Thursday, October 31, 2019

ناریل توڑ کر گیٹ کا افتتاح

بسم اللہ الرحمن الرحیم


ناریل توڑ کر گیٹ یا کرکیٹ وغیرہ کا افتتاح کرنا


سوال :۔کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: زید ایک مسجد کا امام ہے اور علاقہ کے حالات کے پیش نظر سیاست اور سیاسی لوگوں سے بھی تعلق ہے، جمعہ کی نماز کے بعد علاقہ کے نگر سیوک نے ایک گیٹ کا افتتاح ناریل توڑکر کیا جو یہاں کا عام رواج ہے، اس کے بعد نگر سیوک نے زید کو ناریل توڑنے کے لئے بلایا، زید وہیں موجود تھا اور زید کو اس کا پہلے سے علم نہیں تھا کہ اس کے ہاتھ سے ناریل تڑوایا جائے گا، زید نے ناریل توڑنے سے انکار کیا؛ لیکن نگر سیوک کے اصرار پر زید نے وقتی طور پر حالات کے پیش نظر دل کی کراہت کے ساتھ ناریل توڑا اور زید کو اب تک اس ناریل کے احکام کے متعلق کوئی علم نہیں؛ لہٰذا اس صورت میں زید کے لئے کیا حکم ہے؟ کیا زید کا یہ عمل حرام ہے؟ نیز ناریل توڑنے کا کیا حکم ہے؟

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ناریل توڑنا ہندوؤں کی ایک مذہبی مخصوص رسم ہے، کسی مسلمان کے لئے کسی بھی حالت میں اس کا ارتکاب قطعاً جائز نہیں ہے۔ سوال میں مذکورہ امام صاحب کو دینی حمیت وجرأت سے کام لیتے ہوئے ناریل توڑنے سے صاف منع کردینا چاہئے تھا، جن لوگوں نے ان پر ناریل توڑنے کے لئے دباؤ ڈالا ہے وہ بھی ان کے ساتھ گناہ میں شامل ہیں، امام صاحب سمیت ان لوگوں کو اس گناہ سے توبہ کرنی لازم ہے۔
 عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ ا: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (سنن أبي داؤد، الباس / باب لبس الشہرۃ ۲؍۲۵۱ رقم: ۴۰۳۱، مشکوۃ المصابیح ۳۷۵)
وفي الفتاویٰ الصغریٰ: الکفر شيئٌ عظیم فلا أجعل المؤمن کافراً حتی وجدت روایۃ أنہ لا یکفر ثم قال: والذي تحرر أنہ لا یفتی یکفر مسلم أمکن حمل کلامہ علی محمل حسن أو کان في کفرہ اختلاف ولو روایۃ ضعیفۃ۔ (رسم المفتی ۸۳) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ
۸؍۲؍۱۴۲۴ھ ( کتاب النوازل ،ج:۱ص:۲۷۰۔)

Saturday, October 12, 2019

Indian train




ریل نیم: 1

آپ ریل میں اکثر سفر کرتے ہوں گے ؛ لیکن ایسے بہت سے ریل نیم موجود ہیں ، جن کے بارے میں آپ کو شاید ہی معلوم ہوگا۔ ان اصولوں کو جاننے سے ، آپ بہت ساری پریشانیوں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں اور اپنے سفر کو آرام سے بنا سکتے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں ٹرین کے ان اصولوں کو۔
ٹی ٹی ای کا انتظار
اگر آپ  کسی وجہ سےسفر نہیں کرتے ہیں تو ، ٹی ٹی ای آپ کے سوار ہونے کےاسٹاپ کے بعد دو اسٹاپوں تک کسی کو بھی آپکی سیٹ نہیں دے سکتا ہے۔ نیز ، ٹی ٹی ای کو آپ کا ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اگلے اسٹیشن سے ٹرین بھی پکڑ سکتے ہیں۔
 ٹرین نکلے کے بعد ٹکٹ کی واپسی
اگر آپ کی ٹرین چھوٹ گئی تو آپ کو ٹی ڈی آر (ٹکٹ جمع کروانے کی رسید) درج کرنا پڑے گی اور اس پر بیس فیئر کی 50 ref رقم کی واپسی دی جائے گی۔
برتھ پر کب سو سکتے ہیں
ریلوے قوانین کے مطابق ، کوئی بھی مسافر جس کی درمیانی برت مختص ہے ، قانوناصبح دس بجے سے صبح چھ بجے تک اپنی نشست پر سو سکتا ہے۔ اس کے بعد ، اس کی نشست نیچے رکھنی ہوگی تاکہ دوسرا مسافر نیچے کی برتھ پر بیٹھ سکے۔باقی آپسی مصالحت سے جب بھی بیٹھیں اور سوئیں کو ئی  پوچھنے والانہیں ہے ۔

ٹکٹ گم گیا

(4)اگر آپ کا ٹکٹ کھو گیا ہے ،توآپ سفر سے 24 گھنٹے پہلے بورڈنگ اسٹیشن کے چیف ریزرویشن سپروائزر کے پاس درخواست دے سکتے ہیں ، جس میں ڈپلیکیٹ ٹکٹ جاری کرنے کی درخواست کی جاسکے۔ اس کے بعد جعلی ٹکٹ الاٹ کیے جائیں گے۔جس سے آپ سفر کرسکتے ہیں ،اس کے تقریبا دس فیصد چار لگ سکتا ہے۔
سفر کے دوران سامان کا وزن
زیادہ سامان کے ساتھ سفر کرنا قابل جرمانہ ہو سکتاہے،مثال کے طور پر ، اگر کوئی مسافر 80 کلو وزنی وزن کے ساتھ سلیپر کلاس میں 500 کلومیٹر سفر کررہا ہے ،تو  وہ پارسل وین میں 109 روپے میں 40 کلوگرام کا اضافی سامان بک کراسکتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے اور اسے اضافی سامان کے ساتھ پکڑا جاتا ہے تو اب صرف اضافی 40 کلوگرام کیلئے وہ 654 روپے جرمانہ ادا کرے گا۔اسی طرح ، اے سی فرسٹ کلاس مسافر 70 کلو سامان مفت میں لے جا سکتا ہے،اگراس نےزیادہ 150 کلو گرام سامان لے کر سفر کیا تو اسے 80 کلو اضافی سامان کافیس ادا کرنا ہوگا۔
کون کتنا سامان لے سکتا ہے
مسافر کتنا سامان اپنے کلاس میں رکھ سکتے ہیں:
(1)فسٹ اے سی سے  70 کلو
(2) سیکینڈ اےسیسے 60کلو 
(3)تھری اے سی سے 50 کلو 
(4)سلیپرسے 40 کلو 
(5)جنرل سے 35 کلو 

Monday, April 8, 2019

ووٹ کس کو دیں


حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب مدظلہ العالی کے ویڈیو بیان کا لنک نیچے ہے ۔


مسائل ووٹ


شرعاً ووٹ کی حیثیت فقہاء کرام کی عبارت کی روشنی میں تین قسم کی ہو سکتی ہے(1) شہادت(2) شفاعت(3) وکالت ۔ اگر ووٹ کو شہادت کے درجے مانا جائےاور ووٹر پر کسی ایک امیدوار کی اہلیت اور صداقت ودیانت منکشف ہوجائے،تو پھر اپنے ووٹ کا استعمال اس صاحب کے حق میں واجب ہے۔اور اگرووٹ کو شفاعت ، وکالت کےدرجے میں ماناجائے تو مذکورہ صفات کے حامل امیدوار کے حق میں ووٹنگ امرِ مستحب ہے۔
مسلم خواتین کا بوتھ پر ووٹ دینے جانا

خواتین انتخابات کے موقع پر اپنا حق رائے دہی ( ووٹ ) کا استعمال کرسکتی ہیں بشرطیکہ پردہ اور دیگر امور شرعیہ کا لحاظ وخیال کریں ، ورنہ ارتکابِ معصیت سے ووٹ کا ترک افضل ہے ، حضرت مفتی ٔ اعظم مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عورتوں کا ووٹر بننا ممنوع نہیں ہے ، ہاں ! ووٹ دیتے وقت شرعی پردہ کا لحاظ رکھنا لازم ہوگا ۔  ( کفایت المفتی ج9ص 349۔ وکذا فی فتاویٰ حقانیہ ، ج2ص 213۔)

معتدہ کا ووٹنگ کے لیے نکلنا

جو عورت طلاق یا وفات کی عدت گذار رہی ہے ، اس کے لیے ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے ، کیوں کہ الیکشن میں ووٹ ڈالنا ایسی ضرورت نہیں ہے ، جس کی وجہ سے عدت میں عورت کو نکلنے کی اجازت دی جائے ۔

ووٹ کے بدلے مال لینا

تینوں حیثیتوں(شہادت،شفاعت،وکالت) کے اعتبار سے ووٹ مالِ متقوم نہیں یعنی ایسا مال نہیں ہے جس سے شرعاً نفع اٹھانا ممکن ہو ، جب کہ شرعاً کسی بھی چیز کی خریدو فروخت جائز ہونے کے لیے اس کا مالِ متقوم ہونا ضروری ہے ، اس لیے ووٹ کی خرید وفروخت شرعاًجائز نہیں ہے ۔ نیز رشوت لینے والے پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے :
عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ، وَالْمُرْتَشِيَ فِي الْحُكْمِ "۔(ترمذی،باب مَا جَاءَ فِي الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي فِي الْحُكْمِ، 1336۔)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلے میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے ۔
دوسرے جھوٹی گواہی دینے کا ، کیوں کہ وہ ایک شخص کو نامناسب یا کم مناسب خیال کرنے کے باوجود اس کے حق میں ووٹ کا استعمال کر رہا ہے ، اور جھوٹی گواہی دینے کو رسول اللہ ﷺ نے شرک کا ہم درجہ قرار دیا ہے :
فَقَالَ: عُدِلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ، بِالْإِشْرَاكِ بِاللَّهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ قَرَأَ: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ، ( ابوداؤد،باب فِي شَهَادَةِ الزُّورِ،3599۔)
آپ ﷺنے فرمایا:جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دہرایا پھر یہ آیت پڑھی۔۔۔بتوں کی گندگی اور جھوٹی باتوں سے بچتے رہو 147(مستفاد:کتاب الفتاویٰ جلد 6۔)
ووٹ کے بدلے لی ہوئی رقم کا حکم
جب اوپر کے سطور سے معلوم ہوگیا کہ ووٹ کے بدلے رقم لینا رشوت ہے ، جو نص قطعی سے حرام ہے ؛ اسلئےاس کا استعمال اپنی ذات پر یا کسی رفاعی کام میں مثلا:مسجد کی تعمیر ، یا مسجد ، عیدگاہ اور قبرستان کی زمین کی خریدی ، اور ان کی چہار دیواری وغیرہ بنانے میں صرف کرنا شرعاً ناجائز وحرام ہے ۔ 
عورتوں کا ریزرویشن بل سے فائدہ اٹھا کر مخصوص سیٹوں کا انتخاب لڑنا
عورت کا بے پردہ رہنا کسی حال میں جائز نہیں، دوسری طرف اگر خواتین کے لئے مخصوص سیٹوں پر مسلم عورتیں اُمیدوار ہی نہ بنیں ، تو ایسی صورت میں حکومت کی سیٹوں میں مسلم نمائندگی مفقود ہونے کی وجہ سے قومی وملی نقصان کا اندیشہ؛ بلکہ یقین ہے۔ بریں بنا ( اَھون البلیتین )کو اختیار کرتے ہوئے مسلم عورتوں کو شرعی حدود میں رہ کر ایسی سیٹوں میں انتخاب میں حصہ لینے کی گنجائش دی جائے گی، اور اُن پر لازم ہوگا کہ انتخاب سے پہلے اور انتخاب کے بعد ممکن حدتک شرعی پابندیوں کا لحاظ رکھیں، اگر نہیں رکھیں گی تو گنہگار ہوں گی۔ (مستفاد: دعوتِ فکر وعمل ،ص317۔کتاب النوازل ،ج17۔)
الیکشن کے موقع پر لگی ہوئی سیاہی کا حکم
بعض ارباب فتاویٰ نے کہاہےکہ، انگشت پر لگائی جانے والی یہ روشنائی انگلی پر لگے رہنے کی حالت میں وضو وغسل صحیح ہے ، کیوں کہ وہ تہہ دار نہ ہونے کی وجہ سے وضو اور غسل میں بدن تک پانی پہنچنے کو نہیں روکتی ہے،جبکہ خود بند نے تجربہ کیا ہے کہ وہ سیاہی سوکھنے کے بعد ہلکے پنٹ جیسی ہوجاتی ہے جوپانی پہنچنے سے مانع ہوتی ہے ،یہ تومعلوم ہی ہے کہ وضومیں اعضائے وضوکابھیگ جانااورپانی کاہرجگہ پہونچناضروری ہے،مگرالیکشن کی ضرورت کوسامنے رکھتے ہوئے علیٰ الاطلاق منع نہیں کیاجاسکتا،لہٰذاپیشگی احتیاط کے طورپراس انگلی پرکوئی چکنی چیز لگالی جائے یافوری طورپراسے رگڑدیاجائے ،اگرکسی نے ایسانہیں کیااورداغ پڑگیاتوحتیٰ الامکان اس کے چھڑانے کی کوشش کرے ورنہ وضونہیں ہوگا،اوراگررگڑنےسے کھال کے چھلنے اورخون کے بہنے کاظن ِغالب ہوجیساکہ عموماایساہی ہوتاہےتواوپرہی سے پانی کابہالینا کافی ہے۔واللّٰہ أعلم بالصواب (مستفاد:فتاویٰ ریاض العلوم جلد دوم )

ہم کس کو ووٹ دیں ؟

2019 کی لوک سبھا الیکشن میں ووٹ کس کو دیں؟ یقینا اس وقت ہر مسلمان کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اس مرتبہ ووٹ کس کو دیں ؟ 
(1) ایسی سیاسی پارٹی جس کی دفعات و قانون میں اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت شامل نہیں ہے اسے ووٹ دینا چاہیے۔
(2) کسی جگہ دو پارٹی کے امیدوار کھڑے ہوں اور وہ دونوں سیکولر اور جمہوریت پسند ہو تو پھر اندونوں امید وار میں ووٹ اس سیکولر و جمہوریت کے حامل امیدوار کو دے جس کی جیت کی امید زیادہ ہو چاہے اس کے مد مقابل میں کسی بھی پارٹی کا کوئی بھی فردہو۔
حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب مدظلہ العالی کا ایک تازہ بیان جس سے آپ کومعلوم ہو جائیگا کہ اس وقت ہمیں کیا کرناچاہیے اور کس پارٹی کو ووٹ دینا چاہیے، حضرت مولانا کا بیان سننے کیلئے نیچے کی لنک پر کلیک کریں۔


حضرت مولانا ارشد مدنی مدظلہ العالی کا ویڈیو بیان یہاں سے سنیں