Thursday, September 13, 2018

انٹر نیٹ کے فائدے اور نقصان

انٹر نیٹ کے فائدے اور نقصان از مفتی محمد عبد اللہ عزرائیل قاسمی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

(انٹر نیٹ کے فائدے)

      انٹرنیٹ کی اہمیت و افادیت سے آج کے دور میں انکار نہیں کیا جا سکتا ہے، اگرچہ ہم نے مذہب اور سائنس کو الگ الگ کر دیا ہے جب کہ ایک زمانہ تھا کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں کسی قوم سے کم نہیں تھے بلکہ بعض خشک مزاج دیندار تو اس کو دین سے بالکل الگ سمجھتے ہیں جبکہ دینی علوم تو دین ہے ہی،اگر دنیوی علوم بھی حسن نیت سے حاصل کیا جائے تو دین بن جاتا ہے اور نیت کا فساد تو ایسا سم قاتل ہے کہ تحصیلِ علوم دینیہ کو بھی باعث ذلت وخوار بنادیتی ہے چہ جائے کہ علوم دنیویہ............. علامہ اقبال کا مشہورشعر اس موقعہ پر یا د آرہا ہے :
’’اللہ سے کرے دور؛ تو تعلیم بھی فتنہ‘‘ 
’’املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ‘‘
’’ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ‘‘
’’شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ‘‘
اس لئے ہر ایجاد کو یک لخت حرام وناجائز کہہ دینا امت کو تنگی میں ڈالنے کے مترادف ہے،نیزاسی طرح ہر ایجادات کو آنکھ بند کر کے اپنا لینا بھی احتیاط کے خلاف ہے؛ اس لئے ہر ایجادات کے متعلق قرآن وسنت کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے،تاکہ جہاں تک گنجائش اور اجازت ہو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں،آئیے اٹر نیٹ کے فوائد پر تھوڑی سی روشنی ڈالیں۔
انٹرنیٹ کی ایجادات نے ذرائع ابلاغ کے میدان میں بہت آسانی پیدا کر دی ہے۔انٹرنیٹ کے ذریعہ ہم اپنے دوست واحباب کی بر وقت خبر گیری، والدین سے آڈیو،ویڈیو باتیں،خط وکتابت بذریعہ ای میل، ای کا مرس، ای بزنس،آن لائن تعلیم وتعلم،فاصلاتی تعلیم،آن لائن اکزامس، یونیورسٹی، کمپنی کی تمام اشیاء کی معلومات، اخبار و رسائل،فلاحی وزرعی تنظیمیں،سیاسی پارٹیوں کی جانکاری، بینکنگ، ہر قسم کے بلوں کی ادائیگی، طبی و سائنسی معلومات، کے ساتھ ساتھ قراء عظام کی دل کش آواز میں قرآن کریم کی تلاوت،دینی بیانات، شعراء کرام کی دلکش نعتیں بشکل آڈیو ویڈیو، ہر عنوان پرہر زبان میں اسلامک کتابیں، غرض تمام شرعی ودینی احکام و مسائل اور قرآن و حدیث کو سمعی و بصری شکل میں حاصل کر سکتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ کی متنازعہ فلم’انوسنس آف مسلم‘ انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی لوگوں تک پہنچ سکی اور اسی طرح مشرقی وسطی میں تیونس،مصر،لیبیا میں مطلق العنان حکومتوں کے خلاف جو انقلاب آیا اس میں انٹرنیٹ کا اہم رول رہا ہے۔ اس سے سرحدی فاصلے ختم ہو گئے اور بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس کے ذریعہ پوری دنیا ایک انسان کی مٹھی میں آگئی ہے۔اگر انٹر نیٹ کا استعمال بہتر مقاصد اور تعمیری کاموں کے لیے ہو،معلومات میں اضافے کے لیے ہو، تعلیم و تعلم میں ہو تو یہ جائز ہے کیونکہ ایسے کاموں کا قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے، 
’’وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْویٰ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ‘‘(سورۃالمائدہ: ۲) اور آپس میں (ایک دوسرے کو)نیک کام اور پرہیزگاری پر مدد کرواور مدد نہ کرو (ایک دوسرے کو)گناہ اور ظلم پر،
غرض آج انٹرنیٹ پر دینی ودنیوی تقریبا سارے معلومات ہیں،جس کوہر انسان آسانی سے حاصل کرسکتا ہے۔

(انٹر نیٹ کے نقصانات)

      انٹرنیٹ جہاں اچھاہے وہیں وہ برا بھی ہے بلکہ اسکی برائی اورخرابی اچھائیوں پر غالب ہے، قرآن کی آیت اِثمُھُمَا اَکْبَرُمِنْ نَّفِعِھِمَا(البقرۃ /۹۱۲) اس پر صادق آتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ کچھ علماء کرام نے ابتداء میں اسکو استعمال کرنے سے منع کیا تھا، انٹرنیٹ کی خاص برائیوں میں فحش گانے،بلو فلمیں،بے حیائی کے مناظر،اشتہارات کے نام پر بے پر دگی، عریانیت،بت پرستانہ و مشرکانہ رسوم،خریدوفروخت میں غبن ودھوکادہی، اور فحش پیغامات و فحش مواد دوسروں کوبھیجناوغیرہ ہے۔
یہی انٹر نیٹ کا منفی پہلو ہے جس کے ذریعے اسلام مخالف قوتیں ہماری تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے کے درپے ہیں جس کو دوسرے لفظوں میں یہود کا ’ذرائع ابلاغ کہا جا سکتا ہے۔ اور ان ذرائع ابلاغ (خاص کر ٹی وی،ڈش اور انٹرنیٹ) کو بدقسمتی سے ہم لوگ بنا کسی روک ٹوک کے اپناتے جا رہے ہیں،نہ حرام کی فکر ہے اورنہ حلال کی،جب بھی کوئی نئی چیز مارکٹ میںآتی ہے تو ہم حلال وحرام کی تمیز کئے بغیر اس کو اپنا لیتے ہیں،جس کے بارے میں سخت وعید ہے جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں’’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتِّخِذُھَا ھُزُوًا اُولٓءِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ‘‘ (سورۃلقمان:/۶)اوربعض انسان ایسا بھی ہے جو اللہ تعالی سے غافل کرنے والی باتیں خریدتا ہے تاکہ اللہ کی راہ حق سے بے سمجھے بوجھے (دوسروں کو) گمراہ کرے اور اس (راہ حق) کی ہنسی اڑائے،ایسے ہی لوگوں کے لیے(آخرت میں) ذلت کا عذاب ہے۔
اگر ہمارا یہی طرزعمل جاری رہا تو پھر ہم لوگوں کو تباہی و بربادی کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ کیونکہ ہاری ہوئی جنگ کو فتح میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، مگر تہذیب و ثقافت کی شکست پوری قوم کو تباہ و برباد کر دیتی ہے۔آج زیادہ تر انٹرنیٹ کا استعمال فحش و بے حیائی و اخلاقی بگاڑ کی طرف دعوت دینے، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور غلط معلومات کو پھیلانے میں ہو رہا ہے۔اگر بے حیائی و فحش فلموں اور ویڈیو کی بات کی جائے تو اس کا دیکھنا،سننا اور پسند کرنا بھی حرام ہے،خاص کر نوجوانوں کا طبقہ نیٹ پر بیٹھنے کے ساتھ ہی بلو فلم،گندی اور فحش تصاویر کودیکھنے اور سننے لگتا ہے، 
اس وقت جب کہ انٹرنیٹ ایک اہم و بنیادی ضرورت بن چکا ہے ہم کسی کو بھی اس کے استعمال سے روک نہیں سکتے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔کیونکہ ہمارے پاس اس کا کوئی دوسرا بدل نہیں ہے۔البتہ اس کے غلط استعمال کی برائی بتا بتا کر غلط استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کی جاسکتی ہے،بس اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انٹر نیٹ کو صرف جائز مقاصد میں استعمال کر نے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے تمام منفی طریقوں سے حفاظت فرمائے۔ آمین
(اخذ کلہا من ،، انٹرنیٹ اور اس کے مسائل:18تا 21۔)
مستفاد:
 ’’www.hamariweb.com‘‘ 

Saturday, September 8, 2018

انٹر نیٹ



بسم اللہ الرحمن الرحیم

(انٹر نیٹ کیا ہے؟)

انٹرنیٹ (Internet)در اصل باہم مربوط شمارندوں کا ایک عالمی جال (Computer Network) ہے جو کہ عوامی یا اجتماعی سطح پر ہر کسی کے لئے قابل دسترس و رسائی ہے شمارندوں کا یہ جال یا نظام جال بینی دستور (internet protocol)کااستعمال کرتے ہوئے رزمی بدیل(packet switchin) کے ذریعہ سے مواد (data) کو منتقل یا ارسال کرتا ہے۔ انٹرنیٹ اصل میں خود لاتعداد چھوٹے چھوٹے جالاتِ کار کا مجموعہ ہے جو کہ علاقائی سطح پر پائے جاتے ہیں اور اس طرح یہ تمام یکجا ہو کر مختلف معلومات اور خدمات فراہم کرتے ہیں مثلاً برقی خط وکتابت، گفتگو، چیٹنگ (chatting)، فائلوں کا تبادلہ و منتقلی، آپس میں مربوط ویب کے صفحات وغیرہ۔

(لفظ‘‘جالبین’’ کا انتخاب )


لفظ‘‘جالبین’’انگریزی لفظ Internet کے ہم معنی ہے. Internet اصل میں دو الفاظ International اور Network کی جوڑ و توڑ سے بنا ہے. International سے Inter اور Network سے Net کو ملانے سے Internet حاصل ہوتا ہے. اِسی طرح لفظ‘‘جالبین’’بھی دو اصطلاحات‘‘جالِ کار ’’اور‘‘بین الاقوامی’’کی جوڑ و توڑ سے بنا ہے. جالِ کار سے جال اور بین الاقوامی سے بین آپس میں ملانے سے لفظ‘‘جالبین’’بنایاگیاہے۔

(انٹر نیٹ کی ابتداء)

سویت یونین کے منصوبہ اسپاٹ نیک نے امریکہ کو 1958 میں دوبارہ طرزیاتی برتری حاصل کرنے کے لئے ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجین سی /ARPA (جو بعد میں ڈی فینس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجین سی کہلایا /DARPA) بنانے کی طرف راغب کیا۔ ARPA نے سیمی آٹومیٹک گراؤنڈ انوائرونمنٹ پروگرام کی تحقیق کے لئے ایک انفارمیشن پروسیسنگ ٹیکنالوجی آفس (IPTO) تخلیق کیا، جس نے پہلی بار ملک بھر میں پھیلے ہوئے ارسالوں کو ایک مشترک نظام میں مربوط کیا۔ J.C.R. Licklider کو IPTO کی راہنمائی کے لئے منتخب کیا گیا جس نے ایک عالمی نظام نیٹ ورکی (نیٹ ورکنگ) کی ضرورتکو محسوس کیا۔ لکلائڈر نے Laurence Roberts کو جالِکار (نیٹ ورک) کو عمل میں لانے کی ذمہ داری سونپ دی، روبرٹ نے Paul Baran کے کام سے استفادہ حاصل کیا جس نے نظام نیٹ ورک میں ترقی اور امکانات میں تیزی سے اضافہ کی خاطر circuit switching پر رزمی بدیل (packet switching) کو ترجیح دی تھی۔ خاصی تگ و دو کے بعد، 29 اکتوبر 1960 کو جامعہ کیلیفورنیا لاس انجلس (UCLA) سے براہ راست جاری ہوا جسکو ARPANET کہا گیا اور جو آج کے انٹرنیٹ یا انٹرنیٹ کی ابتداء کہا جاسکتا ہے۔
پہلا وسیع TCP/IP جالِکار (نیٹ ورک) 1 جنوری 1983 میں اپنا کام شروع کرچکاتھا جب امریکی قومی ادارہ برائے سائنس (NSF) نے ایک نیٹ ورکِ جامعہ (University Network) کا بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیا جو کہ بعد میں NSFNet بنا۔ اور یہ تاریخ اکثر انٹرنیٹ کی فنی تاریخِ پیدائش کہلائی جاتی ہے۔ اسکے بعد 1985ء میں انٹرنیٹ کو کاروباری مقاصد کے لئے کھول دیا گیا۔ اور پھر دیگر اہم جالاتِ کار مثلاً Usenet، Bitnet، X.25 اور JANET وغیرہ بھی USFNet میں ضم ہوگئے۔ Telenet (جو بعد میں Sprintnet کہلایا) وہ سب سے بڑا نجی سطح پر کام کرنے والا جالِ کار تھا جو کہ 1970 سے امریکہ کے شہروں میں سہولیات مہیا کررہا تھا یہ بھی TCP/IP کے مقبول ہونے کے بعد رفتہ رفتہ 1990 تک دوسروں کے ساتھ مدغم ہوگیا۔ TCP/IP کی پہلے سے موجود ابلاغی شراکتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوجانے کی صلاحیت نے ان تمام کاموں کو بہت تیز رفتاری سے آگے بڑھایا۔ اور یہی وہ وقت تھا جب ایک عالمی TCP/IP جالِ کار کو بیان کرنے کے لئے انٹرنیٹ (intirnet) کی اصطلاح مقبول ہوئی۔
ابتدائی مقبول ہونے والا ویب براؤزر، ViolaWWW تھا جو کہ ورق وراء (ہائپر کارڈ) پر انحصار کرتا تھا۔ اسکے بعد موزیک نامی ویب براؤزر آیا جسکا پہلا نسخہ 1.0، قومی مرکز برائے فوق شمارندی نفاذ (National Center for Supercomputing Applications) نے جامعہ الینوئی (UIUC) میں 1993 میں جاری کیا اور 1994ء کے اوآخر تک یہ عوام کی بے پناہ دلچسپی حاصل کرچکا تھا اور ایک دہائی کے اندر انٹرنیٹ کامیابی کے ساتھ گذشتہ پائے جانے والے تمام شمارندی جالاتِ کار (کمپیوٹرنیٹ ورکس) کو اپنے اندر سمو چکا تھا۔ امارہ عالم جالبین کے مطابق 30 جون 2006ء تک ایک ارب چار کروڑ سے زائد افراد انٹرنیٹ تک رسائی حاصل کررہے تھے۔(ماخوذ مع اضافہ قلیلۃ و اختصار کثیرہ،آزاد دائرۃ المعارف نیٹ)

Thursday, July 5, 2018

مسائل تہجد





{مسائل تہجد}


 تہجد کی رکعتیں۔

مسئلہ:تہجدکے معنی ہیں نیند کو توڑ کر اٹھنا۔ تہجد کی کم سے کم دور کعتیں ہیں ( ترغیب و الترہیب) اوسطاً چار اور زیادہ سے زیادہ آٹھ (یا بارہ) رکعتیں ہیں۔
 یہ نماز اللہ کے یہاں بہت مقبول ہے نفل نمازوں میں سب سے زیادہ اس کا ثواب ہے۔ (مسلم باب فضل صلاۃ اللیل، ترمذی، ابو داؤد)

رسول اللہ  ﷺکا عام معمول مبارک۔

مسئلہ:رسول اللہ  ﷺکا عام معمول مبارک آٹھ رکعت تہجد پڑھنے کاتھا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے ایسا ہی منقول ہے،البتہ آپ کی نماز بہت طویل ہوتی تھی، قراء ت بھی طویل، رکوع اور سجدہ بھی طویل(الجامع الترمذی، باب في وصف صلاۃ النبی ﷺباللیل)

 تہجد کا ثواب حاصل کرنے کے لئے پہلے سے سونا ضروری نہیں ہے۔

مسئلہ:فقہ وحدیث کی بعض عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد تہجد کی نیت سے پڑھی جانے والی نوافل تہجد ہی میں شمار ہوتی ہیں، نیز تہجد کا ثواب حاصل کرنے کے لئے پہلے سے سونا ضروری نہیں ہے؛ لہٰذا  نصف شب کے بعد تہجد کی نماز ادا کرنے سے تہجد کی سنت کا ثواب حاصل ہوجائے گا۔ (فتاوی دارالعلوم ۴/۳۰۵، ایضاح المسائل ۴۹، احسن الفتاوی ۳/۴۹۳، محمودیہ ۷/۲۳۴ڈابھیل)


 تہجد کا وقت۔

مسئلہ:کتاب الفتاوی میں ہے:- تہجد کا وقت وہی ہے جو عشا ء کا وقت ہے،عشاء کی نماز کے بعد سے فجر کا وقت شروع ہونے تک کبھی بھی نمازِ تہجد پڑھی جاسکتی ہے، ( البتہ بہتر یہ ہے کہ رات کی آخری حصہ میں پڑھی جائے ، ہیثمی کی روایت ہے: ’’عشاء کے بعد جو بھی نماز پڑھی جائے، وہ قیام لیل یعنی تہجد ہے‘‘ فقہاء نے معمولات نبوی  ﷺکو سامنے رکھتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ایک تہائی شب تہجد میں گزار ناچاہتا ہو تو رات کا درمیانی تہائی افضل ہے، ’’فالثلث الأوسط أفضل من طرفیہ‘‘اور نصف شب تہجد پڑھنا چاہتاہو تو آخری نصف کو تہجد میں گزارنا افضل ہے: ’’فقیام نصفہ الأخیر أفضل‘‘۔

 تہجد کا  وقت افضل وقت۔

مسئلہ:جو شخص جاگنے کا بھروسا رکھتا ہو اس کے لئے تہجد کے وقت وتر پڑھنا افضل ہے، اور جو بھروسا نہ رکھتا ہو اس کے لئے عشاء کے بعد پڑھ لینا بہتر ہے۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد ۳/۵۹)

صبحِ صادق سے پہلے تک تہجد کا وقت ہے۔

مسئلہ:صبحِ صادق سے پہلے تک تہجد کا وقت ہے، اس لئے اگر صبحِ صادق نہ ہوئی ہو تو سحری کے وقت تہجد پڑھ سکتے ہیں(آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد ۳/۵۹)

 وتر پہلے پڑھ لئے تو تہجد کے وقت وتر دوبارہ نہ پڑھے۔

مسئلہ:اگر وتر پہلے پڑھ لئے تو تہجد کے وقت وتر دوبارہ نہ پڑھے جائیں، صرف تہجد کے نوافل پڑھے جائیں۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد ۳/۵۹)

 دو رکعت صبح صادق کے بعد تہجد کی نیت سے پڑھنا۔

مسئلہ: اگر کسی نےصبح صادق کے بعدتہجد کی نیت سے دو رکعت پڑھی تووہ فجر کی سنت کے قائم مقام ہوجائیگی؛ اس لئے کہ سنت وغیرہ کی صحت کے لئے مطلق نیت کافی ہوتی ہے؛ لہٰذا مذکورہ صورت میں دوبارہ سنتِ فجر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے، یہی راجح قول ہے،لو صلی رکعتین علی ظن انہا تہجد بظن بناء اللیل فتبین انہا بعد طلوع الفجر کانت عن سنۃ الفجر علی الصحیح فلا یصلیہا بعدہ للکراہۃ۔ (الاشباہ والنظائر ۳۱۵ مکتبہ فقیہ الامت دیوبند)

نماز تہجدکی نیت ۔

مسئلہ:نماز تہجدکی نیت مطلق نفل کی نیت سے ہو جائے گی۔(فتاوی عثمانی 1 /309مکتبہ جبرئیل )

اس طرح نیت کرلے ،


مسئلہ:اگر چاہے تو اس طرح نیت کرلے ، ’’نیت کرتا ہوں میں دورکعت نفل تہجد کی اللہ تعالیٰ کے واسطے ،میرا رخ  کعبہ شریف کی طرف ،اللہ اکبر ۔(علم الفقہ 188/2 )

تہجد کی ہر رکعت میں سورہ اخلاص کا ملانا ۔


مسئلہ: تہجد کی ہر رکعت میں سورہ اخلاص کا ملانا ضروری نہیں ہے ،اگر کوئی ملالے تو جائز ہے (فتاویٰ دارالعلوم  ۴/۳۰۳)

نماز تہجد کی ایک خاص دعا۔


مسئلہ:حضرت ابن عباس سے مروی ہےکہآپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تہجد کیلئے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے،
« اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيَّامُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ أَنْتَ الْحَقُّ وَقَوْلُكَ الْحَقُّ وَوَعْدُكَ الْحَقُّ وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ حَقٌّ اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ وَبِكَ خَاصَمْتُ وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ فَاغْفِرْ لِى مَا قَدَّمْتُ وَأَخَّرْتُ وَأَسْرَرْتُ وَأَعْلَنْتُ أَنْتَ إِلٰھى لاَ إِلٰهَ إِلاَّ أَنْتَ»(ابوداؤد باب مایستفتح بہ الصلوٰۃ من الدعا)

 تہجد کی قضا۔


مسئلہ: قضاء نہ تہجد کی واجب ہے نہ چاشت اشراق کی،:( فتاوی رشیدیہ مکتبہ جبرئیل225) 



نماز تہجدکی نیت ۔

مسئلہ: حضراتِ حنفیہ کے نزدیک رمضان المبارک میں تہجد کی جماعت تداعی کے ساتھ مکروہ ہے، اور تداعی کی تفسیر یہ ہے کہ اس جماعت میں چار آدمی سے زیادہ شریک نہ ہوں۔ (مستفاد: احسن الفتاویٰ ۳/۴۶۸-۴۶۷،فتاویٰ رشیدیہ۳۵۴-۳۵۵، فتاویٰ رحیمیہ ۴/۳۲۳)

 بلا تداعی ر مضان المبارک میں تہجد کی جماعت۔

مسئلہ: اگر بلا تداعی امام کے علاوہ دو یا تین آدمیوں کی جماعت ہو تو بلاتکلف درست ہے، اور اگر اس سے زیادہ مقتدی ہوں تو یہ جماعت مکروہ ہے، اور یہ دو تین آدمی کی جماعت تہجد میں بھی ہوسکتی ہے۔ (مستفاد: احسن الفتاویٰ ۳/۴۶۸-۴۷۶، )

حرمین شریفین رمضان المبارک میں تہجد کی جماعت۔

مسئلہ:حرمین شریفین میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں تہجد کی جماعت (قیام اللیل) میں حنفی مقتدیوں کے لئے بھی شرکت کی گنجائش ہے؛ اس لئے کہ جو ائمہ امامت کرتے ہیں، ان کے مذہب میں وہ نماز مشروع ہے مکروہ نہیں ہے۔
الحنابلۃ قالوا: أما النوافل فمنہا ما تسن فیہ الجماعۃ وذٰلک: کصلاۃ الاستسقاء والتراویح والعیدین، ومنہا ما تباح فیہ الجماعۃ: کصلاۃ التہجد الخ۔(الفقہ علی المذاہب الأربعۃ،الصلاۃ/حکم الإمام في صلاۃ الجمعۃ والجنازۃ والنوافل230المکتبۃالعصریۃبیروت،کتاب النوازل جلد 4 /340 مکتبہ جبرئیل  )

دیگر مضامین کیلئے نیچے کلیک کریں