Monday, August 7, 2023

ہندوستان کی آزادی

                  

ہندوستان کی آزادی

انصاف ور مؤرخوں نےاپنی کتاب میں اس سچی تاریخ کو بھی رقمطرازکیا ہےکہ مسلمانوں کی تقریبا دوسوسال تک مسلسل قربانیوں اور جانفشانیوں کے بعد آزادی کا دن میسر ہوا، جانوں کا نذرانہ پیش کرنے اور سب کچھ لٹانے کے بعد ہمارا ہندوستان آزاد ہوا۔ آج جو اطمینا ن اور سکون اور آزادی کے ساتھ جی رہے ہیں یہ سب مسلم عوام اور علماء کی دَین ہے،یہی تاریخی حقیقت اور ناقابل ِ فراموش سچائی ہے کہ مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس ملک کو آزاد کرانے کی کوشش کی، سخت ترین اذیتوں کو جھیلا، خطرناک سزاؤں کو برادشت کیا، طرح طرح کی مصیبتوں سے دوچار ہوئے، حالات و آزمائشوں میں گرفتار ہوئے، ان حالات میں بھی برابر آزادی کا نعرہ لگاتے رہے اور ہر ہندوستانی کو بیدار کرتے رہے، کبھی میدان سے راہ ِ فرار اختیار نہیں کی اور نہ ہی کسی موقع پر ملک ووطن کی محبت میں کمی آنے دی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے اقتدارمسلم حکمرانوں سے ہی چھیناتھا،انھیں حاکم سے محکوم بنناپڑا، اس کی تکلیف اوردکھ انھیں جھیلناپڑا، اسی لیے محکومیت وغلامی سے آزادی کی اصل لڑائی بھی انھیں کولڑنی پڑی۔آیئے تاریخی کتب اور مؤرخین کے حوالے سے اس حقیقت کو سمجھیں ۔

17 ویں صدی میں یورپی تجار ملک بھارت میں آنا شروع ہوئے اور انہوں نے اپنی جگہ جگہ چوکیاں قائم کر لیں۔ آہستہ آہستہ فوج جمع کرکے دیکھتے ہی دیکھتے ایک طاقتور فوج قائم کرلی اور پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے  مختلف علاقائی راجاؤں کو اپنے زیر اثر لے لیا اور بالآخر اٹھارہویں صدی میں کمپنی راج قائم کر لیا اور یوں وہ ہندوستان کی غالب طاقت بن گئی۔اور ہندوستانیوں پر نت نئے طریقے سے ظلم ستم کے پہاڑ توڑ نے لگے،اور جب ظلم و بربریت کی انتہاء ہوگئی تو سلسلہ وار مسلمانوں کے قائدین اور مسلم حکمرانوں نے کمپنی راج ختم کرنے کیلئے کئی مرتبہ جنگ کی جس کا مختصر تاریخ حسب ذیل ہے :

علی وردی خان اور نواب سراج الدولہ

انگریزوں سے باقاعدہ منظم جنگ نواب سراج الدولہ کے ناناعلی وردی خان نے 1754ء میں کی اوران کوشکست دی،کلکتہ کاڈائمنڈہاربر Diamond Harbourاور فورٹ ولیم Fort Williamانگریزوں کامرکزتھا،علی وردی خان نے فورٹ ولیم پرحملہ کرکے انگریزوں کو بھگایا، انگریزڈائمنڈ ہاربرمیں پناہ لینے پرمجبورہوئے۔اسے پہلی منظم جنگ آزادی قرار دیا جاسکتاہے۔ علی وردی خان کے بعدان کے نواسہ نواب سراج الدولہ حاکم ہوئے ،اور انگریز سے خطرہ محسوس کرکے انگریزوں کوشکست دیناچاہا؛مگراپنوں کی سازش کی وجہ سےانہیں شکست ہوئی اور1757ء میں برٹش فوج نے ان کے دارالسلطنت مرشدآبادمیں انھیں شہیدکردیا۔نیز پلاسی کی جنگ 1757ء اوربکسرکی جنگ1764کی میں بھی ہندوستانیوں کی شکست پرختم ہوئی،اس کے بعدانگریزبنگال، بہار اور اوڑیسہ پرپوری طرح قابض ہوگئے۔

حیدر علی اور ٹیپو سلطان ؒ

دکن فرمانروا حیدرعلی(م1782ء) اوران کے بیٹے ٹیپوسلطان  نے بھی انگریزوں سے جنگ کی ہے، حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے کئی جنگیں کیں، ٹیپوسلطان 1782ء میں حکراں ہوئے،1783ء میں انگریزوں سے ٹیپوکی پہلی جنگ ہوئی جس میں انگریزوں کوشکست ہوئی۔یہ جنگ 1784ء میں ختم ہوئی، انگریز اپنی شکست کاانتقام لینے کے لیے بے چین تھے؛ چنانچہ 1792ء میں انگریزوں نے اپنی شکست کاانتقام لیتے ہوئے حملہ کیا؛مگر اپنے بعض وزراء وافسران کی بے وفائی اور اچانک حملہ کی وجہ سے ٹیپو معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ٹیپو کو بطور تاوان تین کروڑ روپئے، نصف علاقہ اوردو شہزادوں کوبطورِیرغمال انگریزوں کودینا پڑا۔آخرکاراس مجاہد بادشاہ نے ۴/مئی ۱۷۹۹ ء کوسرنگا پٹنم کے معرکہ میں شہیدہوکر سرخروئی حاصل کی، انھوں نے انگریزوں کی غلامی اوراسیری اوران کے رحم وکرم پرزندہ رہنے پرموت کوترجیح دی، ان کامشہور تاریخی مقولہ ہے کہ ’’گیڈرکی صد سالہ زندگی سے شیرکی ایک دن کی زندگی اچھی ہے‘‘۔ جب جرنل HORSE کوسلطان کی شہادت کی خبرملی تواس نے ان کی نعش پرکھڑے ہوکریہ الفاظ کہے کہ:آج سے ہندوستان ہماراہے۔‘‘(ہندوستانی مسلمان ص۱۳۷)

شاہ عبد العزیز اور ان کے رفقاء

 شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی رحمہ الله (م1824ء)نے اپنے والدکی تحریک کوبڑھاتے ہوئے1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتوی دیا،جس میں ہندوستان کودارالحرب قرار دیا گیا اور سیداحمد شہید رائے بریلوی رحمہ الله کولبریشن موومنٹ کا قائد مقرر کیا۔1831ء میں سیداحمدشہید رحمہ الله اورشاہ اسماعیل شہید رحمہ الله بالاکوٹ میں اپنے بے شمار رفقاء کے ساتھ انگریزوں  کے خلاف جہادمیں شہیدہوئے؛آپ کے بعدمولانا نصیرالدین دہلوی رحمہ الله نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔1840ء میں آپ کی وفات کے بعدمولانا ولایت علی عظیم آبادی رحمہ الله  (م1852ء)اورانکے بھائی مولاناعنایت علی عظیم آبادی (م1858ء) نے اس تحریک کوزندہ رکھنے میں اہم کرداراداکیا۔اور یہ سلسلہ چلتارہا یہاں تک کہ  1857ء  ۔

1857ء میں علماء کرام

1857 ء میں علماء کرام کی ایک جماعت تیارہوئی۔ جن میں مولانااحمدالله شاہ مدراسی رحمہ الله ، مولانا رحمت الله کیرانوی رحمہ الله ، مولانافضلِ حق خیرآبادی، رحمہ الله مولاناسرفراز رحمہ الله ، حاجی امدالله مہاجرمکی رحمہ الله ، مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ الله ، مولانا قاسم نانوتوی رحمہ الله ،حافظ ضامن شہید رحمہ الله اور مولانا منیر نانوتوی رحمہ الله خاص طور پر قابل ذکرہیں۔اسی زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی رحمہ الله نے انگیریزوں کے خلاف فتوی مرتب کرایاجس پر علماء دہلی سے دستخط لیے گئے، اور یہی فتوی مولاناکی گرفتاری کاسبب بنا ۔1857ء کے زمانہ میں مولانااحمدالله شاہ مدراسی رحمہ الله سپہ سالارکی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ ہومزلکھتاہے: ’’مولوی احمدالله شاہ شمالی ہندمیں انگریزوں کاسب سے بڑادشمن تھا۔1865ء میں مولانااحمدالله عظیم آبادی رحمہ الله ، مولانایحییٰ علی رحمہ الله ، مولاناعبدالرحیم صادق پوری رحمہ الله ، مولانا جعفرتھانیسری رحمہ الله کوانڈمان بطور سزابھیج دیا گیا جو کالاپانی کہلاتاہے۔اسی زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی رحمہ الله ، مفتی احمدکاکوروی رحمہ الله اورمفتی مظہرکریم دریابادی  رحمہ الله کوبھی انڈمان روانہ کیاگیا، جن میں مولانا احمدالله عظیم آبادی رحمہ الله ، مولانایحییٰ علی رحمہ الله ، اورمولانا فضل حق خیرآبادی رحمہ الله  وغیرہم کا وہیں انتقال ہوگیا۔ مولانا عبدالرحیم صادق پوری رحمہ الله  اورمولانا جعفر تھانیسری رحمہ الله اٹھارہ سال کی قیدبامشقت اور جلاوطنی کے بعد 1883ء میں اپنے وطن واپس ہوئے۔ مولاناجعفرتھانیسری رحمہ الله اپنی کتاب کالاپانی میں تحریرفرماتے ہیں:’’ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پیروں میں بیڑیاں، جسم پرجیل کا لباس اور کمرپرلوہے کی سلاخیں تھیں۔انگریزہم تین علماء کے لیے خاص لوہے کے قفس تیار کروائے اور ہمیں ان میں ڈال دیا۔اس پنجرے میں لوہے کی چونچ دارسلاخیں بھی لگوائیں، جس کی وجہ سے ہم نہ سہارالے سکتے تھے، نہ بیٹھ سکتے تھے۔ہماری آنکھوں سے آنسوں اورپیروں سے خون بہہ رہے تھے۔غدر کے ملزمان انگریزوں کی نگاہ میں اتنے بڑے مجرم سمجھے گئے کہ غدر1857ء میں پکڑے گئے لوگوں کو یاتوسرعام پھانسی دیدی گئی یابہت سے لوگوں کواسی جزیرے انڈمان میں موت سے بدترزندگی گذارنے کے لیے بھیجاگیا۔ 1857ء میں شاملی ضلع مظفرنگرکے میدان میں علماء دیوبندنے انگریزوں سے باقاعدہ جنگ کی، جس کے امیرحاجی امدالله مہاجرمکی رحمہ الله مقررہوئے۔اور اس کی قیادت مولانارشیداحمدگنگوہی رحمہ الله ، مولاناقاسم نانوتوی رحمہ الله ، اورمولانامنیرنانوتوی رحمہ الله کررہے تھے۔ اس جنگ میں حافظ ضامن  رحمہ الله شہیدہوئے، مولانا قاسم نانوتوی رحمہ الله انگریزوں کی گولی لگ کرزخمی ہوئے۔مولانارشیداحمدگنگوہی رحمہ الله کوگرفتارکیاگیااورسہارنپورکے قیدخانہ کے بعدچند دن کال کوٹھری میں رکھ کرمظفرنگرکے قیدخانہ میں منتقل کیاگیا ۔1857ء کی جنگ میں مسلمانوں کوبظاہرشکست ہوئی۔

مؤرخ لکھتے ہیں : اس 18 57 کی جنگ میں جو تقریباّ پورے ہندوستان میں شروع ہوچکی تھی اس میں پانچ لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا جس میں 5000 صرف علماء تھے۔کہا جاتا ہے کہ جی ٹی روڈ پر دہلی سے کلکتہ تک کوئی ایسا درخت نہیں تھا جس پر کسی عالم کی لاش نہ لٹکی ہو۔

 

انڈین نیشنل کانگرس کاقیام اوراس میں مسلمانوں کاحصہ

1884ء میں انڈین نیشنل کانگرس کاپہلااجلاس منعقدہوا، کے بانیوں میں دیگرمسلمانوں کے ساتھ بدرالدین طیب جی اوررحمت الله سیانی بھی شامل تھے،  ہندوستان کی تاریخ کی کئی عظیم شخصیات بھی اس جماعت سے وابستہ رہی ہیں جن میں موہن داس گاندھی، جواہر لعل نہرو، ولبھ بھائی پٹیل، راجندرہ پرساد، خان عبدالغفار خان اور ابو الکلام آزاد زیادہ معروف ہیں۔کانگرس کا چوتھااجلاس 1887ء میں مدراس میں ہوا،جس کی صدارت بدرالدین طیب جی نے کی،اسی جماعت کا تقریبا  9 صدور مسلم ہوئے ہیں ۔

گاندھی جی اور آزادی

موہن داس کرم چند گاندھی،1915ء میں جب افریقہ سے واپس ہوئے اور اپنے ملک کے لوگوں کا حال دیکھاخاص کرکے امرتسر میں جنرل ڈائر نے 20 ہزار افراد کے ہجوم پر فائرنگ کر دی جس میں 400 سے زیادہ افراد ہلاک اور 1300 سے زیادہ افراد زخمی ہوگئے۔اس قتل عام کے بعد گاندھی کو یقین ہوگیا کہ انھیں ہندوستان کی آزادی کی تحریک کا باضابطہ آغاز  کرنا چاہیے۔اور اسطرح وہ انڈین نیشنل کانگرس کا کا نمایاں چہرہ بن گئے۔ اوربرطانیہ سے ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے رہنما بھی بنے۔

جمعیت کا قیام

1919ء میں جمعیت علماء ہندکاقیام عمل میں آیا،جس کے بنیادی ارکان میں شیخ الہند مولانا محمودحسن دیوبندی رحمہ الله ،مولاناحسین احمدمدنی رحمہ الله ، مولاناعطاء الله شاہ بخاری، مولانا ثناء الله امرستری رحمہ الله ، مولانامفتی کفایت الله دہلوی رحمہ الله ، مولانامحمدعلی جوہر،مولاناشوکت علی،مولانا ابوالمحاسن سجاد، مولانا احمدعلی لاہوری رحمہ الله ، مولاناابوالکلام آزاد، مولاناحفظ الرحمن سیورہاروی رحمہ الله ، مولانا احمدسعید دہلوی رحمہ الله ، مولانا سیدمحمدمیاں دیوبندی رحمہ الله  جیسے دانشوران قوم تھے۔شیخ الہند رحمہ الله  کی رہائی کے بعد سب سے پہلے 29جولائی 1920ء کوترکِ موالات کافتوی شائع کیاگیا۔

تحریک خلافت اورہندومسلم اتحاد

1919 ء میں جلیاں والاباغ سانحہ پیش آیا جس میں کئی افراد ہلاک ہوئے،انھیں ایام میں تحریکِ خلافت وجودمیں آئی،جس کے بانی مولانامحمدعلی جوہر تھے، اس تحریک سے ہندومسلم اتحادعمل میں آیا۔گاندھی جی،علی برادران (مولانامحمدعلی جوہر ومولانا شوکت علی)اورمسلم رہنماوٴں کے ساتھ ملک گیردورہ کیا،اس تحریک نے عوام اورمسلم علماء کوایک پلیٹ فارم پرکھڑاکردیا،جن میں شیخ الہند مولانامحمودحسن دیوبندی رحمہ الله ،مولانا عبدالباری فرنگی محلی رحمہ الله ، مولاناآزادسبحانی،مولاناثناء الله امرتسری رحمہ الله ، مفتی کفایت الله دہلوی رحمہ الله ، مولاناسیدمحمدفاخر،مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ الله ، مولانااحمدسعیددہلوی وغیرھم شریک تھے،الغرض ہندوستان کے اکابرعلماء نے سالہاسال کے اختلافات کو نظرانداز کرکے تحریکِ خلافت میں شانہ بشانہ کام کیا۔

تحریکِ ترک موالات

1920ء میں گاندھی جی اورمولاناابوالکلام آزادنے غیرملکی مال کے بائیکاٹ اورنان کوآپریشن(ترک موالات)کی تجویزپیش کی،یہ بہت کارگرہتھیارتھا، جواس جنگ آزادی اورقومی جدوجہدمیں استعمال کیاگیا، انگریزی حکومت اس کاپوراپورانوٹس لینے پر مجبورہوئی اوراس کاخطرہ پیداہواکہ پوراملکی نظام مفلوج ہوجائے اورعام بغاوت پھیل جائے، آثارانگریزی حکومت کے خاتمہ کی کی پیشینگوئی کررہے تھے۔(ہندوستانی مسلمان،ص۱۵۷)

1921ء میں موپلابغاوت،1922ء میں چوراچوری میں پولیس فائرنگ،1930ء میں تحریک سول نافرمانی ونمک آندولن، 1942ء میں ہندوستان چھوڑوتحریک(Quit India Movement)، 1946ء میں ممبئی میں بحری بیڑے کی بغاوت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں پرپولیس فائرنگ کے دوران ہزاروں مسلمان شہیدہوئے۔ مسلمانوں کے علاوہ شہیدعلماء کی تعدادبیس ہزار سے پچاس ہزارتک بتائی جاتی ہے،

 مذکورہ بالا شخصیتوں کے علاوہ بہادرشاہ ظفر،بیگم محل،نواب مظفرالدولہ،امام بخش صہبائی، مولانابرکت الله بھوپالی، مولاناحسرت موہانی، مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی،ڈاکٹرسیف الدین کچلو، مولانا مظہرالحق، ڈاکٹرسیدمحمود، مولوی احمد اللہ، شہزادہ فیروز شاہ، بخت خاں، نواب ولی داد خاں (مالا گڑھ ضلع بلند شہر)، نواب تفضل حسین خاں (فرخ آباد)، خان بہادر خاں (بریلی)، نواب محمود علی خاں (نجیب آباد)، مولوی لیاقت علی (الٰہ آباد)، عظیم اللہ (کانپور)، مولانا پیر علی خاں (پٹنہ)، فاضل محمد خاں، عادل محمد خاں (بھوپال)، سعادت خاں میواتی (اندور)، مولانا علاؤ الدین اور طرہی باز خاں (حیدر آباد)، نواب قادر خاں (ناگپور)وغیرہم نے جنگ آزادی میں بھرپورحصہ لیا۔

ان مجاہدین کی قربانیاں رائیگاں نہیں ہوئی،1947 میں اسی تاریخ کو ہندوستان نے ایک طویل جدوجہد کے بعد انگریزوں کے استعمار سے آزادی حاصل کی تھی۔

 (اس مضمون کے اکثر مواد ماخوذ ہیں ماہنامہ دارالعلوم دیوبند ، جمادی الاول1432ھ، ماہنامہ البینات کرچی، رمضان المبارک ، 1428ھ، ساتھ ہی کہیں کہیں نیٹ پر موجود مضامین سے  بھی استفادہ کیا گیا )

               نئے مضامین


قیمتی باتیں                      حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

 

 


Saturday, August 5, 2023

قیمتی باتیں

قیمتی باتیں

فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب، جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا، وناظم و بانی ،  المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد ۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم کی قیمتی باتیں،ناندیڑ اجلاس بروز سنیچر ۳ ستمبر ۲۰۲۲

آج یہ عزم کریں کہ اس ملک میں ہم اپنے دین و شریعت کے ساتھ  زندہ رہیں گے۔نہ سونے کی زنجیر ہمارے دل کو خرید سکے گی،اور نہ لوہے کی زنجیر ہمیں خوفزدہ کر سکے گی۔

جو امانت ہمارے آباء نے دین کی شکل میں ہمارے حوالے کی وہ ہم اگلی نسلوں تک پہونچا ئنگے۔اس وقت کوشش کی جارہی ہے کہ ہماری نسلوں سے دین و ایمان چھین لیا جائے۔کوشش تو ستر سال سے کی جارہی ہے لیکن دشمنانِ اسلام نے سمجھ لیا کہ مسلمانوں کو ڈرا کر ان کے دین سے برگشتہ نہیں کیا جاسکتا۔

پہلی ماب لنچنگ(ہجومی تشدد) حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی ہوئی، ماب لنچنگ حضرت بلال (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کی بھی  ہوئی لیکن انکے زبان پر اللہ احد کے سوا کچھ نہیں تھا،  حضرت خبیب(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی  ماب لنچنگ ہوئی ان کے جسم کے ایک ایک عضو کو تیروں سے چھلنی کیا گیا لیکن انکی ثابت قدمی میں فرق نہیں آیا۔

مسلمانوں کی ثابت قدمی  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی میراث ہے۔

اب یہ کوشش کی جارہی ہے کہ (1)تعلیم اور(2)میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کے دل ودماغ کو قابو میں کیا جائے.اسکے لیے ایجوکیشن پالیسی بنائی جا چکی ہےاور 2024تک یہ نافذ ہو جائے گی۔

بچے جب اسکول جائنگے تو وہاں سرسوتی کی مورتی ہوگی اور ٹیچر انہیں بتائیں گے کہ یہ تعلیم کی دیوی ہے۔ لکشمی رزق کی دیوی ہے،اور وندے ماترم ہمارے بچوں سے پڑھوایا جائیگا۔ وطن کو معبود کہلوایا جائےگا۔

  وطن کو محبوب بنایا جاسکتا ہے لیکن معبود نہیں۔

اسکولس میں یوگا لازم کروایا جائیگا،یوگا صرف ورزش نہیں ہے۔ بلکہ اس کے متعلق RSSکے سربراہ کا بیان آچکا ہے کہ یہ ہندو دھرم کا حصہ ہے  اور گیتا میں اسکی پوری تعلیم ہے۔ لہذا یہ آپکے بچوں کی صحت کے لیے نہیں بلکہ اسلئے کروایاجارہا ہے کہ آپکا بچا آہستہ آہستہ ہندو آڈیالوجی کو قبول کرے۔ آپکے نصاب میں گیتا کو شامل کیا جائے گا۔اب تو یہ کہا جارہا ہے کہ گیتا دھارمک پستک (مذہبی کتاب) نہیں بلکہ ملک کی تہذیب اور کلچر کی نمائندہ اور قومی کتاب ہے۔

میڈیا کے ذریعے اسلام کو بدنام کرنے کی سازش جارہی ہے۔  اور اب تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زبانیں کھلنے لگی ہیں۔

 مسلمانوں کی تاریخ کو اس انداز میں بتایا جارہا ہے کہ مسلمان بچے احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جائیں۔اور نصاب تعلیم سے مسلم دور کی تاریخ ختم کی جارہی ہے۔ اسکا اثر یہ پڑیگا کہ آئندہ نسلیں اسلام سے دور ہو جائیگی۔

اسرائیل بننے کے بعد اجڑے ہوئے فلسطینی برطانیہ میں بسائے گیے جو مرتد ہوگئے اب ان کے نام کے شروع میں  صرف الف لام باقی رہ گیا۔اس ملک میں بھی آپکے ساتھ ایسا ہی کچھ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اردو زبان کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ ہمارے بچے اس ایجوکیشن سسٹم سے اپنی پہچان کھو دیں گے۔ہمیں اپنی پہچان باقی رکھنا ضروری ہے۔ ہمارے ٪99.5 فی صد بچے اسکول میں پڑھتے ہیں۔ اورمدرسوں میں ایک فیصد سے کم طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اگر ہمارا اتنا بڑا گروہ دین سے پھر جائے گا تو ظاہر ہے اہل مدارس بھی انہیں نہیں بچا پائنگے۔

آج بھی ہندوستان میں لاکھوں لوگ مرتد ہو رہے ہیں۔

اسکے دو حل ہیں ایک اسلامی اسکول قائم کریں۔جہاں دین کی بنیادی تعلیمات کے ساتھ عصری تعلیم دی جاسکے۔دوسرا مکاتب پر دھیان دیں۔

عیسائیوں نے یہاں پر اپنے اسکول قائم کیے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب ہندوستان کے پانچ صوبے ایسے ہیں جن میں کثرت سے عیسائی پائے جاتے ہیں جھارکھنڈ میں ایک تہائی عیسائی ہے اور کیرلا میں 27فیصد عیسائی ہیں۔اور عیسائیت یہاں صرف  مشنری اسکولوں کے ذریعہ پھیلی۔

کشمیر میں مسلمانوں کی بڑی تعداد مرتد ہوگئی۔

سنگھ پریوار نے لاکھوں گروکل ہندوستان میں قائم کئے۔جس میں ہندو ازم کی تبلیغ کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف زہن سازی کی جاتی ہے۔

اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کریں۔

آج ہمارے ملک میں جو نفرت کا سیلاب آیا ہے اس میں قصور وار ہم بھی ہیں۔ ہم نے اپنے غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ اپنا تعلق قائم نہیں رکھا۔ اپنے غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ مل جل کر رہیں۔ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی خوب ترغیب دی ہے۔

 

جمع و ترتیب: محمد اکرم خان قاسمی حمایت نگر

شائع کردہ : مفتی محمد عبد اللہ عزرائیل قاسمی، استاذ جامعہ اسلامیہ ،برموتر ،مدہوبنی ۔

نیا مضمون

شاتم رسول


Friday, July 28, 2023

کربلا

 

واقعہ کربلا اور شہادت حسین

واقعہ کربلا

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یزید ولی عہد کے پیش نظر امیر بنا،چونکہ یزیدبن معاویہ کا ذاتی کردار ان تمام اوصاف سے عاری تھا جو امیر یا خلیفہ کے لیے شریعت اسلامیہ نے مقرر کیے ہیں ، اس لئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کی امارت  کو ماننے سے انکار کردیا۔ 

بالآخر یزید نے تخت نشین ہوا ،اور  حاکم مدینہ ولید بن عتبہ کو حکم دیا کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بیعت طلب کریں مگر ولید نے سختی سے کام نہ لیا لیکن مروان بن الحکم  بیعت لینے کے لیے مجبور کر رہا تھا۔ ان حالات میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ مکہ چلے گئے ،  اورجب آپ وہاں پہونچے تو  پہنچے تو اہل کوفہ نے انھیں سینکڑوں خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ وہ خلافت اسلامیہ کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کر سکیں ،آپ نے حضرت عبد اللہ  بن زبیر وغیرہ سے مشورہ کیا سب نے آپ کو جانے سے منع کردیا ، ادھر اہل کوفہ کی جانب سے مسلسل خطوط آتے رہے اور اللہ کا واسطہ دیکر آپ کی مدد کرنے کا وعدہ کرتے رہے ، بالآ خر  حضرت عبد اللہ  بن زبیر وغیرہ نے آپ کو کہا اگر آپ جانا چاہتے ہیں تو پہلےکوفہ ایک قاصد بھیج کر وہاں کی سورت حال سے آگاہ ہوجائیں اگر وہاں کی حالت خوشگوار رہے تو چلے جائیں ورنہ آپ یہیں رکے رہیں ۔جب قاصد نےاطلاع دی کہ یہاں کے احوال بہت بہتر ہے ، آپ تشریف لے آئیں ان لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت بھی شروع کردی ہے ، جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اہل بیت کے ہمراہ  کوفہ کی جانب روانہ ہوئے ۔

اِدھرعبیداللہ بن زیاد نے عمروبن سعد بن ابی وقاص کو،،رے،، کی حکومت پرنامزد کیا اور فی الحال چار ہزار فوج دیکر حضرت حسین کی نگرانی اور کھوج پرمامور کیا کہ وہ کس طرف سے آرہے ہیں اور کہاں ہیں اور ایک ہزار آدمی حربن یزید تمیمی کے سپرد کرکے اس کوبھی گشت وگرداوری پرمامور کیا، عمروبن سعد مقام قادسیہ میں ہوکر ہرسمت کی خبریں منگانے کا انتظام کرنے لگے، حضرت امام حسین رضی اللہ جب مقام شراف سے آگے بڑھے توحربن یزید تمیمی اپنی ایک ہزار فوج کے سامنے آیا، امام حسین نے آگے بڑھ کرحرسے کہا کہ میں تم ہی لوگوں کے بلانے سے یہاں آیا ہوں؛ اگرتم لوگ اپنے عہدواقرار پرقائم ہوتومیں تمہارے شہر میں داخل ہوں گا، نہیں توجس طرف سے آیا ہوں اسی طرح واپس چلاجاؤنگا، حر نے کہا ہم کوعبیداللہ بن زیاد کا حکم ہے کہ آپ کے ساتھ رہیں اور آپ کواس کے سامنے زیرحراست لے چلیں، امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ذلت توہرگز گوارا نہیں ہوسکتی کہ ابن یزید کے سامنے گرفتار ہوکر جائیں، اس کے بعد انھوں نے واپسی کا ارادہ کیا توحر نے ابنِ زیاد کے خوف سے واپس ہونے سے روکا اور واپسی کے راستے میں اپنی فوج لے کرکھڑا ہوگیا، امام حسین رضی اللہ عنہ نے وہاں سے شمال کی جانب کوچ کیا اور قادسیہ کے قریب پہنچ گئے، وہاں معلوم ہوا کہ عمروبن سعد ایک بڑی فوج کے ساتھ مقیم ہے، حر آپ کے پیچھے پیچھے تھا، قادسیہ کے قریب پہنچ کرامام ؑوہاں سے لوٹے اور دس میل چل کرمقامِ کربلا میں آکرمقیم ہوئے، عمروبن سعد آپ کی خبر سن کرمعہ فوج روانہ ہوا اور سراغ لیتا ہوا اگلے روز کربلا پہنچ گیا، قریب پہنچ کرعمروبن سعد اپنی فوج سے جدا ہوکر آگے آیا اور امام حسین علیہ السلام کوآواز دے کراپنے قریب بلایا، سلام علیک کے بعد ابن سعد نے کہا کہ:بیشک آپ یزید کے مقابلے میں زیادہ مستحقِ خلافت ہیں؛ لیکن خدائے تعالیٰ کویہ منظور نہیں کہ آپ کے خاندان میں حکومت وخلافت آئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے حالات آپ کے سامنے گذرچکے ہیں ، حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ:میں اس وقت تین باتیں پیش کرتا ہوں، تم ان تین میں سے جس کوچاہو میرے لیے منظور کرلو:اوّل تویہ کہ جس طرف سے میں آرہا ہوں؛ اسی طرف مجھے واپس جانے دوتاکہ میں مکہ معظمہ میں پہنچ کرعبادتِ الہٰی میں مصروف رہوں۔دوّم یہ کہ مجھ کوکسی سرحد کی طرف نکل جانے دوکہ وہاں کفار کے ساتھ لڑتا ہوا شہید ہوجاؤں۔سوّم یہ کہ تم میرے راستے سے ہٹ جاؤ اور مجھ کوسیدھا یزید کے پاس دمشق جانے دو، میرے پیچھے پیچھے اپنے اطمینان کی غرض سے تم بھی چل سکتے ہو، میں یزید کے پاس جاکر براہِ راست اس سے اپنا معاملہ اسی طرح طے کرلونگا جیسا کہ میرے بڑے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے طے کیا تھا۔عمروبن سعد یہ سن کربہت خوش ہوا اور کہا کہ میں بطورِ خود کوئی پختہ جواب آپ کو نہیں دے سکتا، میں ابھی عبیداللہ بن زیاد کواطلاع دیتا ہوں، یقین ہے کہ وہ ضرور ان میں سے کسی ایک بات کومنظور کرلے گا، عمروبن سعد بھی اسی میدان میں خیمہ زن ہوگیا اور ابن زیاد کویہ تمام کیفیت لکھ بھیجی۔

ابن زیاد نے کہا پھر تو معاملہ ختم ہوجائیگا ،حضرت حسن کی بہتر راے ہے وہ خود جاکر یزید سے اپنا معاملہ حل کرلیں گے لیکن شمرذی الجوشن اس وقت اس کے پاس موجود تھا، اس نے کہا اگرامام حسین رضی اللہ عنہ یزید کے پاس چلے گئے توپھران کے مقابلے میں تیری کوئی عزت وقدر باقی نہ رہے گی اور وہ تجھ سے زیادہ مرتبہ حاصل کرلیں گے، یہ سن کرابنِ زیاد نے عمروبن سعد کوجواب میں لکھا کہ:یہ تینوں باتیں کسی طرح منظور نہیں ہوسکتیں،صرف ایک صورت ہے کہ امام حسین اپنے آپ کوہمارے سپرد کردیں اور یزید کی بیعت نیابتاً اوّل میرے ہاتھ پرکرے؛ پھرمیں ان کویزید کے پاس اپنے اہتمام سے روانہ کروں گا۔اس جواب کے آنے پرعمروبن سعید نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کواطلاع دی اور کہا کہ میں مجبور ہوں، ابنِ زیاد خلافتِ یزید کی بیعت اوّل اپنے ہاتھ میں چاہتا ہے اور کسی دوسری بات کومنظور نہیں کرتا، امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس سے تومرجانا بہتر ہے کہ میں ابن زیاد کے ہاتھ پربیعت کروں۔ابن سعد حضرت حسین کا احترام کرتے تھے ،کسی طرح معامل حل ہوجائے اس کی فکر میں تھے  ، بالآخر جویرہ  کو ابن زیاد نے خط دیکر بھیجا کہ اگر ابن سعد حسین رضی اللہ عنہ کا سر نہ کاٹے تو تم اس کو قید کر کے میرے پاس لے آنا یہ خط لے کرجمعرات کے دن ۹/محرم الحرام سنہ۶۱ھ کوابنِ سعد کے پاس پہنچا، ابن سعد اس وقت اپنے خیمہ میں بیٹھا تھا، خط کوپڑھتے ہی کھڑا ہوگیا اور گھوڑے پرسوار ہوکر لشکر کوتیاری کا حکم دیا ، جب امام حسین کے روبرو ہوا،تو امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ کوکل تک کے لیئے اور سوچنے کی مہلت دو، ابنِ سعد نے جویرہ کی طرف دیکھا کہ اس نے کہا کہ کل کچھ دور نہیں ہے، اتنی مہلت دے دینی چاہیے، ابن سعد میدان سے واپس آیا اور فوج کوحکم دیا کہ کمرکھول دو، آج کوئی لڑائی نہ ہوگی۔ادھرابن زیاد نے فوراً شمرذی الجوشن کوبلوایا اور کہا کہ میں جویرہ کوبھیج چکا ہوں اور اس کوحکم دے دیا ہے کہ اگرابن سعد لڑائی میں تامل کرے تواس کوگرفتار کرکے لے آئے، ابن سعد کی طرف سے مجھ کومنافقت کا شبہ ہے؛ اگرجویرہ نے ابنِ سعد کوگرفتار کرلیا توفوج جومیدان میں پڑی ہوئی ہے، سب آوارہ اور ضائع ہوجائے گی، میں تجھ سے بہتر اس کام کے لیے دوسرا شخص نہیں پاتا توفوراً میدانِ کربلا کی طرف جا اور اگرابنِ سعد گرفتار ہوچکا ہوتوفوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے اور امام حسین رضی اللہ عنہ سے لڑکر ان کا سرکاٹ لا، اگرابنِ سعد گرفتار نہ ہوا ہو اور لڑائی میں تامل کررہا ہوتوفوراً جاتے ہی لڑائی چھیڑدے ،شمرصبح کے وقت روانہ ہوا اور عصر کے وقت پہنچا، شمر کے آنے پرتمام کیفیت جوپیش آئی تھی، سنادی، شمر نے کہا کہ میں توایک لمحہ کی بھی مہلت نہ دونگا ،ابن سعد شمر کوہمراہ لے کرامام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ عبیداللہ بن زیاد نے یہ دوسرا قاصد بھیجا ہے اور مہلت آپ کوبالکل دینا نہیں چاہتا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سبحان اللہ اب مہلت کے دینے یانہ دینے کی کیا ضرورت ہے، آفتاب توغروب ہورہا ہے، کیا رات کے وقت بھی، تم لوگ جنگ کوکل کے لیئے ملتوی نہ رکھو گے، یہ سن کرشمرذی الجوشن نے بھی کل صبح تک کا انتظار مناسب سمجھا اور دوونوں اپنے لشکرگاہ کوواپس چلے آئے۔

ابن زیاد نے رات ہی میں عمر بن سعد کو حکم دیا کی فرات کا پانی بند کردو،عمروبن سعد نے اس حکم کے پہنچتے ہی عمروبن الحجاج کوپانچ سوسواردے کرساحلِ فرات پرمتعین کردیا،اور قافلہ حسینی کو پانی لینے سے منع کردیا ، اس کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام ہمراہیوں کواپنے پاس بلاکر کہا کہ تم لوگ یہاں سے جس طرف کومناسب سمجھو، چلے جاؤ، تم کوکوئی بھی کچھ نہ کہے گا؛ کیوں کہ دشمنوں کوصرف میری ذات سے بحث ہے، تمہارے چلے جانے کوتووہ اور بھی غنیمت سمجھیں گے، میں تم سب کواجازت دیتا ہوں کہ اپنی اپنی جان بچالو، ہمراہیوں نے یہ سن کرکہا کہ ہم ہرگز ہرگز آپ کا ساتھ نہیں چھوڑسکتے، ہم سب آپ کے اوپرقربان ہوجائیں گے اور جب تک ہمارے دم میں دم ہے، آپ کوآزار نہ پہنچنے دیں گے؛ اسی شب تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص طرماح بن عدی جواس نواح میں آیا تھا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ابنِ سعد کے لشکروں کا حال سن کرامام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ تنہا میرے ساتھ چلیں، میں آپ کوایک ایسے راستے سے لے چلوں گا کہ کسی کومطلق اطلاع نہ ہوسکے گی اور اپنے قبیلہ بنی طے میں لے جاکر پانچ ہزار آدمی اپنے قبیلہ کے آپ کی خدمت میں پیش کروں گا، آپ ان پانچ ہزار سے جوچاہیں کام لیں، امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ابھی ان سب سے کہا تھا کہ مجھ کوتنہا چھوڑ کرتم سب چلے جاؤ توانھوں نے اس بات کوگوارا نہیں کیا، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ میں ان سب کوچھوڑ کرتنہا اپنی جان بچاکر نکل جاؤں، ۔

جنگ کی ابتداء

جب صبح ہوئی توشمرذی الجوشن اور عمروبن سعد صفوفِ لشکر کوآراستہ کرکے میدان میں آئے،بعض روایات کے موافق آپ کے ہمراہ اس وقت جب کہ لڑائی 10/محرم الحرام سنہ۶۱ھ کی صبح کوشروع ہوتی ہے، بہتر آدمی موجود تھے، بعض روایات کے موافق ایک سوچالیس اور بعض کے موافق دوسوچالیس تھے؛ بہرحال اگربڑی سے بڑی تعداد یعنی دوسوچالیس بھی تسلیم کرلیں تودشمنوں کی ہزارہا جرار افواج کے مقابلے میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھی کوئی حقیقت نہ رکھتے تھے، امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ہمراہیوں کومناسب مقامات پرکھڑا کرکے اور ضروری وصیتیں فرماکر اونٹ پرسوار ہوئے ،

 شمرذی الجوشن نے عمروبن سعد سے کہا کہ اب دیرکیوں کررہے ہو؟ عمروبن سعد نے فوراً ایک تیرکمان جوڑکر حسین علیہ السلام کے لشکر کی طرف پھینکا اور کہا کہ تم گواہ رہنا کہ سب سے پہلا تیر میں نے چلایا ہے، اس کے بعد کوفیوں کے لشکر سے دوآدمی نکلے، امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک بہادر نے مقابلہ پرجاکر دونوں کوقتل کردیا؛ پھراسی طرح لڑائی کا سلسلہ جاری ہوا، دیرتک مبازرہ کی لڑائی ہوتی رہی اور اس میں کوفیوں کے آدمی زیادہ مارے گئے؛ پھراس کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک ایک آدمی نے کوفیوں کی صفوں پرحملہ کرنا شروع کیا، اس طرح بہت سے کوفیوں کا نقصان ہوا، حضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہیوں نے آلِ ابی طالب کواس وقت تک میدان میں نہ نکلنے دیا، جب تک کہ وہ ایک ایک کرکے سب کے سب نہ مارے گئے، آخر میں مسلم بن عقیل کے بیٹوں نے آلِ علی پرسبقت کی، ان کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام کے بیٹے علی اکبر نے دشمنوں پررستمانہ حملے کیئے اور بہت سے دشمنوں کوہلاک کرنے کے بعد خود بھی شہید ہوگئے، ان کے قتل ہونے کے بعد امام حسین علیہ السلام سے ضبط نہ ہوسکا اور آپ رونے لگے؛ پھرآپ کے بھائی عبداللہ ومحمد وجعفر وعثمان نے دشمنوں پرحملہ کیا اور بہت سے دشمنوں کومار کرخود بھی ایک ہی جگہ ڈھیر ہوگئے، آخر میں امام حسین علیہ السلام کے ایک نوعمر بیٹے محمدقاسم نے حملہ کیا اور وہ بھی مارے گئے؛ غرض کہ امام حسین کے لیئے کربلا میں اپنی شہادت اور دوسری تمام مصیبتوں سے بڑھ کرمصیبت یہ تھی کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے بھائیوں اور بیٹوں کوشہید ہوتے ہوئے  دیکھا، امام حسین علیہ السلام کے ہمراہیوں اور خاندان والوں نے ایک طرف اپنی بہادری کے نمونے دکھائے تودوسری طرف وفاداری وجان نثاری کی بھی انتہائی مثالیں پیش کردیں ،نہ بے وفائی وتن آسانی کا الزام اپنے اوپر لیا۔حضرت امام حسین علیہ السلام سب سے آخر تنہا رہ گئے، خیمہ میں عورتوں کے سوا صرف علی الاوسط معروف بہ زین العابدین جوبیمار اور چھوٹے بچے تھے، باقی رہ گئے تھے، عبیداللہ بن زیاد ظالم نے یہ حکم بھی بھیج دیا تھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا سرمبارک کاٹ کران کی لاش گھوڑوں سے پامال کرائی جائے کہ ہرایک عضو ٹوٹ جائے۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے تنہا رہ جانے کے بعد جس بہادری وجواں مردی کے ساتھ دشمنوں پرحملے کئے ہیں کہ ان حملوں کی شان دیکھنے والا ان کے ہمراہیوں میں سے کوئی نہ تھا؛ مگرعمروبن سعد اور شمرذی الجوشن آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ ہم نے آج تک ایسا بہادر وجری انسان نہیں دیکھا، دشمنوں میں کوئی شخص بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ میرے ہاتھ سے شہید ہوں؛ بلکہ ہرشخص آپ کے مقابلہ سے بچتا اور طرح دیتا تھا، آخر شمرذی الجوشن نے چھ شخصوں کوہمراہ لے کرآپ پرحملہ کیا اور ان میں سے ایک نے شمشیر کا ایسا وار کیا کہ امام حسین علیہ السلام کا بایاں ہاتھ کٹ کرالگ گرپڑا، حضرت امام حسین علیہ السلام نے اس پرجوابی وار کرنا چاہا؛ لیکن آپ رضی اللہ عنہ کا داہنا ہاتھ بھی اس قدر مجروح ہوچکا تھا کہ تلوار نہ اُٹھا سکے، پیچھے سے سنان بن انس نخعی نے آپ رضی اللہ عنہ کے نیزہ مارا جوشکم سے پارہوگیا، آپ رضی اللہ عنہ نیزہ کا یہ زخم کھاکر گرے، اس نے نیزہ کھینچا اور اس کے ساتھ ہی آپ علیہ السلام کی روح بھی کھینچ گئی، انا للہ واناالیہ راجعون۔

شہادت حسین کے بعد

اس کے بعد شمر نے یاشمر کے حکم سے کسی دوسرے شخص نے حضرت امام حسین علیہ السلام کا سرجسم سے جدا کیا اور عبیداللہ بن زیاد کے حکم کی تعمیل کے لیے بارہ سوار متعین کئے گئے؛ انھوں نے اپنے گھوڑے کی ٹاپوں سے آپ کے جسم مبارک کوخوب کچلوایا؛ پھرخیمہ کولوٹا، آپ کے اہلِ بیت کوگرفتار کیا زین العابدین جولڑکے تھے، شمرذی الجوشن کی نظر پڑی توان کواس نے قتل کرنا چاہا؛ مگرعمروبن سعد نے اس کواس حرکت سے باز رکھا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سرمبارک اور آپ کے اہلِ بیت کو کوفہ میں ابن زیاد کے پاس بھجے گئے، کوفہ میں ان کوتشہیر کیا گیا، پھرتیسرے روز شمرذی الجوشن کوایک دستہ فوج دیکر اس کی نگرانی میں یہ قیدی اور سرمبارک یزید کے پاس دمشق کی جانب روانہ کیا، علی بن حسین رضی اللہ عنہما کا سر مبارک، امام زین العابدین اور تمام عورتیں جب یزید کے پاس پہنچے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کا سراس نے دیکھا تودرباری اور یزید خود اس کی بیوی  رونے لگے اس پر یزید نے عبیداللہ بن زیاد کوگالیاں دیکر کہنے لگا کہ اس پسرسمیہ کومیں نے یہ حکم کب دیا تھا کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کوقتل کردینا؛ پھرشمرذی الجوشن اور عراقیوں کی طرف مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ میں توتمہاری اطاعت وفرماں برداری سے ویسے ہی خوش تھا، تم نے حسین بن علی رضی اللہ عنہما کوکیوں قتل کردیا، شمرذی الجوشن اور اس کے ہمراہی اس توقع میں تھے کہ یزید ہم کوانعام دیگا اور ہماری عزت بڑھائے گا؛ مگریزید نے کسی کوکوئی انعام وصلہ نہیں دیا اور اپنی ناخوشی ونارضگی کا اظہار کرکے سب کوواپس لوٹا دیا۔ ، اس کے بعد ان قیدیوں کوآزادی دیکر بطورِ معزز مہمان اپنے محل میں رکھا، عورتیں اندر عورتوں میں گئیں توانھوں نے دیکھا کہ یزید کے محل سرا میں بھی اسی طرح ماتم برپا ہے اور سب عورتیں رورہی ہیں، جس طرح امام حسین کی بہن اپنے بھائی اور عزیزوں کے لیے رورہی تھیں،یہی سے ماتم ، نوحہ ، اور عورتوں کا گریہ وغیرہ کا رسم بد چل پڑا،جبکہ کسی پر تین سے زیادہ سوگ منانے اللہ کے نبی ﷺ نے سختی سے ہم کو منع کیا ہے ۔ اللہ ہم سب کو اہل بیت سےمحبت عطاکرے اور رسم بد سے مکمل حفاظت فرمائے آمین ۔

بالآخر چند روز شاہی مہمان رہ کریہ بربادشدہ قافلہ مدینہ کی طرف روانہ ہوا، یزید نے ان کوہرقسم کی مالی امداد دی اور علی بن حسین سے ہرقسم کی امداد کا وعدہ کیا کہ جب تم لکھوگے تمہاری فرمائش کی ضرور تعمیل کی جائے گی۔

 ( ماخوذ:  انوار اسلام ،مکتبہ جبرئیل ،تاریخ اسلام جلد دوم ،طبقات ابن سعد )

 

  تعزیہ علماء دیوبند اور علماء بریلوی کے نزدیک