بسم اللہ الرحمن الرحیم
(جس کا ڈر تھا وہی ہوا)
ہمکو تو سوچی سمجھی سازش کے تحت فارم دیکر الجھا دیاگیا ،اور ہم اسی فارم کے فلپ کو فیصلہ کی بنیاد سمجھ بیٹھے جبکہ فسطائی طاقت اور فرعونی حکومت اپنے منصوبہ بندی کے تحت وہی کر گزری جس کا ڈر تھا ، ہمکو روتے ہوئے بچے کی طرح عدالت عظمیٰ اورپانچ ججوں کی پنچ کمیٹی کا سہا رابتایا گیا اور اس سلسلے میں حکومت اپنے آپکو مسلمان عورتوں کا ہمدرد بتلاتی رہی، جبکہ مسلم دانشوروں اورمذہبی رہنماؤں کو پہلے سے ہی یقین کامل تھا کہ مودی اپنے قول و عمل میں زمین و آسما ن کا تضاد رکھتے ہیں،لہذا ان کی مسلم ہمدردی کی باتوں کو سیاسی حربہ سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی جانی چاہئے۔
لیکن دیکھتے دیکھتے تین طلاق پر عدالت عالیہ کا وہی فیصلہ آچکا جس کا ہمیں ڈرتھا۔عدالت عالیہ نے اپنے فیصلہ میں کہاہے کہ تین طلاق غیر اسلامی اور آئین ہند کے خلاف ہے۔اس فیصلہ سے وہ پانچ مطلقہ مسلم خواتین خوش ہیں جنھوں نے بیک نشست تین طلاق کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا ،وہیں خواتین کی جانب سےلڑنے والا مسلم مہیلا آندولن بھی جوش و خروش میں مبتلا ہے،بی جے پی کے صدر امت شاہ نے بھی فیصلہ کو مسلم خواتین کو برابر ی کا حق ملنے کے سلسلے میں نئے دور کی شروعات سے تعبیر کیا ہے ،اسی طرح راج ناتھ سنگھ ،ارون چٹلی ،روی شنکرپرساد،مینکا گاندھی ،یوگی ادتیہ ناتھ ،سبرامنیم سوامی ،وجے گوئل، اندریش کمار ،شاذیہ علمی اور دیگر لیڈروں نے بھی خیر مقدم کیا،اور اس کو مسلمانوں کی جیت بتائی جارہی ہے ،کیا انگلیوں پرگنتی کی جانے والی مسلم عورتیں اور چند ایمان فروش مسلمانوں کی اس جیت کو ہندوستان میں بسنے والے تیئس کروڑ مسلمانوں کے خلاف عدالت عالیہ کے فیصلہ کو مسلمانوں کی جیت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ؟حکومت کو چند عورتیں نظر آئی لیکن اس کے مد مقابل میں پورے ہندوستان کی مسلم عورتیں نظر نہیں آئیں ؟
کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے اس کے مطابق کوئی شخص ایک ہی نشست میں تین طلاق دیتا ہے تو تین طلاق لاگو نہیں ہوگی۔ یہ نکتہ قابل غور ہے کیونکہ شریعت کے مطابق یہ طلاق واقع ہوجاتی ہے اگرچہ اس طرح کی طلاق دینے والا گناہگارہے، جب شرعی طور پر تین طلاق ہوجاتی ہے تو قانون اسے طلاق مانے یا نہ مانے اس سے کوئی فرق نہیں پرتا ہے اس صورت حال میں ایک ایمان والے کیلئے بڑا مشکل کا سامنا کرنا پڑیگا کہ مطلقہ ثلاثہ کے ساتھ وہی معاملہ کرے جوبیوی کےساتھ کیا جاتا ہےتو اس سے دوسرے بڑے بڑے مسائل پیدا ہونگے ؛بلکہ شریعت کی اصطلاح میں دونوں زانی کہلائیں گے۔
سپریم کورٹ نے اس مسئلہ پر مرکزی حکومت کو قانون سازی کیلئے چھ ماہ کا وقت دیا ہے۔ چھ ماہ تک کیلئے طلاق ثلاثہ پر روک لگا دی ہے۔ ایسی صورت میں حکومت کو اپنے طور پر من مانی انداز فیصلہ کرنے اور یک طرفہ قانون سازی سے گریز کرنے کی اشدضرورت ہے۔ یہ ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کے مذہبی جذبات کا مسئلہ ہے۔ اس سے شریعت کے اصول اور قوانین وابستہ ہیں۔ ایک ایمان والے کیلئے اپنے جان ومال بلکہ پوری کائنات سے زیادہ محبوب قرآن وحدیث کی اتباع ہے جس کو وہ کسی بھی صورت میں چھوڑ نہیں سکتاایسے میں حکومت اپنے طور پر قانون سازی کرنے سے گریز کرے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے تمام مکاتیب فکر سے تعلق رکھنے والے علما کرام کی رائے حاصل کرکےوہی فیصلہ کیا جا ئے جو قرآن و احادیث سے ثابت شدہ ہے ۔
قائین کرام اگر آپ یہ مضمون پڑھلیں تو اسی ویب سے شائع شدہ مضمون طلاق اور ملک بھارت ضرور پڑھ لیں
No comments:
Post a Comment
شکریہ آپکا کومینڈ مفتی صاحب کے میل تک پہنچ گیا