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کی جاسکتی ہے،بس اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انٹر نیٹ کو صرف جائز مقاصد میں استعمال کر نے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے تمام منفی طریقوں سے حفاظت فرمائے۔ آمین
(اخذ کلہا من ،، انٹرنیٹ اور اس کے مسائل:18تا 21۔)
مستفاد:
 ’’www.hamariweb.com‘‘