Monday, October 31, 2016

کرسی پر نماز پڑھنا


بسم اللہ الرحمن الرحیم

(کرسی پر بیٹھ کر نماز)

آج کل کرسی پر نماز پڑھنا فیشن ہو گیا ہے بڑے بڑے شہروں میں تو باضابطہ کرسیاں اس طرح رکھی ہوتی ہیں گویاکہ ابھی کچھ مہمان آنے والے ہیں! اور اگر ذمہ دارانِ مسجد کرسیوں کا انتظام نہ کریں تو باضابطہ ہنگامہ کیا جاتاہے مشکل امرتو یہ ہے کہ بعض مسجدوں میں ایسی کرسیاں ہوتی ہیں کہ اس پر نقش ونگاری بھی ہوتی ہیں اور اسی کے ساتھ سامنے سجدہ کرنے کے لئے بینچ بھی ہوتی ہیں حالاں کہ یہ تمام چیزیں غیر ضروری ہیں فقہا نے اسکی کراہت نقل کیا ہے ۔

(کرسی پر نماز پڑھنا کس کے لئے جائز ہے )

اس سلسلہ میں وہ تما م تفصیلات پر ضرور دھیان رکھیں جس کا تذکرہ ہم اس پہلے شائع شدہ مضمون ’’فرض نمازمیں قیام کب معاف ہے‘‘ میں کر چکے ہیں نیز جو شخص قیام پر بالکل قادر نہ ہو تو اس کے لئے دربار نبوت سے بیٹھ کر رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز پڑھنے کا سبق ملا ہے اور اگر بیٹھ کر رکوع اورسجدہ کرنے پر قادر نہ ہو توبھی بیٹھ کر ہی نماز ادا کرے اور رکوع اور سجدہ سرکے شارہ سے اس طرح کرے کہ سجدہ کا اشارہ رکوع کے اشارہ سے زیادہ جھکاہواہو ۔
اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے ’’فاذکرواللّٰہ قیاماً وَّقعوداً وّعلی جنوبکم‘‘ (النساء : ۱۰۳)
کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر(نماز) کھڑے ہوکر ،بیٹھ کر،لیٹ کر اداکرو۔اس آیت کی تفسیر میں حضرت ضحاک ؒ فرماتے ہیں:
’’ھذابیان حال المریض فی اداء الصلوٰۃ بحسب الطاقۃ (المبسوط للسرخسی ۱/۲۱۲)
کہ اس آیت کریمہ میں مریض کی حالت بیان کی گئی ہے نماز اداکرنے کے سلسلے میں مریض کے طاقت کے موافق ۔ 
اور ابن مسعود کی روایت میں ہے ’’المراد ھذاالذکرالصلاۃ (المحیط البرھانی ۲/۱۴۱)کہ یہاں ذکر سے مراد نماز ہے ،چنانچہ آپ ﷺ کا فرمان ہے ’’عن عمران ابن حسین قال کان بی الناصورۃ فسألتُ النبی ﷺ عن الصلاۃ فقال صلِّ قائماً فان لم تستطیع فقاعداً فان لم تستیع فعلیٰ جنب‘‘(ابن ماجہ /۸۶)
حضر ت عمران ابن حسینؓ فرماتے ہیں کہ مجھے ناسور(بواسیر) کا عارضہ لاحق تھا میں نے آپ ﷺ سے نماز کے متعلق دریا فت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’کھڑے ہوکر نماز پڑھو اگر اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر (نماز) پڑھو اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو کروٹ کے بل لیٹ کر نماز ادا کرلو‘‘۔
ایک دوسری روایت حضرت علیؓ سے ہے کہ آپ ﷺ نے بیمار کی نماز کے متعلق فرمایا : ’’ان لم یستطیع ان یسجد اومأَ وجعل سجودہٗ اخفض من رکوعہٖ‘‘ (بدائع الصنائع۱/۱۰۶)
یعنی اگر بیٹھ کر رکوع وسجود پر قادر نہ ہو تو پھر رکوع اورسجدہ (سر) کے اشارہ سے کرے اور سجدہ کااشارہ زیادہ پست کرے رکوع کے اشارہ سے۔
وان تعذرای الرکوع والسجود او مأ برأ سہٖ قاعداًوجعل سجود ۃ اخفض من رکوعہٖ ولا یر فع الیہ شئ للسجود(شرح وقایۃ ۱/ ۱۸۹)
اور (اگر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں )رکوع اور سجدہ کرنا مشکل ہو جائے تو (بھی) بیٹھ ہی کر اشارہ سے (رکوع اور سجدہ کر کے ) نماز ادا کرے اور سجدہ کو رکوع کے مقابلہ میں زیادہ پست کرے اور سجدہ کے واسطے کسی چیز کو نہ اٹھائے ۔
ویقعد کیف شاء فی الاصح (نور الایضاح : ۱۰۲)اور (بیمار کے لئے اختیار کہ ) وہ جس طرح چاہے بیٹھ جائے صحیح قول کے مطابق ۔
مذکورہ تمام آیت واحادیث اور فقہی عبارتوں سے حسب ذیل باتیں معلوم ہوئیں ،
(۱)کہ مریض اولاً کھڑے ہو کر نماز ادا کرے اگر قیا م پر بالکل قادر نہ ہو تو بیٹھ کرنماز ادا کرے ۔(۲) اور بیٹھ نے میں جس طرح سہولت ہو اسی طرح بیٹھ جائے کوئی مخصوص طریقہ پر بیٹھنا ضروری نہیں ہے ۔ 
(۳) بیٹھ کر نماز پڑھ نے کی صورت میں رکوع اورسجدہ کرے اگر اسکی قدرت نہ ہو تو پھر سر کے اشارہ سے رکوع اور سجدہ کرے ۔
(۴) سر کے اشارہ کو سجدہ کیلئے زیادہ جھکائے رکوع کے اشارہ سے۔
(۵) بیٹھ کر اگر رکوع اور سجدہ نہ کرسکتا ہو تو سجدہ کے لئے بینچ وغیرہ کا سامنے رکھنا درست نہیں ہے ۔ اس لئے کہ مریض کے لئے مسنون عمل یہی ہے کہ بیٹھ کر نماز ادا کرے ،اور رکوع اور سجدہ پر قدرت نہ ہو تو رکوع اور سجدہ کے لئے سر سے اشارہ کرے ۔
نیز کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے پرجہاں خود تشفی نہیں ہو تی ہے وہیں بلا ضرورت استعمال سے اتصالِ صفوف بھی برقرار نہیں رہتی ہے اور خلالِ صفوف بھی لازم آتاہے جبکہ اتصالِ صفوف اور عدمِ خلالِ صفوف کی احادیث میں بہت تاکید آئی ہے آپ ﷺ کا فرمان ہے 
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بیشک جس نے خالی جگہ کو پُر کیا اسکو اللہ تعالیٰ بلند مقام عطاکیااور فرشتے اس کے لئے دعاء مغفرت کرتے ہیں‘‘( ابن ماجہ باب اقامۃ الصفوف /۷۰)
حضرت ابو جحیفہؓ سے روایت کہ جس نے صف کے خالی جگہ کو پُر کیا اس کو بخش دیا گیا(مسندبزار شاملۃ ۰۱/۱۵۹)
عن انس بن مالک عن النبی ﷺ قال سوُّوا صفوفکم فانّ تسویۃ الصفوف من اقامۃ الصلٰوۃ (بخاری باب اقامۃ الصف من تمام الصلوٰۃ ۱/۱۰۰ )حضرت انس ابن مالکؓ آپ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فر مایا صفوں کو برابر کر وکیونکہ صفوں کو برابر کرنانماز کے درست کرنے کا جز ہے ۔
ہاں!اگر کوئی ایسا معذور ہو کہ اس کے لئے زمین پر کسی بھی ہیئت میں بیٹھنا دشوار ہو تو اس کے لئے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا درست ہے ،اگر زمین پر بیٹھ نے کی استطاعت ہو تو پھر زمین پر بیٹھ کر رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز کا ادا کرنا ضروری،کرسی پر بیٹھ کر اشارہ سے رکوع اور سجدہ کرنا جائز نہیں اوراس صورت میں نماز بھی نہیں ہوگی ۔

جو شخص زمین پر بیٹھ کر رکوع اورسجدہ پر قادرہو اس کے لئے کرسی

جو شخص زمین پربیٹھ کر رکوع اورسجدہ پر قادرہو اس کے لئے کرسی پرنماز جائز نہیں۔وان عجز وقدر علی القعود فانہ یصلی المکتوبۃ قاعداً برکوع وسجود ولا یجزیہٖ غیر ذالک (فتاوی تاتار خانیہ ۲/ ۶۶۶۷)

(کرسی پر رکوع اور سجدہ کا صحیح طریقہ)

بعض حضرات کرسی پرنماز ادا کرتے وقت رکوع کے لئے اپنے ہاتھ کو ران پر رکھتے ہیں اور سجدہ کرتے وقت ہاتھ کو فضا میں معلق کرتے ہیں اس طرح کرنا ثابت نہیں ہے رکوع اور سجدہ دونوں میں اپنے ہاتھ کو ران پر رکھے بس سجدہ میں سر رکوع کے مقابلہ میں زیادہ جھکادے ۔

(رکوع اور سجدہ میں پیچھے کے حصہ کواٹھانا)

خواہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھ رہاہو یا کرسی پر بیٹھ کر ،رکوع اور سجدہ میں سرین کا اٹھنا ضروری نہیں ہے بس سر کو گھٹنے کے برابر میں کر دے اور سجدہ میں اس سے کچھ زیادہ جھک جائے جیساکی امداد الاحکام میں ہے، ’’ بحالت جلوس رکوع کرتے ہوئے صرف اتنا ضروری ہے کہ پیشانی کو گھٹنے کے مقابل کر دیاجائے اس سے زیادہ جھکنے کی ضرورت نہیں، نہ سرین اٹھانے کی ضرورت ہے ۔
‘‘(امدادالاحکام ۱/۶۰۹)

(ٹیبل یابینچ پرسجدہ کرنا)

بعض مسجدوں میں ایسی کرسیاں بنی ہوتی ہیں کہ اس کے سامنے ٹیبل وغیرہ بھی لگا ہو تا ہے اور کرسی پر نماز پڑھنے والے اسی پر سجدہ کرتے ہیں اس طرح کرنا مکروہ ہے، سجدہ کے لئے بس سر سے اشارہ کردے ۔حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ ان قدرت ان تسجد علی الارض فاسجد والاّ فاومی برأسک(البزار بحوالہ البنایۃ شرح الھدایۃ ۲/۶۳۷)کہ اگر تم قدرت رکھتے ہو زمین پر سجدہ کرنے کی تو سجدہ کر و،ورنہ پھر سر کے اشارہ سے سجدہ کرو۔
یہی روایت بیہقی نے معرفہ میں حضرت جابرؓ سے تخریج کی ہے اس میں ہے کہ آپ ﷺ ایک بیمار کی عیادت کرنے گئے ،آپ ﷺ نے دیکھا کہ وہ سجدہ تکیہ پر کر رہا ہے آپ ﷺ نے تکیہ اٹھاکر پھیک دیا اور فرمایا’’ اگر تم قدرت رکھتے ہو زمین پر سجدہ کرنے کی تو سجدہ کر ورنہ پھر سرکے اشارہ سے سجدہ کرو‘‘۔ (مختصر من الحدیث الجابرانظر البنایۃ شرح الھدایۃ ۲/۶۳۷)
فائدہ:غور کریں کہ جب حضور ﷺ نے تکیہ پر سجدہ کرنے کو ناپسند کر کے تکیہ پھینک دیا پھر بینچ وغیرہ پر سجدہ کیوں کرگوارا ہو سکتا ہے ؟ 

مجددزمانہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں : 

’’سجدہ کرنے کے لئے تکیہ وغیرہ کوئی اونچی چیز رکھ لینا اور اس پر سجدہ کرنا بہتر نہیں ،جب سجدہ کی قدرت نہ ہوتو بس اشارہ کر لیا جائے ، تکیہ پر سجدہ کرنے کی ضرورت نہیں‘‘(بہشتی زیور : بیماروں کی نماز)

(ہاتھ اور آنکھ کی اشارہ کااعتبار نہیں)

رکوع اور سجدہ میں سر کے اشارہ کا اعتبار ہے، کہ فقط ہاتھ، آنکھ ، دل کے اشارہ کا اعتبارنہیں۔ولم یؤم بعینہ وقلبہ وحاجبہٖ(نورالایضاح :۱۰۵)
کہ آنکھ ،دل اور آبرو سے اشارہ نہ کرے۔
(سجدہ کے اشارہ میں رکو ع کے اشارہ سے کم جھکاتو ؟)
سجدہ کے اشارہ میں رکو ع کے اشارہ سے کم جھکاتونماز نہیں ہو گی ۔نورالایضاح میں ہے ’’فان لم یخفضہ عنہ لا تصح‘‘ (نورالایضاح :۱۰۴)اگر سجدہ کے اشارہ کو رکوع کے اشارہ سے زیادہ نہیں جھکایا تو سجدہ نہیں ہو گا
(کرسی یازمین پر بیٹھنے کی ہےئت)
صاحب عذر کیلئے کسی خاص انداز میں بیٹھ نالازم نہیں ہے جس طرح آسانی ہو اس طرح بیٹھ جا ئے !کیونکہ کسی ہیئت کی قید مریض کے لئے مناسب نہیں اورقید کی صورت میں مریض کو ایک طرح کی تکلیف بھی ہے،چنانچہ صاحب مجمع نے خلاصہ سے قیدکا قول نقل کر نے کے بعد رقم طراز ہیں ؛’’ولا یخفیٰ انّ الایسر عدم تقیید بکیفیۃ من الکیفیّات لان عذر المریض اسقط عنہ الارکان فلان تسقط عنہ الھیئات اولیٰ (مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر ۱/۱۵۴)
اوریہ بات مخفی نہیں کہ آسانی (بیٹھ نے کی ) کیفیتوں میں سے کسی کیفیت کے ساتھ مقید نہ کرنا ہے ؛کیو نکہ جب مریض کے عذرنے صاحب مرض سے رکن کو ساقط کردیا تو بدرجہ اولیٰ کسی مخصوص ہیئت کو ساقط کر دیگا ۔

( کرسی کیسی ہو؟)

بلا ضرورت کرسیوں کی کثرت نہ ہو جس وہ شادی خانہ یا محفلِ تقریبات معلوم ہو۔ اوربوقت ضرورت کرسی پر نماز پڑھنا ہو تو ٹیبل نما کرسی استعمال نہ کریں ، بس کرسی سیدھی سادی ہو جونقش ونگاری سے پاک ہو ۔

(کرسی صف میں کیسے رکھے؟ )

کرسی کو صف میں اس طرح رکھا جائے کہ کرسی کے پچھلے پاؤں مصلّیوں کے برابر میں ہوں اس سے پیچھے نہ کیا جائے ورنہ پچھلی صف کے نمازی کودورانِ سجدہ تکلیف ہوگی۔

(کرسی پر نماز پڑھنے والے صف میں کہاں بیٹھے؟)

بعض حضرات اوّلاًاپنی کرسی کو صف کے کنارے رکھ دیتے ہیں اور وہیں سے نماز میں شریک ہو جاتے ہیں خواہ آگے کی صف یاخود اسکی صف خالی ر ہے اس کی پرواہ نہیں کرتے غالباً وہ یہ سمجھ تے ہیں کہ اس کی کرسی درمیان صف میں آنے کی وجہ سے اچھا معلوم نہ ہوگا ،حالانکہ وہ بھول جاتے ہیں کہ صف کے درمیان میں جگہ چھوڑنے کی ممانعت احادیث میں آئی ہے اور تنہاں کھڑے ہونے کی بھی ممانعت آئی ہے اسی وجہ سے فقہاء نے صف کے درمیان میں جگہ چھوڑنے کو اور تنہاں کھڑے ہونے کو مکروہ لکھاہے ،پس صاحب عذر اپنی کرسی کو صف جاری میں رکھ کر نماز پڑھے خواہ اس کی کرسی درمیانی صف میں آجائے یا آخری صف میں ،ہاں اگر دوسرے مصلی پہلے سے موجود ہوں تو پہلے ان حضرات کو کھڑے ہو نے دیں پھر اپنی کرسی لگا کر نماز ادا کر لیں ۔

( دوران صلوٰۃمریض صحت یاب ہو گیا)

کرسی پر اشارہ سے نماز پڑھنے والا اتنا صحت یاب ہو گیا جس سے بیٹھ کر رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز ادا کر سکتا ہے تو اب بیٹھ کر ازسرے نو نماز پڑھے ،اور قیام وقعود کے ساتھ نماز پڑھنے والے کے مرض میں اس قدر اضافہ ہو گیا کہ بیٹھ کر کسی طرح نماز نہیں پڑھ سکتا ہے ،البتہ کرسی پرپڑھ سکتاہو تو کرسی پرنماز کوپوری کرے اس صورت میں از سرے نو نماز پڑھنے کی ضرورت نہیں۔چنانچہ علامہ شرنبلالی ؒ فرماتے ہیں :وان عرض لہ مرض یتمھا بماقدر ولوبالایماء فی المشہور ولو صلی قاعدا یرکع ویسجد فصح بنیٰولو کان مؤمیا لا(نورالایضاح :۱۰۵)
یعنی کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے کومرض پیش آیا تو بیٹھ کر جس طرح قدرت ہو نماز کو پوری کرے اگرچہ اشارہ سے ہو (اسی طرح ) بیٹھ کر نماز رکوع اور سجدہ سے پڑھ رہاہو پھر صحت یاب ہو گیا تو پڑھی ہوئی نماز پر بنا کرلے (ازسرے نو پڑھنے کی ضرورت نہیں) اور اگر پہلے سے اشارہ سے نماز پڑھ رہاہو (پھر اچھا ہو گیا ) تو اب اس پر بنا نہیں کر سکتے (اب از سرے نو نماز پڑھے)۔

(نفل نماز کرسی پر اشارہ سے)

نفل نماز میں قیا م افضل ہے ،فرض نہیں لیکن سجدہ تو فرض ہے اب بوجہ عذر نفل کرسی پر اشارہ سے پڑھا تو جائز ہے ،اوربلاعذر تارک سجدہ کی وجہ سے نماز نہیں ہوگی ۔ولوصلّی التطوع باالایماء من غیر عذر لایجوزُ(فتاویٰ عالمگیری ) 

(لمحہ فکر) 

اب کرسیوں پر نماز ادا کرنے والے حضرات خود اپنے اپنے احوال کا جائزہ لے لیں کہ کیا وہ واقعتا اس درجہ کا مریض ہے کہ شرعاً اس کے لئے کرسی پر نماز جائز ہو ؟ اگر وہ اس درجہ مجبور نہیں ہے تو پھر کرسیوں پر نماز پڑھنے سے احتراج کریں۔
اقوال فقہاء کی روشنی میں اس ناکارہ کے نزدیک وہ نمازیں جو قیام وقعودکے ساتھ رکوع وسجدہ پرقدرت کے با وجود کرسی پر اشارہ سے نماز پڑھی گئی ہیں ان کا اعادہ کرنا ضروری ہے اس لئے کہ تما م متون وشروح متفق ہیں کہ جو شخص بیٹھ کر رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز ادا کرسکتا ہو اس کے لئے بیٹھ کر رکوع اور سجدہ کے ساتھ نماز کا پڑھنا فرض ہے اور تارکِ فرض کی نماز نہیں ہوتی ۔
واللہ اعلم بالصواب

بہت ہی اہم دوسرے مضامین

ملک بھارت کے سگتے مسائل



Friday, October 28, 2016

فرض نمازمیں قیام کب معاف ہے


بسم اللہ الرحمن الرحیم

(قیام کی اہمیت اور ہماری کوتاہی)

بعض حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوسروں سے بات چیت کرتے وقت دس دس منٹ کھڑے رہتے ہیں اور نماز پڑھتے وقت سرے سے بیٹھ کرہی نماز پڑھتے ہیں اس صورت میں قیام اور سجدہ پر قدرت ہونے کی وجہ سے اس کی نماز ہی نہیں ہو تی،اور بعض تو معمولی بخار ،نزلہ اور ہلکی تکلیف سے بیٹھ کر نماز پڑھنا شروع کر دیتے ہیں اس صورت میں اور بالخصوص کرسی پر وہ بھی اشارہ سے رکوع وسجدہ کرتے ہوئے فساد نماز کا باعث ہے،جبکہ فقہاء نے یہاں تک لکھاہے کہ اگر کوئی شخص صرف اتنی دیر کھڑے ہونے کی طاقت رکھتا ہو جتنے دیر میں تکبیر تحریمہ کہہ سکیں تو اس پر کھڑا ہو کر تکبیر تحریمہ کہنا ضروری ہے۔
وان قدر علی بعض القیام ولو متکئاً علی عصا او حائط قام لزوماً بقدر مایقدر ولو قدر آےۃ او تکبیرۃ علی المذھب لان البعض معتبر بالکل (در مختار مع الشامی ۲ /۹۷ وکذا فی مراقی الفلاح ۱/۱۶۶وکذا فی الجوھرۃ النیرۃ علی مختصر القدوری ۱/۷۹)
اگر کوئی قیام کے کچھ حصہ پر قادر ہواگر چہ لاٹھی پر ٹیک لگاکر یا دیوار سے ٹیک لگاکر تو کھڑا ہونا ضروری ہے اتنی دیرجتنی دیر کھڑاہو سکتاہو ،اگر چہ ایک آیت کے بقدر ہو یاتکبیر تحریمہ کے بقدر صحیح مذہب کے مطابق اس لئے کہ بعض کا اعتبار کل کے ساتھ ہوتا ہے ۔
قدر المریض علی بعض القیام قام بقدرہٖ ۔
(الاشباہ و النظائر۱ /۱۴۱ وکذا فی مجمع الانھرشرح ملتقی الابحر ۱/۱۵۴) 
یعنی مریض جتنا کھڑا ہو سکتا ہو اتنا کھڑاہو۔
چنانچہ حضرت مولانامفتی سید عبد الرحیم صاحب لاجپوری ؒ فرماتے ہیں: ’’فرض اور واجب نماز میں قیام فرض ہے پوری رکعت کھڑے ہوکر نہیں پڑھ سکتاہو تو تکبیر تحریمہ کھڑے ہو کر کہیں ،سہارے کے بغیر کھڑے نہ ہو سکیں تو دیوار یا عصا کا سہارابھی لے لیں ، اپنے خادم کا سہارالے سکتے ہیں ،خلاصہ یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کہکر ایک آیت ہی کسی طرح پڑھ سکتے ہیں تو اتنی مقدار ضرور کھڑے ہوں ،اتنی بھی طاقت نہ ہویاخطرہ ہو کہ مرض میں شدت ہو جائیگی تو بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ہو گی ،اسی طرح بیٹھنے کے متعلق بھی ہے تکیہ لگا کر یاکسی صورت سے بیٹھ سکتے ہو تو لیٹ کر نماز نہیں ہوگی ،جب بیٹھ کر پڑھنے کی کوئی صورت نہ رہے تو لیٹ کر پڑھ سکتے ہیں ۔فرض واجب اور صبح کی سنتوں کا یہی حکم ہے ، البتہ نفل بلا عذر بھی بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں لیکن نصف اجر ملے گا ‘‘ (فتاویٰ رحیمیہ ۳/۵۵)
******

(وہ اعذار جس کی وجہ سے قیام ساقط ہو جاتاہے )

(۱)جب بالکلیہ کھڑے ہونے پر قادر نہ ہو، نہ تو از خود اور نہ دیوار وغیرہ کا سہارا لیکر (اگر اتنی دیر کھڑا ہو سکتا ہو جس میں تکبیر تحریمہ کہہ سکتاہو تو کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کا کہنا فرض ہوگا اگر اس نے سرے سے بیٹھ کر ہی نماز ادا کی تو اس کی نماز نہیں ہو گی )
(۲) کھڑے ہونے پر قادر تو ہو لیکن رکوع اور سجدہ پر قادر نہ ہویا صرف سجدہ کرنے پر قادر نہ ہو تو ایسے حضرات کے لئے بھی قیام کی فرضیت ساقط ہے انکو اختیار ہے کھڑے ہو کر پڑھے یا بیٹھ کر ، البتہ بیٹھ کر پڑھنا زیادہ بہتر ہے ۔
(۳) کھڑے ہونے میں یا سجدہ کرنے میں زخم بہتا ہو ،
(۴)کھڑے ہونے میں پیشاب کا قطرہ گرتاہو ۔
(۵)کپڑا اتنا کم ہو کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے سے ستر کھل جاتاہو۔ 
(۶) کھڑے ہو کر نماز پڑھنے سے قرائت پر قادر نہ ہو اور بیٹھ کر نماز پڑھنے سے قرائت پر قادر ہو ۔
(۷)کھڑے ہو کر نماز پڑھنے سے ناقابل برداشت تکلیف ہوتی ہو یا حاذق مسلمان حکیم کے قول کے مطابق مرض کے بڑھ جانے یا دیر سے ٹھیک ہو نے کا یقین ہو۔ 
( بدائع الصنائع۱/۱۰۵ والبحر الرائق۱/۳۰۸ وملتقی الابحر۱/۲۲۹)

اسی جیسی دوسرے اہم مضامین 

ملک بھارت  کے سلگتے مسائل کے لئے نیچے کلک کریں


Thursday, October 27, 2016

یکساں سول کوڈ

شمع فروزاں:مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی 

یکساں سول کوڈ

حقیقت یہ ہے کہ ’یونیفارم سول کوڈ ‘ مختلف وجوہ سے ہمارے ملک کے لئے مناسب نہیں ہے ، ایک تو اس سے اقلیتوں کے مذہبی حقوق متاثر ہوں گے ، جو دستور کی بنیادی روح کے خلاف ہے ، دوسرے : یکساں قانون ایسے ملک کے لئے تو مناسب ہوسکتا ہے ، جس میں ایک ہی مذہب کے ماننے والے اور ایک ہی تہذیب سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہوں ، ہندوستان ایک تکثیری سماج کا حامل ملک ہے ، جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں ، کثرت میں وحدت ہی اس کا اصل حسن اور اس کی پہچان ہے ، ایسے ملک کے لئے یکساں عائلی قوانین قابل عمل نہیں ہیں ، تیسرے : مذہب سے انسان کی وابستگی بہت گہری ہوتی ہے ، کوئی بھی سچا مذہبی شخص اپنا نقصان تو برداشت کرسکتا ہے ؛ لیکن مذہب پر آنچ کو برداشت نہیں کرسکتا ؛ اس لئے اگر کسی طبقہ کے مذہبی قوانین پر خط نسخ پھیرنے اوراس پر خود ساختہ قانون مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس سے مایوسی کے احساسات اور بغاوت کے جذبات پیدا ہوں گے اور یہ ملک کی سالمیت کے لئے نقصان دہ ہے ، ہمارے سامنے ناگاؤں اور میزؤوں کی واضح مثال موجود ہے کہ انھوںنے اس کے بغیر عَلَم بغاوت کو نہیں جھکایا کہ ان کو کچھ خصوصی رعایتیں دی جائیں ، جن میں ان کے لئے اپنے قبائلی قانون پر عمل کرنے کی آزادی بھی شامل ہے ؛ اس لئے حقیقت یہ ہے کہ مختلف گروہوں کو اپنے اپنے قوانین پر عمل کی اجازت دینا ملک کے مفاد میں ہے ، اس سے قومی یکجہتی پروان چڑھے گی ، نہ یہ کہ اس کو نقصان پہنچے گا ۔
مسلمانوں کو تو یونیفارم سول کوڈ پر اعتراض ہے ہی ؛ لیکن اگر غور کیا جائے تو عملی طورپر خود اکثریتی فرقہ بھی اس کو قبول نہیں کرے گا ، ہندوؤں کی مختلف ذاتیں ہیں اور نکاح وغیرہ کے سلسلہ میں ان کے الگ الگ طریقے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ ملک کے سارے ہندوؤں کا ایک ہی طریقہ ہو ، حد تو یہ ہے کہ وہ اپنے بنیادی عقائد اور عبادات کی باتوں میں بھی یکساں نہیں ہیں ، کوئی مورتی پوجا کا قائل نہیں ہے ، کوئی قائل ہے ، کوئی راون کو بُرا بھلا کہتا اور رام کو پوجتا ہے ، کوئی رام کو بُرا بھلا کہتا ہے اور راون کی پرستش کرتا ہے ، خود نکاح کے سلسلہ میں دیکھیں کہ شمالی ہند میں ماموں اور بھانجی کے درمیان نکاح کا تصور نہیں ؛ لیکن جنوبی ہند میں بہن کا اپنے بھائی پر حق سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس کی بیٹی سے نکاح کرلے ، قبائلوں کے یہاں خاندانی رسم و رواج بالکل مختلف ہیں ، آج بھی بعض قبائل میں ایک مرد ایک درجن سے زائد عورت سے نکاح کرسکتا ہے ، یہاں تک کہ ابھی بھی ایسی رسمیں پائی جاتی ہیں کہ ایک عورت ایک سے زیادہ مرد کے نکاح میں ہوتی ہے ، جس ملک میں مذاہب اورتہذیبوں کا اس قدر تنوع پایا جاتا ہو ، وہاں ایک ہی قانون تمام گروہوں کے لئے کیسے مناسب ہوسکتا ہے ؟
جو لوگ یکساں سول کوڈ کے وکیل ہیں ، وہ بنیادی طورپر دو باتیں کہتے ہیں : ایک یہ کہ اس سے قومی یکجہتی پیدا ہوگی ، دوسرے : جب یورپ میں تمام قوموں کے لئے یکساں قانون ہوسکتا ہے تو ہندوستان میں کیوں نہیں ہوسکتا ؛ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں ، قانون سے قومی یکجہتی پیدا نہیں ہوتی ، قومی یکجہتی ، رواداری ، تحمل اور ایک دوسرے کے معاملہ میں عدم مداخلت سے پیدا ہوتی ہے ، دنیا کی دونوں جنگ عظیم بنیادی طورپر ایسی دو قوموں کے درمیان ہوئی ہے ، جن کا مذہب ایک تھا ، جن کی تہذیب ایک تھی ، جن کا قانون اور طرز زندگی ایک تھا ، یہ ساری وحدتیں جنگ کو روکنے اور قومی وحدت پیدا کرنے میں ناکام رہیں ، خود مسلم ممالک میں دیکھئے کہ عراق و ایران ، شام و افغانستان کے مختلف گروہوں کے درمیان اس کے باوجود جنگیں ہورہی ہیں کہ وہ بنیادی طورپر ایک ہی مذہب اور ایک ہی قانون کی حامل ہیں ، ہندوستان ہی کو دیکھئے کہ یہاں مختلف راجاؤں کے درمیان جنگوں کی ایک طویل تاریخ ہے ، یہ سب ایک ہی طریقہ زندگی پر چلنے والے لوگ تھے ؛ لیکن یہ وحدت ان کو جوڑ نہیں پائی اور آج بھی فرقہ وارانہ فسادات اس لئے نہیں ہوتے کہ مسلمانوں کا معاشرتی قانون الگ ہے اور ہندوؤں کے خاندانی رسوم و رواجات الگ ہیں ؛ بلکہ اس کے برعکس مذہبی قانون سے ہٹ کر جب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دام محبت میں گرفتار ہوکر بین مذہبی شادی رچاتے ہیں تو اس سے فرقہ وارانہ تناؤ پیدا ہوتا ہے اور قومی یکجہتی پارہ پارہ ہوجاتی ہے ؛ اس لئے یہ سوچنا قطعاً غلط ہے کہ قانون کی وحدت کی وجہ سے قومی یکجہتی پیدا ہوگی ، ویسے بھی عائلی زندگی کے علاوہ تمام قوانین میں پہلے سے یکسانیت موجود ہے ؛ لیکن کیا یہ یکسانیت قومی اتحاد کو برقرار رکھنے میں کافی ثابت ہورہی ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ قومی یکجہتی اس بات سے پیدا ہوگی کہ ہر گروہ کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنی تہذیب کو پروان چڑھانے کا موقع دیا جائے ، اس سے ہرگروہ میں اطمینان ہوگا ، وہ محسوس کریں گے کہ وہ اس ملک میں برابر کے شہری ہیں ، اس سے حب الوطنی میں اضافہ ہوگا ، احساس محرومی ختم ہوگا ، بھائی چارہ کا ماحول پیدا ہوگا اور یہی قومی یکجہتی ہے ، ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہر چیز میں یکسانیت اور وحدت پیدا کرنا ممکن نہیں ہے ، اگر آپ قانون ایک کر بھی دیں تو ملک میں جو مختلف تہذیبی اور ثقافتی گروہ ہیں ، جن کے لباس و پوشاک ، رہن سہن ، خوشی وغم کے اظہار کے طریقے ، زندگی گزارنے کے انداز ، سماجی رسوم ورواجات الگ الگ ہیں اور اس کی جڑیں ان کے مذہب ، موسم ، جغرافیائی محل وقوع ، خاندانی روایات اور نسلی خصوصیات میں پیوست ہیں ، کیا ان کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے ؟ پھر یہ بات قابل غور ہے کہ مذہب ، تہذیب اور زبان کا یہ تنوع کوئی عیب ہے یا یہ اس ملک کا حسن ہے ؟ گلاب کا ایک پھول بھلا لگتا ہے یا مختلف پھولوں کا گلدستہ ؟ پھول کا ایک پودا خوبصورت نظر آتا ہے ، یا طرح طرح کے پودوں پر مشتمل پھلواری ؟ ظاہر ہے کہ جو خوبصورتی اس تنوع میں ہے ، وہ خوبصورتی اس وحدت میں پیدا نہیں ہوسکتی ، جس کے پیچھے جبر اور دباؤ کا دخل ہو ، ہندوستان کو اس کے معماروں نے گلدستہ بنایا ہے نہ کہ ایک پھول ، اس ملک کے سینچنے والوں نے اس کو نوع بہ نوع درختوں کا ایک باغ سدا بہار بنایا ہے نہ کہ صرف ایک ہی طرح کے درختوں کا باغیچہ ، اس کے بنانے والوں کے ذہن میں تھا کہ یہ ملک ایک چراغ ہمہ رنگ ہو ، یہی ہمہ رنگی اس کا حسن اور یہی تنوع اس کی پہچان ہے ۔
یورپ کی جو مثال ہندوستان کے لئے پیش کی جاتی ہے ، وہ بالکل بے محل ہے ، ہندوستان اتنا وسیع ملک ہے کہ پورا یورپ اس کے ایک حصہ میں سماج جائے ، اور ہندوستان کی آبادی اتنی کثیر ہے کہ شاید پورا یورپ مل کر بھی اس کی ہمسری نہ کرسکے ؛ اس لئے ہندوستان جیسے ملک کی سالمیت اور قومی یکجہتی اسی بات میں مضمر ہے کہ اس میں تنوع کو برقرار رکھا جائے اور ایسی وحدت پر زور نہ دیا جائے ، جو اتحاد کو پارہ پارہ کرکے رکھ دے — مشرقی ملکوں اور مغربی ملکوں میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ مغرب میں لوگوں کا مذہب سے سنجیدہ اور جذباتی تعلق نہیں ہے ؛ ان کے یہاں ایک دو تیوہاروں کے سوا مذہب سے زندگی کا کوئی رشتہ باقی نہیں رہا ، مردم شماری کے ریکارڈ میں صرف خاندانی روایت کے طورپر کسی مذہب کا نام لکھا دیا جاتا ہے ؛ اس لئے مذہبی قوانین کے ختم کئے جانے پر ان کا کوئی رد عمل نہیں ہوتا اور یہ دراصل چرچوں کے ظالمانہ رویہ کے خلاف عوام کی بغاوت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے قید آزادی کا نتیجہ ہے ، جس کی ایک کڑوی تاریخ ہے ، ہندوستان کی یہ صورت حال نہیں ہے ، ہندوستان میں بسنے والے لوگ مذہب سے جذبانی تعلق رکھتے ہیں ؛ اسی لئے جب ۱۹۵۶ء میں ہندوؤں کے لئے باضابطہ قانون بنا تو خود صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد اس سے دل برداشتہ تھے ، اور اسی لئے ہندوؤں سے متعلق قوانین میں ہر جگہ اس بات کو شامل کرنا پڑا کہ اگر کہیں مقامی رسم و رواج اس کے خلاف ہو تو اس کو ترجیح ہوگی۔
یکساں سول کوڈ کے حق میں ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور سیکولر ملک میں مذہبی قوانین کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے — یہ بھی محض غلط فہمی ہے ، سیکولرازم کا کوئی ایک مفہوم متعین نہیں ہے ؛ بلکہ مختلف ملکوں میں وہاں کے حالات اور مصالح کے لحاظ سے اس کامفہوم متعین کیا گیا ہے ، سیکولرازم کا ایک مفہوم وہ ہے ، جو فرانس نے اختیار کیا ہے ، جس کی بنیاد مذہب کی مخالفت پر ہے ، جو چاہتا ہے کہ کوئی مذہبی شناخت باقی نہ رہے تو بہتر ہے ، جو اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ انسان اپنی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں مذہبی ہدایات پر عمل کرے ، سیکولرازم کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ حکومت کا کوئی مذہب نہ ہو ، سرکاری طورپر کسی خاص مذہب کی پشت پناہی نہ ہو ؛ لیکن ملک کے ہر شہری کو اپنی نجی زندگی میں مذہب پر عمل کرنے کی گنجائش ہو ، بیشتر مغربی ممالک میں اسی مفہوم کے اعتبار سے سیکولرازم کو اختیار کیا گیا ہے اور ہندوستان میں بھی اسی کو برتا گیا ہے ، نیز اسی کے مطابق دستور کی تدوین عمل میں آئی ہے ؛ اس لئے یہ بات بالکل بے محل ہے کہ چوںکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ؛ اس لئے یہاں عائلی زندگی سے متعلق مذہبی قوانین کی گنجائش نہیں ۔
یہ بات بھی بہت عجیب لگتی ہے کہ بی ، جے ، پی نے یونیفارم سیول کوڈ کو اپنے ایجنڈے میں رکھا ہے ، یہ فرقہ پرست پارٹی بنیادی طورپر برہمنی فکر کی نمائندہ ہے اور آر ، ایس ، ایس ، کا سیاسی بازو ہے ، جو ہندوستان میں ’ منوواد ‘ کو واپس لانا چاہتی ہے ، یہ اپنے آپ کو ہندوؤں کے حقوق کا محافظ قرار دیتی ہے ، اگر اس نے ایسے مسائل کو اپنی فہرست میں رکھا ہے ، جن میں ہندوؤں اور دوسری اقلیتوں کے مفادات میں ٹکراؤ ہو ، یا جن کا مقصد ہندوؤں کی بالا دستی قائم رکھنا ہو تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے ؛ لیکن مسلم پرسنل لا کا مسئلہ مسلمانوں کا آپسی مسئلہ ہے ، اگر اس پر مسلمان عمل کریں تو اس سے ہندوؤں کو نہ فائدہ ہے نہ نقصان ؛ بلکہ ایک طرح سے فائدہ ہے کہ مسلم پرسنل لا کے تحت مسلمان اور ہندو کے درمیان رشتہ نکاح قائم نہیں ہوسکتا ، اس طرح وہ بات پیش نہیں آئے گی ، جس سے یہ حضرات خوفزدہ ہیں اور جس کو غلط طریقہ سے انھوںنے ’’ لَوْ جہاد ‘‘ کا نام دے رکھا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں سے نفرت اور اقلیتوں کے ساتھ ظلم و ناانصافی کے سوا اس کا کوئی اور محرک نہیں ہوسکتا ۔
اور صرف بی ، جے ، پی کا رونا کیوںکر رویا جائے ؟ افسوس تو انگلی پر گنے جانے والے ان چند نام نہاد مسلمانوں پر ہے ، جو فرقہ پرست اوراسلام دشمن عناصر کا آلۂ کار بن کر مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں ، میں ان کی محبوری سے اچھی طرح واقف ہوں ، وہ دراصل اپنی بے روزگاری کا حل نکالنا چاہتے ہیں ؛ کیوںکہ جو لوگ صلاحیت کی بناپر نہیں ؛ بلکہ خوشامد کی بناپر سرکاری مناصب حاصل کرتے ہیں ، وہ چاہے عمر کے کسی مرحلہ میں ہوں ، اس سے محروم ہوکر بے قرار ہوجاتے ہیں ، کیا کہا جائے کہ اس وقت ہر چیز کی قیمت بڑھتی جارہی ہے ، انسان اپنی ضروریاتِ زندگی خریدنے سے عاجز ہوتا جارہا ہے ؛ لیکن ایک چیز ہے جو سستی ہوتی جارہی ہے ، سستی سے سستی اور ارزاں سے ارزاں تر ، اور وہ ہے کچھ لوگوں کا ضمیر ، یہ ضمیر کے سوداگر ہیں اور کوڑیوں میں اپنا مال بیچتے ہیں ، ان کے لئے ہدایت ہی کی دُعا کی جاسکتی ہے ۔
وباﷲ التوفیق وھو المستعان ۔

نوٹ : حضرت والا کا یہ مضمون نیٹ ہی سے لیکر افائد عام کے پیش نظر شائع کیا جا رہا ہے ،مزید اس عنوان پر حکومت ہند اور اسکی چالیں تفصیل سےجاننے کے لئے یہاں کلک کریں