Monday, December 5, 2016

مسلم پرسنل لا میں عورت کا مقام

                                         
                                       





                                                    بسم اللہ الرَّحمٰن الرَّحیم

مسلم پرسنل لا میں عورت کا مقام

وَعَا شِرُواھُنَّ بِاالْمَعْرُوْفِ فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰیٓ اَنْ تَکرَھُوْا شَیْئاًوَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیرًا کَثیرًا(النساء۹۱)اوران عورتوں (بیویوں) کے ساتھ اچھی طرح زندگی بسرکرو اوراگروہ تم کوناپسندہوں توممکن ہے کہ تم ایک چیزکوناپسندکرواوراللہ تعالی اس کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھدے۔
بھارت کی حکومت اور کچھ نام نہاد مسلمان اسلام اورمسلمان کے مخالف طاقتوں کے آلہ کار کی جانب سے ٹیوی پر، پیپروں میں اسلام اورمسلمانوں کوبدنام کرنے کیلئے فرضی سوال اوراعتراض کئے جارہے ہیں کہ مسلم پرسنل لا ء کے تحت عورتوں پر ظلم ہورہاہے،مسلم پرسنل لاء میں عورتوں کے حقوق کی پامالی کی گئی ہے؛تواس وقت ہم اور آپ اس اعتراض کی حقیقت تک پہونچ کرایک منصف مزاج کے ساتھ تجزیہ کریں کہ عورت شریعت میں مظلوم ہیں،یاان ظالم وجابر حاکم کی حکومت میں؟

اس اعتراض کی حقیقت جاننے کیلئے یاد رکھیں! عموما عورتوں پر تین دور آتے ہیں (۱)بیٹی (۲) بیوی (۳) ماں
توآئیے ان تینوں احوال میں شریعت نے عورتوں کو کیامقام دیا ہے،اوران چور حکومتوں نے کس قدرعورتوں کے حقوق کو پامال کیا ہے بنظر غائر دیکھتے ہیں۔

عورت بیٹی کی شکل میں

نبی رحمت ﷺ نے لڑکیوں کی پرورش پر جو فضائل اور بشارتیں امت کیلئے سنائی ہیں ان میں چند احادیث تذکرہ کرتا ہوں،
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، اور وہ ان کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے زندگی گزارے (یعنی ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے) اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کی بدولت اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔ (ترمذی۔ باب ما جاء فی النفقہ علی البنات)
حضرت ابوہریرہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺکے ارشاد فرمانے پر کسی نے سوال کیا کہ اگر کسی کی ایک بیٹی ہو (تو کیا وہ اس ثواب عظیم سے محروم رہے گا؟) آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: جو شخص ایک بیٹی کی اسی طرح پرورش کرے گا، اس کے لئے بھی جنت ہے۔ (اتحاف السادۃ المتقین)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: جس شخص پر لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ہو اور وہ اس کو صبر وتحمل سے انجام دے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔ (ترمذی)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی دو یا تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھے انداز سے پرورش کرے (اور جب شادی کے قابل ہوجائیں تو ان کی شادی کردے) تو میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح داخل ہونگے جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں۔ (ترمذی۔ باب ما جاء فی النفقہ علی البنات)
حضرت عائشہؓ سے ایک قصہ منقول ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ایک خاتون میرے پاس آئی جس کے ساتھ اس کی دو لڑکیاں تھیں، اس خاتون نے مجھ سے کچھ سوال کیا، اس وقت میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہیں تھا، وہ کھجور میں نے اس عورت کو دیدی، اس اللہ کی بندی نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کئے اور ایک ایک ٹکڑا دونوں بچیوں کے ہاتھ پر رکھ دیا، خود کچھ نہیں کھایا، حالانکہ خود اسے بھی ضرورت تھی، اس کے بعد وہ خاتون بچیوں کو لے کر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے اس خاتون کے آنے اور ایک کھجور کے دو ٹکڑے کرکے بچیوں کو دینے کا پورا واقعہ سنایا۔ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: جس کو دو بچیوں کی پرورش کرنے کا موقع ملے اور وہ ان کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرے تو وہ بچیاں اس کو جہنم سے بچانے کے لئے آڑ بن جائیں گی۔ (ترمذی باب ماجاء فی النفقۃ علی البنات)
ان روایتوں پر غور کریں تو معلوم ہو جائیگاکہ آپ ﷺ نے لڑکیوں کی پیدائش،پرورش، کفالت،حسن سلوک،شادی اور اسکی ذمہ داری پر کس قدر فضائل بیان کئے ہیں،کسی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم سے چھٹکا را ہو جائیگا،تو کسی حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ جنت میں داخل ہو گا،اور آخری حدیث میں پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ایساشخص جنت میں میرے ساتھ ہو گا،یہ شریعت اسلامی کا لڑکی کے سلسلے میں ہدایات اور ان ہدایات پر عمل کرنے پر بشارتیں ہیں۔
دوسری جانب شریعت ومذہب سے ہٹ کر زندگی گزار نے والے کی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا،کہ عرب اورعجم اورخودہمارے ملک بھارت میں لڑکی کی پیدائش کومعیوب سمجھاجاتاتھا،اولاً انکو پیداہی نہیں ہو نے دیا جا تا،اور اگر پیدا ہو بھی جاتی تو کہیں بیٹی کو معیوب سمجھ کر زندہ زمین میں دفن کردیا جاتا، تو کہیں نان و نفقہ کے ڈر سے ماردیاجاتاتھا،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذَالمَوءُ دَۃُسُئلَتْ بِاَیِّ ذَنْبٍ م قُتِلَت(التکویرآیت۸)ترجمہ اورجب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھاجائے گاکہ وہ کس گناہ پرقتل کی گئی،
وَلَا تَقْتُلُوْااَوْلَادَکُمْْ خَشْیَۃَ اِْملَاقٍ (بنیٓ اسرائیل آیت۳۱)کہ رزق کے خوف سے تم اپنے بچوں قتل کیامت کرو۔
آپ ملک بھارت ہی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اس نظریئے بدکے تحت ابھی تک یہاں کی عوام زندگی گزاررہی ہے،اگرمعلوم ہوجاتاہے کہ پیٹ میں لڑکی ہے تو اس کو مختلف طریقوں سے ضائع کردیاجاتاہے،اوراس حمل کوضائع کرنے کے لئے دوا اورمشین کا استعمال کیاجاتاہے، آج کل تو ایسی مشین آگئی ہے جس سے رگ کودبادیتے ہیں اوروہ لڑکی مرجاتی ہے۔
اگرآپ کہتے ہیں کہ مفتی صاحب؟مشین والے نہیں بتاتے ہیں باضابطہ وہ بورڈ لگائے ہیں کہ یہاں الٹراسون میں،لڑکا،لڑکی،کا پتہ نہیں بتا یاجائیگا،یہ آپ کہہ رہے ہیں لیکن میں تویہ کہہ رہاہوں جہاں اس قسم کے بورڈ ہوتے ہیں وہی بتادیاجاتاہے،لیکن پوچھنے کا طریقہ الگ ہے،پھر فیس کے ساتھ ہزاروں میں گھوس بھی دیئے جاتے ہیں،اس وقت ملک کی حالت ایسی ہے کہ ہر اسٹیٹ میں لڑکی کی تناسب مسلسل کم ہوتی جارہی ہے چنانچہ یہاں رپوٹ نقل کررہاہوں ذرا اس پر بھی توجہ فرمالیں۔
علاقے اورصوبہ میں ہرایک ہزارمردپرعورتوں کی آبادی

علاقے اورصوبے
        ۱۹۸۱ ؁
         ۱۹۹۱ ؁
        ۲۰۰۱ ؁
دہلی
      ۸۰۸
        ۸۲۷
       ۸۲۱
اتر پر دیس
      ۸۸۵
        ۸۷۶
       ۸۹۸
راجستھان
      ۹۱۹
        ۹۱۰
       ۹۲۲
مدھیہ پردیس
     ۹۴۱
        ۹۱۲
       ۹۲۰
گجرات 
     ۹۴۲
       ۹۳۴
       ۹۲۱
مہاراشٹر
     ۹۳۷
       ۹۳۴
      ۹۲۲
گوا
     ۹۷۵
       ۹۶۷
      ۹۶۰

دمن
     ۱۰۶۲
        ۹۶۹
      ۷۰۹
مغربی بنگال
      ۹۱۱
        ۹۱۷
      ۹۳۴

اس تفصیلی اعداد وشمارسے آپ بخوبی جائزہ لے سکتے ہیں کہ ہندوستان میں دن بدن لڑکی کی پیدائش کم ہوتی جا رہی ہے اور اگر یہ صورت حال رہی تو پھر ملک بھارت کو ہلاکت سے کوئی حکومت بچا نہیں سکتی ہے،اوراس کا مکمل طور پرذمہ دار بھارت کی حکومت ہے؛ کیونکہ انھوں نے آج سے تقریبا ساٹھ سال قبل نسبندی کا اعلان کیا اور ایمرجنسی سے قبل تو اعلانات ہوتے رہے پیپروں میں آتے رہے اورایمرجنسی کے بعد تو زبردستی نسبندی کیاگیا اگر کوئی ریلوے میں بغیر ٹکٹ پکڑا جاتا تو پولس اسٹیشن میں اسکا سب سے پہلے نسبندی کردیاجاتا، کوئی غلطی یا کوئی جرم میں پکڑاجاتا تواسکی نسبندی کردیجاتی،گلی گلی نعرے لگائے گئے اگلابچہ ابھی نہیں،دوکے بعد کبھی نہیں۔پہلا بچہ ابھی نہیں،ایک کے بعد کبھی نہیں،کم سنتان سکھی کسان، اوریہ نعرہ ہم دوہمارے دو،توبہت بعد کا ہے،اس کانتیجہ یہ ہوا کہ لوگ لڑکے کے حمل کوبرقرار رکھنے لگے اور لڑکی کے حمل کوضائع کرنے لگے اوریہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ ملک بربادی کے آخری سیڑھی پرکھڑی ہے،

عورت بیوی کے شکل میں

والدین کے بعدانسان کا جو سب سے اہم تعلق ہے وہ زوجین کا تعلق ہے۔مردو عورت کا ازدواجی رشتے کی بنیاد پر محبت والفت سے ایسارشتہ قائم ہوتا ہے۔جس رشتہ کو خالق کائنات نے اپنی وحدانیت اور خالقیت کی نشانیوں میں شمار کیا ہے:وَمِنْ آیَاتِہٖ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃًوَّرَحْمَۃً اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍّ َیتَفَکَّرُوْنَ (روم آیت ۲۰/۲۱)اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے۔ تاکہ تم ان کے ذریعے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔ بے شک اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غورو فکر کرتے ہیں۔‘‘
بیوی کو مردہی جیسا مقام:۔ خَلَقَکُمْ مِنْ نِفْسٍٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا (النساء: ۱)اللہ نے تمہیں ایک انسان (حضرت آدم) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا۔
انسان ہونے میں مرد وعورت سب یکساں ہیں۔میاں بیوی میں بحیثیت انسان کے کوئی فرق نہیں ہے۔


نہ تو مرد کے

لئے مردانگی قابل فخر ہے اور نہ عورت کے لئے نسوانیت باعث عار ہے، دونوں باعتبار تخلیق کے برابر درجہ کا ہے ارشاد باری ہے،’’ لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘ (التین: ۴) ہم نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا۔ ان کے مابین فرق صرف اور صرف اعمال اور تقویٰ کی بنیاد پر ہے جو جتنا بڑا متقی ہو گاوہ اتناہی بڑا عند اللہ مقام ومرتبہ کا حامل ہوگا،
نکاح کی اہمیت:۔ النِّکاحُ مِنْ سُنَّتِی۔نکاح میری سنت ہے وقالَ فی الحدیث الآخر فَمَن رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّی پس جس نے میری سنت سے انکار کیاوہ مجھ میں سے نہیں،
بیوی کے ساتھ معاشرتی اہمیت:۔ وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْراً کَثِیْراً (النساء: ۹۱)اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے
حُبِّبَ الَیَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسَاءُ والطِّیُبُ وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِيْ فِی الصَّلوٰۃِ)  (النسائی )مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے،معلوم ہوا کہ بیوی ایک مرغوب شخصیت ہے،ان سے بے اعتنائی اور بے رغبتی ولایت کا معیار نہیں،
حسن معاشرت ایمان کی علامت:۔ خیرُکم خیرُکم لاہلہ وأنا خیرُکم لاہلي(مشکوٰ?، باب عشرۃ النساء)تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ہو اور خود میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔ایک دوسری حدیث میں ہے، انَّ أکْمَلَ المؤمنینَ ایماناً أحسنُہم خُلقاً وألطفُہم لأہلہ(مشکوٰۃعن ترمذی) 
کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال پرمہربان ہو۔
ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ (البقرہ: ۱۸۷) عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا۔یعنی مرد و عورت آپس میں لباس کے مانند ہیں،کہ جس طرح انسان کپڑے پہن کر زیب وزینت حاصل کرتا ہے اسی طرح مرد عورت کیلئے اور عورت مرد کیلئے زیب وزینت ہے،
بیوی کیلئے معاشی(نان ونفقہ) حقوق:۔عَلَی الْمُوسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ(البقرہ۶۳۲) صاحب وسعت کے ذمہ اسکے حیثیت کے موافق ہے اورتنگدست کے ذمہ اسکی حیثیت کے موافق(بیوی پر خرچ کر نا واجب ہے)
بیوی کو تکلیف دینا حرام ہے:۔وَلاَ تُمْسِکُوہُنَّ ضِرَاراً لِّتَعْتَدُواْ (البقرہ: ۱۳۲) ایذا دینے کے خیال سے بیوی کو(اپنی نکاح میں) نہ روک رکھوتاکہ تم (اس پر)زیادتی کرو۔
آج بڑے بے شرمی سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ اسلام میں عورت کو آزادی رائے کا حق نہیں ہے ان لوگوں کی خدمت میں بس ایک واقعہ ذکر کرنا چاہتاہوں،ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ:تم لوگوں کو متنبہ کیاجاتا ہے کہ عورتوں کامہر زیادہ نہ باندھو، اگر مہرزیادہ باندھنا دنیا کے اعتبار سے بڑائی ہوتی اور عنداللہ تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ مستحق ہوتے۔(ترمذی)حضرت عمرؓ کواس تقریر پر ایک عورت نے بھری مجلس میں ٹوکا اور کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں؛ حالاں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَآتَیْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہُ شَیْئاً (النساء: ۲۰)اور دیا ہے ان میں سے کسی ایک کو ڈھیر سا مان تو اس میں سے کچھ نہ لو،جب خدا نے جائز رکھا ہے کہ شوہر مہرمیں ایک قنطار بھی دے سکتا ہے تو تم اس کو منع کرنے والے کون ہوتے ہو۔ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر فرمایا کُلُّکُمْ أعْلم عمرؓم حضرت عمرؓ نے انکی اس رائے کو نہیں کاٹا بلکہ اس عورت کی آزادیِ رائے کے تحت با ت کو پسند کیا، 
ان تمام آیات واحادیث سے بیوی کا کیا مقام ہے بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔آج عقل سے پیدل اسلامی تعلیم سے عاری لوگ اسلام پراعتراض کرتے ہیں، کہ مسلمان اپنی بیوی کوتکلیف دیتے ہیں، ان بیہودہ گفتگو کرنے والے کو کیا معلوم!جس مذہب میں بلی کوستانے والے کو جہنم کاعذاب دیاگیا ہے،زبان نبوت نے اپنی امت کو تعلیم دیا،بخاری کی حدیث ہے کہ بلی کو ستانے والا جہنم میں گیا اور کتا کوپانی پلانے والی فاجرہ فاسقہ جنت میں گئی،تو وہ اسلام بیوی پر ظلم کرنے کی کیسے اجازت دے سکتی ہے۔یہ تو بیوی کا وہ مقام تھا جس کو شریعت نے مسلمانوں کو تعلیم دی ہے۔ 
ساتھ ہم ہلکی سی نگاہ غیروں کے مذہب پر بھی ڈالتے ہیں کہ ان کے یہاں بیوی (عورت)کا کیا مقام ہے؟ یونان کی قدیم تاریخ میں عورت ادنیٰ درجہ کی مخلوق ہے،روم میں عورت باپ کی پھرشوہر کی پھر نرینہ اولاد کی غلام ہے،عیسائی کے یہاں حضرت حوا کی غلطی کیوجہ سے انکی بیٹیاں یعنی عورتیں ہمیشہ محکوم رہے گی، ہندو مت میں عورت شوہر کو رات دن سون کرنے کیلئے ہے،خودہمارے ہندوستان میں ایک زمانے تک بیوی کوجب شوہرمرجاتاتو اسکو بھی شوہرکی چیتا میں جلادیاجاتا،اسلام کی مہربانی سے یہ سارے رسم ورواج ختم ہوگئے اور بیوی کو وہ مقام ملا جوکسی مذہب نے نہیں دیا،ابھی بھی عورت ان کے نزدیک ایک گِری پڑی چیز ہے،عورت کو ننگا کردیاگیا،اس کے جسم کو بیچا گیا، اس کے اخلاق وکردار کو بیچا گیا،اس کے ہرہر عضو کو بیچاگیا،جوحکومت بڑے بڑے ہوٹلوں میں ناچ کے لئے لائسنس دیتی ہو،جو حکومت بئیربار میں عورتوں کو ناچ نے کیلئے لائسنس دیتی ہو،زنا کے لئے اور فحش کام کے لئے لائسنس دیتی ہو،بلو فلم بنانے کے لئے جس ملک میں اجازت ملتا ہو، وہ حکومت عورتوں کی عزت کی بات کرے اورعورتوں پر ظلم کی بات کرے، کیا عورتوں کو ننگاکرنا،ان کے ساتھ بلوفلم بنانا،ان کے جسم کو بیچنا، اشتہار بازی کیلئے انکے ہر عضو کو نمائش کرنا،کیا یہ عورتوں پرظلم نہیں ہے،کیا یہ سارے کام حکومت کو نظر نہیں آتی ہے؟آتی ہے،اور آتی ہی نہیں ہے بلکہ ان کاموں کے لئے حکومت پرمیشن بھی دیتی ہے۔
عورتوں کیلئے تیسرا دور ماں والی ہے، آئیے ماں کے سلسلے میں موازنہ کر لیتے ہیں کہ شریعت میں ماں کو کیا مقام دیا گیا ہے اور حکومت کی نگا ہ میں ماں کی کیا اہمیت ہے؟

ماں کی اہمیت وفضیلت شریعت میں

ماں دنیاں کی وہ عظیم ترین ہستی ہے جوخالق کائنات کی عظیم ترین صفت رحمن ورحیم کامظہر ہے،انہیں کے واسطے سے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت خالقیت کا ظہور کیا،ماں کے فضائل پر جتنابھی لکھاجائے کم ہی پر جائیگاپھر بھی یہاں نہایت اختصار کے ساتھ چند آیات واحادیث پیش کررہاہوں جس سے ماں کو شریعت میں کیا مقام دیاگیا ہے بخوبی معلوم ہو جائیگا،ارشاد باری ہے: وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْما وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً،،(بنی اسرآئیل: ۲۳۔۲۴)اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سواکسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، اگر ماں باپ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، چاہے ان میں سے ایک پہنچے یا دونوں (تو) ان سے کبھی ’’ہوں‘‘ بھی مت کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے خوب اچھی طرح سے با ت کر نا، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا:اے ہمارے پروردگار! تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے، 
وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ إِحْسٰناً حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہاً وَّوَضَعَتْہُ کُرْہاً (احقاف ۱۵)کہ ہم نے انسان پر ضروری قرار دیا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے(کیونکہ)اس کی ماں نے تکلیف جھیل کر اسے پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا:ر ضا اللّٰہ مع رضا الوالدین و سخطُ اللّٰہِ مع سخطِ الوالدین(شعب الإیمان)یعنی اللہ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔ 
اِنَّ الجَنَّتَ تَحْتَ اَقْدَامِ الاِمَّھَات ترجمہ۔بیشک جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔یہ قرآن واحادیث ہیں جوہم کوماں کی اہمیت بتاتی ہے ماں کی خدمت کرنے والا جنتی ہے اوراس کو تکلیف دینے والا جہنمی ہے یہ تو ہے عورت کاوہ مقام جنکومذہب اسلام نے دیا ہے اس کے مدے مقابل غیروں کے یہاں ماں کاکیا تصور ہے مکمل اس کوبیان نہیں کرتا،یہ مختصر مضمون ہے تاہم اس سلسلے میں ایک چھوٹا واقعہ ذکر کردیتاہوں،جس سے اندازہ لگائیں گے ان غیرون نے ماں کوکتناذلیل ورسوا کیا ہے،

واقعہ

امریکہ کی ایک ریاست میں ایک ماں اپنے بیٹے کے خلاف مقدمہ دائرکیا کہ میرا بیٹا گھرمیں کتا پالاہواہے اوریہ روزانہ کتے کیساتھ تین چار گھنٹے صرف کرتاہے یہ اسے نہلاتا ہے اسکی ضروریات پوری کرتاہے،اسکواپنے ساتھ ٹہلنے کے لئے بھی لے جاتاہے،وہ اپنے کتے کوروزانہ سیر بھی کرواتاہے اسے کھلاتا،پلاتا بھی ہے میں بھی اسی گھر کے دوسرے کمرے میں رہتی ہوں؛ لیکن یہ میرے کمرے میں پانچ منٹ کے لئے بھی نہیں آتا،اسلئے عدالت کو چاہئے کہ وہ میرے بیٹے کو پابند کرے کہ وہ روزانہ میرے کمرہ میں آیا کرے جب ماں نے مقدمہ کیا تو بیٹے نے بھی مقدمہ لڑنے کے لئے تیاری کرلی،ماں نے وکیل بنالیا اوربیٹے نے بھی وکیل بنالیا جب دونوں کے وکیل جج صاحب کے سامنے پیش ہوئے تو جج صاحب نے مقدمہ کے سماعت کے بعد فیصلہ دیا اور ایسا فیصلہ کیا کہ استغفر اللہ پوری زمین کا نپ گئی ہو گی،ماں کی ممتا کے سمندر میں طغیانی آگئی ہو گی،جج نے فیصلہ کیاکہ عدالت آپ کے بیٹے کو آپ کے کمرے میں پانچ منٹ کیلئے بھی آنے پر مجبور نہیں کرسکتی کیونکہ مقامی قانون ہیکہ جب اولاد ۱۸ سال کی عمرکوپہنچ جائے،اس کوحق حاصل ہوتاہے کہ وہ اپنے ماں باپ کو چاہے تو کچھ وقت دے یا بالکل علیحدگی اختیار کرلے، رہی بات کتے کی تو کتے کے اس کے اوپر حقوق ہیں جن کو ادا کرنا اسکی ذمہ داری ہے البتہ اگر ماں کو کوئی تکلیف ہے تو اسکو چاہئے کہ وہ حکومت سے رابطہ کرے وہ اسے بوڑہوں کے گھر میں لے جائیں گے۔
اس مختصر سے مقالہ میں ہم نے عورتوں کے تینوں دور کا اسلامی نقطہ نظر اور غیروں کے نقطہ نظر سے موازنہ کیا ہے،اور اس موازنہ کے بعد فیصلہ کر نے کی ضرورت نہیں ہے،بس جس کا عقل ماؤف نہ ہوا ہو،قلم بک نہ گیا ہو،جس کادھرم بک نہ گیا ہو،وہ نہایت آسانی کے ساتھ بے ساختہ پکار اٹھے گا کہ اِنَّ .الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الِاسْلَامُ(اٰل عمران۱۹)
اللہ تعالیٰ سے دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے،آمین
نوٹ: مذکورہ مضمون دراصل میرا(مفتی عبداللہ عزرائیل صاحب) کابیان ہے جسکو ہم نے بروز جمعہ جامع مسجد میں کیا تھا اسی کو تحریری جامہ پہنا کر ترتیب نو اور تحقیق کے ساتھ حضرت مولانامحمد فیض الرحمن قاسمی استاذ مدرسہ دارالعلوم نورانی چند گڑھ نے افائد عام کے پیش نظر نیٹ سے شائع کیا ہے ،اللہ تعالیٰ شرف قبولیت سے نواز کر امت کے لئے اور خاص کرمعترض کیلئے ذریعہ ہدایت بنائیں۔آمین 

 ملک بھارت کے سلگتے مسائل پڑھنے کے نیچے کلک کریں

Wednesday, November 23, 2016

عالم اسلام میں مسلمان کا حال

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ازقلم حضرت مولانا اسرار صاحب قاسمی

عالم اسلام میں مسلمانوں کاحال


          یہ درست ہے کہ فی زمانہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب سے بھی زائد ہے، یعنی دنیا میں مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے جو پہلے کبھی بھی نہیں رہی۔ ایسے ہی یہ بھی درست ہے کہ مسلمانوں کے پاس درجنوں ممالک ہیں، جن میں سے بعض ممالک اقتصادی لحاظ سے کافی مضبوط ہیں اور وہاں قدرتی وسائل کی بھی فراوانی ہے۔ اس کے علاوہ جن ممالک میں حکومت مسلمانوں کی نہیں ہے، وہاں بھی مسلمان خاصی تعداد میں آباد ہیں۔ ہندوستان، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور ایشیا و افریقہ کے ملکوں میں مسلمان بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں، مگر اس کے باوجود یہ بھی تلخ حقیقت ہے،کہ وہ اتنی کثیر تعداد میں ہونے اور بے پناہ قدرتی وسائل و ذرائع سے لیس ہونے کے باوجود پسماندگی و زبوں حالی سے اس درجہ دوچار ہیں کہ پسماندگی وپستی کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ ملت اسلامیہ کو پستی کی تہوں سے نکالنے میں نہ ہی ایک ارب سے زائدافراد پر مبنی آبادی متاثر کن ثابت ہورہی ہے، نہ درجنوں مسلم حکومتیں مسلمانوں کو بحران سے نجات میں دینے میں معاون ثابت ہورہی ہیں اور نہ ہی تیل، پٹرول اور گیس جیسے وسائل ملت اسلامیہ کو ترقی دینے میں کوئی کردار ادا کر رہے ہیں۔جب کہ ماضی میں صورت حال اس کے برعکس تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب مسلمانوں کے پاس افرادی قوت نہ تھی، نہ ان کے پاس حربی سازو سامان تھا اور نہ ہی ان کے پاس قدرتی وسائل تھے، پھر بھی انہوں نے ترقی کے اعلی مدارج کو طے کیا تھا اور عالمی سطح پر اپنا مقام بنا یا تھا۔دنیا بھر میں وہ شجاعت و بہادری میں تو مشہور تھے ہی، لیکن سائنس،ٹیکنالوجی اور مختلف علوم میں بھی انہوں نے اپنی بالادستی قائم کر رکھی تھی، ان کی تہذیب کے دنیا بھر میں چرچے تھے۔ ان کے عدل و انصاف کے اپنے وغیر سب قائل تھے۔ وہ ایک زندہ قوم تھے، جو دنیا کی قیادت و امامت کرنے کے لیے پیدا ہوئے تھے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ہمت و شجاعت سے بڑے بڑے فتنوں وظالموں کومٹاڈالا تھا اور انہوں نے دنیائے انسانیت کو مصائب و آفات سے بچانے کے لیے آندھیوں اور طوفانوں کا رخ موڑ دیا تھا۔ ماضی کے مسلمانوں نے نہ صرف اپنے بھائیوں کو ترقی کے مواقع فراہم کیے تھے، بلکہ ساری انسانیت کی بھلائی کے لیے انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دیے تھے۔
آج وہ منظر نامہ بالکل بدل گیا ہے۔ اب مسلمان صفحہ ہستی پر موجود مختلف بے شمار لوگوں کی قیادت و رہبری کے فرائض تو کیا انجام دیتے خو د دوسروں کی رہبری کے محتاج ہوگئے۔ ساری دنیا کے لوگوں کو پسماندگی وجہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے کیا نکالتے وہ خود ہی زبوں حالی کے شکار ہوگئے اور اپنی ڈوبتی نیا کو کنارے لگانے کے لیے دوسری قوموں کا سہارا لینے لگے۔ دنیا میں وہ جہاں کہیں بھی رہتے ہیں پریشانی و مسائل میں گھرے رہتے ہیں۔ ان کے اوپر خوف کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔ کوئی جگہ ان کے لیے محفوظ نہیں، کسی بھی سطح پر ان کا مستقبل تاب ناک نہیں۔ نہ تعلیمی سطح پر، نہ سماجی سطح پر، نہ مذہبی سطح پر، نہ سیاسی سطح پر اور نہ اقتصادی سطح پر۔
سوال یہ ہے کہ آخر اتنی بڑی تبدیلی کیوں واقع ہوگئی؟ کیوں مسلمان ترقی کی چوٹیوں سے گر کرپسماندگی کے ایسے گڑھوں میں گر گئے جہاں سے ان کا نکلنا دشوارتر ہے؟ افراد ان کے پاس، حکومتیں ان کے پاس، وسائل ان کے پاس، اس کے باوجود ان کا وجود کیوں منتشر ہورہا ہے؟ ان کے مسائل میں کیوں اضافہ ہورہا ہے؟ یہ سوچنے کا مقام ہے۔ اس لیے کہ اگر ملت اسلامیہ نے اپنے زوال و انحطاط کے اسباب کو تلاش کرنے کی کو شش نہ کی اور مستقبل کا کوئی لائحہ عمل طے نہ کیا تو پھر آنے والی نہ جانے کتنی صدیاں دنیا کے مسلمانوں کے لیے اور زیادہ تاریک ثابت ہوسکتی ہیں۔
مسلمانوں کے زوال پر گہری نگاہ ڈالنے کے بعد جو اسباب سامنے آتے ہیں ان میں سے ایک ان کے درمیان اتحاد کا فقدان اور اختلافات کا فروغ ہے۔آ ج صورت حال یہ ہے کہ اگر کسی گاؤں یاقصبہ میں چند سو مسلمان ہیں تو وہ مختلف مسلکوں اور برادریوں میں تقسیم ہیں۔پھر مسلک اور برادری کی خلیجیں اتنی گہری ہیں، جو ایک دوسرے کو قریب نہیں ہونے دیتیں۔وہ مسلمان جو خود کو اعلی برادریوں سے منسلک سمجھتے ہیں وہ دوسری برادریوں کے ساتھ میل جول رکھنا پسند نہیں کرتے یا پھر انہیں حقارت سے دیکھتے ہیں۔ برادری کی خلیجیں افسوس اس قدر گہری ہوگئی ہیں کہ بعض دیہاتوں میں مسجدیں تک اپنی اپنی بنالی گئی ہیں۔اگر بات مسلکی اختلاف کی کی جائے تو اکثر و بیشتر مسلک کے نام پر لڑائی جھگڑوں کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ اختلاف صرف اور صرف برادریوں یا مسلکوں تک محدود نہیں، بلکہ اختلاف مسلم ملکوں و حکومتوں کے درمیان بھی پا یا جاتا ہے۔ آج مسلم حکومتوں و مملکتوں کی تعداد پچاس سے زائد بتائی جاتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ باہم متحد نہیں، بلکہ سخت اختلافات کی شکار ہیں۔ کہیں وہ باہم متصادم ہیں تو کہیں ایک دوسرے کی ترقی کو روکنے کے لیے کوشاں ہیں۔گذشتہ چنددہائیوں کے درمیان کئی مسلم ممالک باہم زارونزار ہوچکے ہیں۔اور آج بھی جب کہ حالات ان کے خلاف ہیں وہ ایک پلیٹ فارم پر نظر نہیں آتے اور نہ ہی دوسرے مسلم ملک کے تحفظ کے لیے کوئی کردار ادا کرتے ہیں۔ عراق پر حملہ کیا گیا۔ لیکن اس سے پہلے امریکہ اور اس کے حلیف ممالک نے کئی بار دھمکیاں دیں اور ماحول تیار کیا، لیکن مسلم ممالک نے امریکی حملہ کو روکنے کے لیے کوئی دلچسپی نہ لی۔ شاید اس لیے کہ ان کے عراق سے اختلاف رہ چکے تھے۔وقت کا تقاضہ تھا کہ پرانی رنجشوں کو اس موقع پر ختم کر دیا جاتا یا کم از کم عراق کے عام لوگوں کی ہلاکتوں کے بارے میں سوچ کر عراق پر ہونے والے حملے کی سخت مخالفت کرنی چاہیے تھی، تاکہ لاکھوں مسلمانوں کی جانوں کے ضیاع کو روکا جاتا۔ یہی صورت حال افغانستان میں بھی پیش آئی۔ امریکہ کو حملہ کرنے سے روکنے کی کسی نے کوشش ہی نہ کی بلکہ بعض توالٹے امریکہ کا ہی ساتھ دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ اس اختلاف نے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا یا ہے۔
قرآن میں مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک تمام مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔ احادیث کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مسلمان بھائیو ں کے دکھ در د کو محسو س کرنا چاہیے۔ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان کالے گورے، عربی عجمی اور امیر و غریب کے درمیان کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔لیکن مذکورہ آیت اور احادیث پر ملت اسلامیہ کے زیادہ تر افراد عمل پیرا نظر نہیں آتے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب مسلمانوں کاعمل قرآن و حدیث کے خلاف ہوگا تو انہیں مسائل سے کیسے نجات مل سکتی ہے اور وہ اپنا وہ فریضہ کیسے انجام دے سکتے ہیں جو انہیں انجام دینا چاہیے۔ملت اسلامیہ کی کام یابی کے لیے سب سے موثر کن چیز مذہب ’’اسلام‘‘ ہے۔ اگرچہ اسلام کو مبعوث ہوئے چودہ صدیاں گزرچکی ہیں، تاہم ہنوز اسلام محفوظ ہے۔قرآن جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا وہ آج بھی اپنی اصلی شکل میں موجود ہے، اس کی کسی آیت میں ترمیم تو در کنار، ایک حرف اور نقطہ یا زبر زیر تک میں تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا بڑا ذخیرہ آج بھی محفوظ ہے۔ علاوہ ازیں علمائے کرام، فقہاء اور مفسرین کی مرتب کردہ تصانیف بھی موجود ہیں۔ اگر ساری دنیا کے مسلمان دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اوراس پر عمل پیرا ہوں تو وہ اپنا کھویا ہوا مقام پھر دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔کیوں کہ دین پر مکمل عمل کا مطلب ہے کہ وہ باہم اختلاف کے شکار نہ ہوں گے، وہ کسی کے حقوق غصب نہ کریں گے، ان میں کا کوئی فرد جھوٹ نہ بولے گا، وعدہ خلافی نہ کرے گا، کسی کا دل نہ دکھائے گا، جرائم میں ملوث نہ ہوگا،زنا کاری و فحاشی سے دور بھا گے گا۔ کوئی بھی مسلمان کسی کو قتل نہ کرے گا۔ کسی کی غیبت نہ کرے گا، کسی کی ترقی پر حسد نہ کرے گا، فقیر و محتاج کو نہ دھتکارے گا اور کوئی شخص لایعنی باتوں میں وقت ضائع نہ کرے گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب سچائی، انصاف، برابری، حقوق کی تکمیل،مسکینوں و ضرورت مندوں کی داد رسی جیسے بہترین اوصاف سے تمام مسلمان مزین ہوں گے تو پھر انہیں کام یابی کے اعلی مدارج کو طے کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ وہ دنیا میں بھی کام یاب ہوں گے اور آخرت میں بھی فلاح یابی ان کے قدم چومے گی۔ قرآن وحدیث پر مکمل عمل کرنے کی وجہ سے ان کے اندر ساری دنیا کی قیادت و امامت کی صلاحیت ابھر آئے گی۔ جس کے باعث وہ اہل دنیا کو فتنوں سے محفوظ رکھنے اور انہیں بدعنوانیوں وپریشانیوں سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کرسکیں گے۔

ملک بھارت کے سلگتے مسائل پڑھنے کے نیچے کلک کریں

Sunday, November 20, 2016

پتنجلی کی چیزیں حرام ہیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پتنجلی کی چیزیں حرام ہیں

الحمد للہ رب العٰلمین الرحمن الرحیم،مالک یو م الدین
    میں رمضان المبارک کے بعد جب شہر چند گڑھ تشریف لایا تو ایک بندہ نے چلتے چلتے مجھ سے دریافت کیا کہ مفتی صاحب میرے والد محتر م نے آج میرے گھر میں پتن جلی کمپنی کا صابن وغیرہ خریدکر لایاہے، اسکا استعمال کر سکتے ہیں؟ میں نے ان سے کہا بھا ئی پتن جلی کمپنی کا مالک ’’رام دیو بابا ‘‘نے ایک انٹر ویو میں ٹیوی پرکہاتھا کہ ہم کائے کا پیشاب ملاتے ہیں،اگر مسلمان نہیں استعمال کرتے ہیں تو یہ انکی مرضی ہے، ہماری قوم اسکو اپنے لئے پوتر سمجھ تی ہے،اور اس کو استعمال کرتی ہے؛ اس لئے ہم اپنے پروجکٹ میں گاؤمتر ملاتے ہیں۔اس لئے اس پس منظر میں پتنجلی کے پروجکٹ کا استعمال کرنا جائزنہیں ہے،میں نے یہ جواب تو انکو دے دیا لیکن میں نے اسی وقت ارداہ کیا کہ اس بات کو پورے عوام کے سام آنا چاہیے، جس کے لئے ہمیں اس عنوان پر کسی جمعہ بات کرنی ہوگی ،لیکن درمیان میں حکومت نے کچھ ایسے مسائل پیش کردئے (یکساں سول کوڈوغیرہ)جس پر تبصرہ کرنا اور امت کے لئے راہ عمل کیلئے نشادہی کرنا نہایت ضروری تھا؛اس لئے مذکورہ عنوان پر اب تک مذاکرہ نہ کر سکااور آج بتایخ 11۔11۔2016 کواپنے مسلمان بھائیوں کو قرآن واحادیث کی روشنی میں ا سی عنوان کے تحت مذاکرہ کرنا چاہتا ہوں،تو آج صرف ہم پتنجلی کے پروجکٹ پر گفتگو نہیں کریں کہ بلکہ اس گفتگو کا تعلق ہر اس سامان سےہے جس میں کسی قسم کا حرام چیز ملاگیا ہو۔
تواس وقت آپکی خدمت میں کل دو باتیں عرض کرونگا، (۱) جن چیزوں میں حر ام چیزیں مثلا:گائیکا پیشاب،سوگر کی چربی، مردار کی ہڈی کا رس،حرام جانور کی چربی یا گوشت وغیرہ ڈال کر بنایا جائے،انکوبطور دواکے استعمال کرنا،(۲)دواکے علاودوسریکاموں میں استعمال کرنا،
نمبر ۱؂ کہ جن چیزوں میں گائے کا پیشاب وغیرہ ڈالاگیا ہو اس کو بطور دواکے استعمال کی دو صورتیں ہیں ۱؂ پہلی صورت داخلی (جسم کے اندرونی) طورپر استعمال کرنا،اس کا تفصیلی حکم یہ ہے کہ اگر اضطراری حالت ہوکہ اس کے بغیر آدمی مرجائے گا،تو بھر ایسی دوا کا استعمال کرنا جائز ہے،اگر اضطرار کی حالت نہ ہو مگر بیماری اور تکلیف کی شدت ایسی ہو جو مریض کو بے چین کردے اور خطرہ ہو کہ مرض شدت پکڑ لیگا،تو اس صورت میں حرام اور نجس دوا کو استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جمہور فقہاء اس کی اجازت دیتے ہیں، بشرطیکہ کسی معتمد مسلم ڈاکٹر کی رائے میں اس کے علاوہ کوئی علاج نہ ہو اور اس حرام چیز سے بیماری اور تکلیف دور ہوجانے کا پورا یقین ہو،اگر جان کا خطرہ نہ ہو اور مرض کی شدت بھی نہ ہو، مگر مرض کی مدت بہت زیادہ طویل ہونے کا معاملہ ہو تو اس صورت میں بھی بعض فقہاء نے حرام کے استعمال کی اجازت دی ہے، لیکن اجتناب بہتر ہے۔ اور اگرطوالت کا اندیشہ بھی نہ ہو، صرف بدن کی تقویت یا حسن میں اضافہ اور تفریحِ طبع یا محض ہوس رانی مقصود ہو تو حرام اور نجس شے کے استعمال کرنے کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔،اوپر کی پوری تفصیل اندواؤں کے متعلق ہیں جن دواؤ میں حرام چیز بعینہ موجود ہوں، اگر وہ حرام چیز کسی تکنیکی اعتبار سے بعینہ موجود نہ رہے جیسے کہ بعض دواؤں میں جو الکحل ہو تی ہے اسکی حقیقت بدل جاتی ہے اور وہ اپنے جسم وجثہ کے ساتھ دوا میں نہیں رہتا ہے، تو ایسے دواؤں کا استعمال مطلقاً جائز ہے،یہ پوری تفصیل ان دواؤں کے متعلق ہوئی جنکو داخلی طور پر استعمال کیا جا تا ہے،۲؎ دوسری صورت: اگر ایسی دواؤں کو خارجی طور پر استعما کیا جائے تو مطلقاًجائز ہے،ہاں اگر وہ دوا ایسی ہیجس میں حرام چیز بعینہ موجود ہو، تو جن جگہوں پر ان دواؤں کو لگا یا ہے وہ جگہیں ناپاک ہو جائیگا اگر کپڑا میں لگ جائے تو کپڑا بھی ناپاک ہو جائیگا نماز پڑھنے سے پہلے انکو دھونا پڑیگا،
اب ہم ان چیزوں کے احکام کا تذکرہ کرتے ہیں جن میں حرام چیز پیشاب وغیرہ ڈالاجا تا ہے اور اسکا استعمال دواکے علاوہ کاموں میں کیا جا تا ہو،جیسے کہ پتنجلی کی اکثر پروجکٹ،اس سلسلے میں ہم دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ پیش کرتے ہیں ، دارالا فتا سے کسی نے پتنجلی کےسامان کے متعلق دریافت کیا تو دارالافتاسے جواب ملتا ہے ’’پتنجلی کی مصنوعات میں اگر پیشاب کی آمیزش ہو،تو اس کا استعمال کرنا جائز نہیں، لہذا جن مصنوعات میں گائے کے پیشاب کی آمیزش کا خود کمپنی والے اعتراف کریں، یا کسی دوسرے ذرائع سے یقین یا ظن غالب کی حد تک پیشاب کی آمیزش کا علم ہوجائے،ان کا استعمال ناجائز ہے، باقی چیزیں جن میں پیشاب کی آمیزش نہ ہونا یقینی طور پر معلوم ہو ان کا استعمال جائز ہے۔ اور یقینی طور سے معلوم نہ ہوسکنے کی صورت میں احتیاط کرلینا بہتر ہے‘‘(Fatwa ID: 934۔757/D23611 /1437) 
اس فتویٰ کی روشنی میں اچھی طرح معلوم ہو گیا،کہ پتن جلی کے مصنوعات کا کیا حکم ہے،
نوٹ: اوپر میں جس بیان کو تحریری شکل میں پیش کیا گیا ہے،اس بیان کا ایک حصہ عاجز نے حذف کردیا ہے،اور بہت ہی اختصار اور اضافہ یسیر کے ساتھ جمع کر کے زاد آخرت کے لئے تمام امت کے سامنے پیش کیا ہے،اللہ تعالیٰ پوری امت کی حفاظت فرمائے۔آمین

 ملک بھارت کے سلگتے مسائل پڑھنے کے نیچے کلک کریں