Tuesday, June 1, 2021

عالی مقام

عالی مقام

        کیا آپ اپنے شعبے میں ماہر ہیں ؟کیا آپ حلقہ احباب میں مقبول ہیں ؟کیا آپ مرجع الخلائق ہیں ؟کیا عوام وخواص آپ سے رائے لیتے ہیں؟ کیا آپ سنے اور مانے جاتے ہیں؟کیا آپ کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہے ؟کیا آپ کاکردارو عمل مثل آئینہ ہے؟ کیا آپ غائبانہ بھی باوقار، پاکیزہ اور حسن القاب وآداب کی یادسےزینت محفل بنتے ہیں؟

       اگر ان تمام کا جواب مثبت میں ہے تو یقینا آپ کو اس کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ یہ مقام و مرتبہ ،جد و شرف ، فضیلت و عزت، شان و شوکت اور سیرت و صورت حاصل کرنے کیلئے اینتھک کوشش اور مستقل محنت و جفاکشی کے ساتھ ہر قسم کی کھاردار چھاڑیوں سے مسلسل ارتقائی سفرطے کرتے ہوئے زندہ رہنے کی یہ ترکیب آپ نکالی ہوگی،جس کو صاف  اور کھلے الفاظ میں یہ کہیں کہ یہ عزوشرف کے حصول کیلئے مستقل آپ 20یا 30سال تک جفاکشی کی ہوگی ،اس کے بعد کہیں جاکریہ مقام ومرتبہ کا  کلیدی کردار آپ کا غلام بنا ہوگا ۔

بہت کچھ محنتوں سے اک ذرا عزت کمائی ہے

اندھیرے جھونپڑے میں روشنی جگنو سے آئی ہے ۔

عزت مجھے ملی ہے بہت التجا کے بعد

در پہ گیا نہ غیر کے رب کی عطا کے بعد

        راقم وناظراور تمام فن کاروں پر یہ بھی آشکارا ہے کہ عزت وشہرت ،مقام دادو دہش ملنے کے بعد اسے بر قرار رکھنا اسے حاصل کرنے سے زیادہ مشکل کام ہوتا ہے۔ کسی منصف مزاج شخصیت کا قول ہےکہ مجھے اپنی عزت اور مقام بنانے میں 34 سال لگے ہیں ،اب مجھے اپنی اس عزت کو برقرار بھی رکھنا ہے۔

خاک میں کیوں مری دستار ملائی ہوئی ہے

میں نے عزت بڑی مشکل سے کمائی ہوئی ہے

لمحہ فکر

ترے ہاتھوں میں ہے تری قسمت

تری عزت ترے ہی کام سے ہے

            اللہ تعالیٰ ہمیں  نسبی فخرو تکبر سے بچائے اور تقویٰ و پرہیزگاری  مقام عالی پر فائز کرئے،اٰمین۔

نئے مضامین

(1)           دجال کی حقیقت

     (2)                                                                                                                                                   دجاک کی شکل و نسل


دجال کی شکل

دجالی فتنہ،قسط:-2

دجال کی شکل و نسل

                                                                                                                                            بہت سے احادیث میں دجّال کی شکل اور نسل  بتایا گیا ہے ان تمام کو سامنے رکھنے سے دجّال کا جو بد صورت و بد نما حلیہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ دجّال اکبر ایک جوان مرد انسان ہوگا ، دراز قد اور ایک آنکھ سے کانا ہوگا ، جیسے پھولا ہوا انگور ہو جبکہ اس کی دوسری آنکھ خون آلود ہوگی ، دائیں آنکھ میں انگور کے بقدر ناخنہ ہو گا،رنگ سرخ یا گندمی ہو گا، ناک چونچ کی طرح ہو گی۔  اس کا سینہ چوڑا اور ذرا سا اندر کی طرف دھنسا ہوا ہوگا ، دجّال کی پیشانی چوڑی ہوگی اور دونوں آنکھوں کے درمیان ك ف ر یعنی کافر لکھا ہوا ہوگا جسے ہر مسلمان پڑھ سکے گا چاہے اسے پڑھنا آتا ہو یا نہ آتا ہو اور سر کے بال حبشیوں کی طرح گھنگھریالے اور پراگندہ  ہونگے، سر پچھلی جانب سے کچھ گنجا ہوگا اوراس کا سر افعی سانپ کے مثل ہوگا۔ دجال کی رفتار آندھیوں سے زیادہ تیز اور بادلوں کی طرح رواں ہو گی۔ وہ کرشموں اور شعبدہ بازیوں کو لے کر دنیا کے ہر ہر چپہ کو روندے گا۔ زمین پر دجال کے شر و فساد کا زمانہ چالیس روز تک رہے گا، جن میں سے ایک دن ایک سال کے برابر، ایک دن ایک مہینہ کے برابر، ایک دن ایک ہفتہ کے برابر، باقی دن عام دنوں کے برابر ہوں گے۔اس کے علاوہ بھی نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار حدیثوں میں دجال اکبر کے صفات بتائے ہیں جن کی بنیاد پر ایک مومن پہچان جائے گا کہ یہ شخص دجال ہے ۔( بخاری ، 4 / 450 ، حدیث : 7128 ، مسلم ، حديث : 7364 ، 7367 ، التذکرۃ لقرطبی ، ص 640)

                                                                                                              دجال یہودیوں کی نسل سے ہوگا،اور بے اولاد ہوگا، ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک بار مکہ میں ابن صیاد کے ساتھ تھا۔ اس نے کہا:لوگوں نے میرے بارے میں نہ جانے کس کس طرح کی باتیں اڑادی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ میں دجال ہوں لیکن یہ بتاؤ کہ کیا تم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے نہیں سناکہ دجال بے اولاد ہوگا۔میں نے کہا:ہاں، بالکل سنا ہوں۔ اس نے کہاکہ میرے تو بچے ہیں۔۔۔۔۔۔ (صحیح مسلم؍2927)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں سویا ہوا (خواب میں) کعبہ کا طواف کر رہا تھا کہ ایک صاحب جو گندم گوں تھے اور ان کے سر کے بال سیدھے تھے اور سر سے پانی ٹپک رہا تھا (ان پر میری نظر پڑی) میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ میرے ساتھ کے لوگوں نے بتایا کہ یہ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام ہیں پھر میں نے مڑ کر دیکھا تو موٹے شخص پر نظر پڑی جو سرخ تھا اس کے بال گھونگھریالے تھے، ایک آنکھ کا کانا تھا، اس کی ایک آنکھ انگور کی طرح اٹھی ہوئی تھی۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ دجال ہے۔ اس کی صورت عبدالعزی سے ملتی ہے۔

نیا مضمون

دجال کی حقیقت

 


Sunday, May 30, 2021

دجال کی حقیقت

 



دجالی فتنہ،قسط:-1

دجال کی حقیقت

     قُربِ قِیامت کی دس بڑی علامات ہیں جن میں سے ایک علامت “ دَجّال کا ظاہر ہونا “ بھی ہے ، فتنہ دجال تاریخِ انسانی تمام فتنوں سے بڑا خطرناک فتنہ ہے ، جس سے تمام انبیاء کرام ؑ نے اپنی اپنی اُمّت کو ڈرایا تھا۔

حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نوح ؑکے بعد کوئی نبی ایسا نہیں جس نے اپنی قوم کو دجال کے فتنے سے ڈرایا نہ ہو----(جامع ترمذی،ج:2ح :118)

دجال کے لغوی معنی:

1.     کذاب یعنی بڑا جھوٹا۔

2.     مالدار اور خزانوں والا۔

3.     بڑا گروہ جو اپنی کثرت سے زمین کو ڈھانپ لے۔ (لسان العرب)

دجال کی قسمیں

       دجّال دو قسم کے ہیں : (1)چھوٹے (2) بڑے۔ چھوٹے دجّال بہت سے آئے اور آتے رہیں گے ، ہر جھوٹا نبی ، جھوٹا مولوی ، جعلی صوفی اورہر وہ شخص جو دوسروں کو راہ حق سے گمراہ کریں وہ دجّال ہے۔ہاں! بڑا دجّال صرف ایک ہے جو دعویٰ خدائی کرے گا۔ “ 

چھوٹے دجال

 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے رایت ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک دو جماعتیں آپس میں جنگ نہ کر لیں۔ دونوں میں بڑی جنگ ہو گی۔ حالانکہ دونوں کا دعویٰ ایک ہی ہو گا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تقریباً تیس جھوٹے دجال پیدا نہ ہو جائیں۔ ان میں سے ہر ایک کا یہی گمان ہو گا کہ وہ اللہ کا نبی ہے۔(بخاری، بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ ،ح:3609)

کیا دجا ل انسان ہے؟

         بعض  علماء کرام نے انسان کہا ہے ۔(2) بعض نے شیطان کہا ہے ۔(3) اور بعض نے کہاں ہےانسان و جنات کے علاوہ کوئی دوسری مخلوق ہے،اگر احادیث کو بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہےکہ دجّال مختلف الخلق یعنی دجّال مختلف مخلوقات  میں سےہوں گے۔ دجال کوئی ایک مخلوق نہیں ہوگا؛بلکہ یہ انسان اور غیر انسان سے بھی ہو سکتا ہے ۔

بیان القرآن میں ہے :

 ”دجل“ کے لفظی معنی دھوکہ اور فریب کے ہیں۔ اس مفہوم کے مطابق ”دجال“ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو بہت بڑا دھوکے باز ہو ‘ جس نے دوسروں کو دھوکا دینے کے لیے جھوٹ اور فریب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو۔ اس لیے نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کو بھی دجال کہا گیا ہے۔ چناچہ نبی اکرم نے جن تیس دجالوں کی پیدائش کی خبر دی ہے ان سے جھوٹے نبی ہی مراد ہیں۔ دجالیت کے اس عمومی مفہوم کو مدنظر رکھا جائے تو آج کے دور میں مادہ پرستی بھی ایک بہت بڑا دجالی فتنہ ہے۔(بیان القرآن، سورہ کہف :2 )

ہاں!دجال اکبر جو قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ہےاورجس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوکر مقام ”لُدّ“ میں قتل کریں گے، اس کا انسان  میں سے ہونا اغلب ہے ،اور یہی متاخرین کا راجح قول ہے ،جیسا کہ احادیث مبارکہ میں جو نشانیاں آپ ﷺ نے بتائی ہیں ان سے  ظاہر ہوتا ہےکہ دجال اکبر انسان میں سے ہوگا ۔

     آپﷺ نے فرمایا:”وہ بھاری بھرکم جسم، سرخ رنگت، گھنگھریالے بال اور ایک آنکھ سے نابینا ہے۔ اس کی آنکھ لٹکے ہوئے انگور کے دانے جیسی ہے۔" (صحیح البخاری، کتاب الفتن، باب ذکر الدجال، حدیث نمبر: 6709)

       نبی رحمت ﷺ نے فرمایا: وہ آنکھوں سے نظر آ رہا ہوگا(حالانکہ تم اپنے رب کو مرنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتے)۔اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان "ک ف ر"یعنی کفر لکھا ہوگا جو ہر مومن پڑھ لے گا، خواہ وہ لکھنا پڑھنا جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔(ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب فتنہ الدجال و خروج عیسیٰ ،حدیث نمبر : 4077، الحاکم، حدیث نمبر : 8768)

بیان القرآن میں ہے :

''اس کے علاوہ دجال اور دجالی فتنے کا ایک خصوصی مفہوم بھی ہے۔ اس مفہوم میں اس سے مراد ایک مخصوص فتنہ ہے جو قرب قیامت کے زمانے میں ایک خاص شخصیت کی وجہ سے ظہور پذیر ہوگا''۔(بیان القرآن سورہ کہف)


ارطغرل  غازی