Thursday, September 21, 2017

موبائل کے مسائل












بسم اللہ الرحمن الرحیم

(موبائل کی مرمت)



سوال :موبا ئل کی مرمت کرنا کیسا ہے ؟

جواب :جائز ہے ۔شامی میں ہے قا ل فی الخانیۃ ولو آجر نفسہ لیعمل فی الکنیسۃ ویعمر لاباس بہ لانہ لامعصیۃ فی عین العمل ( شامی ۶/۳۹۱ مکتبہ شاملہ)

سوال : موبا ئل کے کیمرہ اور ویڈیو کی خرابی کو درست کرنا کیسا ہے ؟ 
جواب :درست ہے اگر موبائل کو غلط استعمال کیا گیا تو اس کا وبال موبائل والے پر ہو گا نہ کہ مرمت ساز پر ۔فتاوی محمودیہ میں ہے ’’ ریڈیو نہ نجس ہے اور نہ حرام نہ حرام کے لئے اصالۃ بنایا گیا ہے جو لوگ اس کو ناجائز کام کے لئے استعمال کرتے ہیں وہ اپنے فعل کے خود ذمہ دار ہیں اس لئے اس کو بنانا اور بناکر آمدنی حاصل کرناجائز ہے ۔( محمودیہ ۱۷ /۱۱۰ وکذا شامی ۶/۳۹۱ مکتبہ شاملہ) 
سوال : اگر یقین ہو جا ئے کہ یہ موبائل والا موبائل کو حرام ہی میں استعمال کرتا ہے تو

اس کا موبائل مرمت کرنا کیسا ہے ؟
جواب :اگر یقین ہو جا ئے کہ یہ موبائل والا موبائل کو حرام ہی میں استعمال کرتا ہے تو اس کا موبائل مرمت کرنانا جائز ہے۔(حاشیہ محمودیہ ۱۷ / ۱۱۰ وکذا شامی ۶/۳۹۱ شاملہ ) 
سوال : ایک کے موبائل کے سامان کو نکال کر دوسرے کے موبائل میں لگانا کیسا ہے ؟
جواب : حرام ہے ، اس میں تو صریح دھو کا ہے اس لئے اس طرح کی کمائی حرام ہے آپ ﷺ نے فر مایا ’’ ولاتناجشوا ( مسلم / کتا ب البیوع ) لہذاکسی قسم کا ہیرا پھیری موبائل یا کسی اور سامان کی ریپئرنگ کر نے والے کیلئے جائز نہیں ہے ضروری ہے کہ سامان کو امانت سمجھ کر مرمت کرے اس میں بالکل ادل بدل نہ کرے ہاں جو سامان خراب ہو چکا ہے اس کو نکالکر نیا لگا دے اور موبائل دیتے وقت اس کا خراب سامان بھی واپس کردے۔
سوال : صحیح موبائل کو خراب بتا کر کسٹمر سے پیسہ لینا کیسا ہے ؟ 
جواب: حرام ہے اور اس طرح کی کمائی حرام ہے ’’ ولاتناجشوا ( مسلم کتا ب البیوع )
سوال : معمولی خرابی والے موبائل کو زیادہ خراب بتا کر زیا دہ رقم مزدوری میں لینا کیساہے ؟
جواب :یہ بھی حرام ہے ،جتنا موبائل خراب ہو، اتنا ہی بتایا جائے اور اسی کے بقدر مزدوری لی جائے ۔
سوال : موبائل میں نیا پارٹس لگانے کے بجائے پرا نا پارٹس لگا کر پوری رقم لینا کیسا ہے ؟
جواب : جب نیا پارٹس (parts)لگا نے کی بات ہوئی ہو پھر پرانا لگانا حرام ہے اور شروع میں جب کچھ وضاحت نہ کیا ہو، تو جائز تو ہوگا لیکن موبائل والے کو کہہ دیا جائے کی بھائی اس میں ہم نے پرانا پارٹ(part) لگایا ہے اور پرانا سامان کی قیمت اور میری مزدوری اتنی ہوتی ہے ۔
سوال : بعض حضرات ریپئرنگ اچھی طرح نہیں جانتے ہیں اور کسٹمر کا مو بائل ناقص علم کی وجہ سے صحیح کرنے کے بجائے اور خراب ہی کردیتے ہیں اس صور ت میں ریپئرنگ کرنے والے پر ضمان ہو گا ؟
جواب : جب علم نہیں ہے پھر انہوں نے موبائل کو ریپئرنگ کیا اور موبائل کو مزید خراب کردیا تو اسکا ضمان مستری (دوکان والے) پر ہوگا ۔
(متفرقات)
سوال : مسافر کے لئے مسجد کی بجلی سے موبائل چارج کرنا کیسا ہے ؟
جواب: مسجد کی بجلی سے مو بائل چارج کرنے کے بعد کچھ رقم مسجد کے فنڈ میں جمع کر دے کیونکہ اپنی زائد ذاتی ضرورت میں بجلی کو استعمال کیا گیا ہے ۔( مسائل موبائل/ ۳۱ )
سوال : محلہ والے کا مسجد کی بجلی سے موبائل چارج کرنا کیسا ہے ؟ 
جواب : جائز نہیں ہے اگر کر لیا ہے تو اتنی رقم مسجد میں جمع کردے ۔لا یحمل سراج المسجد الی البیت ۔(مسائل موبائل بحوالہ قاضی خان علی الھندیہ ۴ /۸۲ )
سوال : معتکف کے لئے مسجد کی بجلی سے موبائل چارج کرنا کیسا ہے ؟ 
جواب: ضرورۃً موبائل چارج کرسکتا ہے اور احتیاطا بجلی کا عوض مسجد میں رقم جمع کردے ۔( مسائل موبائل /۳۱ )
سوال : موبائل میں ایسا سٹینگ کر دینا جس سے قرض خواہ کو فون بیجی یا سوچ آف یا آؤٹ آف کورج ہو نا سنائی دے کیسا ہے ؟ 
جواب : قرض کا اداکرنا ضروری ہے اور ٹال مٹول کرنا حرام ہے تو اب ٹال مٹول کرنے کیلئے جو بھی طریقہ اپنا یا جائے حرام ہوگا ۔عن ابی ھریرۃؓ ان رسول اللہّ ﷺ قال مطل الغنی ظلم(حدیث مسلم ۲/ ۱۸)
سوال : کیا موبائل کے ذریعہ نو مولود کے کان میں اذان دے سکتے ہیں؟
جواب : مناسب نہیں ہے،بجائے دوسرے سے فون کے ذریعہ بچہ کے کان میں اذان دینے سے بہتر یہ ہے کہ خود اذان دے ۔ ( فتاویٰ بنوریہ غیر مطبوعہ فتویٰ نمبر/۳۶۰۱۰ ) 
سوال :کیا موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعہ نکاح منعقد ہو سکتا ہے ؟
جواب : نکاح کے انعقاد کے لئے شرائط و ارکان ہے اس کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہو سکتا، فون اور انٹر نیٹ پر نکاح کرنے میں وہ تمام شرائط نہیں پائے جاتے ہیں؛ اس لئے موبائل اور انٹر نیٹ پر نکاح نہیں کر نی چاہیے ۔نیز اس میں نوجوان کے لئے بہت بڑا فتنہ کا با ب کھل جائے گا ،اور لڑکیا ں اس سلسلے میں بے راہ روی اختیار کرنے لگے گی،ہاں اگر جملہ شرائط پائے جانے لگے تو نکاح ہو سکتا ہے جیسا کہ فقہاء کرام (جدید فقہی مسائل،خلاصۃ الفتاویٰ ،فتاوی بنوریہ ٹاؤن ،وغیرہ ) نے بعض شکلوں میں جواز کے فتاوے دئے ہیں ،تاہم اس عاجز کی رائے یہی ہے کہ احتیاطاً فون اور انٹر نیٹ یااسی طرحsmsکے ذریعہ کسی بھی شکل وصورت میں نکاح نہیں کرنا چاہیے۔نیزاس صورت میں نکاح کا مسنون اور متداول جو طریقہ ہے وہ بھی فوت ہو جائیگا اور کوئی بھی کام خلاف سنت کی جا ئے تو بے برکت اورناقص ہو تا ہے ؛اس لئے فون اور انٹر نیٹ کے زریعہ نکاح نہیں کرنی چاہیے اگرچہ بعض صورتوں میں فقہاء نے جواز کا فتوی ٰ دیا ہے ۔
سوال : کیا موبائل پر طلاق دینے سے طلاق واقع ہو گی ؟
جواب: طلاق واقع ہو جائے گی ۔
سوال : زید نے اپنی بیوی سے فون پر بات کرتے ہوئے طلاق دیا لیکن طلاق کا لفظ بو لتے وقت فون کٹ گیا ،کیا اس صورت میں طلاق واقع ہو گی ؟
جواب :اگر فوں کٹ جانے کے بعد زید نے لفظ طلاق کا تکلم نہیں کیا بلکہ فون کٹنے کے ساتھ ہی بات بھی بند کر دیا اور لفظ طلاق کا تکلم نہیں کیا تو طلاق واقع نہیں ہو گی ہاں! فون کٹ جا نے کے بعد بھی وہ بات کر تا رہا اور لفظ طلاق کا تکلم کر دیا تو طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ وقوع طلاق کے لئے بیوی کا سننا ضروری نہیں ہے ، (فتاویٰ رحیمیہ ۸ / ۲۶۶ ) 
سوال : کیا smsکے ذریعہ طلاق دی جائے تو واقع ہو گی؟
جواب : smsبمنزلہ خط وکتابت ہے اور خط و کتابت سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اس لئے smsسے طلاق واقع ہو جائے گی ۔( کتاب الفتاویٰ ۵/۸۱)
سوال : smsمیں طلاق لکھ کر بیوی کو بھیجا گیا لیکن کسی خرابی کی وجہ سے وہ sms بیوی کو نہ پہنچ سکی تو کیا اس smsسے طلاق واقع ہو گی ؟
جواب : جب شوہر نے طلاق لکھ کر بیوی کو smsکردیا تو طلاق واقع ہو جائے گی،اور لکھنے کے وقت ہی سے عورت کی عدت شروع ہوجائیگی چاہے sms بیوی کو پہنچے یا نہ پہنچے کیونکہ تحریری طلاق کے وقوع کے لئے اس تحریر کا بیوی کے پاس پہنچنا ضروری نہیں ہے ،محض شوہر کے اقرا رپر طلاق واقع ہو جائے گی ۔ (فتاویٰ عالمگیری ۱/۳۷۸ شاملہ ، فتاویٰ محمودیہ ۱۲/۶۶۱ )
سوال:نماز کے وقت ہونے پرموبائل میں ریکارڈ کیاہوا اذان بجانے سے اذان ہو جائیگی؟
جواب : نہیں ہوگی ؛کیونکہ اذان صرف اعلام ہی نہیں ہے بلکہ اس میں عبادت کا پہلوبھی ہے ،موبائل میں ریکارڈ ایک جامد اور غیر حساس شی ہے، اس لئے اس کا بجادینا عبادت نہیں ہوگی، ( جدید فقہی مسائل ۱/۹۳ )
سوال: کیاموبائل کے ذریعہ چاند کی اطلاع ملنے پر عید منا سکتے ہیں ؟
جواب :محض موبائل فون کی خبر پر صوم وافطار درست نہیں ہے ،جب تک کہ شرعی طور پر اسکا ثبوت نہ ہو جائے ،ہاں شرعی طور پر چاند ثابت ہوجانے کے بعد کسی معتبر آدمی کی جانب سے چاند ثابت ہونے کی خبرملتی ہے تو اسکی خبر کو مانا جاسکتاہے، دیکھیں تفصیل کتاب الفتاویٰ میں ۔( کتاب الفتاویٰ ۳ /۱۷۶ )
سوال :موبائل کے بعض سافٹ وےئر اوقات صلوٰ ۃ کی تعیین کرتی ہے کیا سافٹ وےئر کے بتائے ہوئے اوقات کے مطابق نماز پڑھی جاسکتی ہے ؟

جواب: مختلف قسم کے سافٹ وےئر نیٹ پر پائے جاتے ہیں اس لئے اس سلسلے میں کوئی یقینی حکم نہیں لگا یا جاسکتا ہے جب تک اس سافٹ وےئر کا جائزہ نہ لے لیا جائے اور اسکو دائمی اوقات کے ساتھ موازنہ نہ کر لیا جائے،ہاں اگر کسی سافٹ وےئر کے متعلق تجربہ کر لیا جائے کہ وہ اوقاتِ صلوۃ بالکل صحیح بتاتی ہے تو اس کا اعتبار نماز، روزہ کے سحر وافطار کے سلسلہ میں کیا جا سکتا ہے ، ساتھ ہی اس کا بھی خیال رہے کہ بعض دفعہ سافٹ وےئر ہینگ (یعنی خراب )ہو جاتا ہے ،تو غلط اطلاع دینے لگتی ہے اس لئے وقتاً فوقتاً اس کو دائمی اوقات جنتری سے ملاتا بھی رہے ،چناچہ فقہاء کرام نے گھڑی کو اوقات کے سلسلہ میں اعتبار کیاہے ؛لیکن گھڑی خراب ہو جائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔
اسی سے کچھ ملتے مسائل

(1)موبائل کے فائدے                                           (2) موبائل کے نقصانات
(5)موبائل کا رنگ ٹون                                         (6)فلم اور ویڈیو دیکھنا
(7)ویڈیو گرافی اور تصویر کشی                              (8)مس کال
(9)سیم کارڈ                                                    (10)بیلنس اور ریچارج  
(11)واٹساپWhatsapp                                               ایس ایم ایس
(13) موبائل                                                             (14)میموری کارڈ کے مسائل

ہندوستان کے سلگتے مسائل                   ہندوستان کے نئے مسائل
(۱)سول کوڈ                                                   برما کے مظلوم مسلمان
(۲)یکساں سول کوڈ                                           تین طلاق اور ہندوستان کی عدالت کا فیصلہ

Sunday, September 17, 2017

سافٹ ویئر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

(سافٹ ویئر) 

 software مُصَنَّع لطیف مَصنُوع لطیف کو کہتے ہیں، جو شمارندی برناماجات   اور متعلقہ معطیات کا ایک ایسا مجموعہ ہےجو کمپیوٹر کو یہ بتائےکام کیا؟اورکس طرح کرناہے؟  یہ دراصل ایسی ہدایات ہوتی ہیں جن پر کمپیوٹر اپنے  Hardware کی مدد سے عمل کر تے ہوئےتجزیاتی افعال انجام دیتا ہے،  سوفٹویئر کو ہارڈویئر کی طرح چھوا نہیں جاسکتا، اسکا کوئی مادی (جسمانی )وجود نہیں ہوتا یہ صرف سوچ بچار اور وہم وگمان کے ذریعہ ترتیب دی گئی ہے،
سوال : کیا سافٹ ویئر کی چوری جائز ہے ؟

جواب : شریعت میں مطلقاً چوری ممنوع وحرام ہے پھر سافٹ ویئر کی چوری کی اجازت کیسے مل سکتی ہے ؟ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیدَیَھُمَا الاخ(مائدہ /۳۸)
سوال : کیا سافٹ ویئر کی چوری بھی ہوتی ہے ؟
جواب : جی ہاں! لو گوں کے کمپیوٹر یا موبائل میں اکثر سافٹ ویئر ایسے ملتے ہیں جو چوری کی ہوئی ہو تی ہے اور ظاہر سی بات ہے یہ وہ چوری نہیں ہے کہ کسی دوکان سے سافٹ وےئر کی سی ڈی چوری کر کے لائے اور پھر اس کو انسٹا ل کر کے استعمال کرئے بلکہ یہ وہ چوری ہے جو کسی گراں قدر سافٹ ویئر کی غیر قانونی کاپی رائٹ بنا کر دوسروں کو فری یا روپیے لیکر تقسیم کرنا شروع کر دیا جائے مثلا: فوٹوشاپ یہ ایک ایسا سافٹ ویئر ہے جو ہر کسی ڈیزائنگ کرنے والے کیلئے ہر دل عزیز ہے لیکن کمپنی اس کی قیمت تقریباً 50000 رکھی ہے اور اس کی کاپی رائیٹ کی بالکل اجازت نہیں دیتی پھر بھی آج سو میں سے کوئی ایک ہی ایساملے گا جو اس فوٹوشاپ کی اصلی کاپی خرید کر استعمال کررہاہوورنہ تو ہر کسی کے پاس اس کی غیر قانونی کاپی ہی ملے گی ،
قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ اس کو چوری کرنا بھی نہیں سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بھی ایک قسم کی چوری ہے جس پر قیامت کے دن باز پرس ہوگی،میں نے حال ہی میں blogspot.comپر ایک مضمون پڑھا جس میں بزنس سافٹ ویئر لانس کے حوالے سے لکھا تھا کہ صرف سافٹ ویئر کی چوری کی وجہ سے ملک زیمبابوکی معیشت ہر سال ۴۰ لاکھ ڈالر کا نقصان اٹھاتی ہے اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ یہ چوری کس قدر قابل ترک ہے اور ملک وملت کے لئے کس قدر نقصان دہ ہے ۔
فتاویٰ بینا ت غیرمطبوعہ میں ہے ’’ اگرچہ ابتدائی طور پر شرعاً اسمیں کوئی حرج نہیں تاہم جب کاپی رائٹ باقاعدہ ایک مسلم قانون کی حیثیت اختیار کر چکاہے اور اس کا لحاظ کئی ایک غیر شرعی امور کے ارتکاب کیلئے سد باب بھی ہے اس لئے کاپی رائٹ قانون کے تحت ایسی کتب یا سی ڈیز وغیرہ کی نقل بنانا قانوناً جرم اور ممنوع ہے جنہوں نے اس کی کاپی کی صراحتاً ممانعت لکھ دی ہو لہذا اس سے احتراز لازم ہے ( فتاوی بینات غیر مطبوعہ فتویٰ نمبر 36693)
سوال : کیا سافٹ ویئر کی مطلقاً نقل کرنا درست نہیں ہے؟
جواب : سافٹ ویئرکی مطلق طور پر نقل کرنا ممنوع نہیں ہے بلکہ بغیر کسی قسم کی محنت کئے بغیر اس کی غیر قانونی کاپی کرلینا اس طور پر کے اسکی سریل نمبر معلوم کر لیا جائے یا پھر اس کے کوڈ کو توڑ کر نقل بنا لیا جائے یہ قانوناً جرم ہے اگر کو ئی شخص خود محنت کرکے ازسر نو سافٹ ویئر تیار کرتا ہے اور صرف دوسرے کمپنی کی سافٹ ویئر کو نمونہ کے طور پر رکھتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے مثلاً:آج کل اکثر دوسرے ملک کی مصنوعات کو ہندوستان نقل کرتی ہے اور ازسرے نو خود اس سامان کو بنا کر کم قیمت میں فروخت کرتی ہے اس قسم کا معاملہ برابر چلا آرہاہے نہ تو اس پر حکومت کی جانب سے پابندی ہے اور نہ کسی عالم دین نے اس پر نکیر کی ہے لہذا مطلق طور پر نقل کرنا کسی چیز کا ممنوع نہیں ہو گا ۔واللہ اعلم باالصواب
سوال : ہم نے تو دوکان والے سے کسی سافٹ ویئر کو قیمت میں خریدا ہے لیکن خود اس دوکان دار نے غیر قانونی سافٹ ویئر کی کاپی کر رکھا ہے کیا اس کا گناہ ہمارے اوپر بھی ہو گا ؟
جواب: یہ جانتے ہوئے کہ یہ شخص غیر قانونی سافٹ ویئر فروخت کر تا ہے اس سے سافٹ وئیر نہیں خرید نا چا ہیے ہاں دھو کہ سے خرید لیا ہے تو پھر اسکا گناہ فروخت کرنے والے پر ہو گا ۔ وَلَاْتَزِرُوَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرَیٰ
سوال : کیا فری freeسافٹ ویئر بھی دستیاب ہے ؟
جواب :جی ہاں! بہت سے سافٹ ویئر فری ہیں جن کا استعمال کر کے سافٹ ویئر کی چوری سے بچ سکتے ہیں ،اور فری سافٹ ویئر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ غیر معمول ہے ،بلکہ بعض دفعہ تو فری سافٹ ویئر بہتر ہو تا ہے۔ 
سوال : موبائل کا ایسا سافٹ ویئر یا اپس Appsجس کا استعمال اچھے اور برے دونوں کام میں ہوں اس کا بنا نا اور بیچنایا اسی طرح اس کا کسی دوسرے کے موبائل یا کمپیوٹر پر انسٹال کرنا جائز ہے ؟
جواب : جائز ہے لیکن غلط استعمال کرنے کا وبال استعمال کرنے والے پر ہو گا ۔شامی میں ہے ’’قال فیہ من باب البغاۃ وعلم من ھذا انہ لا یکرہ بیع مالم تعم المعصیۃبہ کبیع الجاریۃ المغنیۃ (شامی ۶/۳۹۱ مکتبہ شاملہ)
اسی سے کچھ ملتے مسائل

(1)موبائل کے فائدے                                           (2) موبائل کے نقصانات
(5)موبائل کا رنگ ٹون                                         (6)فلم اور ویڈیو دیکھنا
(7)ویڈیو گرافی اور تصویر کشی                              (8)مس کال
(9)سیم کارڈ                                                      (9)بیلنس اور ریچارج 
(10)واٹساپWhatsapp                                              () ایس ایم ایس
(12) موبائل                                                             (13)میموری کارڈ کے مسائل

ہندوستان کے سلگتے مسائل                   ہندوستان کے نئے مسائل
(۱)سول کوڈ                                                   برما کے مظلوم مسلمان
(۲)یکساں سول کوڈ                                           تین طلاق اور ہندوستان کی عدالت کا فیصلہ

Wednesday, September 13, 2017

تین طلاق

بسم اللہ الرحمن الرحیم

(جس کا ڈر تھا وہی ہوا)
ہمکو تو سوچی سمجھی سازش کے تحت فارم دیکر الجھا دیاگیا ،اور ہم اسی فارم کے فلپ کو فیصلہ کی بنیاد سمجھ بیٹھے جبکہ فسطائی طاقت اور فرعونی حکومت اپنے منصوبہ بندی کے تحت وہی کر گزری جس کا ڈر تھا ، ہمکو روتے ہوئے بچے کی طرح عدالت عظمیٰ اورپانچ ججوں کی پنچ کمیٹی کا سہا رابتایا گیا اور اس سلسلے میں حکومت اپنے آپکو مسلمان عورتوں کا ہمدرد بتلاتی رہی، جبکہ مسلم دانشوروں اورمذہبی رہنماؤں کو پہلے سے ہی یقین کامل تھا کہ مودی اپنے قول و عمل میں زمین و آسما ن کا تضاد رکھتے ہیں،لہذا ان کی مسلم ہمدردی کی باتوں کو سیاسی حربہ سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی جانی چاہئے۔
لیکن دیکھتے دیکھتے تین طلاق پر عدالت عالیہ کا وہی فیصلہ آچکا جس کا ہمیں ڈرتھا۔عدالت عالیہ نے اپنے فیصلہ میں کہاہے کہ تین طلاق غیر اسلامی اور آئین ہند کے خلاف ہے۔اس فیصلہ سے وہ پانچ مطلقہ مسلم خواتین خوش ہیں جنھوں نے بیک نشست تین طلاق کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا ،وہیں خواتین کی جانب سےلڑنے والا مسلم مہیلا آندولن بھی جوش و خروش میں مبتلا ہے،بی جے پی کے صدر امت شاہ نے بھی فیصلہ کو مسلم خواتین کو برابر ی کا حق ملنے کے سلسلے میں نئے دور کی شروعات سے تعبیر کیا ہے ،اسی طرح راج ناتھ سنگھ ،ارون چٹلی ،روی شنکرپرساد،مینکا گاندھی ،یوگی ادتیہ ناتھ ،سبرامنیم سوامی ،وجے گوئل، اندریش کمار ،شاذیہ علمی اور دیگر لیڈروں نے بھی خیر مقدم کیا،اور اس کو مسلمانوں کی جیت بتائی جارہی ہے ،کیا انگلیوں پرگنتی کی جانے والی مسلم عورتیں اور چند ایمان فروش مسلمانوں کی اس جیت کو ہندوستان میں بسنے والے تیئس کروڑ مسلمانوں کے خلاف عدالت عالیہ کے فیصلہ کو مسلمانوں کی جیت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ؟حکومت کو چند عورتیں نظر آئی لیکن اس کے مد مقابل میں پورے ہندوستان کی مسلم عورتیں نظر نہیں آئیں ؟
کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے اس کے مطابق کوئی شخص ایک ہی نشست میں تین طلاق دیتا ہے تو تین طلاق لاگو نہیں ہوگی۔ یہ نکتہ قابل غور ہے کیونکہ شریعت کے مطابق یہ طلاق واقع ہوجاتی ہے اگرچہ اس طرح کی طلاق دینے والا گناہگارہے، جب شرعی طور پر تین طلاق ہوجاتی ہے تو قانون اسے طلاق مانے یا نہ مانے اس سے کوئی فرق نہیں پرتا ہے اس صورت حال میں ایک ایمان والے کیلئے بڑا مشکل کا سامنا کرنا پڑیگا کہ مطلقہ ثلاثہ کے ساتھ وہی معاملہ کرے جوبیوی کےساتھ کیا جاتا ہےتو اس سے دوسرے بڑے بڑے مسائل پیدا ہونگے ؛بلکہ شریعت کی اصطلاح میں دونوں زانی کہلائیں گے۔
سپریم کورٹ نے اس مسئلہ پر مرکزی حکومت کو قانون سازی کیلئے چھ ماہ کا وقت دیا ہے۔ چھ ماہ تک کیلئے طلاق ثلاثہ پر روک لگا دی ہے۔ ایسی صورت میں حکومت کو اپنے طور پر من مانی انداز فیصلہ کرنے  اور یک طرفہ قانون سازی سے گریز کرنے کی اشدضرورت ہے۔ یہ ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کے مذہبی جذبات کا مسئلہ ہے۔ اس سے شریعت کے اصول اور قوانین وابستہ ہیں۔ ایک ایمان والے کیلئے اپنے جان ومال بلکہ پوری کائنات سے زیادہ محبوب قرآن وحدیث کی اتباع ہے جس کو وہ کسی بھی صورت میں چھوڑ نہیں سکتاایسے میں حکومت اپنے طور پر قانون سازی کرنے سے گریز کرے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے تمام مکاتیب فکر سے تعلق رکھنے والے علما کرام کی رائے حاصل کرکےوہی فیصلہ کیا جا ئے جو قرآن و احادیث سے ثابت شدہ ہے ۔
قائین کرام اگر آپ یہ مضمون پڑھلیں تو اسی ویب سے شائع شدہ مضمون طلاق اور ملک بھارت ضرور پڑھ لیں

ملک بھارت سلگتے مسائل