﷽
آفتاب نبوت
ازقلم: مفتی
محمد عبد اللہ عزرائیل قاسمی، جامعہ اسلامیہ بر موتر مرزاپور مدہوبنی بہار
تاریخ ولادت:
آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالے سے مؤرخین اور سیرت نگاروں کی آراء مختلف ہیں، مشہور یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول
کو پیدائش ہوئی، البتہ محققین علماءِ کرام کے دو قول ہیں، 8 ربیع الاول یا 9 ربیع الاول،
بعض نے ایک کو ترجیح دی ہے، بعض نے دوسرے کو۔ راجح قول کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کی پیدائش 8 ربیع الاول بمطابق 20 یا 22 اپریل 571 عیسوی کو ہوئی، (اپریل
کی تاریخ کا اختلاف عیسوی تقویم کے اختلاف کا نتیجہ ہے)۔(فتاویٰ بنوری، نیٹ )
علامہ شبلی
نعمانیؒ نے’ سیرت النبی‘ میں مصر کے مشہور ہیئت دان محمود پاشا فلکی کی تحقیقات کے
پیش نظر 9 ربیع الاول 20 اپریل 571 ء کو ترجیح دی ہے ۔ قاضی محمد سلیمان منصور پوری
ؒ نے اپنی کتاب رحمت للعالمین 40:1 میں آپؐ کی پیدائش 9 ربیع الاول ، عام الفیل /
22 اپریل 571 ء / یکم جیٹھ 628 بکرمی قرار دی ہے ۔ جبکہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ حیدر آبادی ؒکی تحقیق کے مطابق عیسوی تاریخ 17
جون 569 ء تھی۔
نسب
نامہ:
مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ بْنِ هَاشِمِ بْنِ
عَبْدِ مَنَافِ بْنِ قُصَيِّ بْنِ كِلاَبِ بْنِ مُرَّةَ بْنِ كَعبِ بْنِ لؤَيِّ
بْنِ غالِبِ بْنِ فِهْرِ بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّضْرِ بْنِ كِنَانَةَ بْنِ
خُزَيْمَةَ بْنِ مُدْرِكَةَ بْنِ إِلْيَاسَ بْنِ مُضَرَ بْنِ نِزَارِ بْنِ مَعَدِّ
بْنِ عَدْنَانَ، ( بخاری ، کتاب مناقب الانصار، باب مبعث النبی ﷺ،)
پیدائش
کی ابتدائی احوال:
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ علیہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے سلسلے میں کرامات بے شمار ہیں جن میں سے چند ایک
یہ ہیں کہ ایوان کسریٰ لرز اٹھا اور اس کے چودہ کنگرے گر گئے اور دریائے سادہ خشک ہو
گیا اور اس کا پانی زیر زمین چلا گیا اور رود خانہ سادہ جسے وادی سادہ کہتے ہیں جاری
ہو گیا حالانکہ اس سے قبل اسے منقتع ہوئے ایک ہزار سال گزر چکا تھا اور فارسیوں کا
آتشگدہ بجھ گیا جو کہ ایک ہزار سال سے گرم تھا۔(مدارج النبوۃ ج: ۲ ص ۲۷)
حلیہ
مبارک:
آپ ﷺپر کشش رنگت،دلنشیں آنکھیں،خوبصورت آبرو،چمکدار دندان
مبارک،خوبصورت ستواں ناک،حسین رخسار اور پر نور پیشانی والے تھے، آپ ﷺ کی حلیہ
مبارک کو مختلف صحابہ کرام نےبیان کیا ہے ،حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے ایک
تفصیلی روایت ہند بن ابی ہالہ سےکیا ہے، جس کو امام ترمذیؒ نے شمائل ترمذی میں نقل
ہے :
حسن بن علی
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے (آپ ﷺ کے حلیہ
مبارک کے متعلق دریافت کیا (کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کو بڑی کثرت اور وضاحت سے بیان کیا کرتے تھے، اور
میں چاہتا تھا کہ وہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے اوصاف بتا دیں جن کو میں اپنے دل میں بٹھا لوں، تو وہ
کہنے لگے کہ: ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت عظیم اور باوقار شخصیت کے مالک تھے، چودھویں رات کے چاند
کی طرح آپ کا چہرہ مبارک چمکتا تھا، قد مبارک عام درمیانے قد سے کچھ لمبا اور بہت
لمبے قد سے تھوڑا کم تھا، سر مبارک (اعتدال کے ساتھ) بڑا تھا،
بال مبارک کچھ گھنگھریالے تھے، پیشانی کے بال اگر کھل جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی مانگ نکال لیتے ورنہ آپ کے بال جب وفرہ ہوتے تو کانوں کی
لو سے زیادہ لمبے نہ ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چمکدار روشن رنگ والے کے تھے، پیشانی وسیع اور کشادہ تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لمبی، باریک خمدار پلکوں والے تھے جو پوری اور کامل تھیں، ان کے
کنارے آپس میں ملے ہوئے نہیں تھے، ان کے درمیان ایک رگ جو غصے کے وقت خون سے بھر
کر اوپر ابھر آتی تھی، یہ درمیان سے محدب تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ناک کا بانسہ باریک اور لمبا اس کے اوپر اونچا نور دکھائی
دیتا، جس نے غور سے نہ دیکھا ہوتا وہ خیال کرتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناک مبارک درمیان سے اونچی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھنی داڑھی والے اور کشادہ و ہموار رخساروں والے تھے، دانت
مبارک کھلے اور کشادہ تھے، سینے کے بال ناف تک باریک لکیر کی طرح تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک صاف چاندی کی طرح خوبصورت منقش مورتی کی گردن
جیسی تھی، درمیانی اور معتدل خلقت والے تھے، مضبوط اور متوازن جسم والے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ اور پیٹ برابر اور ہموار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک کشادہ تھا، دونوں کندھوں کے درمیان کچھ دوری اور
فرق تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہڈیوں کے جوڑ موٹے اور گوشت سے پر تھے، جسم کا وہ حصہ جو
کپڑے سے یا بالوں سے ننگا ہوتا وہ روشن اور چمکدار تھا سینے کے اوپر ناف تک ایک
لکیر کی طرح بال ملے ہوئے تھے، چھاتی اور پیٹ بالوں سے خالی تھے، دونوں بازوؤں،
کندھوں اور سینہ کے بالائی حصہ پر بال تھے، کلائیوں اور پنڈلیوں کی ہڈیان لمبی
تھیں اور ہتھیلیاں کشادہ تھیں، ہاتھ اور پاؤں کی ہڈیاں موٹی اور مضبوط تھیں،
انگلیاں لمبی اور پاؤں کے تلوے قدرے گہرے تھے، قدم ہموار اور اتنے نرم و نازک کہ
ان پر پانی نہ ٹھہرتا تھا، چلتے تو قوت کے ساتھ آگے کی جانب جھک کر چلتے، بڑے سکون
اور وقار کے ساتھ تیز تیز چلتے، چلتے ہوئے معلوم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلندی سے نشیب کی طرف اتر رہے ہیں، اور جس کسی کی طرف متوجہ
ہوتے تو یکبارگی متوجہ ہوتے، نظر جھکا کر چلتے۔(شمائل ترمذی)
حضرت حسان بن ثابت رضی ﷲ تعالیٰ
عنہ کَہتے ہیں:
"واحسن منک لم ترقط عینی
واجمل منک لم تلد
النساء"
یعنی آپ سے زیادہ حسین آج تک
میری آنکھوں نے دیکھا ہی نہیں، اور آپ سے زیادہ جمال والا آج تک کسی ماں نے جنم ہی نہیں دیا-
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجه المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
آپ کا
اخلاق عظیمہ:
آپﷺ کے اخلاق کریمانہ کی مثال پیش کرنا یا اس کو الفاظ کی
لڑی میں پڑونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، ایک مرتبہ حضرت
ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے لوگوں نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کا اخلاق کریمانہ کیا تھا ؟ حضرت صدیقہ رضی رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ:
کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ (مسند احمد،ح:25108 )
کہ ’’آپ کا خلق قرآن تھا‘‘
یعنی حق تعالیٰ نےقرآن میں جس چیز کی اچھا
ئی ذکر فرمایا ہے اس چیز کوآپ کی طبیعت چاہتی تھی اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے
قرآن شریف میں برائی سے یاد کیا ہے اس سے آپ کی طبیعت کو نفرت تھی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
قَالَ رَسُولُ اللهِ
صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ
مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ "(سنن کبریٰ
ح: 20782۔)
یعنی ’’میں اس واسطے مبعوث
ہوا ہوں کہ پہلے تمام انبیاء و رسل کی
بزرگی اور اچھائیوں کو پورا کروں۔‘‘
آپ ﷺ
اخلاق کے آخری درجہ پر فائز تھے، اس سےآگے
کوئی منزل ہی نہیں تھی ، اور نہ اس سے زیادہ کسی بشر کی طاقت تھی ۔
اللہ
تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ ، (القلم ، )
’’اور بے
شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں،،۔
آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے تمام اخلاق درجہ انتہاء کو پہونچی ہوئی تھی ، خواہ وہ خلق صدق ہو،
خلق صبر ہو، خلق حیاء ہو، خلق احسان ہو، خلق احصان ہو (پاک دامنی) خلق امانت داری ہو
خلق دیانت داری ہو۔ خلق وفائے عہد ہو، خلق شکر ہو خلق عفو ہو، خلق عدل و انصاف ہو،
خلق تواضع و انکساری ہو، خلق حلم و بردباری ہو، خلق رحم و مہربانی ہو، خلق سخاوت و
جودو کرم ہو، خلق شجاعت و بہادری ہو، خلق ایثار و بے نفسی ہو، خلق حق گوئی اور صاف
گوئی ہو، خلق اعتدال و توازن ہو اور خلق رفق ونرمی ہو،ان کے علاوہ اور بھی جوحسن
اخلاق ہیں یا ہو سکتے ہیں وہ آپ ﷺ کی زندگی مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھیں ۔
رحلت :
بعض
حضرات کا کہنا ہے کہ آپ ﷺ کی وفات بھی بارہ ربیع
الاول کوہوئی ہے ، لیکن بارہ ۱۲/ربیع الاول کو تاریخِ وفات کہناصحیح نہیں ہے؛ اس لیے کہ صحیح بخاری
میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پیرکے دن ہوئی،
اور صحیح بخاری ہی کی روایت میں منقول ہے کہ حجة الوداع کے موقع پر عرفہ کا دن
جمعہ کا دن تھا، اور ایک روایت سے معلوم ہوتاہے کہ عرفہ کے اکیاسی(۸۱)دن کے بعد آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔اس حساب سے ۱۲/ربیع الاول کو پیرکادن
کسی طرح نہیں پڑتاہے،اسی وجہ سے علامہ ابن حجرعسقلانی کی رائے ہےکہ آپ کی
وفات دو(۲)ربیع الاول بروزپیر
کو ہوئی۔
علامہ سہیلی نے روض الانف
میں، علامہ تقی الدین ابن تیمیہ نے منہاج السنة میں، علامہ شبلی نعمانی سیرت النبی میں یکم/ربیع
الاول لکھا ہے۔ اور علامہ مغلطائی، علامہ ابن حجرعسقلانی نے فتح الباری میں، شیخ محمدبن عمر بحرقی حضرمی شافعینے حدائق الانوارمیں،
حضرت مفتی محمد شفیع نے سیرت خاتم
الانبیاء میں لکھاہے۔ تاریخ وفات میں مشہور یہ ہے کہ ۱۲/ربیع الاول کو واقع ہوئی اور
یہی جمہور مورخین لکھتے چلے آئے ہیں؛لیکن حساب کے اعتبار سے یہ تاریخ وفات نہیں
ہوسکتی ہے؛ کیوں کہ یہ بھی متفق علیہ اور یقینی امر ہے کہ وفات دوشنبہ کو ہوئی اور
یہ بھی یقینی ہے کہ آپ کا حج۹/ ذی الحجہ روزجمعہ کو ہواان دونوں باتوں کے ملانے سے ۱۲/ربیع
الاول روز دوشنبہ میں نہیں پڑتی؛ اسی لیے حافظ ابن حجرنے شرح صحیح بخاری میں طویل بحث کے بعد اس کو صحیح قرار دیاہے کہ
تاریخ وفات دوسری ربیع الاوّل ہے، کتابت کی غلطی سے ۲ کا ۱۲ بن گیا۔ حافظ
مغلطائینے بھی دوسری تاریخ کو ترجیح دی ہے۔
خلاصہ کلام ہےکہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کا وصال دوم/ربیع الاول۱۱ ہجری مطابق ۲۸/مئی ۶۳۲ء کو ہوا۔واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب․
اس احساس اور حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے قلم کو
روک رہا ہوں :
زندگیاں بیت
گئیں اور قلم ٹوٹ گئے
تیرے اوصاف
کا ایک باب بھی پورا نہ ہوا
mdabdullahqasmi@gmail.com