Wednesday, June 20, 2018

تہجد



{نما زِتہجد}

نمازتہجد کی احادیث میں بہت خوبیاں بیان کی گئی ہیں اور رسول اللہ  ﷺنے اس کی بہت ترغیب دی ہے اور بعض علما نے نمازِ تہجد کو سنّتِ مؤکدہ کہا ہے،حنفیہ کے نزدیک افضل ترین نفل ہے ،اس لیے خود بھی تہجد کا حتی الوسع اہتمام کرنا چاہیے اور اپنے گھر والوں کو بھی اسکی ترغیب دینی چاہیے۔ رسول اللہ  ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائیں جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھتاہے اور اپنی بیوی کو بھی اٹھاتاہے کہ وہ نماز پڑھے،
{تہجد کے فضائل}
حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے:
’’وَمِنَ اللَّیلِ فَتَہَجَّدْ بِہ نَافِلَۃً لَّکَ، عَسیٰ اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوْداً‘‘۔ (بنی اسرائیل:۹۷)
ترجمہ:۔’’اور رات کے کچھ حصہ میں تہجد پڑھ لیاکرو جو آپ کے حق میں زائد چیز ہے، امیدکہ آپ کا رب آپ کو ’’مقام محمود‘‘ میں جگہ دے‘‘۔
’’مقام محمود‘‘ مقامِ شفاعتِ کبریٰ ہے، جس پر قیامت کے دن فائز ہوکر آپ  ﷺ اپنی امت کی بخشش کرائیں گے۔ (ابن کثیرمکتبہ جبرئیل)
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:
’’إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ، اٰخِذِیْنَ مَآاٰتٰہُمْ رَبُّہُمْ إِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ، کَانُوْا قَلِیْلاً مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ وَبِالأَسْحَارِہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ‘‘۔ (الذاریات5 1تا18)
ترجمہ:۔’’بے شک پرہیزگار بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے اور اپنے رب کی عطا کردہ نعمتیں لے رہے ہوں گے (اس بات پر کہ) بے شک یہ لوگ اس سے پہلے (دنیا میں) نیکو کار تھے، رات کو (تہجد پڑھنے کی وجہ سے) بہت کم سوتے تھے اور اخیر شب میں استغفار کیا کرتے تھے‘‘۔ 
دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ’’اور اللہ کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں اور جب جاہل قسم کے لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ ان سے یہ کہتے ہیں کہ بھئی سلام (معاف کرو)یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے حضور قیام اور سجدہ کرتے ہوئے رات بسر کرتے ہیں‘‘۔(سورہ الفرقان:۳۶) 
مذکورہ بالا ارشادات کی روشنی میں رات کو جس وقت آنکھ کھل جائے، وضو کرکے دورکعت، چار رکعت، چھ رکعت یا آٹھ رکعت جس قدر طاقت اور فرصت ہو، دل کی رغبت ہو، پڑھ لیا جائے، تہجد کا ثواب مل جائے گا، خصوصاً رمضان المبارک میں زیادہ اہتمام جائے،
تہجد کی فضیلت میں بہت سی احادیث ہیں، یہاں چند احادیث کا ترجمہ ذکر کیا جاتا ہے،
آپ  ﷺنے ارشاد فرمایا:
’’ سب روزوں میںافضل رمضان کے بعد محرم کے روزے ہیں جو اللہ کا مہینہ ہے،فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد ہے‘‘۔ (مسلم،باب  صَوْمِ یوم عاشورا 1:358)
حضرت عبد اللہ بن سلام جو تورات کے زبردست عالم تھے، مدینہ منورہ میں حضور اقدس  ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور چہرئہ انور دیکھ کر یقین ہوگیا کہ آپ ﷺاللہ کے سچے رسول ہیں، آپ جھوٹے نہیں ہوسکتے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سب سے پہلا کلام جو آپ ﷺکی زبان مبارک سے سنا، وہ یہ تھا:
’’یا ایہا الناس! افشوا السلام واطعموا الطعام وصلوا الارحام وصلوا باللیل والناس نیام، تدخلوا الجنۃ بسلام‘‘۔ (ترمذی باب فضل اطعام الطعام)
ترجمہ:۔’’اے لوگو! سلام کو پھیلاؤ، لوگوں کو کھانا کھلاؤ، رشتہ داری کو جوڑو اور رات میں تہجد کی نماز پڑھو، جبکہ لوگ سورہے ہوں، تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے‘‘۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اس شخص پر رحم کرتا ہے جو آدھی رات کو اٹھتا ہے اور تہجد کی نماز پڑھتا ہے اور اپنی بیوی کو بھی جگاتا ہے اور وہ بھی نماز پڑھتی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو وہ اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے (پیار سے) پھینکتا ہے اور اللہ اس عورت پر بھی نظر کرم فرماتا ہے جو رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتی ہے اور اپنے خاوند کو بھی تہجد کے لیے جگاتی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو وہ عورت (پیار سے) اپنے خاوند کے منہ پر پانی کے چھینٹے پھینکتی ہے۔‘‘ (ابو داؤد، باب قِيَامِ اللَّيْل) 
آپ  ﷺنے ارشاد فرمایا: 
’’جنت میں ایک محل ہے جس کا اندرونی حصہ باہر سے اور باہر کا حصہ اندر سے نظر آتا ہوگا۔حضرت ابو مالک اشعری نے پوچھا: یہ کس کو ملے گا اے اللہ کے رسول! فرمایا: اس کو جو شیریں کلام ہو اور لوگوں کو کھانا کھلاتا ہو اور نماز تہجد میں کھڑے ہوئے رات گذارتا ہو، جبکہ لوگ سورہے ہوں‘‘۔ (طبرانی،ترمذی، باب مَا جَاءَ فِي صِفَةِ غُرَفِ الْجَنَّةِ) 
ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ  ﷺنے ارشاد فرمایاکہ’’جس شخص کی رات میں نماز (تہجد) زیادہ ہوگی، اس کا چہرہ دن میں زیادہ حسین ہوگا‘‘۔ (ابن ماجہ ،بَابُ: مَا جَاءَ فِي قِيَامِ اللَّیل)
جناب رسول اللہ  ﷺ نے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا کہ:
’’تمہیں تہجد ضرور پڑھنا چاہئے، اس لئے کہ یہ تمہارے سے پہلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمہارے رب سے نزدیک ہونے کا ذریعہ ہے، گناہوں کا کفارہ ہے اور گناہوں سے روکنے والی ہے‘‘۔ (ترمذی باب فِي دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلّمَ)
ایک اور حدیث میں ہے کہ’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ رحم کرے اس آدمی پر جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے، پھر اپنی بیوی کو بیدار کرے، تو وہ (بھی) نماز پڑھے، اگر نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے، اور اللہ رحم کرے اس عورت پر جو رات کو اٹھے اور تہجد پڑھے، پھر اپنے شوہر کو (بھی) بیدار کرے، تو وہ بھی تہجد پڑھے، اور اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے“۔ (نسائی  بَابُ: التَّرْغِيبِ فِي قِيَامِ اللَّيلِ)
ایک اور حدیث میں چند خوش نصیبوں کا ذکر ہے، جن کے تین انعامات ہیں:
(۱)اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے۔
(۲)ان کے سامنے ہنستا ہے۔
(۳)ان سے خوش ہوتا ہے۔
ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس کی خوبصورت بیوی ہو، عمدہ نرم بستر ہو اور وہ ان کو چھوڑ کر رات کو نماز تہجد کے لئے اٹھے، اس کے بارے میں خدا خود فرمائے گا کہ اس نے اپنی خواہش چھوڑ دی اور میرا ذکر کیا، حالانکہ اگر یہ چاہتا تو سوجاتا‘‘۔ (طبرانی)
اسی حدیث کی دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ:
’’اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھے گا: میرے بندے کو اس کام (تہجد پڑھنے) پر کس چیز نے آمادہ کیا؟ فرشتے عرض کریں گے: اے رب! آپ کے پاس کی چیز (جنت ونعمت) کی امید نے اور آپ کے پاس کی چیز (دوزخ وعذاب)کے خوف نے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: تحقیق میں نے ان کو وہ چیز عطا کردی، جس کی امید کی تھی اور اس چیز سے محفوظ کردیا، جس سے وہ ڈرتے تھے‘‘۔ (مسنداحمد)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ سرور کونینﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی مرد رات کو اپنی بیوی کو جگائے اور دونوں نماز تہجد ادا کرلیں تو ان دونوں میاں بیوی کا نام اللہ کی یاد سے خاص تعلق رکھنے والوں میں لکھ دیا جائے گا۔ (ابوداؤد/109)
حضرت ابوامامہ راوی ہیں کہ سرور کونین  ﷺ نے فرمایا ': قیام اللیل (یعنی نماز تہجد پڑھنے کو) ضروری جانو کیونکہ (اول تو) یہ طریقہ تم سے پہلے کے نیک لوگوں کا ہے اور پھر مزید یہ کہ) قیام لیل تمہارے لئے پروردگار کی نزدیکی اور گناہوں کے دور ہونے کا سبب ہے، نیز یہ کہ تمہیں گناہوں سے باز رکھنے والا ہے۔'' (جامع ترمذی، باب فِي دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلّم)
حضرت عبد اللہ بن سلام کہتے ہیں کہ: تورات میں لکھا ہے کہ:
’’جن لوگوں کے پہلو خوابگاہوں سے جدا رہتے ہیں، ان کے لئے خدانے ایسی نعمتیں تیار کررکھی ہیں، جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا،نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی آدمی کے دل پر اس کا خیال گذرا، ان نعمتوں کو مقرب فرشتے اور نبی مرسل بھی نہیں جانتے‘‘۔ (حاکم)
{تہجد کے وقت اٹھنے کے طبی فوائد }
رات کی آخری گھڑیوں میں اٹھ کر تہجد ادا کرنے سے ویسے تو وہ تمام میڈیکل فوائد حاصل ہوتے ہیں جو ہر نماز سے حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً جسم کے پٹھوں اور جوڑوں کی ورزش، سجدہ کی وجہ سے چہرے کے مساموں (Tissues)میں خون کی مزید گردش، انسان کے Sinusesمیں جمع شدہ بلغم کا اخراج، رات کو تنفس (Breathing)کی رفتار آہستہ ہونے کی وجہ سے پھیپھڑوں کے مکمل طور پر کھل نہ سکنے کی وجہ سے جو ایک تہائی ہوا (Residual Air)جمع ہوتی ہے اسے بھی پھیپھڑوں سے نکلنے اور داخل ہونے کا موقع مل جاتا ہے سجدے کی حالت میں دماغ کو زائد خون پہنچتا ہے جو اس کی نشوو نما کے لیے اہم کر دیتا ہے اس کے علاوہ سحر خیزی کے مزید بے شمار فوائد ہیں جو نمازِ تہجد کے اٹھنے کے ساتھ مخصوص ہیں۔ حضرت سلمان الفارسی(رضی اللہ عنہ) رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)سے حدیث روایت کرتے ہیں۔ ’’تہجد کے وقت اٹھ کر نماز پڑھنے کی عادت بنا لو کیونکہ تم سے پہلی قوموں کے صالح لوگوں کی یہ عادت تھی، یہ تمہیں خدا سے قریب کرتی ہے، تمہارے گناہوں کا کفارہ ہے، تمہارے گناہوں کو مٹاتی ہے اور جسم سے بیماری کو دور کرتی ہے‘‘۔(فقہ السنہ ازسید الثاقب)
 صحیح حدیث میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا: ’’بورک لامتی فی بکورہٖ‘‘۔(الحدیث)’’میری امت کے لیے صبح اٹھنے میں برکت رکھی گئی ہے‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ تہجد کے وقت اٹھنا جسم میں بیماریوں کو دور کرتا ہے صبح جلدی بیدار ہونے سے جسم میں جمع شدہ فضلا ت (پیشاب و پاخانہ وغیرہ) کو جسم سے جلدی نکلنے کا موقع مل جاتا ہے جو کہ بصورتِ دیگر جسم میں رہ کر فساد پیدا کرتے ہیں اور گردوں پر زائد بوجھ پڑتا ہے اس کے علاوہ آکسیجن سے بھر پور صبح کی تازہ ہوا میں سانس لینے سے پھیپھڑوں اور دماغ کو تقویت ملتی ہے امریکہ کے نامور مفکر، سیاستدان او رسائنسدان بینجمن فریکلن (Benjamin Franklin)۔(المتوفی:۱۷۹۰ئ) نے سحر خیزی کے انہی فوائد کے پیشِ نظر اپنی کتاب (Poor Richards Almand)میں یہ قول زریں رقم کیا تھا۔
 (Early To Bed And Early To Rises. Makes The Man Healthy, Wealthy and wire) ’’رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا انسان کو صحت مند، مالدار اور عقلمند بناتا ہے‘‘۔ 

مزید مضامین کیلئے نیچے کے لنک پر جائیں


ہندوستان کے سلگتے مسائل                  

(۱)سول کوڈ                                                   برما کے مظلوم مسلمان


(۲)یکساں سول کوڈ                                           تین طلاق اور ہندوستان کی عدالت


Friday, May 4, 2018

فرائض وسنن نمازیں

فرائض وسنن نمازیں ایک نظر میں
فرض نمازیں:
پانچ وقتوں میں کل سترہ رکعتیں فرض ہیں ، فجر کی دو رکعتیں ، ظہر کی چار رکعتیں،عصرکی چار رکعتیں،مغرب کی تین رکعتیں ،ا ور عشاء کی چار رکعتیں ۔
واجب نمازیں:
چار نمازیں واجب ہیں،وتر میں تین رکعت ،عید الاضحی میں دورکعت،عید الفطر میں دورکعت،نذر نمازیں،طواف کے بعد دورکعت اور اس نفل کا پڑھنا بھی دوبارہ واجب ہے جس کی نیت باندھ کر توڑ دیاگیاہو۔
سنت مؤکدہ کی تعداد:
پانچوں وقت کی نمازوں میں کل بارہ رکعت سنت مؤکدہ ہیں ، دو رکعت فجر کی ، ظہر  میں چھ رکعت ، چار رکعت فرض سے پہلے اوردو رکعت فرض کے بعد،دو رکعت مغرب کے فرض کے بعد اور دو رکعت عشاء کے فرض کے بعدپڑھنا سنت مؤکدہ ہے ۔ جمعہ کےدن نماز جمعہ سے پہلے چار رکعت اور نماز جمعہ کے بعد چار رکعت اوررمضان المبارک میں 20رکعت تراویح پڑھنا بھی سنت مؤکدہ ہے ۔
فرائض کے وقت سنن غیر مؤکدہ:
عصر کے وقت فرض سے پہلے چار رکعت اور عشاء کے وقت فرض سے پہلے چار رکعت پڑھنا سنت غیر مؤکدہ ہے ۔ جمعہ کی نمازاوراسکی چار رکعت سنت مؤکدہ کےبعدمزیددو رکعت سنت غیر مؤکدہ ہے۔
نفل ومستحب نمازیں:
ظہر کے وقت فرض وسنن کے بعد دورکعت،مغرب کے وقت فرض  وسنن کے بعد دورکعت،عشاء کے وقت فرض وسنن کےبعددورکعت اور وتر کے بعد دو رکعت،جمعہ کے وقت فرض  وسنن کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا نفل ہے۔
نماز تہجد،تحیۃ المسجد،تحیۃ الوضو،نماز استخارہ،نماز حاجت ،نماز اوابین،صلوٰۃ التسبیح، نماز کسوف،نماز خسوف، نماز استسقا،نمازسفر،نمازواپسی سفر،نماز احرام،نماز توبہ،نماز قتل یہ تمام نمازیں نفل ومستحب کے درجہ میںہیں۔
چند بدعت نمازیں:
صلاۃ الرغائب، ہزاروی نماز،ام داؤد کی نماز،نماز مدد،رجبی نماز، ستائسویں رجب کی نماز،نماز سلمان،نمازغوثیہ،نمازحفظ الایمان یہ تمام نمازیں غیرمنقول اور بدعت ہیں۔


مزید مضامین کیلئے نیچے کے لنک پر جائیں


(1)موبائل کے فائدے                                           (2) موبائل کے نقصانات(3)موبائل پر بات کرنے کے آداب ومسائل                   (4)حرمت آواز وساز(5)موبائل کا رنگ ٹون                                         (6)فلم اور ویڈیو دیکھنا(7)ویڈیو گرافی اور تصویر کشی                                   (8)مس کال(9)سیم کارڈ                                                      (9)بیلنس اور ریچارج (10)واٹساپWhatsapp                                     () ایس ایم ایس(12) موبائل                                                     (13)میموری کارڈ کے مسائل

ہندوستان کے سلگتے مسائل                  

(۱)سول کوڈ                                                   برما کے مظلوم مسلمان

(۲)یکساں سول کوڈ                                           تین طلاق اور ہندوستان کی عدالت

Friday, November 24, 2017

کافر کے نیک اعمال


بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال :اللہ اچھے اور نیک غیر مسلموں کے ساتھ آخرت میں کیا سلوک کریگا؟ کیا انکے اعمال اخروی اعتبار سےکچھ فائدہ ہونگے؟
جواب وباللہ التوفیق:سوال مذکورہ میں کافروں  کےاچھے اعمال مثلا:  لوگوں کیلئے پانی کاانتظام کردینا یا غریبوں کو کھانا کھلانا وغیرہ وغیرہ کا ثمرہ  کچھ ملے گا یا نہیں ۔
یہ وہ سوال ہے جو ہم میں سے اکثر لوگ کرتے ہیں ،اس سوال کا بے تحقیق اور قرآن و آحادیث کے خلاف ایک جواب تو وہی ہےجس کوعموماًوہی لوگ دیتے رہتے ہیں جوکفر والحادکی آغوش میں رہتے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں داخل کریگا کیونکہ اللہ ستر ماؤں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، وہ عادل ہے ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ جوابات عموما ایسے لوگوں کی طرف سے آتا ہے، جن کے غیر مسلموں کے ساتھ ”اچھے تعلقات“ ہوتے ہیں۔ اُن کی زندگی کے اکثراوقات ”غیر مسلموں“ کے ساتھ گزرتے ہیں۔ اور ان کے بہت سے دنیوی ”مفادات“ انہی ”اچھے غیر مسلموں“ کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔جو مذہب اسلام کےجزئی وکلی تمام مسائل کو اپنی ناقص عقل کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتے ہیں،جس کے نتیجہ میں وہ شریعت اسلامیہ سے دور ہوتے ہوتے بعض دفعہ ایما ن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھ تے ہیں ،
بس امت  کے سامنے مسئلہ مذکور میں راہ حق واضح ہوجائے اسی مقصد کے پیش نظر حضرت مولانا ضیاء الحق صاحب صدیقی ،مہتمم مدرسہ عربیہ قاسم العلوم چند گڑھ کے ایماء وحکم پر عاجز نے بڑے ہی عجلت میں وافی وشافی عبارتوں کو دلائل نقلی  اورعقلی کےساتھ مزین کرتے ہوئےسپرد  قرطاس کیا ہے ،اللہ تعالیٰ اسے ذریعہ بناکر کفر والحاد کی گھٹابادلوں کو صاف و شفاف فرمادے آمین۔

(دلائل نقلیہ)

سب سے پہلے یہ ذہن میں رہنی چاہیے  کہ اعمال کی قبولیت کا معیار ایمان پر ہے جس کے زندگی میں ایمان ہوگا وہ کوئی بھی  خیر کریں اللہ تعالیٰ انکے عمل  قبول کرلیتے ہیں ،اورکفر وشرک کے ساتھ کتناہی اچھا عمل کرے اللہ  کے نزدیک مقبول نہیں ہوتاہے۔
”وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَ (سورة آل عمران، رقم الآیة: ۸۵)
جو شخص اسلام کے علاوہ اور کوئی دین کی اتباع کیا تو اللہ تعالیٰ ہرگزاسے قبول نہیں کریں گے ،اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہیں (یعنی جہنم میں جائیں گے )
حضرت عائشہ نے ایک مرتبہ پیارے نبی ﷺ سے اسی قسم کا ایک سوال کیا اور آپ ﷺ نے یہی جواب ارشاد فرمایا :
 عن عائشة قالت: قلت یا رسول اللہ ابن جدعان کان فی الجاہلیة یصل الرحم ویطعم المساکین فہل ذلک نافعة؟ قال لا ینفعہ إنہ لم یقل یوما رب اغفر خطیئتي یوم الدین(مسلم کتاب الایمان)
ترجمہ:حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول  ﷺ ابن جدعان جو زمانہ جاہلیت میں صلہ رحمہ کرتاتھا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا،تو کیا اسے یہ اعمال فائدہ دیگا؟  آپ ﷺ نے فرمایا: اس کو نفع نہیں دیگا کیونکہ اس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ائے میرے رب قیامت کے دن میرے گناہ کو بخش دے،
امام نووی ؒ اس حدیث کی شرح فرماتے ہیں،
لکونہ کافرا وھو معنیٰ قولہ ﷺ لم یقل رب اغفر لی خطیئتی یوم الدین۔۔۔۔۔ وقال القاضی عیاض وقد انعقد الاجماع علی ان الکفار لاتنفعھم اعمالھم ولایثابون علیھا بنعیم ولا تخفیف عذابا لکن بعضھم اشد عذابا من بعض بحسب جرائھم(نووی علی مسلم )
امام نووی ؒفرماتے ہیں کہ اس (جدعان ) کے کافر ہونے کی وجہ سے(انکے اعمال) کوئی فائدہ نہیں دیگا یہی مطلب ہے پیارے نبی ﷺ کا قول کا لم یقل رب اغفر لی خطیئتی یوم الدین "قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ : "اس بات پر اجماع ہوچکا ہے کہ کفار کو انکے اعمال فائدہ نہیں دینگے، اور نہ ہی ان اعمال پر انہیں کسی قسم کا ثواب ملے گا، اور نہ ہی انکی وجہ سے عذاب میں کمی کی جائےگی، اگرچہ کچھ کفار کو دیگر کفار کی بہ نسبت کم یا زیادہ عذاب ملے گا،"
تاہم بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی کافر اچھے اعمال کریں تو اللہ تعالیٰ اس کار خیر کابدلہ دنیاں ہی میں کسی نہ کسی شکل میں دیدیتے ہیں تاکہ باری تعالیٰ پر ظلم وغیرہ کی کوئی نافہم نسبت نہ کردے۔چنانچہ حکیم بن حزام نے ایک مرتبہ نبی ﷺ دریافت کیاکہ اے اللہ کے رسول ﷺ ہم  زمانے جاہلیت یعنی کفر کی حالت میں بہت سارے کار خیر کئے ہیں ان اعمال کا کیا ہوگا آپ ﷺ نے فرمایا: أسلمت علی ما أسلفت یعنی انہیں اعمال خیر کی وجہ سے اللہ نے تجھے ایمان کی توفیق دی ہے  ۔
محمد بن جریرطبری رحمہ اللہ کہتے ہیں
مَن عمل عملا صالحًا في غير تقوى - يعني : من أهل الشرك - أُعطي على ذلك أجراً في الدنيا : يصل رحمًا ، يعطي سائلا يرحم مضطرًّا في نحو هذا من أعمال البرّ ، يعجل الله له ثواب عمله في الدنيا ، ويُوسِّع عليه في المعيشة والرزق ، ويقرُّ عينه فيما خَوَّله ، ويدفع عنه من مكاره الدنيا ، في نحو هذا ، وليس له في الآخرة من نصيب . " تفسير الطبري "
"اگر اہل شرک میں سے کوئی شخص نیکی کرے تو اسے دنیا ہی میں اجر دے دیا جاتا ہے، مثلاً : صلہ رحمی کرے، سائل کو دے ، یا کسی لاچار پر ترس کھائے، یا اسی طرح کے دیگر اچھے کام کرے،تو اللہ تعالی اسکے عمل کا ثواب دنیا ہی میں دے دیتا ہے، اور اس عمل کے بدلے میں معیشت، اور رزق میں فراخی ڈال دیتا ہے، اسکی آنکھوں کو نم نہیں ہونے دیتا، اور دنیاوی تکالیف دور کردیتا ہے،وغیرہ وغیرہ، جبکہ آخرت میں اسکے لئے کچھ نہیں ہے(تفسیرطبری 15: 265)
 وَمَنْ كَفَرَ فَلَا يَحْزُنْكَ كُفْرُهٝ ۚ اِلَيْنَا مَرْجِعُـهُـمْ فَنُنَبِّئُـهُـمْ بِمَا عَمِلُوْا ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلِيْـمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (23) نُمَتِّعُهُـمْ قَلِيْلًا ثُـمَّ نَضْطَرُّهُـمْ اِلٰى عَذَابٍ غَلِيْظٍ (24)
اور جس نے کفر کیا پس تو اس کے انکار سے غم نہ کھا، انہیں ہمارے پاس آنا ہے پھر ہم انہیں بتا دیں گے کہ انہوں نے کیا کیا ہے، بے شک اللہ دلوں کے راز جانتا ہے۔ہم انہیں تھوڑا سا دنیوی زندگی عیش میں دے رہے ہیں پھر ہم انہیں سخت عذاب کی طرف گھسیٹ کر لے جائیں گے۔
ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الانعام88)

یہ اللہ کی ہدایت ہے اپنے بندوں میں جسے چاہے اس پر چلاتا ہے، اور اگر یہ لوگ بھی شرک کرتے تو البتہ سب کچھ ضائع ہو جاتا جو کچھ انہوں نے کیا تھا۔
اس آیت کریمہ میں کہا گیا ہے کہ اگر اوپر کے مذکور انبیا ءبھی شرک کریں تو ان کے نیک اعمال سب کے سب بیکار ہوجاتے جب اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان انبیاء کرام کے متعلق ہیں تو پھر عام آدمی اگر شرک کریں تو انکے اعمال خیر کا کیا حال ہو گا اس آیت سے بخوبی سمجھاجارہاہے
تفسیر طبری میں ہے
لبطل فذهب عنهم أجر أعمالهم التي كانوا يعملون ، لأن الله لا يقبل مع الشرك به عملا (تفسير الطبري).
حضرت انس  بن مالک کی حدیث جس کو امام مسلم نے نقل کیا ہے اسمیں مکمل صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ کافروں کو دنیاہی میں بدلا دیدیاجاتاہے
عن أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ : قَالَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ الْكَافِرَ إِذَا عَمِلَ حَسَنَةً أُطْعِمَ بِهَا طُعْمَةً مِنْ الدُّنْيَا ، وَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَإِنَّ اللَّهَ يَدَّخِرُ لَهُ حَسَنَاتِهِ فِي الْآخِرَةِ ، وَيُعْقِبُهُ رِزْقًا فِي الدُّنْيَا عَلَى طَاعَتِهِ (مسلم حدیث نمبر 2808)
  انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک جب کافر کوئی بھی نیکی کا عمل کرتاہے تو اسے دنیا کی نعمتیں عطا کردی جاتی ہیں، جبکہ مؤمن کیلئے اسکی نیکیاں آخرت کیلئے بھی ذخیرہ کی جاتی ہیں، اور دنیا میں اطاعت گزاری کی وجہ سے اسے رزق بھی عنایت کیا جاتاہے۔
اوردوسری روایت میں ہے
عن قتادة عن أنس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله لا يظلم مؤمنا حسنة يعطى بها في الدنيا ويجزى بها في الآخرة وأما الكافر فيطعم بحسنات ما عمل بها لله في الدنيا حتى إذا أفضى إلى الآخرة لم تكن له حسنة يجزى بها (صحيح مسلم   » كتاب صفة القيامة والجنة والنار   » باب جزاء المؤمن بحسناته في الدنيا والآخرة وتعجيل حسنات الكافر في الدنيا)
اللہ تعالی کسی مؤمن کی ایک نیکی کوبھی کم نہیں کریگا اور اسکے بدلے میں دنیا میں بھی دیگا اور آخرت میں اسکی جزا عنائت کریگا، جبکہ کافر کو دنیا ہی میں اسکی نیکیوں کے بدلے کھلا پلا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ جب آخرت میں پہنچے گا تو اسکے لئے کوئی نیکی باقی نہیں ہوگی جس پر اسے جزا بھی دی جائے ۔
جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے ہر اردے میں مختارکل ہیں اسی طرح ان کفاروں کو دنیا میں بدلہ  دینابھی انکی مشیت پر موقوف ہےاللہ تعالی نے یہ صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں فرمایا ہے:  مَّن كَانَ يُرِيدُ العاجلة عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَآءُ لِمَن نُّرِيدُ (الإسراء/18)
شارحین احادیث کی عبارتوں سے معلوم ہوتاہے کہ اعمال انسانی دوطرح کے ہیں (1) وہ اعمال خیر جس میں نیت شرط نہیں ہے مثلا،صلہ رحمی ،غریب کی مدد اور بھوکے کو کھانا کھلانا وغیرہ،اگر کافروں نے  ان جیسے اعمال خیر کئے ہیں تو اس کابدلہ کسی نہ کسی حیثیت سے اللہ تعالیٰ اپنی مشیت وچاہت سے دنیاہی میں عطا کردیتے ہیں ،اور جن اعمال میں نیت کےشرط ہے ان میں پھر کافروں کوکچھ نہیں ملتا ہے کیونکہ وہ عمل نیت شرط ہونے کی وجہ سے ناقص ہوگیا،
امام نوی ؒ فرماتے ہیں:
وصرَّح في هذا الحديث بأن يطعم في الدنيا بما عمله من الحسنات أي : بما فعله متقرباً به إلى الله تعالى مما لا يفتقر صحته إلى النية ، كصلة الرحم ، والصدقة ، والعتق ، والضيافة ، وتسهيل الخيرات ، ونحوها ( شرح مسلم ) .
اس حدیث میں وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ اسے دنیا ہی میں اسکی نیکیوں کے بدلے میں کھلا پلا دیا جاتا ہے، یعنی: وہ کام جو اس نے اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے کئے، اور انکی درستگی کیلئے نیت کرنے کی ضرورت نہیں، جیسے : صلہ رحمی، صدقہ، غلام آزاد کرنا، ضیافت کرنا، اور دیگر خیرات وغیرہ کرنا
وأما ما كان من أعمال الدين وتشترط فيه نية التقرب ، كالحج والعمرة والدعاء ، فهذا لا يؤجر عليه الكافر في الدنيا ولا في الآخرة ؛ لكونه باطلاً ، لتخلف شروط قبوله وهي : الإسلام والإخلاص والمتابعة ، ثم إن الكفر يحبط الأعمال فلا يستفيد منها صاحبها يوم القيامة شيئا(شرح مسلم)
اوپر کی تمام قرآنی آیتیں اوراحادیث مبارکہ نیز ائمہ تفاسیر نیز شارحین احادیث کی عباروں سے معلوم ہو اکہ اگر کوئی کافر اچھاکام کرتاہے ؛تو اللہ تعالیٰ اپنے  صفت عدل کی وجہ سے انکو دنیا ہی میں بدلہ عنایت فرمادیتے ہیں ، کافر اگر متعصب یا مغرور نہ ہو اور اس کی کوئی نیکی، کوئی ایک ادا رب تعالیٰ کو پسند آ جائے تو اسے بلا کسی ظاہری سبب کے بھی ایمان کی توفیق دے دیتے ہیں۔ پھر یہ ایمان کبھی تو ظاہر ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک صحابی رسول نے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے ایام جاہلیت میں 300 بچیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا تو میری اس نیکی کا اجر مجھے کیا ملے گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس کا مفہوم ہے کہ تمہیں اسی کار خیرکے بدلے اسلام لانے کی توفیق دی گئی، نیزاسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے نیک دل غیر مسلموں کے ایمان کی کسی کو خبر نہ ہو۔ یا تو اس وجہ سے کہ انہیں موت سے قبل ہی ایمان لانے کی توفیق ملی ہو، جس پر بندہ اور اس کا رب ہی واقف ہوں،اس طرح یہ بھی ایمان والوں کی  صف میں قیامت میں کھڑا ہوجائیگا،اگر اس موقعہ پر ایک حدیث رسول کا مفہوم بھی ذہن میں رکھ لیاجائے تو انشاء اللہ مضمون سمجھنے میں کسی قسم کی الجھن نہیں ہو گی ،آپ ﷺ نے فرمایا کہ حشر کے دن بہت سے ایسے لوگ جو ساری زندگی کفر میں گزار کر مرے ہوں، مسلمانوں کی صف میں نظر آئیں گے اور بہت سے نام کے مسلمان  کافروں کی صف میں نظر آئیں گے۔
اب اخیر میں ہم دارالعلوم دیوبند کا ایک جوابی فتویٰ بھی نقل کر دیتے ہیں جس میں اسی قسم کا ایک سوال کیا گیا ہے اور ارباب فتاویٰ نے وہی جواب دیا ہے جس کو عاجز نے اوپر رقم کیا ہے ۔

فتویٰ دارالعلوم دیوبند

اسی نوعیت کا سوال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ایک رشتہ دار سے متعلق جن کی موت کفر پر ہوئی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا کہ یا رسول اللہ زمانہٴ جاہلیت میں (یعنی بحالت کفر) انہوں نے بہت سارے نیک کام کئے تھے کہ وہ فقراء کو کھانا کھلاتے تھے اور صلہ رحمی کرتے تھے وغیرہ تو کیا ان کے یہ نیک اعمال کل قیامت کے دن انھیں فائدہ دیں گے۔ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں ان کے نیک اعمال قیامت کے دن انھیں کچھ نفع نہ دیں گے، کیونکہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے کبھی دعا نہیں کی تھی کہ اے پروردگار قیامت کے دن میری مغفرت فرما یعنی وہ بعث بعد الموت (آخرت) پر ایمان نہیں رکھتے تھے، اور قرآن باک میں ہے کہ جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو طلب کرے گا تو ہرگز اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں تباہ کاروں میں ہوگا ”وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَ (سورة آل عمران، رقم الآیة: ۸۵) 
عن عائشة قالت: قلت یا رسول اللہ ابن جوعان کان فی الجاہلیة یصل الرحم ویطعم المساکین فہل ذلک نافعة؟ قال لا ینفعہ إنہ لم یقل یوما رب اغفر خطیئتي یوم الدین قال الشارح: أي لم یکن مصدقا بالبعث ومن لم یصدق بہ کافر ولا ینفعہ عمل (فتح الملہم شرح مسلم- تتمة کتاب الإیمان- باب الدلیل علی أن من مات علی الکفر لا ینفعہ عمل ۲/۲۵۷/ ط اشرفی)مذکورہ آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی نیک عمل کی مقبولیت کے لیے ”ایمان“ کا ہونا اولین شرط ہے، اللہ تعالیٰ پر، پیغمبروں پر، کتاب اللہ پر اور قیامت کے دن وغیرہ پر ایمان لائے بغیر انسان خواہ کتنے ہی نیک اعمال کرلے اور کتنی بھی عبادت کرلے آخرت میں ان کا کوئی فائدہ حاصل ہوگا اور نہ ہی کوئی صلہ ملے گا بلکہ وہ خسارہ میں ہوگا، کیونکہ اعمالِ صالحہ کی مثال جسم کی طرح ہے اور ایمان کی مثال روح کی طرح ہے جس طرح روح کے بغیر جسم بے کار ہے، اسی طرح ایمان کے بغیر اعمالِ صالحہ بے سود ہے، آخرت میں کچھ کام نہ دیں گے،
 عن أبي ہریرة قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: تجیء الأعمال یوم القیامة، -إلی أن قال- ثم یجیء الإسلام، فیقول: یا رب، أنت السلام، وأنا الإسلام، فیقول اللہ تعالی: إنک علی خیر، بک الیوم آخذ، وبک أعطی، قال اللہ تعالی: وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دِینًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَ (تفسیر ابن کثیر، سورة آل عمران: ۲/۲۶/ زکریا دیوبند)
 البتہ ایسے کفار جو دنیا میں نیک کام کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں کسی نہ کسی شکل میں عطا کردیتے ہیں جیسے کہ بسا اوقات ان کے نیک کاموں کے صلہ میں انھیں ایمان کی توفیق عطا فرمادیتے ہیں اور کبھی تو دنیا میں ان کے نیک اعمال کے عوض لوگوں میں ان کا ذکر خیر عام کردیتے ہیں کہ لوگوں میں ان کے حسنِ کارکردگی کا چرچا عام ہوجاتا ہے اور کبھی ان کی روزی میں فراخی اور کشادگی پیدا کرتے ہیں۔
 قال في فتح الملہم تحت حدیث حکیم ابن حزام أسلمت علی ما أسلفت: قال المازري: إن الکافر لا یصح منہ التقرب فلا یثاب علی طاعتہ لأن من شرط المتقرب أن یکون عارفا لمن یتقرب إلیہ والکافر لیس کذلک، فالعلماء حملوا ہذا الحدیث علی وجوہ منہا إنک اکتسبت بذلک ثناء جمیلاً فہو باق لک في الإسلام أ إنک ببرکة فعل الخیر ہدیت إلی الإسلام لأن المبادی عنوان الغایات أو إنک بتلک الأفعال رزقت الرزق الواسع (فتح الملہم، تتمة کتاب الإیمان، باب حکم عمل الکافر إذا أسلم بعدہ: ۲/۸۷/ اشرفی دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند

(دلائل عقلیہ)

(1)مذہب اسلام میں ایمان کی حیثیت ایساہی جیساکہ انسان کیلئےروح کہ روح کے بغیر انسان کےپاس تمام اعظا ہوتے ہیں ،لیکن یہ اعضا رہتے ہوئے بھی انسان کیلئے کوئی فائدہ مند نہیں ہوتا ہے اسی طرح ایمان کے بغیر انسان کےاچھے اعمال کاوجود تو ہوسکتاہے لیکن وہ اعمال انسان کیلئے اخروی اعتبار سے کوئی فائدہ مند نہیں ہوتا ،
(2) دنیاکی حکومت نے بھی اپنا بنیادی قانون بنارکھا ہے ، اگر کوئی شخص اس بنیادی کلی قانون کا انکار کردے اور ساتھ ہی حکومت کے بہت سے دوسرے جزوی قانون کو مان لے تو اس شخص کے قانون کلی کے انکار کرنے کی وجہ سےحکومت اسے مجرم قرار دیتی ہے اور اسکے جزوی قانون ماننے کا کوئی فائدہ تودرکنار حکومت اسکی جانب التفات بھی نہیں کرتی  اور اسے مجرم گردانتی ہے،بس احکم الحاکمین کے یہاں بھی ضابطہ ہےکہ جوشخص اسکے قانون کلی (ایمان ) کا اقرار نہیں کریگا تو اس کااللہ کے قانون جزئی (اعمال خیر)پر عمل کرنا فائدہ مند نہیں ہوگالیکن چونکہ اللہ تعالیٰ تمام عادلوں کا عادل ہے اسلئے اس کے عمل خیر کو باالکلیہ کاالعدم نہ قرار دیتے ہوئے دنیوی اعتبار سے کچھ نہ کچھ مفید بنا دیتاہے ۔
(3)کیوں نہ ہم موجودہ حکومت کے بنے ہوئے قانوں ہی کی روشنی میں اس مسئلہ کو سمجھ لیں ،حکومت ہند کے آئین میں بہت سے کام ایسے ہیں جن کیلئے قانون بنے ہوئے ہیں مثلا: پاسپورٹ (Passport) ہی کو لے لیں اگر کسی کو بنانا ہو تو انہیں برتھ سرٹیفکٹ (Burth Certificate )الکشن کارڈ(Auction card)راشن کارڈ(Ration card )آدھارکارڈ(Base card)وغیرہ وغیرہ جمع کرناپر تا ہے اور ان کاغذوںمیں سب سے اہم اور Important برتھ سرٹیفکٹ ہے اب اگر کوئی شخص سارے کاغذات جمع کردیں اور صرف Burth Certificate جمع نہ کریں تو ان سے یہ کہکر واپس کردیا جاتا ہے کہ آپ نے اصلی کاغذ ہی نہیں لا یاہے ،اس لئے آپکا کام نہیں ہوگا ،جب تک Burth Certificate لیکرنہ آئیں،گویا صرف ایک کاغذنہ رہنے پر سارے کاغذات بیکا رہوگئے ٹھیک اسی طرح جنت کا پاسپورٹ حاصل کرنے کے لیئے ایمان  کی ضروت ہے اب اگر کسی نے ایمان کی سرٹیفکٹ  عند اللہ نہ پیش کی تو اس کے دوسرے کاغذات (اعمال وغیرہ) جہنم سے نہیں بچا سکتی ہے ،لیکن اللہ تعالیٰ چونکہ رحیم وکریم ہیں اور عادل ،و قدر دان ہیں اس لئے اس کے اعمال کا بدلہ کسی نہ کسی شکل میں دنیا ہی میں عنایت فرمادیں گے۔
خلاصہ کلام:نیک اور اچھے کافروں کا بدلہ دنیا میں ہی کسی نہ کسی طرح دیدیاجاتاہے ،یا اسی کار خیرکے بدلے اللہ تعالیٰ کبھی اسےاسلام کی توفیق دیدیتے ہیں اور اس طرح وہ ایمان والا ہوکر جنت کے مستحق بن جاتے ہیں ۔
فقط واللہ اعلم باالصواب

مزید مضامین کیلئے نیچے کے لنک پر جائیں


(1)موبائل کے فائدے                                           (2) موبائل کے نقصانات
(5)موبائل کا رنگ ٹون                                         (6)فلم اور ویڈیو دیکھنا
(7)ویڈیو گرافی اور تصویر کشی                              (8)مس کال
(9)سیم کارڈ                                                      (9)بیلنس اور ریچارج 
(10)واٹساپWhatsapp                                              () ایس ایم ایس
(12) موبائل                                                             (13)میموری کارڈ کے مسائل
ہندوستان کے سلگتے مسائل                   ہندوستان کے نئے مسائل
(۱)سول کوڈ                                                   برما کے مظلوم مسلمان
(۲)یکساں سول کوڈ                                           تین طلاق اور ہندوستان کی عدالت