Friday, April 21, 2017

فلم اور ویڈیو

بسم اللہ الرحمن ارحیم

(فلم بینی اور ویڈیوگرافی کی حرمت)

      اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’ وَمِنَ النَّاسِ مَن یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیثِ لِیضِلَّ عَنْ سَبِیلِ اللّٰہِِ بِغَیرِ عَلْمٍٍ وَّیتَّخِذَ ھَا ھُزُوًا اُوْلٰئکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِینٌ ( لقمان/۶ )
اور بعض ایسا(بھی)آدمی ہے جو ان باتوں کاخریدار بنتاہے جو اللہ سے غافل کر نے والے ہیں تاکہ اللہ کی یاد سے بے سمجھے گمراہ کر دے اور اسکی ہنسی اڑاے ایسے لوگوں کے لئے ذلت کاعذاب ہے ،

اس آیت میں اللہ تعالی نے لھو الحدیث سے منع کیا ہے لہو الحدیث سے مراد گانابجانا ،ویڈیو گرافی ، فلم بینی، تصویر کشی ہے بلکہ ہر ایسا عمل جو اللہ کی یادسے غافل کر دے وہ سارے اعمال اس آیت کریمہ میں داخل ہیں،
تفسیر روح المانی میں ہے علی ماروی عن الحس (لھو الحدیث ) کل ماشغل عن عبادۃ اللّہ وذکرہ من السمر والضاحیک والخرافات والغناء ونحوھا....(روح المعانی ) 
کہ حضرت حسن ؒ سے مروی کہ آیت کریمہ میں (لھو الحدیث ) سے مراد ہر وہ چیزہے جو اللہ کی عبادت اور اس کی یاد سے غافل کردے مثلا: قصہ گوئی ، ہنسی مزاح،خرافات کی باتیں،گانا بجانا وغیرہ .....
علامہ حصکفی ؒ فتاویٰ بزازیہ کے حوالے سے فرماتے ہیں ’’ استماع صوت الملاھی کضرب قصب ونحوہ حرام لقولہ علیہ السلام استماع الملاھی معصیۃ والجلوس علیھا فسق والتلذذبھا کفر (الدر المختارمع الشامی ۹/۵۰۴ ) 
یعنی گانابجانا سننا جیسے کے باجے کی آواز وغیرہ حرام ہے آپ ﷺ کی فرمان کی وجہ سے کہ گانا بجانا سنناگناہ ہے اور ایسی جگہ بیٹھنا فسق ہے اور اس سے لذت حاصل کرنا کفر ہے ۔
یہ تو ہم نے چند عبارتیں بطور استشہاد کے پیش کےئے ہیں ورنہ تو بے شمار نصوص سے فلم بینی اور ویڈیو گرافی کی حرمت ثابت ہو تی ہے چنانچہ حضرت مفتی اعظم محمد شفیع صاحب اپنی مشہور کتاب ’’ تصویر کے شرعی احکام‘‘ میں فرماتے ہیں کہ تصویر کی حرمت پر جو احادیث مروی ہیں وہ حد تواتر کو پہونچی ہوئی ہیں ۔
لیکن آج اس دورفتن میں ویڈیو گرافی اور فلم بینی کس قدر عام ہو چکی ہے وہ نہایت بے حیائی اور بے شرمی کی بات ہے ،شادی بیاہ ہو یااور کسی قسم کا پروگرام ،بے دریغ ویڈیو گرافی کی جاری ہے اور ظلم تو یہ ہے اس کو گناہ بھی نہیں سمجھاجاتا ہے ،یاد رکھیں گانے بجانے سے دل میں نفاق پیداہو تاہے ،آپ ﷺ کا فر مان ہے گانے بجانے سے دل میں نفاق ایساہی پیدا ہوتا ہے جیسا کے پانی سے کھیتی نکل آتی ہے ( مشکوۃ عن جابر باب بیان الشعر / ۴۱۱ )
سینما دیکھنے کے کئی نقصانات ہیں ،اس کے چند نقصانات حسب ذیل ہیں،
(۱) اسمیں غیر محرم کا دیکھنا اور دیکھانا ہو تاہے جبکہ قرآن میں اس کی حرمت صاف طریقہ سے ذکر کیا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ وَقُل لِّلْمُوؤ مِنَاتِ یغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَیحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنّ ( النور پارہ ۱۸ )
کہ آپ مؤمنہ عورتوں کو کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہوں کو جھکائے رکھے اور اپنے شرم گاہ کی حفاظت کرے ۔ایک حدیث میں آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ کی لعنت ہے اجنبی عورت کو دیکھنے والے پر اور اس عورت پر جس کو دیکھا جائے (مشکوٰۃ باب النظر الی المخطوبہ )
(۲) اس میں گانا بجانا ہو تا ہے جس کی حرمت میں تو ایک فاسق ہی شک وشبہ کر سکتا ہے ،(۳) تصویر سے لذت حاصل کیا جاتاہے ، جوکہ حرام وناجائز ہے۔در مختار میں ہے کہ ’’والتلذذ بھا کفر‘‘ کہ گانا بجانا سے لذت حاصل کرنا کفر ہے ۔
(۴) اس میں فضول خرچی بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ وَلَاْتُسْرِفُوْٓا اِنِّ اللّٰہَ لَاْ یُحِبُّ الْمُسْرِفِین ( اعراف /۳۱ )کہ تم فضول خرچی مت کرو فضول خرچی کرنے والے کو اللہ پسند نہیں کرتے ۔ 
(۵)اس میں قیمتی وقت بھی ضائع ہو تا ہے ،
اس لیئے فلم بینی علی العموم حرام وناجائز ہے، چا ہے سنیما حال میں دیکھی جائے یا ٹی وی اور موبائل پر، فلم بنانا اور اس کا دیکھنا اور اسکی سی ڈی بیچنا یا اس کو کسی کے موبائل پر لوڈ کر نا ہر حال میں منع ہے اس سے معاشرہ میں بے حیائی عام ہو تی ہے، بعض حضرات نے کیمرہ کی تصویرکومجسم سازی سے الگ تصور کیا ہے اور کیمرہ کی تصویر پرحلت کاجو فتویٰ دیا ہے وہ انکی خطا ہے کیونکہ دونوں تصویر کا مقصد ایک ہی ہے اور دونوں کے اندر علت ایک ہی طرح کی پائی جاتی ہے بلکہ کیمرہ کی تصویر میں علت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اس لئے اس کی حرمت میں بھی شدت ہو گی چنانچہ علامہ عبدل الکریم زیدان فرماتے ہیں ’’ فھی اولیٰ بالمنع والحضر من الصور بالید ‘‘ ( المفصل فی احکام المرأ ۃ والبیت المسلم ۳/۴۶۹ مکتبہ موئسسۃ الرسالۃ بحوالہ ،ڈیجیٹل کیمرہ کی تصویر پر مفصل و مدلل فتوے ) ترجمہ :کہ کیمرہ کی تصویر بدرجہ اولیٰ حرام ہے اس تصویر کے مقابلے میں جس کو ہاتھ سے بنائی جائے ۔
اس عاجز نے مذکورہ بالا عنوا ن سے متعلق چند مختصر کلمات کو قلمبند کیا ہے ،جن احباب کو مزید اس عنوان پر تفصیل مطلوب ہو وہ مندرجہ ذیل کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔(تصویر کی شرعی احکام ،ڈیجیٹل کیمرے کی تصویر کی حرمت پر مفصل و مدلل فتویٰ، فتاوی محمودیہ جلد ۱۹)
سوال : کیا انبیاء کرام پر بنائی گئی فلموں کو دیکھ سکتے ہیں ؟
جواب : حرام وناجائز ہے ، اس سلسلے میں فتاوی بینات سے ایک سوال اور دارالافتاء بنوریہ ٹاؤن کا جواب اختصار کے ساتھ نقل کرتا ہوں جس سے خود سمجھ میں آجائے گا کہ یہ ایک بہت بڑا فتنہ ہے ،
فتاوی بینا ت میں ہے کہ کسی نے ایسی سی ڈی خریدکرلا یا اور مسئلہ دریافت کیا کہ کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ میں نے بازار سے چند سی ڈیز خریدی بظاہر انبیاء کرام ؑ کی معلومات پر مبنی تھیں لیکن جب میں نے انہیں دیکھاتو وہ اردو تر جمہ کے ساتھ مختلف افراد کو انبیاء کرام ؑ کی شکل میں دیکھاکر انکی زندگی کے مختلف واقعات قلم بند کئے تھے حضرت یوسف ؑ پر بنائی گئی فلم میں انہیں بازار میں فروخت ہوتے ہوئے ، زلیخا کی جانب سے آپ سے جنسی تعلق قائم کرنے کی کوشش کے علاوہ حضرت یعقوب ؑ سمیت ان کے تمام دس بیٹوں کو دکھایا گیا ۔فلم کے بعض مناظر میں حضرت یعقوب ؑ کو معاذ اللہ اپنی حاملہ بیوی سے بوس و کنار کرتے ہوئے ،حضرت یعقوب ؑ کی صاحبزادی کو شراب پیتے ہوئے بعد ازاں انکے ساتھ زیادتی کا واقعہ بھی بتایا گیا ، حضرت سارہ کو نیم برہنہ حالت میں بتایا گیا ہے ،پردے کی پیچھے سے آنے والی آواز کواللہ کی آواز بتایا گیا ہے وغیرہ وغیرہ........ یہ تو سوال کا اختصا ر ہے اس سوال ہی سے ان جیسی فلموں کا دیکھنا اور ان کی خرید وفروخت کی حرمت معلوم ہو جا تی ہے تا ہم تھوڑاجواب کا اقتباس فتاوی بینا ت سے بھی نقل کرتے ہیں ، ’’ بہر حال اس کے پیچھے محرک جو بھی ہو انبیا کرام ؑ مسلمانوں کے ہاں معصوم ہیں اور گناہوں سے پاک ہستیاں ہیں جیسے نبی آخر الزماں کی تو ہین وتنقیص کفر اور موجب سزاہے اسی طرح دیگر تمام انبیاء کرام ؑ کی یا ان میں سے کسی ایک بنی کے بارے فلمیں بنانا اور عام گناہگار انسانون کو انبیاء کرام ؑ جیسی معصوم و مقدس ہستیوں کے طور پر پیش کرنا اور اللہ تعالی ٰ کے معصوم ومقدس انبیاء کرام ؑ کو نازیبا حرکتیں کر تے ہوئے دیکھنا انبیا ء کرام کی کھلی توہین و تنقیص ہے ،آ گے فرماتے ہیں اس کے ساتھ علماء کرام اورعوام الناس کا فریضہ بنتا ہے کہ ان سی ڈیز کے خلاف آواز بلند کرے اور انکی بندش وضبطی کی ہر ممکن کوشش کریں اور تاجر حضرات انکی خرید وفروخت سے کلےۃ باز آئیں کہ ان کی خرید وفروخت ناجائز وحرام ہے ۔ ( ماخوذ فتاویٰ بینات ۱ / ۱۱۸ )
سوال : اسلامی فلم دیکھنا کیسا ہے ؟ 
جواب : حرام ہے بنانے والا ، دیکھنے والا،بیچنے والا، خریدنے والا سب کے سب گناہگار ہیں۔ ( آپکے مسائل اور انکا حل ۸ /۴۳۳ )
سوال : قرآن میں مذکور واقعہ پر بنائی گئی فلم کا دیکھنا کیسا ہے ؟ 
جواب : خیر الفتاوی میں ہے ’’ قصص قرآنیہ کی فلم سازی ایک فتنہ ہے اور ایسے فتنے یہود ونصاری کی نقالی میں یورپ سے در آمد کئے جاتے ہیں ایسے فتنوں کی ابتداء کیسے ہی کیوں نہ ہو انجام گمراہی کے سوا کچھ نہیں لہذا ایسی فلمیں تیار کرنا اور ٹی وی پر انکی نمائش کرنا شرعاً درست نہیں ہے ، ( خیرالفتاوی ۱ / ۲۲۶ )
سوال : حج کا فلم بنا نااور دیکھنا کیسا ہے ؟
جواب : آ پ کے مسائل اور انکا حل میں ہے ’’ جہاں تک حج فلم کا تعلق ہے تو اس کا بنا نے والا بھی گناہگار ہے اور دیکھنے والا بھی دونوں کو عذاب ہوگا اور لعنت کا پورا پورا حصہ ملے گا دنیا میں تو مل ہی رہا ہے اور آخرت کا انتظار ہے ۔ ( آپکے مسائل اور انکاحل ۸/۴۳۳ وکذا فی کفایت المفتی ۹ /۲۰۵ )
سوال : موبائل پر کرکٹ میچ دیکھنا کیسا ہے ؟
جواب : اس میں تضیع اوقات ہے نیز میچ کے دوران فحش تصاویر اور غلط اشتہار وغیرہ بھی دیکھایا جا تا ہے جس سے بچنامشکل ہے اس لئے مو بائل پر یا ٹی وی وغیرہ پر میچ کا دیکھنا درست نہیں ہے ۔ قال رسول اللّہ ﷺ من حسن اسلام المرأ ترک مالا یعنیہ ( شعب الایمان )و فی الشامی وکرہ کل لھو ای کل لعب وعبث الاخ ( شامی ۹/۵۶۶) 
سوال : موبائل پر گیم کھیلنا کیسا ہے ؟ 
جواب : اسمیں بھی تضیع اوقات ہے اور لایعنی کام سے احتراز کرنا ضروری ہے اس لئے اس سے بھی بچنا چاہیے ۔(مسائل موبائل / ۲۶ ، کتاب ا لفتاویٰ)
سوال : تصویر والے گیم کا کھیلنا یا ڈاؤن لوڈ کرناکیسا ہے ؟ 
جواب : مطلقاگیم ممنوع ہے پھر اس میں تصویر شامل ہو تو اسکی قباحت دوگنا ہو جاتی ہے ۔(مسائل موبائل / ۲۶ آپ کے مسائل اور انکا حل ۸ /۴۱۳ ) 
سوال : گیم کھیلنا کیوں ممنوع ہے ؟
جواب : اس کی ممانعت کی مختلف وجہیں ہیں ۱؂ اس کھیل سے دینی وجسمانی کوئی فائدہ نہیں ہے اور جو کھیل دونوں فائدہ سے خالی ہو وہ جائز نہیں ۲ ؂ وقت ضائع ہوتے ہیں ۳؂ روپیے ضائع ہو تے ہیں ۴؂ بچوں کے لئے اس کی عادت چھوڑ نا مشکل ہوجاتاہے ۵؂ گیم میں تصویر اور فوٹو شامل ہوتی ہیں ۶؂ اس سے بچوں کا ذہن خراب ہوتاہے۔ ( آپ کے مسائل اور انکا حل ۸ /۴۱۳ )
سوال : مسجد میں موبائل پر کسی دینی ویڈیو کا دیکھنا کیسا ہے ؟
جواب : جب خارج مسجد بھی ان جیسے ویڈیو کا دیکھنا درست نہیں ہے تو پھر مسجد کے اندر کیوں اس کی اجازت مل سکتی ہے ، سراسر یہ غلط ہے اس سے بالکلیہ احتراز کرنا چاہیے ورنہ عین ممکن ہے کہ آئندہ آنے والی نسل بلا تفصیل کے ہر قسم کی ویڈیو مسجد میں دیکھنے اور دیکھانے لگے گی ۔


Tuesday, April 11, 2017

موبائل کی حرمت آوازوساز

حرمت آوازوساز
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(مو بائل میں آڈیو )
گانے بجانے کی حرمت
    موبائل میں آڈیو دو طرح کے چلائے جا تے ہیں ، ۱؂ جس کا سننا حرا م ہے مثلا : گانا وغیرہ ۲؂ جس کاسننا جائز ہے مثلاً : قرأت، بیان اور نعت وغیرہ سب سے پہلے ہم گانا کے متعلق قرآن واحادیث کی روشنی میں کچھ تحریر کرتے ہیں۔
غنا دواعی زنا میں سے ہے اور جس طرح زنا حرام وناجائز ہے اسی طرح شریعت مطہرہ نے دواعی زنا کو بھی حرام ونا جائز کیا ہے چناچہ شریعت نے اجنبیہ عورت کو دیکھنے سے ،ان سے بات کرنے سے اور ان کے ساتھ تنہائی میں ملنے سے منع کیا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا ’’ الغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء البقل (بیہقی کبریٰ۱۰/ ۳۷۷ ، )
کہ گانا دل میں نفاق کو ایساہی پیدا کردیتا ہے جیسا پانی کھیتی کو اگا دیتاہے ،ایک دوسری حدیث میں ہے حضرت انس ابن مالکؓ سے روایت ہے،

’’ ان رسول اللہ ﷺ قال بعثنی اللّہ رحمۃ وھدی للعالمین وبعثنی لمحق المعازف والمزامیر وامر الجاھلیۃ ( شعب الایمان ۸ /۴۷۵ )
کہ آپ ﷺ نے فرمایااللہ تعالیٰ نے مجھے رحمت اور ہدایت بنا کر بھیجا ہے اور مجھے باجوں ،گانوں اور رسم جاہلیت کو مٹانے کے لئے بھیجا ، 
آپ ﷺ کا فرمانا کہ میں گانے بجانے کی چیزوں کو مٹانے کے لئے مبعوث ہواہوں گانے کی حرمت میں اور اضافہ کردیتا ہے حضرت علامہ حصکفی ؒ فرماتے ہیں ’’ استماع صوت الملاھی کضرب قصب ونحوہ حرام‘‘ (در مختار مع شامی ۹ /۵۰۴ )
ان تمام نصوص سے گانے بجانے کی حرمت معلو م ہوئی آئیے تھوڑی سی ہم جدید تحقیقات کے روشنی میں بھی سمجھ لیں کہ گانے بجانے کا سننا انسان کے لئے کتنا مہلک ہے خود انسانی جسم ودماغ کے لئے یہ شیطانی امور کس قدر سم قاتل ہے ،
حضرت مو لا نا پیر ذوالفقار صاحب مدظلہ العالی فرماتے ہیں ’’ چنا چہ پہلے زما نے میں میوزک حرام تھی اس لئے کہ اس میں فقط toneہو تی تھی اور آج کل تو میوزک اس لئے حرام در حرام درحرام ہے کہ اس میں انسان کے ایمان جانے کاخطرہ ہے جتنی پہلے زمانے میں میوزک حرام تھی آج اس کی آپ Raise to ahe power tenتو سو گنا بھی کر دیں تو تھوڑا بنتی ہے ، اس لئے آپ دیکھیں گے جس نوجوان کو میوزک سے دلچسپی ہے آپ لاکھ اسے سمجھائیں وہ کفر کی تہذیب کے خلاف کوئی بات سننا نہیں چاہے گا ،جتنی اپنی طرف لانے کی کوشش کریں وہ مسجد میں آنا نہیں چاہے گا وہ مو لویوں کے پاس بیٹھنا نہیں چاہے گا وہ کسی کی بات سننا نہیں چاہے گاوجہ کیا ؟ میوزک کے ذریعہ سے اس کے دماغ میں اتنا کچھ دین کے خلاف بیٹھا دیا اب وہ قریب آنا نہیں چاہتا میوزک کے ذریعے سے کفر کی تہذیب کے بارے میں اتنی باتیں ڈالدیں گئیں کہ اب وہ اس تہذیب کے خلاف کوئی بات سننا ہی نہیں چاہتا تو میو زک اس وقت کفر کے لئے پیغام انسان کے دماغ میں بھیجنے کا ذریعہ بن گئی ہے
(خطبات پیر ذوالفقار ۱۹/۲۲۷، ۲۲۸)
آگے فر ماتے ہیں نبی علیہ السلام نے فر مایا کے موسیقی (گانے بجانے ) کے سننے سے انسان کے ذہن میں زنا کی خواہش اس طرح جنم لیتی ہے جس طرح بار ش کے برسنے سے زمین کے اندر کھیتی پیدا ہو تی ہے تو یہ فقط touneکی بات تھی اور اب تو tounsکے اندر انہوں نے شیطانی worshipکی باتیں ڈالنی شروع کردیں اگر وہ اس کے اندر Hate your Religion Hate yourReligionیہ پیغام ڈالدے اور آپ کے بچے کو وہ گا نا اچھا لگے اور دن میں اسکو پندرہ بیس دفعہ سن لے تو آپ سمجھ رہے ہیں کہ میرا بیٹا بس میوزک سن رہا ہے اور آپ کو کیا پتہ اس چھوٹے سے آلہ کے ذریعہ آپکا بچہ آپ کے دین کے ساتھ نفرت کرنا سیکھ رہا ہے (خطبات ذوالفقار جلد۱۹ /۲۲۹)
سوال : موبائل پر قرآن کی تلاوت سننا کیسا ہے ؟
جواب : جائز ہے اور برکت کی نیت سے سنیں تو برکت بھی ہو تی ہے۔
( جامع الفتاوی ۴ /۲۷۸ )
سوال : موبائل پر قرآن سننے سے ثواب ملے گا ؟ 
جواب : جامع الفتاوی میں ہے ’’موبائل پر قرآن سننے سے ثواب نہیں ملے گا،کیوں کہ یہ اصل قرأت نہیں ہے ہاں!برکت کی نیت سے سنیں تو برکت ہو گی ‘‘ ( جامع الفتاوی ۴ / ۲۷۸ )اگر باادب ثواب کی نیت سے سنا جائے تو انشاء اللہ ثواب بھی ملے گا (مرتب )

سوال:موبائل پر آیت سجدہ سننے سے کیا سجدہ تلاوت واجب ہو گی ؟
جواب : چونکہ موبا ئل میں سنی گئی قرأت قاری سے براہ راست نہیں سنی جارہی ہے؛ اس لئے سجدہ تلاوت واجب نہیں ہوگی۔ ( جامع الفتاوی ۴ / ۲۷۲ ) 
سوال : تلاوت قرآن کے ساتھ میوزک بھی بج رہی ہو تو کیا اس طرح تلاوت سنناجائز ہے ؟
جواب : قرآن کریم کی مقدس آیتوں کو میوزک ،آلات موسیقی اور آلات لہولعب پرگاگا کر پیش کرناشرعا حرا م و ناجائز ہے ؛کیونکہ اس میں میوزک بجا کر ایک طرف قرآن کریم کی عظمت وتقدس کو پامال کرنے کی کوشش ہے اور دوسری طرف ان میں تجوید کے لازمی اور وجوبی حکم کی خلاف بھی کی جاتی ہے؛ اس لئے اس طرح قرآن کریم کا سننا خواہ موبائل پر ہوں یا سی ڈی ،ڈی وی ڈی یا اور کسی آلات لہو پر، اس میں ایمان جانے کاخطرہ ہے جیسا کہ فتاوی عالمگیری میں ہے ’’ اذاقرأ القرآن علی ضرب الدف والقصب فقد کفر‘‘ (فتاوی عالمگیری کتاب السیر فی احکام المرتدین۲/۲۶۷،آپکے مسائل اور انکا حل ۸ /۴۹۰)

سوال : حمد یا نعتیہ کلام کو میوزک کے ساتھ سننا کیسا ہے ؟
جواب : حرام ہے ،فتاوی بینات میں ہے ،میوزک اور آلات موسیقی پر گا کر ریکارڈ کراے کئے اشعاراور حمد نعتیں وغیرہ چونکہ گانے بجانے کے قریب ہو جاتا ہے اور انکی گانے کے ساتھ مشابہت متحقق ہوجاتی ہے لہذا انکا (سننا )شرعاً ناجائز اور حرام ہے ( فتاوی بینات ۴ / ۴۲۰ )
سوال : موبائل میں دینی بیانات نعتیہ کلام اور قرأت کا سننا کیسا ہے ؟
جواب : جائز ہے جبکہ اس میں تصویر نہ ہوں ۔ (امداد الفتاوی ۵ /۲۴۹)
سوال : بعض حضرات نعتیہ کلام شروع کرنے سے قبل سلام کرتے ہیں کیا اس کا جواب دینا ضروری ہے ؟
جواب : جس مجلس میں حمد ونعت وغیرہ پیش کرنے والے نے سلام کیا اگر اس کو براہ راست سن رہاہو تو اسکے سلام کا جواب دینا واجب ہے، اگر رکاڑڈینگ سے سن رہاہے تو جواب دینا واجب نہیں ہے ،( فتاویٰ محمودیہ ۱۹/۸۴ )
سوال : موبائل پر قوالی سننا کیسا ہے ؟
جواب : قوالی کامعنی مفہوم اگر چہ صحیح ہو اسکو مزامیر گانے بجانے کے ساتھ سننا حرام ہے(عالمگیری ۵ / ۳۵۲ ، آپکے مسائل اور انکا حل ۸ / ۴۲۱ شامی ۹/۵۰۳)
سوال : موبائل کے ذریعہ ایک دوسرے کو نعت ،بیان اور قرات کا بھیجنا کیسا ہے ؟ 
جواب : جائز ہے بشرطیکہ اس میں جاندار کی تصویر نہ ہو ۔وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْویٰ (مائدہ /۲ )
سوال : موبائل سے فلم ،گانا اور تصویر کا بھیجنا کیسا ہے ؟ 
جواب : حرام وناجائز ہے اس میں حرام کی تشہیر ہے اور تشہیر حرام بھی حرام ہے ۔ ولا تَعاونُوا علی الاثمِ وَالْعُدوانِ (مائدہ /۲)
سوال : موبائل پر گانا سننا کیسا ہے ؟
جواب : گاناعلی العموم حرام ہے چاہے موبائل پرسنا جائے یا ریڈیو یا کسی اور الہ لہوپر۔ ’’عن انس ابن مالکؓ قال قال رسول اللہ ﷺ صوتان ملعونا فی الدنیا والآخرۃ مزمار عند نغمۃ ورنۃ عند مصیبۃ ‘‘(ترغیب وتر ھیب ۴ / ۱۸۴) واستماع ضرب الدف والمزمار وغیر ذالک حرام (شامی ۹ /۵۶۶ )
سوال : کیا مسجد میں موبائل پرآڈیو نعت اور بیان سن سکتے ہیں ؟
جواب : اس سے احتیاط کرنا بہتر ہے کہ کہیں دوسرے چیز بھی سنے نہ لگ جائے ، تاہم آڈیو بیان اور آڈیو نعت مسجد میں سن سکتے ہیں اس شر ط کے ساتھ کہ اس سے کسی دوسرے(مصلی، ذاکر ،سونے والے ) کو تکلیف نہ ہو اور اس کا معنی و مفہوم بھی صحیح ہو( فتاویٰ محمودیہ ۱۵ /۲۰۱)

Tuesday, March 28, 2017

موبائل کا رنگ ٹون


بسم اللہ الرحمن الرحیم

(رنگ ٹون)

سوال :اگر دوران صلوٰۃ موبائل کی گھنٹی بجنے لگے تو کیا کریں ؟
جواب : دوران صلوٰۃ موبائل کی گھنٹی بجنے لگے تو اسکی تین صورتیں ہو سکتی ہیں ۱؂موبائل بند ہی نہ کرے اور نماز پڑھتا رہے ،۲؂نماز کو توڑ کر موبائل بند کر ے، ۳؂ نماز میں رہتے ہوئے عمل قلیل کے ذریعہ بند کرے ۔
پہلی صورت کہ موبائل بجتی رہے تونمازتو درست ہو جائے گی لیکن اس صورت میں مسلسل گھنٹی بجنے کی وجہ سے دوسرے نمازیوں کو سخت ناگواری ہوگی اور دوسروں کو اور خود اپنی نماز میں استحضار نہیں رہے گی ۔ دوسری صورت کہ نماز توڑ کر موبائل بند کرے ،اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’ لَاْ تُبْطِلُوْ اَعْمَالَکُمْ‘‘ کے خلاف بھی ہے،تیسری صورت کہ عمل قلیل کے ذریعہ موبائل بندکرے یہ صورت درست ہے اس صو رت میں مو بائل بھی بند ہو جائیگی اور نماز بھی ہو جائے گی ۔(مأخوذمسائل موبائل/۱۵) 
سوال : عمل قلیل اور عمل کثیر کس کو کہتے ہیں ؟

جواب :نماز میں عمل قلیل اور عمل کثیر کی تعیین کے متعلق مختلف اقوال ہیں،زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ ہر ایسا عمل جو نماز کی اصلاح کے لئے نہ ہو اور نہ نماز کے اعمال میں سے ہو اور جس کے کرنے والے کو دیکھ نے والایہ سمجھے کہ وہ نماز نہیں پڑھ رہا ہے تو وہ عمل کثیر ہے اس عمل سے نماز فاسد ہو جائیگی ، اور اگر دیکھنے والے کو یہی گمان ہو کہ وہ نماز ہی پڑھ رہاہے تو پھر وہ عمل قلیل ہے اس عمل سے نماز فاسد نہیں ہوگی ۔ (مجمع الانھر۱/۲۰شامی باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا )
سوال : اگر ایک مرتبہ موبائل بند کرنے کے بعد دوسری مرتبہ پھر موبائل بجنے لگے تو کیا کریں ؟
جواب :دوبارہ پھر عمل قلیل کے ذریعہ بند کر سکتے ہیں بشرطیکہ عمل کثیر تک عمل نہ پہونچے ۔ وھو کل عمل لا یشک الناظر فی عملہ انہ لیس فی الصلاۃ عند عامۃ المشائخ وھو المختار( مجمع الانھر۱ /۱۲۰ )
سوال : زید کا مو بائل دوران نماز بجنے لگے تو کیا دوسرا شخص جو نماز نہیں پڑھ رہا ہے اس کے مو بائل کو بند کر سکتا ہے ؟
جواب : موبائل کی گھنٹی بجنے کی وجہ سے زید کے نماز میں خلل پڑنے کا اندیشہ ہے نیز احترام مسجد کے خلاف بھی ہے اس لئے دوسرے کا موبائل اگر فرش وغیرہ پر ہو تو بند کرسکتے ہیں اور اگر جیب وغیرہ میں ہوں تو تہمت کا اندیشہ ہونے کی وجہ سے دوسرے کے جیب میں ہاتھ ڈالکر موبائل بند نہ کرے بلکہ خود صاحب موبائل کو چاہیے کہ عمل قلیل سے موبائل بند کردے۔ 
سوال : موبائل کا رنگ ٹون کھلا رکھ کر مسجد میں آنا یا نماز پڑھنا کیسا ہے ؟ 
جواب : مسجد میں موبائل کھلا رکھ کر آنا یا نماز پڑھنا احترام مسجد کے خلاف ہے نیز ممکن ہے کہ اچانک گھنٹی بجنے لگے تو مسجد میں شورو غل ہو جائیگا جو مسجد کے احترام کے خلاف ہے اس لئے موبائل آف کرنے کے بعد یا اس کا رنگ ٹون بند کرنے کے بعد ہی مسجد میں آنا چاہیے ۔والسادس ان لا یرفع فیہ الصوت من غیر اللہ تعالیٰ ۔ (عالمگیری ۵/۳۲۱ ، مکتبہ شاملہ)
سوال :مساجد میں موبائل کا رنگ ٹون بجنا کیسا ہے ؟
جواب :مساجد میں موبائل کا رنگ ٹون بجنا یہ ایمان کی کمزوری کی علامت ہے ،نبی رحمت ﷺ نے جس کو جنت کا باغ کہا ہو اس میں شیطانی لہوولعب کالانا اور اسکا بجانا گمراہی ہے ہمارادینی فریضہ کہ ہم مساجد کا ادب احترام کریںآپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت کی نشانی میں سے یہ بھی کہ تم مساجد میں گانے بجانے لگوگے کیا حدیث کی پیشین گوئی آج مساجد میں ہوتا نظر نہیں آتاہے؟ ہم تمام مسلمانوں سے درخواستکرتے ہیں کہ اللہ کے واسطے مساجدکوان ملعون چیزوں سے پاک رکھیں ۔ (ابن ماجہ باب مایکرہ فی المساجد /۵۴)
سوال : کیا تنہا نماز پڑھنے کی صورت میں مو بائل کھلا رکھ سکتے ہیں ؟ 
جواب : نہیں ، کیونکہ ممکن ہے کہ دوران صلوٰ ۃ گھنٹی بجنی شروع ہو جا ئے اور نماز میں خلل پڑجائے ،شامی میں ہے ’’ من المکروھات شیء آخر منھا الصلٰوۃ بحضرۃ ما یشغل البال ویخل بالخشوع کرینۃ و لھو ولعب‘‘ (شامی ۲ / ۴۲۵ زکریا)
سوال : نماز سے قبل موبائل بند کرنے کا اعلان کر نا کیساہے ؟ 
جواب : چونکہ موبائل کا استعمال بہت عام ہو گیا ہے اور عموما لوگ غفلت کا شکار ہو کر بھول جاتے ہیں اسلئے جماعت شروع ہو نے سے قبل اعلان کر نے میں کو ئی حرج نہیں ہے ۔(مسائل موبائل /۲۰ )
سوال : گھنٹی کی جگہ اذان ، آیات قرآنی یا نعت وغیرہ سیٹ کرنے کا کیا حکم ہے؟تاکہ جب فون آئے تو بجائے گھنٹی کے اذان وغیرہ سنائی دے ۔
جواب : رنگ ٹون کا مطلب یہ ہو تا ہے کہ فون والے جان لیں کہ کوئی شخص اس سے بات کر نا چاہتاہے ۔اب اس مقصد کے پیش نظر قرآن یا اذان وغیرہ کا بے جا استعمال ہوگا نیز بعض دفعہ ایسے جگہوں پر بھی بجنے لگتی ہے جہاں اذان ،قرآن اورنعت وغیرہ بجنا خلاف ادب ہوتاہے مثلاً :غسل خانہ ،پیشاب خانہ، طہارت خانہ وغیر،اس لئے موبائل میں رنگ ٹون کی جگہ اذان ،آیات قرآنی ،نعت وغیرہ کا استعمال کر نا درست نہیں اس سے بچنا ضروری ہے ۔یکرہ ان یقرأ فی الحمام لانہ موضع النجاسات ولا یقرأ فی بیت الخلاء کذافی فتاوی قاضی خان( ھندیہ ۵ / ۳۱۶ ، مکتبہ شاملہ ،مسائل موبائل / ۲۱ )
سوال : موبائل کی ٹون میں گانے یا میوزک لگانا کیسا ہے ؟
جواب : موبائل کی ٹون میں گانے یا میوزک لگاناحرام اور ناجائز ہے،اس سے گناہ کا نشر بھی ہوتاہے لہذا بچنا بہت ضروری ہے ’’عن انس ابن مالکؓ قال قال رسول اللہ ﷺ صوتان ملعونا فی الدنیا والآخرۃ مزمار عند نعمۃ ورنۃ عند مصیبۃ ‘‘(ترغیب وتر ھیب۴ /۱۸۴، واستماع ضرب الدف والمزمار وغیر ذالک حرام (شامی ۹ / ۵۶۶ )
سوال : موبائل کی جوابی رنگ ٹون میں گانا فیڈ کر نا تاکہ فون کرنے والے کو رنگ کی جگہ گانا سنائی دے کیسا ہے ؟ 
جواب : موبائل کی جوابی رنگ ٹون میں گانا فیڈ کر نا تاکہ فون کرنے والے کو رنگ کی جگہ گانا سنائی دیے یہ حرام وناجائز ہے نیز اس صورت میں گناہ کہ تشہیر بھی ہوتی ہے اس لئے اس کا وبال بھی گانا فیڈ کرنے والے پر ہو گا ۔

’’عن انس ابن مالکؓ قال قال رسول اللہ ﷺ صوتان ملعونا فی الدنیا والآخرۃ مزمار عند نعمۃ ورنۃ عند مصیبۃ ‘‘ (ترغیب وترھیب ۴ /۱۸۴،واستماع ضرب الدف والمزمار وغیر ذالک حرام (شامی ۹ / ۵۶۶ )
سوال ؛ موبائل کی جوابی رنگ ٹون میں آیات قرآنی کا فیڈ کرنا کہ فون کرنے والے کو رنگ کی جگہ آیات قرآنی سنائی دے کیساہے؟
جواب : موبائل کی جوابی رنگ ٹون میں آیات قرآنی کا فیڈ نہیں کر نا چاہیے کیونکہ اس صورت میں قرآن کو بے محل استعمال کرنا لازم آئے گا نیز عموماً دوران رنگ ہی فون اٹھا لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے آیت کریمہ درمیان ہی سے کٹ جائے گا اور بعض دفعہ کفریہ اور شرکیہ معنی پیدا ہو جائے گا ۔
سوال : موبائل کی جوابی رنگ ٹون میں نعت یا کوئی اور عبرت آموز کلمات فیڈ کر نا تاکہ فون کرنے والے کو رنگ کی جگہ نعت وغیرہ سنائی دے کیساہے؟
جواب : موبائل کی جوابی رنگ ٹون میں نعت یا کوئی اور عبرت آموز کلمات فیڈ کر نا تاکہ فون کرنے والے کو رنگ کی جگہ نعت وغیرہ سنائی دے اس میں کوئی بڑامفسدہ نہیں ہے تا ہم احتیاط کرنا بہتر ہے ۔
سوال : زید نے کسی کو فون لگایا لیکن فون لگنے کے ساتھ ہی جوابی رنگ ٹون کی جگہ گانے کی آواز آنے لگی تو کیا زید گنہگار ہو گا ؟ 
جواب : زید چونکہ بلا ارادہ مجبورا سن رہا ہے اس لئے گنہگار نہیں ہوگا تاہم اس کا گناہ بھی اس شخص کو ہو گا جس نے گاناکوجوابی رنگ میں فیڈ کیا ہے الضرورات تبیح المحظورات ۔
سوال : رنگ ٹون کی جگہ چڑیا کی آواز فیڈ کرنا کیسا ہے ؟ 
جواب : جائز ہے کیونکہ چڑیا کی آواز گانا بجانا میں داخل نہیں ہے،لہذا اس کو موبائل کے رنگ ٹون میں فیڈ کرنا جائز ہے۔ (مسائل موبائل /۲۴ ) 
سوال : موبائل کی الآرم میں اذان یا نعت کا فیڈ کرنا تاکہ الآرم بجنے کے وقت رنگ ٹون کی جگہ کلمات اذان یا نعت سنائی دے کیساہے ؟
جواب : نماز وغیرہ کیلئے الآرم فیڈ کرنا تذکیر میں داخل ہے اور تذکیر کی جگہ کلمات اذان کا فیڈ کر نے میں کوئی حرج نہیں ہے ،ہاں !عام موبائل کی گھنٹی میں فیڈ کرنے سے بے ادبی ہوتی ہے ۔(مسائل موبائل ۲۴ ، بحوالہ بدائع الصنائع ۱ /۳۶۸ )
سوال : سادہ رنگ ٹون کس کو کہتے ہیں ؟ 
جواب : جس رنگ ٹون میں گانا میوزک کا استعمال نہ کیا گیا ہو ۔جیسے لینڈ لائن کارنگ ٹون جورنگ ٹون گانے بجا نے میں داخل نہیں ہیں اس کا استعمال جا ئز ہے ، لیکن وہ حیرت انگیز اور اعجوبہ قسم کانہ ہوں مثلاً : مرغ کابانگ ،بچے کی ہنسنے کی آواز،بچے کی رونے کی آواز یا کسی پرندے کی آواز اس قسم کا رنگ ٹون فیڈ کرنا جائز توہے لیکن میں اس کو مناسب نہیں سمجھتا ہوں کیونکہ اس قسم کے رنگ ٹون سے غیر متعلقہ شخص تھوڑی دیر کے لئے پریشان ہو جاتا ہے ۔
اسی سے ملتے جلتے اہم اور ضروری مضامین