Wednesday, March 25, 2020

کرفیو میں نماز جمعہ

سوال :۔اس وقت  کورونا وائرس کی وجہ سے تقریبا پورے ہندوستان میں لاگ ڈاؤن لگا ہواہے توکہیں دفعہ 144لاگو ہے ، اسی کے ساتھ بلاتفریق مذاہب حکومت کی جانب سے اعلان ہے کہ کہیں پر لوگ بھربھاڑ نہ کریں جس کے نتیجے میں مندریں بھی بند ہیں تو مسجد وںمیں اذان کے ساتھ دوچار آدمی باجماعت نماز پڑھتے ہیں باقی حضرات اپنے اپنے گھروں میں ہی پنج وقتہ نماز ادا کرتے ہیں اب ایسی صورت حال میں نماز جمعہ مسجدوں میں ادا کیا جائے یا پھر اپنے اپنےگھروں ہیں جمعہ کے بجائےظہر نماز ہی پڑھی جائے؟


جواب :یقینا کورونا وائر س ایک مہلک مرض ہے جس سے اپنے آپ کو بچانا ضروری ہے اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
{ وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا} نساء: 29۔
اور نہ قتل کرو آپس میں بیشک اللہ تم پر مہربان ہے ۔
علامہ جلال الدین سیوطی ؒ فرماتے ہیں:
 بِارْتِكَابِ مَا يُؤَدِّي إلَى هَلَاكهَا   أَيًّا كَانَ فِي الدُّنْيَا أَوْ الْآخِرَة ۔( جلالین،نساء:29۔)
حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ آیت بالا کی تفسیر میں فرماتے ہیں : لفظی معنی یہ ہیں کہ تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو اس میں باتفاق مفسرین خودکشی بھی داخل ہے اور یہ بھی کہ ایک دوسرے کو ناحق قتل کرے۔
دوسری  جگہ ارشاد باری ہے:
{وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إلَى التَّهْلُكَة}بقرہ: 195۔
اور نہ ڈالو اپنی جان کو ہلاکت میں۔
 یہ دونوں آیتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں انسان کے اوپر ہر اس چیز سے بچنا فرض کے درجہ میں ضروری ہے جو اس کی ہلاکت کا سبب ہو۔
موجودہ صورت حال میں کئی اعذار جمع ہوگئی ہیں (1) کورونا وائرس،(2) دفعہ 144یعنی کرفیو(3) حکومت کی جانب  چند افراد کے جمع ہونے پر گرفتاری کاحکم۔(4) مسجدوں میں بدستور جماعت  کرنے پربالکلیہ مسجد بند کروادینے کا خدشہ۔
ان تمام اعذار کی موجودگی میں نماز جمعہ یا پنج وقتہ نمازکیلئے مسجد میں جاناکوئی ضروری نہیں ہے؛ بلکہ ہر فرد اپنے اپنے گھروں میں نماز جمعہ کے بجائے نماز ظہر ادا کرلے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے ،احادیث مبارکہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے :
(1)عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ نَادَى بِالصَّلَاةِ فِي لَيْلَةٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِيحٍ وَمَطَرٍ، فَقَالَ فِي آخِرِ نِدَائِهِ: أَلَا صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ، أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ الْمُؤَذِّنَ، إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ بَارِدَةٌ، أَوْ ذَاتُ مَطَرٍ فِي السَّفَرِ، أَنْ يَقُولَ: «أَلَا صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ»مسلم ،بَابُ الصَّلَاةِ فِي الرِّحَالِ فِي الْمَطَرِ۔
(2)قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ»بخاری،بَابُ لاَ هَامَةَ ۔
 (3)«لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ فِي الْإِسْلَامِ»مؤطاامام مالک،باب القضاء في المرفق۔
 احادیث بالا سے بھی  یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایسے نازک حالت میں پنچ وقتہ نماز کی طرح جمعہ کے بجائے
 ظہر بھی اپنے اپنے گھروں پڑھ لی جائے۔
اس کے علاوہ نماز جمعہ کے وجوب شرائط میں سےایک  شرط یہ بھی ہے کہ امن ہو اور دشمن کا خوف نہ ہے ۔اور موجودہ صورت حال میں کئی جمع چیزوں کا خوف جمع ہوگیا ہے ،جیساکہ اوپر مذکور ہوا۔
شامی میں ہے:
(وَشُرِطَ لِافْتِرَاضِهَا) تِسْعَةٌ  ۔۔۔وَعَدَمُ خَوْفٍ  أَيْ مِنْ سُلْطَانٍ أَوْ لِصٍّ مِنَحٌ۔ (شامی،باب الجمعۃ)
نورالایضاح میں ہے:
صلاة الجمعة: فرض عين على من اجتمع فيه سبعة شرائط:۔۔۔والأمن من ظالم۔ (نورالایضاح،باب الجمعۃ)
فتاویٰ حکمت میں ہے :
نماز جمعہ فرض ہونے  کے  لئے  من جملہ نو شرائط کے  ایک شرط امن ہونااور خوف نہو نا بھی ہے۔ موجودہ حالات میں  چونکہ امن نہیں  ہے  اور باہر نکلنے  پر پورا خطرہ وخوف بھی ہے  اس لئے  نماز جمعہ فرض نہیں  ہے۔ جن شہر ی وحوالی شہر علاقوں  میں  کرفیو لگا ہوا ہے  اور امن نہیں  ہے  وہاں  مسجدوں  میں  جا کر جمعہ پڑھنے  کے  بجائے  اپنے  اپنے  گھروں  میں  رہتے  ہوئے  ظہر کی نماز پڑھ لیں۔ (فتاویٰ حکمت ،ج:1ص:192۔)
احسن الفتاویٰ میں ہے :
اگر فوج نماز کے لئے مسجد جانے والوں کو منع نہ کرتی ہو تو مسجد میں جانا ضروری ہے، ورنہ گھر میں جماعت کے ساتھ ادا کی جائے، قانون کی خلاف ورزی اور عزت وجان کو خطرہ میں ڈالنا جائز نہیں۔(احسن الفتاویٰ:ج:3ص:311۔ زکریا بکڈپو، دیوبند)
خلاصہ:اس وقت کی موجودہ صورت حال میں بہتر شکل یہ ہے کہ جس طرح پنج وقتہ نماز کی جماعت  حکومت کی نظر میں نہ آتے ہوئے مسجدمیں مخصوص افرادکرلیتےہیں اسی طرح چند مخصوص حضرات حکومت کی نظرمیں نہ آتے ہوئےمسجد میں جمعہ نماز بھی ادا کرلے،بالکلیہ مسجد کو ویران کرنادرست نہیں ہے۔اور مابقیہ حضرات اپنے اپنے گھروں میں نماز جمعہ کے بجائے نمازظہر ادا کرلے تو کوئی حرج نہیں ہے نیزظہر ادا کرنے والے کو کسی قسم کا گناہ  بھی نہیں ہوگا ۔واللہ اعلم بالصواب ۔


Saturday, March 21, 2020

جنتا کرفیو










بسم اللہ الرحمن الرحیم

صحت و بیماری

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ترجمان وسکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ شمع فروزاں میں فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن نعمتوں سے نوازا ہے، ان میں ایک اہم نعمت صحت وتندرستی ہے؛ البتہ دنیا وآخرت کی نعمتوں میں بنیادی فرق فنا وبقاء کا ہے، آخرت میں جن لوگوں کو جنت میں جگہ ملے گی، اور بے شمار نعمتیں ان کے لئے مہیا کی جائیں گی، وہ ہمیشہ ہمیش باقی رہیں گی، دنیا کی نعمتیں فانی اور ناپائیدار ہیں، یا تو نعمت سے فائدہ اُٹھانے والا موجود رہتا ہے اور نعمت اس سے چھین لی جاتی ہے، یا نعمت باقی رہتی ہے اور انسان خود اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے، صحت بھی ایسی ہی نعمتوں میں ہے، کوئی مخلوق نہیں جو بیماری سے دوچار نہ ہو، انسان وجاندار ہی نہیں ، بے جان چیزوں میں بھی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیںویہ بیماریاں بنیادی طور پر دوطرح کی ہوتی ہیں: ایک وہ ہے جن میں پھیلاؤ نہیں ہوتا، دوسری : وہ جن میں پھیلاؤ ہوتا ہے؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجذوم کے بارے میں فرمایا: اس سے اس طرح بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو: فرّ من المجذوم کما تفر من الأسد (بخاری، حدیث نمبر: 1757۔)
یقیناََ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بھی ارشاد فرمائی ہے کہ بیماری متعدی نہیں ہوتی: لا عدویٰ ولا طیرۃ (بخاری، کتاب الطب باب لا عدوی، حدیث نمبر: 7557) لیکن اس ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ بیماری از خود ایک مریض سے دوسرے مریض کو نہیں لگتی، جیسا کہ زمانۂ جاہلیت میں سمجھا جاتا تھا؛ بلکہ بیماری کا پھیلاؤ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہوتا ہے، جب اللہ چاہتے ہیں تو بیماری کے جراثیم متعدی ہوتے ہیں، اور جب اللہ نہیں چاہتے، تو بیماری کا پھیلاؤ نہیں ہوتا، یہ بات مشاہدہ میں بھی آتی ہے کہ بعض دفعہ ایک متعدی بیماری میں مبتلاء شخص سے کسی نے چند لمحات ملاقات کی تو وہ اس بیماری کا شکار ہو جاتا ہے، اور جو شخص مستقل تیمارداری کر رہا ہے، یا جو معالج اس کا علاج کر رہا ہے، وہ اس بیماری میں مبتلاء نہیں ہوتا؛ اسی لئے مرض کا پھیلاؤ ظاہری سبب کے درجہ میں ہے، مؤثر حقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔

جنتا کرفیو

آج 22مارچ کو وزیر اعظم نریندر مودی کیجانب سے کوروناوائرس سے محفوظ رہنے کیلئے صبح7بجے سے شام 9 بجے تک “جنتاکرفیو”کا اعلان کیا گیا ہے۔اس لئےعوام کو چاہیئے کہ وہ اس احتیاطی تدبیر پر عمل کرتے ہوئے کروناوائرس جیسی مہلک بیماری سے محفوظ رہنے کیلئے 22مارچ کو صبح سے شام تک اپنے گھروں میں ہی رہیں ۔بلکہ اپنے گھروں میں رہکر مرکزی و ریاستی حکومت کا تعاون کریں۔اور صاف صفائی کا مکمل خیال رکھیں ،خصوصا مساجد ، مدارس ،مکاتب اور اپنے گھروں و غیرہ کی مکمل صاف صفائی کا خیال رکھیں۔اسلام صاف ستھرا مذہب ہے اور ہمیشہ صاف ستھرا رہنا سکھاتا ہے۔کھانے کی اشیاء استعمال کرنے سے قبل اور بعد میں صابن سے ضرور ہاتھ دھوئیں۔یہ عاجز ورقم مرد و خواتین سے”جنتا کرفیو” کو کامیاب بنانے کی اپیل کرتےہوئے اس موقع پر نفلی روزہ ، آیت کریمہ، ذکر و اذکار،نفلی نماز ، نماز حاجت اور کروناوائرس سے حفاظت کیلئے دعاؤں کا اہتمام کرنے کی اپیل کرتاہے ۔

جنتاکرفیو کے اعمال  اذکار

(1)اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، (اے اللہ! میں آپ سے دنیا وآخرت میں عافیت کا طلب گا ہوں)ابوداؤد، باب مایقول اذااصبح۔
(2) اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي، (اے اللہ! میں آپ سے اپنے دین ،دنیا ، اہل وعیال اور مال واسباب کے سلسلہ میں معافی وعافیت طلب کرتا ہوں)ابوداؤد، باب مایقول اذااصبح۔
(3)اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ البَرَصِ، وَالْجُنُونِ، وَالْجُذَامِ، وَمِنْ سَيِّئِ الْأَسْقَامِ(اے اللہ! میں داغ کی بیماری، جنون، کوڑھ اور دوسری خراب تکلیف دہ بیماریوں سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: 1554)
(5)  بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ، فِي الْأَرْضِ، وَلَا فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ، (اللہ کے نام سے، جس کے نام کی برکت سے نہ زمین کی کوئی چیز نقصان پہنچا سکتی ہے اور نہ آسمان کی، اور اللہ خوب سننے والے اور جاننے والے ہیں)ابوداؤد،باب مایقول اذا اصبح ، ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص صبح میں اسے پڑھے گا، رات تک مصیبت سے محفوظ رہے گا، اور جو شام میں پڑھے گا، وہ صبح تک محفوظ رہے گا۔
(6) حَسبنَا الله وَنعم الْوَكِيل کا کثرت سے ورد۔
(7)لَا إِلَه إِلَّا أَنْت سُبْحَانَكَ إِنِّي كنت من الظَّالِمين،(القرآن)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام زمینی وآسمانی بلاؤں و مصبیتوں سے حفاظت فرمائے ۔ آمین ۔

کرونا وائرس کیا ہے اور اس سے کیسے بچاجائے اس جو جانے کیلئے نیچے کلک کریں۔

کرونا وائرس اور اسلامی تعلیمات

کرونا وائرس اور اسلامی تعلیمات

کرونا وائرس اور اسلامی تعلیمات

حامداومصلیا اما بعد! برادران اسلام اور معززحاضرین و ناظرین اس وقت ہمارا ملک بھارت زمینی و آسمانی دونوں آفتوں میں گرفتارہے ، ایک طرف حکومت اپنی ناپاک ارادہ کے تحت ملک کو بربادی کی راہ پر لے جارہی ہے تو دوسری طرف کرونا جیسی مہلک مرض نے پوری دنیاں کو پریشان کر رہا ہے ۔آج پوری دنیا اس مہلک مرض سے پریشان ہے اب دیکھنا ہے کہ ان جیسے حالات میں شریعت نے کیا راہنمائی کی ہے اور قرآن و حدیث میں کیا ہدایات دیئے گئے ہیں ؟

کرونا وائرس ہے کیا؟ 

 ماہرین کا خیال ہے کہ ووہان شہر کی ہول سیل گوشت کی مارکیٹ میںآنے والوں میں یہ وائرس داخل ہوا۔خیال رہے کہ اس مارکیٹ میںگدھے، خنزیر، اُونٹ، بھیڑیں، لومڑیاں، چوہے، سانپ اور سمندری حیات فروخت کی جاتی تھیں۔ بعض غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس چمگادڑ کے سوپ اور زندہ چوہے کھانے سے پھیلا، وہیں پر بعض لوگوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ ایک قسم کا وائرس ہے جس کو چین اپنے لیب میں بنارہاتھا تاکہ بوقت جنگ استعمال کرکے سوپرپاور بننےکا خواب پوراکرے۔

کروناوائرس کی علامتیں

ماہرین صحت کے مطابق بخار، کھانسی، سردی، سردرد، سانس لینے میں دُشواری کرونا وائرس کی ابتدائی علامات ہیں۔یہ  بیماری بظاہر بخار سے شروع ہوتا ہے جس کے بعد خشک کھانسی آتی ہےاورایک ہفتہ بعد سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے ؛ لیکن ضروری نہیں کہ ایسی تمام علامات رکھنے والا مریض کرونا وائرس کا ہی شکار ہو۔اگر بیماری شدت اختیار کر جائے تو مریض کو نمونیہ ہو سکتا ہے۔ اور نمونیہ بڑھ جائے تو مریض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ماہرین صحت کے مطابق انفیکشن سے لے کر علامات ظاہر ہونے تک 14 روز لگ سکتے ہیں۔ لہذٰا ایسے مریضوں میں وائرس کی تصدیق کے لیے اُنہیں الگ تھلگ رکھتے ہوئے فورا علاج ومعالجہ کی جانب رجوع کرنی چاہیے۔

یہ وائرس ایسے پھیلتا ہے

صحت مند شخص جب کرونا وائرس کے مریض سے ہاتھ ملاتے ہیں یا گلے ملتے ہیں تو یہ وائرس ہاتھ اور سانس کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے،ڈاکروں کا کہنا ہے کہ یہ وائرس انتہائی سرعت کے ساتھ ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو جاتا ہے۔

کرونا وائرس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

ماہرین صحت کے مطابق باقاعدگی سے ہاتھ دھونا، ماسک کا استعمال، کھانسی اور چھینک کے وقت ٹشو پیپر یا رومال کا استعمال کرنے سے انسان کو محفوظ رہ سکتاہے۔اپنے گھر اور کچن کی مکمل صفائی کا خیال رکھا جائے، ایسے جگہوں پر نہ جائے جہاں بھیر بھار ہوں ۔

احتیاطی تدبیریں

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ترجمان وسکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ شمع فروزاں میں فرماتے ہیں:بحیثیت مسلمان ہمارا یقین ہے کہ بیماری اور صحت کا اصل فیصلہ کائنات کے خالق ومالک کے دربار سے ہوتا ہے؛ اس لئے ہمیں اس موقع پر اللہ تعالیٰ سے رجوع کرنا چاہئے، اور زیادہ سے زیادہ دعاء کا اہتمام ہونا چاہئے، آج کل اس سلسلہ میں مختلف حضرات کی طرف سے خواب بھی بیان کئے جاتے ہیں، اور بعض خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے ذکر کئے جاتے ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ خواب بے حقیقت ہوتے ہیں؛ لیکن یہ ضرور ہے کہ انبیاء کے سوا کسی کا خواب حجت شرعی نہیںہے، اور ایسے مصائب میں کن آیات کی تلاوت کا اور دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہئے؟ اس کا ذکر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں موجود ہے، تو جس مسئلہ کا حل دلیل شرعی میں موجود ہو، اس میں ایسی چیز کی طرف توجہ دینا جو دلیل شرعی نہیں ہے، سمجھ میں نہیں آتا، مصیبتوں سے نجات کے لئے متعدد دعائیں منقول ہیں، ان میں سے چند مختصر دعائیں یہاں نقل کی جاتی ہیں۔

کرونا وائرس کیلئے نبوی دعائیں

۱۔ استغفار کا اہتمام: ایسے مواقع پر زیادہ سے زیادہ استغفار کا اہتمام کرنا چاہئے؛ کیوں کہ وبائی بیماریاں بعض دفعہ گناہوں کی کثرت اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی بناء پر بطور عذاب کے ہوتی ہیں، اور اس کا تدارک پورے اہتمام کے ساتھ استغفار یعنی اپنے گناہوں کی معافی مانگنا ہے؛ اس لئے ہر شخص کو چاہئے کہ خوب الحاح کے ساتھ اپنے گناہوں کو یاد کر کے اللہ کے دربار میں ہاتھ پھیلائے، اور رب کریم سے اپنی خطاؤں کی معافی مانگے، استغفار میں وہ تمام کلمات اور دعائیں شامل ہیں،جن میں گناہوں پر معافی مانگنے کا مضمون آیا ہو، جیسے ایک مختصر دعاء ہے، رب اغفرلی وارحمنی (اے میرے پروردگار! مجھے معاف کر دیجئے، اور مجھ پر مہربانی فرمائیے۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 894)
۲۔ «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، (اے اللہ! میں آپ سے دنیا وآخرت میں عافیت کا طلب گا ہوں)ابوداؤد، باب مایقول اذااصبح۔
۳۔ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي، (اے اللہ! میں آپ سے اپنے دین ،دنیا ، اہل وعیال اور مال واسباب کے سلسلہ میں معافی وعافیت طلب کرتا ہوں)ابوداؤد، باب مایقول اذااصبح۔
۴۔«اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ البَرَصِ، وَالْجُنُونِ، وَالْجُذَامِ، وَمِنْ سَيِّئِ الْأَسْقَامِ»(اے اللہ! میں داغ کی بیماری، جنون، کوڑھ اور دوسری خراب تکلیف دہ بیماریوں سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: 1554)
۵۔  بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ، فِي الْأَرْضِ، وَلَا فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ، (اللہ کے نام سے، جس کے نام کی برکت سے نہ زمین کی کوئی چیز نقصان پہنچا سکتی ہے اور نہ آسمان کی، اور اللہ خوب سننے والے اور جاننے والے ہیں)ابوداؤد،باب مایقول اذا اصبح ، ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص صبح میں اسے پڑھے گا، رات تک مصیبت سے محفوظ رہے گا، اور جو شام میں پڑھے گا، وہ صبح تک محفوظ رہے گا۔
۶۔ حَسبنَا الله وَنعم الْوَكِيل کا کثرت سے ورد۔
۷۔لَا إِلَه إِلَّا أَنْت سُبْحَانَكَ إِنِّي كنت من الظَّالِمين، کثرت سے پڑھنا ؛ کیوں کہ حضرت یونس علیہ السلام کو جب مچھلی نے نگل لیا تھا ، اس موقع پر آپ نے یہ دعاء پڑھی تھی۔
۸۔ صبح وشام آیت الکرسی کی تلاوت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آفات سے محفوظ رہنے کے لئے اس کی تلقین فرمائی ہے، اسے پڑھ کر بچوں میں دم کیا جائے۔
۹۔ صبح وشام سورۂ فاتحہ کی تلاوت؛ کیوںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سورۂ شفاء قرار دیا ہے۔
۱۰۔ صبح وشام سورۂ فلق وسورۂ ناس کی تلاوت کرنا اور ہاتھ پر دم کر کے پورے جسم پر دم کرنا اور بچوں پر بھی دم کرنا، اس کی بھی حدیث میں تلقین کی گئی ہے۔
جن دعاؤں کا ذکر آیا ہے، اگر ان کے الفاظ کو یاد کرنا دشوار ہو تو اپنی زبان میں اس کا مفہوم ادا کر دینا بھی کافی ہے۔
۱۱۔ ان اوراد واذکار کے ساتھ ساتھ کسی بھی ضرورت کے لئے ایک نفل نماز رکھی گئی ہے، جس کو نماز حاجت کہتے ہیں، حدیث میں اس کا ذکر موجود ہے، اور اس پر ہمیشہ سے سلف صالحین کا عمل رہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ مصائب سے نجات کا بہت ہی مجرب عمل ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اچھی طرح وضوء کریں اور جو ضرورت درپیش ہو، اس کو ذہن میں رکھ کر دو رکعت نماز پڑھیں، اور نماز سے فارغ ہونے بعد خوب اہتمام سے اس مقصد کے لئے دعاء کریں، اس کا اشارہ قرآن مجید میں بھی موجود ہے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے صبرونماز کو اللہ کی مدد حاصل ہونے کا ذریعہ بتایا ہے: یاایھا الذین آمنوا استعینوا بالصبر والصلاۃ—-البتہ یہ انفرادی نماز ہے اور اس کا طریقہ وہی ہے جو دوسری نمازوں کا ہے، اس کو جماعت کے ساتھ پڑھنا درست نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ پوری انسانیت کو زمینی وآسمانی مصبتوں اور بلاؤں سے حفاظت فرمائے ۔آمین۔