Thursday, April 4, 2019

سو شل میڈیا کے شرعی مسائل


سو شل میڈیا کے شرعی مسائل

سوشل میڈیاخواہ فیس بک ہو یا واٹس ایپ یاٹوئیٹر وغیرہ ان میں سے ہر ایک کا حکم ایک ہی جیسا ہے یعنی جو کام کسی ایک سوشل میڈیا پر حرام ہوگا وہ کام دوسرے سوشل میڈ پر بھی حرام ہوگا اور جو کام کسی ایک پر جائز ہو گا وہ تمام سوشل میڈ یا پر جائز ہو گا؛اس لئے ہر ایک سوشل میڈ یاکے متعلق الگ الگ عنوان کے تحت مسائل ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک ہی عنوان کے تحت تمام مسائل ذکر کیا جارہا ہے تاکہ کتاب میں اختصار کا دامن فوت نہ ہو جائے۔
سوال: سوشل میڈ یا پر اپنا اکاؤنٹ یا ویزر بنا ناکیسا ہے؟
جواب: تمام سوشل میڈیا میں اپنا اکاؤنٹ بنانا جائز ہے،تاہم الامور بمقاصدھا کے تحت ضرورت کی وجہ سے اور مباح مقاصد کے پیش نظر اپنا اکاؤنٹ بنانے میں کو ئی مضائقہ نہیں ہے،محض لہو ولعب اور ٹائم پاس کے لئے کسی بھی سوشل میڈیا پراکاؤنٹ بنانا جائز نہیں ہو گا خواہ فیس بک پر بنائے یا واٹس ایپ وغیرہ پر۔
آپ ﷺ نے فرمایا:کل شی یلھوبہ الرجل باطل الا الرمی وتادبہ فرسہ وملاعبتہ اھلہ فانھن من الحق۔ (ترمذی باب ماجاء فی فضل الرمی فی سبیل اللّہ)
ہدایہ میں ہے :الملاھی کلھا حرام (ہدایہ آخرین /493)ہر قسم کا لہوو لعب حرام ہے،
فتاویٰ عالمگیری میں ہے :وکل لھو حرام بالاجماع (فتاویٰ عالمگیری5 /352) ہر قسم کا لہوولعب بالاجماع حرام ہے،
جب نگاہیں مسلم نوجوانوں پر پڑتی ہیں تو خیرہ ہو کر رہ جاتی ہے،کہ وہ فیس بک اور واٹس ایپ پر اس قدر منہمک رہتے ہیں کہ فرائض و واجبات کی بھی پرواہ نہیں کرتے،بلکہ بعض تو اسی پر عشقیہ و فحش چٹینگ کے ساتھ ساتھ فحش تصویریں اور بلو فلم وغیرہ کو بھی اپلوڈ کردیتے ہیں خودبھی گناہگار ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گناہگار کرتے ہیں، ایسے افراد کے لئے فیس بک وغیرہ پر اپنااکاؤنٹ بنانا حرام وناجائز ہے۔

(ایک اہم گزارش)

ہم اپنے تما م مسلمان بھا ئیوں سے گزارش کرتے ہیں، کہ وہ اپنے تما م اکاؤنٹس کو ہمیشہ پاک وصاف رکھیں،کہ مو ت کا کو ئی بھروسہ نہیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے اکاؤنٹس یا سوشل میڈ یا پر فحش چیز یں ہو ں اور وہ سب ڈاٹاہم چھوڑ کر اچانک اس دار فانی سے چلے جائیں،اور ظاہر سی بات ہے کہ تمام ویب سائٹس اور سوشل میڈیا کا یوزر آئی ڈی اور پاس ورڈ ہوتا ہے جس کے بغیر نہ تو ان ویب سائٹس سے فحش چیزوں کو ختم کیا جا سکتا ہے اورنہ انکو بند کیا جا سکتا ہے اور اس یوزر آئی ڈی اور پاس ورڈ کو مرنے والا اپنے ساتھ لیکر چلے جانے کی وجہ سے اب اس کے ویب سائٹس کو نہ توکوئی بندکر سکتا ہے اور نہ پا کیزہ کر سکتا ہے، اس طرح مرنے والا تو مر گیا لیکن اسکو گناہ ملتا رہے گا۔
اگر کوئی شخص وفات پاجائے اور کوئی دوسرا اس کے اکاؤنٹ کو کھولنا چاہے تو یاد رکھیں اکاؤنٹ کھولنابغیر پاس ورڈ کے ممکن نہیں ہے، نیز اگر کسی کو مرنے والے کے اکاؤنٹ کا پاس ورڈ معلوم ہوجائے؛تو وہ کھو ل سکتا ہے؛لیکن یہ جرم اور غیر قانونی حرکت ہے۔اس طرح سوشل میڈیا کمپنیاں بھی کسی دوسرے کومرنے والے کے اکاؤنٹ تک رسائی کی اجازت نہیں دیتیں۔
ایک تحقیق کے مطا بق ۰۱سال بعد فیس بک پر 3کروڑ ایسے اکاؤنٹس ہو جائیں گے، جن کے مالکان اس جہاں فانی سے تو رخصت ہوجائیں گے مگروہ سوشل میڈیا پر مر نے کے بعد بھی کسی نہ کسی حوالے سے موجود ہوں گے۔ایک رپورٹ کے مطابق فیس بک کے 8000 صارفین ہر روز اپنے فیس بک فرینڈز کو روتا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔اس صدی کے آخر تک فیس بک دنیا کا سب سے بڑا ڈیجیٹل قبرستان بن جائے گا۔ اس کے مردہ صارفین کی تعداد اس کے زندہ صارفین سے زیادہ ہوجائیگی۔
اس لئے بڑے ہی اہتمام کے ساتھ ہم اپنے تمام مسلمان بھا ئیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ہر لمحہ اپنے ا کاؤنٹس اور سوشل میڈ یا کو پاک وصاف رکھیں۔
سوال: یوٹیوب جوکہ ایک خالص ویڈیو شیئرنگ کی ویب سائیٹ ہے،کیا اس پر اپنا اکاؤنٹ بنا نادرست ہے؟
جواب: یوٹیوب سائیٹ پر اپنا یوٹیوب چائینل بنانا عام حالت میں درست نہیں ہوگا؛ کیونکہ اس ویب سائٹ سے صرف ویڈیو فلم ہی اپلوڈ کر سکتے ہیں اور ویڈیو فلم کے سلسلے میں محققین علماء کرام کا فتویٰ ناجائز کا ہے،اس لئے عام حالت میں اسکی اجازت نہیں ہو گی،ہاں اگرغیر جاندارکی تصویرسے بنائی گئی شرعی ویڈ یو ہوں تو اس کو شیئرکر نے کیلئے یوٹیوب پر اکاؤنٹ بنانادرست ہو گا؛لیکن بعدمیں آدمی تساہل سے کام لیتے ہوئے ہر طرح کی ویڈیو کو اپلوڈ کر نے لگتا ہے اس لئے سداً للباب کے طور پربہتر یہی ہوگا کہ یوٹیوب چائینل بنا یا ہی نہ جا ئے۔
سوال:خالص دینی ودعوتی ویڈیو شیئرنگ کیلئے یوٹیوب چینل یا ٹیلی ویژن چینل قائم کرنا درست ہے؟
جواب:ایسے چینلس جوہر طرح کی فحاشی وعریانی سے پاک وصاف ہوں اور جس کو خالص دینی ودعوتی مقاصد کیلئے قائم کئے جائیں،اسکے جواز اور عدم جواز میں بھی محققین علماء کرام کا اختلاف ہے،چنانچہ اس عنوان کے تحت بارہواں فقہی سمینار (بستی)بتاریخ 8،5ذی القعدہ 1420 ؁ھ مطابق 14،11 فروری 2000ء ہوا تھا جس میں علماء محققین ومفتیان عظام کے تین قسم کے اقوال سامنے آئے (۱) کہ مذکورہ مقاصد وشرائط کے پیش نظر ایسے چینلس کاقائم کرنا جائز ہے، (۲) مذکورہ مقاصد کے پیش نظر بھی ایسے چینلس کاقیام درست نہیں ہے،(۳)مذکورہ مقاصد وشرائط کے ساتھ اگر ان چینلس پر پروگرام کو براہ راست نشر(Live) کئے جائیں تو جائز ہوگا اور اگر محفوظ کیا ہوا پروگرام (Recording Programs)نشر کیا جائے تو جائز نہیں ہوگا،
حالات کے پیش نظر دین کی نشر واشاعت بھی بہت ضروری ہے،اور دین کی نشر واشاعت کے لئے جدید ذرائع ابلاغ بہت ہی مؤثر ثابت ہورہی ہے؛ لیکن ویڈیو گرافی وفوٹوگرافی کی حرمت پر جو احادیث منقول ہیں وہ بقول حضرت مفتی اعظم شفیع صاحب ؒ کے وہ حد تواتر تک پہونچی ہوئی ہے؛ اس لئے دین کی نشر واشاعت کے لئے کو ایسا قدم اٹھا لینا جس کی حرمت پر متوتراً احادیث منقول ہوں اسکی کبھی بھی اجازت نہیں مل سکتی ہے،گویا یہاں دوچیزیں جمع ہو گئیں (۱) دین کی نشر واشاعت(۲) ویڈیوگرافی کی حرمت،اب اگر ہم شرکاء سمینار میں سے پہلاقول پر عمل کرتے ہیں تو دین کی نشر واشاعت ایک حد تک تو ہو جائیگی لیکن ویڈیو گرافی کی حرمت والی احادیث پر بالکل عمل نہیں ہو گا اور ممکن ہے کہ ان احادیث متواترہ کی بے محل اور نامناسب تاویلیں کرنی پڑجائیں،
اور اگر ہم شرکائِ سمینار میں سے دوسرے کے قول پر عمل کرتے ہیں تو اس صورت میں ویڈیو گرافی کی حرمت والی احادیث پر عمل تو ہوجائے گا؛لیکن دین کی نشر واشاعت جو کہ وقت کی ایک اہم ترین ضرورت ہے وہ صحیح معنی میں نہیں ہوپائیگی، اس وقت باطل نے ویڈیو چینلس کے ذریعہ مسلمانون کو بد نام اور اسلام کو مسخ کرنے کی پوری کوشش ہی نہیں بلکہ اپنے حکومتوں کی سر پرستی میں مال ودولت کو پانی کی طرح بہاہی رہا ہے ساتھ ہی ساتھ اپنے بہو بیٹیوں کو بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بازاری بنادیا، اس سنگین دور میں اس عاجز کی رائے یہ ہے کہ شرکاء سمینار میں سے تیسرے کے قول پر عمل کرتے ہوئے ایسے اسلامک چینلس ضرور قائم کئے جائیں جہاں سے (Live)پروگرام کے ذریعہ صحیح اسلام اور مسلمانو کی ترجمانی ہو سکے اورباطل کے یلغاروں کا جواب دیا جاسکے،تیسرے قول پر عمل کی صورت میں دین کی نشرواشاعت تو ہوگی ہی ساتھ ہی یہ عمل احادیث متواترہ کے خلاف بھی نہیں ہوگی کیوں کہ براہ راست پروگرام کی نشر(Live)پر ویڈیو گرافی کا اطلاق نہیں ہو سکتا ہے،کیونکہ کہ (Live) پروگرام محفوظ نہیں کیا جا تا ہے، فقط لائیو تصویر ایک جانب سے دوسرے جانب منتقل کی جاتی ہے مستقل اس کو ویڈیو کی طرح محفوظ نہیں کیا جاتا ہے گو یا وہ ایک عکس ہے مثل آئینہ کے لہذایہ جائز ہو گا، اور اس پر ویڈیو گرافی کا اطلاق نہیں ہو سکتا ہے (مرتب)
الحمد للہ اپنی اس تحریر کو سپرد قرطاس کے بعداچانک میری نگاہ تقریر ترمذی (شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہم العالی)پرپڑی،معلوم ہوا کہ حضرت والا کی بھی یہی موقف ہے کہ جو پروگرام براہ راست نشر (Live)کئے جائیں وہ ویڈیوگرافی کے تحت نہیں آتاہے۔(تقریر ترمذی 2 /351، باب ماجاء فی الصورۃ۔ دیکھیں اختلاف فقہاء کی تفصیل تجاویزآٹھواں فقہی اجتماع ادارۃ المباحث الفقہیہ جمیعۃ العلماء ہند منعقدہ19،18،17،ربیع الاول 1426 ؁ھ، اور بارہواں فقہی سمینار (بستی)بتاریخ8،5،ذی القعدہ 1420 ؁ھ مطابق 14،11 فروری 2000ء ؁) 
ہاں اگر اس پروگرام کو بھی محفوظ کر کے نشر کیا جانے لگے تو اس پر ویڈیو گرافی کا اطلاق ہو نے کی وجہ سے ناجائز ہو گا، (مرتب)
اسی سے ملتے کچھ اہم مضامین

Wednesday, March 27, 2019

مسائل

شریعت وسنت کی نشر واشاعت کے لئے کوشاں میں مفتی محمدعبد اللہ عزرائیل قاسمی مدہوبنی


مسائل وضو

Monday, March 25, 2019

haqooq ul allah w haqooq ibad



شریعت وسنت کی نشر واشاعت کے لئے کوشاں میں مفتی مد کعبد اللہ عزرائیل قاسمی مدہوبنی