Friday, July 28, 2023

کربلا

 

واقعہ کربلا اور شہادت حسین

واقعہ کربلا

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد یزید ولی عہد کے پیش نظر امیر بنا،چونکہ یزیدبن معاویہ کا ذاتی کردار ان تمام اوصاف سے عاری تھا جو امیر یا خلیفہ کے لیے شریعت اسلامیہ نے مقرر کیے ہیں ، اس لئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کی امارت  کو ماننے سے انکار کردیا۔ 

بالآخر یزید نے تخت نشین ہوا ،اور  حاکم مدینہ ولید بن عتبہ کو حکم دیا کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بیعت طلب کریں مگر ولید نے سختی سے کام نہ لیا لیکن مروان بن الحکم  بیعت لینے کے لیے مجبور کر رہا تھا۔ ان حالات میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ مکہ چلے گئے ،  اورجب آپ وہاں پہونچے تو  پہنچے تو اہل کوفہ نے انھیں سینکڑوں خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ وہ خلافت اسلامیہ کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کر سکیں ،آپ نے حضرت عبد اللہ  بن زبیر وغیرہ سے مشورہ کیا سب نے آپ کو جانے سے منع کردیا ، ادھر اہل کوفہ کی جانب سے مسلسل خطوط آتے رہے اور اللہ کا واسطہ دیکر آپ کی مدد کرنے کا وعدہ کرتے رہے ، بالآ خر  حضرت عبد اللہ  بن زبیر وغیرہ نے آپ کو کہا اگر آپ جانا چاہتے ہیں تو پہلےکوفہ ایک قاصد بھیج کر وہاں کی سورت حال سے آگاہ ہوجائیں اگر وہاں کی حالت خوشگوار رہے تو چلے جائیں ورنہ آپ یہیں رکے رہیں ۔جب قاصد نےاطلاع دی کہ یہاں کے احوال بہت بہتر ہے ، آپ تشریف لے آئیں ان لوگوں نے میرے ہاتھ پر بیعت بھی شروع کردی ہے ، جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اہل بیت کے ہمراہ  کوفہ کی جانب روانہ ہوئے ۔

اِدھرعبیداللہ بن زیاد نے عمروبن سعد بن ابی وقاص کو،،رے،، کی حکومت پرنامزد کیا اور فی الحال چار ہزار فوج دیکر حضرت حسین کی نگرانی اور کھوج پرمامور کیا کہ وہ کس طرف سے آرہے ہیں اور کہاں ہیں اور ایک ہزار آدمی حربن یزید تمیمی کے سپرد کرکے اس کوبھی گشت وگرداوری پرمامور کیا، عمروبن سعد مقام قادسیہ میں ہوکر ہرسمت کی خبریں منگانے کا انتظام کرنے لگے، حضرت امام حسین رضی اللہ جب مقام شراف سے آگے بڑھے توحربن یزید تمیمی اپنی ایک ہزار فوج کے سامنے آیا، امام حسین نے آگے بڑھ کرحرسے کہا کہ میں تم ہی لوگوں کے بلانے سے یہاں آیا ہوں؛ اگرتم لوگ اپنے عہدواقرار پرقائم ہوتومیں تمہارے شہر میں داخل ہوں گا، نہیں توجس طرف سے آیا ہوں اسی طرح واپس چلاجاؤنگا، حر نے کہا ہم کوعبیداللہ بن زیاد کا حکم ہے کہ آپ کے ساتھ رہیں اور آپ کواس کے سامنے زیرحراست لے چلیں، امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ذلت توہرگز گوارا نہیں ہوسکتی کہ ابن یزید کے سامنے گرفتار ہوکر جائیں، اس کے بعد انھوں نے واپسی کا ارادہ کیا توحر نے ابنِ زیاد کے خوف سے واپس ہونے سے روکا اور واپسی کے راستے میں اپنی فوج لے کرکھڑا ہوگیا، امام حسین رضی اللہ عنہ نے وہاں سے شمال کی جانب کوچ کیا اور قادسیہ کے قریب پہنچ گئے، وہاں معلوم ہوا کہ عمروبن سعد ایک بڑی فوج کے ساتھ مقیم ہے، حر آپ کے پیچھے پیچھے تھا، قادسیہ کے قریب پہنچ کرامام ؑوہاں سے لوٹے اور دس میل چل کرمقامِ کربلا میں آکرمقیم ہوئے، عمروبن سعد آپ کی خبر سن کرمعہ فوج روانہ ہوا اور سراغ لیتا ہوا اگلے روز کربلا پہنچ گیا، قریب پہنچ کرعمروبن سعد اپنی فوج سے جدا ہوکر آگے آیا اور امام حسین علیہ السلام کوآواز دے کراپنے قریب بلایا، سلام علیک کے بعد ابن سعد نے کہا کہ:بیشک آپ یزید کے مقابلے میں زیادہ مستحقِ خلافت ہیں؛ لیکن خدائے تعالیٰ کویہ منظور نہیں کہ آپ کے خاندان میں حکومت وخلافت آئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے حالات آپ کے سامنے گذرچکے ہیں ، حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ:میں اس وقت تین باتیں پیش کرتا ہوں، تم ان تین میں سے جس کوچاہو میرے لیے منظور کرلو:اوّل تویہ کہ جس طرف سے میں آرہا ہوں؛ اسی طرف مجھے واپس جانے دوتاکہ میں مکہ معظمہ میں پہنچ کرعبادتِ الہٰی میں مصروف رہوں۔دوّم یہ کہ مجھ کوکسی سرحد کی طرف نکل جانے دوکہ وہاں کفار کے ساتھ لڑتا ہوا شہید ہوجاؤں۔سوّم یہ کہ تم میرے راستے سے ہٹ جاؤ اور مجھ کوسیدھا یزید کے پاس دمشق جانے دو، میرے پیچھے پیچھے اپنے اطمینان کی غرض سے تم بھی چل سکتے ہو، میں یزید کے پاس جاکر براہِ راست اس سے اپنا معاملہ اسی طرح طے کرلونگا جیسا کہ میرے بڑے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے طے کیا تھا۔عمروبن سعد یہ سن کربہت خوش ہوا اور کہا کہ میں بطورِ خود کوئی پختہ جواب آپ کو نہیں دے سکتا، میں ابھی عبیداللہ بن زیاد کواطلاع دیتا ہوں، یقین ہے کہ وہ ضرور ان میں سے کسی ایک بات کومنظور کرلے گا، عمروبن سعد بھی اسی میدان میں خیمہ زن ہوگیا اور ابن زیاد کویہ تمام کیفیت لکھ بھیجی۔

ابن زیاد نے کہا پھر تو معاملہ ختم ہوجائیگا ،حضرت حسن کی بہتر راے ہے وہ خود جاکر یزید سے اپنا معاملہ حل کرلیں گے لیکن شمرذی الجوشن اس وقت اس کے پاس موجود تھا، اس نے کہا اگرامام حسین رضی اللہ عنہ یزید کے پاس چلے گئے توپھران کے مقابلے میں تیری کوئی عزت وقدر باقی نہ رہے گی اور وہ تجھ سے زیادہ مرتبہ حاصل کرلیں گے، یہ سن کرابنِ زیاد نے عمروبن سعد کوجواب میں لکھا کہ:یہ تینوں باتیں کسی طرح منظور نہیں ہوسکتیں،صرف ایک صورت ہے کہ امام حسین اپنے آپ کوہمارے سپرد کردیں اور یزید کی بیعت نیابتاً اوّل میرے ہاتھ پرکرے؛ پھرمیں ان کویزید کے پاس اپنے اہتمام سے روانہ کروں گا۔اس جواب کے آنے پرعمروبن سعید نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کواطلاع دی اور کہا کہ میں مجبور ہوں، ابنِ زیاد خلافتِ یزید کی بیعت اوّل اپنے ہاتھ میں چاہتا ہے اور کسی دوسری بات کومنظور نہیں کرتا، امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس سے تومرجانا بہتر ہے کہ میں ابن زیاد کے ہاتھ پربیعت کروں۔ابن سعد حضرت حسین کا احترام کرتے تھے ،کسی طرح معامل حل ہوجائے اس کی فکر میں تھے  ، بالآخر جویرہ  کو ابن زیاد نے خط دیکر بھیجا کہ اگر ابن سعد حسین رضی اللہ عنہ کا سر نہ کاٹے تو تم اس کو قید کر کے میرے پاس لے آنا یہ خط لے کرجمعرات کے دن ۹/محرم الحرام سنہ۶۱ھ کوابنِ سعد کے پاس پہنچا، ابن سعد اس وقت اپنے خیمہ میں بیٹھا تھا، خط کوپڑھتے ہی کھڑا ہوگیا اور گھوڑے پرسوار ہوکر لشکر کوتیاری کا حکم دیا ، جب امام حسین کے روبرو ہوا،تو امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ کوکل تک کے لیئے اور سوچنے کی مہلت دو، ابنِ سعد نے جویرہ کی طرف دیکھا کہ اس نے کہا کہ کل کچھ دور نہیں ہے، اتنی مہلت دے دینی چاہیے، ابن سعد میدان سے واپس آیا اور فوج کوحکم دیا کہ کمرکھول دو، آج کوئی لڑائی نہ ہوگی۔ادھرابن زیاد نے فوراً شمرذی الجوشن کوبلوایا اور کہا کہ میں جویرہ کوبھیج چکا ہوں اور اس کوحکم دے دیا ہے کہ اگرابن سعد لڑائی میں تامل کرے تواس کوگرفتار کرکے لے آئے، ابن سعد کی طرف سے مجھ کومنافقت کا شبہ ہے؛ اگرجویرہ نے ابنِ سعد کوگرفتار کرلیا توفوج جومیدان میں پڑی ہوئی ہے، سب آوارہ اور ضائع ہوجائے گی، میں تجھ سے بہتر اس کام کے لیے دوسرا شخص نہیں پاتا توفوراً میدانِ کربلا کی طرف جا اور اگرابنِ سعد گرفتار ہوچکا ہوتوفوج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے اور امام حسین رضی اللہ عنہ سے لڑکر ان کا سرکاٹ لا، اگرابنِ سعد گرفتار نہ ہوا ہو اور لڑائی میں تامل کررہا ہوتوفوراً جاتے ہی لڑائی چھیڑدے ،شمرصبح کے وقت روانہ ہوا اور عصر کے وقت پہنچا، شمر کے آنے پرتمام کیفیت جوپیش آئی تھی، سنادی، شمر نے کہا کہ میں توایک لمحہ کی بھی مہلت نہ دونگا ،ابن سعد شمر کوہمراہ لے کرامام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ عبیداللہ بن زیاد نے یہ دوسرا قاصد بھیجا ہے اور مہلت آپ کوبالکل دینا نہیں چاہتا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سبحان اللہ اب مہلت کے دینے یانہ دینے کی کیا ضرورت ہے، آفتاب توغروب ہورہا ہے، کیا رات کے وقت بھی، تم لوگ جنگ کوکل کے لیئے ملتوی نہ رکھو گے، یہ سن کرشمرذی الجوشن نے بھی کل صبح تک کا انتظار مناسب سمجھا اور دوونوں اپنے لشکرگاہ کوواپس چلے آئے۔

ابن زیاد نے رات ہی میں عمر بن سعد کو حکم دیا کی فرات کا پانی بند کردو،عمروبن سعد نے اس حکم کے پہنچتے ہی عمروبن الحجاج کوپانچ سوسواردے کرساحلِ فرات پرمتعین کردیا،اور قافلہ حسینی کو پانی لینے سے منع کردیا ، اس کے بعد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام ہمراہیوں کواپنے پاس بلاکر کہا کہ تم لوگ یہاں سے جس طرف کومناسب سمجھو، چلے جاؤ، تم کوکوئی بھی کچھ نہ کہے گا؛ کیوں کہ دشمنوں کوصرف میری ذات سے بحث ہے، تمہارے چلے جانے کوتووہ اور بھی غنیمت سمجھیں گے، میں تم سب کواجازت دیتا ہوں کہ اپنی اپنی جان بچالو، ہمراہیوں نے یہ سن کرکہا کہ ہم ہرگز ہرگز آپ کا ساتھ نہیں چھوڑسکتے، ہم سب آپ کے اوپرقربان ہوجائیں گے اور جب تک ہمارے دم میں دم ہے، آپ کوآزار نہ پہنچنے دیں گے؛ اسی شب تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص طرماح بن عدی جواس نواح میں آیا تھا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ابنِ سعد کے لشکروں کا حال سن کرامام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ تنہا میرے ساتھ چلیں، میں آپ کوایک ایسے راستے سے لے چلوں گا کہ کسی کومطلق اطلاع نہ ہوسکے گی اور اپنے قبیلہ بنی طے میں لے جاکر پانچ ہزار آدمی اپنے قبیلہ کے آپ کی خدمت میں پیش کروں گا، آپ ان پانچ ہزار سے جوچاہیں کام لیں، امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ابھی ان سب سے کہا تھا کہ مجھ کوتنہا چھوڑ کرتم سب چلے جاؤ توانھوں نے اس بات کوگوارا نہیں کیا، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ میں ان سب کوچھوڑ کرتنہا اپنی جان بچاکر نکل جاؤں، ۔

جنگ کی ابتداء

جب صبح ہوئی توشمرذی الجوشن اور عمروبن سعد صفوفِ لشکر کوآراستہ کرکے میدان میں آئے،بعض روایات کے موافق آپ کے ہمراہ اس وقت جب کہ لڑائی 10/محرم الحرام سنہ۶۱ھ کی صبح کوشروع ہوتی ہے، بہتر آدمی موجود تھے، بعض روایات کے موافق ایک سوچالیس اور بعض کے موافق دوسوچالیس تھے؛ بہرحال اگربڑی سے بڑی تعداد یعنی دوسوچالیس بھی تسلیم کرلیں تودشمنوں کی ہزارہا جرار افواج کے مقابلے میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھی کوئی حقیقت نہ رکھتے تھے، امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے ہمراہیوں کومناسب مقامات پرکھڑا کرکے اور ضروری وصیتیں فرماکر اونٹ پرسوار ہوئے ،

 شمرذی الجوشن نے عمروبن سعد سے کہا کہ اب دیرکیوں کررہے ہو؟ عمروبن سعد نے فوراً ایک تیرکمان جوڑکر حسین علیہ السلام کے لشکر کی طرف پھینکا اور کہا کہ تم گواہ رہنا کہ سب سے پہلا تیر میں نے چلایا ہے، اس کے بعد کوفیوں کے لشکر سے دوآدمی نکلے، امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک بہادر نے مقابلہ پرجاکر دونوں کوقتل کردیا؛ پھراسی طرح لڑائی کا سلسلہ جاری ہوا، دیرتک مبازرہ کی لڑائی ہوتی رہی اور اس میں کوفیوں کے آدمی زیادہ مارے گئے؛ پھراس کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک ایک آدمی نے کوفیوں کی صفوں پرحملہ کرنا شروع کیا، اس طرح بہت سے کوفیوں کا نقصان ہوا، حضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہیوں نے آلِ ابی طالب کواس وقت تک میدان میں نہ نکلنے دیا، جب تک کہ وہ ایک ایک کرکے سب کے سب نہ مارے گئے، آخر میں مسلم بن عقیل کے بیٹوں نے آلِ علی پرسبقت کی، ان کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام کے بیٹے علی اکبر نے دشمنوں پررستمانہ حملے کیئے اور بہت سے دشمنوں کوہلاک کرنے کے بعد خود بھی شہید ہوگئے، ان کے قتل ہونے کے بعد امام حسین علیہ السلام سے ضبط نہ ہوسکا اور آپ رونے لگے؛ پھرآپ کے بھائی عبداللہ ومحمد وجعفر وعثمان نے دشمنوں پرحملہ کیا اور بہت سے دشمنوں کومار کرخود بھی ایک ہی جگہ ڈھیر ہوگئے، آخر میں امام حسین علیہ السلام کے ایک نوعمر بیٹے محمدقاسم نے حملہ کیا اور وہ بھی مارے گئے؛ غرض کہ امام حسین کے لیئے کربلا میں اپنی شہادت اور دوسری تمام مصیبتوں سے بڑھ کرمصیبت یہ تھی کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے اپنے بھائیوں اور بیٹوں کوشہید ہوتے ہوئے  دیکھا، امام حسین علیہ السلام کے ہمراہیوں اور خاندان والوں نے ایک طرف اپنی بہادری کے نمونے دکھائے تودوسری طرف وفاداری وجان نثاری کی بھی انتہائی مثالیں پیش کردیں ،نہ بے وفائی وتن آسانی کا الزام اپنے اوپر لیا۔حضرت امام حسین علیہ السلام سب سے آخر تنہا رہ گئے، خیمہ میں عورتوں کے سوا صرف علی الاوسط معروف بہ زین العابدین جوبیمار اور چھوٹے بچے تھے، باقی رہ گئے تھے، عبیداللہ بن زیاد ظالم نے یہ حکم بھی بھیج دیا تھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا سرمبارک کاٹ کران کی لاش گھوڑوں سے پامال کرائی جائے کہ ہرایک عضو ٹوٹ جائے۔

حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے تنہا رہ جانے کے بعد جس بہادری وجواں مردی کے ساتھ دشمنوں پرحملے کئے ہیں کہ ان حملوں کی شان دیکھنے والا ان کے ہمراہیوں میں سے کوئی نہ تھا؛ مگرعمروبن سعد اور شمرذی الجوشن آپس میں ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ ہم نے آج تک ایسا بہادر وجری انسان نہیں دیکھا، دشمنوں میں کوئی شخص بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہ میرے ہاتھ سے شہید ہوں؛ بلکہ ہرشخص آپ کے مقابلہ سے بچتا اور طرح دیتا تھا، آخر شمرذی الجوشن نے چھ شخصوں کوہمراہ لے کرآپ پرحملہ کیا اور ان میں سے ایک نے شمشیر کا ایسا وار کیا کہ امام حسین علیہ السلام کا بایاں ہاتھ کٹ کرالگ گرپڑا، حضرت امام حسین علیہ السلام نے اس پرجوابی وار کرنا چاہا؛ لیکن آپ رضی اللہ عنہ کا داہنا ہاتھ بھی اس قدر مجروح ہوچکا تھا کہ تلوار نہ اُٹھا سکے، پیچھے سے سنان بن انس نخعی نے آپ رضی اللہ عنہ کے نیزہ مارا جوشکم سے پارہوگیا، آپ رضی اللہ عنہ نیزہ کا یہ زخم کھاکر گرے، اس نے نیزہ کھینچا اور اس کے ساتھ ہی آپ علیہ السلام کی روح بھی کھینچ گئی، انا للہ واناالیہ راجعون۔

شہادت حسین کے بعد

اس کے بعد شمر نے یاشمر کے حکم سے کسی دوسرے شخص نے حضرت امام حسین علیہ السلام کا سرجسم سے جدا کیا اور عبیداللہ بن زیاد کے حکم کی تعمیل کے لیے بارہ سوار متعین کئے گئے؛ انھوں نے اپنے گھوڑے کی ٹاپوں سے آپ کے جسم مبارک کوخوب کچلوایا؛ پھرخیمہ کولوٹا، آپ کے اہلِ بیت کوگرفتار کیا زین العابدین جولڑکے تھے، شمرذی الجوشن کی نظر پڑی توان کواس نے قتل کرنا چاہا؛ مگرعمروبن سعد نے اس کواس حرکت سے باز رکھا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سرمبارک اور آپ کے اہلِ بیت کو کوفہ میں ابن زیاد کے پاس بھجے گئے، کوفہ میں ان کوتشہیر کیا گیا، پھرتیسرے روز شمرذی الجوشن کوایک دستہ فوج دیکر اس کی نگرانی میں یہ قیدی اور سرمبارک یزید کے پاس دمشق کی جانب روانہ کیا، علی بن حسین رضی اللہ عنہما کا سر مبارک، امام زین العابدین اور تمام عورتیں جب یزید کے پاس پہنچے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کا سراس نے دیکھا تودرباری اور یزید خود اس کی بیوی  رونے لگے اس پر یزید نے عبیداللہ بن زیاد کوگالیاں دیکر کہنے لگا کہ اس پسرسمیہ کومیں نے یہ حکم کب دیا تھا کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کوقتل کردینا؛ پھرشمرذی الجوشن اور عراقیوں کی طرف مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ میں توتمہاری اطاعت وفرماں برداری سے ویسے ہی خوش تھا، تم نے حسین بن علی رضی اللہ عنہما کوکیوں قتل کردیا، شمرذی الجوشن اور اس کے ہمراہی اس توقع میں تھے کہ یزید ہم کوانعام دیگا اور ہماری عزت بڑھائے گا؛ مگریزید نے کسی کوکوئی انعام وصلہ نہیں دیا اور اپنی ناخوشی ونارضگی کا اظہار کرکے سب کوواپس لوٹا دیا۔ ، اس کے بعد ان قیدیوں کوآزادی دیکر بطورِ معزز مہمان اپنے محل میں رکھا، عورتیں اندر عورتوں میں گئیں توانھوں نے دیکھا کہ یزید کے محل سرا میں بھی اسی طرح ماتم برپا ہے اور سب عورتیں رورہی ہیں، جس طرح امام حسین کی بہن اپنے بھائی اور عزیزوں کے لیے رورہی تھیں،یہی سے ماتم ، نوحہ ، اور عورتوں کا گریہ وغیرہ کا رسم بد چل پڑا،جبکہ کسی پر تین سے زیادہ سوگ منانے اللہ کے نبی ﷺ نے سختی سے ہم کو منع کیا ہے ۔ اللہ ہم سب کو اہل بیت سےمحبت عطاکرے اور رسم بد سے مکمل حفاظت فرمائے آمین ۔

بالآخر چند روز شاہی مہمان رہ کریہ بربادشدہ قافلہ مدینہ کی طرف روانہ ہوا، یزید نے ان کوہرقسم کی مالی امداد دی اور علی بن حسین سے ہرقسم کی امداد کا وعدہ کیا کہ جب تم لکھوگے تمہاری فرمائش کی ضرور تعمیل کی جائے گی۔

 ( ماخوذ:  انوار اسلام ،مکتبہ جبرئیل ،تاریخ اسلام جلد دوم ،طبقات ابن سعد )

 

  تعزیہ علماء دیوبند اور علماء بریلوی کے نزدیک

                                                                                                              

Thursday, June 22, 2023

تکبیر تشریق کے احکام




تکبیر تشریق کے احکام

الفاظ تکبیر تشریق:اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلَہَ اِلَّاللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْد

 ترجمہ:اﷲ سب سے بڑا ہے۔اﷲ سب سے بڑا ہے۔اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اﷲ سب سے بڑا ہے۔اور شکر و حمد اﷲ ہی کے لئے ہے۔

تکبیر تشریق کا پس منظر    

جب اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بذریعہ وحی(خواب) یہ حکم دیا کہ وہ اپنے نور نظر لخت جگرحضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کے راستے میں قربان کر دیں، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام تعمیل حکم خداوندی میں نور نظرکو ذبح کرنے کے لیے چھری گلے پر رکھ دی؛ لیکن اللہ کی مرضی امتحان مقصود تھا جس میں صد فی صد حضرت ابراہیمؑ و اسماعیل ؑ امتحان میں کامیاب ہوئے،اور ارشاد ربانی ہوا:" قد صدقت الرؤیا "اور حضرت جبرائیلؑ کو جنت کا ایک دنبہ دیکر بھیجا، جب حضرت جبرئیلؑ دنبہ لے آسمان دنیاپر تشریف لائے آئے تو حضرت ابراہیمؑ و اسماعیل ؑ کو دیکھ بلند آواز سے کہا : اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ حضرت ابراہیم نے جب جبرئیل ؑ  کو دنبہ کے ہمراہ دیکھا تو کہنے لگے لا إله إلا الله والله اكبر اور جب اسماعیل علیہ السلام  نے دیکھا کہ اللہ نے میرے لئے ایک دنبہ بطور فدیہ بھیجا ہے ، تو حضرت اسماعیل کی زبان سے نکلا ۔ الله أكبر ولله الحمد تینوں مقدس ہستیوں کی تسبیحات ملکر تکبیرتشریق بن گئی جو قیامت تک اللہ نے امت پر واجب کردی ۔

تکبیر تشریق کی وجہ تسمیہ

تشریق' شروق سے مشتق ہے، تشریق کسی چیز کو دھوپ میں سکھانے کو کہتے ہیں، چوں کہ ان دنوں میں اہل عرب قربانی کا گوشت سکھایا کرتے تھے اس لیے ان دنوں کو 'ایامِ تشریق' کہا جانے لگا۔

ثبوت

رسول کریم ﷺسے یہ ثابت ہے کہ آپ یومِ عرفہ کی فجر سے ایامِ تشریق کے آخری دن کی عصر تک یہ تکبیرات ادافرماتے تھے:

"عن جابر عن أبي الطفيل عن علي وعمار أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يجهر في المكتوبات بـ {بسم الله الرحمن الرحيم}، وكان يقنت في الفجر، وكان يكبر يوم عرفة صلاة الغداة ويقطعها صلاة العصر آخر أيام التشريق". (2/389)

تکبیرِ تشریق پڑھنے کا طریقہ

تکبیر  تشریق مرد جہراً پڑھیں گے اور عورتیں آہستہ آواز سے پڑھیں گی ، (تبیین الحقائق  ہندیۃ ۱؍۱۵۲، درمختار زکریا ۳؍۶۴)

مسبوق بھی تکبیرِ تشریق پڑھے
مسبوق شخص اپنا سلام پھیرنے کے بعد تکبیر تشریق پڑھے گا۔ (ہندیۃ ۱؍۱۵۲، تبیین الحقائق ۱؍۵۴۶، )

تکبیرِ تشریق پڑھنا کب واجب نہیں رہتا

اگر تکبیرِ تشریق سے پہلے بات چیت کرلی، تکبیرِ تشریق سے پہلے عمداً وضو توڑ دیا، تکبیرِ تشریق پڑھے بغیر مسجد سے باہر آگیا، تکبیرِ تشریق پڑھنے سے پہلے سینہ قبلہ سے پھیر لیا،توان تمام صورتوں میں تکبیرِ تشریق کا وجوب اس کے ذمہ سے ساقط ہوجاتا ہے؛ (یعنی اس کا پڑھنا واجب نہیں رہتا) لہٰذا سلام پھیرنے کےبعد فورا تکبیرِ تشریق پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ فلو خرج من المسجد أو تکلم عامداً أو ساہیاً أو أحدث عامداً سقط عنہ التکبیر۔ (شامی زکریا ۳؍۶۳)

سلام کے بعد تکبیرِ تشریق سے پہلے بلاارادہ وضو ٹوٹ گیا

بعد سلام تکبیر تشریق پڑھنے سے پہلے خود بخود وضو ٹوٹ گیا تو اصح قول یہ ہے کہ اسی حالت  میں تکبیر تشریق کہہ لے، اور (شامی زکریا ۳؍۶۳)

مسئلہ : نو ذی الحجہ کی فجر کی نماز سے لے کر تیرہ ذی الحجہ کی عصر کی نماز تک تکبیر تشریق کا وقت ہے، اور یہ کل پانچ میں23 نمازیں بنتی ہیں۔*

مسئلہ: تکبیر تشریق ہر فرض نماز کے بعد مرد،عورت،شہری،دیہاتی، مقیم ومسافر، حاجی وغیرحاجی، تنہا اور جماعت سے نماز پڑھنے والے  پر ایک مرتبہ پڑھنا چاہئے۔*

مسئلہ: تکبیر تشریق فرض نمازوں بشمول جمعہ کی نماز کے بعد پڑھی جائےاور بہتر ہے عید الاضحیٰ کے بعد بھی پڑھ لی جائے۔ وتر، سنت اور نفل کے بعدتکبیر تشریق نہیں ہے۔*

مسئلہ: فرض نماز کے سلام کے بعد  فورا تکبیر پڑھنی چاہئے،  سلام کے  بعد اگر کوئی پڑھنا بھول جائے،اور نماز کے خلاف کوئی کام نہیں کیا ہوتو یاد آنے کی صورت میں تکبیر کہہ دینی چاہیے اور اگر نماز کے خلاف کوئی کام  کرلیا ہو ،مثلا: بات کرلیا، ہنس دیا وغیرہ  تو تکبیر کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔*

 


Friday, September 30, 2022

آفتاب نبوت

 

آفتاب نبوت

ازقلم: مفتی  محمد عبد اللہ عزرائیل قاسمی، جامعہ اسلامیہ بر موتر مرزاپور مدہوبنی بہار

 ماہِ ربیع الاوّل  اِسلامی کیلنڈر کاتیسرا رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے، اِسی ماہِ مبارک میں  رحمت للعالمین، نبی خاتم النبین‘شفیع المذنبین ،امام الانبیاء، نبی رحمت ﷺکی ولادت باسعادت  ہوئی ،آپ کی ولادت اﷲ تبارک وتعالیٰ کی تمام نعمتوں سے بڑی نعمت ہے۔

تاریخ ولادت:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالے سے مؤرخین اور سیرت نگاروں  کی آراء مختلف ہیں، مشہور یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول کو پیدائش ہوئی، البتہ محققین علماءِ کرام کے دو قول ہیں، 8 ربیع الاول یا 9 ربیع الاول، بعض نے ایک کو ترجیح دی ہے، بعض نے دوسرے کو۔ راجح قول کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 8 ربیع الاول بمطابق 20 یا 22 اپریل 571 عیسوی کو ہوئی، (اپریل کی تاریخ کا اختلاف عیسوی تقویم کے اختلاف کا نتیجہ ہے)۔(فتاویٰ بنوری، نیٹ )

علامہ شبلی نعمانیؒ نے’ سیرت النبی‘ میں مصر کے مشہور ہیئت دان محمود پاشا فلکی کی تحقیقات کے پیش نظر 9 ربیع الاول 20 اپریل 571 ء کو ترجیح دی ہے ۔ قاضی محمد سلیمان منصور پوری ؒ نے اپنی کتاب رحمت للعالمین 40:1 میں آپؐ کی پیدائش 9 ربیع الاول ، عام الفیل / 22 اپریل 571 ء / یکم جیٹھ 628 بکرمی قرار دی ہے ۔ جبکہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ  حیدر آبادی ؒکی تحقیق کے مطابق عیسوی تاریخ 17 جون 569 ء تھی۔

نسب نامہ:

مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ بْنِ هَاشِمِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ قُصَيِّ بْنِ كِلاَبِ بْنِ مُرَّةَ بْنِ كَعبِ بْنِ لؤَيِّ بْنِ غالِبِ بْنِ فِهْرِ بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّضْرِ بْنِ كِنَانَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ مُدْرِكَةَ بْنِ إِلْيَاسَ بْنِ مُضَرَ بْنِ نِزَارِ بْنِ مَعَدِّ بْنِ عَدْنَانَ، ( بخاری ، کتاب مناقب الانصار، باب مبعث النبی ،)

پیدائش کی ابتدائی احوال:

حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ علیہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے سلسلے میں کرامات بے شمار ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں کہ ایوان کسریٰ لرز اٹھا اور اس کے چودہ کنگرے گر گئے اور دریائے سادہ خشک ہو گیا اور اس کا پانی زیر زمین چلا گیا اور رود خانہ سادہ جسے وادی سادہ کہتے ہیں جاری ہو گیا حالانکہ اس سے قبل اسے منقتع ہوئے ایک ہزار سال گزر چکا تھا اور فارسیوں کا آتشگدہ بجھ گیا جو کہ ایک ہزار سال سے گرم تھا۔(مدارج النبوۃ ج: ۲ ص ۲۷)

حلیہ مبارک:

آپ ﷺپر کشش رنگت،دلنشیں آنکھیں،خوبصورت آبرو،چمکدار دندان مبارک،خوبصورت ستواں ناک،حسین رخسار اور پر نور پیشانی والے تھے، آپ ﷺ کی حلیہ مبارک کو مختلف صحابہ کرام نےبیان کیا ہے ،حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے ایک تفصیلی روایت ہند بن ابی ہالہ سےکیا ہے، جس کو امام ترمذیؒ نے شمائل ترمذی میں نقل ہے :

حسن بن علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے (آپ ﷺ کے حلیہ مبارک کے متعلق دریافت کیا (کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کو بڑی کثرت اور وضاحت سے بیان کیا کرتے تھے، اور میں چاہتا تھا کہ وہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے اوصاف بتا دیں جن کو میں اپنے دل میں بٹھا لوں، تو وہ کہنے لگے کہآپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت عظیم اور باوقار شخصیت کے مالک تھے، چودھویں رات کے چاند کی طرح آپ کا چہرہ مبارک چمکتا تھا، قد مبارک عام درمیانے قد سے کچھ لمبا اور بہت لمبے قد سے تھوڑا کم تھا، سر مبارک (اعتدال کے ساتھ) بڑا تھا، بال مبارک کچھ گھنگھریالے تھے، پیشانی کے بال اگر کھل جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مانگ نکال لیتے ورنہ آپ کے بال جب وفرہ ہوتے تو کانوں کی لو سے زیادہ لمبے نہ ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چمکدار روشن رنگ والے کے تھے، پیشانی وسیع اور کشادہ تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لمبی، باریک خمدار پلکوں والے تھے جو پوری اور کامل تھیں، ان کے کنارے آپس میں ملے ہوئے نہیں تھے، ان کے درمیان ایک رگ جو غصے کے وقت خون سے بھر کر اوپر ابھر آتی تھی، یہ درمیان سے محدب تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناک کا بانسہ باریک اور لمبا اس کے اوپر اونچا نور دکھائی دیتا، جس نے غور سے نہ دیکھا ہوتا وہ خیال کرتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناک مبارک درمیان سے اونچی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھنی داڑھی والے اور کشادہ و ہموار رخساروں والے تھے، دانت مبارک کھلے اور کشادہ تھے، سینے کے بال ناف تک باریک لکیر کی طرح تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک صاف چاندی کی طرح خوبصورت منقش مورتی کی گردن جیسی تھی، درمیانی اور معتدل خلقت والے تھے، مضبوط اور متوازن جسم والے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ اور پیٹ برابر اور ہموار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک کشادہ تھا، دونوں کندھوں کے درمیان کچھ دوری اور فرق تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہڈیوں کے جوڑ موٹے اور گوشت سے پر تھے، جسم کا وہ حصہ جو کپڑے سے یا بالوں سے ننگا ہوتا وہ روشن اور چمکدار تھا سینے کے اوپر ناف تک ایک لکیر کی طرح بال ملے ہوئے تھے، چھاتی اور پیٹ بالوں سے خالی تھے، دونوں بازوؤں، کندھوں اور سینہ کے بالائی حصہ پر بال تھے، کلائیوں اور پنڈلیوں کی ہڈیان لمبی تھیں اور ہتھیلیاں کشادہ تھیں، ہاتھ اور پاؤں کی ہڈیاں موٹی اور مضبوط تھیں، انگلیاں لمبی اور پاؤں کے تلوے قدرے گہرے تھے، قدم ہموار اور اتنے نرم و نازک کہ ان پر پانی نہ ٹھہرتا تھا، چلتے تو قوت کے ساتھ آگے کی جانب جھک کر چلتے، بڑے سکون اور وقار کے ساتھ تیز تیز چلتے، چلتے ہوئے معلوم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلندی سے نشیب کی طرف اتر رہے ہیں، اور جس کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو یکبارگی متوجہ ہوتے، نظر جھکا کر چلتے۔(شمائل ترمذی)

حضرت حسان بن ثابت رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کَہتے ہیں:

                                                                                                                        "واحسن منک لم ترقط عینی

واجمل منک لم تلد النساء"

یعنی آپ سے زیادہ حسین آج تک میری آنکھوں نے دیکھا ہی نہیں، اور آپ سے زیادہ  جمال والا آج تک کسی ماں نے جنم ہی نہیں دیا-

یا صاحب الجمال و یا سید البشر

من وجه المنیر لقد نور القمر

لا یمکن الثناء کما کان حقہ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

آپ کا اخلاق عظیمہ:

آپﷺ کے اخلاق کریمانہ کی مثال پیش کرنا یا اس کو الفاظ کی لڑی میں پڑونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، ایک مرتبہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے لوگوں نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق کریمانہ کیا تھا ؟ حضرت صدیقہ رضی رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ:

کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ (مسند احمد،ح:25108 )

کہ ’’آپ کا خلق قرآن تھا‘‘ یعنی حق تعالیٰ نےقرآن میں جس چیز کی  اچھا ئی ذکر فرمایا ہے اس چیز کوآپ کی طبیعت چاہتی تھی اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں برائی سے یاد کیا ہے اس سے آپ کی طبیعت کو نفرت تھی۔

حضرت  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ "(سنن کبریٰ  ح: 20782۔)

 یعنی ’’میں اس واسطے مبعوث ہوا ہوں کہ پہلے  تمام انبیاء و رسل کی بزرگی اور اچھائیوں کو پورا کروں۔‘‘

آپ ﷺ اخلاق کے آخری درجہ پر فائز تھے، اس  سےآگے کوئی منزل ہی نہیں تھی ، اور نہ اس سے زیادہ کسی بشر کی طاقت تھی ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ ، (القلم ، )

’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں،،۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اخلاق درجہ انتہاء کو پہونچی ہوئی تھی ، خواہ وہ خلق صدق ہو، خلق صبر ہو، خلق حیاء ہو، خلق احسان ہو، خلق احصان ہو (پاک دامنی) خلق امانت داری ہو خلق دیانت داری ہو۔ خلق وفائے عہد ہو، خلق شکر ہو خلق عفو ہو، خلق عدل و انصاف ہو، خلق تواضع و انکساری ہو، خلق حلم و بردباری ہو، خلق رحم و مہربانی ہو، خلق سخاوت و جودو کرم ہو، خلق شجاعت و بہادری ہو، خلق ایثار و بے نفسی ہو، خلق حق گوئی اور صاف گوئی ہو، خلق اعتدال و توازن ہو اور خلق رفق ونرمی ہو،ان کے علاوہ اور بھی جوحسن اخلاق  ہیں یا ہو سکتے ہیں وہ آپ  ﷺ کی زندگی مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھیں ۔

رحلت :

بعض حضرات کا کہنا ہے کہ آپ ﷺ کی وفات بھی بارہ ربیع  الاول کوہوئی ہے ، لیکن بارہ ۱۲/ربیع الاول کو تاریخِ وفات کہناصحیح نہیں ہے؛ اس لیے کہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پیرکے دن ہوئی، اور صحیح بخاری ہی کی روایت میں منقول ہے کہ حجة الوداع کے موقع پر عرفہ کا دن جمعہ کا دن تھا، اور ایک روایت سے معلوم ہوتاہے کہ عرفہ کے اکیاسی(۸۱)دن کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔اس حساب سے ۱۲/ربیع الاول کو پیرکادن کسی طرح نہیں پڑتاہے،اسی وجہ سے علامہ ابن حجرعسقلانی  کی رائے  ہےکہ آپ کی وفات دو(۲)ربیع الاول بروزپیر کو ہوئی۔

علامہ سہیلی نے روض الانف میں، علامہ تقی الدین ابن تیمیہ نے منہاج السنة میں، علامہ شبلی نعمانی سیرت النبی میں یکم/ربیع الاول لکھا ہے۔ اور علامہ مغلطائی، علامہ ابن حجرعسقلانی نے فتح الباری میں، شیخ محمدبن عمر بحرقی حضرمی شافعینے حدائق الانوارمیں، حضرت مفتی محمد شفیع  نے سیرت خاتم الانبیاء میں لکھاہے۔ تاریخ وفات میں مشہور یہ ہے کہ ۱۲/ربیع الاول کو واقع ہوئی اور یہی جمہور مورخین لکھتے چلے آئے ہیں؛لیکن حساب کے اعتبار سے یہ تاریخ وفات نہیں ہوسکتی ہے؛ کیوں کہ یہ بھی متفق علیہ اور یقینی امر ہے کہ وفات دوشنبہ کو ہوئی اور یہ بھی یقینی ہے کہ آپ کا حج۹/ ذی الحجہ روزجمعہ کو ہواان دونوں باتوں کے ملانے سے ۱۲/ربیع الاول روز دوشنبہ میں نہیں پڑتی؛ اسی لیے حافظ ابن حجرنے شرح صحیح بخاری میں طویل بحث کے بعد اس کو صحیح قرار دیاہے کہ تاریخ وفات دوسری ربیع الاوّل ہے، کتابت کی غلطی سے ۲ کا ۱۲ بن گیا۔ حافظ مغلطائینے بھی دوسری تاریخ کو ترجیح دی ہے۔

خلاصہ کلام ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال دوم/ربیع الاول۱۱ ہجری مطابق ۲۸/مئی ۶۳۲ء     کو ہوا۔واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب․

اس  احساس اور حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے قلم کو روک رہا  ہوں :

زندگیاں بیت گئیں اور قلم ٹوٹ گئے

تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوا

نئے مضامین 

1:۔شاتم رسول

2:۔قیمتی باتیں

mdabdullahqasmi@gmail.com