Monday, December 5, 2016

مسلم پرسنل لا میں عورت کا مقام

                                         
                                       





                                                    بسم اللہ الرَّحمٰن الرَّحیم

مسلم پرسنل لا میں عورت کا مقام

وَعَا شِرُواھُنَّ بِاالْمَعْرُوْفِ فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰیٓ اَنْ تَکرَھُوْا شَیْئاًوَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیرًا کَثیرًا(النساء۹۱)اوران عورتوں (بیویوں) کے ساتھ اچھی طرح زندگی بسرکرو اوراگروہ تم کوناپسندہوں توممکن ہے کہ تم ایک چیزکوناپسندکرواوراللہ تعالی اس کے اندر کوئی بڑی منفعت رکھدے۔
بھارت کی حکومت اور کچھ نام نہاد مسلمان اسلام اورمسلمان کے مخالف طاقتوں کے آلہ کار کی جانب سے ٹیوی پر، پیپروں میں اسلام اورمسلمانوں کوبدنام کرنے کیلئے فرضی سوال اوراعتراض کئے جارہے ہیں کہ مسلم پرسنل لا ء کے تحت عورتوں پر ظلم ہورہاہے،مسلم پرسنل لاء میں عورتوں کے حقوق کی پامالی کی گئی ہے؛تواس وقت ہم اور آپ اس اعتراض کی حقیقت تک پہونچ کرایک منصف مزاج کے ساتھ تجزیہ کریں کہ عورت شریعت میں مظلوم ہیں،یاان ظالم وجابر حاکم کی حکومت میں؟

اس اعتراض کی حقیقت جاننے کیلئے یاد رکھیں! عموما عورتوں پر تین دور آتے ہیں (۱)بیٹی (۲) بیوی (۳) ماں
توآئیے ان تینوں احوال میں شریعت نے عورتوں کو کیامقام دیا ہے،اوران چور حکومتوں نے کس قدرعورتوں کے حقوق کو پامال کیا ہے بنظر غائر دیکھتے ہیں۔

عورت بیٹی کی شکل میں

نبی رحمت ﷺ نے لڑکیوں کی پرورش پر جو فضائل اور بشارتیں امت کیلئے سنائی ہیں ان میں چند احادیث تذکرہ کرتا ہوں،
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، اور وہ ان کے ساتھ بہت اچھے طریقے سے زندگی گزارے (یعنی ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے) اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کی بدولت اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے۔ (ترمذی۔ باب ما جاء فی النفقہ علی البنات)
حضرت ابوہریرہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺکے ارشاد فرمانے پر کسی نے سوال کیا کہ اگر کسی کی ایک بیٹی ہو (تو کیا وہ اس ثواب عظیم سے محروم رہے گا؟) آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: جو شخص ایک بیٹی کی اسی طرح پرورش کرے گا، اس کے لئے بھی جنت ہے۔ (اتحاف السادۃ المتقین)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: جس شخص پر لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ہو اور وہ اس کو صبر وتحمل سے انجام دے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔ (ترمذی)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی دو یا تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھے انداز سے پرورش کرے (اور جب شادی کے قابل ہوجائیں تو ان کی شادی کردے) تو میں اور وہ شخص جنت میں اس طرح داخل ہونگے جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں۔ (ترمذی۔ باب ما جاء فی النفقہ علی البنات)
حضرت عائشہؓ سے ایک قصہ منقول ہے، وہ فرماتی ہیں کہ ایک خاتون میرے پاس آئی جس کے ساتھ اس کی دو لڑکیاں تھیں، اس خاتون نے مجھ سے کچھ سوال کیا، اس وقت میرے پاس سوائے ایک کھجور کے اور کچھ نہیں تھا، وہ کھجور میں نے اس عورت کو دیدی، اس اللہ کی بندی نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کئے اور ایک ایک ٹکڑا دونوں بچیوں کے ہاتھ پر رکھ دیا، خود کچھ نہیں کھایا، حالانکہ خود اسے بھی ضرورت تھی، اس کے بعد وہ خاتون بچیوں کو لے کر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے اس خاتون کے آنے اور ایک کھجور کے دو ٹکڑے کرکے بچیوں کو دینے کا پورا واقعہ سنایا۔ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: جس کو دو بچیوں کی پرورش کرنے کا موقع ملے اور وہ ان کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرے تو وہ بچیاں اس کو جہنم سے بچانے کے لئے آڑ بن جائیں گی۔ (ترمذی باب ماجاء فی النفقۃ علی البنات)
ان روایتوں پر غور کریں تو معلوم ہو جائیگاکہ آپ ﷺ نے لڑکیوں کی پیدائش،پرورش، کفالت،حسن سلوک،شادی اور اسکی ذمہ داری پر کس قدر فضائل بیان کئے ہیں،کسی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم سے چھٹکا را ہو جائیگا،تو کسی حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ جنت میں داخل ہو گا،اور آخری حدیث میں پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ایساشخص جنت میں میرے ساتھ ہو گا،یہ شریعت اسلامی کا لڑکی کے سلسلے میں ہدایات اور ان ہدایات پر عمل کرنے پر بشارتیں ہیں۔
دوسری جانب شریعت ومذہب سے ہٹ کر زندگی گزار نے والے کی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا،کہ عرب اورعجم اورخودہمارے ملک بھارت میں لڑکی کی پیدائش کومعیوب سمجھاجاتاتھا،اولاً انکو پیداہی نہیں ہو نے دیا جا تا،اور اگر پیدا ہو بھی جاتی تو کہیں بیٹی کو معیوب سمجھ کر زندہ زمین میں دفن کردیا جاتا، تو کہیں نان و نفقہ کے ڈر سے ماردیاجاتاتھا،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذَالمَوءُ دَۃُسُئلَتْ بِاَیِّ ذَنْبٍ م قُتِلَت(التکویرآیت۸)ترجمہ اورجب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھاجائے گاکہ وہ کس گناہ پرقتل کی گئی،
وَلَا تَقْتُلُوْااَوْلَادَکُمْْ خَشْیَۃَ اِْملَاقٍ (بنیٓ اسرائیل آیت۳۱)کہ رزق کے خوف سے تم اپنے بچوں قتل کیامت کرو۔
آپ ملک بھارت ہی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ اس نظریئے بدکے تحت ابھی تک یہاں کی عوام زندگی گزاررہی ہے،اگرمعلوم ہوجاتاہے کہ پیٹ میں لڑکی ہے تو اس کو مختلف طریقوں سے ضائع کردیاجاتاہے،اوراس حمل کوضائع کرنے کے لئے دوا اورمشین کا استعمال کیاجاتاہے، آج کل تو ایسی مشین آگئی ہے جس سے رگ کودبادیتے ہیں اوروہ لڑکی مرجاتی ہے۔
اگرآپ کہتے ہیں کہ مفتی صاحب؟مشین والے نہیں بتاتے ہیں باضابطہ وہ بورڈ لگائے ہیں کہ یہاں الٹراسون میں،لڑکا،لڑکی،کا پتہ نہیں بتا یاجائیگا،یہ آپ کہہ رہے ہیں لیکن میں تویہ کہہ رہاہوں جہاں اس قسم کے بورڈ ہوتے ہیں وہی بتادیاجاتاہے،لیکن پوچھنے کا طریقہ الگ ہے،پھر فیس کے ساتھ ہزاروں میں گھوس بھی دیئے جاتے ہیں،اس وقت ملک کی حالت ایسی ہے کہ ہر اسٹیٹ میں لڑکی کی تناسب مسلسل کم ہوتی جارہی ہے چنانچہ یہاں رپوٹ نقل کررہاہوں ذرا اس پر بھی توجہ فرمالیں۔
علاقے اورصوبہ میں ہرایک ہزارمردپرعورتوں کی آبادی

علاقے اورصوبے
        ۱۹۸۱ ؁
         ۱۹۹۱ ؁
        ۲۰۰۱ ؁
دہلی
      ۸۰۸
        ۸۲۷
       ۸۲۱
اتر پر دیس
      ۸۸۵
        ۸۷۶
       ۸۹۸
راجستھان
      ۹۱۹
        ۹۱۰
       ۹۲۲
مدھیہ پردیس
     ۹۴۱
        ۹۱۲
       ۹۲۰
گجرات 
     ۹۴۲
       ۹۳۴
       ۹۲۱
مہاراشٹر
     ۹۳۷
       ۹۳۴
      ۹۲۲
گوا
     ۹۷۵
       ۹۶۷
      ۹۶۰

دمن
     ۱۰۶۲
        ۹۶۹
      ۷۰۹
مغربی بنگال
      ۹۱۱
        ۹۱۷
      ۹۳۴

اس تفصیلی اعداد وشمارسے آپ بخوبی جائزہ لے سکتے ہیں کہ ہندوستان میں دن بدن لڑکی کی پیدائش کم ہوتی جا رہی ہے اور اگر یہ صورت حال رہی تو پھر ملک بھارت کو ہلاکت سے کوئی حکومت بچا نہیں سکتی ہے،اوراس کا مکمل طور پرذمہ دار بھارت کی حکومت ہے؛ کیونکہ انھوں نے آج سے تقریبا ساٹھ سال قبل نسبندی کا اعلان کیا اور ایمرجنسی سے قبل تو اعلانات ہوتے رہے پیپروں میں آتے رہے اورایمرجنسی کے بعد تو زبردستی نسبندی کیاگیا اگر کوئی ریلوے میں بغیر ٹکٹ پکڑا جاتا تو پولس اسٹیشن میں اسکا سب سے پہلے نسبندی کردیاجاتا، کوئی غلطی یا کوئی جرم میں پکڑاجاتا تواسکی نسبندی کردیجاتی،گلی گلی نعرے لگائے گئے اگلابچہ ابھی نہیں،دوکے بعد کبھی نہیں۔پہلا بچہ ابھی نہیں،ایک کے بعد کبھی نہیں،کم سنتان سکھی کسان، اوریہ نعرہ ہم دوہمارے دو،توبہت بعد کا ہے،اس کانتیجہ یہ ہوا کہ لوگ لڑکے کے حمل کوبرقرار رکھنے لگے اور لڑکی کے حمل کوضائع کرنے لگے اوریہ سلسلہ اتنا بڑھا کہ ملک بربادی کے آخری سیڑھی پرکھڑی ہے،

عورت بیوی کے شکل میں

والدین کے بعدانسان کا جو سب سے اہم تعلق ہے وہ زوجین کا تعلق ہے۔مردو عورت کا ازدواجی رشتے کی بنیاد پر محبت والفت سے ایسارشتہ قائم ہوتا ہے۔جس رشتہ کو خالق کائنات نے اپنی وحدانیت اور خالقیت کی نشانیوں میں شمار کیا ہے:وَمِنْ آیَاتِہٖ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃًوَّرَحْمَۃً اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍّ َیتَفَکَّرُوْنَ (روم آیت ۲۰/۲۱)اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے۔ تاکہ تم ان کے ذریعے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔ بے شک اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غورو فکر کرتے ہیں۔‘‘
بیوی کو مردہی جیسا مقام:۔ خَلَقَکُمْ مِنْ نِفْسٍٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا (النساء: ۱)اللہ نے تمہیں ایک انسان (حضرت آدم) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا۔
انسان ہونے میں مرد وعورت سب یکساں ہیں۔میاں بیوی میں بحیثیت انسان کے کوئی فرق نہیں ہے۔


نہ تو مرد کے

لئے مردانگی قابل فخر ہے اور نہ عورت کے لئے نسوانیت باعث عار ہے، دونوں باعتبار تخلیق کے برابر درجہ کا ہے ارشاد باری ہے،’’ لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘ (التین: ۴) ہم نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا۔ ان کے مابین فرق صرف اور صرف اعمال اور تقویٰ کی بنیاد پر ہے جو جتنا بڑا متقی ہو گاوہ اتناہی بڑا عند اللہ مقام ومرتبہ کا حامل ہوگا،
نکاح کی اہمیت:۔ النِّکاحُ مِنْ سُنَّتِی۔نکاح میری سنت ہے وقالَ فی الحدیث الآخر فَمَن رَغِبَ عَنْ سُنَّتِی فَلَیْسَ مِنِّی پس جس نے میری سنت سے انکار کیاوہ مجھ میں سے نہیں،
بیوی کے ساتھ معاشرتی اہمیت:۔ وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْراً کَثِیْراً (النساء: ۹۱)اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے
حُبِّبَ الَیَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسَاءُ والطِّیُبُ وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِيْ فِی الصَّلوٰۃِ)  (النسائی )مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے،معلوم ہوا کہ بیوی ایک مرغوب شخصیت ہے،ان سے بے اعتنائی اور بے رغبتی ولایت کا معیار نہیں،
حسن معاشرت ایمان کی علامت:۔ خیرُکم خیرُکم لاہلہ وأنا خیرُکم لاہلي(مشکوٰ?، باب عشرۃ النساء)تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ہو اور خود میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔ایک دوسری حدیث میں ہے، انَّ أکْمَلَ المؤمنینَ ایماناً أحسنُہم خُلقاً وألطفُہم لأہلہ(مشکوٰۃعن ترمذی) 
کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال پرمہربان ہو۔
ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ (البقرہ: ۱۸۷) عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا۔یعنی مرد و عورت آپس میں لباس کے مانند ہیں،کہ جس طرح انسان کپڑے پہن کر زیب وزینت حاصل کرتا ہے اسی طرح مرد عورت کیلئے اور عورت مرد کیلئے زیب وزینت ہے،
بیوی کیلئے معاشی(نان ونفقہ) حقوق:۔عَلَی الْمُوسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ(البقرہ۶۳۲) صاحب وسعت کے ذمہ اسکے حیثیت کے موافق ہے اورتنگدست کے ذمہ اسکی حیثیت کے موافق(بیوی پر خرچ کر نا واجب ہے)
بیوی کو تکلیف دینا حرام ہے:۔وَلاَ تُمْسِکُوہُنَّ ضِرَاراً لِّتَعْتَدُواْ (البقرہ: ۱۳۲) ایذا دینے کے خیال سے بیوی کو(اپنی نکاح میں) نہ روک رکھوتاکہ تم (اس پر)زیادتی کرو۔
آج بڑے بے شرمی سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ اسلام میں عورت کو آزادی رائے کا حق نہیں ہے ان لوگوں کی خدمت میں بس ایک واقعہ ذکر کرنا چاہتاہوں،ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ:تم لوگوں کو متنبہ کیاجاتا ہے کہ عورتوں کامہر زیادہ نہ باندھو، اگر مہرزیادہ باندھنا دنیا کے اعتبار سے بڑائی ہوتی اور عنداللہ تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ مستحق ہوتے۔(ترمذی)حضرت عمرؓ کواس تقریر پر ایک عورت نے بھری مجلس میں ٹوکا اور کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں؛ حالاں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَآتَیْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہُ شَیْئاً (النساء: ۲۰)اور دیا ہے ان میں سے کسی ایک کو ڈھیر سا مان تو اس میں سے کچھ نہ لو،جب خدا نے جائز رکھا ہے کہ شوہر مہرمیں ایک قنطار بھی دے سکتا ہے تو تم اس کو منع کرنے والے کون ہوتے ہو۔ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر فرمایا کُلُّکُمْ أعْلم عمرؓم حضرت عمرؓ نے انکی اس رائے کو نہیں کاٹا بلکہ اس عورت کی آزادیِ رائے کے تحت با ت کو پسند کیا، 
ان تمام آیات واحادیث سے بیوی کا کیا مقام ہے بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔آج عقل سے پیدل اسلامی تعلیم سے عاری لوگ اسلام پراعتراض کرتے ہیں، کہ مسلمان اپنی بیوی کوتکلیف دیتے ہیں، ان بیہودہ گفتگو کرنے والے کو کیا معلوم!جس مذہب میں بلی کوستانے والے کو جہنم کاعذاب دیاگیا ہے،زبان نبوت نے اپنی امت کو تعلیم دیا،بخاری کی حدیث ہے کہ بلی کو ستانے والا جہنم میں گیا اور کتا کوپانی پلانے والی فاجرہ فاسقہ جنت میں گئی،تو وہ اسلام بیوی پر ظلم کرنے کی کیسے اجازت دے سکتی ہے۔یہ تو بیوی کا وہ مقام تھا جس کو شریعت نے مسلمانوں کو تعلیم دی ہے۔ 
ساتھ ہم ہلکی سی نگاہ غیروں کے مذہب پر بھی ڈالتے ہیں کہ ان کے یہاں بیوی (عورت)کا کیا مقام ہے؟ یونان کی قدیم تاریخ میں عورت ادنیٰ درجہ کی مخلوق ہے،روم میں عورت باپ کی پھرشوہر کی پھر نرینہ اولاد کی غلام ہے،عیسائی کے یہاں حضرت حوا کی غلطی کیوجہ سے انکی بیٹیاں یعنی عورتیں ہمیشہ محکوم رہے گی، ہندو مت میں عورت شوہر کو رات دن سون کرنے کیلئے ہے،خودہمارے ہندوستان میں ایک زمانے تک بیوی کوجب شوہرمرجاتاتو اسکو بھی شوہرکی چیتا میں جلادیاجاتا،اسلام کی مہربانی سے یہ سارے رسم ورواج ختم ہوگئے اور بیوی کو وہ مقام ملا جوکسی مذہب نے نہیں دیا،ابھی بھی عورت ان کے نزدیک ایک گِری پڑی چیز ہے،عورت کو ننگا کردیاگیا،اس کے جسم کو بیچا گیا، اس کے اخلاق وکردار کو بیچا گیا،اس کے ہرہر عضو کو بیچاگیا،جوحکومت بڑے بڑے ہوٹلوں میں ناچ کے لئے لائسنس دیتی ہو،جو حکومت بئیربار میں عورتوں کو ناچ نے کیلئے لائسنس دیتی ہو،زنا کے لئے اور فحش کام کے لئے لائسنس دیتی ہو،بلو فلم بنانے کے لئے جس ملک میں اجازت ملتا ہو، وہ حکومت عورتوں کی عزت کی بات کرے اورعورتوں پر ظلم کی بات کرے، کیا عورتوں کو ننگاکرنا،ان کے ساتھ بلوفلم بنانا،ان کے جسم کو بیچنا، اشتہار بازی کیلئے انکے ہر عضو کو نمائش کرنا،کیا یہ عورتوں پرظلم نہیں ہے،کیا یہ سارے کام حکومت کو نظر نہیں آتی ہے؟آتی ہے،اور آتی ہی نہیں ہے بلکہ ان کاموں کے لئے حکومت پرمیشن بھی دیتی ہے۔
عورتوں کیلئے تیسرا دور ماں والی ہے، آئیے ماں کے سلسلے میں موازنہ کر لیتے ہیں کہ شریعت میں ماں کو کیا مقام دیا گیا ہے اور حکومت کی نگا ہ میں ماں کی کیا اہمیت ہے؟

ماں کی اہمیت وفضیلت شریعت میں

ماں دنیاں کی وہ عظیم ترین ہستی ہے جوخالق کائنات کی عظیم ترین صفت رحمن ورحیم کامظہر ہے،انہیں کے واسطے سے اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت خالقیت کا ظہور کیا،ماں کے فضائل پر جتنابھی لکھاجائے کم ہی پر جائیگاپھر بھی یہاں نہایت اختصار کے ساتھ چند آیات واحادیث پیش کررہاہوں جس سے ماں کو شریعت میں کیا مقام دیاگیا ہے بخوبی معلوم ہو جائیگا،ارشاد باری ہے: وَقَضَی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَاناً إِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَا أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَا أُفٍّ وَلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْما وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً،،(بنی اسرآئیل: ۲۳۔۲۴)اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سواکسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، اگر ماں باپ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، چاہے ان میں سے ایک پہنچے یا دونوں (تو) ان سے کبھی ’’ہوں‘‘ بھی مت کہنا اور نہ انھیں جھڑکنا اور ان سے خوب اچھی طرح سے با ت کر نا، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا:اے ہمارے پروردگار! تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے، 
وَوَصَّیْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ إِحْسٰناً حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہاً وَّوَضَعَتْہُ کُرْہاً (احقاف ۱۵)کہ ہم نے انسان پر ضروری قرار دیا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے(کیونکہ)اس کی ماں نے تکلیف جھیل کر اسے پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کر کے اسے جنا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا:ر ضا اللّٰہ مع رضا الوالدین و سخطُ اللّٰہِ مع سخطِ الوالدین(شعب الإیمان)یعنی اللہ کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں ہے۔ 
اِنَّ الجَنَّتَ تَحْتَ اَقْدَامِ الاِمَّھَات ترجمہ۔بیشک جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔یہ قرآن واحادیث ہیں جوہم کوماں کی اہمیت بتاتی ہے ماں کی خدمت کرنے والا جنتی ہے اوراس کو تکلیف دینے والا جہنمی ہے یہ تو ہے عورت کاوہ مقام جنکومذہب اسلام نے دیا ہے اس کے مدے مقابل غیروں کے یہاں ماں کاکیا تصور ہے مکمل اس کوبیان نہیں کرتا،یہ مختصر مضمون ہے تاہم اس سلسلے میں ایک چھوٹا واقعہ ذکر کردیتاہوں،جس سے اندازہ لگائیں گے ان غیرون نے ماں کوکتناذلیل ورسوا کیا ہے،

واقعہ

امریکہ کی ایک ریاست میں ایک ماں اپنے بیٹے کے خلاف مقدمہ دائرکیا کہ میرا بیٹا گھرمیں کتا پالاہواہے اوریہ روزانہ کتے کیساتھ تین چار گھنٹے صرف کرتاہے یہ اسے نہلاتا ہے اسکی ضروریات پوری کرتاہے،اسکواپنے ساتھ ٹہلنے کے لئے بھی لے جاتاہے،وہ اپنے کتے کوروزانہ سیر بھی کرواتاہے اسے کھلاتا،پلاتا بھی ہے میں بھی اسی گھر کے دوسرے کمرے میں رہتی ہوں؛ لیکن یہ میرے کمرے میں پانچ منٹ کے لئے بھی نہیں آتا،اسلئے عدالت کو چاہئے کہ وہ میرے بیٹے کو پابند کرے کہ وہ روزانہ میرے کمرہ میں آیا کرے جب ماں نے مقدمہ کیا تو بیٹے نے بھی مقدمہ لڑنے کے لئے تیاری کرلی،ماں نے وکیل بنالیا اوربیٹے نے بھی وکیل بنالیا جب دونوں کے وکیل جج صاحب کے سامنے پیش ہوئے تو جج صاحب نے مقدمہ کے سماعت کے بعد فیصلہ دیا اور ایسا فیصلہ کیا کہ استغفر اللہ پوری زمین کا نپ گئی ہو گی،ماں کی ممتا کے سمندر میں طغیانی آگئی ہو گی،جج نے فیصلہ کیاکہ عدالت آپ کے بیٹے کو آپ کے کمرے میں پانچ منٹ کیلئے بھی آنے پر مجبور نہیں کرسکتی کیونکہ مقامی قانون ہیکہ جب اولاد ۱۸ سال کی عمرکوپہنچ جائے،اس کوحق حاصل ہوتاہے کہ وہ اپنے ماں باپ کو چاہے تو کچھ وقت دے یا بالکل علیحدگی اختیار کرلے، رہی بات کتے کی تو کتے کے اس کے اوپر حقوق ہیں جن کو ادا کرنا اسکی ذمہ داری ہے البتہ اگر ماں کو کوئی تکلیف ہے تو اسکو چاہئے کہ وہ حکومت سے رابطہ کرے وہ اسے بوڑہوں کے گھر میں لے جائیں گے۔
اس مختصر سے مقالہ میں ہم نے عورتوں کے تینوں دور کا اسلامی نقطہ نظر اور غیروں کے نقطہ نظر سے موازنہ کیا ہے،اور اس موازنہ کے بعد فیصلہ کر نے کی ضرورت نہیں ہے،بس جس کا عقل ماؤف نہ ہوا ہو،قلم بک نہ گیا ہو،جس کادھرم بک نہ گیا ہو،وہ نہایت آسانی کے ساتھ بے ساختہ پکار اٹھے گا کہ اِنَّ .الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الِاسْلَامُ(اٰل عمران۱۹)
اللہ تعالیٰ سے دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے،آمین
نوٹ: مذکورہ مضمون دراصل میرا(مفتی عبداللہ عزرائیل صاحب) کابیان ہے جسکو ہم نے بروز جمعہ جامع مسجد میں کیا تھا اسی کو تحریری جامہ پہنا کر ترتیب نو اور تحقیق کے ساتھ حضرت مولانامحمد فیض الرحمن قاسمی استاذ مدرسہ دارالعلوم نورانی چند گڑھ نے افائد عام کے پیش نظر نیٹ سے شائع کیا ہے ،اللہ تعالیٰ شرف قبولیت سے نواز کر امت کے لئے اور خاص کرمعترض کیلئے ذریعہ ہدایت بنائیں۔آمین 

 ملک بھارت کے سلگتے مسائل پڑھنے کے نیچے کلک کریں

No comments:

Post a Comment

شکریہ آپکا کومینڈ مفتی صاحب کے میل تک پہنچ گیا