Wednesday, September 13, 2017

تین طلاق

بسم اللہ الرحمن الرحیم

(جس کا ڈر تھا وہی ہوا)
ہمکو تو سوچی سمجھی سازش کے تحت فارم دیکر الجھا دیاگیا ،اور ہم اسی فارم کے فلپ کو فیصلہ کی بنیاد سمجھ بیٹھے جبکہ فسطائی طاقت اور فرعونی حکومت اپنے منصوبہ بندی کے تحت وہی کر گزری جس کا ڈر تھا ، ہمکو روتے ہوئے بچے کی طرح عدالت عظمیٰ اورپانچ ججوں کی پنچ کمیٹی کا سہا رابتایا گیا اور اس سلسلے میں حکومت اپنے آپکو مسلمان عورتوں کا ہمدرد بتلاتی رہی، جبکہ مسلم دانشوروں اورمذہبی رہنماؤں کو پہلے سے ہی یقین کامل تھا کہ مودی اپنے قول و عمل میں زمین و آسما ن کا تضاد رکھتے ہیں،لہذا ان کی مسلم ہمدردی کی باتوں کو سیاسی حربہ سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں دی جانی چاہئے۔
لیکن دیکھتے دیکھتے تین طلاق پر عدالت عالیہ کا وہی فیصلہ آچکا جس کا ہمیں ڈرتھا۔عدالت عالیہ نے اپنے فیصلہ میں کہاہے کہ تین طلاق غیر اسلامی اور آئین ہند کے خلاف ہے۔اس فیصلہ سے وہ پانچ مطلقہ مسلم خواتین خوش ہیں جنھوں نے بیک نشست تین طلاق کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا ،وہیں خواتین کی جانب سےلڑنے والا مسلم مہیلا آندولن بھی جوش و خروش میں مبتلا ہے،بی جے پی کے صدر امت شاہ نے بھی فیصلہ کو مسلم خواتین کو برابر ی کا حق ملنے کے سلسلے میں نئے دور کی شروعات سے تعبیر کیا ہے ،اسی طرح راج ناتھ سنگھ ،ارون چٹلی ،روی شنکرپرساد،مینکا گاندھی ،یوگی ادتیہ ناتھ ،سبرامنیم سوامی ،وجے گوئل، اندریش کمار ،شاذیہ علمی اور دیگر لیڈروں نے بھی خیر مقدم کیا،اور اس کو مسلمانوں کی جیت بتائی جارہی ہے ،کیا انگلیوں پرگنتی کی جانے والی مسلم عورتیں اور چند ایمان فروش مسلمانوں کی اس جیت کو ہندوستان میں بسنے والے تیئس کروڑ مسلمانوں کے خلاف عدالت عالیہ کے فیصلہ کو مسلمانوں کی جیت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ؟حکومت کو چند عورتیں نظر آئی لیکن اس کے مد مقابل میں پورے ہندوستان کی مسلم عورتیں نظر نہیں آئیں ؟
کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے اس کے مطابق کوئی شخص ایک ہی نشست میں تین طلاق دیتا ہے تو تین طلاق لاگو نہیں ہوگی۔ یہ نکتہ قابل غور ہے کیونکہ شریعت کے مطابق یہ طلاق واقع ہوجاتی ہے اگرچہ اس طرح کی طلاق دینے والا گناہگارہے، جب شرعی طور پر تین طلاق ہوجاتی ہے تو قانون اسے طلاق مانے یا نہ مانے اس سے کوئی فرق نہیں پرتا ہے اس صورت حال میں ایک ایمان والے کیلئے بڑا مشکل کا سامنا کرنا پڑیگا کہ مطلقہ ثلاثہ کے ساتھ وہی معاملہ کرے جوبیوی کےساتھ کیا جاتا ہےتو اس سے دوسرے بڑے بڑے مسائل پیدا ہونگے ؛بلکہ شریعت کی اصطلاح میں دونوں زانی کہلائیں گے۔
سپریم کورٹ نے اس مسئلہ پر مرکزی حکومت کو قانون سازی کیلئے چھ ماہ کا وقت دیا ہے۔ چھ ماہ تک کیلئے طلاق ثلاثہ پر روک لگا دی ہے۔ ایسی صورت میں حکومت کو اپنے طور پر من مانی انداز فیصلہ کرنے  اور یک طرفہ قانون سازی سے گریز کرنے کی اشدضرورت ہے۔ یہ ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کے مذہبی جذبات کا مسئلہ ہے۔ اس سے شریعت کے اصول اور قوانین وابستہ ہیں۔ ایک ایمان والے کیلئے اپنے جان ومال بلکہ پوری کائنات سے زیادہ محبوب قرآن وحدیث کی اتباع ہے جس کو وہ کسی بھی صورت میں چھوڑ نہیں سکتاایسے میں حکومت اپنے طور پر قانون سازی کرنے سے گریز کرے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے تمام مکاتیب فکر سے تعلق رکھنے والے علما کرام کی رائے حاصل کرکےوہی فیصلہ کیا جا ئے جو قرآن و احادیث سے ثابت شدہ ہے ۔
قائین کرام اگر آپ یہ مضمون پڑھلیں تو اسی ویب سے شائع شدہ مضمون طلاق اور ملک بھارت ضرور پڑھ لیں

ملک بھارت سلگتے مسائل

Sunday, September 10, 2017

برما کے مسلمان


بسم اللہ الرحمن الرحیم

( کیوں ہوا؟ )


    حامدا ومصلیا اما بعد ، دل مغموم ہی نہیں بلکہ ماؤف ہوچکا ہے ،آنکھیں خشک ہو کر بینائی کو خیر آباد کر رہی ہیں،مسلسل کئی ماہ سے قلب سلیم کو مریض اور صحت مند کو لاغر کردینے والی خبر صدائے باز کی طرح دل ودماغ میں گشت کررہی ہے ،اسی اندوہ ناک غم میں ماہی بے آب کی طرح حیات و ممات کے درمیان گھٹ گھٹ کر جی رہاہوں ،آخر بولوں تو کس کو بولوں اور کہوں تو کس کو کہوں ؟ دعا بھی بدستور شب و روز صبح وشام صوم و صلوٰۃ میں خطبہ جمعہ وعیدین میں اجتماعیت وانفرادیت کے ساتھ ہورہی ہے لیکن ان تمام سعی پیہم کوہماری بداعمالیاں دروازہ قبولیت پر پہونچنے نہیں دیتی،اسی کسمپرسی میں دیوانہ وار لیل ونہار گزرہے تھے ،کہ کئی حضرات نے مجھ سے قول وقرار لے ہی لیا کہ میں جمعہ کے بیان میں سوئی ہو امت کو جگاؤں ، بالآخر اسی وعدہ کا ایفاء کر رہاہوں ،

(احساس قلب)

       ساتھ ہی اس بات کا بھی ہمیں احساس ہے کہ ہم ایک ایسے ملک میں جی رہے جہاں کی آزادی صرف زبانی رہ گئی ہے اگرحقیقت لکھا جائے یا بولا جائے تو اسے دہشت گردی یا بغاوت کا جامہ زیب وتن کر کے سزائے موت نہیں توکم از کم عمر قید کا مزدہ سنادیاجاتاہے ، اسلئے بڑے احتیاط اور بیدار مغزی کے ساتھ حدود میں رہتے ہوئے عرض گذار ہوں ،اور ایسے ملک میں کیا عرض کیا جائے جہاں کی حکومت خود برما کی ظالم حکومت سے ہاتھ ملاتی ہواس سے دوستی اور مواخات کاعہد کرتی ہو ۔

                    (میانمار ،برما)


میانمار/ برما : ماضی میں حکومت برطانیہ کے زیر اثر رہا ہے، اس کی سرحدیں بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ سے ملتی ہیں، اس ریاست کا قدیم نام برما مشہور تھا قانون کی حکمرانی اور موثر عدالتی نظام کا ہمیشہ فقدان رہا ہے۔ تیل کے کنویں ہونے کی وجہ سے ذریعہ معاش تیل کی فروخت ہے۔ نہرو اپنی کتاب Glimpses of World Historyمیں لکھتے ہیں کہ انگریزوں نے 1826سے1886کے درمیان میں اس علاقے پر قبضہ کیا تھا مگر 1935کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت برما کو بھارت سے علیحدہ کردیا گیا،اور4جنوری 1948 کو برطانوی اثر سے یہ ملک آزاد ہوا ، دوسری جنگ عظیم کے دوران برما پر جاپان کا بھی قبضہ رہا، یہاں اکثریت آبادی بدھ مت جبکہ عیسائی اور مسلمانوں کی بھی محدود تعداد موجود ہے،اسی اقلیت کی وجہ سے مسلسل بے چارے نہتے مسلمانوں کو وقتاً فوقتاً ظلم وبر بریت کا نشانہ بنایا جا تا ہے ۔







                               (مظلوم مسلمان) 
       خوداقوامِ متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں راکھین کے روہنگیا مسلمانوں کو ’’روئے عالم کی مظلوم ترین اقلیت‘‘ قرار دیا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق تو دور کی بات انہیں اپنے آپکو ملک کا شہری کہلانے کا بھی حق حاصل نہیں ہے۔ میانمار غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جو محض مذہبی عناد کی وجہ سے اپنے شہریوں کو شہری تسلیم کرنے سے انکارکررہی ہے۔ اگست 2012ء میں برطانوی ٹی وی چینل ’چینل فور‘ نے ایک دستاویزی رپورٹ نشر کی جس میں بتایا گیاکہ کس طرح مسلمان، کیمپوں میں جانوروں والی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں تقریباً 10 ہزار مکانات کا ملبہ بھی دکھایا گیا جس کے بعد اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین نے اپنی رپورٹ جاری کی جس کے مطابق تشدد کی اس لہر میں کم از کم 80 ہزار مسلمان اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ اقوامِ متحدہ کی ایک اعلیٰ عہدیدار ’نوی پلے‘ نے انتظامیہ کے سلوک و رویے کے حوالے سے بھی ایک رپورٹ دی کہ مقامی پولیس اور بدامنی پر قابو پانے کیلئے بھیجے جانے والی فوج بھی بے گناہ مسلمانوں کو ہی نشانہ بنا رہی ہے۔ 

اکتوبر 2012ء میں جب مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے مسلمانوں کی مدد کے لئے میانمار میں دفتر کھولنے کی اجازت طلب کی تو میانمار کے صدر نے اجازت دینے سے انکار کر دیا ، ہیومن رائٹس واچ نے بارہا عالمی برادری کے سامنے بے شمار ٹھوس دستاویزی اور تصویری ثبوت پیش بھی کئے اور اس ضمن میں اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری’’ جنرل بان کی مون‘‘ سے بھی اپیل کی کہ وہ تشدد روکنے میں اپنا کردار ادا کریں لیکن یہ ساری کوششیں بے سود رہیں۔ 
اور یہ ظالم حکومت تسلسل کے ساتھ 2013،2014،2015،2016اور 2017 میں اپنی ظلم وبر بریت کو جاری کئے ہوئی ہے ،ابھی حال کے ظلم وبربریت میں لاکھوں مسلماں اپنا جان مال اور خاندان کو خیر آباد کر چکے ہیں ، ۳/ستمبر کی رپوٹ کے مطابق تقریبا ۷۱۰۰۰ ہزارمسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لئے ہوئے ہیں ،تو کئی ہزار تھائی لینڈ،ہندوستان اور پاکستان میں خفیہ طور پر سرحدی علاقے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ،صرف روہنگیا میں ۲۶۰۰ ہزار گھروں کو آگ لگاکر جلادیاگیا جس میں کتنے ہی بچے اورمردو عورت جل کر راکھ بن گئے ۔







حضرات ! اس المیہ میں ہم دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا ومفتی ابوالقاسم نعمانی مدظلہ العالی کا پیپرمیں مذکور بیان بھی ذکر دیتے ہیں ، حضرت نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر نہایت رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ ،حقوق انسانی تنظیموں اور حکومت ہند سے مؤثر اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے ،حضرت نے فرمایا جس بے رحمی کے ساتھ برما میں روہنگیا کے مسلمانوں کا قتل عا م اور انکی خواتین کی آبروریزی کی جارہی ہے تا ریخ میں اسکی مثال مشکل سے ملتی ہے ...........سوشل میڈیا پراس انداز کے مناظر سامنے آرہے ہیں آنکھیں انکو دیکھ نے کی تاب نہیں رکھتی ہیں، اگر یہی ظلم وستم اور قتل و غارتگری مسلمان کے علاوہ دیگر طبقہ کے ساتھ ہوتی تو اب تک دنیا اور میڈیا نیز ’’ یو ان او ‘‘میں چیخ پکار شروع ہو جاتی ؛لیکن یہ معاملہ مسلمانوں سے وابستہ ہے؛ اس لئے پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہے ۔حضرت نے فرمایا ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی میانمار گئے لیکن انہوں نے بھی اس مسئلہ کو بہت ہلکے انداز میں پیش کیا ،انہوں نے وہاں وہ آواز نہیں اٹھائی جو وقت کی ضرورت تھی ۔
ساتھ ہی جمیعۃ العلماء ہند نے اس سلسلے میں مطالبہ کرتے ہو ئے کہا (۱) بلاتاخیر انسانی المیہ کی بین الاقوامی انکوئری کرائی جائے اور متأثرین تک عالمی میڈیا اور رفاہی اداروں کی رسائی کی اجازت دی جائے ،(۲) انتہائی کسمپرسی کے عالم میں کیمپوں میں پناہ لئے متأثرین کی بارآبادکاری کی جا ئے (۳)روہنگیا کے مسلمان کو شہریت دی جائے (۴) جو لوگ حالات سے متأثر ہو کر دوسرے ممالک میں پناہ لے چکے ہیں انہیں متعلقہ ممالک رفیوجی کا درجہ دیکر ان کے ساتھ انسانی سلوک کرے اور ہر ممکن انکی مدد کرے۔ 
آل انڈیا متحدہ محاذ کے ذریعہ محاذ کے قومی صدر شاہنواز آفتاب کی قیادت میں ایک’’ میمورنڈم ‘‘اے ڈی ایم کے ذریعہ وزیر اعظم نیرندر مودی اور اقوام متحدہ کے نام ارسال کیاگیا ،میمورنڈم میں وزیر اعظم نریندر مودی سے میانمار حکومت کے ذریعہ جاری مسلمانوں کی قتل عام بند کرنے کی اور اقوام متحدہ سے مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے ۔






(ہم کیاکریں )

       حضرات ! نہ تو ہمیں کوئی غلط قدم اٹھانی ہے اور نہ ہمارے علماء کرام واکابرین عظام اسکی اجازت دیتے ہیں،بس ہم دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ پوری دنیا کو ظالموں سے نجات دے اور رہی بات ان بے چارے مسلمانوں کی تعاون کا توبقول مولانا یاسر ندیم کے ’’اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ بنگلہ دیش اور برما کی سرحد پر پھنسے ہوے لاکھوں مہاجرین کی امداد کی فکر کی جائے۔ لیکن پریشانی یہ ہے کہ بیرون ملک ترسیل زر کے قوانین ہندوستان میں بہت سخت ہیں، نیز ایسی کوئی تنظیم بھی میری معلومات کی حد تک موجود نہیں ہے جو بنگلہ دیش اور برما تک رسائی رکھتی ہو۔ میں نے برطانیہ کی دو اور ترکی کی ایک رفاہی تنظیم سے جو برما تک رسائی رکھتی ہیں رابطے کی کوشش کی ہے، ابھی تک صرف ایک برطانوی رفاہی ادارے نے جواب دیا ہے، لیکن اس تنظیم کے برطانوی اکاؤنٹ تک روپیے ٹرانسفر کرنا بھی کسی مہم سر کرنے کے مرادف ہے۔ہندوستان میں موجود ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کی مدد بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ حیدرآباد کی ایک تنظیم فعال انداز میں ان کی حتی الامکان معاونت کررہی ہے، ساتھ ہی اس تنظیم نے ماہر ترین وکلا کی مدد سے سپریم کورٹ میں کیس بھی داخل کیا ہے، جس کا فیصلہ گیارہ ستمبر کو آنا ہے۔ فوری طور پر کم از کم ایسے رفاہی اداروں کی مدد سے بے گھر برمی مسلمانوں کا تعاون کرنا ہمارا ملی فریضہ ہے۔

(حرف آخر)

آخری بات جو آپ سے کرنی ہیں کہ بھائیو! ہم سب تمام مسلمانوں کیلئے عموماً اور خصوصاً برما کے مسلمانوں کیلئے دعاکریں کہ اللہ تعالی انکی مکمل طور پر حفاظت فرمائے نیز اگر ہو سکے تو انفرادی طور پر اپنا اپنا تعاون بھی ان مظلوموں تک پہونچائیں نیز مسلمانوں کے حالات دن بدن خراب ہوتے ہی جارہے ہیں اس پس منظر میں ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں ہے کہ تمام حالات من جانب اللہ ہی آتے ہیں اورحالات اعمال کے تابع ہوتے ہیں اس لئے ہم سب اپنے ایمان واعمال کو درست کرتے ہوئے اپنے زکوۃ سے تھوڑامال ان کاموں بھی لگا ئیں اور جب بھی زکوٰۃ نکا لیں تو کچھ رقم ان حالات کے لئے بھی مختص کردیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اور پوری ملت اسلامیہ کی حفاظت فرمائے ،آمین

Thursday, September 7, 2017

قرآن



 


بسم اللہ الرحمن الرحیم

(قرآن اورموبائل )


    آج اس دور ترقی میں جہاں بہت ساری سہولتیں مہیا ہو گئی ہیں وہیں پر موبائل اور کمپیوٹر میں برقی کتابوں کا پڑھنا اور لکھنا ہے ،اسی بنیاد پر راقم نے ایک  مدلل اور محقق کتاب بنام "موبائل کے مسائل "تالیف کیا تھا ،جسکو ارباب علم وفن نے بہت تعریف کرتے ہوئے استفادہ کیا ،یہ مختصر اور مفید مضمون افادہ عام کے پیش نظر اسی کتاب مذکور سے پیش کیا جارہاہے ۔
سوال : موبائل یا کمپیوٹر میں براہ راست یا انٹر نیٹ کے ذریعہ قرآن کریم کی تلاوت بغیر وضو کے کرنا کیسا ہے ؟

جواب : صفحہ پلٹ نے کے لئے اسکرین کو چھو نا نہیں پڑ تا ہو توپھربغیر وضو کے قرآن کی تلاوت جائز ہے ،چاہے قرآن کسی کاغذ پر نمایاہو یاموبائل یاکمپیوٹر کے اسکرین پرتا ہم باوضو قرآن کی تلاوت بہتر ہے ’’ ولا یکرہ للمحدث قرأۃ القرآن عن ظھر القلب..... (آپ کے مسائل اور انکا حل۳/۱۵۷بحوالہ خلاصۃ الفتاویٰ ۱/۱۰۴ )

نیز انٹر نیٹ سے قرآن ڈاؤن لوڈ کرکے پڑھنے میں یا براہ راست انٹر نیٹ ہی پر پڑھنے میں اس بات کاخیال ضرور رکھنا چاہیے کہ کہیں دشمنان اسلام نے نسخہ قرآنی میں تحریف کرنے کی کوشش تو نہیں کیا ہے ۔ اس لئے بہتر ہے کہ غیر حافظ براہ راست انٹر نیٹ پر قرآن نہ پڑھے۔ 
سوال : اسکریں ٹچ موبائل میں قرآن کی تلاوت بغیر وضو کے اس طرح کرنا کہ صفحہ پلٹ تے وقت انگلی ٹچ کر کے صفحہ پلٹ دے کیا اس طرح محدث کے لئے انگلی سے صفحہ پلٹ کر قرآن کی تلاوت کر نا درست ہے ؟ 
جواب : جب اسکرین پر قرآن ظاہر ہو تو بھر اس اسکرین کا حکم وہی ہے جو قرآن کے صفحہ کا ہو تا ہے اس کو بغیر وضو کے چھونا جائز نہیں ہے خواہ جس جگہ انگلی ٹچ کیا ہے اس جگہ قرآن لکھا ہو یا اس جگہ نہ لکھاہو قرآن ظاہر ہو نے کی صورت میں پورے اسکرین کا حکم قرآن کے صفحہ جیسا ہے ،ہاں اگر انگلی کے بجائے قلم وغیرہ سے ٹچ کر کے صفحہ پلٹا جا ئے تو جائز ہوگا ۔والصحیح منع مس حواشی المصحف والبیاض الذی لا کتابۃ علیہ ھکذا فی التبیین (عالمگیری ۱ /۱۳۹ شاملہ )
والمحدث اذا کان یقرأ القرآن بتقلیب الاوراق بقلم او سکین لاباس بہ ( عالمگیری ۱ /۳۱۷ شاملہ)
سوال : کمپیوٹر میں بغیر وضو کے قرآن کی تلاوت کرنا جائزہے ؟
جواب:جائز ہے کیونکہ اسکرین پر ہاتھ لگانے کی ضرورت نہیں پرتی ہے، صفحہ بٹن سے پلٹ جا تا ہے ’’والمحدث اذا کان یقرأ القرآن بتقلیب الاوراق بقلم او سکین لاباس بہ‘‘ ( عالمگیری /۳۱۷ شاملہ )
سوال :کیا موبائل سے جنبی اور حا ئضہ کے لئے قرآن کی قرآت سنناجائزہے ؟
جواب : جائز ہے جنبی اور حائضہ کے لئے صرف پڑھنے کی اور چھونے کی اجازت نہیں ہے ،باقی دوسرے کی قرآت سن سکتے ہیں۔’’ لَاْیَمَسَّہِٗ الِّا الْمُطَھَّرُوْن (واقعہ /۷۹) ولایکرہ النظر الیہ ای القرآن لجنب وحائض و نفساء (شامی ۱/۱۷۳ )
سوال :کیا موبائل ،ای میل وغیرہ سے آیات قرآنی کو ڈلیٹ کر سکتے ہیں ؟ 
جواب: کر سکتے ہیں،اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ’’الکتب التی لاینفع بھا یمحی عنھا اسم اللّہ وملائکتہ ورسولہ ویحرق الباقی‘‘ (شامی۶ /۴۲۲ ، ) ولو محا لوحاً کتب فیہ القرآن واستعملہ فی امر الدنیا یجوز‘‘ (عالمگیری ۵ /۳۲۲) شاملہ)

کچھ اہم مضامین کے لنک


(1)موبائل کے فائدے                                           (2) موبائل کے نقصانات
(5)موبائل کا رنگ ٹون                                         (6)فلم اور ویڈیو دیکھنا
(7)ویڈیو گرافی اور تصویر کشی                              (8)مس کال
(9)سیم کارڈ                                                      (9)بیلنس اور ریچارج 
(10)واٹساپWhatsapp                                              () ایس ایم ایس
(12) موبائل                                                             (13)میموری کارڈ کے مسائل