بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایصال ثواب
اس وقت کچھ لوگ ایصال ثواب کو مطلقاً حرام اور نا جائز سمجھتے ہیں ،اور عوام میں اس بات کا مذاکرہ کرتے پھرتے ہیں کہ ایصال ثواب کی کو ئی حقیقت نہیں ہے ،بہت سے حضرات انکی باتوں کو سن کر شک وشبہ میں پر جاتے ہیں کہ آخر اس سلسلے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟کئی حضرات نے ہم سے بھی دریافت کیا کہ مفتی صاحب فلاں محلہ میں کچھ لوگ آکر ایصال ثواب کا انکار کر رہے تھے اور لوگوں کو سمجھا رہے تھے کہ ایصال ثواب کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،اس وقت ہم نے اس پر کئی مساجد میں جمعہ کے دن بیان بھی کیا اور اس عنوان پر ایک گراں قدر کتاب بنام ’’ ایصال ثواب اور مروجہ قرآن خانی ‘‘ تالیف کرکے اطراف واکناف میں فری تقسیم بھی کرایا ،یہ مضمون بھی اسی کتاب کا اقتباس ہے ۔ ایصال ثواب مردوں کے لئے درست ہے عبادت مالیہ میں تمام اہل سنت والجماعت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ایصال ثواب درست ہے اورعبادت بدنیہ میں اختلاف ہے امام ابو حنیفہ ؒ اور امام احمدؒ اور جمہور سلف وخلف عبادت بدنیہ میں ایصال ثواب کے قائل ہیں اور امام مالک ؒ اور اما م شافعی ؒ عدم وصول کے قائل ہیں صدقات مالیہ وغیرہ میں کچھ اختلاف نہیں اس میں سب متفق ہیں کہ مرنے والے کے لئے اس سے بڑا اور کوئی سہارانہیں ہے کہ انکے لئے دعاواستغفار کیاجائے(معارف السنن ۳/۴۹۲ و فتویٰ عالمگیری اردو جلد اول)
صرف اس مسئلہ میں گمراہ فرقہ اہل قرآن،معتزلہ وغیرہ منکر ہے جبکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں
قُل رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَارَبَّیَانِی صَغِیْرَا ۔(بنی اسرائیل۔۲۴)
کہہ اے پروردگاراندونوں (میرے ماں باپ)پر رحم فرمائیے جیساکہ انہوں نے ہمیں بچپن کی حالت میں پرورش کی،
اس آیت میں اللہ تعالی نے بچوں کو اپنے والدین کے لئے دعا کرنے کاحکم دیاہے اور جب دعا کا حکم اللہ تعالیٰ دے رہے ہیں تو پھر والدین کو فائدنہ ہو یہ ہو نہیں سکتا ورنہ نعوذباللہ اللہ پر بے فائدہ کام کے کرنے کے حکم دینے کا الزام ہوگا۔
دوسری جگہ ارشاد باری ہے:والذین جاؤامن بعدھم یقولون ربنااغفر لناولاخوانناالذین سبقونا بالایمان(الحشر ۔ ۱۰)
اس آیت سے معلوم ہواکہ بعد والوں کی دعاپہلوں کو پہونچتی ہے اور اسی کا نام ایصال ثواب ہے ۔
حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ فر ماتے ہیں’’جبکہ اوپر معلوم ہو چکاکہ آیت مذکورہ( لیس للانسان الاّماسعیٰ)کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے کے فرائض ایمان ونماز وروزہ کو اداکر کے دوسرے کو سبکدوش نہیں کر سکتا تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایک شخص کے نفلی عمل کا کوئی فائدہ اور ثواب دوسرے شخص کو نہیں پہونچ سکے ،ایک شخص کے دعا اور صدقہ کا ثواب دوسرے شخص کو پہونچانا نصوص شرعیہ سے ثابت ہے اور تمام امت کے نزدیک اجماعی مسئلہ ہے(ابن کثیر، معارف القرآن جلد ۸سورہ نجم)
حضرت انسؓ نے رسول اللہ ﷺسے پوچھاکہ یا رسول اللہ ہم خیرات کر تے ہیں اپنے مردوں کے طرف سے اور حج کر تے ہیں انکی طرف سے اور دعا کرتے ہیں انکے واسطے کیا یہ انکو پہو نچتا ہے؟فرمایاکہ ہاں!یہ انکو پہونچتا ہے اور وہ خوش ہو تے ہیں اس سے جیسے کہ تم میں سے کوئی خوش ہو تا ہے اس طبق سے جب کوئی اس کو تحفہ بھیجے(غایۃ الاوطار ترجمہ در مختار۲/۶۰۸ فتاوی رحیمیہ۵/۱۲۱)
ابن عبا سؓ سے مروی ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا میرے ماں نے حج کی نذر مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی کیا میں اسکے جانب سے حج کر وں؟(اسکو فائدہ ہوگا)آپ ﷺنے فرمایا:ہاں!اسکی طرف سے حج کر اگر تیری ماں پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تم ادانہ کرتی؟اللہ تعالی کا حق تو اور پورا کئے جانے کا مستحق ہے(بخاری باب الحج عن ا لمیت)
ابو زرین عقیلیؓ سے مروی ہے کہ وہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ میرے والد بہت بوڑھے ہیں نہ تو وہ حج کر سکتے ہیں اور نہ عمرہ اورنہ وہ سفر کر سکتے ہیں تو آپ ﷺ نے فر مایا اپنے والد کی جانب سے حج وعمرہ کر لو(ترمذی ۱/۱۸۱ ابواب الحج )
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺسے دریافت کیا ‘میری ماں اچانک فوت ہوگئی اور میرا خیال ہے کہ اگر اسے کچھ بولنے کا موقع ملتاتو وہ صدقہ کرنے کی تلقین کر تی ، کیا میں اسکی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے ثواب ملے گا؟آپ ﷺنے فر مایا ہاں!(بخاری باب موت الفجاۃومسلم کتاب الزکوۃ باب الصدقۃ عن ا لمیت)
حضرت حنش فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؓ کو دیکھاکہ وہ دو مینڈھے کی قربانی کر رہے ہیں میں نے ان سے کہایہ کیا ہے؟یعنی آپ دو قربانی کیوں کر رہے ہیں؟تو آپؓ نے جواب دیاکہ رسول اللہ ﷺنے مجھے وصیت کی تھی کہ میں آپکی جانب سے قربانی کروں اسلئے میں نے آپکی جانب سے یہ قربانی کی(ابو داؤد کتاب الضحایا باب الاضحیۃ عن المیت)
حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاصؓ کی روایت میں ہے کہ انکے دادا عاص ابن وائل (جنکو اسلام نصیب نہیں ہوئی )نے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی تھی۔۔۔ہشام بن العاص نے اپنے حصے کے پچاس غلام آزاد کر دیاحضرت عمرو بن العاصؓ نے آپ ﷺ سے دریا فت کیا کہ میرے بھائی نے اپنا حصہ پچاس غلام آزاد کر دیا کیا باقی میں بھی آزاد کردوں۔آپ ﷺنے فر مایا اگر تمہارے والد ایمان واسلام کے ساتھ دنیاسے گئے ہو تے پھر تم انکی طرف سے غلام آزاد کرتے یاصدقہ کرتے یا حج کرتے تو ان اعمال کا ثواب انکو پہونچ جاتا(ابوداؤد معارف الحدیث۲/۴۹۲)
چونکہ آج کل غلام شرعی نہیں پائے جا تے ہیں اس لئے غلام آزاد کر کے ایصال ثواب پہونچانا ممکن نہیں ہے ہاں ! دوسری عبادتوں سے ایصال ثواب کر دے(مرتب)
عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی اوپر والی روایت مسند احمد میں ہے اور اس میں حج کی جگہ نماز کا ذکر ہے (معارف الحدیث ۲/۴۹۲ فتاویٰ رحیمیہ۱/۳۸۷)
عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی اوپر والی روایت مسند احمد میں ہے اور اسکی عبارت اس طرح ہے’’فلو اقرّباالتوحید فصمت او تصدقت عنہ نفعہ ذالک‘‘(نیل الاوطار۷/۴۵۱ ومسند احمد)
یعنی اگر تمہارے والد مسلمان ہو تے اور تم انکی جانب سے روزہ رکھتے یاصدقہ کرتے تو ان اعمال کا ثواب انکو پہو نچ جاتا۔
حضرت سعد بن عبادہؓ سے روایت ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ ام سعد فوت ہو گئی ان کے لئے کون سا صدقہ افضل ہے آپ ﷺ نے فر مایا پانی (کا انتظام کردو) تو حضرت سعدؓ نے ایک کنواں کھودا اور کہا یہ ام سعد کے لئے ہے(نیل الاوطار۷/۴۵۱ و مسند احمد)
یہ چند آحادیث بطور استشہاد کے پیش کیا ہے ورنہ ذخیرہ احادیث میں بے شمار ایسی احادیث ہیں جن سے ایصال ثواب کا ثبوت ہو تا ہے ، باقی مزید تفصیل کے لئے میری کتاب ’’ ایصال ثواب اور مروجہ قرآن خوانی ‘‘ضرور پڑھیں