Friday, November 24, 2017

کافر جہنم میں ہمیشہ کیوں رہے گا



سوال : آج کل جدید تعلیم یافتہ کی جانب سے اکثر وبیشتر یہ عقلی بے بنیادسوال کیا جاتا ہے کہ کافروں کو جہنم میں سزا ہمیشہ ہمیش کیوں دی جائیگی جبکہ اس نے جرم وقت محدود میں کیا ہے تو سزا بھی محدود وقت ہی میں ہونی چاہیے؟
جواب:اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ جہنم نہ فنا ہو گی اور نہ ہی ختم ، اور جہنم سے صرف توحید پرست گناہ گار لوگ ہی  اللہ کے حکم سے باہر  نکلیں گے ، جبکہ کافر اور بے ایمان لوگ  اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔:
 قال الطحاوي: والجنة والنار مخلوقتان، لا تفنيان ولاتبيدان .(عقیدۃ الطحاوی)اور جنت وجہنم اللہ کی مخلوق ہیں جوکبھی فنا نہیں ہونگے،
وقال ابن حزم في كتابه الملل والنحل: اتفقت فرق الأمة كلها على أن لا فناء للجنة ولا لنعيمها، ولا للنار ولا لعذابها،ابن حزم ؒ فرماتے ہیں کہ تمام مذاہب کے ائمہ کرام کا اتفاق ہے کہ نہ تو جنت فنا ہوگی اور نہ اسکی نعمتیں ،اور نہ جہنم فنا ہوگی اور نہ اسکے عذابات،
﴿ دوام دوزخ کا انکار کفر ہے ﴾
جنت کی نعمتیں اور دوزخ کا عذاب ہمیشہ کے لئے ہے جو آدمی یہ کہتا ہے کہ اہل جنت کے جنت میں اور اہل جہنم کے جہنم میں داخلہ کے بعد ایک مدت کے بعد دونوں فنا ہوجائیں گی تو اس نے یہ بات کہہ کر کفر کیا ہے۔(فقہ اکبر بروایت امام ابو مطیع بلخی:۱۸۱)
﴿ اجماع امت ﴾
دوام دوزخ پر امت کا اجماع ہے،امام ابو منصور عبدالقاہر بغدادی فرماتے ہیں:
اجمع اھل السنۃ وکل من سلف من اخیار الامۃ علی دوام بقاء الجنۃ والنار وعلی دوام نعیم اھل الجنۃ ودوام عناب الکفرۃ فی النار(اصول الدین:۳۳۸)
یعنی تمام اہل سنت ،اورتمام اسلاف امت کا جنت اوردوزخ کے ہمیشہ کے لئے باقی رہنے پر اجماع اور اتفاق ہے اور(اسی طرح)جنتیوں کے لئے نعمتوں کے ہمیشہ ہونے پر بھی اورکافروں کے ہمیشہ کے لئے دوزخ میں عذاب میں مبتلا ہونے پر بھی اجماع اوراتفاق ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی ؒ فرماتے ہیں:زندگی کی فرصت بہت تھوڑی ہے اور ہمیشہ کا عذاب اس پر آنے والا ہے۔(مکتوبات مترجم :۱/۳۹)
﴿  المیہ ﴾
   لیکن اس مادیاتی دور میں جدید تعلیم یافتہ حضرات نے جہاں اصولی مسائل شرعیہ  کو اپنی کج فہمی کے میزان میں پڑکھ کر قرآن واحادیث کی مخالفت کررہے ہیں وہیں عقائد ایمانیہ میں بھی  مختلف قسم کے شک و شبہات کی نشر واشاعت کرتے رہتے ہیں،چنانچہ اس وقت بعض جدید تعلیم یافتہ کے مابین ایک بد اعتقادی اور عقیدہ کفریہ کاخوب چرچہ ہو رہا ہے کہ کیا کافروں کوجہنم میں ہمیشہ ہمیش رہنا ہو گا ،جبکہ اس نے کفر ایک محدود وقت میں کی ہے تو سزا بھی محدود وقت ہی میں ہونی چاہیے،ابدا لآباد سزا دینا کافروں کے حق میں عدل وانصاف نہیں ہے ،  اسی شبہ کی بیخ کنی اور عقیدہ اہل سنت والجماعت کےثبوت کیلئے ہمارے محسن ومکرم حضرت" مولانا ضیاء الحق صاحب صدیقی" مہتمم مدرسہ قاسم العلوم چند گڑھ کولہاپور نے راقم وعاجز کو حکم دیا کہ اس سلسلے میں ایک مفصل ومحقق دلائل نقلیہ و عقلیہ سے مزین مقالہ کو ترتیب دیں بس حضرت ہی سے کیا ہوا وعدہ کا ایفاء کر رہا ہوں اللہ تعالی ٰ آمر و مامور وقاری و ناشر سب کو عقیدہ اسلامیہ پر جمنے کے ساتھ ساتھ اپنی رضا والی  موت عطا کرئے آمین۔
 سب سے پہلے ہم ان آیات قرآنی کی نشاندہی کرتے ہیں جن سے وضاحت کے ساتھ عقیدہ اہل سنت والجماعت تابت ہوتا ہے ،
﴿ دلائل نقلیہ قرآنیہ ﴾
1.خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ ﴿١٦٢ البقرة﴾
2.وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٣٩ البقرة﴾
3.خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ ﴿١٦٢ البقرة﴾
4.فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢١٧ البقرة﴾
5.يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَاخَالِدُونَ ﴿٢٥٧ البقرة﴾
6.وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٢٧٥ البقرة﴾
7.خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ ﴿٨٨ آل عمران﴾
8.إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوالَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًاوَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِهُمْ فِيهَاخَالِدُونَ﴿١١٦آل عمران﴾
9.وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿٨١ البقرة﴾
10.    وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا ﴿١٤ النساء﴾
11.    إِلَّا طَرِيقَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ﴿١٦٩ النساء﴾
12.    قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ﴿١٢٨ الأنعام﴾
13.    إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْحَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُوَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ{مائدة: 72}
14.    خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿٢٢ التوبة﴾
15.    أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ﴿٦٣ التوبة﴾
16.    وَعَدَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ﴿٦٨ التوبة﴾
17.    فَادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ ﴿٢٩ النحل﴾
18.    خَالِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا ﴿١٠٨ الكهف﴾
19.    خَالِدِينَ فِيهِ وَسَاءَ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِمْلًا ﴿١٠١ طه﴾
20.    إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا {البينة: 6}
21.    وَمَا هُمْ بِخَارِجِيْنَ مِنَ النَّارِ{ البقرۃ : 167}
22.    وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِيْ سَمِّ الْخِيَاطِ { الاعراف /40}
ہم نے بغرض اختصار صرف انہیں چند آیتوں پر اکتفا ء کرلیا ہے؛ورنہ تو ان کے علاوہ سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں آیتیں ایسی ہیں جن سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کافر ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہیگا ، کیونکہ خالدا، خلود، خلدین،حرم علیہ الجنہ، وغیرہ کا معنی ہمیشہ ہمیش ہی آتاہے،امام طبری ؒفرماتے ہیں،
{ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا } يَقُول : مَاكِثِينَ فِي السَّعِير أَبَدًا , إِلَى غَيْر نِهَايَة (تفسير الطبري)
یعنی اللہ تعالیٰ کا فرمان "خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا" یعنی کافر جہنم میں ہمیشہ رہیں گے جس کی کوئی انتہاء نہیں ہے ،
تفسیر مظہری میں ہے  :ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ (وہ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے) یعنی اس میں رہیں گے نہ نکلیں گے نہ مریں گے۔( تفسیر مظہری مترجم اردو میں ہے( یونیکوڈ )صفحہ نمبر: 47)
تفسیر ابن عباس (اردو)میں ہے:
اور جن لوگوں نے کتاب اور رسول کو جھٹلایا وہ دوزخ والے ہیں۔ اس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کو وہاں موت آئے گی اور نہ ہی وہ دوزخ سے نکالے جائیں گے۔(تفسیر ابن عباس یونیکوڈ مکتبہ جبرئیل 45)
معارف القرآن میں ہے:آخری آیت والَّذِيْنَ كَفَرُوْا سے یہ بتلا دیا گیا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت کی پیروی نہیں کریں گے ان کا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم ہوگا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس ہدایت کو ہدایت سمجھنے اور اس کی پیروی کرنے سے انکار کردیں یعنی کفار اور مؤمنین جو ہدایت کو ہدایت ماننے کا اقرار کرتے ہیں وہ عملاً کیسے بھی گہنگار ہوں اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد بالآخر جہنم سے نکال لئے جائیں گے، ( تفسیر  معارف القرآن ( یونیکوڈ)صفحہ نمبر: 47)
 ﴿ آحادیث نبویہ ﴾
 اس کے علاوہ احادیث نبویہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرامین موجود ہیں:
قیامت کے دن موت کو چتکبرے رنگ کے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا ، اسے جنت اور جہنم کے درمیان کھڑا کر کے کہا جائے گا " اے جنتیو !کیا اسے جانتے ہو ؟ "وہ گردن اٹھا کر دیکھیں گے اور کہیں گے :"جی ہاں  جانتے ہیں یہ موت ہے"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :پھر کہا جائے گا  "اے جہنمیو ! کیا تم اسے جانتے ہو ؟ "وہ گردن اٹھا کر دیکھیں گے اور کہیں گے  " جی ہاں  جانتے ہیں  یہ موت ہے  "پھر اسے (موت کو)ذبح کرنے کا حکم دیا جائے گا اور ذبح کر دیا جائے گا ۔پھر کہا جائے گا :" جنتیو ! جنت میں  تمہاری ابدی زندگی ہے تمہیں موت کبھی نہیں آئے گی"اور جہنمیوں سے کہا جائے گا : " جہنمیو! جہنم میں  تمہاری ابدی زندگی ہے تمہیں بھی موت کبھی نہیں آئے گی"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  یہ آیت  پڑھی وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَترجمہ: اور آپ انہیں روز حسرت سے ڈرائیں کہ جب ہر  معاملے کا فیصلہ کیا جائے گا  ، لیکن وہ حالت ِ غفلت میں ہیں  ، اور اس بات کو نہیں مانتے) اسے مسلم نے  ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے ۔(مسلم 2849 وکذا فی الترمذی 2545)
اور ابن عمر کی روایت میں ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَارَ أَهْلُ الْجَنَّةِ فِي الْجَنَّةِ وَأَهْلُ النَّارِ فِي النَّارِ جِيءَ بِالْمَوْتِ حَتَّى يُوقَفَ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ ثُمَّ يُذْبَحُ ثُمَّ يُنَادِي مُنَادٍ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ خُلُودٌ لَا مَوْتَ يَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ لَا مَوْتَ فَازْدَادَ أَهْلُ الْجَنَّةِ فَرَحًا إِلَى فَرَحِهِمْ وَازْدَادَ أَهْلُ النَّارِ حُزْنًا إِلَى حُزْنِهِمْ ثُمَّ يَقُولُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ وَيَا أَهْلَ النَّارِ خُلُودٌ فَلَا مَوْتَ ثُمَّ قَرَأَ وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهَؤُلَائِ فِي غَفْلَةٍ أَهْلُ الدُّنْيَا وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ،(صحيح البخاري» باب صفة الجنة والنار ،وکذاصحيح مسلم» باب النار يدخلها الجبارون والجنة يدخلها الضعفاء،وکذا مسند أحمد» مسند المكثرين من الصحابة    » مسند عبد الله بن عمر بن الخطاب،
ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب اہل جنت ، جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو موت کو لا کرجنت اور جہنم کے درمیان کھڑا کیا جائے گا اور اسے ذبح کر دیا جائے گا، پھر ایک منادی پکار کر کہے گا اے جنت! تم ہمیشہ جنت میں رہو گے، یہاں تمہیں موت نہ آئے گی اور اے جہنم! تم ہمیشہ جہنم میں رہو گے، یہاں تمہیں موت نہ آئے گی، یہ اعلان سن کراہل جنت کی خوشی اور مسرت دو چند ہوجائے گی اور اہل جہنم کے غموں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ثپھر اس کو ذبح کردیا جائے گا اور جنتیوں سے کہا جائے گا کہ بے فکر ہو کر جنت میں رہو تم کو اب کبھی موت نہ آئے گی اور اسی طرح دوزخ والوں سے کہا جائے گا پھر آنحضرت ﷺ نے اس آیت کو تلاوت فرمایا ( وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ الخ۔ ) 19۔ مریم : 39) یعنی اے رسول! آپ ان لوگوں کو حسرت کے دن سے ڈرایئے جس دن پچھتائیں گے جب کہ فیصلہ ہوجائے گا اور یہ لوگ پھر بھی غفلت میں پڑے ہیں اور ایمان نہیں لاتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ  سے مروی ہے:
وروي عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يقال لأهل الجنة: يا أهل الجنة خلود لا موت، ولأهل النار، يا أهل النار خلود لا موت(رواہ البخاری6545)
ترجمہ : ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا اہل جنت سے کہا جائیگا اے اہل جنت ہمیشہ رہنا ہے،(یہاں تم کو ) موت نہیں ہے ،اور جہنمی سے کہا جائیگا اے جہنمیو (یہاں تم کو )ہمیشہ رہناہے تم کو موت نہیں ہے ،
عقیدہ طحاویہ کے شارح  ابن ابی العز رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں :
" مشہور احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ جس نے  بھی  "لا الہ الا اللہ " پڑھا ہے وہ جہنم سے ضرور نکلے گا۔شفاعت کی احادیث   میں واضح طور پر یہ بات موجود ہے کہ گناہ گار موحدین جہنم سے باہرنکلیں  گے ،  نیز ان احادیث میں یہ بھی ہے کہ جہنم سے باہر آنے کا حکم صرف انہی کے ساتھ مختص ہے ، اگر کفار بھی جہنم سے نکل جائیں پھر  تو کفار بھی گناہ گار موحدین کے ہم پلہ و مرتبہ ہونگے اور جہنم  سے باہر نکلنے کا امتیاز صرف اہل ایمان  کے پاس باقی نہ رہے گا" انتہی شرح الطحاویۃ " صفحہ: 430، طبعہ المکتب الاسلامی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَ [34]مَالَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ)القلم 34،33)
ترجمہ: کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں جیسا بنا دیں گے، تمہیں کیا ہو گیا ہے کیسے بے تکے فیصلے کرتے ہو،
ان تمام نصوص شرعیہ اور محققین کی عبارتوں سےبخوبی واضح ہو گیا کہ کافر کیلئے خلود فی النار کا عقیدہ ہی حق ہے اور اسکے خلاف عقیدہ رکھنا کفر وضلالت ہے ،
﴿دلائل عقلیہ ﴾

﴿ پہلا جواب ﴾

حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں: کہ اگر پوچھیں کہ حسنات میں اجر کئی گنا ہے اوربرائیوں میں سزا ان کی مثل ہے تو پھر کفار کو چند روزہ برائیوں کے بدلہ میں ہمیشہ کا عذاب کیوں ہوگا؟میں (مجدد الف ثانی)کہتا ہوں کہ عمل کے لئے جزاء کا ہم مثل ہونا اللہ تعالی کے علم پر موقوف ہے جس کے سمجھنے سے مخلوق کا علم قاصر (عاجز ) ہےمثلاً نیک شادی شدہ عورتوں پر زنا کی تہمت لگانے سے اس کی ہم مثل سزا اسی کوڑے فرمائی ہے اور چوروں کی حد میں چور کا دایاں ہاتھ کاٹ ڈالنا اس کی سزا ہے اور زنا کی حد میں غیر شادی شدہ کا غیر شادی شدہ سے زنا کرنے کی صورت میں سو کوڑے اورایک سال کی جلاوطنی مقرر کی ہے (احناف کے نزدیک منسوخ ہے)اوربوڑھے آدمی کا بوڑھیا عورت(یعنی شادی شدہ مرد کا شادی شدہ عورت) کے ساتھ زنا کی صورت میں سنگسار کرنے کا حکم فرمایا ہے ان حدود اور تعزیرات کا علم انسان کی طاقت سے خارج ہے یہ خدائے عزیز وعلیم کا اندازہ ہے پس کفار کے بارہ میں اللہ تعالی نے کفر موقت کے لئے ہمیشہ کا عذاب موافق و مناسب جزا فرمائی ہے تو معلوم ہوا کہ کفر موقت کی ہم مثل سزا یہی ہمیشہ کا عذاب ہے،اور وہ شخص جو تمام احکام شرعیہ کو اپنی عقل کے مطابق کرنا چاہے اور عقلی دلائل کے برابر کرنا چاہے وہ شان نبوت کا منکر ہے اس کے ساتھ کلام کرنا بے وقوفی ہے۔ (مکتوبات مجدد الف ثانی مترجم:۱/۳۵۸)
﴿ دوسرا جواب ﴾

یہ بات سب تسلیم کرتے ہیں کہ سزا جرم کے مناسب ہونی چاہیے مگر یہ ضروری نہیں کہ جرم اورسزاکا زمانہ بھی برابر ہو جیسا کہ کسی جگہ دو گھنٹہ تک ڈکیتی پڑے اورڈاکو پکڑا جائے تو اس کو دوگھنٹہ تک سزادے کر رہا نہیں کیا جاتا پس معلوم ہوا کہ سزا میں شدت جرم کی شدت کے حساب سے ہوتی ہے؛چونکہ کفر کا جرم شدید ہے تو اس کی سزا بھی شدید ہی ہوگی۔اگر خیال ہوکہ جرم شدید تو ہے مگر ایسا شدید نہیں کہ اس کی سزا ہمیشہ کے لئے دوزخ ہو۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خیال اسلئے پیدا ہوا کہ تم نے صرف اس جرم کی ظاہری صورت پر نظر کی ہے؛حالانکہ سزا اورجزاء کا مدار محض اس کی ظاہری صورت پر نہیں ہوتا ؛بلکہ اس میں نیت کو بھی بڑا دخل ہے؛بلکہ یوں کہناچاہیے کہ اصل مدار ہی نیت پر ہے؛چنانچہ اگر شادی کی پہلی رات میں عورتوں نے غلطی سے دولہا کے پاس کسی دوسری عورت کو بھیج دیا جس کے ساتھ اس نے یہ جان کر صحبت کی کہ یہ میری بیوی ہے تو اس پر گناہ نہیں ہوگا؛بلکہ یہ وطی باالشبہ کہلائے گی اور اگر کسی نے اپنی بیوی سے صحبت کی مگر خیال یہ رکھا کہ میں فلاں غیر عورت سے صحبت کررہا ہوں تو اس کا گناہ ہوگا،جب یہ بات معلوم ہوگئی تو اب یہ سمجھیں کہ ظاہری طور پر تو کافر کا کفر اس کی عمر تک محدود ہے مگر اس کی نیت یہ تھی کہ اگر زندہ رہا تو ہمیشہ اسی حالت پر رہوں گا اس لئے اپنی نیت کے مطابق اس کو ہمیشہ کے لئے دوزخ کا عذاب ہوگا اسی طرح مسلمان کا اسلام گو بظاہر ایک زمانہ تک محدود ہے مگر اس کی نیت یہ ہے کہ اگر میں ہمیشہ زندہ رہوں تو ہمیشہ اسلام کا پابند رہوں گا اس لئے اس کا ثواب بھی ہمیشہ کی جنت ملے گا۔
(اشرف الجواب حضرت تھانویؒ:۱/۳۶،مع تغیر)
وقد ذكر ابن القيم هذه العلة في معرض بيان حجة من قال بعدم فناء النار في ما نقله في حادي الأرواح: سبب التعذيب لا يزول إلا إذا كان السبب عارضا ـ كمعاصي الموحدين ـ أما إذا كان لازما ـ كالكفر والشرك ـ فإن أثره لا يزول كما لا يزول السبب، وقد أشار سبحانه إلى هذا المعنى بعينه في مواضع من كتابه منها: قوله تعالى: وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ ـ فهذا إخبار بأن نفوسهم وطبائعهم لا تقتضي غير الكفر والشرك، وأنها غير قابلة للإيمان أصلا.
﴿  تیسرا جواب ﴾

کافر کو جو ہمیشہ کا عذاب ہوگا اس میں اس پر کوئی ظلم نہیں ؛کیونکہ کافر اللہ تعالی کی ہر ہر صفت کے حقوق کو ضائع کرتا ہے اور اس کی صفات لامتناہی ہیں اور ہر صفت کے حقوق بھی غیر متناہی ہیں تو چاہیے تو یہ تھا کہ ہر صفت کے انکار پر لامتناہی سزا ہوتی اور پھر ہر صفت کے حقوق پر اس طرح غیر متناہی سزا ہوتی ؛لیکن ایسا نہیں کیا جائے گا ؛بلکہ صرف کفر کی سزا دائمی طور پر جہنم کا عذاب ہوگا پس معلوم ہوا کہ اس سزا میں زیادتی نہیں؛بلکہ ایک معنی کو کمی ہے۔(اشرف الجواب مذکور ص۳۷،ص۲۹۴)
﴿  چوتھا جواب ﴾

بغاوت کی سزادائمی ہوتی ہے جس کا دوام حکام ظاہری(دنیاوی حکمرانوں)کے اختیار میں ہے یعنی باغیوں کے لئے تاحیات دائمی سزا مقرر کرتے ہیں اورجس قسم کا دوام احکم الحاکمین(خدا تعالی)کے اختیار میں ہے یعنی اصلی اختیار جو مرنے کے بعد بھی موجود ہے وہ اپنے باغیوں(کافروں)کے واسطے ہمیشہ دوزخ کی سزا مقرر فرمائیں گے اس میں ظلم اورزیادتی کچھ بھی نہیں؛بلکہ عین عدل ہے۔(اشرف الجواب مذکور:۲۹۴)
﴿ پانچواں جواب ﴾

خدا کے پیغمبروں نے ساری دنیا میں اس کی منادی فرمائی ہے کہ وہ خدا اور اس کے احکام کو تسلیم کریں جو انکار کرے گا اس کو ہمیشہ کے لئے دوزخ کا عذاب جھیلناہوگا تواب جس نے بھی انکار اور کفر کیا تو اس کو ابدی سزادی جائے تو یہ اس کا حق ہے؛کیونکہ اس نے اس پیغام کےپہنچنے کے باوجود کفر کو اختیار کیا اور اگر کسی کے پاس نبوت کا پیغام نہیں پہنچا تو اس کے بارہ میں علمائے اسلام کے دو نظریے ہیں ایک کے نزدیک ایسے لوگ دوزخ میں نہیں جائیں گے جبکہ دوسرے کے نزدیک وہ بھی دوزخ میں جائیں گے ؛کیونکہ اگرچہ کسی کے پاس نبی اور رسول یا ان کے نائب کا پیغام یا کوئی رہنما کتاب اورلٹریچر نہ بھی پہنچا ہو تب بھی اس کے ذمہ ہے کہ وہ مظاہر قدرت اور اپنے وجود اور انعامات سے استدلال کرے اور صرف خدا کے وجودہی پر ایمان لائے باقی تفصیلات کا چونکہ اس کو علم نہیں اس لئے اس کی نجات کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔(انوار اسلام)
 ﴿  چھٹا جواب ﴾

گناہگاروں کی سزا کے بارہ میں ہندو مذہب میں اس طرح سے ہے کہ جس وقت کوئی گناہگار مرتا ہے تو جمراج(دوزخ کا داروغہ)جس کو دھرم رائے بھی کہا کرتے ہیں اس کے سپاہی گناہگار کی روح کو جمراج کے پاس لے جاتے ہیں جمراج اس کے عملوں کا حساب لیتا ہے پھر وہ جس سزا کے لائق ہوتا ہے ویساہی دوسرا جنم ملتا ہے اس جنم میں اپنے اعمال کا حساب لیتا ہے پھر وہ جس سزا کے لائق ہوتا ہے ویسا ہی دوسرا جنم ملتا ہے اس جنم میں اپنے اعمال کی سزا پاکر اس جنم سے نکل کر پھر کسی اور جنم میں داخل ہوتا ہے اس طرح سے ہزارہا جنم لیتا ہے اورحسب اعمال ہر طرح کے حیوان کی صورت میں جنم لیتا ہے یہاں تک کہ مکھی ،بھڑ،سور اور کتا وغیرہ حیوانات؛بلکہ کبھی درخت بھی ہوجاتا ہے اور بعض ہندو کہتے ہیں کہ پتھر بھی ہو جاتا ہے اور بہت سے جنم لے کر اوراپنے عملوں کی سزا پاکر جب گناہوں سے صاف ہوتا ہے تب اس کی نجات ہوتی ہے اورنجات یہ ہوتی ہے کہ وہ نیست و نابود ہوکر خدا کی ذات میں مل جاتا ہے اور کبھی گناہوں کی شامت سے دوزخ میں جاکر وہاں سے نکل کر کبھی پھر جنم لیتا ہے۔(تحفۃ الہند:۴۵)
ہندوؤں کے نزدیک زمانے کے چار دور مقرر ہیں پہلا ست جگ،دوسرااتریتا جگ،تیسرا دواپر جگ،چوتھا کلجگ۔ (حاشیہ تحفۃ الہند:۱۴)
جب سے انسان ست جگ کی ابتداء میں جنم میں آیا ہے اب تک ان کے نزدیک لاکھوں سال گذر گئے ہیں اور معلوم نہیں کہ ان کے نزدیک باقی کتنے کروڑہا سال باقی ہیں ان میں انسان اپنے گناہوں کی پاداش میں نہ جانے کتنے جنم لے چکا ہے اورکب سے اپنے گناہوں کی سزا پا رہا ہے۔
مذکورہ دونوں حوالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کے اس زندگی میں کئے ہوئے گناہوں کی سزا اس کی دنیاوی زندگی سے کروڑہا سال زیادہ پر مشتمل ہے جہنم اس بات کی دلیل ہے کہ ہندو مذہب میں بھی مذہبی مجرم کی سزا بہت ہی زیادہ ہے جس کی انتہاء کا کسی کو علم نہیں ہندو مذہب کے اس نظریہ سے بھی اسلام کے اس نظریہ کی کسی حد تک تائید ہوتی ہے کہ کافرخدا کے نافرمان کا انجام جہنم میں ہمیشہ کا عذاب ہونا چاہیے۔
﴿  ساتواں جواب ﴾

مسیحی مذہب بھی اس مسئلہ میں مذہب اسلام کی تائید کرتا ہے؛چنانچہ ہم اس کی تائید میں اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف دوحوالے پیش کرتے ہیں۔
انجیل مرقس باب ۹درس ۴۳اورانجیل متی باب ۱۸ درس ۸ میں ہے جہنم کے بیچ اس آگ میں جائے جو کبھی بجھ نے کی نہیں۔اس حوالے سے معلوم ہوا کہ دوزخ ہمیشہ باقی رہے گی اس پر کبھی فنا نہ آئے گی۔
پوری دنیا میں بڑے مذاہب تین ہیں اسلام ہندومت اور عیسائیت ان تینوں سے متفقہ طور پر یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ دوزخ بھی ہمیشہ رہے گی اوردوزخ میں جانے والے کافر بھی ہمیشہ کے لئے سزا پائیں گے یہودی بھی مسیحی مذہب کے مطابق نظریہ رکھتے ہیں،اب صرف منکرین خدا اور منکرین مذہب ہی باقی رہ گئے ہیں جو مذکورہ اہل مذاہب کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں ہم نے پوری دیانتداری سے مختلف مذاہب کے نظریے نقل کردئے ہیں،(نوٹ دلائل عقلیہ کی تمام عبورتوں کو ہم نے کتاب "انوار اسلام  "مکتبہ جبرئیل سے اضافہ یسیر اور حذف کثیر کے ساتھ تحریر کیا ہے )
اللہ تعالیٰ ان سطور کو ذریعہ آخرت بناکر پوری امت محمد ﷺ کو راہ ہدایت اور صراط مستقیم پر گامزن کرے آمین۔ثم آمین

مزید مضامین کیلئے نیچے کے لنک پر جائیں


(1)موبائل کے فائدے                                           (2) موبائل کے نقصانات
(5)موبائل کا رنگ ٹون                                         (6)فلم اور ویڈیو دیکھنا
(7)ویڈیو گرافی اور تصویر کشی                              (8)مس کال
(9)سیم کارڈ                                                      (9)بیلنس اور ریچارج 
(10)واٹساپWhatsapp                                              () ایس ایم ایس
(12) موبائل                                                             (13)میموری کارڈ کے مسائل

ہندوستان کے سلگتے مسائل                   ہندوستان کے نئے مسائل
(۱)سول کوڈ                                                   برما کے مظلوم مسلمان
(۲)یکساں سول کوڈ                                           تین طلاق اور ہندوستان کی عدالت کا فیصلہ

Thursday, September 21, 2017

موبائل کے مسائل












بسم اللہ الرحمن الرحیم

(موبائل کی مرمت)



سوال :موبا ئل کی مرمت کرنا کیسا ہے ؟

جواب :جائز ہے ۔شامی میں ہے قا ل فی الخانیۃ ولو آجر نفسہ لیعمل فی الکنیسۃ ویعمر لاباس بہ لانہ لامعصیۃ فی عین العمل ( شامی ۶/۳۹۱ مکتبہ شاملہ)

سوال : موبا ئل کے کیمرہ اور ویڈیو کی خرابی کو درست کرنا کیسا ہے ؟ 
جواب :درست ہے اگر موبائل کو غلط استعمال کیا گیا تو اس کا وبال موبائل والے پر ہو گا نہ کہ مرمت ساز پر ۔فتاوی محمودیہ میں ہے ’’ ریڈیو نہ نجس ہے اور نہ حرام نہ حرام کے لئے اصالۃ بنایا گیا ہے جو لوگ اس کو ناجائز کام کے لئے استعمال کرتے ہیں وہ اپنے فعل کے خود ذمہ دار ہیں اس لئے اس کو بنانا اور بناکر آمدنی حاصل کرناجائز ہے ۔( محمودیہ ۱۷ /۱۱۰ وکذا شامی ۶/۳۹۱ مکتبہ شاملہ) 
سوال : اگر یقین ہو جا ئے کہ یہ موبائل والا موبائل کو حرام ہی میں استعمال کرتا ہے تو

اس کا موبائل مرمت کرنا کیسا ہے ؟
جواب :اگر یقین ہو جا ئے کہ یہ موبائل والا موبائل کو حرام ہی میں استعمال کرتا ہے تو اس کا موبائل مرمت کرنانا جائز ہے۔(حاشیہ محمودیہ ۱۷ / ۱۱۰ وکذا شامی ۶/۳۹۱ شاملہ ) 
سوال : ایک کے موبائل کے سامان کو نکال کر دوسرے کے موبائل میں لگانا کیسا ہے ؟
جواب : حرام ہے ، اس میں تو صریح دھو کا ہے اس لئے اس طرح کی کمائی حرام ہے آپ ﷺ نے فر مایا ’’ ولاتناجشوا ( مسلم / کتا ب البیوع ) لہذاکسی قسم کا ہیرا پھیری موبائل یا کسی اور سامان کی ریپئرنگ کر نے والے کیلئے جائز نہیں ہے ضروری ہے کہ سامان کو امانت سمجھ کر مرمت کرے اس میں بالکل ادل بدل نہ کرے ہاں جو سامان خراب ہو چکا ہے اس کو نکالکر نیا لگا دے اور موبائل دیتے وقت اس کا خراب سامان بھی واپس کردے۔
سوال : صحیح موبائل کو خراب بتا کر کسٹمر سے پیسہ لینا کیسا ہے ؟ 
جواب: حرام ہے اور اس طرح کی کمائی حرام ہے ’’ ولاتناجشوا ( مسلم کتا ب البیوع )
سوال : معمولی خرابی والے موبائل کو زیادہ خراب بتا کر زیا دہ رقم مزدوری میں لینا کیساہے ؟
جواب :یہ بھی حرام ہے ،جتنا موبائل خراب ہو، اتنا ہی بتایا جائے اور اسی کے بقدر مزدوری لی جائے ۔
سوال : موبائل میں نیا پارٹس لگانے کے بجائے پرا نا پارٹس لگا کر پوری رقم لینا کیسا ہے ؟
جواب : جب نیا پارٹس (parts)لگا نے کی بات ہوئی ہو پھر پرانا لگانا حرام ہے اور شروع میں جب کچھ وضاحت نہ کیا ہو، تو جائز تو ہوگا لیکن موبائل والے کو کہہ دیا جائے کی بھائی اس میں ہم نے پرانا پارٹ(part) لگایا ہے اور پرانا سامان کی قیمت اور میری مزدوری اتنی ہوتی ہے ۔
سوال : بعض حضرات ریپئرنگ اچھی طرح نہیں جانتے ہیں اور کسٹمر کا مو بائل ناقص علم کی وجہ سے صحیح کرنے کے بجائے اور خراب ہی کردیتے ہیں اس صور ت میں ریپئرنگ کرنے والے پر ضمان ہو گا ؟
جواب : جب علم نہیں ہے پھر انہوں نے موبائل کو ریپئرنگ کیا اور موبائل کو مزید خراب کردیا تو اسکا ضمان مستری (دوکان والے) پر ہوگا ۔
(متفرقات)
سوال : مسافر کے لئے مسجد کی بجلی سے موبائل چارج کرنا کیسا ہے ؟
جواب: مسجد کی بجلی سے مو بائل چارج کرنے کے بعد کچھ رقم مسجد کے فنڈ میں جمع کر دے کیونکہ اپنی زائد ذاتی ضرورت میں بجلی کو استعمال کیا گیا ہے ۔( مسائل موبائل/ ۳۱ )
سوال : محلہ والے کا مسجد کی بجلی سے موبائل چارج کرنا کیسا ہے ؟ 
جواب : جائز نہیں ہے اگر کر لیا ہے تو اتنی رقم مسجد میں جمع کردے ۔لا یحمل سراج المسجد الی البیت ۔(مسائل موبائل بحوالہ قاضی خان علی الھندیہ ۴ /۸۲ )
سوال : معتکف کے لئے مسجد کی بجلی سے موبائل چارج کرنا کیسا ہے ؟ 
جواب: ضرورۃً موبائل چارج کرسکتا ہے اور احتیاطا بجلی کا عوض مسجد میں رقم جمع کردے ۔( مسائل موبائل /۳۱ )
سوال : موبائل میں ایسا سٹینگ کر دینا جس سے قرض خواہ کو فون بیجی یا سوچ آف یا آؤٹ آف کورج ہو نا سنائی دے کیسا ہے ؟ 
جواب : قرض کا اداکرنا ضروری ہے اور ٹال مٹول کرنا حرام ہے تو اب ٹال مٹول کرنے کیلئے جو بھی طریقہ اپنا یا جائے حرام ہوگا ۔عن ابی ھریرۃؓ ان رسول اللہّ ﷺ قال مطل الغنی ظلم(حدیث مسلم ۲/ ۱۸)
سوال : کیا موبائل کے ذریعہ نو مولود کے کان میں اذان دے سکتے ہیں؟
جواب : مناسب نہیں ہے،بجائے دوسرے سے فون کے ذریعہ بچہ کے کان میں اذان دینے سے بہتر یہ ہے کہ خود اذان دے ۔ ( فتاویٰ بنوریہ غیر مطبوعہ فتویٰ نمبر/۳۶۰۱۰ ) 
سوال :کیا موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعہ نکاح منعقد ہو سکتا ہے ؟
جواب : نکاح کے انعقاد کے لئے شرائط و ارکان ہے اس کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہو سکتا، فون اور انٹر نیٹ پر نکاح کرنے میں وہ تمام شرائط نہیں پائے جاتے ہیں؛ اس لئے موبائل اور انٹر نیٹ پر نکاح نہیں کر نی چاہیے ۔نیز اس میں نوجوان کے لئے بہت بڑا فتنہ کا با ب کھل جائے گا ،اور لڑکیا ں اس سلسلے میں بے راہ روی اختیار کرنے لگے گی،ہاں اگر جملہ شرائط پائے جانے لگے تو نکاح ہو سکتا ہے جیسا کہ فقہاء کرام (جدید فقہی مسائل،خلاصۃ الفتاویٰ ،فتاوی بنوریہ ٹاؤن ،وغیرہ ) نے بعض شکلوں میں جواز کے فتاوے دئے ہیں ،تاہم اس عاجز کی رائے یہی ہے کہ احتیاطاً فون اور انٹر نیٹ یااسی طرحsmsکے ذریعہ کسی بھی شکل وصورت میں نکاح نہیں کرنا چاہیے۔نیزاس صورت میں نکاح کا مسنون اور متداول جو طریقہ ہے وہ بھی فوت ہو جائیگا اور کوئی بھی کام خلاف سنت کی جا ئے تو بے برکت اورناقص ہو تا ہے ؛اس لئے فون اور انٹر نیٹ کے زریعہ نکاح نہیں کرنی چاہیے اگرچہ بعض صورتوں میں فقہاء نے جواز کا فتوی ٰ دیا ہے ۔
سوال : کیا موبائل پر طلاق دینے سے طلاق واقع ہو گی ؟
جواب: طلاق واقع ہو جائے گی ۔
سوال : زید نے اپنی بیوی سے فون پر بات کرتے ہوئے طلاق دیا لیکن طلاق کا لفظ بو لتے وقت فون کٹ گیا ،کیا اس صورت میں طلاق واقع ہو گی ؟
جواب :اگر فوں کٹ جانے کے بعد زید نے لفظ طلاق کا تکلم نہیں کیا بلکہ فون کٹنے کے ساتھ ہی بات بھی بند کر دیا اور لفظ طلاق کا تکلم نہیں کیا تو طلاق واقع نہیں ہو گی ہاں! فون کٹ جا نے کے بعد بھی وہ بات کر تا رہا اور لفظ طلاق کا تکلم کر دیا تو طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ وقوع طلاق کے لئے بیوی کا سننا ضروری نہیں ہے ، (فتاویٰ رحیمیہ ۸ / ۲۶۶ ) 
سوال : کیا smsکے ذریعہ طلاق دی جائے تو واقع ہو گی؟
جواب : smsبمنزلہ خط وکتابت ہے اور خط و کتابت سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اس لئے smsسے طلاق واقع ہو جائے گی ۔( کتاب الفتاویٰ ۵/۸۱)
سوال : smsمیں طلاق لکھ کر بیوی کو بھیجا گیا لیکن کسی خرابی کی وجہ سے وہ sms بیوی کو نہ پہنچ سکی تو کیا اس smsسے طلاق واقع ہو گی ؟
جواب : جب شوہر نے طلاق لکھ کر بیوی کو smsکردیا تو طلاق واقع ہو جائے گی،اور لکھنے کے وقت ہی سے عورت کی عدت شروع ہوجائیگی چاہے sms بیوی کو پہنچے یا نہ پہنچے کیونکہ تحریری طلاق کے وقوع کے لئے اس تحریر کا بیوی کے پاس پہنچنا ضروری نہیں ہے ،محض شوہر کے اقرا رپر طلاق واقع ہو جائے گی ۔ (فتاویٰ عالمگیری ۱/۳۷۸ شاملہ ، فتاویٰ محمودیہ ۱۲/۶۶۱ )
سوال:نماز کے وقت ہونے پرموبائل میں ریکارڈ کیاہوا اذان بجانے سے اذان ہو جائیگی؟
جواب : نہیں ہوگی ؛کیونکہ اذان صرف اعلام ہی نہیں ہے بلکہ اس میں عبادت کا پہلوبھی ہے ،موبائل میں ریکارڈ ایک جامد اور غیر حساس شی ہے، اس لئے اس کا بجادینا عبادت نہیں ہوگی، ( جدید فقہی مسائل ۱/۹۳ )
سوال: کیاموبائل کے ذریعہ چاند کی اطلاع ملنے پر عید منا سکتے ہیں ؟
جواب :محض موبائل فون کی خبر پر صوم وافطار درست نہیں ہے ،جب تک کہ شرعی طور پر اسکا ثبوت نہ ہو جائے ،ہاں شرعی طور پر چاند ثابت ہوجانے کے بعد کسی معتبر آدمی کی جانب سے چاند ثابت ہونے کی خبرملتی ہے تو اسکی خبر کو مانا جاسکتاہے، دیکھیں تفصیل کتاب الفتاویٰ میں ۔( کتاب الفتاویٰ ۳ /۱۷۶ )
سوال :موبائل کے بعض سافٹ وےئر اوقات صلوٰ ۃ کی تعیین کرتی ہے کیا سافٹ وےئر کے بتائے ہوئے اوقات کے مطابق نماز پڑھی جاسکتی ہے ؟

جواب: مختلف قسم کے سافٹ وےئر نیٹ پر پائے جاتے ہیں اس لئے اس سلسلے میں کوئی یقینی حکم نہیں لگا یا جاسکتا ہے جب تک اس سافٹ وےئر کا جائزہ نہ لے لیا جائے اور اسکو دائمی اوقات کے ساتھ موازنہ نہ کر لیا جائے،ہاں اگر کسی سافٹ وےئر کے متعلق تجربہ کر لیا جائے کہ وہ اوقاتِ صلوۃ بالکل صحیح بتاتی ہے تو اس کا اعتبار نماز، روزہ کے سحر وافطار کے سلسلہ میں کیا جا سکتا ہے ، ساتھ ہی اس کا بھی خیال رہے کہ بعض دفعہ سافٹ وےئر ہینگ (یعنی خراب )ہو جاتا ہے ،تو غلط اطلاع دینے لگتی ہے اس لئے وقتاً فوقتاً اس کو دائمی اوقات جنتری سے ملاتا بھی رہے ،چناچہ فقہاء کرام نے گھڑی کو اوقات کے سلسلہ میں اعتبار کیاہے ؛لیکن گھڑی خراب ہو جائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔
اسی سے کچھ ملتے مسائل

(1)موبائل کے فائدے                                           (2) موبائل کے نقصانات
(5)موبائل کا رنگ ٹون                                         (6)فلم اور ویڈیو دیکھنا
(7)ویڈیو گرافی اور تصویر کشی                              (8)مس کال
(9)سیم کارڈ                                                    (10)بیلنس اور ریچارج  
(11)واٹساپWhatsapp                                               ایس ایم ایس
(13) موبائل                                                             (14)میموری کارڈ کے مسائل

ہندوستان کے سلگتے مسائل                   ہندوستان کے نئے مسائل
(۱)سول کوڈ                                                   برما کے مظلوم مسلمان
(۲)یکساں سول کوڈ                                           تین طلاق اور ہندوستان کی عدالت کا فیصلہ

Sunday, September 17, 2017

سافٹ ویئر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

(سافٹ ویئر) 

 software مُصَنَّع لطیف مَصنُوع لطیف کو کہتے ہیں، جو شمارندی برناماجات   اور متعلقہ معطیات کا ایک ایسا مجموعہ ہےجو کمپیوٹر کو یہ بتائےکام کیا؟اورکس طرح کرناہے؟  یہ دراصل ایسی ہدایات ہوتی ہیں جن پر کمپیوٹر اپنے  Hardware کی مدد سے عمل کر تے ہوئےتجزیاتی افعال انجام دیتا ہے،  سوفٹویئر کو ہارڈویئر کی طرح چھوا نہیں جاسکتا، اسکا کوئی مادی (جسمانی )وجود نہیں ہوتا یہ صرف سوچ بچار اور وہم وگمان کے ذریعہ ترتیب دی گئی ہے،
سوال : کیا سافٹ ویئر کی چوری جائز ہے ؟

جواب : شریعت میں مطلقاً چوری ممنوع وحرام ہے پھر سافٹ ویئر کی چوری کی اجازت کیسے مل سکتی ہے ؟ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیدَیَھُمَا الاخ(مائدہ /۳۸)
سوال : کیا سافٹ ویئر کی چوری بھی ہوتی ہے ؟
جواب : جی ہاں! لو گوں کے کمپیوٹر یا موبائل میں اکثر سافٹ ویئر ایسے ملتے ہیں جو چوری کی ہوئی ہو تی ہے اور ظاہر سی بات ہے یہ وہ چوری نہیں ہے کہ کسی دوکان سے سافٹ وےئر کی سی ڈی چوری کر کے لائے اور پھر اس کو انسٹا ل کر کے استعمال کرئے بلکہ یہ وہ چوری ہے جو کسی گراں قدر سافٹ ویئر کی غیر قانونی کاپی رائٹ بنا کر دوسروں کو فری یا روپیے لیکر تقسیم کرنا شروع کر دیا جائے مثلا: فوٹوشاپ یہ ایک ایسا سافٹ ویئر ہے جو ہر کسی ڈیزائنگ کرنے والے کیلئے ہر دل عزیز ہے لیکن کمپنی اس کی قیمت تقریباً 50000 رکھی ہے اور اس کی کاپی رائیٹ کی بالکل اجازت نہیں دیتی پھر بھی آج سو میں سے کوئی ایک ہی ایساملے گا جو اس فوٹوشاپ کی اصلی کاپی خرید کر استعمال کررہاہوورنہ تو ہر کسی کے پاس اس کی غیر قانونی کاپی ہی ملے گی ،
قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ اس کو چوری کرنا بھی نہیں سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بھی ایک قسم کی چوری ہے جس پر قیامت کے دن باز پرس ہوگی،میں نے حال ہی میں blogspot.comپر ایک مضمون پڑھا جس میں بزنس سافٹ ویئر لانس کے حوالے سے لکھا تھا کہ صرف سافٹ ویئر کی چوری کی وجہ سے ملک زیمبابوکی معیشت ہر سال ۴۰ لاکھ ڈالر کا نقصان اٹھاتی ہے اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ یہ چوری کس قدر قابل ترک ہے اور ملک وملت کے لئے کس قدر نقصان دہ ہے ۔
فتاویٰ بینا ت غیرمطبوعہ میں ہے ’’ اگرچہ ابتدائی طور پر شرعاً اسمیں کوئی حرج نہیں تاہم جب کاپی رائٹ باقاعدہ ایک مسلم قانون کی حیثیت اختیار کر چکاہے اور اس کا لحاظ کئی ایک غیر شرعی امور کے ارتکاب کیلئے سد باب بھی ہے اس لئے کاپی رائٹ قانون کے تحت ایسی کتب یا سی ڈیز وغیرہ کی نقل بنانا قانوناً جرم اور ممنوع ہے جنہوں نے اس کی کاپی کی صراحتاً ممانعت لکھ دی ہو لہذا اس سے احتراز لازم ہے ( فتاوی بینات غیر مطبوعہ فتویٰ نمبر 36693)
سوال : کیا سافٹ ویئر کی مطلقاً نقل کرنا درست نہیں ہے؟
جواب : سافٹ ویئرکی مطلق طور پر نقل کرنا ممنوع نہیں ہے بلکہ بغیر کسی قسم کی محنت کئے بغیر اس کی غیر قانونی کاپی کرلینا اس طور پر کے اسکی سریل نمبر معلوم کر لیا جائے یا پھر اس کے کوڈ کو توڑ کر نقل بنا لیا جائے یہ قانوناً جرم ہے اگر کو ئی شخص خود محنت کرکے ازسر نو سافٹ ویئر تیار کرتا ہے اور صرف دوسرے کمپنی کی سافٹ ویئر کو نمونہ کے طور پر رکھتا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے مثلاً:آج کل اکثر دوسرے ملک کی مصنوعات کو ہندوستان نقل کرتی ہے اور ازسرے نو خود اس سامان کو بنا کر کم قیمت میں فروخت کرتی ہے اس قسم کا معاملہ برابر چلا آرہاہے نہ تو اس پر حکومت کی جانب سے پابندی ہے اور نہ کسی عالم دین نے اس پر نکیر کی ہے لہذا مطلق طور پر نقل کرنا کسی چیز کا ممنوع نہیں ہو گا ۔واللہ اعلم باالصواب
سوال : ہم نے تو دوکان والے سے کسی سافٹ ویئر کو قیمت میں خریدا ہے لیکن خود اس دوکان دار نے غیر قانونی سافٹ ویئر کی کاپی کر رکھا ہے کیا اس کا گناہ ہمارے اوپر بھی ہو گا ؟
جواب: یہ جانتے ہوئے کہ یہ شخص غیر قانونی سافٹ ویئر فروخت کر تا ہے اس سے سافٹ وئیر نہیں خرید نا چا ہیے ہاں دھو کہ سے خرید لیا ہے تو پھر اسکا گناہ فروخت کرنے والے پر ہو گا ۔ وَلَاْتَزِرُوَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرَیٰ
سوال : کیا فری freeسافٹ ویئر بھی دستیاب ہے ؟
جواب :جی ہاں! بہت سے سافٹ ویئر فری ہیں جن کا استعمال کر کے سافٹ ویئر کی چوری سے بچ سکتے ہیں ،اور فری سافٹ ویئر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ غیر معمول ہے ،بلکہ بعض دفعہ تو فری سافٹ ویئر بہتر ہو تا ہے۔ 
سوال : موبائل کا ایسا سافٹ ویئر یا اپس Appsجس کا استعمال اچھے اور برے دونوں کام میں ہوں اس کا بنا نا اور بیچنایا اسی طرح اس کا کسی دوسرے کے موبائل یا کمپیوٹر پر انسٹال کرنا جائز ہے ؟
جواب : جائز ہے لیکن غلط استعمال کرنے کا وبال استعمال کرنے والے پر ہو گا ۔شامی میں ہے ’’قال فیہ من باب البغاۃ وعلم من ھذا انہ لا یکرہ بیع مالم تعم المعصیۃبہ کبیع الجاریۃ المغنیۃ (شامی ۶/۳۹۱ مکتبہ شاملہ)
اسی سے کچھ ملتے مسائل

(1)موبائل کے فائدے                                           (2) موبائل کے نقصانات
(5)موبائل کا رنگ ٹون                                         (6)فلم اور ویڈیو دیکھنا
(7)ویڈیو گرافی اور تصویر کشی                              (8)مس کال
(9)سیم کارڈ                                                      (9)بیلنس اور ریچارج 
(10)واٹساپWhatsapp                                              () ایس ایم ایس
(12) موبائل                                                             (13)میموری کارڈ کے مسائل

ہندوستان کے سلگتے مسائل                   ہندوستان کے نئے مسائل
(۱)سول کوڈ                                                   برما کے مظلوم مسلمان
(۲)یکساں سول کوڈ                                           تین طلاق اور ہندوستان کی عدالت کا فیصلہ