Wednesday, January 11, 2017

تجارت حلال یا حرام



بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس سے قبل عاجز نے ’’ معیشت وتجارت کی فضیلت ‘‘کے عنوان پر مفصل مقالہ نیٹ پر اپنے بلاگ دینی معلومات سے شائع کرچکاہے،الحمد للہ بہت سے تاجر دوستوں نے اس سے استفادہ کیا ہے ،مزید استفادہ کے پیش نظر اس وقت بعنوان ’’تجارت حلال یا حرام ‘‘ کچھ تحریریں شائع کررہاہوں ،اللہ تعالیٰ اسے ذریعہ بناکر شریعت وسنت کے فضاء کو عام وتام فرمادے آمین،

عبادت کی قسمیں

عبادت کی دوقسمیں ہیں (۱) بلاواسطہ یعنی وہ اعمال جو براہ راست عبادت ہیں مثلاً: نماز ،روزہ،حج ،زکوٰۃ وغیرہ (۲) بالواسطہ یعنی وہ اعمال جو براہ راست عبادت نہ ہوں بلکہ کسی امر خارج کی وجہ سے وہ عبادت شمار ہوتا ہو،مثلاً: خریدو فروخت ،کھاناپینا،بیوی سے ملاقات وغیرہ یہ سارے اعمالِ جوازحسنِ نیت کی وجہ سے زمرۂ عبادت میں داخل ہوجاتا ہے ،اورعدم نیت سے وہ اعمالِ جواز محض ایک فعل اور عمل بن کر رہ جاتا ہے جس پر کسی قسم کاثواب مرتب نہیں ہو تا ہے ،
حسن نیت سے بیوی کے منھ میں لقمہ ڈالنا بھی باعث ثواب اور سبب نیکی ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم اپنے اہل وعیال پر جو کچھ خرچ کروگے اسکا تمہیں ثواب ملے گا ،حتی کہ تم کو اس لقمہ پر بھی ثواب ملے گا جو تم اپنے بیوی کے منھ میں ڈالتے ہو ‘‘( بخاری )ایک روایت سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان کو اپنی بیوی سے خواہش (جماع) پوری کرنے پر بھی ثواب ملتا ہے،کیوں کہ اس جماع کی وجہ سے میاں بیوی دونوں ناجائز طریقے سے خواہشات کو پوری کرنے سے روک جائے گااور ناجائز کاموں سے بچنابھی نیکی ہے ۔ 

طالب معیشت کے اقسام

انسان کے احوال اور نیتیں مختلف ہونے کی وجہ سے طلب معیشت میں انسان کی تین قسمیں ہیں ،نمبر ۱؂   وہ لوگ جوطلب معاش میں پڑنے کی وجہ سے معاد سے بے خبر ہو جائے یعنی دنیا کمانے میں اس قدر منہمک ہو جائے کہ اعمال شریعت اور افعال دینیہ سے دور ہوجائے، یہ لوگ دنیوی اعتبارسے کتناہی مالدار کیوں نہ ہو جائیں؛ لیکن اخروی لحاظ سے یہی لوگ کنگال ہیں،یہ راہ راست سے بھٹک کر ہلاکت وبربادی کے راستہ پر گامزن ہیں ،جن آیتوں اور احادیث میں دنیا کوفتنہ ، ملعون،مبغوض ،مردود، مردار،وغیرہ بتایا گیا ہے ،ان تمام آیات و احادیث کا صحیح مصداق یہی قسم اول کے لوگ ہیں ،انہیں کے لئے طلب معیشت ناجائز اور قابل گرفت ہے، نمبر ۲؂وہ نفوس قدسیہ جو معاد کی وجہ سے معاش سے بے نیا ز ہو جائے ، یعنی ذکرواذکار، عبادت وریاضت میں اس قدر مست ہو ں کہ انکو حضور قلبی کی دولت عظمیٰ حاصل ہو چکی ہو ،جس کی وجہ سے دنیا کا طلب کسی بھی درجہ میں ان کیلئے وحشت ہی وحشت ہو،ایسے مقدس حضرات کو اللہ تعالیٰ اپنے غیبی نظام کے تحت رزق عطافرمادیتے ہیں یا پھر انکے لئے فقر اور غنا کی حالتوں کو یکساں کر کے بغیر خوردونوش کے وہ جسمانی قوت عطا فرمادیتے ہیں جو قوت جسمانی عام آدمی کو کھانے پینے کے بعد حاصل ہوتی ہے ،گویا رب کریم ان نفوس قدسیہ مطمئنہ کے لئے غذاء روحانی (عبادت وریاضت )کو غذاء جسمانی بنادیتے ہیں ،چناچہ نبی رحمت ﷺ نے صحابہ کرام کو صوم وصال سے منع کرتے ہو ئے فرمایا کہ تم اسکی طاقت نہیں رکھتے اور رہی بات ہمارا صوم وصال پر قادر ہو ناتووہ اس لئے ہے کہ مجھے اللہ رب العزت کھلادیتا ہے ، ابوداؤد شریف کی روایت ہے ، ’’ عن ابن عمر ان رسول اللہ ﷺ نھی عن صوم الوصال قالوا فانک تواصل یا رسول اللہ قال انی لست کھیئتکم انی اطعم واسقیٰ (ابوداؤد باب الوصال )
ظاہر سی بات ہے یہاں کھلانے سے مراد یہ نہیں ہے کہ جنت سے آپ کے لئے کوئی کھانا اتر تا تھا اور اسکو آپ تناول فرمالیتے تھے ،ورنہ صوم وصال کا کوئی مطلب ہی نہیں رہ جاتا،بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو بغیر کھانا تناول کیئے اس قدر جسمانی قوت عطافرمادیتے تھے، گو یاذکرو اذکار سے جس طرح روحانی قوت حاصل ہوتی تھی اسی طرح جسمانی قوت بھی حاصل ہوجاتی تھی ،اور آپ ﷺ ہی کے صدقہ طفیل میں آپکے جانثار صحابہ کرام ،اولیاء عظام اور بزرگان دین کو بھی گاہے بگاہے یہ نعمت عظمیٰ حاصل ہو جاتی ہے۔ بہر حال ان مقدس حضرات کے لئے طلب معاش بہتر نہیں ہے ،غالباًاسی مخصوص حالت کے پیش نظر نبی رحمت ﷺ کا ارشاد ہے ، ’’مااوحیٰ الی ان اجمع المال وکن من التاجرین ولاکن ا وحیٰ ان سبح بحمد ربک وکن من الساجدین وعبد ربک حتیٰ یاتیک الیقین ‘‘ (احیاء العلوم بحوالہ ابن مردودیہ فی التفسیر عن ابن مسعود ) کہ مجھ پر وحی نازل نہیں ہوئی کہ مال جمع کرواور تاجر بن جاؤ بلکہ یہ وحی آئی کہ اپنے رب کی خوبیاں بیان کرو اورسجدے کرنے والوں میں سے ہوجاؤ،اور اپنے رب کی عبادت کرو یہاں تک کہ یقین (موت ) آجائے ۔ 
نمبر ۳؂ وہ حضرات جو معاد کے لئے معاش میں مشغول ہو یعنی وہ لوگ جو آخرت کی وجہ سے دنیا کمارہاہو ،دنیا اس لئے کمارہا ہے کہ اس سے اپنے بیوی ،بچے ،ماں ،باپ ،رشتہ دار ،پڑوسی ،دوست اور احباب کے حقوق کو اداکریگا اور اس سے حاصل شدہ رقم سے صدقہ وزکوٰۃ ،حج وعمرہ کریگا ،تو ان لوگوں کیلئے طلب معاش جائز ہی نہیں بلکہ حقوق واجبہ کی ادائیگی کیلئے فرض و واجب بھی ہے ، اور جب اس کو صحیح نیت کے ساتھ جائزطریقوں سے حاصل کریگا تو پھر ان کیلئے وہ تمام بشارتیں ہیں جن کو ہم نے اس سے پہلے ’’ معیشت وتجارت کی فضیلت ‘‘کے عنوان میں ذکر کر دیاہے،
ان لوگوں کو طلب معاش باعث ثواب ومغفرت دو شرطوں کے ساتھ ہے شرط اول کہ طلب معاش میں نیت نبی کی اقتدا ،اور حقوق وغیرہ کو اداکرنے کی ہو، محض خواہش نفس،یا ذخیرہ اندوزی نہ ہو ،دوسری شرط کہ وہ طلب معاش کے طریقے جائز اور حلال ہوں۔ 

کن لوگوں کیلئے طلب معاش بہتر نہیں

چند حضرات ایسے بھی ہیں جو طلب معاش کی فضیلت سے مستثنیٰ ہیں ،ان کے لئے طلب معاش سے بہتر اور افضل کام وہی ہے جس کو وہ حضرات انجام دے رہے ہیں ،(۱) وہ حضرات جو روحانی منزل کو طے کرچکا ہو اور انکو حضور قلبی حاصل ہوچکی ہو ، احوال ومکاشفات کے علوم قلب میں موجزن ہوں اور اسی روحانی وعرفانی ترقیات کی منازل کو امت کیلئے روشناس کراتا ہو (۲) عالم ،مفتی ، مفسر، محدث وغیرہ جو اپنے علوم ظاہری سے لوگوں کی رشد وہدایات میں لگے ہوں(۳) بادشاہ اور قاضی جو مسلمانوں کے معاملات ومفادات کا نگہبان ہوں ،ان تمام حضرات کے لیے کسب وتجارت افضل نہیں ہے بلکہ یہ حضرات انہیں کاموں میں لگے رہیں گے اور ان کے اخراجات بیت المال سے یا لوگ اپنے صدقات نافلہ وغیرہ سے پوراکریں گے، اس سے ان مقدس جماعت کی ضروریات دنیویہ بھی پورے ہوتے رہیں گے اور امت کی بھی راہ نمائی اور آبیاری ہوتی رہے گی ۔

ملتے جلتے مضمون

معیشت وتجارت کی فضیلت

Tuesday, December 27, 2016

معیشت وتجارت کی فضیلت


بسم اللہ الرحمن الرحیم

(کسب وتجارت)

     آج آپکی خدمت میں تجارت و معیشت کے عنوان پر کچھ ذکر کرنا ہے ،دراصل آج کچھ لوگوں کا نظریہ ہے کہ دین صرف نماز ،روزہ، حج ،زکوۃ وغیرہ ہی کو کہتے ہیں ،رہی بات اسباب معشیت کو اپنانا تو یہ توکل کے خلاف ہے اور یہ دین سے بالکل الگ چیز ہے ،اور دنیا حاصل کرنے والا شریعت کی نگاہ میں مجرم اور گناہگار ہے ،تو میں آج کی اس تقریر (تحریر ) میں انہیں گمراہ کن گفتگو کا جواب دیتے ہو ئے یہ بتا ؤنگا کہ اسباب معیشت کا اپنانا بھی شریعت مطہرہ ہی کا حکم ہے اور ایسے اشخاص کوشریعت نے بجائے عذاب کے ثواب کا مزدہ سنایا ہے،


ارشاد باری تعالیٰ میں طلب رزق کو فضل الہی بتا یا گیا ہے ،چناچہ ارشاد باری ہے :۔

فاذا قضیت الصلاۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ واذکروا اللہ کثیراً لعلکم تفلحون (الجمعۃ: ۱۰)پھر جب جمعہ کی نماز اداکرلی جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تاکہ تم فلاح حاصل کرو۔

ایک دوسری جگہ رات ودن کو بنانے کی حکمت بیان کرتے ہوئے ارشاد باری ہے ،’’وجعلنا اللیل لباساً ،وجعلنا النھار معاشاً‘‘ کہ ہم نے رات کو پردے کی چیز بنایا اور ہم  نے دن کو ذریعہ معاش کے لئے بنایا،

اللہ رب عزت نے پہلی آیت میں معیشت کو اپنا فضل بتا کر اسکی طلب کا حکم دیا نیز دن کو اسلئے بنایا گیا تاکہ انسان آسانی کے ساتھ طلب معیشت کر سکے ،پس ان دونوں آیت کریمہ سے بخوبی معلوم ہوا کہ طلب معیشت جائز ہی نہیں بلکہ اللہ رب العزت کا فضل بھی ہے ،

احادیث مبارک میں طلب معیشت  کی اہمیت 


طلب الحلال واجب علی کل مسلم(کنز العمال حدیث نمبر9204) حلا ل معیشت اختیار کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے: طلب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ(کنز العمال حدیث نمبر9203) فرائض (نماز روزہ وغیرہ)کے بعدحلال کمائی حاصل کرنا بھی ایک فریضہ ہے،

حلال معاش طلب کرنے والا اللہ کے راستے میں ہے


حضرت کعب بن عجرۃ کی حدیث میں ہے:۔جو شخص اپنے چھوٹے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے محنت مشقت کرتا ہے وہ اللہ کے راستے میں ہے اور جو شخص اپنے بوڑھے والدین کا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتا ہے وہ اللہ کے راستے میں ہے اور جو شخص اپنا پیٹ پالنے کے لیے محنت کرتا اور حلال کماتا ہے تاکہ کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے سے اپنے آپ کو بچائے تو وہ بھی اللہ کے راستے میں ہے۔(الترغیب:۲/۳۳۵ شاملۃرواہ الطبرانی)

حلال معاش اللہ کو پسند ہے

نبی رحمتﷺ کا ارشادہے: عن ابن عمرؓ عن النبی ﷺقال انَّ اللّٰہ یحب المؤمن المحترف۔(الترغیب:2:335رواہ الطبرانی وکذا فی کنز العمال حدیث نمبر/۹۱۹۹ ) آپ ﷺ نے فرمایاکہ بیشک اللہ تعالیٰ صنعت وحرفت کا پیشہ اختیار کرنے والے مؤمن کو پسند فرماتے ہیں۔ 
ابن عباس اور ابن عمر کی روایت ہے کہ’’ طلب الحلال جھاد ‘(کنز العمال حدیث نمبر9205) یعنی حلال رزق تلاش کرنا جہاد کے برابر ہے ،
یوں تو طلب معیشت کے چار ذرائع ہیں ،تجارت ،ملازمت ،صنعت وحرفت ،اور زراعت ،اور ان تما م طریقوں سے معاش طلب کرنا جائز ہے ،اور یہ تمام طریقے انبیاء کرام صحابہ عظام کی زندگی سے ثابت ہوتی ہیں،کوئی نبی ملازمت کرتے تھے ،کوئی نبی زراعت کرتے تھے ،کوئی نبی بڑھی کاکام کرتے تھے،کوئی نبی درزی کاکام کرتے تھے ،کوئی نبی بکریاں چراتے تھے ، خودہمارے نبی رحمت ﷺ نے بھی مختلف وقتوں میں تجارت ،زراعت اور ملازمت کی ہیں، چناچہ آپ ﷺ نے خودمکہ مکرمہ کے پہاڑ پر اجرت میں بکریاں چرائیں،آپ ﷺ نے فرمایا مجھے ا چھی طرح یا د ہے کہ میں اجیاد کے پہار پر قوم کی بکریاں چرایاکرتاتھا،حضرت ابو ہریرہ کی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ وانا کنت ارعاھالاھل مکۃ بالقراریط ‘‘(کنز العمال حدیث نمبر9243) یعنی میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے بدلے چرایا کرتاتھا،بہرحال آپ نے مزدوری کی ،اسی طرح آپ کا تجارت کرنا بھی احادیث کثیرہ سے ثابت ہے ،آپ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کامال لیکر دو مرتبہ ملک شام کا سفر کئے ہیں،اور آپ ﷺ نے زراعت بھی کی ہے چناچہ مدینہ طیبہ سے کچھ فاصلہ پر مقام جرف تھا ،وہاں پر آپ نے زراعت بھی کی ہے ،الحاصل آپ نے معیشت کے تمام طریقوں کو اپنا یا ہے ،اس لئے آج اگر کوئی تجارت کرتا ہے تو وہ اس میں بھی نبی کی اقتدا کی نیت کرلے ،زراعت کرنے والے ،ملازمت کرنے والے اپنے اپنے کام میں نبی رحمت ﷺ کی اقتدا کی نیت کرلے تواس صورت میں یہ تمام کا م دین بن جائیگا اور باعث نجات و ثواب بن جائیگا، 
تجارت کی  اہمیت وفضیلت

کسب معاش کی بہت سی صورتیں اور شکلیں اس وقت پائی جارہی ہیں ان میں سے جو بھی جائز صورت ہو، اسے اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں،لیکن سب سے زیادہ بابرکت ذریعہ تجارت کا ہے۔ 

آپ ﷺ نے خود تجارت فرمائی، حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور اکثر مہاجرین کا ذریعہ معاش تجارت ہی تھا۔ حضرت علیؓ کو آپ ﷺ کی خدمت میں مشغول رہنے کی وجہ سے اس کا موقع کم ملا تاہم وقتاً فوقتاً انہوں نے بھی تجارت فرمائی۔ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ بڑے پیمانے پر ریشم کی تجارت کرتے تھے،آپکی صدر دوکان کوفے میں تھی اوران کے ایجنٹ ملک بھرمیں پھیلے ہوئے تھے۔ راس المحدیثیں حضرت امام بخاریؒ بھی تجارت کیا کرتے تھے۔

حضرت سالم بن عبد اللہ ؒ بازارمیں لین دین کیا کرتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ ص ۷ ۷، ج۱)
حضرت عبد اللہ ابن مبارکؒ نے تجارت کا مشغلہ اختیارفرمایا۔(ایضاً ص ۱۵ ج۱)

حضرت حافظ عبد الرزاق حمریؒ نے بھی تجارت کی۔(ایضاً ص ۴۳۳ج۱)

حضرت فضل کوفیؒ حسن بن ربیع نے بورئیے کا کاروبارکیا۔(ایضاً ج۱ ص ۱۴۳)
حضرت احمدابن خالدقرطبی نے جبہ فروشی کی۔(ایضاً ص ۶۳ج۳)
حضرت ابن جوزیؒ نے تانبا کاکاروبارکیا۔(ایضاً ص ۷۳۱ ج۱)
حضرت ابن رومیہ نے دَوَافروشی کی۔(ایضاً ص ۷۱۲ ج۴)
حضرت محمدابن سلیمان نے گھوڑے کا کاروبارفرمایا۔(تذکرۃ الحفاظ ص ۸۰۱ ج۳)
حضرت ابوالفضل مہندس ومشقی نے نجاری کاپیشہ اختیارفرمایا۔(ایضاً ص ۰۴ ج۴)
حضرت امام یونس ابن عبیدؒ داؤد ابن ابی ہندؒ ،امام اعظم ابوحنیفہؒ ، حضرت وثیمہ، غندربصری،ابوالحسن نیشاپوری، ہشام دستوائی وغیرہ نے ریشمی اورسوتی کپڑوں کی تجارت کی ہے،(ایضاً ج ۱، ص ۱۳۱)
اسی طرح اکثر سلف صالحین کا ذریعہ معاش تجارت تھا ان کا یہ مشغلہ دو وجہ سے تھا ،پہلی وجہ کہ وہ اپنے آپ کو حکومت  اور اہل ثروت کے احسان سے بچا کر رکھنا چاہتے تھے۔دوسری وجہ کہ احادیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے مختلف طریقوں سے تاجروں کی ہمت افزائی اور انکے حق میں دنیوی و اخروی بشارتیں سنائی ہیں،

دیندار تاجر انبیا کے ساتھ ہوں گے :۔


عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: التَّاجِرُالصَّدُوقُ الأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، وَ الصِّدِّيقِينَ،وَالشُّهَدَاءِ.


حضرت ابو سعید خدریؓ نبی رحمت ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’سچے اور امانت دار تاجر کا حشر قیامت میں انبیا، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا ‘‘(ترمذی باب ماجاء فی التجار) ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تجارت کرنے والے قیامت کے دن فاجروں کے ساتھ اٹھائے جائیں گے مگر جس نے اللہ تعالیٰ سے ڈرا اور نیکی کی اور سچ بولا،(ترمذی باب ماجاء فی التجار) 

بہترین کمائی تجارت ہے 


عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: «عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ» 

 رافع بن خدیج ؓ سے مروی ہے کہ آپؐ سے دریافت کیا گیا کہ سب سے پاکیزہ کمائی کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا: اپنے ہاتھ کا کام اور صحیح طریقہ پر تجارت (مسند احمد ، مشکوٰ ۃ)




اہل وعیال کی فکر میں رہنے والا ثواب کے اعتبار سے مجاہد ہے 


آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کہ جب ہم میں سے کوئی اپنے اہل وعیال کیلئے (حلال ) خرچ حاصل کر نے کی فکر میں مغموم ہوکر رات گزار دے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جہاد میں تلوار کے ہزاروں وار کرنے سے زیادہ افضل ہے ( مسند امام اعظم ) 
آثار صحابہ
حضرت عبد اللہ اب مسعودؓ فرماتے ہیں کہ مجھے بیکاری پسند نہیں ،میں اس شخص پر حیرت زدہ ہوں جونہ دنیا کے کاموں میں مصروف ہو اور نہ دین میں لگا ہو ،( احیاء العلوم ۲ :۱۰۹ )
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں میں اپنے مرنے کیلئے سب سے زیادہ اس جگہ کو پسند کرونگا جہاں میں اپنے اہل وعیال کیلئے خرید وفروخت کرتاہوں ۔( احیاء العلوم ۲ :۱۱۰ )
ابراہیم نخعی ؒ سے کسی نے دریافت کیا کہ آپکو امانت دار تاجر پسند ہے یا وہ شخص جو عبادت کیلئے فارغ ہو گیا ہو،آپ نے فرمایا مجھے امانت دار تاجر پسند ہے ،اس لئے کہ وہ جہاد کررہا ہے شیطان اسے ناپنے تولنے میں ، لینے دینے میں، اور خریدنے بیچنے میں راہ حق سے ہٹانا چاہتا ہے؛ لیکن وہ اسکی اطاعت نہیں کرتا بلکہ اسکا مقابلہ کرتاہے، ( احیاء العلوم ۲ :۱۰۹ )
حضرت شیخ پھول پوری ؒ فرماتے ہیں کہ ایک شخص بازار میں ریا کے طور پر تسبیح پڑھ رہا ہے ،اورایک شخص اپنی بیوی بچے کی پرورش کی نیت سے بازار میں جام بیچ رہا ہے ،اور آواز لگاتا ہے ،جام لیلو،جام لیلو ،تو اس جام بیچنے والے کے ایک ایک بول پر ثواب مل رہا ہے ،اور اس تسبیح پڑھ والے کو ایک ایک بول پر گناہ مل رہا ہے ،
حضرت عیسی ؑ نے ایک شخص سے دریافت فرمایا کہ تم کیا کرتے ہو؟ اس نے کہا ،میں عبادت کرتا ہوں ،حضرت عیسی ؑ نے اس سے فرمایا پھر تمہاری کفالت (کھانا،کپرا)کون کرتاہے ؟ اس نے کہا میرا بھائی ،حضرت عیسیٰ ؑ نے فرمایا پھر تو تمہارا بھائی ثواب میں تم سے بڑھ گیا،(احیاء)
ان تمام آیت واحادیث اور اقوال فقہاء وسلف صالحین سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ دینا کمانا بقدر ضرورت کوئی گناہ کا کام نہیں ہے بلکہ حسن نیت شامل ہو جائے تو وہ بھی دین بن جاتا ہے ،
اللہ اکبر ! اللہ تعالی کی کی کس قدر عنایت ہے کہ وہ ہماری اپنی انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے پر بھی ثواب دے رہا ہے،اس تناظر میں کتنابد نصیب ہے وہ شخص جواب بھی دنیوی کاموں میں اللہ کی رضامندی کی نیت نہ کرے ،بلکہ اپنے نفس کی خوشی کیلئے دولت کو اکٹھا کرتا رہے ، اس لئے میں تما م دوستوں سے یہی گزارش کرونگا کہ جب ہمکو کام کرنا ہی ہے ،تجارت ،ملازمت ،صنعت وحرفت کرنا ہی ہے، تو کیوں نہ ہم اس میں بھی نبی رحمت ﷺ کی اقتدا کی نیت کرلیں تاکہ ہم کو مزدوری بھی مل جائیگی اور مفت میں ثواب بھی مل جائے گا بس حسن نیت سے تجارت بھی دین بن جاتا ہے ،اللہ تعالی ہم سبھی لوگوں کو صحیح سمجھ عطا کرے، آمین 




Tuesday, December 6, 2016

مدارس میں سرکاری امداد کیوں نہیں لیتے

















بسم اللہ الرحمن الرحیم

(تعطیل بندی یاجمعہ بندی)


        دراصل اس تحریر کو اسی وقت سپر د قرطاس کرنے کی تمنا تھی جب قوم    وملت کے پیشواؤں ، ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کی شوریٰ نے مودی حکومت کے کڑوروں روپیے ٹھکرادے ،اور حکومت سے کسی قسم کی امداد لینے سے انکار کردئے۔جب دارالعلوم نے یہ قدم اٹھایا تو ہمیشہ کی طرح کچھ ضمیر فروش نے نقطہ چینی کی اور اس امداد کو نہ لینی پر تنقید کیا، آج کی تحریر انہیں عقل سے پیدل لوگوں کی تیمارداری میں نیٹ سے شائع کررہاہوں۔
۱۸۵۷ ؁ میں جب دہلی پر تاج برطانیہ لہرانے لگا اورہندوستان میں صدیوں چلتی ہوئی تعلیمی نظام کو کلیتاً ختم کر دیا گیا ،تواس وقت دور اندیش ،قوم وملت کے لئے جینے والی نفوس  قدسیہ نے مدراس اسلامیہ کا نیا جال بچھا یا ،جس کی ایک اہم معتبر تاریخی کڑی دارالعلوم دیوبند ہے ،جس کے ’’اصولِ ہشتگانہ‘‘ کے تحت دینی مدارس سرکاری امداد نہ لینے کے پابند ہیں۔ یہی وہ اصول ہے جسکی پاسداری کرتے ہوئے دارالعلوم نے حکومت کی اس گراں قدر گرانٹ کو قبول کرنے سے انکا کر دیا ۔
اس انکار کی بے شمار وجہوں میں سے ایک عظیم وجہ یہ بھی ہے کہ سرکاری امداد دینی مدارس کی آزادی، خودمختاری، عزت و وقار اور اپنے اسلاف کی مسلسل متوارث روایات کے خلاف ہے ،کہ دینی مدارس کی حریت فکر و عمل اور آزادی اصل چیز ہے ،ہمارے اکابر واسلاف نے اب تک یہی طریقہ کار اختیار کی کہ حکومت سے کسی قسم کی امداد قبول نہیں کرنی ہے، بلکہ عوامی چندے اور تعاون سے مدارس کام کریں گے۔ سب سے اہم چیز ان مدارس کی آزادی اور خودمختاری ہے، یہ مدارس دین کی صحیح دعوت اوراسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت اسی وقت تک کر سکتے ہیں جب تک یہ مکمل طور پر آزاد اور خود مختار رہیں گے،اور مدارس کی آزادی سرکاری امداد سے مجروح ہی نہیں بلکہ بالکلیہ ختم ہی ہوجائیگی ،جو لوگ آج مدارس کو گرانٹ دینے میں پیش پیش ہیں وہی کل دفعات ہند کا سہارا لیکر مدارس میں علوم دینیہ کی تعلیم پر روک لگا دیں گے ، 
جب کہ ملک میں یہ صورتِ حال ہے کہ حکومت سے امداد نہ لینے کہ صورت میں بھی وقتا فوقتا مدارس کو بند کرنے کی سازشیں کی جا تی ہے ،کبھی مدارس کو دہشت گردی کے اڈے بتا ئے جاتے ہیں ،کبھی نظام تعلیم کو بدلنے کی پروپیگنڈے بنائے جاتے ہیں ،کبھی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کو دہشت گرد بتا کر گرفتار کیا جاتا ہے ،کبھی مدارس کی تعلیم کو جہالت سے تعبیر کیا جا تاہے ۔
اخبار بینوں اور ملکی حالات سے باخبرحضرات پر یہ بات مخفی نہیں ہو گی ،کہ جب حکومت نے مدارس اسلامیہ کو گرانٹ دینے کا اعلان کیا ،تو ازہر ہند نے اپنی روایت و ثقافت کا ثبوت دیتے ہوئے بالکلیہ لینے سے انکار کر دیا ، ابھی یہ بات عوامی مذاکرہ میں چل ہی رہی تھی کہ حکومت نے ایک رنگ اور بدلتے ہوئے اعلان کیا ،کہ اب دینی مدارس ،مساجد اور مندر وں سے بھی ٹیکس وصول کیا جائے گا ،کتنا مضحکہ خیز انکا یہ اعلان معلوم ہوتا ہے جو حکومت ابھی کڑوروں روپیے مدارس کودان دینے کابرسر اقتدار اعلان کررہی ہے وہی حکومت کچھ ہی دنوں کے بعدمدارس ہی سے پیسے لینے کا اعلان کرتی ہے ،اس اعلان کے بعدمسلم پرسنل لا نے جگہ جگہ پروگرام کئے اور حکومت کو انکی غلطی سے آگاہ کیا ،اور انکو بتایا کہ یہ فیصلہ جہاں مذہبی اداروں کے متعلق ظلم ہے وہیں دفعات ہند کے تحت بھی غلط ہے ،دفعات ہند میں ایسے ادارہ تو درکنار ایسے شخص سے بھی ٹیکس نہ لینے کاقانون موجود ہے جن کی آمدنی کسی مذہب یا کسی مذہب کے خاص فرقہ کی ترقی کیلئے صراحتاً صرف ہوتا ہو۔
نیز سرکاری امداد پر چلنے والے مدارس کا انجام بھی اہل فکر و نظر سے مخفی نہیں ہے۔قلیل وکثیربھارت کے ہر اسٹیٹ میں حکومت کی امداد پر مدارس چل رہے ہیں ،ان مدارس کی خودمختاری تو حکومت کی وراثت بن ہی گئی ساتھ ہی نام کے وہ مدارس تو رہے کام کے نہیں ،جب ہم بخارا ،سمرقند،کے مدارس کی حالتیں اپنے اکابرین کی کتا بوں پڑھتے ہیں تو نہایت افسوس ہو تا ہے ،جبکہ ہندوستان کے وہ مدارس جوحکومت کے زیر اثر آگئے ہیں ان مدارس کی حالت بھی بخا رااور سمرقندکے مدارس سے کوئی کم نہیں ہے ۔
ابھی حال ہی میں آسام کی موجودہ بی جے پی حکومت نے اپنے ہٹلر شاہی فرمان جاری کیا کہ آسام میں حکومت کے ذریعہ چلنے والے مدارس کو جمعہ کے دن اور رمضان المبارک کے مہینے میں اداروں کو بند کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی ،اور کہاجمعہ کی چھٹی غیر قانونی ہے ،ہاں جمعہ کی نمازکے لئے ایک گھنٹے کی چھٹی دی جائی گی ،
آج برہمن واد کو پھیلانے والی حکومت جمعہ کی چھٹی کو قانون ہند کے خلاف کہتے ہو ئے پابندی لگا ری ہے توکیا بعید ہے ان سے آئندہ نماز جمعہ کیلئے بھی یہ کہکرپابندی لگا دیگی،کہ نماز جمعہ کیلیے چھٹی دینا دفعات ہند کےخلاف ہے،اور یہی انکا مقصد ہے ،کہ کس طرح سے مدارس سے دینی تعلیم کو ختم کر دیا جائے ،تو حقیقت میں یہ تعطیل بندی نہیں ہے بلکہ جمعہ بندی ہے ۔
لیکن جب تک مسلم قوم بیدار رہے گی اور اپنے اکابرین واسلاف کے بنائے ہوئے اصول کو بروئے کار لاتی رہے گی ان شاء اللہ دینی مدارس تو کیا دین کے کسی شعبہ پر حرف نہیں آسکتا ہے اللہ تعالیٰ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کرے۔ آمین

ملک بھارت کے سلگتے مسائل پڑھنے کے نیچے کلک کریں