Sunday, November 13, 2016

طلاق اور موجودہ حکومت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

طلاق اور موجودہ حکومت


‘‘ومن لم یحکم بماانزل اللہ فأولئک ھم الکافرون’’

تقریبا آج دو تین مہینے سے طلاق،خلع اور نکاح پر اعتراض کیا جارہا ہے،اور اس اعتراض کرنے میں جہاں بھارت کی حکومت ہے ،وہیں مٹھی بھر نام نہاداپنے آپکو مسلمان بتانے والے،یہودی وعیسائی اور آر ایس ایس کے آلہ کار بھی ان شرعی امور پراعتراض کررہے ہیں،یہ مٹھی بھر مسلمان جو میڈیا پر آکر اعتراض کرتے ہیں اور میڈیا والے اسلام اور مسلمان کو بدنا کرنے کیلئے اسکو بڑھا چڑھاکر چینلوں پر بتاتے ہیں، کہ خود مسلمان بھی ان مسائل میں ترمیم چاہتے ہیں،میڈ یا والے کو نہیں معلوم جن کو وہ ٹیوی پر لاکر سوال وجواب کر تے ہیں،کیا وہ واقعی میں مسلمان ہیں یا پھر آر ایس ایس دماغ کے حامل ظاہری مسلمان اور باطنی منافق ہیں، اورایسے لوگوں کا پایاجانا کوئی بعید نہیں ہے،بلکہ دور نبوت سے لیکر آج تک اسلامی لبادے میں اسلام اور مسلمان کو صف ہستی سے ختم کرنے کیلئے کچھ منافق ظاہر ہوتے رہے ،حقیقت میں یہ لوگ بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں،میں اس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگا رہا ہوں بلکہ خود قرآن سے دریافت کر لیجیے کہ ایسے لوگ جو شریعت پر اعتراض کرے اور ہندو والے قانون کو ماننے کے لئے تیارہووہ قرآن کے فتویٰ کی روشنی میں کیساہے؟ارشاد ربانی ہے،‘‘ ومن لم یحکم بماانزل اللہ فأولئک ھم الکافرون ’’(مائدۃ)کہ جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہی لوگ کا فر ہیں،ایک دوسری آیت میں ہے، وہی لوگ فاسق ہیں اور ایک جگہ ہے وہی لوگ ظالم ہیں،ان آیتوں کے پیش نظر ان کے اسلام کا جائزہ آپ حضرات خود لیں ؛تو معلوم ہو گا کہ اگر چہ میڈیا والے اور حکومت اس کو مسلمان کہہ رہے ہیں ،حالانکہ قرآن کی نگاہ میں انکااسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس وقت میں کل تین باتیں پیش کر نا چاہتاہوں (۱) حکومت کیا کرنا چاہتی ہے (۲) اس سلسلے میں حکومت اور میڈیاکے اعتراض اور عاجز کی جانب سےجواب (۳) ہمکو کیا کرنا ہے؟

(۱)حکومت کیا کرنا چاہتی ہے 

      حکومت یہ چاہتی ہے کہ طلاق اور نکاح میں ایک ہی قانون بنے، نکاح تو ہو لیکن طلاق کو ختم کردیاجائے،یعنی طلاق دینے کے بعد بھی عورت کوگھر میں رکھ کر وہی کام ان کے ساتھ کرے جو ایک میاں بیوی آپس میں کرتے ہیں،اس قانون کے خلاف جگہ جگہ مسلمان مردوں نے،عورتوں نے مورچے نکالے، تمام مسلم تنظیموں نے علاقائی،ضلعی اورملک گیر سطح پر کانفرنس کئے،پورے مکاتب فکر کے علماودانشورانِ قوم نے بیک زبان ایوانِ حکومت تک یہ بات پہونچائی ؛ کہ ہم شریعت میں کسی طرح کی ترمیم کو برادشت نہیں کریں گے،ہم مسلم پرسنل لا کواپنے لئے باعث رحمت اور باعث مغفرت سمجھتے ہیں؛ لیکن اتنا کچھ ہونے کے باجود جب ہماری سرکار بنارس پہنچ تی ہے۔ تو علی الاعلان، بر سر عام غیر جانبدارنہ گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہے ؛کہ ہم مسلمان عورتوں پر ظلم نہیں ہو نے دیں گے ، اور اس سلسلے میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں،حکومت کو وہ مٹھی بھر نام نہاد مسلمان عورتوں کا خیال آرہا ہے؛لیکن اس کے مد مقابل تیس کڑور مسلم مردو عورت کے مطالبے یا دنہیں رہے،جو مسلسل جلسے،جلوس اور ریلیوں کے ذریعہ حکومت سے شریعت میں کسی قسم کی مداخلت نہ کرنے کی مطالبہ کررہے ہیں،ظاہری اور سطحی گفتگو سے نظر ہٹا کر دیکھا جائے،تو اس ظاہری ہمدردی کے پیچھے یہی راز چھپا ہے، کہ مٹھی بھر مسلم عورتوں کا سہارا لیکر آہستہ آہستہ بھارت سے اسلام اور مسلمانوں کی شناخت کو ختم کر دیا جائے،یاد رکھیں حکومت کی یہ چال نہایت زہر آلود ہے،حکومت چاہتی ہے کہ عورت کو طلاق ہو نے کے بعدبھی اپنے گھر میں رکھ کر ان کے ساتھ وہی سارا کام کیا جائے جو ایک شوہر اپنی بیوی سے کرتا ہے،جسکو اسلام زنا کہتا ہے،اس طرح یہ پاگل حکومت ایک عفیف پاکدامن خاتون کو زانیہ اور مرد کو زانی بنانے پر تلی ہوئی ہے،در اصل یہ جن ملکوں کی پیروی کرنا چاہتے ہیں وہاں کی اکثر حکومت زنا کو قانونی طور پر جائز قرار دیا ہے،تقریبا دو سوملکوں میں سے پچاس ملک نے زنا کو جائز قرار دیا ہے۔
یاد رکھیں!طلاق کی شرح مسلموں سے زیادہ غیرمسلموں میں زیادہ ہے اگر ان کو واقعی ہمدردی ہے تو یہ ہمدردی اپنے قوم کی عورتوں پر کرے،مسلمان عورتیں الحمد للہ مسلم پرسنل لا سے مطمئن ہی نہیں بلکہ اپنے ایمان کے لئے ضروری بھی سمجھتی ہیں، 
برطانوی جریدے‘‘دی اکانومسٹ’’کی شائع کردہ معلوماتی کتاب‘‘ پاکٹ ورلڈ 2016ء’’میں دئیے گئے اعدادوشمار کے مطابق طلاق کی شرح کے لحاظ سے یورپ کے ممالک سب سے آگے ہیں، مغربی بحر الکاہل میں ہر ایک ہزار افراد میں اوسطاً 4.6 طلاقیں واقعہ ہورہی ہیں۔ اس کے بعد روس کا نمبر ہے جس میں فی ایک ہزار آبادی کے لئے طلاق کی شرح 4.5ہے۔ اسی طرح بیلاروس، لیٹویا، لتھوینیا اور مالدووا بھی طلاق کی شرح کی لحاظ سے فہرست میں نمایاں ترین ہیں۔ ڈنمارک میں فی ایک ہزار لوگوں میں طلاق کی شرح 2.8، امریکا میں بھی 2.8 جبکہ اسلامی ملک اردن میں یہ شرح 2.6 ہے۔
اور ہمارے ہندوستان میں سب سے زیاددہ طلاق کی شرح ہند ومیں اورسب سے کم مسلمانوں میں ہے۔

(۱)طلاق کے سلسلے میں اعتراض

طلاق پر عمو ماً دو اعتراض کئے جاتے ہیں (۱) کہ طلاق ہونا ہی نہیں چاہیے بس نکاح ہو اور طلاق نہ ہو اس سے عورتوں پر ظلم ہو تا ہے،(۲) طلاق کا حق صرف مرد ہی کو کیوں ہے؟ عورت کو بھی ہونا چاہیے اس سے تو مرد عورت پر ظلم کر یگا اور عورت مظلوم ہو نے کے باجود طلاق کا حق نہ رکھنے کی وجہ سے شوہر سے الگ نہیں ہو سکتی ہے۔
پہلا اعتراض :کہ طلاق ہونا ہی نہیں چاہیے،اس سے عورتوں پر ظلم ہوتا ہے، پہلی بات تو یہ ذہن میں رکھیں کہ اسلام میں طلاق اس لئے نہیں دیا ہے، کہ مرد عورت پرظلم کرے ،بلکہ طلاق کا مقصد صرف یہ ہے ،کہ اگر مرد وعورت کا آپس میں نباہ مشکل ہو جائے اور کسی طرح ایک جگہ رہناممکن نہ ہو ؛تو بھر خاوند بیوی کو پاکی میں ایک طلاق دیکر چھوڑ دے اب عورت اپنی عدت گزار کر من پسند مرد سے شادی کر سکتی ہے،اگر مرد ناحق عورت پر طلاق دیکر ظلم کرتا ہے تو شریعت بھی ایسے شخص کو عذاب الٰہی کا پیغام دیتی ہے،آپ ﷺ کا فرمان ہے:‘‘ ابغض الحلال الی اللہ الطلاق’’کہ بد ترین حلال اللہ کے نزدیک طلاق ہے،
فلپائن ملک میں طلاق نام کی کوئی چیز نہیں ہے، وہاں کے عوام کی بد حالی پیپر کے اس رپورٹ سے لگائیں‘‘فلپائن جہاں کٹر کیتھولک عیسائی رہتے ہیں وہاں کی قانون طلاق کی اجازت ہی نہیں دیتی۔ جہاں شادی ہو جائے تو طلاق کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔کٹر کیتھولک عیسائیت کے مطابق شادی ساری عمر کیلئے ہوتی ہے، لہٰذا طلاق کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا،عوام کو اس قانون کی وجہ سے بے پناہ مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑرہاہے۔ اکثر جوڑوں میں اختلافات کی وجہ سے سالوں سال علیحدگی ہو جاتی ہے؛ مگر طلاق نہ ہونے کی وجہ سے وہ دوبارہ مذہبی طور پر شادی نہیں کر سکتے۔عوام کے پرزور مطالبے پر 1991ء میں حکومت نے شادی کے خاتمے کا قانون متعارف کروا دیا؛ لیکن طلاق کی اجازت نہیں دی گئی اس تبدیلی کا نتیجہ یہ ہے کہ شادی کے خاتمہ کے بعد اگرچہ دوبارہ شادی کی جا سکتی ہے لیکن اسے چرچ کی آشیرباد حاصل نہیں ہوپاتی اور مذہبی لحاظ سے اسے گناہ کا فعل قرار دیا جاتا ہے۔ فلپائن کی 80 فیصد آبادی کیتھولک عیسائی ے اور کل آبادی میں سے تقریباً نصف یہ چاہتی ہے کہ علیحدہ ہو جانے والے جوڑوں کو طلاق کا حق دیا جائے تاکہ وہ دوبارہ شادی کر سکیں۔
ہماری سرکار کوچاہیے کہ وہ فلپائن کا حال دیکھ لیں ،کہ وہاں طلاق نہ ہو نے پر لاکھوں جوڑے پریشان ہیں،جس کی وجہ سے دونو ں میاں بیوی کئی کئی سالوں سے الگ رہتے ہیں لیکن دوسری شادی نہیں کر سکتے،اس ملک کی حالت زار اور مرد وعورت کی بد حالی دیکھ اسلام کی حقانییت واضح ہو جاتی ہے۔
(۲)دوسرا اعتراض: یہ کیا جاتا ہے کہ طلاق کا حق صرف مرد ہی کو کیوں ہے؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ آپ ان عقل سے پیدل کو پوچھیں کہ بچہ صرف عورت ہی کہ پیٹ سے کیوں نکل تا ہے؟مرد کے پیٹ سے کیوں نہیں نکلتا؟اس کا جواب یہی دیں گے کہ اس میں ہمارےاراد ے کاکوئی دخل نہیں،یہ تو اللہ کا حکم ہے،تو آپ ان سے کہیں کہ پھر طلاق کا حکم بھی اللہ ہی کا ہے، اور اللہ ہی نے اس کا اختیار مرد کو دیا ہے نہ تو کوئی مفتی بدل سکتا ہے اور نہ کوئی وقت کا قطب وابدال۔
اس کا دوسرا جواب یہ ہے،کہ یہ کہنا طلاق کا حق صرف مرد کو ہے عورت مظلوم ہونے کے باجود کچھ نہیں کر سکتی،یہ اعتراض سراسر غلط ہے، اسلام میں مرد کو طلاق کا حق دیا گیا تو عورت کو خلع کا حق دیا،چنانچہ بخاری کی رویت ہے:
''عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ثابت بن قیس بن شماس کی بیوی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی:یارسول اللہ! ثابت کے دین اور اخلاق کے بارے میں مجھے کوئی شکایت نہیں ہے، مگر یہ کہ میں اسلام میں رہتے ہوئے کفر(ناشکری اور شوہر کی نافرمانی)سے ڈرتی ہوں،(تاہم میں چاہتی ہوں کہ ان سے نکاح میں الگ ہو جاؤں کیونکہ میراطبعی میلان اسکی جانب نہیں ہو تاہے) تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تم وہ باغ (جو ثابت نے نکاح کے وقت مہر میں دیاتھا) اسے واپس کر دوگی، اس نے عرض کی: جی ہاں! چنانچہ اس نے (مہر میں لیا ہوا) وہ(باغ)شوہر کو واپس کر دیا، رسول اللہ ﷺ نے (ثابت سے) فرمایا: باغ قبول کرلو اور اسے ایک طلاق دے دو‘‘ (بخاری: 5273)
یہی ہے خلع جسکو ثابت بن قیس کی بیوی کے قلبی میلان نہ ہو نی کی وجہ سے آپ ﷺ نے دلایا تھا،ہاں عورت کو خلع کرنے کیوقت شریعت نے حکم دیا کہ تمہاری عقل کچی ہوتی ہے ، ذرا سی بات پر بے قابو ہو جاتے ہو؛ اس لئے خلع کے وقت تم اپنے شہر کے اچھے عالم دین (قاضی) کے پاس جاکر اپنے تکلیفوں اور شوہر کے ظلم وجوڑ کا ذکر کرو،وہ عالم صاحب تمہارے دونوں کی ازداجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے مشورے دیں گے ،اور مشورے کے بعد بھی دونوں کی زندگی کاگزرنا مشکل ہو جائے؛تو پھر قاضی خلع کرادیں گے،اگر کسی کے ذہن میں سوال آئے کہ خلع میں بھی تو مرد کی رضامند ی ضروری ہے ،پھر عورت کو خلع کا اختیاردیکر بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا، یہ اعتراض خلع کے تمام پہلو کو نظر انداز کر کے کیا گیا ہے،الحمد للہ ہم نے بھی افتا ء کے ساتھ قضا کیا ہے،اس کا صحیح جواب یہ کہ قاضی شوہر کو خلع پرراضی کریں کے اگر شوہر راضی نہ ہوا،تو عورت پر ظلم وجوڑ کرنے سے منع کریگا،اگر شوہر اپنے ظلم سے باز نہیں آتا ہے،تو یاد رکھیں قاضی ولایت عامہ کے تحت شوہر کا قائم مقام ہو کر اسکی بیوی کو طلاق دیدیں گے یہی امام مالک کا مذہب ہے،اور واقعی عورت پربہت ہی ظلم ہورہاہے، اور شوہر چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہے تو ہمارے ہندوستان میں بھی درالقضا امام مالک ؒ کے مذہب کی بنیاد پر عورت کو طلاق دیتے ہیں۔(دیکھیں پوری تفصیل بحث ونظر میں)
اب اخیر میں ان ملکوں پر بھی تھوڑی نظر ڈالتے ہیں جہاں عورتوں کو عالم و قاضی کے مشورہ کے بغیر طلاق کا حق دیا گیا وہاں کا کیا حال ہے۔
نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق امریکا میں شادی کے بندھن میں بندھنے والے پچاس فيصد جوڑے زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں ایک دوسرے سے طلاق حاصل کر لیتے ہیں۔امریکی ریاست ڈیلاوئیر میں طلاق کے لیے ایک ایسا قانون موجود ہے، جس کے تحت اگر ایک شخص ہنسی مذاق یا شرط نبھانے کے لیے شادی کر لیتا ہے تو، اسے بعد میں طلاق کا مقدمہ دائر کرنے کی اجازت ہے،آسٹریلیا میں قبائلی خواتین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یا تو اپنے شوہر کو طلاق دینے کے لیے آمادہ کریں یا پھر شادی سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک دوسری شادی کر لیں اس طرح ان کی پہلی شادی خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔ امریکی ریاست کینٹکی میں اس بات کی اجازت ہے کہ ایک ہی شخص سے طلاق کے بعد تین بار شادی کر سکتے ہیں لیکن چوتھی بار اسی شخص سے شادی کرنے کی اجازت ریاست کا قانون نہیں دیتا،امریکی ریاست ٹینسی میں اگرشریک حیات جان سے مارنے کے لیے کوئی حربہ مثلاً زہر پلانیکی کوشش کرتا ہے تو اس بنیاد پرطلاق منظور ہو سکتی ہے۔ برطانیہ میں طلاق حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شریک حیات کی حد درجہ برائیوں کا ذکر کیا جائے صرف ذاتی ناپسندیدگی کی بنیاد پر طلاق منظور نہیں کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں جوڑے طلاق کے لیے شریک حیات میں عجیب وغریب عیب تلاش کرتے ہیں۔یہ ان ترقی یافتہ مملک کا حال ہے اللہ تعالی ہمیں صحیح سمجھ عطا کرے آمین
(۳)تیسری بات کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟ اس سے پہلے بھی جمعہ میں ہم نے کہاتھا کہ ہمارے بیان کا یہ مقصد نہیں ہے کہ آپ جا کر برادرانِ وطن سے الجھ جائیں اور لڑائی جھگڑے کرنے لگیں؛بلکہ ہمارے بیان اور ہمارے اکابرین کی موجودہ تمام کانفرنس اور ریلیوں کا واحد مقصد یہی ہے کہ ہم براہ راست حکومت کو کہنا چاہتے ہیں ،کہ برائے کرم یہ ملک ایک جمہوری ملک ہے،جس میں ہر ایک کو مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے،اس لئے آپ مذہب کی آزادی کو چھین نے کی سازش نہ کریں،تو ہمارا مطالبہ براہ راست حکومت سے ہے، نہ کہ برادرانِ وطن سے،دوسراکام جو ہم لوگوں کو کرنا ہےوہ یہ ہے کہ جو لوگ اب تک دسختی مہم میں پرچہ پر دستخط نہیں کیا ہے وہ جلد از جلد کر کے پرچے جمع کردیں تاکہ جلد از جلد اس کو مسلم پرسنل لا بورڈ تک پہونچا دیاجائے۔
اللہ تعالیٰ ملک اور صاحب ملک سب کی حفاظت کرے۔آمین

ملک بھارت سلگتے مسائل

کچھ نئے اہم اور ضروری مضمون

Saturday, November 12, 2016

مروجہ قران خوانی


بسم اللہ الرحمن الرحیم 

مروجہ قرآن خوانی

آج کل جس طرح قرآن خوانی رائج ہو چکا ہے یہ سراسر بدعت اور ناجائز ہے اور اس پر اجرت لے لینا یہ تو قرآن پر اجرت لینا ہوا جسکی حرمت نصوص شرعیہ سے ثابت ہے نیزاس طرح قرآن پڑھنے والے کو ثواب نہیں ملتا جب پڑھنے والے کو ثواب نہیں ملتا تو مردوں کو کیسے ملے گا؟چنا نچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  ولا تشترو اباٰیاتی ثمناقلیلا (البقرہ / ۴۱)ترجمہ : کہ مت لو بمقابلہ میرے احکام کے معاوضہ حقیرکو(ترجمہ تھانوی)

اب آئیے اور علامہ ابن عابدین کی عبارت ملاحظہ کریں :
فالحاصل انّماشاعت فی زماننا من قرأۃالاجزاء بالاجرۃلا یجوز لانّ فیہ الامر بالقرآۃواعطاء الثواب للآمروالقرأۃلاجل المال فاذالم یکن للقاری ثواب لعدم النّےۃالصحیحۃ فاین یصل الثواب الی المستأجرولو لا الاجرۃماقرأاحدلاحدفی ھذاالزمان بل جعلواالقرآن العظیم مکسباووسیلۃالجمع الدنیا انّاللّہ وانّاالیہ راجعون۔(شامی ۶ / ۵۶)
ترجمہ:حاصل یہ کہ ہمارے زمانے میں جو اجرت پر قرآن پاک پڑھنے کا جو رواج ہوگیا ہے یہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ اس میں دوسروں کے کہنے پر قرآن کا پڑھنا اور مال کی وجہ سے قرآن کا پڑھنا ہے پس نیت کی خالص نہ ہونے کی وجہ سے جب پڑھنے والے کو خود ثوا ب نہیں ملتاتو پھر پڑھانے والے کو ثواب کیسے پہونچے گااگر (اس پڑھنے والے کو)اجرت نہ دیا جائے تو اس زمانے میں کو ئی کسی دوسرے کے لئے نہیں پڑھتا ہے بلکہ لوگوں نے قرآن عظیم کو کمانے اور دنیا جمع کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے انا للّہ وانّاالیہ راجعون
علامہ ابن عابدین شامی ؒ ہی کی ایک شاہکارتصنیف شفاء العلیل وبلّ الغلیل ہے جس میں آپ نے اجرت پرذکروتلاوت کے عدم جواز پر مفصل کلام کیا ہے چنانچہ ایک جگہ آپ ؒ فرماتے ہیں
ومن اھمّ مایؤمر بہ ان یّحذر کل الحذر من اتخاذالقراٰن معیشۃ یکتسب بھافقد جاء من عبد الرحمٰن بن شبلؓ قال :قال رسول اللہ ﷺ اقرؤالقراٰن ولا تأکلوبہ (مجموعہ رسائل ابن عابدین /۱۷۵)
اہم ترین حکم جس سے ہر حال میں بچنا ضروری ہے وہ یہ کہ قرآن کریم کو ذریعہ معاش بنانا ہے چنانچہ عبد الرحمن ابن شبلؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فر مایا :کہ قرآن پڑھو مگر اس کے بدلہ کھاؤنہیں ۔
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ فرماتے ہیں ’’اگر عرف میں یہ بات طے پا چکی کہ قرآن پڑھنے والے کو ضرور کچھ دیتے ہوں تو اگر پہلے سے باہمی اجرت پڑھنے قرآن مجید طے نہ ہوئی ہو تو بھی لینا جائز نہیں اور نہ ایسے پڑھنے پر ثواب میت کو پہنچتا ہے اور اگر دینا عرف کے اندر نہیں اور خالی نیت ہے لوجہ اللہ اس نے پڑھا پھر اگر لے لیوے تو کچھ حرج نہیں ‘‘(فتویٰ رشیدیہ کامل/۲۶۸)
حضرت مفتی اعظم محمود حسن گنگوہی ؒ فرماتے ہیں ’ ’آج کل بعض جگہ قرآن خوانی کر اکے ثواب پہنچانے کا طریقہ جو رائج ہو گیا ہے کہ مکان پر بلاکریا مسجد میں جمع کر کے ثواب پہنچایاجا تا ہے اور پڑھنے والے کو شیرینی،نقد،چائے کھانا ،کپڑااپنے اپنے رواج کے موافق دیتا ہے اور پڑھنے والے اس لا لچ میں جاتے ہیں اگر کچھ نہ دیا گیاتو نا خوش ہوتے ہیں اور اگر پہلے سے معلوم ہو جائے کہ کچھ نہیں ملے گا تو عذر کر دیتے ہیں اور بعض قاری ایک دن میں کئی کئی جگہ جاتے ہیں پھر آپس میں مقابلہ اور مفاخرہ کرتے ہیں کہ ہم نے اتنا کمایا گویاایک پیشہ کمائی کا بنا رکھا ہے اسکی ہر گز اجازت نہیں ‘‘۔ (فتاوی محمودیہ ۱۶ / ۳۰) 
حضرت مفتی نظام الدین ؒ فر ماتے ہیں ’’اس طرح روپیہ لیکر ختم قرآن یا کوئی اور ختم کرنا اجرت لیکریہ اجارہ علی الطاعات میں داخل ہوجائیگا اور اس پر کوئی ثواب نہ ملے گا پھر ایصال ثواب کس چیز کا کریں گے ایصال تو ثواب کا ہو تا ہے (اوریہاں تو نیت خراب ہو نے کی وجہ سے خود پڑھنے والے کو ثواب نہیں ملا)(نظام الفتاویٰ جلد ۶ جز۲/۱۵۰)
اب آئیے اور حضرت مولانا پالن حقانی کی زبانی مروجہ فاتحہ خوانی کا جائزہ لیجیے فر ماتے ہیں ’’ایک مولوی صاحب تھے وہ فاتحہ پڑھنے کا پیسہ لیتے تھے تین قسم کا فاتحہ پڑھتے تھے سوا روپئے والا،سوا پانچ روپیہ والا، سوا دس روپیہ والایہ بات ہمارے بپچپن کی ہے ان فاتحہ پڑھنے والوں کو ہم نے دیکھا ہے سوا روپیہ والا فاتحہ میں ایک سورہ فاتحہ اور تین (مرتبہ)سورہ اخلاص پڑھتے تھے اور سوا پانچ روپیے والے فاتحہ میں سورہ فاتحہ اور الم تر کیف سے لیکر سورہ ناس تک پڑھتے تھے،سوادس روپیے والے فاتحہ میں سورہ فاتحہ کے بعدسورہ یسٓن یا سورہ تبارک بڑی بڑی سورہ پڑھتے تھے‘‘(تقاریر حقانی۲/۲۵۰)
دیکھا آپنے فاتحہ کرنے کا طریقہ ؟اس صورت میں کس طرح میت کو ثواب ملے گا؟جبکہ نصوص شرعیہ اور عبارات فقہا ء متفقہ فیصلہ کررہی ہے کہ اس طرح قرآن پڑھنا اور پڑھوانا دونوں حرام وناجائز ہے
فتاویٰ عبد الحی میں ہے’’تسبیح وتہلیل وتلاوت قرآن اور زیارۃ قبور وغیرہ پراجرت لینا اور دینا دونوں صحیح نہیں‘‘پھراس کے بعد حضرت نے تائید میں فتاویٰ حامدیہ اور فتاویٰ ولوالجیہ کی صریح عبارت کو نقل کیا ہے(فتاویٰ عبد الحی کامل مبوب/۴۸۲)
حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب لاجپوری ؒ فرماتے ہیں’’یہ تو نفس قرآن خوانی کا حکم ہے جس کے ساتھ خلاف سنت اہتمام ،اور دعوتی التزام برادری رسم ورواج کی پابندی اور بد نامی کا ڈروغیرہ خرابیاں شامل نہ ہوں ورنہ یہ رسمی قرآن خوانی ثواب کے بدلہ عذاب کا سبب بن سکتی ہیں جب لوجہ اللہ نہ ہونے کی وجہ سے خود ہی مستحقِ ثواب نہیں بنتاتو میت کو کیا بخش دیگا؟ ‘‘(فتویٰ رحیمیہ۱/۳۹۱)
نیز فتویٰ دارالعلوم میں ہے’’اجرت معروفہ یامشروطہ پر جوقرآن کریم میت کے لئے پڑھواتے ہیں اس میں محققین نے لکھا ہے کہ ثواب نہیں پہونچتا کیو نکہ جب پڑھنے والے کو ثواب نہ ہوا بوجہ نیت اجر عوض کے تو میت کو کہاں سے پہونچے گا البتہ کوئی شخص للّٰہ قرآن شریف پڑھکر میت کو پہو نچادے تو ان شاء اللہ تعالی اس کا ثواب میت کو ملے گا،خو۱ہ مکان پر پڑھ کر ثواب پہونچایاجائے یاقبر پر‘‘(فتویٰ دارالعلوم۵/۳۵ ۴)
اور یہاں یہ بات بھی نہیں ہے کہ یہ صرف علماء دیوبند ہی کا موقف ہو بلکہ تمام محدثین وفقہاء اس با ت پر متفق ہیں کہ اس طرح قرآن پڑھنا اورپڑھوانا حرام ہے ۔
آئیے مولانا احمد رضاخاں صاحب بریلوی کا فتویٰ مروجہ قرآن خوانی کے سلسہ میں کیا ہے اس کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔
ایک استفتاء کے جواب میں فرماتے ہیں’’جب کہ ان میں معہود ومعروف یہی لینا دینا ہے تو یہ اجرت پرپڑھنا اور پڑھوانا ہوافانّ المعروف عرفاََ کا المشروط لفظاََ اور تلاوت قرآن اور ذکر الہی پر اجرت لینا اور دینا دونوں حرام ہے لینے والے اور دینے والے دونوں گنہگار ہو تے ہیں کما حققہ فی رد المحتاروشفاع العلیل وغیرھما اور جب فعل حرام کے مرتکب ہیں تو ثواب کس چیز کا اموات کو بھیجے گا؟۔۔۔(فتای رضویہ ۹/۱۶۸)
ان تمام عبارتوں سے معلوم ہوا کہ قرآن پڑھ کر اجرت لیناچاہے روپیے کی شکل میں ہو یاکھانے کی شکل میں یا کپڑے وغیرہ کی شکل میں یہ حرام و ناجائز ہے اور اس طرح قرآن پڑھنے والے کو خود ثواب نہیں ملتا ہے تو میت کو کیسے ملے گا ؟بلکہ اس طرح قرآن پڑھنے اورپڑھانے والے دونوں گنہگار ہو تے ہیں اس لئے اس عمل قبیح سے بچنا بہت ضروری ہے کہ آج عوام جس عمل کو ثواب سمجھ کر کررہی ہے حقیقت میں وہ عمل ذریعہ عذاب ہے، اگر لوجہ اللہ قرآن پڑھنے والا نہ ملے توخود جتنا ہو اتنا پڑھ کر میت کو ثواب پہنچادے ۔
اس سلسلے میں ایک سوال عموما کیا جاتاہے کہ اگر قرآن پڑھنے والے نے نہ تو اجرت کا مطالبہ کیا اور نہ پڑھانے والے نے کوئی تذکرہ کیا بلکہ خود اپنی جانب سے کچھ پڑھنے والے کو دیدے یا کچھ کھلا دے تو کیا یہ صورت جائز ہے ؟
یہ صورت بھی بالکل حرام وناجائز ہے اگر چہ پڑھنے سے قبل یا بعد میں کوئی لینے دینے کا تذکرہ نہ ہوا پھر بھی لینا دینا جائز نہیں اور اگرکچھ لے لیا یا کچھ کھا لیا تو اب بجا ے ثواب کے عذاب ہو گا کیونکہ عرف میں لینا دینا یا کچھ کھانا بالکل عام ہو چکا ہے پڑھنے والا بھی سمجھ تا ہے کہ کچھ ملے گا اور پڑھا نے والا بھی سمجھ تا ہے کہ کچھ دینا پڑیگا اور فقہ کا مشہور قاعدہ ہے’’ المعروف کاالمشروط‘‘اس لئے اگر چہ کوئی تذکرہ نہ ہو پھر بھی عرف عام کی وجہ سے اجرت کا حکم لگے گا اور اس کا لینا یا کھانا جائز نہیں ہو گا ۔ چنانچہ حضرت مفتی اعظم محمود حسن گنگو ہی ؒ سے دریافت کیا گیا کہ اگر صاحب خانہ اخلاقاچائے وغیرہ پیش کریں تو اس کا پینا اورقرآن پڑھنا کیسا ہے ؟
آپ ؒ جوا ب دیتے ہیں (اس طرح ) اختتام پر چائے وغیرہ پیش کرنا صورتامعاوضہ ہے اس سے بچنا چاہیے(فتوی محمودیہ جزدوم)
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ فرماتے ہیں ’’اگر عرف میں یہ بات طے پا چکی کہ قرآن پڑھنے والے کو ضرور کچھ دیتے ہوں تو اگر پہلے سے باہمی اجرت پڑھنے قرآن مجید طے نہ ہوئی ہو تو بھی لینا جائز نہیں اور نہ ایسے پڑھنے کو ثواب میت کو پہنچتا ہے اوراگر دینا عرف کے اندر نہیں اور خالی نیت ہے لوجہ اللہ اس نے پڑھا پھر اگر لے لیوے تو کچھ حرج نہیں ‘‘(فتویٰ رشیدیہ کامل/۲۶۸)
اللہ تعالیٰ امت سے ان تمام جہالت کو دور کرکے تمام مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا کرے ۔ آمین 

اسی سے ملتے ہوئے اہم مضمون 

ملک بھارت کے سلگتے مسائل

Friday, November 11, 2016

معاملات کی ادائیگی

شریعت وسنت کی نشر واشاعت کے لئے کوشاں میں مفتی مد کعبد اللہ عزرائیل قاسمی مدہوبنی