Monday, September 17, 2018

انٹر نیٹ پر کیا جائز ہے اور کیا ناجائز



بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا انٹر نیٹ استعمال کر نا جائز ہے؟

جواب: اس مسئلہ کا مداراس کے استعمال کرنے والے پر ہے، اگر اس کو جائز کاموں میں استعما ل کیا گیا تو جائز ہے ورنہ حرام،چناچہ فقہ کا قاعدہ ہے، ’’الاموربمقاصدھا‘‘ (الاشباہ والنظائر /۳۲ بیروت)
سوال: کیا انٹر نیٹ پیک ریچارج کرنا دوکاندار کے لئے جائز ہے؟
جواب: انٹر نیٹ کا جہاں غلط استعمال ہے وہیں پر اسکے استعمال کے مباح طریقے بھی ہیں؛اس لئے دوکاندار کا گراہک کیلئے انٹر نیٹ پیک مارنا درست ہوگا اگر کوئی اس کا غلط استعمال کرتا ہے، تو اس کا گناہ خود استعما ل کر نے والے پرہوگا۔
’’وعُلم من ھذا انہ لا یکرہ بیع مالم تقم المعصیۃ بہ کبیع الجاریۃ المغنیّۃ‘‘ (شامی ۶ /۱۹۳)
سوال: دوسرے کا انٹرنیٹ وائی فائی (Wi۔Fi)کے ذریعہ استعمال کر نا کیسا ہے؟
جواب:آج امت کا حال یہ ہو چکا ہے، کہ وہ چوری کو صرف محدود چیزوں میں ہی حرام سمجھ رہی ہے،غالباً جو چیزیں نظروں میں آتی ہوں اس کی چوری کوچوری تو سمجھا جا رہا ہے، لیکن جو چیز یں نظروں میں نہ آتی ہوں اس کی چوری کو چوری نہیں سمجھاجا رہا ہے،انہیں میں سے وائی فائی (Wi۔Fi)کنکشن کی چوری ہے،یاد رکھیں جس طرح دیگر اشیاء کی چوری حرام وناجائز ہے، اسی طرح وائی فائی کنکشن کی چوری بھی حرام وناجائز ہے، ہاں جس کا وائی فائی(Wi۔Fi) استعمال کر رہاہو اسکی جانب سے اجازت ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔ 
سوال: انٹر نیٹ کیفے چلانا کیسا ہے؟ یعنی انٹر نیٹ سینٹر جس میں معاوضہ دیکر انٹرنیٹ کا استعمال کرتاہواور استعمال کرنے والا بالکل آزاد ہو، کچھ بھی دیکھ سکتا ہو اور کچھ بھی لوڈ کر سکتا ہو،چاہے دینی بیانات یا پھر گانا،فلم وغیرہ ......
جواب: انٹر نیٹ کیفے میں اگر اس کا التزام کیا جائے کہ صارفین اس کا غلط استعمال نہ کر سکیں تو اس کارو بار کے جواز کی گنجائش نکل سکتی ہے؛ لیکن صارفین کو کھلی آزادی ہو کہ وہ کوئی بھی پروگرام دیکھیں یا استعمال کریں جیسا کہ عام معمول ہے، تو گناہ پر تعاون کی وجہ سے کاروبار مکروہ ضرور ہو گا،اس سے احتراز کرنا چاہیے۔(کتاب النوازل ۷۱/۶۰۱)
حضرت مولانا ومفتی تقی عثمانی صاحب مد ظلہ العالی فرماتے ہیں ’’اگر حکومت کی طرف سے غیر اخلاق مواد بند کردیا گیا ہے تو اس قسم کی انٹر نیٹ سروس مہیا کرنا اور اس پر فیس وصول کرنا جائز ہے۔ (فتاویٰ عثمانی ۳/ ۳۰۴)
سوال: انٹر نیٹ ٹیلی فون سروس سے فون کرنا کیسا ہے؟
جواب: انٹر نیٹ کے ذریعہ دوسروں سے بات کرناجائز ہے۔
سوال: کیا انٹر نیٹ ٹیلی فون سروس سے ویڈیو کا ل کر سکتے ہیں؟
جواب: ویڈیو کال کرنے میں کو ئی مضائقہ نہیں ہے؛کیونکہ ویڈ یو کال میں ویڈیو گرافی اور ریکاڑڈنگ عموماً نہیں پائی جاتی ہے فقط لائیو (Live)تصویر ایک جانب سے دوسرے جانب منتقل کی جاتی ہے؛اس لئے ویڈیو کال کرنا جائز ہے۔ (انظر حاشیہ کتاب الفتاوی ۶ /۰۷۱) 
سوال: کیا انٹر نیٹ ٹیلی فون سروس کے ذریعہ ویڈیو کا ل کرکے کسی اجنبی عورت سے بات کرنا جائز ہے؟
جواب: اجنبی عورت (غیر محرم)سے ویڈیو کا ل کرکے بات کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ویڈیو کال میں مکمل نقل وحرکت کے ساتھ ایک دوسرے کی تصویر نظر آتی ہے،اور غیر محرم کا دیکھنا حرام ہے(النور /۱۳) اس لئے کسی غیر محرم عورت سے بوقت ضرورت شدیدہ بات کرنا ہی پڑ جائے توویڈیو کال کرنے کے بجائے آڈیو کال کرکے مختصر جچے تلے لہجہ میں بات کرلے۔ ولا یکلم الاجنبیۃ الا عجوزاً(الدر المختار مع الشامی ۹/۰۳۵وامدادالفتاویٰ ۴/۷۹۱)
سوال: انٹر نیٹ چیٹ (chatting)کیا ہو تا ہے؟
جواب:انٹرنیٹ پر بہت سی ایسی سائٹس ہیں جہاں اجنبی اشخاص ایک دوسرے کو پیغامات بھیج کر فوراً جواب حاصل کر سکتے ہیں،اِسی کو چیٹ روم کہا جاتا ہے۔اور ایک دوسرے کا آپس میں اس طرح smsکے ذریعہ گفتگو کرنے کو چیٹنگ (chatting) کہتے ہیں،اس طرح کا کام سوشل میڈیا سے بھی لیا جا تا ہے۔ 
سوال: انٹر نیٹ چیٹنگ (chatting)کرنا کیسا ہے؟
جواب: انٹر نیٹ چیٹیگ(chatting) پر خط وکتابت اور تبادلہ معلومات کا کام لیا جائے تو درست ہو گا۔
سوال: ٹائم پاس یا غیرمحرم سے دل لگی کیلئے چیٹنگ (chatting) کرنا کیسا ہے؟
جواب:محض اس پر ٹائم پاس کرنا یا کسی لڑکی وغیرہ سے فحش اور عشقیہ چیٹنگ کرنا حرام وناجائز ہوگا۔قال رسول اللّہ ﷺ من حسن اسلام المرأ ترک مالا یعنیہ (شعب الایمان) و فی الشامی وکرہ کل لھو ای کل لعب وعبث الاخ (شامی ۹/۶۶۵)
سعودی عرب کے ایک ممتاز عالم دین اور علماء کونسل کے سین یئر ’’رکن الشیخ عبداللہ المطلق‘‘ کا ایک نیا فتویٰ نیٹ پرسامنے آیا ہے جس میں انہوں نے غیر محرم عورت ومرد کی انٹرنیٹ چیٹ کو خلوت صحیحہ سے تعبیر کرتے ہوئے حرام قرار دیا ہے۔
سوشل میڈیا شیطانی افکار و خیالات کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ مسلمان نوجوانوں کو اس کے استعمال میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔سعودی عرب سے شائع ہونے والے تقریبا تمام ہی اخبارات نے الشیخ المطلق کے فتوے کو جلی سرخیوں کے ساتھ اشاعت میں جگہ دی ہے۔
الشیخ المطلق مزید فرماتے ہیں کہ کسی نامحرم مرد کا نامحرم خاتون کے ساتھ تنہائی میں مُکالمہ 'غیر شرعی' ہے۔ سماجی میڈیا کے ذریعے نامحرم مرد و زن کے مابین چیٹنگ کے دوران شیطان انہیں گمراہ کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ کسی غلط کام میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض اوقات مرد و زن چیٹنگ کے دوران غیر محرموں سے ایسی باتیں بھی کہہ بیٹھتے ہیں جنہیں وہ خودجانتا ہے۔ خاص طور پر خواتین کے ساتھ چیٹنگ کے دوران شیطان مردوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ میں خاص طور پر خواتین کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اجنبی اور نامحرم مردوں کے ساتھ انٹرنیٹ پر کسی بھی قسم کی بات چیت سے سختی سے گریز کریں۔
سوال: کیا منگیتر سے بذریعہ نیٹ کالنگ یا چیٹنگ کرنا درست ہے؟
جواب: جس لڑکا یا لڑکی سے منگنی ہوئی ہو وہ بھی اجنبی مرد و عورت کے حکم میں ہے،یعنی صرف منگنی ہو نے سے وہ لڑ کا یا لڑکی بیوی اور شوہر کے حکم میں نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ بھی آپس میں ایک اجنبی مرد وعورت کی طرح ہے اور اجنبی مرد وعورت سے بات کرنے کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
 ’’یَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء إِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِہِ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفاً‘‘(الأحزاب: 32) 
اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں جیسی نہیں ہو، اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو،(اگر بغرض ضرورت غیر محرم مردسے بات کرنا پڑے)تو پرکشش لہجہ میں گفتگو نہ کرو،ورنہ جسکے دل میں مرض ہے وہ طمع لگا بیٹھے گا، اور معروف بات کہو۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غیر محرموں سے گفتگو کرنے کے لیے دوشرطیں ذکر کی ہیں:۔ ۱۔ لہجہ پرکشش نہ ہو۔ ۲۔ معروف بات ہو۔ یعنی اجنبی مرد وعورت سے گفتگوکرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ گفتگو معروف یعنی اچھائی،بھلائی،نیکی،ضروری اور پاکیزہ گفتگوہو نیز گفتگو بھی ایسے لہجے میں کیا جائے کہ جس سے کسی قسم کا توقع نہ ہو سکے،ظاہر سی بات ہے کہ منگیتر سے گفتگو کرنا نہ تو ضروری ہوتا ہے اورنہ پاکیزہ بلکہ عین ممکن ہے کہ کہیں بات اور چیٹنگ کرتے کرتے شادی سے پہلے ہی غلط تعلقات قائم نہ ہو جائیں، اس لئے منگیتر یا غیر منگیتر کسی سے بھی چیٹنگ یاگفتگو بلاضرورت شدیدہ جائزنہیں ہے،اس امت کی سب سے پاکیزہ خواتین ازواج مطہرات ہیں، انکو بھی غیر محرم مردوں سے انہی اصولوں کو مدنظر رکھ کر گفتگو کرنے کا قرآن نے (مذکورہ بالا آیت میں)حکم دیاہے،اس لئے تمام مرد وعورت کیلئے یہی حکم ہو گا کہ وہ بلاوجہ،غیر شرعی، غیر ضروری نہ تو کسی غیر محرم سے گفتگو کر سکتے ہیں اور نہ چیٹنگ کر سکتے ہیں۔

کچھ نئے مضامین

Thursday, September 13, 2018

انٹر نیٹ کے فائدے اور نقصان

انٹر نیٹ کے فائدے اور نقصان از مفتی محمد عبد اللہ عزرائیل قاسمی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

(انٹر نیٹ کے فائدے)

      انٹرنیٹ کی اہمیت و افادیت سے آج کے دور میں انکار نہیں کیا جا سکتا ہے، اگرچہ ہم نے مذہب اور سائنس کو الگ الگ کر دیا ہے جب کہ ایک زمانہ تھا کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں کسی قوم سے کم نہیں تھے بلکہ بعض خشک مزاج دیندار تو اس کو دین سے بالکل الگ سمجھتے ہیں جبکہ دینی علوم تو دین ہے ہی،اگر دنیوی علوم بھی حسن نیت سے حاصل کیا جائے تو دین بن جاتا ہے اور نیت کا فساد تو ایسا سم قاتل ہے کہ تحصیلِ علوم دینیہ کو بھی باعث ذلت وخوار بنادیتی ہے چہ جائے کہ علوم دنیویہ............. علامہ اقبال کا مشہورشعر اس موقعہ پر یا د آرہا ہے :
’’اللہ سے کرے دور؛ تو تعلیم بھی فتنہ‘‘ 
’’املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ‘‘
’’ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ‘‘
’’شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ‘‘
اس لئے ہر ایجاد کو یک لخت حرام وناجائز کہہ دینا امت کو تنگی میں ڈالنے کے مترادف ہے،نیزاسی طرح ہر ایجادات کو آنکھ بند کر کے اپنا لینا بھی احتیاط کے خلاف ہے؛ اس لئے ہر ایجادات کے متعلق قرآن وسنت کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے،تاکہ جہاں تک گنجائش اور اجازت ہو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں،آئیے اٹر نیٹ کے فوائد پر تھوڑی سی روشنی ڈالیں۔
انٹرنیٹ کی ایجادات نے ذرائع ابلاغ کے میدان میں بہت آسانی پیدا کر دی ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعہ ہم اپنے دوست واحباب کی بر وقت خبر گیری، والدین سے آڈیو،ویڈیو باتیں،خط وکتابت بذریعہ ای میل، ای کا مرس، ای بزنس،آن لائن تعلیم وتعلم،فاصلاتی تعلیم،آن لائن اکزامس، یونیورسٹی، کمپنی کی تمام اشیاء کی معلومات، اخبار و رسائل،فلاحی وزرعی تنظیمیں،سیاسی پارٹیوں کی جانکاری، بینکنگ، ہر قسم کے بلوں کی ادائیگی، طبی و سائنسی معلومات، کے ساتھ ساتھ قراء عظام کی دل کش آواز میں قرآن کریم کی تلاوت،دینی بیانات، شعراء کرام کی دلکش نعتیں بشکل آڈیو ویڈیو، ہر عنوان پرہر زبان میں اسلامک کتابیں، غرض تمام شرعی ودینی احکام و مسائل اور قرآن و حدیث کو سمعی و بصری شکل میں حاصل کر سکتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ کی متنازعہ فلم’انوسنس آف مسلم‘ انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی لوگوں تک پہنچ سکی اور اسی طرح مشرقی وسطی میں تیونس،مصر،لیبیا میں مطلق العنان حکومتوں کے خلاف جو انقلاب آیا اس میں انٹرنیٹ کا اہم رول رہا ہے۔ اس سے سرحدی فاصلے ختم ہو گئے اور بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ پوری دنیا ایک انسان کی مٹھی میں آگئی ہے۔اگر انٹر نیٹ کا استعمال بہتر مقاصد اور تعمیری کاموں کے لیے ہو،معلومات میں اضافے کے لیے ہو، تعلیم و تعلم میں ہو تو یہ جائز ہے کیونکہ ایسے کاموں کا قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے، 
’’وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْویٰ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ‘‘(سورۃالمائدہ: ۲) اور آپس میں (ایک دوسرے کو)نیک کام اور پرہیزگاری پر مدد کرواور مدد نہ کرو (ایک دوسرے کو)گناہ اور ظلم پر،
غرض آج انٹرنیٹ پر دینی ودنیوی تقریبا سارے معلومات ہیں،جس کوہر انسان آسانی سے حاصل کرسکتا ہے۔

(انٹر نیٹ کے نقصانات)

      انٹرنیٹ جہاں اچھاہے وہیں وہ برا بھی ہے بلکہ اسکی برائی اورخرابی اچھائیوں پر غالب ہے، قرآن کی آیت اِثمُھُمَا اَکْبَرُمِنْ نَّفِعِھِمَا(البقرۃ /۹۱۲) اس پر صادق آتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کچھ علماء کرام نے ابتداء میں اسکو استعمال کرنے سے منع کیا تھا، انٹرنیٹ کی خاص برائیوں میں فحش گانے،بلو فلمیں،بے حیائی کے مناظر،اشتہارات کے نام پر بے پر دگی، عریانیت،بت پرستانہ و مشرکانہ رسوم،خریدوفروخت میں غبن ودھوکادہی، اور فحش پیغامات و فحش مواد دوسروں کوبھیجناوغیرہ ہے۔
یہی انٹر نیٹ کا منفی پہلو ہے جس کے ذریعے اسلام مخالف قوتیں ہماری تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے کے درپے ہیں جس کو دوسرے لفظوں میں یہود کا ’ذرائع ابلاغ کہا جا سکتا ہے۔ اور ان ذرائع ابلاغ (خاص کر ٹی وی،ڈش اور انٹرنیٹ) کو بدقسمتی سے ہم لوگ بنا کسی روک ٹوک کے اپناتے جا رہے ہیں،نہ حرام کی فکر ہے اورنہ حلال کی،جب بھی کوئی نئی چیز مارکٹ میںآتی ہے تو ہم حلال وحرام کی تمیز کئے بغیر اس کو اپنا لیتے ہیں،جس کے بارے میں سخت وعید ہے جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں’’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتِّخِذُھَا ھُزُوًا اُولٓءِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ‘‘ (سورۃلقمان:/۶)اوربعض انسان ایسا بھی ہے جو اللہ تعالی سے غافل کرنے والی باتیں خریدتا ہے تاکہ اللہ کی راہ حق سے بے سمجھے بوجھے (دوسروں کو) گمراہ کرے اور اس (راہ حق) کی ہنسی اڑائے،ایسے ہی لوگوں کے لیے(آخرت میں) ذلت کا عذاب ہے۔
اگر ہمارا یہی طرزعمل جاری رہا تو پھر ہم لوگوں کو تباہی و بربادی کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ کیونکہ ہاری ہوئی جنگ کو فتح میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، مگر تہذیب و ثقافت کی شکست پوری قوم کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔آج زیادہ تر انٹرنیٹ کا استعمال فحش و بے حیائی و اخلاقی بگاڑ کی طرف دعوت دینے، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور غلط معلومات کو پھیلانے میں ہو رہا ہے۔اگر بے حیائی و فحش فلموں اور ویڈیو کی بات کی جائے تو اس کا دیکھنا،سننا اور پسند کرنا بھی حرام ہے،خاص کر نوجوانوں کا طبقہ نیٹ پر بیٹھنے کے ساتھ ہی بلو فلم،گندی اور فحش تصاویر کودیکھنے اور سننے لگتا ہے، 
اس وقت جب کہ انٹرنیٹ ایک اہم و بنیادی ضرورت بن چکا ہے ہم کسی کو بھی اس کے استعمال سے روک نہیں سکتے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔کیونکہ ہمارے پاس اس کا کوئی دوسرا بدل نہیں ہے۔البتہ اس کے غلط استعمال کی برائی بتا بتا کر غلط استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کی جاسکتی ہے،بس اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انٹر نیٹ کو صرف جائز مقاصد میں استعمال کر نے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے تمام منفی طریقوں سے حفاظت فرمائے۔ آمین
(اخذ کلہا من ،، انٹرنیٹ اور اس کے مسائل:18تا 21۔)
مستفاد:
 ’’www.hamariweb.com‘‘ 

Saturday, September 8, 2018

انٹر نیٹ



بسم اللہ الرحمن الرحیم

(انٹر نیٹ کیا ہے؟)

انٹرنیٹ (Internet)در اصل باہم مربوط شمارندوں کا ایک عالمی جال (Computer Network) ہے جو کہ عوامی یا اجتماعی سطح پر ہر کسی کے لئے قابل دسترس و رسائی ہے شمارندوں کا یہ جال یا نظام جال بینی دستور (internet protocol)کااستعمال کرتے ہوئے رزمی بدیل(packet switchin) کے ذریعہ سے مواد (data) کو منتقل یا ارسال کرتا ہے۔ انٹرنیٹ اصل میں خود لاتعداد چھوٹے چھوٹے جالاتِ کار کا مجموعہ ہے جو کہ علاقائی سطح پر پائے جاتے ہیں اور اس طرح یہ تمام یکجا ہو کر مختلف معلومات اور خدمات فراہم کرتے ہیں مثلاً برقی خط وکتابت، گفتگو، چیٹنگ (chatting)، فائلوں کا تبادلہ و منتقلی، آپس میں مربوط ویب کے صفحات وغیرہ۔

(لفظ‘‘جالبین’’ کا انتخاب )


لفظ‘‘جالبین’’انگریزی لفظ Internet کے ہم معنی ہے. Internet اصل میں دو الفاظ International اور Network کی جوڑ و توڑ سے بنا ہے. International سے Inter اور Network سے Net کو ملانے سے Internet حاصل ہوتا ہے. اِسی طرح لفظ‘‘جالبین’’بھی دو اصطلاحات‘‘جالِ کار ’’اور‘‘بین الاقوامی’’کی جوڑ و توڑ سے بنا ہے. جالِ کار سے جال اور بین الاقوامی سے بین آپس میں ملانے سے لفظ‘‘جالبین’’بنایاگیاہے۔

(انٹر نیٹ کی ابتداء)

سویت یونین کے منصوبہ اسپاٹ نیک نے امریکہ کو 1958 میں دوبارہ طرزیاتی برتری حاصل کرنے کے لئے ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجین سی /ARPA (جو بعد میں ڈی فینس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجین سی کہلایا /DARPA) بنانے کی طرف راغب کیا۔ ARPA نے سیمی آٹومیٹک گراؤنڈ انوائرونمنٹ پروگرام کی تحقیق کے لئے ایک انفارمیشن پروسیسنگ ٹیکنالوجی آفس (IPTO) تخلیق کیا، جس نے پہلی بار ملک بھر میں پھیلے ہوئے ارسالوں کو ایک مشترک نظام میں مربوط کیا۔ J.C.R. Licklider کو IPTO کی راہنمائی کے لئے منتخب کیا گیا جس نے ایک عالمی نظام نیٹ ورکی (نیٹ ورکنگ) کی ضرورتکو محسوس کیا۔ لکلائڈر نے Laurence Roberts کو جالِکار (نیٹ ورک) کو عمل میں لانے کی ذمہ داری سونپ دی، روبرٹ نے Paul Baran کے کام سے استفادہ حاصل کیا جس نے نظام نیٹ ورک میں ترقی اور امکانات میں تیزی سے اضافہ کی خاطر circuit switching پر رزمی بدیل (packet switching) کو ترجیح دی تھی۔ خاصی تگ و دو کے بعد، 29 اکتوبر 1960 کو جامعہ کیلیفورنیا لاس انجلس (UCLA) سے براہ راست جاری ہوا جسکو ARPANET کہا گیا اور جو آج کے انٹرنیٹ یا انٹرنیٹ کی ابتداء کہا جاسکتا ہے۔
پہلا وسیع TCP/IP جالِکار (نیٹ ورک) 1 جنوری 1983 میں اپنا کام شروع کرچکاتھا جب امریکی قومی ادارہ برائے سائنس (NSF) نے ایک نیٹ ورکِ جامعہ (University Network) کا بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیا جو کہ بعد میں NSFNet بنا۔ اور یہ تاریخ اکثر انٹرنیٹ کی فنی تاریخِ پیدائش کہلائی جاتی ہے۔ اسکے بعد 1985ء میں انٹرنیٹ کو کاروباری مقاصد کے لئے کھول دیا گیا۔ اور پھر دیگر اہم جالاتِ کار مثلاً Usenet، Bitnet، X.25 اور JANET وغیرہ بھی USFNet میں ضم ہوگئے۔ Telenet (جو بعد میں Sprintnet کہلایا) وہ سب سے بڑا نجی سطح پر کام کرنے والا جالِ کار تھا جو کہ 1970 سے امریکہ کے شہروں میں سہولیات مہیا کررہا تھا یہ بھی TCP/IP کے مقبول ہونے کے بعد رفتہ رفتہ 1990 تک دوسروں کے ساتھ مدغم ہوگیا۔ TCP/IP کی پہلے سے موجود ابلاغی شراکتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوجانے کی صلاحیت نے ان تمام کاموں کو بہت تیز رفتاری سے آگے بڑھایا۔ اور یہی وہ وقت تھا جب ایک عالمی TCP/IP جالِ کار کو بیان کرنے کے لئے انٹرنیٹ (intirnet) کی اصطلاح مقبول ہوئی۔
ابتدائی مقبول ہونے والا ویب براؤزر، ViolaWWW تھا جو کہ ورق وراء (ہائپر کارڈ) پر انحصار کرتا تھا۔ اسکے بعد موزیک نامی ویب براؤزر آیا جسکا پہلا نسخہ 1.0، قومی مرکز برائے فوق شمارندی نفاذ (National Center for Supercomputing Applications) نے جامعہ الینوئی (UIUC) میں 1993 میں جاری کیا اور 1994ء کے اوآخر تک یہ عوام کی بے پناہ دلچسپی حاصل کرچکا تھا اور ایک دہائی کے اندر انٹرنیٹ کامیابی کے ساتھ گذشتہ پائے جانے والے تمام شمارندی جالاتِ کار (کمپیوٹرنیٹ ورکس) کو اپنے اندر سمو چکا تھا۔ امارہ عالم جالبین کے مطابق 30 جون 2006ء تک ایک ارب چار کروڑ سے زائد افراد انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کررہے تھے۔(ماخوذ مع اضافہ قلیلۃ و اختصار کثیرہ،آزاد دائرۃ المعارف نیٹ)