سوال :موبائل سے تصویر کھینچنا کیسا ہے ؟
جواب : حرام ہے تصویر کھینچ نے والے اور کھینچ وانے والے کو جہنم میں جانا پڑیگا حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ان سے کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے تخلیق کیا ہے اسکو زندہ کرو ( مسند احمد ۳ /۷۹ )نسائی کی روایت میں ہے اسکو اس بات کا مکلف بنایا جائے گا کہ وہ اس میں روح پھونکے یعنی جان ڈالے مگر وہ ایسا نہیں کر پائے گا ( نسائی ۲/۲۵۶،ان اشد الناس عذابا عند اللّہ یوم القیامۃ المصورون ( بخاری۲ /۸۸۰ ) کہ قیا مت کے دن سب سے بدترین عذاب تصویر بنانے والے کو دیا جائیگا۔
’ان عائشۃؓ ان النبیّ ﷺ لم یکن یترک فی بیتہ شیأًفیہ تصالیب الا نقضہ ( بخاری ۲ /۸۸۰)
اس کے علاوہ بہت ساری احادیث ہیں جن سے تصویر کھینچ نے اور کھینچوانے کی حرمت معلوم ہو تی ہیں خواہ وہ کسی الہ لہو کے ذریعہ تصویر لی جائے بقول حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ تصویر کی حرمت جن احادیث سے ثابت ہو تی ہیں وہ حد تواتر کو پہونچی ہوئی ہیں ( تصویر کے شرعی احکام /۴۴)
سوال :جس موبائل میں جاندار کی تصویر یا فلم ہو اس کو جیب میں رکھ کر نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
جواب: اولا موبائل میں یہ چیزیں رکھنا درست نہیں ہے لیکن اگر کسی نے ایسا موبائل رکھ کر نماز پڑھ لی تو نماز ہو جائی گی ۔ان اشد الناس عذابا عند اللہ یوم القیامۃ المصورون ( بخاری ۲ : ۸۸۰ )
وفی الخلاصۃ من کتاب الکراھیۃ رجل صلی وفیھا تماثیل ملک لاباس بہ لصغرھا ( البحر الرائق۲ /۳۰مکتبہ شاملہ )
سوال : جس مو بائل میں تصویر ہوں ان کو سامنے رکھ کر نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
جواب : موبائل کو سامنے رکھ کر نماز پڑھنے سے بعض دفعہ خود نمازی کا یا دوسرے شخص کا دوران نماز ذہن منتشرہو نے کاخطرہ ہے اس لئے موبائل کو آف کرکے جیب میں رکھ لے یا نہیں تو گھر میں رکھ کر جا ئے ،تاہم کسی نے ایسا موبائل رکھ کر نماز پڑھ لی تو نماز ہو جائیگی۔اگراسکرین پر تصویر نظر آنے کی حالت میں نماز پڑھی گئی تو پھر نماز مکروہ تحریمی ہو گی ۔وفی الخلاصۃ من کتاب الکراھیۃ رجل صلی وفیھا تماثیل ملک لاباس بہ لصغرھا ( البحر الرائق۲ /۳۰مکتبہ شاملہ وکذافی الشامی باب ما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیھا )
سوال : تفریح طبع کے لئے کسی واقعہ کا ویڈیو گرافی کرنا کیسا ہے ؟
جواب : ویڈیو گرافنگ خواہ موبائل کے ذریعہ ہو یا کسی اور آلات لہو سے حرام و ناجائز ہے جب فوٹو گرافی کی حرمت پر بے شمار احادیث وآثار ہیں تو پھر ویڈیو گرافی تو فٹوگرافی کا باپ ہے وہ اشد حرام ہوگا ۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن تصویر بنانے والے سے کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے تخلیق کیا ہے اسکو زندہ کرو ( مسند احمد ۳ /۷۹ )نسائی کی روایت میں ہے اسکو اس بات کا مکلف بنایا جائے گا کہ وہ اس میں روح پھونکے یعنی جان ڈالے مگر وہ ایسا نہیں کر پائے گا ( نسائی ۲/۲۵۶،ان اشد الناس عذابا عند اللّہ یوم القیامۃ المصورون ( بخاری ۲ / ۱۰۷۲ ) کہ قیامت کے دن سب سے بدترین عذاب تصویر بنانے والے کو دیا جائیگا۔
سوال : کسی حادثہ کے وقت موبائل کے ذریعہ ویڈیو بنا لینا تاکہ بوقت ضرورت دلیل کے طور پر پیش کیا جائے کیسا ہے ؟
جواب : مذکورہ مقصد کے پیش نظر ویڈیو بنانے میں علماء کرام کی دو جماعتیں ہیں بعض حضرات اجازت دیتے ہیں اور بعض حضرات نے ممانعت کی مطلق صورتوں میں اس کو بھی شامل کیا ہے اس لئے کسی حادثہ کے وقت موبائل کے ذریعہ ویڈیو بنانے یا تصویر کشی سے احتراز کرناچاہیے ۔( مسائل موبائل / ۲۹ )
سوال : موبائل پر کسی کی تصویر لیکر اس کی حلیہ بگاڑنا کیسا ہے ؟
جواب :حرام ہے ۔قال قتادۃ بلغناان النبی ﷺ کان یحث علی الصدقۃوینھی عن المثلۃ(بخاری ۲/۶۰۲ )
سوال :جاندار کی تصویر لیکر کارٹون بنانا کیسا ہے ؟
جواب: موبائل پر یا اور کسی شی پر کارٹون بنانا جائز نہیں ہے کیونکہ اولاً جاندار کی تصویر کھینچنا حرام ہے ،دوسری بات اس میں وقت کا ضائع کرناہے نیز اس میں صاحب تصویر کی اہانت کا پہلو بھی ہے اس لئے کارٹون بنا ناحرام ہوگا ۔ بخاری باب بدؤالخلق میںہے ’’من صنع الصورۃ یعذب یوم القیامۃ یقول احیو ماخلقتم ‘‘قال قتادۃ بلغناان النبی ﷺ کان یحث علی الصدقۃوینھی عن المثلۃ(بخاری ۲/۶۰۲ )
سوال :مسئلہ دریافت ہے کہ ملک کے حالت کے پیش نظر ہمارے یہاں چند گڑھ کولہاپور کی پولس ٹیشن سے تمام مسجد ومندر میں سی سی کیمرہ لگا نے کا حکم دیا ہے۔کیا مسجد میں سی سی کیمرہ لگا سکتے ہیں؟
جواب :سی سی کیمرے میں چونکہ صورت پائیدار ہوجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس میں تصویر ایک مدت تک باقی رہتی ہے؛ اس لیے سی سی کیمرے لگوانا جائز نہیں، تاہم اگر اس کے بغیر چارہ نہ ہو اور نہ لگوانے کی صورت میں مسائل درپیش ہوسکتے ہوں تو بمجبوری لگوانے کی گنجائش ہوگی؛ لیکن اگر لگوائے بغیر کام چل سکتا ہو تو اس سے بچنا ضروری ہوگا۔مسئلہ مذکورہ کا جواب دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند سے حاصل کیاگیا ہے ۔
از:فخر الاسلام عفی عنہ، نائب مفتی 24/5/1437
Fatwa ID: 594۔652/L2367/1437
الجواب صحیح: حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ، محمود حسن بلند شہری غفرلہ مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند