Thursday, October 27, 2016

یکساں سول کوڈ

شمع فروزاں:مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی 

یکساں سول کوڈ

حقیقت یہ ہے کہ ’یونیفارم سول کوڈ ‘ مختلف وجوہ سے ہمارے ملک کے لئے مناسب نہیں ہے ، ایک تو اس سے اقلیتوں کے مذہبی حقوق متاثر ہوں گے ، جو دستور کی بنیادی روح کے خلاف ہے ، دوسرے : یکساں قانون ایسے ملک کے لئے تو مناسب ہوسکتا ہے ، جس میں ایک ہی مذہب کے ماننے والے اور ایک ہی تہذیب سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہوں ، ہندوستان ایک تکثیری سماج کا حامل ملک ہے ، جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں ، کثرت میں وحدت ہی اس کا اصل حسن اور اس کی پہچان ہے ، ایسے ملک کے لئے یکساں عائلی قوانین قابل عمل نہیں ہیں ، تیسرے : مذہب سے انسان کی وابستگی بہت گہری ہوتی ہے ، کوئی بھی سچا مذہبی شخص اپنا نقصان تو برداشت کرسکتا ہے ؛ لیکن مذہب پر آنچ کو برداشت نہیں کرسکتا ؛ اس لئے اگر کسی طبقہ کے مذہبی قوانین پر خط نسخ پھیرنے اوراس پر خود ساختہ قانون مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس سے مایوسی کے احساسات اور بغاوت کے جذبات پیدا ہوں گے اور یہ ملک کی سالمیت کے لئے نقصان دہ ہے ، ہمارے سامنے ناگاؤں اور میزؤوں کی واضح مثال موجود ہے کہ انھوںنے اس کے بغیر عَلَم بغاوت کو نہیں جھکایا کہ ان کو کچھ خصوصی رعایتیں دی جائیں ، جن میں ان کے لئے اپنے قبائلی قانون پر عمل کرنے کی آزادی بھی شامل ہے ؛ اس لئے حقیقت یہ ہے کہ مختلف گروہوں کو اپنے اپنے قوانین پر عمل کی اجازت دینا ملک کے مفاد میں ہے ، اس سے قومی یکجہتی پروان چڑھے گی ، نہ یہ کہ اس کو نقصان پہنچے گا ۔
مسلمانوں کو تو یونیفارم سول کوڈ پر اعتراض ہے ہی ؛ لیکن اگر غور کیا جائے تو عملی طورپر خود اکثریتی فرقہ بھی اس کو قبول نہیں کرے گا ، ہندوؤں کی مختلف ذاتیں ہیں اور نکاح وغیرہ کے سلسلہ میں ان کے الگ الگ طریقے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ ملک کے سارے ہندوؤں کا ایک ہی طریقہ ہو ، حد تو یہ ہے کہ وہ اپنے بنیادی عقائد اور عبادات کی باتوں میں بھی یکساں نہیں ہیں ، کوئی مورتی پوجا کا قائل نہیں ہے ، کوئی قائل ہے ، کوئی راون کو بُرا بھلا کہتا اور رام کو پوجتا ہے ، کوئی رام کو بُرا بھلا کہتا ہے اور راون کی پرستش کرتا ہے ، خود نکاح کے سلسلہ میں دیکھیں کہ شمالی ہند میں ماموں اور بھانجی کے درمیان نکاح کا تصور نہیں ؛ لیکن جنوبی ہند میں بہن کا اپنے بھائی پر حق سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس کی بیٹی سے نکاح کرلے ، قبائلوں کے یہاں خاندانی رسم و رواج بالکل مختلف ہیں ، آج بھی بعض قبائل میں ایک مرد ایک درجن سے زائد عورت سے نکاح کرسکتا ہے ، یہاں تک کہ ابھی بھی ایسی رسمیں پائی جاتی ہیں کہ ایک عورت ایک سے زیادہ مرد کے نکاح میں ہوتی ہے ، جس ملک میں مذاہب اورتہذیبوں کا اس قدر تنوع پایا جاتا ہو ، وہاں ایک ہی قانون تمام گروہوں کے لئے کیسے مناسب ہوسکتا ہے ؟
جو لوگ یکساں سول کوڈ کے وکیل ہیں ، وہ بنیادی طورپر دو باتیں کہتے ہیں : ایک یہ کہ اس سے قومی یکجہتی پیدا ہوگی ، دوسرے : جب یورپ میں تمام قوموں کے لئے یکساں قانون ہوسکتا ہے تو ہندوستان میں کیوں نہیں ہوسکتا ؛ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں ، قانون سے قومی یکجہتی پیدا نہیں ہوتی ، قومی یکجہتی ، رواداری ، تحمل اور ایک دوسرے کے معاملہ میں عدم مداخلت سے پیدا ہوتی ہے ، دنیا کی دونوں جنگ عظیم بنیادی طورپر ایسی دو قوموں کے درمیان ہوئی ہے ، جن کا مذہب ایک تھا ، جن کی تہذیب ایک تھی ، جن کا قانون اور طرز زندگی ایک تھا ، یہ ساری وحدتیں جنگ کو روکنے اور قومی وحدت پیدا کرنے میں ناکام رہیں ، خود مسلم ممالک میں دیکھئے کہ عراق و ایران ، شام و افغانستان کے مختلف گروہوں کے درمیان اس کے باوجود جنگیں ہورہی ہیں کہ وہ بنیادی طورپر ایک ہی مذہب اور ایک ہی قانون کی حامل ہیں ، ہندوستان ہی کو دیکھئے کہ یہاں مختلف راجاؤں کے درمیان جنگوں کی ایک طویل تاریخ ہے ، یہ سب ایک ہی طریقہ زندگی پر چلنے والے لوگ تھے ؛ لیکن یہ وحدت ان کو جوڑ نہیں پائی اور آج بھی فرقہ وارانہ فسادات اس لئے نہیں ہوتے کہ مسلمانوں کا معاشرتی قانون الگ ہے اور ہندوؤں کے خاندانی رسوم و رواجات الگ ہیں ؛ بلکہ اس کے برعکس مذہبی قانون سے ہٹ کر جب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دام محبت میں گرفتار ہوکر بین مذہبی شادی رچاتے ہیں تو اس سے فرقہ وارانہ تناؤ پیدا ہوتا ہے اور قومی یکجہتی پارہ پارہ ہوجاتی ہے ؛ اس لئے یہ سوچنا قطعاً غلط ہے کہ قانون کی وحدت کی وجہ سے قومی یکجہتی پیدا ہوگی ، ویسے بھی عائلی زندگی کے علاوہ تمام قوانین میں پہلے سے یکسانیت موجود ہے ؛ لیکن کیا یہ یکسانیت قومی اتحاد کو برقرار رکھنے میں کافی ثابت ہورہی ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ قومی یکجہتی اس بات سے پیدا ہوگی کہ ہر گروہ کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنی تہذیب کو پروان چڑھانے کا موقع دیا جائے ، اس سے ہرگروہ میں اطمینان ہوگا ، وہ محسوس کریں گے کہ وہ اس ملک میں برابر کے شہری ہیں ، اس سے حب الوطنی میں اضافہ ہوگا ، احساس محرومی ختم ہوگا ، بھائی چارہ کا ماحول پیدا ہوگا اور یہی قومی یکجہتی ہے ، ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہر چیز میں یکسانیت اور وحدت پیدا کرنا ممکن نہیں ہے ، اگر آپ قانون ایک کر بھی دیں تو ملک میں جو مختلف تہذیبی اور ثقافتی گروہ ہیں ، جن کے لباس و پوشاک ، رہن سہن ، خوشی وغم کے اظہار کے طریقے ، زندگی گزارنے کے انداز ، سماجی رسوم ورواجات الگ الگ ہیں اور اس کی جڑیں ان کے مذہب ، موسم ، جغرافیائی محل وقوع ، خاندانی روایات اور نسلی خصوصیات میں پیوست ہیں ، کیا ان کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے ؟ پھر یہ بات قابل غور ہے کہ مذہب ، تہذیب اور زبان کا یہ تنوع کوئی عیب ہے یا یہ اس ملک کا حسن ہے ؟ گلاب کا ایک پھول بھلا لگتا ہے یا مختلف پھولوں کا گلدستہ ؟ پھول کا ایک پودا خوبصورت نظر آتا ہے ، یا طرح طرح کے پودوں پر مشتمل پھلواری ؟ ظاہر ہے کہ جو خوبصورتی اس تنوع میں ہے ، وہ خوبصورتی اس وحدت میں پیدا نہیں ہوسکتی ، جس کے پیچھے جبر اور دباؤ کا دخل ہو ، ہندوستان کو اس کے معماروں نے گلدستہ بنایا ہے نہ کہ ایک پھول ، اس ملک کے سینچنے والوں نے اس کو نوع بہ نوع درختوں کا ایک باغ سدا بہار بنایا ہے نہ کہ صرف ایک ہی طرح کے درختوں کا باغیچہ ، اس کے بنانے والوں کے ذہن میں تھا کہ یہ ملک ایک چراغ ہمہ رنگ ہو ، یہی ہمہ رنگی اس کا حسن اور یہی تنوع اس کی پہچان ہے ۔
یورپ کی جو مثال ہندوستان کے لئے پیش کی جاتی ہے ، وہ بالکل بے محل ہے ، ہندوستان اتنا وسیع ملک ہے کہ پورا یورپ اس کے ایک حصہ میں سماج جائے ، اور ہندوستان کی آبادی اتنی کثیر ہے کہ شاید پورا یورپ مل کر بھی اس کی ہمسری نہ کرسکے ؛ اس لئے ہندوستان جیسے ملک کی سالمیت اور قومی یکجہتی اسی بات میں مضمر ہے کہ اس میں تنوع کو برقرار رکھا جائے اور ایسی وحدت پر زور نہ دیا جائے ، جو اتحاد کو پارہ پارہ کرکے رکھ دے — مشرقی ملکوں اور مغربی ملکوں میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ مغرب میں لوگوں کا مذہب سے سنجیدہ اور جذباتی تعلق نہیں ہے ؛ ان کے یہاں ایک دو تیوہاروں کے سوا مذہب سے زندگی کا کوئی رشتہ باقی نہیں رہا ، مردم شماری کے ریکارڈ میں صرف خاندانی روایت کے طورپر کسی مذہب کا نام لکھا دیا جاتا ہے ؛ اس لئے مذہبی قوانین کے ختم کئے جانے پر ان کا کوئی رد عمل نہیں ہوتا اور یہ دراصل چرچوں کے ظالمانہ رویہ کے خلاف عوام کی بغاوت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے قید آزادی کا نتیجہ ہے ، جس کی ایک کڑوی تاریخ ہے ، ہندوستان کی یہ صورت حال نہیں ہے ، ہندوستان میں بسنے والے لوگ مذہب سے جذبانی تعلق رکھتے ہیں ؛ اسی لئے جب ۱۹۵۶ء میں ہندوؤں کے لئے باضابطہ قانون بنا تو خود صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد اس سے دل برداشتہ تھے ، اور اسی لئے ہندوؤں سے متعلق قوانین میں ہر جگہ اس بات کو شامل کرنا پڑا کہ اگر کہیں مقامی رسم و رواج اس کے خلاف ہو تو اس کو ترجیح ہوگی۔
یکساں سول کوڈ کے حق میں ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور سیکولر ملک میں مذہبی قوانین کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے — یہ بھی محض غلط فہمی ہے ، سیکولرازم کا کوئی ایک مفہوم متعین نہیں ہے ؛ بلکہ مختلف ملکوں میں وہاں کے حالات اور مصالح کے لحاظ سے اس کامفہوم متعین کیا گیا ہے ، سیکولرازم کا ایک مفہوم وہ ہے ، جو فرانس نے اختیار کیا ہے ، جس کی بنیاد مذہب کی مخالفت پر ہے ، جو چاہتا ہے کہ کوئی مذہبی شناخت باقی نہ رہے تو بہتر ہے ، جو اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ انسان اپنی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں مذہبی ہدایات پر عمل کرے ، سیکولرازم کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ حکومت کا کوئی مذہب نہ ہو ، سرکاری طورپر کسی خاص مذہب کی پشت پناہی نہ ہو ؛ لیکن ملک کے ہر شہری کو اپنی نجی زندگی میں مذہب پر عمل کرنے کی گنجائش ہو ، بیشتر مغربی ممالک میں اسی مفہوم کے اعتبار سے سیکولرازم کو اختیار کیا گیا ہے اور ہندوستان میں بھی اسی کو برتا گیا ہے ، نیز اسی کے مطابق دستور کی تدوین عمل میں آئی ہے ؛ اس لئے یہ بات بالکل بے محل ہے کہ چوںکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ؛ اس لئے یہاں عائلی زندگی سے متعلق مذہبی قوانین کی گنجائش نہیں ۔
یہ بات بھی بہت عجیب لگتی ہے کہ بی ، جے ، پی نے یونیفارم سیول کوڈ کو اپنے ایجنڈے میں رکھا ہے ، یہ فرقہ پرست پارٹی بنیادی طورپر برہمنی فکر کی نمائندہ ہے اور آر ، ایس ، ایس ، کا سیاسی بازو ہے ، جو ہندوستان میں ’ منوواد ‘ کو واپس لانا چاہتی ہے ، یہ اپنے آپ کو ہندوؤں کے حقوق کا محافظ قرار دیتی ہے ، اگر اس نے ایسے مسائل کو اپنی فہرست میں رکھا ہے ، جن میں ہندوؤں اور دوسری اقلیتوں کے مفادات میں ٹکراؤ ہو ، یا جن کا مقصد ہندوؤں کی بالا دستی قائم رکھنا ہو تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے ؛ لیکن مسلم پرسنل لا کا مسئلہ مسلمانوں کا آپسی مسئلہ ہے ، اگر اس پر مسلمان عمل کریں تو اس سے ہندوؤں کو نہ فائدہ ہے نہ نقصان ؛ بلکہ ایک طرح سے فائدہ ہے کہ مسلم پرسنل لا کے تحت مسلمان اور ہندو کے درمیان رشتہ نکاح قائم نہیں ہوسکتا ، اس طرح وہ بات پیش نہیں آئے گی ، جس سے یہ حضرات خوفزدہ ہیں اور جس کو غلط طریقہ سے انھوںنے ’’ لَوْ جہاد ‘‘ کا نام دے رکھا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں سے نفرت اور اقلیتوں کے ساتھ ظلم و ناانصافی کے سوا اس کا کوئی اور محرک نہیں ہوسکتا ۔
اور صرف بی ، جے ، پی کا رونا کیوںکر رویا جائے ؟ افسوس تو انگلی پر گنے جانے والے ان چند نام نہاد مسلمانوں پر ہے ، جو فرقہ پرست اوراسلام دشمن عناصر کا آلۂ کار بن کر مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں ، میں ان کی محبوری سے اچھی طرح واقف ہوں ، وہ دراصل اپنی بے روزگاری کا حل نکالنا چاہتے ہیں ؛ کیوںکہ جو لوگ صلاحیت کی بناپر نہیں ؛ بلکہ خوشامد کی بناپر سرکاری مناصب حاصل کرتے ہیں ، وہ چاہے عمر کے کسی مرحلہ میں ہوں ، اس سے محروم ہوکر بے قرار ہوجاتے ہیں ، کیا کہا جائے کہ اس وقت ہر چیز کی قیمت بڑھتی جارہی ہے ، انسان اپنی ضروریاتِ زندگی خریدنے سے عاجز ہوتا جارہا ہے ؛ لیکن ایک چیز ہے جو سستی ہوتی جارہی ہے ، سستی سے سستی اور ارزاں سے ارزاں تر ، اور وہ ہے کچھ لوگوں کا ضمیر ، یہ ضمیر کے سوداگر ہیں اور کوڑیوں میں اپنا مال بیچتے ہیں ، ان کے لئے ہدایت ہی کی دُعا کی جاسکتی ہے ۔
وباﷲ التوفیق وھو المستعان ۔

نوٹ : حضرت والا کا یہ مضمون نیٹ ہی سے لیکر افائد عام کے پیش نظر شائع کیا جا رہا ہے ،مزید اس عنوان پر حکومت ہند اور اسکی چالیں تفصیل سےجاننے کے لئے یہاں کلک کریں

سول کوڈ اور ملک بھارت


بسم اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحیم

(سول کوڈ اور ملک بھارت)


اَلْحَمْدُللّٰہِ وَکَفٰی وسَلَامٌ عَلٰی عِبَادہِ الَّذِینَ اصطَفٰی اَمَّا بَعْد: اعُوذُبِااللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیم بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْم قال اللہ تعالیٰ ’’وَمَنْ لَّمْ یَحْکُم بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فَأُولٰئِکَ ھُمُ الْکَافِرُوْنَ ‘‘(سورہ مآئدہ ۴۴)
محترم حضرات !اس وقت ملک بھارت اور بھارت میں رہنے والے انسان بہت ہی نازک دور سے گزررہاہے شاید بھارت پر آزادی کے بعد سے آج تک ایسا دور نہیں آیاتھا،حکومت چاہ رہی ہے، یونیفارم سول کوڈ بنانا یعنی ایک ہی جیسا قانون مسلم ہندو ،سکھ وعیسائی ،سب کے لئے ایک ہی قانون ہوہرقوم وملت والے ایک ہی جیسا  نکاح کرے ،طلاق کے لئے ایک ہی قانون بنے ،خلع اوروراثت میں سب کیلئے ایک ہی قانون ہو ،جسکو آپ اورہم سمادھان قانون یکساں، برابرقانون سمجھ رہے ہیں۔
اتنے اھم اورنازک عنوان کو لیکر اپنے بزرگوں کے حکم اور موجودہ مسلم سماج کمیٹی چندگڑھ کے مشورہ سے تشریف لایاہوں،اس وقت ہم آپ کی خدمت میں کل چار باتیں پیش کرینگے ،
(۱)موجودہ حکومت کیا کرناچاہتی ہے؟ (۲)جوکام وہ کرنا چاہتی ہے کیاوہ ہندوستان میں چل سکتاہے؟(۳)اس سلسلے میں ہماری شریعت کیا کہتی ہے؟(۴)اس وقت ہم کو کیا کرنا ہے؟دعا کریں اللہ تعالیٰ ہم سبکو عمل کرنے کی توفیق عطاکرے۔
(۱)پہلی بات کہ موجودہ حکومت کیا کرنا چاہرہی ہے موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ وہ طلاق، نکاح، خلع، اوروراثت کے مسئلے میں مسلمانوں کا مذہبی قانون وشریعت بدل کرسول کوڈ نافذ کریں کہ مسلمان کے لئے بھی ان چیزوں میں وہی قانون بنے جو غیر مسلموں کے لئے ہے ،اور یاد رکھیں حکومت اس وقت انہیں چار کا نام لیتی ہے لیکن ان کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں سے ان کی شناخت کوختم کردیا جائے مسلمان صرف اور صرف نام کے رہ جائیں باقی عمل تو وہ مکمل طور پر برہمن وادپرکرے ،
چنانچہ مسلمانون کے خلاف جتنی اندرونی اوربیرونی تنظیمیں ہیں سب کا ایک ہی مشن، طریقہ ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کی زندگی سے اسلام کی شناخت وپہچان کوختم کردیا جائے ،
سیکڑوں مرتبہ تقریری،تحریری پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیاپردیکھنے اورسننے کوملتاہے کہ بھارت کو ہندو راشٹری بنایا جائے توکبھی گھرواپسی کااندولن چلایاجاتا ہے تو کبھی گائے ماتا کہکر مسلمانوں پرظلم کیاجاتا ہے اورکبھی آذان ونماز کولاؤڈاسپیکرپرپابندی لگائی جاتی ہے ان تمام کامقصد ایک ہی ہے،کہ کسی طرح مسلمان اوراسلام کو صف ہستی سے مٹادیاجائے یادرہے ! ’’پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا‘‘
جب ان سے پوچھا جاتاہے کہ طلاق اورنکاح میں سول کوڈ کیوں نافذ کیاجارہاہے توبڑے بے شرم ہوکرکہتے ہیں کہ مسلم پرسنل لاء میں مسلم عورتوں پر ظلم ہورہاہے اسلئے ہم اس کی ہمدردی میں ایسا کررہے ہیں، چنانچہ مودی بنارس کے بھاشن میں کہا کہ ہم مسلمان عورتوں پر اس سلسلے میں ظلم نہ ہونے دیں گے ساتھ ہی مودی نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے،میں پوچھتا ہوںمودی سے جب گجرات میں،بھاگل پور میں، مظفرنگرمیں، میرٹھ میں مسلمان عورتوں پر ظلم ہوا،ان کوزندہ جلایاگیاانکی عزتیں لوٹی گئی ان کے بیٹے اورشوہروں کوشہید کردیاگیا اتنا ہی نہیں الٹا مسلمانوں کو ہی گرفتار کرکے جیل کے سلاخوں میں ڈالدیا گیا ،جنکے بچے اوربیویاں بے یاروں مددگاربیس بیس سال سے حکومت سے فریاد کررہی ہے کیاحکومت کوان مسلمان عورتوں پر ہمدردی ہوئی؟ان پرحکومت اورپولس کاعملہ نے جوظلم وبربریت کے پہاڑ توڑے اس کے متعلق ذرا بھی سوچا؟اچانک اتنی ہمدردی کیسے پیدا ہوگئی ؟ ضرور دال میں کچھ کالا ہے اوریقیناًہے اوروہ یہ ہے کہ ظاہری ہمدردی بتاکرمسلمانوں کے پرسنل لاء کوبدل کر سو ل کوڈ اوربرہمن وادکونافذ کیاجائے،اس ملک بھارت کوہندوراشٹری بنادیاجائے،
(۲)دوسری بات جسکو حکومت کرناچاہرہی ہے کیا وہ اس ملک میں چل سکتی ہے؟
محترم حضرات ۔یہ ملک سیکولر ملک ہے جسکو جمہوری ملک کہاجاتا ہے ،یہاں کے ہربسنے والے کومذہب پرچلنے کی آزادی دی گئی ہے،جیسا کہ دستور۲۵ میں کہاگیا ہے اوردستور ۲۶ میں ہے کہ ہرایک کو اپنے مذہب کے تبلیغ کی بھی اجازت ہوگی، جب کہ امن عامہ کوخطرہ نہ ہو،بھارت کی بدقسمتی آزادی کے بعد جوقانون ساز کمیٹی بنی ان میں ڈاکٹر امبیڈکر ،اے سی سوامی یہ کٹر سول کوڈ کے حامی تھے،ساتھ ہی جواہر لال نہرو بھی یہی چاہتاتھا کہ بھارت میں سول کوڈ ہی چلے جسکی وجہ سے انہوں نے دفعہ۴۴ میں سول کوڈ کی بات بھی کہدی جب ہمارے اکابر نے ڈاکٹر امبیڈکر کو کہا کہ دفعہ ۴۴ سے تواقلیت کاحق ختم ہوجائیگا اوربعد میں انکوپریشانی ہوگی تواسوقت ڈاکٹرامبیڈکرنے یہ کہکرچلدیاکہ اس سے کوئی حکومت یونیفارم سول کوڈ نافذ نہیں کرے گی جوکرے گی وہ پاگل ہی ہوگی۔جب دستور ہند کی بات چلنے لگی تو آئیےے اندفعات پر ایک روشنی ڈالتے چلیں،
دفعہ ۲۵: میں ہے تمام اشخاص کو آزادی ضمیر، اورآزادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کا مساوی حق ہے ، دفعہ ۲۶: میں ہے کہ تبلیغ کی اجازت اس شرط کے ساتھ ہے کہ امن عامہ،اور صحت عامہ متأثر نہ ہوں ، دفعہ۷ ۲: میں ہے کسی شخص کو ایسے ٹیکسوں کے ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جائیگا جن کی آمدنی کسی خاص مذہب یا مذہبی فرقہ کی ترقی یا اس کو قائم رکھنے کے مصارف ادا کرنے کیلئے صراحتاً صرف کی جائے۔دفعہ۸ ۲: میں ہے کسی ایسے تعلیمی ادارے میں جو بالکلیہ حکومت کے فنڈسے چلایاجاتا ہو کوئی مذہبی تعلیم نہیں دی جائے گی۔
دفعہ۹ ۲: میں ہے بھارت کے علاقہ میں یا اس کے کسی حصہ میں رہنے والے شہریوں کے کسی طبقہ کو جس کی اپنی الگ جداگانہ زبان، رسم الخط، یا ثقافت ہو اس کو محفوظ رکھنے کاحق ہوگا۔دفعہ ۳۰:میں ہے تمام اقلیتوں کو خواہ وہ مذہب کی بناپر ہوں یا زبان کی ،اپنی پسند کی تعلیمی ادارے قائم کرنے اوران کاانتظام کرنے کا حق ہوگا۔ (بھارت کا آئین یکم جنوری ۵۸۹۱/ تک ترمیم شدہ شائع کردہ ترقی اردو بیورو وزارت تعلیم حصہ ۳ بنیادی حقوق، ص:۶۴۔۷۴)
محترم حضرات ! ایک نظران دفعات کو دیکھیں اور دوسری طرف شرپسند تنظیموں اورغیر جانب دارانہ باتیں کرنے والی حکومت کی وقتاًفوقتاً اٹھنے والی آوازوں کا جائزہ لیں تو آپکو معلوم ہو جائے گا کہ یہ لوگ سراسر دستور ہندکی خلاف ورزی کر رہے ہیں ،اور جو شخص  دستور ہند کو نہ ماننے صحیح مانے میں وہی مجرم ہے۔ 
آپکے علم میں رہے ،امریکہ جوان کاپیشوا ہے وہاں بھی ایک سول کوڈنہیں چل رہاہے ،جی ہاں! پوری امانت داری سے کہہ رہاہوں وہاں بھی ایک سول کوڈ نہیں ہے بلکہ وہاں الگ الگ علاقے کے لئے وہاں کے لوگ اوران کی رسوم ومذاہب کومدِنظر رکھتے ہوئے الگ الگ سول کوڈ ہے،کل ملا کربات یہ ہے کہ یہاں ایک سول کوڈ چل ہی نہیں سکتی،
بقول حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی  ’’مسلمانوں کو تو یونیفارم سول کوڈ پر اعتراض ہے ہی ؛ لیکن اگر غور کیا جائے تو عملی طورپر خود اکثریتی فرقہ بھی اس کو قبول نہیں کرے گا ، ہندوؤں کی مختلف ذاتیں ہیں اور نکاح وغیرہ کے سلسلہ میں ان کے الگ الگ طریقے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ ملک کے سارے ہندوؤں کا ایک ہی طریقہ ہو ، حد تو یہ ہے کہ وہ اپنے بنیادی عقائد اور عبادات کی باتوں میں بھی یکساں نہیں ہیں ، کوئی مورتی پوجا کا قائل نہیں ہے ، کوئی قائل ہے ، کوئی راون کو بُرا بھلا کہتا اور رام کو پوجتا ہے ، کوئی رام کو بُرا بھلا کہتا ہے اور راون کی پرستش کرتا ہے ، خود نکاح کے سلسلہ میں دیکھیں کہ شمالی ہند میں ماموں اور بھانجی کے درمیان نکاح کا تصور نہیں ؛ لیکن جنوبی ہند میں بہن کا اپنے بھائی پر حق سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس کی بیٹی سے نکاح کرلے ، قبائلوں کے یہاں خاندانی رسم و رواج بالکل مختلف ہیں ، آج بھی بعض قبائل میں ایک مرد ایک درجن سے زائد عورت سے نکاح کرسکتا ہے ، یہاں تک کہ ابھی بھی ایسی رسمیں پائی جاتی ہیں کہ ایک عورت ایک سے زیادہ مرد کے نکاح میں ہوتی ہے ، جس ملک میں مذاہب اورتہذیبوں کا اس قدر تنوع پایا جاتا ہو ، وہاں ایک ہی قانون تمام گروہوں کے لئے کیسے مناسب ہوسکتا ہے ؟ ‘‘
(۳)تیسری بات ہماری شریعت اس سلسلے میں کیا کہتی ہے؟
آئیے قرآن سے ہم دریافت کرتے ہیں ،کہ وہ ہماری اس سلسلے میں کیاپیغام دیتاہے،قرآن کا فرمان ہے ، ’’وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَااَنْزَلَ اللّٰہ فَاُولٰئکَ ھُمُ الْکَافِرُون‘‘ کہ جواللہ کے احکام کے موافق تمام احکام میں فیصلہ نہ کرے وہ کافر ہے چاہے طلاق ہویانکاح ،وراثت ہو یا خلع ہر احکام میں قرآن کا فیصلہ ماننا ضروری ہے اور جو فیصلہ نہ مانے وہ کافر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جنگ آزادی کے نامور مجاہد اور عظیم رہنما مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک موقع پر حکومت برطانیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:
’’اسلام کے احکام کوئی راز نہیں جن تک گورنمنٹ کی رسائی نہ ہو وہ چھپی ہوئی کتابوں میں مرتب ہیں اور مدرسوں کے اندر شب وروز اس کا درس دیتے ہیں۔ پس گورنمنٹ کو چاہئے کہ صرف اس بات کی جانچ کرے کہ واقعی اسلام کے شرعی احکام ایسے ہیں یا نہیں! اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ایسا ہی ہے تو پھر صرف دوہی راہیں گورنمنٹ کے سامنے ہونی چاہئیں یا مسلمانوں کے لئے ان کے مذہب کو چھوڑ دے اور کوئی ایسی بات نہ کرے جس سے ان کے مذہب میں مداخلت ہو یا پھر اعلان کردے کہ حکومت کو مسلمانوں کے مذہبی احکام کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ نہ اس پالیسی پر قائم ہے کہ ’’ان کے مذہب میں مداخلت نہیں ہوگی‘‘ اس کے بعد مسلمانوں کے لئے نہایت آسانی ہوجائے گی کہ وہ اپنا وقت بے سود شور وفغاں میں ضائع نہ کریں اور برٹش گورنمنٹ اور اسلام ان دونوں میں سے کوئی ایک بات اپنے لئے پسند کرلیں۔ 
محترم حضرات ،یہ کبھی نہیں ہوسکتا ہے کہ مسلمان سول کوڈ کومانے حکومت کہنا چاہتی ہے کہ تین طلاق کے بعد بھی مسلمان مرد ،عورت کواپنے نکاح میں رکھے اور ایک مسلمان کا عقیدہ ہے قرآن وحدیث سے ثابت ہے کہ تین طلاق کے بعد عورت اجنبی ہوجاتی ہے اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا سونا وغیرہ سب حرام ہوجاتاہے اب حکومت کہناچاہتی ہے کے تمہاری بیوی نہ ہو پھر بھی اس کو بیوی بنا کر رکھو ،اورنعوذباللہ تم اس کے ساتھ منہ کالا کرو،
آپ دیکھے کیا حکومت عورتوں پر ہمدردی کررہی ہے ؟یا شیطانی چال سے ایک پاک بازمسلمان عورت کواستغفراللہ زانیہ بدکار بنارہی ہے،اسلئے مسلمان یہ کبھی نہیں مان سکتا ۔
(۴)چوتھی بات کہ ہم کو کیا کرناچاہئے ؟
ہمکو نہ لڑناہے اورنہ فتنہ برپاکرناہے بلکہ میں رک کر کہتا ہوں کہ میرے بیان کا اوراکابرین کی اس تحریک کا ہرگز مقصد نہیں ہے کہ ہم کسی غیرمسلم سے لڑپڑیں،یہ قوم تو بڑے اچھے ہیں انکو ایک مرتبہ چائے پلادیں تووہ اگلے دن سے آپ کو نمستے نمسکار رکہنے لگیں گے۔
ایک اعلان جس میں حضرت مولاناسیدمحمدرابع حسنی ندوی مدظلہ العالی کے بیان کو نقل کرتاہوں 
حکومت ہند کے ذمداروں کی طرف سے شریعت اسلامی میں تبدیلی کی کوشش کاجوآغازہواہے اس کوامت مسلمہ کے تمام حلقوں نے مستردکردیاہے کیونکہ شریعت اسلام میں کسی کوبھی تبدیلی کاحق نہیں،آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈنے اس سلسلے میں دستخطی مہم شروع کی ہے جوپورے ملک میں جاری ہے تمام مسلمان مردوں اورعورتوں سے اپیل ہے،اس دستخطی مہم میں پوری تندہی سے حصہ لیں اورمسلم پرسنل لاء کے پیغام کوگھرگھرپہنچائیں اوراپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں اوراس بات کاعہد کریں کہ ہم اسلامی شریعت میں کسی تبدیلی کوقطعابرداشت نہیں کریں گے۔
نوٹ : دراصل یہ حضرت مولانا مفتی عبداللہ عزرائیل صاحب قاسمی کا بیان ہے جسکو حضرت مولانا فیض الرحمن قاسمی نےنہایت عرق ریزی کے ساتھ قلم زد کر کے ترتیب جدیداور اضافہ یسیرکے ساتھ فائدہ عام کے پیش نظر نیٹ پر شائع کیا ہے اللہ اس مضمون کی بر کت سے مسلم اور غیر مسلم تمام حضرات کو صحیح فہم عطاکرے۔ آمین
سول کوڈ ہی کے سلسلے میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مد ظلہ العالی کاایک تازہ مضمون پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

Wednesday, October 26, 2016

نماز میں قیام کی فرضیت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(نماز میں قیام)

’’وَقُوْمُوْلِلّٰہِ قَانِتِیْن‘‘اور تم اللہ کے لئے سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔
امام رازیؒ نے اس آیت کریمہ کے ذیل میں سلف کے چھ اقوال ذکر کر تے ہوے فرماتے ہیں :
(۶) قنوتسے مراد قیام ہے اس قول کی تائید بھی حدیث پاک سے ہو تی ہے آپ ﷺ کا فر مان ہے ’’عن جابر سئل النبی ﷺ ایُّ الصلوٰ ۃافضل قال طول القنوط‘‘( مأخوذ من تفسیر رازی ۶/۴۸۸ وکذا فی کشاف ۱/۲۸۸ )
علامہ کأسانی ؒ فرماتے ہیں :’’قال اللّٰہ تعالیٰ:وَقُوْمُوْلِلّٰہِ قَانِتِیْن(بقرۃ)وَالْمرادُ منہ القیامُ فی الصلاۃِ ‘‘(بدائع الصنائع۱/۱۰۵)
یعنی اللہ تعالیٰ کافرما ن’’ قُوْمُوْلِلّٰہِ قَانِتِیْن(بقرۃ۲۳۸) ‘‘میں مراد نماز میں کھڑا ہو ناہے۔
صاحب عنایہ فرماتے ہیں :وکذالک القیام لقولہ تعالیٰ قُوْمُوْلِلّٰہِ قَانِتِیْن (بقرۃ ۲۳۸)(العنایۃ شرح الھدایۃ ۱/۲۷۵)
یعنی نماز میں قیام فرض ہے اور اس کی فر ضیت اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’قُوْمُوْلِلّٰہِ قَانِتِیْن‘‘ سے ثابت ہے۔
(قیام کی فرضیت ائمہ کے نزدیک)
قیام کی فرضیت پر تمام ائمہ کرام کااتفاق ہے کہ جو قیام پر قادر ہو اس کے لئے فرض نمازوں میں قیام کرنا ضروری ہے چنانچہ عبد الرحمٰن ابن محمد جزیری ؒ فر ماتے ہیں ’’اتفقت المذاھب علیٰ انّ القیام فرض فی جمیع رکعات الفرض بشرط ان یکون قادراً علی القیام‘‘(الفقہ علی المذاھب الا ربعۃ۱/۲۰۶)
یعنی تمام مذاہب متفق ہیں کہ فرض نمازوں کی تمام رکعاتوں میں قیام فرض ہے بشرطہ کہ وہ قیام پر قادر ہو۔ 
(قیام کی دو قسمیں ہے)
فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ قیام کی دو قسمیں ہیں (۱)کامل (۲)غیر کامل 
کامل تو یہ ہے کہ آدمی بالکل سیدھا کھڑے رہے کسی قسم کا جھکاؤ نہ ہو اور غیر کامل یہ کہ مصلی تھوڑاسا جھکا ہوا ہو لیکن جھکاؤاتنا کم ہو کہ ہاتھ گھٹنوں تک نہ پہنچتا ہو۔
حضرت علامہ شامی ؒ فر ماتے ہیں :’’صاحب (درمختار) کا قول منھا القیام... شامل ہے قیا م تامّ کو اور قیام تام یہ ہے کہ آدمی مکمل طور پر سیدھا کھڑارہے اور (غیر تام ) کوبھی شامل ہے اور غیر تامّ یہ ہے کہ وہ (تھوڑا)جھکارہے اس طرح کہ دونوں گھٹنوں تک ہاتھ نہ پہو نچ سکے‘‘ (شامی فرائض الصلوٰۃ۲/۱۳۱)
(کن نمازوں میں قیا م فرض ہے)
فرض اور واجب نمازوں میں قیام فرض ہے جو آدمی قیا م پر قدرت رکھتا ہو اس کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے ہاں اگر بالکل کھڑے ہونے پر قادر نہ ہوں تو اس کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت ہے،بعض دفعہ دیکھا جاتا ہے کہ آدمی تھوری سی مجبوری میں بیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں یہ درست نہیں ہے فرض اور واجب نماز میں قیام کرنا فرض ہے اور یہ فرضیت صرف اسی وقت ساقط ہو گا جبکہ بالکل کھڑے ہو نے پر قادر نہ ہو۔ 
مکمل طور پر عذر نہ پائے جانے کی صورت میں اگر کسی نے بیٹھ کر نماز ادا کی تو اس کی نماز نہیں ہوگی ۔بعض دفعہ عورتیں فرض وواجب نمازوں
کو بھی بیٹھ کر پڑھ تی ہیں قیام پر قدرت کے باجود عورتوں کے لئے بھی بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے اور اس طرح پڑھی گئی فرض وواجب نمازدرست بھی نہیں ہے۔(مراقی الفلاح ۱/۸۵ فی الفصل صلاۃ النفل جالساََ)
(فجر کی سنت میں قیام)
مراقی الفلاح وغیرہ میں اختلاف منقول ہے مگر طحطاوی وشامی جیسے محققین وغیرہ نے فجر کی سنتوں میں بھی قیام کی فرضیت کو قول صحیح کہاہے یعنی فجر کی سنتوں میں بھی قیامفرض ہے ۔ (طحطاوی ۱/۴۰۳ فی الفصل صلاۃ النفل جالساََ)
(صلوٰۃ منذور اور قضاءِ نفل نمازمیں قیام)
حضرت مولانا عبد الشکورصاحب ؒ فر ماتے ہیں :اس نفل کی قضاجو شروع کرکے فاسد کر دی گئی ہو واجب ہے اسی طرح وہ نماز جو منذور
ہے وہ واجب ہے مگرفقہاء نے (ان نمازوں کے لئے قیام فرض ہے یا نہیں اس میں)سکوت کیا ہے تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھی جائے(علم الفقہ کامل /۲۰۶)
(تراویح میں قیام فرض نہیں ہے)
تراویح میں قیا م ضروری نہیں ہے اگر کوئی شخص قیا م پر قدرت کے باوجود تراویح کی نماز بیٹھ کر ادا کیا تو کو ئی حرج نہیں ہے لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اس شخص کا ثواب بہت بڑھ جائے گا جو کھڑے ہو کر پڑھے کیو نکہ اگرچہ نوافل میں قیا م کرنا ضروری نہیں ہے لیکن بیٹھ کر پڑھنے سے ثواب آدھاملتاہے اورکھڑے ہو کر پڑھنے میں مکمل ثواب ملتاہے۔
(نفل بیٹھ کر پڑھنے پر نصف ثواب)
چنانچہ آپ ﷺ کا ارشادہے:
عن عمران ابن حسینؓ قال سألت النبیَّ ﷺ عن صلوۃ الرجل وھو قاعد فقال من صلی قائماً فہو افضل ومن صلی قاعداً فلہ نصف اجر القائم ومن صلی نائماً فلہ نصف اجر القاعد(بخاری باب صلاۃ القاعدبالایماء ۱/۱۵۰)
’’حضرت عمران ابن حصین ؒ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے متعلق دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فر مایاجس نے کھڑاہوکر نماز اداکیا وہ افضل ہے اور جس نے بیٹھ کر نماز ادا کیا تو اسکو کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کا نصف (آدھا)ثواب ملے گااور جس نے لیٹ کر نماز ادا کی اس کو بیٹھ کر نماز پرھنے والے کا نصف اجر ملے گا‘‘
حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ وہ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے
کہ آپ ﷺ قریب سے گزرے تو آپ ﷺ نے فر مایا بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز (ثواب کے اعتبارسے)آدھی ہے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی نماز سے۔( ابن ماجہ باب صلاۃ القاعدعلی النصف من صلاۃ القائم /۸۶)
حضرت انس ابن مالک ؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ نکلے تو دیکھا کچھ لوگ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں تو آپ ﷺ نے فر مایا بیٹھ کر پڑھنے والے کی نماز (ثواب کے اعتبارسے)آدھی ہے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی نماز سے۔( ابن ماجہ باب صلاۃ القاعدعلی النصف من صلاۃ القائم /۸۶)
معلوم ہو اکہ بلا عذر بیٹھ کر نفل نمازیں ہو تو جا ئیگی لیکن ثواب آدھا ملے گا اس لئے جب تک ممکن ہو سنن ونوافل بھی کھڑے ہی ہو کر پڑھنا چاہیے تا کہ ثواب مکمل ملے ،
ابن ماجہ کی روایت ہے: ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ’’کہ آپ ﷺ کو رات کے نوافل کھڑے ہو کر پڑھتے دیکھا یہاں تک کہ آپ ﷺ کی عمر زیادہ ہو گئی (اور کمزور ہو گئے)توآپ ﷺبیٹھ کر نماز پڑھنے لگے (بیٹھ کر پڑھنے کی صورت بھی آپ قیا م کر تے تھے اور اس کی شکل یہ ہو تی )کہ جب نماز مین تیس چالیس آیت کے بقدرپڑھنا باقی رہتا تو کھڑے ہو کر پڑھتے پھر (قرأت سے فارغ ہوکررکوع اور)سجدہ کرتے‘‘۔(ابن ماجہ /۸۶)

نصف ثواب ان لوگوں کو ملے گا جو قدرت کے باوجود نفل نمازیں بیٹھ کر پڑھے !ہاں جو حضرات عذر کی وجہ سے بیٹھ کر پڑھے تو اس کو مکمل ثواب ملے گا ،انشاء اللہ تعالیٰ
(قیام اس مقتدی کے لئے جو امام سے رکوع کی حالت میں ملا ہو)
حضرت استاذ محترم فقیہ النفس مفتی سعید احمد پالنپوری دامت برکاتہم فر ماتے ہیں:’’اگر امام کو رکوع کی حالت میں پایا تو مقتدی سے فریضہ قیام (جو نماز کے ارکان میں سے ہے )ساقط ہو جا تاہے تمام فقہاء اس پر متفق ہیں اس میں کوئی اختلاف مروی نہیں ہے مقتدی کو چاہیے کہ فوراََتکبیرتحریمہ کہہ کر اما م کے سا تھ رکوع میں جاملے من ادرک الامام فی الرکوع فقد ادرک الرکعۃ سے جمیع اجزاءھا من القیام والقرأت تقدیر ہے‘‘( نورالانوار /۳۹ونامی ۱/۸۹)
لیکن تکبیرتحریمہ کی صحت کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ (حالت قیام) میں کہی گئی ہو یعنی رکوع سے قریب ہو نے سے پہلے پہلے تکبیر تحریمہ کہہ چکا ہو تب وہ تکبیر تحریمہ صحیح ومعتبر ہوگی اگر جھک کر رکوع سے
قریب ہو نے کی حالت میں تکبیر کہی ہے تو یہ تکبیر تحریمہ صحیح نہیں ہے اس لئے نماز(بھی)نہیں ہوگی(امداد الفتاویٰ حاشیہ مفتی سعید احمد پالنوری ۱/۱۹۳)


ایک اہم مضمون
قیام کی اہمیت کو جاننے کے لئے نیچے کے لنک پر جاکر مکمل معلومات حاصل کریںیہاں کلک کریں