Saturday, October 12, 2019

Indian train




ریل نیم: 1

آپ ریل میں اکثر سفر کرتے ہوں گے ؛ لیکن ایسے بہت سے ریل نیم موجود ہیں ، جن کے بارے میں آپ کو شاید ہی معلوم ہوگا۔ ان اصولوں کو جاننے سے ، آپ بہت ساری پریشانیوں سے چھٹکارا پا سکتے ہیں اور اپنے سفر کو آرام سے بنا سکتے ہیں۔ آئیے جانتے ہیں ٹرین کے ان اصولوں کو۔
ٹی ٹی ای کا انتظار
اگر آپ  کسی وجہ سےسفر نہیں کرتے ہیں تو ، ٹی ٹی ای آپ کے سوار ہونے کےاسٹاپ کے بعد دو اسٹاپوں تک کسی کو بھی آپکی سیٹ نہیں دے سکتا ہے۔ نیز ، ٹی ٹی ای کو آپ کا ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اگلے اسٹیشن سے ٹرین بھی پکڑ سکتے ہیں۔
 ٹرین نکلے کے بعد ٹکٹ کی واپسی
اگر آپ کی ٹرین چھوٹ گئی تو آپ کو ٹی ڈی آر (ٹکٹ جمع کروانے کی رسید) درج کرنا پڑے گی اور اس پر بیس فیئر کی 50 ref رقم کی واپسی دی جائے گی۔
برتھ پر کب سو سکتے ہیں
ریلوے قوانین کے مطابق ، کوئی بھی مسافر جس کی درمیانی برت مختص ہے ، قانوناصبح دس بجے سے صبح چھ بجے تک اپنی نشست پر سو سکتا ہے۔ اس کے بعد ، اس کی نشست نیچے رکھنی ہوگی تاکہ دوسرا مسافر نیچے کی برتھ پر بیٹھ سکے۔باقی آپسی مصالحت سے جب بھی بیٹھیں اور سوئیں کو ئی  پوچھنے والانہیں ہے ۔

ٹکٹ گم گیا

(4)اگر آپ کا ٹکٹ کھو گیا ہے ،توآپ سفر سے 24 گھنٹے پہلے بورڈنگ اسٹیشن کے چیف ریزرویشن سپروائزر کے پاس درخواست دے سکتے ہیں ، جس میں ڈپلیکیٹ ٹکٹ جاری کرنے کی درخواست کی جاسکے۔ اس کے بعد جعلی ٹکٹ الاٹ کیے جائیں گے۔جس سے آپ سفر کرسکتے ہیں ،اس کے تقریبا دس فیصد چار لگ سکتا ہے۔
سفر کے دوران سامان کا وزن
زیادہ سامان کے ساتھ سفر کرنا قابل جرمانہ ہو سکتاہے،مثال کے طور پر ، اگر کوئی مسافر 80 کلو وزنی وزن کے ساتھ سلیپر کلاس میں 500 کلومیٹر سفر کررہا ہے ،تو  وہ پارسل وین میں 109 روپے میں 40 کلوگرام کا اضافی سامان بک کراسکتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے اور اسے اضافی سامان کے ساتھ پکڑا جاتا ہے تو اب صرف اضافی 40 کلوگرام کیلئے وہ 654 روپے جرمانہ ادا کرے گا۔اسی طرح ، اے سی فرسٹ کلاس مسافر 70 کلو سامان مفت میں لے جا سکتا ہے،اگراس نےزیادہ 150 کلو گرام سامان لے کر سفر کیا تو اسے 80 کلو اضافی سامان کافیس ادا کرنا ہوگا۔
کون کتنا سامان لے سکتا ہے
مسافر کتنا سامان اپنے کلاس میں رکھ سکتے ہیں:
(1)فسٹ اے سی سے  70 کلو
(2) سیکینڈ اےسیسے 60کلو 
(3)تھری اے سی سے 50 کلو 
(4)سلیپرسے 40 کلو 
(5)جنرل سے 35 کلو 

Monday, April 8, 2019

ووٹ کس کو دیں


حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب مدظلہ العالی کے ویڈیو بیان کا لنک نیچے ہے ۔


مسائل ووٹ


شرعاً ووٹ کی حیثیت فقہاء کرام کی عبارت کی روشنی میں تین قسم کی ہو سکتی ہے(1) شہادت(2) شفاعت(3) وکالت ۔ اگر ووٹ کو شہادت کے درجے مانا جائےاور ووٹر پر کسی ایک امیدوار کی اہلیت اور صداقت ودیانت منکشف ہوجائے،تو پھر اپنے ووٹ کا استعمال اس صاحب کے حق میں واجب ہے۔اور اگرووٹ کو شفاعت ، وکالت کےدرجے میں ماناجائے تو مذکورہ صفات کے حامل امیدوار کے حق میں ووٹنگ امرِ مستحب ہے۔
مسلم خواتین کا بوتھ پر ووٹ دینے جانا

خواتین انتخابات کے موقع پر اپنا حق رائے دہی ( ووٹ ) کا استعمال کرسکتی ہیں بشرطیکہ پردہ اور دیگر امور شرعیہ کا لحاظ وخیال کریں ، ورنہ ارتکابِ معصیت سے ووٹ کا ترک افضل ہے ، حضرت مفتی ٔ اعظم مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عورتوں کا ووٹر بننا ممنوع نہیں ہے ، ہاں ! ووٹ دیتے وقت شرعی پردہ کا لحاظ رکھنا لازم ہوگا ۔  ( کفایت المفتی ج9ص 349۔ وکذا فی فتاویٰ حقانیہ ، ج2ص 213۔)

معتدہ کا ووٹنگ کے لیے نکلنا

جو عورت طلاق یا وفات کی عدت گذار رہی ہے ، اس کے لیے ووٹ ڈالنے کے لیے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے ، کیوں کہ الیکشن میں ووٹ ڈالنا ایسی ضرورت نہیں ہے ، جس کی وجہ سے عدت میں عورت کو نکلنے کی اجازت دی جائے ۔

ووٹ کے بدلے مال لینا

تینوں حیثیتوں(شہادت،شفاعت،وکالت) کے اعتبار سے ووٹ مالِ متقوم نہیں یعنی ایسا مال نہیں ہے جس سے شرعاً نفع اٹھانا ممکن ہو ، جب کہ شرعاً کسی بھی چیز کی خریدو فروخت جائز ہونے کے لیے اس کا مالِ متقوم ہونا ضروری ہے ، اس لیے ووٹ کی خرید وفروخت شرعاًجائز نہیں ہے ۔ نیز رشوت لینے والے پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے :
عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ، وَالْمُرْتَشِيَ فِي الْحُكْمِ "۔(ترمذی،باب مَا جَاءَ فِي الرَّاشِي وَالْمُرْتَشِي فِي الْحُكْمِ، 1336۔)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلے میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے ۔
دوسرے جھوٹی گواہی دینے کا ، کیوں کہ وہ ایک شخص کو نامناسب یا کم مناسب خیال کرنے کے باوجود اس کے حق میں ووٹ کا استعمال کر رہا ہے ، اور جھوٹی گواہی دینے کو رسول اللہ ﷺ نے شرک کا ہم درجہ قرار دیا ہے :
فَقَالَ: عُدِلَتْ شَهَادَةُ الزُّورِ، بِالْإِشْرَاكِ بِاللَّهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ، ثُمَّ قَرَأَ: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ، ( ابوداؤد،باب فِي شَهَادَةِ الزُّورِ،3599۔)
آپ ﷺنے فرمایا:جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دہرایا پھر یہ آیت پڑھی۔۔۔بتوں کی گندگی اور جھوٹی باتوں سے بچتے رہو 147(مستفاد:کتاب الفتاویٰ جلد 6۔)
ووٹ کے بدلے لی ہوئی رقم کا حکم
جب اوپر کے سطور سے معلوم ہوگیا کہ ووٹ کے بدلے رقم لینا رشوت ہے ، جو نص قطعی سے حرام ہے ؛ اسلئےاس کا استعمال اپنی ذات پر یا کسی رفاعی کام میں مثلا:مسجد کی تعمیر ، یا مسجد ، عیدگاہ اور قبرستان کی زمین کی خریدی ، اور ان کی چہار دیواری وغیرہ بنانے میں صرف کرنا شرعاً ناجائز وحرام ہے ۔ 
عورتوں کا ریزرویشن بل سے فائدہ اٹھا کر مخصوص سیٹوں کا انتخاب لڑنا
عورت کا بے پردہ رہنا کسی حال میں جائز نہیں، دوسری طرف اگر خواتین کے لئے مخصوص سیٹوں پر مسلم عورتیں اُمیدوار ہی نہ بنیں ، تو ایسی صورت میں حکومت کی سیٹوں میں مسلم نمائندگی مفقود ہونے کی وجہ سے قومی وملی نقصان کا اندیشہ؛ بلکہ یقین ہے۔ بریں بنا ( اَھون البلیتین )کو اختیار کرتے ہوئے مسلم عورتوں کو شرعی حدود میں رہ کر ایسی سیٹوں میں انتخاب میں حصہ لینے کی گنجائش دی جائے گی، اور اُن پر لازم ہوگا کہ انتخاب سے پہلے اور انتخاب کے بعد ممکن حدتک شرعی پابندیوں کا لحاظ رکھیں، اگر نہیں رکھیں گی تو گنہگار ہوں گی۔ (مستفاد: دعوتِ فکر وعمل ،ص317۔کتاب النوازل ،ج17۔)
الیکشن کے موقع پر لگی ہوئی سیاہی کا حکم
بعض ارباب فتاویٰ نے کہاہےکہ، انگشت پر لگائی جانے والی یہ روشنائی انگلی پر لگے رہنے کی حالت میں وضو وغسل صحیح ہے ، کیوں کہ وہ تہہ دار نہ ہونے کی وجہ سے وضو اور غسل میں بدن تک پانی پہنچنے کو نہیں روکتی ہے،جبکہ خود بند نے تجربہ کیا ہے کہ وہ سیاہی سوکھنے کے بعد ہلکے پنٹ جیسی ہوجاتی ہے جوپانی پہنچنے سے مانع ہوتی ہے ،یہ تومعلوم ہی ہے کہ وضومیں اعضائے وضوکابھیگ جانااورپانی کاہرجگہ پہونچناضروری ہے،مگرالیکشن کی ضرورت کوسامنے رکھتے ہوئے علیٰ الاطلاق منع نہیں کیاجاسکتا،لہٰذاپیشگی احتیاط کے طورپراس انگلی پرکوئی چکنی چیز لگالی جائے یافوری طورپراسے رگڑدیاجائے ،اگرکسی نے ایسانہیں کیااورداغ پڑگیاتوحتیٰ الامکان اس کے چھڑانے کی کوشش کرے ورنہ وضونہیں ہوگا،اوراگررگڑنےسے کھال کے چھلنے اورخون کے بہنے کاظن ِغالب ہوجیساکہ عموماایساہی ہوتاہےتواوپرہی سے پانی کابہالینا کافی ہے۔واللّٰہ أعلم بالصواب (مستفاد:فتاویٰ ریاض العلوم جلد دوم )

ہم کس کو ووٹ دیں ؟

2019 کی لوک سبھا الیکشن میں ووٹ کس کو دیں؟ یقینا اس وقت ہر مسلمان کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اس مرتبہ ووٹ کس کو دیں ؟ 
(1) ایسی سیاسی پارٹی جس کی دفعات و قانون میں اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت شامل نہیں ہے اسے ووٹ دینا چاہیے۔
(2) کسی جگہ دو پارٹی کے امیدوار کھڑے ہوں اور وہ دونوں سیکولر اور جمہوریت پسند ہو تو پھر اندونوں امید وار میں ووٹ اس سیکولر و جمہوریت کے حامل امیدوار کو دے جس کی جیت کی امید زیادہ ہو چاہے اس کے مد مقابل میں کسی بھی پارٹی کا کوئی بھی فردہو۔
حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب مدظلہ العالی کا ایک تازہ بیان جس سے آپ کومعلوم ہو جائیگا کہ اس وقت ہمیں کیا کرناچاہیے اور کس پارٹی کو ووٹ دینا چاہیے، حضرت مولانا کا بیان سننے کیلئے نیچے کی لنک پر کلیک کریں۔


حضرت مولانا ارشد مدنی مدظلہ العالی کا ویڈیو بیان یہاں سے سنیں 

Friday, April 5, 2019

الیکشن اور حال مسلم





الیکشن اور حال مسلم

     ہندوستان میں ایک بار پھر الیکشن کا ہنگامہ گرم ہورہاہےاوریہ ہنگامہ آئے دن گرم ہوتا جارہاہے،بعض مسلمان تو اپنی بے کسی و بےچارگی کا گاناگانے میں لگےہیں تو بعض لوگ مسلمان کہلا کر بھی دوسرے مسلمان کی بد گوئی ایک دوسرے کی عزت و آبرو سے کھیلنے میں مگن ہیں۔اور بعض پڑھے لکھے طبقہ اپنے ہی مسلم سیاست دان اور دانشوران قوم وملت پر فیس بک ،واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا کےذریعہ زہرافشانی کرنے میں لگاہیں ،اور بعض تو الیکشن کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے ہیں ،ممکن ہے ان تمام بیمار کیلئے یہ مختصر مضمون قرآن وحدیث کی روشنی میں درما بنے ۔

ووٹ کی شرعی حیثیت 


شرعاً ووٹ کی حیثیت فقہاء کرام کی عبارت کی روشنی میں تین قسم کی ہو سکتی ہے(1) شہادت(2) شفاعت (سفارش)(3) وکالت ۔گویاکہ جس شخص کو ووٹ دیا جاتا ہے، اس کے حق میں ملک وملت کے خیر خواہ ہونے کی شہادت دی جاتی ہے، اور اس عہدہ کیلئے ایک قسم کی سفارش کرتے ہوئےمتعلقہ امیدوار کو وکیل اور نمائندہ بنایا جاتا ہے۔

الیکشن میں اپنے آپ کو بحیثیت امیدوار پیش کرنا

اسلام میں طلب عہدہ کی ممانعت ہے نبی رحمت ﷺ کا ارشاد عالی ہے :
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ قَالَ لِىَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- 171 يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ لاَ تَسْأَلِ الإِمَارَةَ فَإِنَّكَ إِذَا أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ فِيهَا إِلَى نَفْسِكَ وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا 187 (سنن أبي داؤد ، أبواب الأحکام ، سنن نسائي ، باب النھي عن مسألۃ الإمارۃ ، ) 

آپ ﷺنے فرمایا کہ جب آدمی مطالبہ کے بغیر کسی ذمہ داری پر فائز کیا جاتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی خاص مدد ہوتی ہے ، اور جب مطالبہ اور سوال کے ذریعہ کوئی عہدہ حاصل کرتا ہے تو کاپنے نفس کے حوالہ کردیا جاتا ہے اور اللہ کی مدد اس کی شریک حال نہیں ہوتی ہے ۔

لیکن اگر طلبِ عہدہ کے پیچھے خواہش نفس کا دخل نہ ہو،بلکہ محض انسانیت کا درد،ملک و ملت کے ساتھ مفاداتِ عامہ کے تحفظ کا جذبہ کارفرما ہو، نیز جبر وظلم اور شرور وفتن سےخلق خداکو بچانا مقصود ہو ، اور اس عہدہ ومنصب کے لائق تنہا ایک ہی شخص موزوں ہو، تو اب اس شخص موزوںپرمذکورہ تمام مقاصد کے حصول کے لیے الیکشن میں اپنے آپ کو بحیثیت امیدوار پیش کرنا واجب ہے۔اور رہی بات حدیث بالا کا مطلب تو یہ ہے کہ طلب عہدہ حسب ذیل لوگوں کیلئے ممنوع ہے ۔

(1)جو اس عہدے کا لائق نہ ہو ۔(2) جو محض حض نفس کیلئے عہدہ چاہتاہو۔(3) لائق و فائق جو ملک و ملت کیلئے بہتر ہو اس کو عہدہ سے محروم کرنے کا متمنی ہو وغیرہ وغیرہ۔چنانچہ شامی میں ہے:

أَمَّا إذَا تَعَيَّنَ بِأَنْ لَمْ يَكُنْ أَحَدٌ غَيْرُهُ يَصْلُحُ لِلْقَضَاءِ وَجَبَ عَلَيْهِ الطَّلَبُ صِيَانَةً لِحُقُوقِ الْمُسْلِمِينَ،وَدَفْعًالِظُلْمِ الظَّالِمِينَ (شامی،مَطْلَبُ طَرِيقِ التَّنَقُّلِ عَنْ الْمُجْتَهِدِ،)

جو سیاسی پارٹیاں کھلے طور پر مسلم دشمن ہیں اس پارٹی میں شرکت 

    جو سیاسی پارٹیاں کھلے طور پر اسلام ومسلمان کےدشمن ہیں اور ان کے دفعات و قانون میں اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت شامل ہے، توایسی پارٹی میں شامل ہونے کی گنجائش نہیں ہے، کیوں کہ فرقہ واریت پر مبنی منشور والی پارٹی میں شرکت اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت میں تعاوُن کے مترادف ہے، جو شرعاًحرام و ممنوع ہے۔ کئی دفعہ دیکھا جاتا ہے کہ آدمی اپنی ذاتی مفاد کیلئے اسلام اور مسلمان مخالف پاڑیوں سے ہاتھ ملاکر اسلام و مسلمان کی رسوائی و بربادی میں معاون بن جاتا ہے ،خدا کے واسطے ایسے لوگوں کوڈر نا چاہیے کہ وہ کل قیامت کے دن اللہ و رسول کو کیا منھ دیکھائیگا، اللہ رب العزت کا فرمان ذی شان ہے :{ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان } ۔ ( سورۃ المائدۃ : ۲ ) 

لمحہ فکر


نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستان والو

تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

     اس وقت ہندوستان میں2019،کا لوک سبھا الیکشن ہونے جارہاہے کیا ہی خوب ہوتا کہ تمام مسلمان ایک پلیٹ فارم پر آکر ملک و ملت کیلئے اسی فکر ونظر سے سوچتے جو ہمارے اکابرواسلاف ہمیں ایک جمہوری ملک میں رہنے کے طوروطریق کادرس دیکر گئے تھے ،کیا ہم اپنے اکابرو اسلاف کا درس بھول گئے ہیں؟یا اس وقت جو مسلمانوں کی حالت ہے وہ ہماری نگاہوں کے سامنے نہیں ہے؟ ہم مسلسل کتابوں ،تحریروں ،تقریروں،مناظروں اور ریلیوں کے ذریعہ پوری دینا کویہ پیغام دیتے ہیںکہ اسلام امن و سلامتی کا پیغام دیتا ہے، دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا، دہشت گردی کی مخالفت کرتا ہے، مگر اب تک کسی نے نہ سنااورنہ مانا،نہ یقین کیا، اس کی وجہ یہی ہے کہ جس کی لاٹھی اسی کی پھینس ،ہم الیکش کے موقعہ پر اپنی ذاتی مفاد کے مد نظر قوم و ملت کو گروی رکھکرلاٹھی کسی اور کے ہاتھ میں دیدیتے ہیں اور جب دجالی و فرعونی ہاتھوں کا شکنجہ ہمارے سروں پر آپہونچتا ہے تو ریلیاں،جلسے جلوس اور نہ معلوم کیا کیا نہیں کرنے لگتے ہیں،اگر ہم شروع ہی میں بیدار مغزی سے کام لیں تو پھر ظلم وبربریت کے دن دیکھنے کو نہیں ملیں گے ۔

اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد کم نہیں ہے،ہندوستان پوری دنیاں میں دوسری سب سے زیادہ تعداد والا ملک ہے جہاں پر تقریبا 24کڑور مسلمانوں کی آبادی ہے اگر یہ متحد ہوجائیں تو دنیاں کی بڑی سے بڑی طاقت گھٹنہ ٹیک دے ؛لیکن ہم مال کی بنیاد پر،جاہ وجلال کی بنیاد پر ،مسلک کی بنیاد پر تقسیم ہوکر رہ گئے ،ہمیں گزشتہ لوک سبھا الیکشن سے سبق لینا چاہیے کہ سو سو سیٹوں میں ہماراکوئی مسلم لیڈر چیت کر نہ آسکا اسکی واحد وجہ یہی تھی کہ ایک ایک علاقہ میںدو دو تین تین مسلم لیڈر کھڑے ہوگئے جس کی وجہ سے مسلمانوں کاوؤٹ تقسیم ہوکر رہ گیا اور بازی مسلم مخالف طاقت لے لی، ابھی حال ہی میں ایک علاقہ سے ایک مسلم ساست دان کھڑا ہوا تو دوسری جانب ایک دوسرے مسلم نے دوسری پارٹی سے ٹکٹ لیکرکھڑا ہو گیا اور دونوں امیدوار کی جانب سے ان کے ماننے والے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے میں لگے ہیں اگر یہ صورت حال رہی تو نہ یہ آئیں گے نہ وہ ،جبکہ اس علاقہ کی تاریخ رہی ہے کہ کئی دہائیوں سے مسلم لیڈر ہی جیت کر آتے ہیں۔اسی تناظر میں ہم بے ساختہ کہتے ہیں،،شریک جرم ہم خود بھی تو ہیں!،،

الیکشن میں مسلمانوں کا رول 

یہ سوال سب کے سامنے ہے کہ ہم لوگوں کو کیسی حکومت کی ضرورت ہے ؟ اس کا فیصلہ ہم ووٹنگ بوتھ میں جانے سے پہلے کریں ۔ ہمارے علماء کرام اور قوم وملت کیلئے درد جگررکھنے والے حضرات جس کو کہیں انہی کو کامیاب بنائیں ، ہم لوگ صرف پارٹی اور امید وار کو دیکھ کر اپنا ووٹ ضائع نہ کریں ،ہم انہیں کو ووٹ دیں جس کا منشور مسلم مخالفت پر نہ ہو اور خاص کر وہ پارٹیاں جو اسلام اور مسلمانوں کیلئے آئے دن زہر افشانی کرتی رہتی ہیں چاہےوہ ہمیں جتنا بھی چھوٹے وعدے کریں اگر ہم امیدواروں کے جھوٹے وعدوں کو دیکھ کر انہیں کامیاب کرائیں تودوبارہ الیکشن ہونے تک پچھتاوا ہمارے ساتھ رہے گا ،ساتھ جو حال مسلمانوں کا ہوگا وہ کسی پر مخفی نہیں ہے ۔ اگر کوئی مسلم لیڈرایسی پارٹی کا ساتھ دے جو سیکولر اور جمہوریت کے خلاف کام کرتی ہے تو ایسے مسلم لیڈر کو بھی ووٹ نہ دیا جائے، اس کے مقابلے کوئی غیر مسلم لیڈر جو سیکولر پسند اور جمہوریت کو فروغ دیتاہواور اپنے ذہن و دماغ سے اسلام و مسلمان کے خلاف زہر افشانی نہ کرتاہو تویقینا اس غیر مسلم کا ساتھ دینا چاہیے۔بس آخر میں یہی تمناہےکہ ووٹنگ بوتھ پر جانے سے قبل رہنماؤں سے معلوم کرلیں کہ کس کو ووٹ دیناہے ؟ورنہ ہمارا ووٹ تو ضائع ہوگاہی ساتھ میں غلط پارٹی کو ووٹ دیکر اپنی بربادی کاشریک جرم ہم خود ہوں گے ۔ 

اسی سے ملتے جلتے چند اہم مضامین

حضرت مولانا سجاد نعانی مد ظلہ العالیٰ کا ایک گراں قدر مضمون